Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1926 articles
Browse latest View live

حلوے کا سرا نہ تلاش کیجیے

$
0
0


آپ بحث کیے جا رہے ہیں۔ عقل اور منطق کی بنیاد پر دلائل دے رہے ہیں۔ کرپشن کے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا شخص زور اس بات پر دے رہا ہے کہ یہ حکمران ولی اللہ تھا کیوں کہ اس کے لیے سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولا تھا۔ آپ مزید دلائل دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس کس طرح قانون کو پامال کیا گیا۔ جوابی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا غریب عوام کی خاطر کیا، جو بات آپ بھول رہے ہیں یہ ہے کہ جس سے بحث کر رہے ہیں۔ اس کے دوبھائیوں کو اس حکمران نے اعلیٰ مناصب دیئے، بیٹی کو ایم این اے بنایا۔ پوتے کو ایف آئی اے میں بھرتی کیا۔ آپ زمین و آسمان کے اعداد و شمار لے آئیں، دوسری طرف مسئلہ ذاتی وفاداری کا ہے۔ احسان کا ہے! چنانچہ پہلا سبق آپ یہ یاد کیجیے کہ کسی 
Beneficiary
سے یعنی کسی ایسے شخص سے جس نے مفادات حاصل کیے ہیں، بحث نہیں کرنی چاہیے۔ 

جسے فیکٹری بنانے کے لیے قرض دیا گیا اور پھر قرض معاف کر دیا گیا، جسے پلاٹ ملے، جسے ملازمتیں ملیں، یا جسے کسی محکمے میں اس لیے رکھا گیا کہ اصل کام قصیدہ خوانی یا دفاع ہے، یا جسے راتب مل رہا ہے، اس سے بحث کرنا بے وقوفی ہے۔جس کسی کو بھی کسی شخص یا جماعت یا گروہ یا پارٹی کی وجہ سے کوئی منصب ملا ہے یا کسی ادارے کی رکنیت نصیب ہوئی ہے اس کے لیے تو وہ شخص فرشتہ ہے اور وہ گروہ مقدس گروہ ہے۔ اس کی ہزارہا تحریریں چھان ماریے، کہیں غلطیوں کی نشان دہی نہیں ملے گی۔ صرف توصیف ملے گی اور تعریف میں حد درجہ مبالغہ آرائی۔ اس کی رگوں میں محض تشکر ہے اور احسان مندی! سو، آپ نے صرف اتنا کہنا ہے بھائی معاف کیجیے۔ میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ 

دوسرے دن آپ ایسے شخص سے بحث کر رہے ہیں جو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ فلاں سیاست دان، فلاں عالم، فلاں پیر، فلاں دانشور غلطی کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کو شخصیت پرست کہتے ہیں۔ یعنی
 Hero-woriship
کرنے والا۔ آپ کی دلیل عقل کی بنیاد پر ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ فلاں بات ان صاحب نے درست کہی ہے مگر فلاں جگہ وہ غلطی کر گئے ہیں۔ دوسری طرف سے کہا جاتا ہے غلطی وہ کر ہی نہیں سکتے۔ غلطی آپ کے سمجھنے میں ہوئی ہے۔ سو، دوسرا سبق یہ یاد رکھیے کہ شخصیت پرستی میں مبتلا کسی شخص سے بحث کرنا سراسر احمقانہ فعل ہے۔ 

اسی لیے عقل مند لوگ کسی مذہبی گروہ میں شمولیت نہیں اختیار کرتے کیونکہ پھر وہ ہر اقدام کا دفاع کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مولانا مودودی، سید قطب، جاوید غامدی، فلاں مولانا، فلاں پیر صاحب، فلاں امام، غلطی کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے ہر قول کا، ہر فعل کا دفاع کرنا ان پر لازم ہے۔ شخصیت پرستی یا ’’شخصیت دشمنی‘‘ کی بہترین مثال ہمارے ہاں سرسید احمد خان ہیں، اس اعتبار سے وہ مظلوم ترین بھی ہیں۔ ایک طبقہ انہیں شیطان کا پیروکار قرار دیتا ہے۔ دوسرا طبقہ اُن پر اس انداز میں فدا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد کی بھی غیر مشروط تائید کرتا ہے۔ درمیان راستہ اوجھل ہو گیا ہے۔ بہت کم ایسے متوازن اہلِ علم ملیں گے جو سرسید احمد خان کے خلوص اور ایثار کی تعریف کریں گے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے جدید علوم سیکھنے کے لیے مسلمانوں کو آمادہ کیا۔ گستاخِ رسولؐ کی کتاب کا جواب لکھنے کے لیے گھر کا سامان تک بیچ دیا اور لندن گئے۔ مگر دوسری طرف قرآن کی تفسیر لکھی تو ٹھوکریں بھی کھائیں۔ ضروری نہیں کہ ان سے یہاں بھی اتفاق کیا جائے۔ 

یہیں سےنکتہ پھوٹتا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کی سوچ کا محور شخصیات ہیں دوسرے وہ جو صرف نظریات پر توجہ دیتے ہیں۔ کم ہی ایسے حضرات نظر آئیں گے جنہوں نے نواز شریف کے کچھ اقدامات کو سراہا ہو اور کچھ پر کڑی تنقید بھی کی ہو، جنہوں نے عمران خان کی تعریف بھی کی ہو، اور ان پر تنقید بھی کی ہو۔ یہ وہ لکھاری یا دانش ور ہیں جن کے نزدیک اہمیت نظریات کی ہے۔ شخصیات کی نہیں! 

جو شخص ذہنی طور پر اس قدر اندھا مقلد ہو کہ لباس اور سر کی ٹوپی یا دستار میں بھی اپنے ممدوح کی تقلید کرتا ہو، اس سے آپ بحث کریں گے تو آپ جیسا گائودی دنیا بھر میں مشکل سے ملے گا۔ اپنا دماغ جلائیں گے وقت ضائع کریں گے، تلخی بڑھے گی۔ تعلقات کشیدہ ہوں گے۔ 

وہ جو اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎ 

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں 

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں 

تو یہ مذہبی بحث کے ساتھ ساتھ دوسری بحثوں پر بھی صادق آتا ہے۔ اُس کتابِ ہدایت میں، جسے ہم نے غلاف میں لپیٹ کر طاق پر رکھا ہوا ہے، دوسنہری فارمولے بتائے گئے ہیں جو ان افراد سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں جن کے منہ سے بحث کرتے وقت جھاگ نکلتی ہے۔ گلے کی رگیں سرخ ہو جاتی ہیں، مٹھیاں بھینچ لیتے ہیں، آواز ناروا حد تک بلند کر لیتے ہیں اور مکالمے کو مجادلے میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں نسخے ایک ہی سورہ، سورہ فرقان میں بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے یہ ہدایت کی گئی کہ

’’جب جاہل لوگ اُن کے منہ آتے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں اچھا صاحب! سلام!‘‘ 

یعنی معاف کیجیے۔ میں اس معاملے میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر اس فارمولے پر عمل پیرا ہوا جائے تو زندگی کی مکروہ صورت تبدیل ہو سکتی ہے۔ خاندانوں میں پڑنے والی دراڑیں، دوستوں میں آنے والے بال، دور ہو سکتے ہیں۔ 

زندگی کے روز و شب میں آپ سے ملنے جلنے والے، آپ کے اعزہ اور اقارب سب عقلیت پسند ہوتے ہیں نہ فلسفی نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر آپ آئے دن دیکھتے ہیں کہ اچھے خاصے معقول حضرات دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب اپنی گاڑی جس مکینک کے پاس لے کر جایا کرتے تھے۔ اس سے سیاسی بحث کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ اب میلوں دور، ایک اور ورکشاپ میں جاتے ہیں۔ ایک بھلے مانس ایک قریبی عزیز سے اس لیے الجھ پڑے کہ فلاں مسجد میں نماز پڑھتے ہو، فلاں میں کیوں نہیں جاتے۔ تلخ کلامی اس حد تک بڑھی کہ تعلقات میں شگاف پیدا ہو گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، کیا غلطی اُس بے وقوف کی تھی جس نے بحث کا آغاز کیا؟ نہیں! دوسرے صاحب زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ قصور ان کا ہے۔ انہیں چاہیے تھا خاموش رہتے، یا اتنا کہہ دیتے، پھر کبھی بات کریں گے۔ اگر یہ کہہ دیتے کہ آپ کی مسجد میں بھی نماز پڑھ لیں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔ تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ جو بھی یہ اعتراض کرتا ہے کہ فلاں مسجد میں کیوں جاتے ہو، وہ یقینا جاہل ہے اور جاہلوں کے متعلق ہدایت یہ ہے کہ منہ پڑیں تو بحث نہ کیجیے، بس سلامتی بھیج کر ایک طرف ہو جائیے۔ 

دوسرا فارمولا بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے! 

’’اور جب ’’لغو‘‘ کے پاس سے گزر ہوتا ہے تو بس سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔ 

’’لغو‘‘ کا لفظ وسیع و عریض مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں وہ کام بھی شامل ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ گفتگو بھی شامل ہے جس کا مقصد دوسروں کی دل آزاری ہے۔ کوئی آپ کی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں نازیبا کلمات کہتا ہے تو اسے لغو سمجھ کر، متانت اور خاموشی کے ساتھ وہ جگہ چھوڑ دیجیے۔ آگے گزر جائیے۔ 

غیبت کا شمار بھی لغویات ہی میں ہونا چاہیے۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر برداشت کیجیے، اگر غیبت کا سلسلہ طویل ہو جائے اور اس میں شرکا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں تو وہاں سے اُٹھ آئیے۔ 

اکبر الٰہ آبادی ہی نے کہا تھا ؎ 

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں 
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں 

اب بحث کا سلسلہ فلسفیوں سے گزر کر جہلا کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ظفر اقبال نے جبھی تو رونا رویا تھا ؎ 

جزیرۂ جہلا میں گھرا ہوا ہوں ظفرؔ 
نکل کے جائوں کہاں چار سُو سمندر ہے 

ہمارے علاقے میں فضول بحث کرنے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حلوے کا سرا تلاش کر رہا ہے، بھلا حلوے کا سرا بھی کہیں ہاتھ آتاہے؟







Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net


ایک دن اس کا جہاز آ جائے گا

$
0
0

شہروں میں شہر ہے اور بہشتوں میں بہشت! 

افسوس! شاہ عباس صفوی کو اس شہر کا پتہ نہ تھا ورنہ تبریز کو چھوڑا تو اصفہان کے بجائے یہاں کا رخ کرتا۔ تیمور اسے دیکھتا تو سمرقند کا درجہ دیتا۔ بابر کا گزر ہوتا تو کابل کو یاد کرکے آنسو نہ بہاتا۔ شاہ جہان اسی کو آگرہ بنا لیتا۔ 

بادشاہ نے بخارا سے دور پڑائو ڈالا۔ واپسی کا نام نہیں لے رہا تھا۔ رودکی نے بخارا کو یاد کرایا تو چل پڑا ؎ 

بوئی جوئی مولیاں آید ہمی 

یاد یار مہرباں آید ہمی

شاہ مہ است و بخارا آسماں

ماہ سوئی آسماں آید ہمی

شاہ سرو است و بخارا بوستاں 

سرو سوئی بوستاں آید ہمی

مولیاں ندی کی مہک آ رہی ہے جیسے یار مہرباں کی یاد 

بادشاہ چاند ہے اور بخارا آسماں چاند آسماں کی طرف چل پڑا ہے۔ 

بادشاہ سروہے اور بخارا باغ سرو باغ کی طرف چلا آ رہا ہے 

رودکی ایبٹ آباد کی ہوا کے جھونکے چکھتا تو بخارا کی یاد میں آنسو نہ بہاتا۔ تعجب تو ہندوستان کے وائسرائے جان لارنس پر ہے جس نے 1863ء میں شملہ کو موسم گرما کا دارالحکومت قرار دیا اور نظر ایبٹ آباد پر نہ پڑی۔ دس سال پہلے میجر ایبٹ، ایبٹ آباد شہر کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ کہاں شملہ اور کہاں ایبٹ آباد۔ ایبٹ آباد تو شمالی علاقہ جات کا دروازہ ہے۔ تاہم ایبٹ آباد کی قسمت اچھی تھی۔ انگریزوں کی نظر اس پر اس اعتبار سے نہ پڑی ورنہ شملہ کا تو وہ حشر ہوا جو شام کا فرنگیوں نے کیا تھا۔ بقول اقبال ؎ 

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا 

متاع عفت و غم خواری و کم آزاری 

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے 

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری 

شملہ راجدھانی بنا تو برطانیہ سے آئی ہوئی زنان بازاری نے اس پر ہلہ بول دیا۔ شوہروں کی تلاش میں جوان میموں کی بھی لائن لگ گئی۔ جوئے، شراب اور حرام کاری کے طوفان نے شملہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

شہروں میں ایبٹ آباد شہر ہے اور بہشتوں میں بہشت۔ کیا اس کی خنک ہوا ہے۔ منوچہری دامغانی یاد آ گیا۔ خوارزم کی طرف سے چلنے والی ہوا پر پکار اٹھا ع 

باد خنک از جانب خوارزم وزان است 

اس کالم نگار نے خوارزم بھی دیکھا ہے۔ اس کی بغل میں رواں جیحوں (آمو) دریا کے کنارے کنارے بھی چلا ہے اور خوارزم کی ہوائوں سے بھی لطف اٹھایا ہے مگر اس پروردگار کی سوگند، جس نے اس ناشکر گزار قوم کوشمالی علاقوں کی نعمت عطا کی ہے، خوارزم کی ہوا ایبٹ آباد کی خنک، دل آویز اور روح کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہوا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ 

شہروں میں ایبٹ آباد شہر ہے۔ اور بہشتوں میں بہشت - شہر کے اندر داخل ہونے سے بہت پہلے شاہراہ قراقرم کی خوشبو ہوا میں اپنا نشان بتاتی ہے۔ خوبصورت پہاڑیوں نے شہر کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ جیسے چاند کے گرد ہالہ۔ پرانے ایبٹ آباد کی گلیوں میں ایک سو پینسٹھ برس پرانی مہلک اس زمانے کی یاد دلاتی ہے جب شتر اور اسپ سامان سے لدے یہاں آتے تھے اور یہاں سے جاتے تھے۔ مانسہرہ روڈ پر جوں جوں آگے بڑھیں، ایک دلربا حسن مسافر کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے جس کا سحر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

بٹراسی، شنکیاری، ڈاڈر۔ ایک سے ایک بڑھ کر۔ بہتے ہوئے جھرنے ہیں۔ پتھروں سے سر ٹکراتی، گنگناتی، مست ندیاں ہیں۔ پہاڑوں پر چنار کے درخت ہیں۔ ڈھورڈنگر چراتے چاند جیسے چرواہے ہیں۔ آسمان ہے جو نیلگوں سمندر کا ٹکڑا لگتا ہے۔ زمین ہے جو چاندی کا تھال نظر آتی ہے۔ وہ اشعار یاد آ گئے جو ایک چاندنی رات میں، تاشقند، برف پہنے درختوں کے درمیان چہل قدمی کرتے کہے تھے ؎ 

شبیں تھیں اطلس کی، دن تھے سونے کے تار جیسے

بہشت اترا ہوا تھا جیحوں کے پار جیسے 

گلاب سے آگ، آگ سے پیاس بجھ رہی تھی 

زمیں وہاں کی فلک، فلک تھے ہزار جیسے 

رات کو چاند نکلا ہو تو ایبٹ آباد کی شاہراہوں پر گھوم کر دیکھو، پہاڑوں پر بنے اونچے مکانوں کی روشنیاں جھک جھک کر چاند کو سلام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چلتے جائو۔ انہی راستوں پر را کا پوشی اور کے ٹو کی شہزادیاں آسمان سے خراج حسن لیتی ملیں گی۔ یہیں سے وہ شاہراہ پھوٹتی ہے جو سیب اور خوبانی کے باغوں کو جاتی ہے۔ جہاں شہتوت اور شفتالو کے درختوں کے جھنڈ ہیں۔ جہاں تاکستان ہیں۔ جہاں پیڑوں کی ٹہنیاں بادام اور اخروٹ سے لدی ہیں۔ 

آہ! ہم تو اس نعمت سے فائدہ ہی نہ اٹھا سکے۔ ہم نے سیاحت کا محکمہ ہمیشہ سفارشی اور سیاسی مگرمچھوں کے مکروہ دہانوں میں ڈالا اور نقصان اٹھایا۔ ہم نے سیاحوں کے لیے سہولیات نہ مہیا کیں۔ انفراسٹرکچر صفر سے بھی نیچے ہے۔ مگر یہ مرثیہ خوانی پھر کبھی۔ اس وقت تو سامنے ایبٹ آباد ہے اور اس کی حیرت زدہ کرتی تاثیر۔ 

ایبٹ آباد میں شاعر، دانشور اور ماہر تعلیم واحد سراج ہے۔ ساری زندگی تعلیم اور طلبہ کی خدمت میں گزار دی۔ دونوں میاں بیوی، امریکہ سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے پڑھ کر، پڑھا کر اور تربیت لے کر اور دے کر، ایبٹ آباد میں ملک کا بہترین تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں۔ کتنے ہی نادار لائق طلبہ ان کی فیاضی سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ پھر اپنی عمارتوں کو اور بڑے بڑے ہال نما کمروں کو ادیبوں اور شاعروں کے اجتماعات کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ فضل تو خدا کا ہن کی طرح بہت سوں پر برستا ہے مگر اس فضل کو آگے بانٹنا کم ہی ثروت مندوں کے حصے میں آتا ہے۔ واحد سراج خوش بخت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی سرپرستی کر رہا ہے۔ 

ایبٹ آباد میں احمد حسن مجاہد ہے۔ شاعر اور دوستوں کا دوست۔ بالا کوٹ 2005ء کے زلزلے میں برباد ہوا تو اس کی تباہی پر اور اس کی بحالی کے لیے جمع ہونے والی امداد کے ساتھ ہونے والی بددیانتی پر پوری کتاب لکھی۔ اب ’’رموز شعر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو عروض اور شعری گرامر پر سند کا درجہ رکھتی ہے اور آنے والے تحقیقی حوالوں میں اس کا مذکور ہوگا۔

ایبٹ آباد میں ادیبوں اور شاعروں کی پوری کہکشاں ہے جس نے ہزارہ کے جغرافیائی حسن کو معنوی خوبصورتی سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ محمد حنیف، میجر امان اللہ، امتیاز احمد امتیاز، ڈاکٹر ضیاء الرشید، پرویز ساحر، نسیم عباسی، سفیان صفی، شعیب آفریدی اور عامر سہیل ان میں سے صرف چند ہیں۔ بزرگ شاعر سلطان سکون اب صاحب فراش ہیں اور ہمارا یار شاعر خوش بیان خالد خواجہ کبھی امریکہ میں ہے اور کبھی ایبٹ آباد کے مرغزار میں۔ 

اور ہاں! رستم نامی بھی تو اسی شہر کا مکین ہے۔ حادثے میں جوان بیٹا شہید ہوا اور خود ایک ٹانگ سے محروم۔ کیا شعر کہا ہے ظالم نے ؎ 

وہ بچھڑ جائے گا ہم سے ایک دن 

ایک دن اس کا جہاز آ جائے گا





Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

واپس آ جائو! تلہ گنگ والو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا

$
0
0

سامنے دریا تھا!

تھکے ہارے اکبر کو سستانے کے لیے تھوڑا سا وقت ملا۔

’’کون سی غذا ہے جو ایک نوالے میں مکمل ہو جاتی ہے؟‘‘

اس نے خانخاناں سے پوچھا۔

’’انڈا! جہاں پناہ!‘‘

خانخاناں نے جواب دیا۔

بس اتنا ہی وقت تھا۔ پھر گرد تھی اور گھوڑا۔ اور لشکر اور جنگیں! سال گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ عرصہ! سفر کی گردشیں بادشاہ کو ایک بار پھر اٹک لے آئیں۔ وہیں دریائے سندھ کے کنارے! خانخاناں ساتھ تھا۔ بادشاہ نے کسی تمہید‘ کسی یاددہانی ‘ کسی حوالے کے بغیر پوچھا۔

’’کس طرح؟‘‘

’’اُبال کر!جہاں پناہ!!‘‘

نہ جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں!مگر یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کابل آتے جاتے اکبر اٹک ٹھہرتا۔ پھر مقامی شورشوں کو دبانے کے لیے اور افغانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس نے یہاں قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹک کا قلعہ 1581ء میں بننا شروع ہوا۔ تقریباً تین برس لگے۔ راولپنڈی کی طرف سے جائیں تو قلعے سے پہلے‘ بائیں طرف‘ مُلاّ منصور کی بستی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد کا تعلق اس بستی سے ہے۔ نصیر صاحب عراق میں پڑھاتے رہے۔ پھر قائد اعظم یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہِ شعبہ رہے۔ ان کی آبائی زمینیں اٹک قلعہ میں آئیں۔ اب تاریخ اتنی تفصیل نہیں بتاتی کہ اُس وقت‘ زمین کے مالکوں کو زرِتلافی کس حساب سے ملتا تھا۔ آج کل تو اکثر لوگ خوار اور شاکی ہی دیکھے گئے ہیں!

مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا تو جنوبی ہند سے مرہٹے اُٹھے اور شمال پر چھا گئے۔ اٹک ہی کے مقام پر 1758ء میں مرہٹوں کی جنگ درانیوں سے ہوئی۔ فتح پا کر مرہٹوں نے اٹک خورد پر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔

1908ء میں اٹک خورد کے قریب انگریزوں نے نیا شہر بسایا اور جنرل کیمپ بیل
(Campbell)
کے نام پر شہر کا نام کیمپ بیل پور رکھا۔ یہ جرنیل1857ء کی جنگ آزادی کے دوران استعمار کی فوج کا کمانڈر ان چیف تھا۔ آزادی کے مجاہد تانتیا ٹوپے کو اسی نے شکست دی تھی۔

کیمپ بیل پور‘ امتدادِ زمانہ سے کیمبل پور ہو گیا۔ اس زمانے میں مقامی لوگ اسے کامل پور بھی کہتے تھے۔1978ء میں نام بدل کر اٹک رکھ دیا گیا۔ ضلع کیمبل پور(اٹک) 1904ء میں وجود میں آیا۔ اس کی چار تحصیلیں تھیں۔ جہلم کے ضلع سے تلہ گنگ تحصیل لی گئی اور راولپنڈی کے ضلع سے فتح جنگ‘ پنڈی گھیب اور اٹک کی تحصیلیں لے کر نیا ضلع بنایا گیا۔

1904ء سے لے کر 1985ء تک تلہ گنگ ضلع اٹک کا حصہ رہا۔ ثقافت، زبان اور کئی دیگر اعتبار سے یہ ضلع کے باقی علاقوں کے ساتھ پورا ہم آہنگ تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اٹک کے ضلع نے‘ جو مارشل (عسکری) ایریا کا دِل تھا‘ فوج میں بہترین جوان بھیجے۔ خطہ گیتوں سے چھلکنے لگا۔

ماہیا فتح جنگے دیا! تلہ گنگے دی بولی بول!

گیتوں میں ریل گاڑی سے بہت شکوے ہوئے کہ مائوں کے بچوں کو بٹھا کر دور دیسوں میں لے جاتی ہے!تلہ گنگ اور میانوالی کے درمیانی علاقے کو‘جو اٹک ضلع کا حصہ تھا‘ اعوان کاری کہتے ہیں۔ یہاں لوک کہانیاں محاورے‘بجھارتیں‘ دعائیں‘ گالیاں‘ لطیفے‘ طعنے‘ کوسنے‘ کھانے پینے کے رواج‘ لباس کی روایت‘ سب پنڈی گھیب اور فتح جنگ سے ملتی جلتی ہے۔ فتح جنگ اور تلہ گنگ‘ جغرافیائی فاصلے کے باوجود ہمیشہ جڑواں قصبے ہی سمجھے گئے۔ خواندگی کی شرح تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کی تحصیلوں میں ہمیشہ زیادہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین شروع ہی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ رہیں۔ ایک کثیر تعداد وہاں کی خواتین کی پنجاب کے کالجوں میں پڑھاتی رہی اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ تلہ گنگ کے علاقے میں حفاظ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ زیادہ رہے۔وہ بھی زمانہ تھا کہ خواتین‘ کنوئوں سے ڈول کھینچتے ہوئے اور پانی بھرتے ہوئے‘ قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتیں۔ روایت ہے کہ شہنشاہ اورنگزیب کا اس علاقے سے گزر ہوا تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک گائوں میں ہر مردوزن‘ بچہ بوڑھا قرآن پاک کا حافظ ہے۔ اس نے سب کوبلا کر امتحان لیا اور کامیاب پایا۔

موٹر وے بننے سے پہلے‘ اہل تلہ گنگ کا راستہ فتح جنگ ہی سے گزرتا تھا۔ راولپنڈی اسلام آباد سے براستہ فتح جنگ‘ یہ لوگ اٹک آئل کمپنی کھوڑ سے ہوتے‘ ڈُھلیاں موڑ جاتے۔ وہاں سے بائیں طرف مُڑ کر اُس شاہراہ پر ہو لیتے جو تلہ گنگ جاتی۔ اس مشترک راستے نے ثقافتی‘ تہذیبی اور لسانی اعتبار سے تلہ گنگ کو اپنے ضلع اٹک کے لوگوں کے ساتھ مزید ہم آہنگ کر دیا تھا۔ مکھڈی حلوہ بھی فتح جنگ‘ پنڈی گھیب اور تلہ گنگ کے درمیان ایک قدر مشترک تھی اور ایسی قدر مشترک جو میٹھی بھی تھی!

تلہ گنگ کے عوام اور خواص کو اپنے شہر اور اپنی تحصیل کی اہمیت کا احساس ہمیشہ سے تھا! تلہ گنگ صرف شہر نہیں‘ایک صد راہا یعنی بہت بڑا جنکشن بھی تھا۔ میانوالی سرگودھا اور کراچی جانے والی ٹرانسپورٹ یہیں سے ہو کر گزرتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے تحریک کا آغاز کیا کہ تلہ گنگ کو ضلع بنایا جائے۔ مطالبہ منطقی طور پر درست تھا۔ جغرافیائی محل وقوع تلہ گنگ کا اسی بات کا متقاضی تھا۔چکوال اور پنڈی گھیب اس ضلع کی تحصیلیں بن سکتی تھیں۔ مگر 1985ء میں تلہ گنگ کے لوگوں کو یہ عجیب و غریب خبر ملی کہ نیا ضلع تو بنا‘ مگر ان کا نہیں! اہلِ چکوال جیت گئے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ تھی کہ جرنیل وہاں سے زیادہ تھے۔ بااثر سیاست دانوں نے بھی اپنا وزن چکوال کے پلڑے میں ڈالا اور تلہ گنگ کو اٹک سے کاٹ کر تخت چکوال کا حصہ بنا دیا گیا۔

مگر ہم آہنگی نہ در آ سکی! جب بھی!تلہ گنگ جانا ہوا‘ عوام سے بات ہوئی یا خواص سے یہی سنا کہ چکوال چکوال ہے اور اٹک اٹک تھا۔ جو یادیں‘ ثقافتی تال میل‘ لہجے کا اشتراک ضلع اٹک سے تھا‘ تلہ گنگ کے لوگوں نے اُس کا ہجر ہمیشہ تازہ رکھا۔ ہمارے سینئر دوست جناب ایاز امیر نے تلہ گنگ کے حوالے سے کل جو کالم لکھا‘ وہ دلچسپ بھی ہے اور کھٹا کم اور کڑوا زیادہ ہے! شاید ان کا کالم تلہ گنگ والوں کے اس احساس کی تائید کرتا ہے کہ چکوال والے سلوک تو اچھا کرتے ہیں مگر اتنا ہی اچھا جتنا ایک سوتیلی ماں کا ہوتا ہے۔ تلہ گنگ کی اصل ضلعی ماں تو اٹک ہی ہے! مولانا رُوم یاد آ گئے ؎

دستِ ہر نااہل بیمارت کند

پیشِ مادر آ کہ تیمارت کند

کہ ہر نااہل کا ہاتھ تجھے مزید بیمار کیے جا رہا ہے۔ تیمار داری ماں ہی کرتی ہے۔ اس کے پاس آئو!

فوجی اعتبار سے تو تلہ گنگ نمایاں ہے ہی!ائر مارشل نور خان سے لے کر جنرل فیض جیلانی اور بریگیڈیئر فتح خان ملک تک‘ بہت سے عسکری ستارے تلہ گنگ کے آسمان پر جھلملا رہے ہیں! مگر سول سروس میں بھی تلہ گنگ کے سپوتوں نے اپنی لیاقت کا سکہ منوایا ہے۔ پاکستان ریلوے کے موجودہ سربراہ آفتاب اکبر اور ریلوے کے مالیات کے سربراہ منظور ملک تلہ گنگ سے ہیں! ریجنل کمشنر تنویر ملک کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔ سعید اختر ملک سول سروس کے بڑے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ملک فتح خان نے بارانی علاقوں کی ترقی کے لیے تحقیقی اور تنظیمی کام سالہا سال کیا۔ اب بھی اقوام متحدہ سے وابستہ ہیں۔ مشتاق ملک وفاقی سیکرٹری رہے۔ جی آر اعوان بڑے بڑے ملکوں میں سفیر رہے!ملک لال خان ایٹمی ادارے سے وابستہ ممتاز سائنسدان ہیں۔ لیاقت ملک مرحوم انجینئر تھے اور کئی فلاحی تنظیموں میں شامل ہو کر عوام کی خدمت کرتے رہے!

چکوال بھی ہمارا اپنا ہے ! اور اٹک بھی اپنا! تلہ گنگ والوں کو نصیحت یہ کرنا ہے کہ یا ضلع اٹک میں واپس آئو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا! یا پھر اپنا ضلع الگ بنوالو!!


















Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

شیر لومڑی کیسے بنتا ہے؟

$
0
0

‎بوڑھا لمبی گہری سانسیں لے رہا تھا۔

‎ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ سے سینہ‘ پیٹھ اور کندھے چیک کئے۔ آوازیں سنیں‘ خلا میں دیکھا‘ پھر نبض ٹٹولی۔

‎آپ بظاہر ٹھیک ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟

‎ڈاکٹر صاحب نیند نہیں آتی۔ بھوک نہیں لگتی‘ دل ڈوبتا رہتا ہے۔

‎آپ کسی مقدمہ بازی میں تو مبتلا نہیں؟ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں سے کوئی جھگڑا؟

‎نہیں! بالکل نہیں‘ اس لحاظ سے خوش بخت واقع ہوا ہوں۔

‎گھر میں بیگم سے کوئی کھٹ پٹ؟ کوئی ذہنی دبائو؟ کوئی ٹینشن؟

‎نہیں‘ ایسا بھی نہیں‘ ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی اور امن و سکون ہے؟

‎کوئی مالی مسائل؟

‎وہ بھی نہیں‘ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔

‎تو پھر دوا کیوں اثر نہیں کر رہی‘ کوئی اور بات جو آپ کے ذہن میں ہو؟

‎ڈاکٹر صاحب! ایک غم ہے جو کھائے جا رہا ہے‘ بیٹے بیٹیاں بیرون ملک ہیں‘ ان کی یاد میں تڑپتا رہتا ہوں۔ 

‎ڈاکٹر نے کیا تجویز کیا؟ عد

‎اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ غور اس بات پر کیجئے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے ساری نعمتوں‘ آسودگیوں کے باوجود یہ معمر شخص ایک کرب میں مبتلا تھا۔ یہ کرب کیا تھا؟ اسے ’’احتیاج‘‘ کہتے ہیں۔ سفید فام فرنگی اس احتیاج کو‘ انحصار کی کیفیت کو

Dependence

‎ کا نام دیتے ہیں۔ ہم روزمرہ کی زبان میں اسے ’’محتاجی‘‘ کہتے ہیں۔ بڑے بوڑھے یہ دعا اکثر دیتے ہیں‘ ’’اللہ تمہیں محتاجی سے بچائے‘ خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔ یہ دعا معمولی دعا نہیں ہے‘ بڑے بوڑھوں کو اس احتیاج کی ہولناکی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے یہ دعا بڑے ہی دیتے ہیں‘ شاید ہی کوئی جوان مرد یا عورت یہ دعا کسی کو دیتی ہو۔

‎احتیاج۔ انحصار۔ تین طرح کا ہوتا ہے تینوں بھیانک‘ ہولناک اور قابل رحم ہیں‘ ایک انحصار مالی ہے۔ بڑھاپے میں مالیات کمزور ہوں تو ؎

‎غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں را
‎بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

‎مجنوں دو عذابوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک لیلیٰ کے قربت کی مصیبت‘ دوسرا اس کا ہجر۔

‎بڑے میاں کو اپنی فکر نہیں۔ مکان بھی بچوں کے لیے بنانا ہے۔ پلاٹ بھی بچوں کے لیے چھوڑ کرجانے ہیں۔ بچے مرنے کے بعد دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں یا نہیں‘ یہ نہیں معلوم۔ اپنے لیے کچھ نہیں بچانا نہ رکھنا ہے۔ یہاں تو ایسے ایسے حمقا بھرے پڑے ہیں کہ سرچھپانے کی جگہ‘ فرط محبت میں بیٹوں کے نام کرا دی۔ بہوئوں نے آ کر نکال دیا‘ بیٹوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ پھر توکل کا مطلب بھی غلط لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کل کا اللہ مالک ہے۔ خدا کے بندو اللہ ہی نے دیا ہے۔ اپنے علاج معالجہ اور اخراجات کے لیے پس انداز کر کے رکھو تاکہ احتیاج نہ ہو۔ تاکہ انحصار سے بچ سکو۔ کیا عزت نفس یہ اجازت دے گی کہ کل اپنے علاج کے لیے‘ روزمرہ کے اخراجات کے لیے‘ بیٹے یا بہو یا بیٹی یا داماد کا منہ دیکھتے رہو۔ چنانچہ مالی احتیاج سے بچنے کی دعا بھی کرنی چاہیے اور دوا بھی۔ جو دعائیں بزرگوں سے منقول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آخری عمر میں مالی آسودگی نصیب ہو۔

‎اللھم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی وانقطاع عمری۔
‎یااللہ بڑھاپے میں اور عمر کے ختم ہونے کے وقت مجھ پر اپنا رزق وسیع کرنا۔

‎دوسرا انحصار جسمانی انحصار ہے۔ جسمانی احتیاج۔ اس سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس سے بچنے کیلئے کچھ منصوبہ بندی بھی۔ ہر کام دوسروں سے کرانیوالے اس معاشرے میں جسمانی محتاجوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ پانی بھی پلائے تو نوکر یا کوئی بچہ یا بیوی۔ اٹھ کر دروازہ بھی نہیں بند کرنا۔ گاڑی یا موٹرسائیکل‘ پارکنگ کی مخصوص جگہ پر نہیں پارک کرنا۔ اس لیے کہ دو قدم چلنا پڑتا ہے۔ عین دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کی جائیگی راستہ بے شک بند ہو جائے۔ ورزش کا کلچر ہی نہیں عام ہوسکا۔ شاید خواتین کی مکمل آ بادی میں پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس فیصد ورزش اور جسمانی چستی کا خیال رکھتی ہوں۔ آپ بنکاک‘ لندن‘ نیویارک اور ٹورنٹو کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر دیکھئے‘ پاکستان اور بھارت کی معمر عورتیں مشکل سے چل رہی ہوں گی۔ ایک قدم آگے تو دو دائیں بائیں۔ جیسے ایک ٹیڑھی لکیر کھینچی جا رہی ہو۔ ان سے عمر میں کہیں بڑی یورپی چینی اور جاپانی عورتیں کھٹ کھٹ چلتی ہوئی یہ جا وہ جا۔ ان پاکستانی اور بھارتی عورتوں کا سفری سامان بھی ان کے شوہروں نے اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جو مغربی یا مشرق بعید کی عمر رسیدہ عورت کھٹ کھٹ‘ تیزی سے گزر جاتی ہے اس کی پیٹھ پر بیک پیک بھی ہے اور ہاتھوں میں ٹرالی بیگ بھی۔ ایک نوے سالہ مغربی عورت کے کمرے میں ہم سب بیٹھے تھے۔ وہ اٹھی اور کمرے کا دروازہ خود بند کیا۔ حالانکہ وہ کسی سے بھی کہہ سکتی تھی۔ امریکہ کے ایک سپر سٹور میں ایک بہت عمر رسیدہ خاتون جو نوے کے پیٹے میں ہوگی‘ خریداری سے بھری ٹرالی دھکیلے لئے جا رہی تھی۔ اس کالم نگار کی بزرگوں کی خدمت کرنے والی رگ پھڑکی۔ اس سے پوچھا‘ خاتون‘ کیا میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ اس نے ہاں یا نہیں یا شکریہ کے بجائے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘ جس کا کالم نگار کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

‎اپنے استعمال کی اشیائ‘ چارپائی کے گرد یا ایک کمرے میں جمع نہ کیجئے۔ دور دور رکھئے تاکہ آپ کو بار بار اٹھنا پڑے اور جسم کام کرتا رہے۔ اپنے ذاتی کام بیوی بچوں سے اور خدمت گاروں سے نہ کرائیے۔ اپاہج نہ بنیے۔ دوسروں کے لیے درد سر نہ ثابت ہوں۔ صرف وہ کام دوسروں سے کہیے جو آپ کے بس میں بالکل نہ ہو۔ اپنے اعضا کو اعضائے معطل نہ بنائیے۔ انہیں جیتے جی ریٹائر نہ کیجئے۔ سیر کو معمول بنائیے۔ مسجد تیز چل کر جائیے۔ جم ہے یا واکنگ ٹریک‘ اس میں جانا اپنا معمول بنا لیجئے۔ بستر رات کے لیے بنا ہے دن کے وقت اس کا استعمال جسمانی احتیاج کے راستے کی طرف لے جائے گا

‎اور ہاں کھانا کھاتے وقت ناامید نہ ہوں اور اسے اپنی زندگی کا آخری کھانا نہ گردانیے۔ شادی کی تقریب میں کھانا کھلنے کا اعلان ہو تو دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھئے کہ کس طرح لباس ہائے فا خرہ میں ملبوس معززین‘ بھوکے بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کی پلیٹوں میں بریانی کے مینار اور گوشت کے انبار دیکھ کر دل میں ان بدبختوں کے لیے رحم کے جذبات ابھارنے کی کوشش کیجئے اور جب یہ سب بھوکے ننگے امرا کھانا لے چکیں تو جو کچھ بچا ہے‘ تھوڑی سی مقدار میں لے کر تناول فرما لیجئے۔

‎رہی تیسری احتیاج! جذباتی‘ تو اس سے پرہیز کا سامان نہ کیا تو یہ مار ہی ڈالے گی۔ ایک تو یہ مثبت پہلو دیکھئے کہ یہ گھوڑوں‘ قافلوں‘ ڈاکوئوں‘ بحری جہازوں کا زمانہ نہیں۔ آپ کا عزیز یا عزیزہ جو بھی بیرون ملک ہے‘ چند گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے‘ آپ جا کر مل سکتے ہیں۔ سکائپ پر‘ واٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر دن میں کئی بار بات کرسکتے ہیں‘ دیکھ سکتے ہیں۔ خدا کا شکر ادا کیجئے کہ آپ اس زمانے میں پیدا ہوئے ورنہ آپ سے پہلے جو لوگ تھے‘ وہ اپنے پیاروں کے خطوں کا بندرگاہوں پر بیٹھ کر انتظار کرتے تھے اور ہر روز کرتے تھے

‎اور اگر باہر بیٹھے ہوئوں کو آپ کی یاد نہیں ستاتی تو آپ بھی یہی رویہ اپنائیے۔ جو بچے اور پوتے نواسیاں پاس ہیں‘ ان سے لطف اندوز ہوں۔ جو پرندہ ہاتھ میں ہے‘ اسے دیکھئے‘ جو دور ہے‘ اس کے لیے ہلکان نہ ہوں۔ حالی نے یہی تو سمجھایا تھا ؎

‎جب سے دل زندہ! تونے ہم کو چھوڑا
‎ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

‎مصحفی نے جب کہا تھا کہ ؎

‎بھلا درستی اعضائے پیر کیوں کر ہو
‎ کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھتے ہیں

‎تو مصحفی کا اور زمانہ تھا۔ اب تو دانتوں سے لے کر گھٹنوں تک۔ ہر شے نئی مل جاتی ہے۔

‎اور آخر میں یہ بھی سمجھ لیجئے ؎

‎آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج
‎احتیاج و احتیاج و احتیاج

‎یہ احتیاج ہے جو شیروں کو لومڑی بنا دیتا ہے۔


سیاست کی دنیا کا جُوسف

$
0
0

کیا وجیہہ شخصیت عطا کی تھی قدرت نے! طویل قامت! بارعب چہرہ! مگر افسوس! بولتا تھا تو احساس ہوتا تھا کہ نہ ہی بولتا تو بھرم قائم رہتا! 

قدرت کے بھی نرالے کھیل ہیں ! کسی کو شخصیت ایسی دیتا ہے کہ بے بضاعت!موجود ہو تو موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔ نہ ہو تو کوئی کمی نہ نظر آئے! مگر بولے تو لوگ ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ حیرت سے دہانے کُھل جائیں۔ لفظ سراپا تاثیر بن کر سینے میں اترتے جائیں! 

یہ قول امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے کہ بات کرو تاکہ پہچانے جائو اس لیے کہ انسانی اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے! سعدی نے اسی قولِ زریں کی تشریح میں کہا تھا ؎ 

تا مرد سخن نگفتہ باشد 
عیب و ہنرش نہفتہ باشد 

جب تک کوئی شخص بات نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں! پھر وہ بات کرتا ہے تو یا عزت پاتا ہے یا بے نقاب ہو جاتا ہے! اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے! وہ حکایت ہو سکتا ہے سنی ہوئی ہو‘ مگر یہاں ایسی منطبق ہو رہی ہے کہ نہ سنانا ناروا ہو گا! 

مسجد کے فرش پر چٹائی بچھائے استاد پڑھا رہا تھا۔ سامنے طلبہ بیٹھے تھے۔ استاد نے دستار اتار کر رکھی ہوئی تھی۔ نیم دراز حالت میں تھا۔ طالب علم پڑھ رہا تھا۔ استاد تشریح کر رہا تھا ۔اتنے میں سامنے مسجد کے دروازے سے ایک طویل قامت وجیہہ شخص اندر داخل ہوا۔ عبا اس کی خوبصورت تھی! دستار سے معلوم ہو رہا تھا کہ فاضل ہو گا۔ اس نے حمام سے پانی کا کوزہ بھرا اور ناند پر بیٹھ کر وضو کرنے لگا۔ استاد نے گمان کیا کہ ضرور کوئی صاحبِ علم ہے! اس زمانے میں استاد پڑھا رہا ہوتا تھا تو کوئی بھی آ کر مجلس میں بیٹھ جاتا تھا اور سبق کی سماعت کر سکتا تھا! کچھ استفادہ کرتے تھے۔ کچھ غلطی نکالتے تھے۔ استاد ہوشیار ہو گیا۔ اُٹھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔ دستار سر پر رکھ لی۔ طلبہ کو اشارہ کیا کہ مودب ہو کر ترتیب سے بیٹھیں۔ طویل قامت وجیہہ شخص آیا تو استاد اُٹھا مودب ہو کر ملا اور پوچھا۔ 

جناب کا اسم گرامی؟ 
مخاطب کے چہرے پر سوال ابھرا۔ پھر اس نے زبان سے کہا 
’’کیا؟‘‘ 
جہاں دیدہ استاد سب کچھ جان گیا۔ 
آپ کا نام؟
’’جُوسف‘‘ 
اس نے کہا! 
استاد نے دستار سر سے اتاری‘ نیم دراز ہوئے اور طلبہ کو کہا
’’اپنا اپنا کام کرو بھئی! یہ تو جوسف ہے! 

سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کا تازہ ترین بیان سن کر یہ سب کچھ یاد آ گیا۔ کہتے ہیں کہ ’’نواز شریف کے پاس خود مودی صاحب چل کر آئے لیکن عمران خان کی دعوت پر ملنے کو بھی تیار نہیں! چنانچہ پاکستان میں قیادت کا فرق ظاہر ہو گیا ہے! کیا شخصیت دی ہے قدرت نے جناب شاہد خاقان عباسی کو! شمشاد قد! مگر بولتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے! مملکت پاکستان کے حکمران اعلیٰ بنے تو ذاتی وفاداری پر ملک کے سسٹم کو قربان کر دیا۔ بارہا وزیر اعظم بننے سے عملی انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرے وزیر اعظم نواز شریف ہی ہیں! تاریخ نے سنہری موقع دیا تھا کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کچھ اصلاحات ہی لے آتے۔ کوئی ایسا اقدام اٹھا جاتے کہ ملک کی تاریخ میں نام تابندہ کر جاتے۔ مگر ہز ماسٹرز وائس کے سوا کچھ نہ ہو سکے۔ کچھ نہ کر سکے! ایسے حکمرانوں کا نام تاریخ کے کسی صفحے پر آتا ہے تو ایک فٹ نوٹ سے زیادہ نہیں! 

اور فُٹ نوٹ میں بھی کہاں آتا ہے! اورنگزیب کے کتنے جانشینوں کے نام لوگوں کو یاد ہیں؟ شیر شاہ سوری کے بعد سوری خاندان کے اور بھی حکمران تخت پر بیٹھتے رہے‘یہاں تک کہ ہمایوں نے سلطنت چھین لی مگر ان کے نام ڈھونڈنے ہی سے ملتے ہیں! عباسی صاحب کا نام پاکستان کی تاریخ میں آیا بھی تو ایک عجوبے کی حیثیت سے آئے گا کہ سرکاری دستاویزات پر دستخط وزیر اعظم کے طور پر کرتے تھے مگر وزیر اعظم اپنے آپ کو مانتے نہ تھے۔ آقا بن کر بھی آقا نہ بن سکے! 

نون لیگ کے کتنے ہی ذی فہم ارکان نے دل ہی دل میں کہا ہو گا کہ سابق وزیر اعظم کاش یہ بیان نہ دیتے! چلیے!بیان دے دیا۔ 

اچھا کیا اپنا عیب و ہنر باہر نکال کر دکھا دیا۔ بتا دیا کہ میں کیا ہوں! مگر بات مکمل نہ کی! یہ نہ بتایا کہ یہ جو نواز شریف کے پاس حاضری دینے کے لیے مودی مارے مارے بے تاب پھرتے تھے اور یہ جو صورت حال کچھ اس قبیل کی تھی کہ ؎ جذبہ عشق سلامت ہے تو انشاء اللہ کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے تو اس کا سبب کیا تھا؟ سبب یہ تھا کہ نواز شریف تقسیم کو اور قیام پاکستان کو ایک بے معنی کام سمجھتے تھے۔ برملاکہتے تھے کہ ہم تو ایک تھے۔ ایک کلچر تھا بس درمیان میں لکیر آ گئی۔ دیکھیے۔ بھارتیوں کو خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کیا کہتے ہیں۔

’’میں بھی یہی کہتا ہوں کہ واجپائی صاحب کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ آپ بھی رب کہتے ہیں۔ ہم بھی رب کہتے ہیں۔ ہندوستان نے ٹینک خریدے ہیں تو ہم نے بھی لازم کر دیا کہ ہم نے بھی ٹینک خریدنے ہیں… ہمارا ایک ہی کلچر تھا۔ ایک ہی heritage تھا۔ ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے… وہاں بھی لاہور سویٹ مارٹ ہے۔ یہاں پر بھی بمبئی سٹور تھا۔ یہ سب کیا ہے۔ یہ صرف بیچ میں بارڈر آ گیا ہے۔ باقی تو ہم آپ اسی سوسائٹی کے ممبران ہیں۔ آپ ‘ہم ایک ہی کلچر ہے۔ ایک ہی ہمارا بیک گرائونڈ ہے۔ کھانا بھی اسی قسم کا آپ کھاتے ہیں۔ ہم بھی اسی قسم کا کھانا کھاتے ہیں۔ آلو گوشت آپ بھی کھاتے ہیں۔ آلو گوشت مجھے بھی بڑا پسند ہے۔تو سب کچھ اتنا کامن ہے!‘‘ 

مسلم لیگ نون والے کبھی قائد اعظم کی تقریروں اور اقوال کا مطالعہ کرتے تو جان پاتے کہ پاکستان کی بنیاد اٹھاتے ہوئے قائد اعظم نے پہلی اینٹ ہی الگ کلچر اور الگ کھانے پینے کی لگائی تھی۔ نواز شریف کس کامن کلچر کی بات کر رہے ہیں؟ کیا ہولی‘ دسہرہ دیوالی‘ کرپان‘ کیس‘ شراب نوشی ہمارا کلچر ہے؟ کھانا پینا کون سا ایک ہے؟ سکھ اور ہندو تو گوشت کھاتے ہی نہیں! وہ تو اس برتن کو توڑ دیتے ہیں جس میں کسی مسلمان نے کھایا ہو۔ مرحوم بھارتی صدر ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ سکول کے زمانے میں ایک کلاس فیلو کے گھر میں گئے تو ہندو فیملی نے کچن کے اندر نہ جانے دیا۔ 

نواز شریف ذہنی طور پر پنجاب سے نکل ہی نہ سکے۔ اوپر ان کی جس تقریر کا اقتباس نقل کیا گیا ہے‘ اسی میں کہتے ہیں کہ ’’یہاں امرتسری ہیں‘ لدھیانوی ہیں اور ہوشیار پوری ہیں اور وہاں لائل پوری ہیں‘ گجراتی ہیں‘ لاہوری ہیں اور سیالکوٹی ہیں!‘‘ ان کے نزدیک بھارت اور پاکستان کی قربت اگر ہو بھی تو اس سے مراد صرف بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی قربت ہے۔اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان ان کی نظر میں صرف پنجاب ہے اور پنجاب ان کے نزدیک صرف لاہور ہے! 

مودی کیوں نہ چل کر نواز شریف کے پاس آئے ان کی خوشیوں میں کیوں نہ شریک ہو! ایسا پاکستانی وزیر اعظم اسے روز روز کہاں ملے گا جو افسوس کرے کہ ہم تو ایک ہی تھے‘ یہ تو بس درمیان میں لکیر آ گئی۔ ایسا پاکستانی وزیر اعظم!!جو اپنے ملک پر الزام لگائے کہ بھارت میں دہشت گرد بھیجتا ہے اور خود کلبھوشن کا نام تک زبان پر نہ لائے! جسے پرویز مشرف کی قید سے نکلوانے کے لیے بھارتی بزنس مین صدر کلنٹن سے سفارش کریں! 

اور نواز شریف صاحب کے چہرے پر کیا بشاشت اور انبساط ہوتا ہے جب وہ مودی کے ساتھ لمحۂ وصال سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ایسے میں ان کی بدن بولی دیکھے! خوشی دیدنی ہوتی ہے! شاہد خاقان عباسی صاحب بات کو مکمل کرتے تو بہتر ہوتا! مودی اس لیے بلائیں لیتا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے! تاکس نگوید بعدازاں من دیگرم تو دیگری!! نظریات ایک جیسے ہوں تو من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے!!



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

تِلوں میں تیل ہے بھی یا نہیں؟

$
0
0

ہر آنے والا دن سوالیہ نشان بن کر طلوع ہو رہا ہے!

عمران خان نے لوگوں کو ایک راستہ دکھایا ایک زینے پر چڑھایا۔ کچھ وعدے کیے، کچھ امیدیں بندھوائیں مگر ہر آنے والا دن سوچنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اب عوام پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ آپ نے انہیں صبح کے تارے کا وعدہ کیا۔ اب آپ انہیں بادلوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ نہیں! آپ انہیں تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد!

کوئی وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اِکّا دُکّا اقدامات۔ مگر کسی ہوم ورک کے بغیر۔ سرکاری ریسٹ ہائوسز ہی کا مسئلہ لے لیجیے۔ ان کے کمرشل استعمال کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ مگر مچھ سائز کی بڑی کمپنیوں کو لیز پر دیئے جا رہے ہیں۔ بھائی لوگو! ہوم ورک تو کر لو۔ پہلے اعداد و شمار تو حاصل کرو کہ ان سرکاری ریسٹ ہائوسوں میں حکومت کے کتنے افسر سال بھر میں ٹھہرتے ہیں۔ حکومت انہیں ہوٹل کا کرایہ نہیں دیتی۔ جب ریسٹ ہائوس نہیں ہوں گے تو یہ افسر ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔ پہلے حساب کتاب تو لگائو کہ ہوٹلوں میں خرچ کتنا ہو گا؟ کہیں آگے دوڑ پیچھے چوڑ والا حساب نہ ہو۔

دوسری مثال شیخ رشید کی لیجیے۔ ہمارے حلقۂ دوستاں میں ایک آتش زیر پا لڑکی ہے۔ بھتیجی ہی سمجھ لیجیے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ مگر سیماب صفت۔ کہیں قرار نہیں۔ ہم اسے اَن گائیڈڈ میزائل کہتے ہیں۔ شیخ صاحب بھی وہ میزائل ہیں جسے کوئی کمپیوٹر، کوئی ریموٹ کنٹرول، کوئی الیکٹرانک نظام کنٹرول نہیں کر سکتا۔ غالباً منٹو نے لکھا تھا کہ راولپنڈی کا ٹانگہ کس طرف مڑے گا؟ خدا اور کوچوان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حضرت نے اعلان کیا ہے کہ ریلوے میں دو ہزار ملازمین رکھیں گے۔ پہلے یہ تو دیکھ لیتے کہ اندرونی ایڈجسٹ منٹ سے مسئلہ حل ہوتا ہے یا نہیں۔ پہلے ہی ریل کے ڈبے، ریل کے ملازموں سے بھرے ہوتے ہیں۔ قلفی والے پر سکول کے بچوں نے حملہ کیا تو سب سے زیادہ قلفیاں، قلفی والے نے خود کھائیں۔ ریلوے کے مسافروں میں غالب تعداد نہیں، تو اچھی خاص تعداد ریلوے کے اپنے تنخواہ داروں کی ہے۔

شیخ صاحب کو ترجیح لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں لگانے کو دینی چاہیے تھی۔ سعد رفیق صاحب نے یہ تاثر تو کامیابی سے قائم کیا کہ محنت کر رہے تھے تا ہم ان بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی طرف ان کا دھیان کبھی نہ گیا جو سامان اٹھائے، ہانپتے ہوئے، ڈیڑھ سو سال پرانی سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے ہیں۔ اب تو عام قصباتی پلازوں میں بھی برقی سیڑھیاں نظر آنے لگی ہیں۔ مگر سعد رفیق ہوں یا شیخ رشید۔ اصل میں سارے ایک ہیں۔ ہاتھی کی دم کا شور اٹھتا ہے۔ ہر بار اٹھتا ہے۔ دیکھنے جاتے ہیں تو دوگز کی رسی نظر آتی ہے۔

سارے اقدامات سطحی! کوئی گہرائی نہیں،کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں، اب سنتے ہیں کہ بیورو کریسی میں تقرریوں اور تبادلوں کی نئی پالیسی وزیر اعظم نے منظور کی ہے۔ دس برس کے بعد صوبہ تبدیل ہو گا اور پانچ برس بعد پوسٹ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جو ستر برس سے ڈاک خانہ… محض…ڈاکخانہ بنا ہوا ہے، اس کا کردار بدلا جا رہا ہے یا نہیں؟اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اصل کام بیورو کریسی کی کیریئر پلاننگ ہے۔ یہاں تو کوئی ایسا چارٹ ہی نہیں کہ بیورو کریٹ کی گزشتہ اور مستقبل کی تعیناتیاں دکھا سکے۔ شعبوں کے لحاظ سے، صوبوں کے لحاظ سے، کام کی نوعیت کے اعتبار سے، اسے کہاں کہاں بھیجنا ہے اور کب کب؟ کسی کو معلوم نہیں۔ آرمی کی ملٹری سیکرٹری برانچ میں یہ منصوبہ بندی موجود ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ستر برس سے ’’ذاتی واقفیت‘‘ اور سفارش کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ نظام کیوں نہیں وضع کیا جا رہا؟ یا توقیر شاہوں اور سراج شمس الدینوں کی لاٹریاں نکلتی رہیں گی۔

اور آخر وزیر اعظم کے ہر ریٹائر ہونے والے پرنسپل سیکرٹری کو گھی میں چُپڑی ہوئی روٹی کیوں پیش کی جاتی ہے؟ ایک صاحب خالد سعید تھے۔ اشتہار چھپا تو درخواستیں جنہوں نے دیں، وہ بیٹھے رہ گئے اور یہ صاحب ریٹائر ہو کر خود ایک ریگولیٹری اتھارٹی میں پانچ برس کے لیے فِٹ ہو گئے۔

عمران خان نے بیورو کریسی کو ضابطے کے اندر لانا ہے تو سائنٹفک بنیادوں پر کوئی نظام وضع کریں۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس ریفارمزکا سربراہ بنا کر پہلے ہی اپنی سادہ لوحی
(Naivety)
کا ثبوت دے چکے ہیں۔ میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب! اسی سے دوا لینے نکل کھڑے ہوئے! ہماری تاریخ ایسے عشرت حسینوں اور ایسے کمیشنوں سے بھری پڑی ہے جو کچھوے کی رفتار کم کرنے کے لیے دماغ لڑاتے رہے اور سرکاری خزانے پر بوجھ بنتے رہے۔

جس زمانے میں بین المذاہب اور بین المسالک مناظرہ بازی کا رواج عام تھا، مناظر حضرات یہ شعر ضرور پڑھا کرتے تھے ؎

نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

ساتھ ساتھ ایک اور ڈرامہ چل رہا ہے۔ اس تماشے کو دیکھ دیکھ کر خلقِ خدا تنگ آ چکی ہے۔ ادھر زرداری صاحب ہر روز کسی عدالت میں حاضر ہوتے دکھائے جاتے ہیں یا حاضری کے بعد باہر نکلتے۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کی بیٹی۔ ساتھ، ایک ایکٹ کا جنرل پرویز مشرف کا کھیل بھی مسلسل چل رہا ہے۔ جو پہلو غور کرنے کا ہے یہ ہے کہ آج تک کسی سے ایک پائی تک واپس نہیں لی گئی۔ یا نہیں لی جا سکی، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، شرجیل میمن، زرداری صاحب۔ ان کی خواہر نیک اختر، نواز شریف صاحب، ان کی دختر نیک اختر، ان کے دونوں ’’غیر ملکی‘‘ صاحبزادے کسی سے کوئی رقم وصولی گئی نہ وصولی جا رہی ہے۔ بندر بادشاہ بنا تو کاروبارِ سلطنت تباہ و برباد ہو گیا۔ سب جانور وفد بنا کر حاضر خدمت ہوئے اور مدعا بیان کیا۔ بندر ایک درخت پر چڑھتا۔ وہاں سے چھلانگ لگا کر دوسرے پر جاتا۔ پھر ایک اور زقند بھرتا اور پہلے درخت پر واپس آتا۔ کہنے لگا۔ یارو! کاروبارِ مملکت بھی ضروری ہے مگر میری ا ٓنیاں جانیاں تو دیکھو! کرپشن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اداروں اور عدالتوں کی آنیاں جانیاں قوم کب سے دیکھ رہی ہے۔ خوش خبری کا کہیں کوئی نشان نہیں نظر آتا۔ عوام اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ؎

افق کو دیدۂ حسرت سے دیکھنے والے
تری زمیں سے کہیں آسماں نہیں ملتا؟

جنرل پرویز مشرف ملک کے لیے، حکومت کے لیے، خود فوج کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ع مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی ’’ہمیں بھی خراب کیا اور خود بھی مصیبت میں ہو‘‘! کون سی رسوائی ہے جو ان کی جھولی میں نہیں پڑی۔ عدالت جاتے ہوئے ہسپتال جا پہنچنا۔ کمر کا درد، بیرون ملک رقص و سرود۔ کئی اکائونٹس، کروڑوں ڈالر، لندن اور دبئی میں جائیدادیں۔ کہیں میچ دیکھتے نظر آتے ہیں کہیں کسی ٹیلی ویژن پر چہرہ کہولت کے لٹکے ہوئے آثار دکھاتا ہے۔ واپس آتے ہیں نہ کچھ بتاتے ہیں۔ سیاست کا شوق جا نہیں رہا۔ دن کو خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو اقتدار انہیں
 By Default
مل گیا تھا، اب کبھی 
By Design
نہیں ملنے کا۔

پھر سید بھی ہیں۔ عزتِ سادات کے پرخچے اُڑ رہے ہیں۔ انہیں بہت اہتمام سے ’’سید پرویز مشرف‘‘ کہنے والے اور وردی میں دس دس بار منتخب کرانے والے اگلی منزلوں میں پہنچ گئے۔ سانپ نکل گیا۔ جنرل صاحب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ پیٹے جا رہے ہیں۔ جس قبیل کے ترجمان ملک میں ان کی نمائندگی کرتے ہیں اس سے جنرل صاحب کی سوچ کی ’’گہرائی‘‘ اور ’’دور اندیشی‘‘ اور زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ کوئی ہے جو انہیں سمجھائے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل اب بند کریں اور کوئی نہیں تو فوج ہی انہیں کسی نہ کسی طرح باور کرائے کہ بہت ہو چکی، بہت اچھل کود کر لی۔ خدا کے لیے اب سٹیج سے نیچے اتر آئیں! دنیا بہت پھرتیاں دیکھ چکی!!


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

ماں، ہنڈیا اور بچہ

$
0
0

کوئی تو ہے جو عمران خان کی پالیسیوں کو دانستہ یا نادانستہ، ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایئرپورٹ پر، ٹریفک کے محکمے میں، وزارت تعلیم میں، وزارت خزانہ میں، ہر جگہ کوئی نہ کوئی قینچی پکڑ کر پالیسی کی دستاویز کو کاٹ رہا ہے۔ کاٹے جا رہا ہے۔ وزیراعظم علم غیب رکھتا ہے نہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس کے وزیر اور مشیر اس حقیقت سے بے خبر لگتے ہیں کہ ان کے نیچے کون کیا کررہا ہے۔

اس لیے کہ امیدوں کے مینار زمین بوس ہو رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ عوام میں آگہی کا شعور عمران خان نے پیدا کیا۔ تبدیلی کے معاملے میں عوام حساس ہو چکے ہیں۔ ازحد حساس! اب وہ حقیقی تبدیلی دیکھنے کے متمنی ہیں۔

چار دن پہلے ایک تعلیم یافتہ نوجوان دارالحکومت کے نئے ایئرپورٹ سے واپس آیا۔ وہ کسی کو رخصت کرنے گیا تھا۔ ایک جگہ ایئرپورٹ کے داروغے نے اس کی گاڑی روک لی کہ آگے جانا منع ہے۔ نوجوان نے ایک گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ گاڑی تو جا رہی ہے۔ داروغے نے قہقہہ لگایا کہ وہ ایم این اے کی گاڑی ہے۔ اس پر نوجوان نے اسے یاد دلایا کہ نئے پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس کا جواب اس نیم تعلیم یافتہ داروغے نے جو دیا وہ کئی کالموں اور کئی مقالوں اور کئی رپورٹوں اور کئی تقریروں اور کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ دروغے نے دوسرا نمکین قہقہہ لگایا اور نوجوان کو یہ کہہ کر خوابوں کے پرستان سے ایک جھٹکے کے ساتھ باہر نکالا ’’نیا پاکستان صرف میڈیا میں ہے۔ باہر وہی پرانا پاکستان ہے۔‘‘

چلئے، یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ ایسا بدصورت واقعہ ایئرپورٹ پر دن میں ایک ہی بار پیش آتا ہے۔ ہر ایئرپورٹ پر، ہر دفتر میں، ہر ریلوے اسٹیشن پر، ہر ہسپتال میں، تو حساب لگائیے، ایک دن میں کتنے لوگ خوابوں کے پرستان سے باہر دھکیلے جائیں گے؟ یہ تعداد ہر روز، ہر ہفتے بڑھتی جائے گی۔ یہ ہے وہ زیر زمین طریقہ جس سے پالیسیاں ناکام کی جاتی ہیں۔ عوام مایوس ہوتے ہیں۔ بائیس برس کی محنت پر چند کام چور، وزیر، چند بدنیت حکام، پانی پھیر دیتے ہیں۔ کوئی تو دارالحکومت کے ایئرپورٹ پر مامور ہوگا جس نے اس پروٹوکول کی، اس امتیازی سلوک کی اجازت دی ہوگی، کوئی اس کے اوپر بھی ہوگا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ایئرپورٹ سکیورٹی فورس میں۔ ہوابازی کی وزارت یا ڈویژن میں۔ اسے کون پکڑے گا؟ کون سزا دے گا؟ عبرت ناک سزا ملے گی تو پروٹوکول کا یہ کیڑا مرے گا ورنہ رینگتا رہے گا؟

سینکڑوں ہزاروں برس پہلے یہ حقیقت دریافت ہو چکی تھی کہ حکمران سب سے زیادہ بے خبر ہوتے ہیں۔ کم ہی ان میں علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری ہیں جو باخبر رہتے ہیں۔ سلطنت کے دور افتادہ بازار میں بھی گندم کی فروخت سرکاری نرخ کا منہ چڑاتی تھی تو سلطان کو معلوم ہو جاتا تھا۔ کم تولنے والے کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ لیا جاتا تھا جتنا وزن کم ہوتا تھا۔ آج شور مچایا جارہا ہے کہ موٹرسائیکل کا غریب مالک دو ہزار روپے کا جرمانہ کیسے دے گا؟ ویگن کا ڈرائیور غریب ہے، حالانکہ ان غریب ویگن ڈرائیوروں نے شیطان کا لباس پہنا ہوا ہے۔ ان موٹرسائیکل سواروں نے ٹریفک کے پورے نظام کو لعنت زدہ کیا ہوا ہے۔ یہ قانون کو اس منحوس دو چرخے کے ٹائروں کے نیچے ہمہ وقت روند رہے ہیں۔ کسی سرخ بتی کی، کسی ٹریفک لین کی، کسی ترتیب، کسی ضابطے کی ان موٹرسائیکل سواروں، ان وحشی ویگن ڈرائیوروں کو تمیز نہیں، ناخواندہ، انسان نما جانور، جو ڈمپر اور ٹرالیاں چلا رہے ہیں، ڈرائیور نہیں جلاد ہیں۔ خلیل حامدی سے لے کر پروفیسر طیب منیر تک۔ کتنے ہی قیمتی پاکستانی ان آدم خوروں کی نذر ہو چکے۔ جنہیں درختوں کے ساتھ باندھ کر خاردار شاخیں ان کی سرینوں پر مارنی چاہئیں، ان کی ہمدردی میں جرمانے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ افسوس، صد افسوس۔

عمران خان نے افق کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ ’’نئے پاکستان کی آئیڈیالوجی‘‘ پر پورا اترتے ہیں۔ اس کالم نگار نے کئی ہفتے مشاہدہ کیا۔ تنقید سے گریز کیا۔ صبر کیا مگر تمے کے پودے پر انجیر کیسے لگے گا۔ جو اعتراض نوازشریف پر تھا بزدار صاحب پر اس کا اطلاق بدرجہ اتم ہورہا ہے۔ یہاں تو معاملہ کاغذی چٹوں سے بھی بدتر ہے۔ سب سے بڑے صوبے کا حکمران اعلیٰ، جو کسی بھی درجے میں متاثر نہیں کرتا، پنجاب کے حکمرانوں کو غیر ملکی سفیروں، حکمرانوں، تاجروں، کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسروں، صحافیوں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ بزدار صاحب کیسے بات کریں گے؟ مافی الضمیر کیسے ادا کریں گے؟ اور کس کو خبر ہے کہ مافی الضمیر ہے بھی یا نہیں؟ مہاتیر کو یا اردوان کو یا ایرانی صدر کو یا کسی اور سربراہ حکومت یا امیر ریاست کو شاہی قلعے میں وزیراعظم دعوت دیں گے تو تعارف کراتے وقت وزیراعلیٰ کو لکڑی سے گوشت پوست میں کیسے تبدیل کریں گے؟

یہ گوہر نایاب، یہ بدخشاں کا موتی، یہ یمن کا عقیق، خان صاحب نے دریافت کیسے کیا؟ دھوئیں میں تحلیل ہو جانے والے کس جن نے اس کی نشان دہی کی؟ کون سا ہد ہد اس کی خبر لایا؟ یہ راز تب فاش ہوا جب وزیراعلیٰ نے پاکپتن ضلع کے پولیس افسروں کو طلب کیا اور ایک غیر متعلقہ شخص نے، وزیراعلیٰ کی موجودگی میں، ان پر حکم چلایا اور وزیراعلیٰ موم کا بت بنے بیٹھے رہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، کسی کو برا لگے یا اچھا۔ یہ بات سن کر کسی کے شکم میں قولنج کے درد کی لہر اٹھے یا تنگ پیشانی پر رعونت کی شکن پڑے، بات سچی ایک ہی ہے کہ ایسا کرکے وزیراعلیٰ نے ثابت کردیا کہ وہ کٹھ پتلی ہیں اور انہیں کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے افسر کوبھی یہ طریق کار منظور نہ ہوگا۔ وہ بھی غیر متعلقہ مداخلت کار کی بات خود سنے گا پھر اسے یہ کہہ کر رخصت کردے گا کہ اپنے ماتحتوں سے میں خود پوچھوں گا یا سمجھائوں گا۔ یہ تو نااہلی اور ناتجربہ کاری کی انتہا ہے کہ ایک غیر متعلقہ شخص جس کی بیگم کی خاتون اول سے دوستی ہے، پولیس کے اعلیٰ افسروں پر حکم چلائے یا چلانے کی کوشش کرے اور وزیراعلیٰ برخوردار بن کر سنتے رہیں اور دیکھتے رہیں۔ کیا وزیراعظم تک یہ عوامی ریمارک نہیں پہنچا کہ وزیراعلیٰ کو کوئی اور ریموٹ کنٹرول سے چلائے گا؟ کیا زبان خلق کا یہ نقارا ان کے کانوں تک نہیں گیا تھا کہ ترین صاحب کا انتظار کیا جائے گا اور وہ آئیں اور منصب سنبھالیں۔ وزیراعظم کو ایک غیر متعلقہ شخص کی مداخلت کے حوالے سے، ایسی تنبیہہ ضرور کرنی چاہیے تھی جس کا عوام کو علم ہوتا اور یہ کم از کم ہوتا۔

دوسری طرف عوام کو بھی دھاگہ ہر وقت کھینچ کر نہیں رکھنا چاہیے۔ کبھی ڈھیلا بھی چھوڑ دیں۔ زرداریوں اور شریفوں کو تیس چالیس برس دے دیئے تو عمران خان کو ایک دو یا تین چار برس تو دے دیجئے۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔

یا شاید ہم اس بچے کی طرح ہیں جس کی ماں نے ہنڈیا چڑھا رکھی ہے اور بچہ مسلسل رو رہا ہے کہ کھانا فوراً دو۔



جب نیب تھی نہ سوئو،موٹو۔نوٹس

$
0
0
> میرے محترم اور پرانے دوست کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بڑے بڑے کام کیے‘ ڈیم بنائے‘ صنعتوں میں ترقی ہوئی‘ اس وقت نیب تھا نہ سوئو موٹو نوٹس!
> لیکن ایک اور شے بھی اُس وقت نہ تھی جو ہم بھول رہے ہیں!
> اُس وقت حکمرانوں کی آنکھ میں بُھوک نہ تھی! وہ سرکاری مال کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر خرچ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ قائد اعظم سے لے کر عبدالرب نشتر تک۔ لیاقت علی خان سے لے کر چودھری محمد علی تک۔ ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک۔ کسی پر کرپشن کا الزام نہ تھا۔ چونکہ حکمران دیانت دار تھے اس لیے بیورو کریسی میں بھی خیانت کی جرأت تھی نہ رواج۔ وفاقی سیکرٹری‘ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لاتا تھا تو کرایہ سرکاری خزانہ میں جمع کراتا تھا!!
> سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیکرٹری خزانہ یا وزیر خزانہ اگر انکار کر دیتا تھا تو اسے وزیر اعظم یا گورنر جنرل‘ یا صدر فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا! غضب کا مالیاتی ڈسپلن تھا۔ سربراہ حکومت کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون نہیں بن جاتا تھا!
> مالیاتی ڈسپلن میں پہلا شگاف جنرل ضیاء الحق نے ڈالا۔ وہ فیصلہ کرتے وقت متعلقہ وزارت کو گھاس بالکل نہیں ڈالتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے چشم دید واقعہ لکھا تھا کہ جنرل ضیاء الحق ترکی کے دورے پر تھے۔ ترکی کا حکمران اعلیٰ ترکی کی نامور شخصیات کا تعارف کرا رہا تھا۔ ایک فنکار تھا یا کھلاڑی‘ ترکی کے سربراہ نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ اس نامور فنکار(یا کھلاڑی) کو صحت کا کوئی خطرناک مسئلہ درپیش ہے جس کا علاج امریکہ میں ہو سکتا ہے مگر میری (یعنی ترکی کی) وزارت خزانہ مان نہیں رہی! صدر ضیاء الحق نے‘اُسی وقت‘ اپنی وزارت خزانہ کو خاطر میں لائے بغیر ۔ اُس کے بیرون ملک علاج کا فیصلہ کیا اور وہیں منظوری بھی دے دی!!
> جنرل ضیاء الحق کی اس بے ضابطگی کو شریفوں کی حکومت نے عروج پر پہنچا دیا۔ یہ درست ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نیب تھا نہ ازخود نوٹس۔ مگر اس وقت اتنی پست سطح کی حرکتیں بھی عنقا تھیں جو بعد کے حکمرانوں نے شروع کیں۔ ایف بی آر کا قانون بدلا جاتا۔ ایس۔ آر۔او 
(Statutory Regulatory Order) 
جاری ہوتا۔ شریف خاندان کا خاندانی کاروبار اس سے فائدہ اٹھاتا اور دوسرے دن یا تین چار دنوں بعد اس ایس آر او کو منسوخ کر دیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ساٹھ اور ستر کے حکمران اتنی پست حرکتیں کرتے تھے؟ ان میں تو کوئی تاجر اور صنعت کار تھا ہی نہیں! کہاں شریفوں اور زرداری کی بے پناہ دولت! کہاں قائد اعظم‘ لیاقت خان اور اُس دور کے دیگر حکمرانوں کی دیانت داری! چودھری محمد علی نے علاج کے لیے بطور سابق وزیر اعظم حکومت سے قرض لیا۔ اٹھارہ ہزار یا شاید اٹھائیس ہزار روپے۔ اور ایک ایک پائی واپس کی! اور کہاں کمینے اور نو دولتیے حکمران۔ وزیروں کا گھٹیا پن یہاں تک پہنچا کہ سرکاری لنچ کے لیے بغیر کام کے بیٹھے رہتے اور لنچ سرکاری خزانے سے کر کے جاتے۔
> صحافت کو لفافے کی چاٹ بھی انہی نئے حکمرانوں نے لگائی! گھروں میں کمپیوٹر اور فیکس پہنچا دیں(جو اُس زمانے میں بہت بڑا ’’گفٹ‘‘ سمجھا جاتا تھا) فائیو سٹار ہوٹلوں میں صحافی بیٹوں کے ولیمے کرتے اور بِل کوئی ایسا حکمران یا سیاستدان ادا کرتا جو کاروبار بھی کر رہا ہوتا! پھر پلاٹوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ پھر چل سو چل۔ ادھر جاتی امرا میں محلات بنے۔ اُدھر شہر شہر بلاول ہائوس! برطانیہ میں سرے محل۔
> نیو یارک میں پینٹ ہائوس۔ دبئی میں بے مثال اور بے نظیر محل۔ جدہ میں کارخانے۔ لندن میں جائیدادیں! سرکاری جہاز راجہ بازار کے ٹانگوں کی طرح استعمال ہونے لگے۔ کبھی بھنڈی منگوانے کے لیے‘ کبھی کراچی سے مٹھائی لانے کے لیے۔ پکے ہوئے کھانے سرکاری ہیلی کاپٹروں پر مری جاتے۔ حمزہ شہباز۔ مریم صفدر اور بلاول زرداری کے لیے حکمرانوں جیسا پروٹوکول۔ تیس تیس چالیس چالیس گاڑیوں کے جلوس! زرداری صاحب دبئی ہوتے تو عملی طور پر سندھ کا دارالحکومت دبئی ہوتا۔ میاں نواز شریف لندن ہوتے۔ لندن جانے اور لندن آنے کے لیے وزیروں کی قطاریوں چلتی جیسے چیونٹیوں کی چلتی ہے‘ صبح لندن تو شام کوہستان مری کی آغوش میں!
> بالکل درست ہے کہ اُس وقت سوئو موٹو نوٹس تھا نہ نیب! مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ اُس وقت حکمران نیم تعلیم یافتہ نہ تھے۔ اُن میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کا بی اے کا امتحان اس کی جگہ کسی اور نے دیا ہو! وہ ہر فائل پڑھ کر اس پر فیصلہ اپنے ہاتھ سے تحریر کرتے۔ یہاں یہ حال ہوا کہ چار برس کی وزارت عظمیٰ میں ایک فائل بھی پڑھی نہ اس پر کچھ لکھا۔ اُس وقت حکومت‘ حکمران خود کرتے تھے۔ کسی فواد حسن فواد یا کسی سمدھی اسحاق ڈار کو ٹھیکے پر نہیں دیتے تھے!
> دنیا کی یہ عجیب و غریب منطق اُس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی کہ کوئی کرپشن ثابت نہ ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ الزام کیوں لگا؟ ثابت نہ ہو سکنے کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ کرپشن نہیں کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو! آخر کرپشن کا الزام قائد اعظم پر کیوں نہیں لگا۔ عدالتوں میں لیاقت علی خان کیوں نہ گھسیٹے گئے۔ عبدالرب نشتر۔ مولوی تمیزالدین خان۔ نور الامین۔ فضل القادر چودھری‘ صبور خان‘ ان سب پر کرپشن کے الزامات کیوں نہ لگے؟ ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا الزام کیوں نہ لگا۔ نصیر اللہ بابر پر کیوں نہ لگا؟ قمر زمان کائرہ‘ صدیق الفاروق اور راجہ ظفر الحق پر کرپشن کے الزامات کیوں نہ لگے؟ اس لیے کہ کرپشن کے الزامات انہی پر لگتے ہیں جو کرپشن کرتے ہیں! رہی بات ثابت ہونے اور نہ ہونے کی تو چور کو عدالت نے چھوڑ دیا تو اس کے وکیل نے پوچھا کہ اب تو بتا دو کہ تم نے کیا چوری کی تھی؟ چور نے جواب دیا کہ وکیل صاحب! چوری تو میں نے کی تھی مگر آپ کے دلائل سن کر شک ہونے لگا ہے!
> دیانت اور خیانت۔ دونوں نہیں چھپتیں! کبھی بھی نہیں! کہیں بھی نہیں! جب حکمرانوں کی دولت میں اضافہ ہونے لگے تو ملک غریب ہو جاتے ہیں۔ معیار زندگی عوام کا گر جاتا ہے۔ بیرونی قرضے بڑھ جاتے ہیں۔ پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں۔
> ملک اس صورت میں ترقی کرتے ہیں جب مارگریٹ تھیچر اپنا کھاناخود بناتی ہو۔ صدر کلنٹن کٹہرے میں کھڑا ہو۔ حکمران کو دولت جمع کرنے کی نفسیاتی بیماری نہ لاحق ہو۔
> جب شاہ محمود قریشی صدر مملکت سے کہے کہ آپ کا وزیر اعظم پیسے بنا رہا ہے اور صدر صاحب جواب دیں کہ پھر کیا حرج ہے تو ترقی خواب و خیال ہو جائے گی اور نیب اور سوئو موٹو نوٹس ناگزیر ہو جائیں گے!!
> Muhammad Izhar ul Haq
> www.izharulhaq.net

کچھ سیاست سے ہٹ کر

$
0
0


دادی عالمِ اضطراب میں کبھی اِدھر جاتی کبھی اُدھر!

بیرون ملک سے تعطیل پر آئے ہوئے چھ سالہ پوتے کے لیے دادا نے ٹیوٹر لگوا دیا تھا کہ اردو پڑھنے لکھنے کی کچھ مشق ہو جائے۔ ابھی بیس پچیس منٹ مشکل سے ہوئے تھے۔ بچے کا والد بھی وہیں بچے کے پاس بیٹھا تھا۔ مگر دادی کا خیال تھا کہ پوتا تھک گیا ہو گا۔

دادی جان کی خدمت میں عرض کیا کہ بچہ آرے سے پیڑ تو نہیں کاٹ رہا کہ تھک گیا ہے! دادی کا استدلال یہ تھا کہ بچہ تعطیلات گزارنے آیا ہے! بالآخر بیٹھک میں جا کر ٹیوٹر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اسے چھٹی دے دیجیے دادی کی جان پر بنی ہے!!

ذہن میں نصف صدی سے زیادہ پہلے کی فلم چلنے لگی۔ دادا نے یعنی اس کالم نگار نے پہلی جماعت کا آغاز گائوں کے پرائمری سکول سے کیا تھا۔ ماسٹر صاحب کا نام منشی نور حسین تھا جو دادی جان کے دور پار کے رشتہ دار تھے۔ ان کے گائوں کا نام گلی جاگیر تھا۔ وہاں سے سائیکل پر آتے۔ کبھی کبھی‘ چھٹی کے بعد ہمارے گھر تشریف لاتے۔ کھانا کھاتے‘ چائے پیتے اور گھنٹوں دادا جان اور دادی جان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے۔ یہاں یہ یاد دلا نامناسب نہ ہو گا کہ دیہاتی زندگی میں’’مخلوط‘‘ محفلوں پر پابندی نہ تھی سب ایک دوسرے کے بھائی بہن‘ چاچے‘ مامے‘ بیٹیاں‘ بیٹے تھے۔ ہاں تعزیتی نشستیں الگ الگ ہوتیں۔ نہ صرف یہ کہ مرد عورتیں مل کر بیٹھتے بلکہ عورتیں روزی کمانے میں مردوں کا ساتھ دیتیں-

آج جو حضرات خواتین کی ملازمتوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کی ساٹھ ستر فیصد خواتین ‘ بستیوں اور قریوں میں کھیتوں کا کام نمٹاتی ہیں‘ فصل کاٹتی ہیں‘ مویشیوں کو پانی پلانے تالابوں دریائوں تک لے جاتی ہیں! ساتھ بچے بھی سنبھالتی ہیں۔ مہمان داری بھی کرتی ہیں‘ کھانا پکانا بھی کرتی ہیں‘ مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہیں‘ گوبر ٹھکانے لگاتی ہیں۔ شہر میں بھی عورت ملازمت کر لے تو کوئی آفت نہیں آتی۔ روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ایک خاتون ہی کو مدینہ کے بازار کی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔ یہ اور بات کہ بچے چھوٹے ہوں تو شہر کی عورت ملازمت کو بے شک کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر دے یہاں تک کہ بچے بڑے ہو جائیں! جوائنٹ فیملی(مشترکہ خاندان) کی جو سہولت گائوں کی عورت کو میسر ہے شہر کی عورت‘ کم و بیش‘ اس سے محروم ہے! وہاں تو جب وہ کھیتوں میں کام کر رہی ہو تو بچوں کو دادی یا نانی یا چچی یا خالہ یا پھوپھو سنبھال لیتی ہے۔

اب اس بات سے تو کشور ناہید آپا بھی اتفاق کریں گی کہ شہر کی عورت کا ملازمت کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کھانا اکثر و بیشتر باہر سے منگوایا جائے۔ یہ جو نئی افتاد آن پڑی ہے کہ فون کیجیے اور آدھے گھنٹے میں اَدھ پکا پِزا یا وحشت ناک برگر گھر پر پہنچا دیا جائے گا‘ اس افتاد نے پورے گھر کے کھانے پینے کی ثقافت کو ایک نیا ہی رُخ دے دیا ہے!

پہلے ریفریجریٹر آئے اور ہم تازہ کھانوں سے محروم ہو گئے۔ پھر یہ ہوا کہ شوہر یا بیٹے کو فون کھڑکائو کہ آتے ہوئے بازار سے بریانی یا چکن ہانڈی لیتا آئے۔اب خواتین اور بچے لانے والوں کے بھی محتاج نہیں رہے۔ انٹرنیٹ پر فون تلاش کیجیے اور کھانا گھر منگوائیے۔ ایسی کمپنیاں وجود میں آ چکی ہیں جن کا کاروبار ہی یہی ہے کہ کھانا ریستوران سے لے کر گھروں میں پہنچائیں اور پہنچانے کا معاوضہ کھڑے کھڑے وصول کر لیں۔

منشی نور حسین صاحب کے ہاتھ میں ہمہ وقت کالے رنگ کا ایک ڈنڈا رہتا تھا۔ سارا پرائمری سکول ایک ہی بڑے ہال نما کمرے میں واقع تھا۔ سب جماعتوں کے بچے وہیں بیٹھتے تھے۔ ایک ہی استاد سب کو پڑھاتا تھا۔ دادیاں اس وقت بھی دادیاں تھیں اور اس ماڈرن زمانے میں بھی دادیاں ہیں۔ دادی جان تنور سے روٹیاں اتارتیں تو دو منٹ کے پیدل فاصلے پر سکول پہنچ جاتیں اور منشی صاحب سے کہتیں’’بچے کو ذرا لیے جا رہی ہوں۔اس نے کھانا کھانا ہے!’’منشی صاحب کمال شفقت سے اجازت دے دیتے۔ شاید اس میں رشتہ داری کا بھی کردار تھا۔ گھر لا کر‘ تنور کی گرم روٹی پر ڈھیر سارا مکھن اور شکر ڈال کر دادی جان منہ میں نوالے ڈالتیں۔ ساتھ دودھ یا لسی ہوتی۔ کبھی کبھی میں واپس سکول جانے سے انکار کردیتا۔ دادی جان فوراً مان جاتیں مگر دادا جان ایسے میں جلال میں آ جاتے۔ دادی جان ہتھیار ڈال دیتیں اور بچے کو پھر سکول بھیج دیا جاتا۔

سکول یعنی کمرے کے باہر کھلا صحن تھا ایک طرف گڑھے میں ٹوٹا ہوا گھڑا گڑا تھا اس میں پانی ہوتا۔ یہیں ہم اپنی اپنی تختیاں دھوتے اور سکھانے کے لیے ہاتھ میں پکڑ کر تختی کو آگے پیچھے لہراتے جیسے جُھولا جُھلا رہے ہوں۔ خود کُشی کو خودکَشی کہنے پر جب دادا جان نے تھپڑ رسید کیا تھا اور کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کس کا پوتا ہے۔ تو دادی جان نے دادا جان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تھپڑ ایک بار اور بھی پڑا۔ دادا جان گھوڑی پر سوار ہو کر سفر پر جاتے تو ایک ملازم ساتھ ہوتا جس کا بنیادی کام گھوڑی کی دیکھ بھال ہوتا۔ اس ملازم کو نام لے کر بلایا تو تھپڑ پڑا کہ وہ چاچا ہے۔ نام لے کر نہیں بلانا!

دادیوں‘ نانیوں اور دادوں‘ نانوں سے بچوں کے ماں باپ ایک احمقانہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ

’’ہمیں تو آپ خوب کھینچ کر رکھتے تھے‘ انہیں کچھ نہیں کہنے دیتے۔‘‘

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب خوب کھینچ کر رکھتے تھے‘ اُس وقت ماں باپ تھے‘ وہ کردار ماں باپ کا تھا۔ اب دادا دادی یا نانا نانی ہیں۔ وقت نے کردار بدل ڈالا ہے! اب بچوں سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔ اپنے بچے چھوٹے تھے تو غمِ روزگار نے جکڑ رکھا تھا۔ سارا دن دفترمیں یا دکان پر گزرتا۔ شام کو تکان غالب آ جاتی!!

انگریزی کا محاورہ ہے کہ دادا دادی نانا نانی اِدھر دروازے سے گھر میں داخل ہوئے اُدھر ڈسپلن کھڑکی کے راستے باہر کود گیا۔ اب کہاں کا نظم و ضبط اور کہاں کی پابندی! جن دنوں چین میں وَن چائلڈ پالیسی عروج پر تھی یعنی صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی تو عجیب عجیب مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہفتہ ختم ہونے کو ہوتا تو اِدھر سے دادا دادی سکول پہنچ جاتے۔ اُدھر سے نانا نانی دونوں کی خواہش ہوتی کہ بچہ سنیچر اور ایتوار ان کے ساتھ گزارے۔ اس پر اچھے خاصے جھگڑتے ہوئے! ان بچوں کی دونوں گھروں میں خوب خاطر مدارت ہوتی کہ ایک ہی نواسا ہوتا اور وہی واحد پوتا بھی ہوتا۔یہ نسل جوان ہوئی تو جسمانی طور پر موٹی نکلی اور رویے میں بدتمیز اور گستاخ !لاڈ پیار نے یہ دن دکھایا!

غالباً کینیڈا کا ایک ریستوران تھا جہاں ایک سفید فام بڑھیا‘ انواع و اقسام کے ماکولات بچے کے سامنے رکھے کھلائے جا رہی تھی۔ پوچھا‘ نواسا ہے یا پوتا؟ کہنے لگی نواسا! کہا بچوں کے ماں باپ الزام لگاتے ہیں کہ ہم انہیں بگاڑ رہے ہیں۔ چمک کر بولی ہاں! ہم بگاڑتے ہیں اور بگاڑیں گے! میں نانی ہوں‘ لاڈ پیار نہیں کروں گی تو کیا ماروں گی؟ اور میں بھی لاڈ پیار نہ کروں تو کون کرے گا؟

بچپن انہی بچوں کا بھر پور گزرتا ہے جنہیں یہ نعمت میسرہو!!۔











Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

اس سے پہلے کہ چڑیاں چُگ جائیں کھیت

$
0
0

ریلوے کے وزیر نے اعلان کیا ہے کہ سی پیک معاہدے کے تحت‘ ریلوے منصوبوں کے حجم میں دو ارب ڈالر کی کمی کر دی گئی ہے۔ اب یہ حجم آٹھ ارب سے کم ہو کر چھ ارب رہ گیا ہے۔ اسے چار ارب تک لانے کا پروگرام ہیْ وجہ یہ ہے کہ بقول وزیر ریلوے قرضوں کی بڑھتی ہوئی شرح نقصان دہ ثابت ہو گی! 

تحریک انصاف کی حکومت جس طرح کچھ دیگر معاملات میں مذبذبین بین ذالک لا الیٰ ہو لا ولا الیٰ ھولا کی کیفیت کا شکار ہے‘ بالکل اسی طرح سی پیک کے معاملے میں ایک واضح موقف اپے میں بھی ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے۔ تذبذب کے سبب پوری طرح اس طرف نہ اس طرف! اور اگر حکومت کے تھیلے میں واضح موقف موجود ہے تو پھر اسے چاہیے کہ یہ موقف عوام تک پہنچائے۔ سخی سے شوم بھلا جو ترت دے جواب! یہ تاثر روز بروز گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ سی پیک کے معاملے میں موجودہ حکومت کا رویہ اگر معاندانہ نہیں بھی ہے تو غیر ہمدردانہ ضرور ہے! یہ تاثر جو ہر نئے دن‘ پختہ تر ہو رہا ہے‘ حکومت کے لیے مفید ہے؟ یا نقصان دہ؟ اس کا جواب واضح ہے!! 

اگر حکومت کا موقف یہ ہے کہ سی پیک کے معاہدوں میں شفافیت نہیں تھی تو پھر اس پر لازم ہے کہ ان کو منظرِ عام پر لائے۔ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان معاہدوں میں سفید حصہ کتنا ہے اور سیاہ کتنا؟ اگر چین کو ناروا حد تک زیادہ فائدہ ہے تو پاکستانی عوام کو بتانے میں کیا حرج ہے؟

حکومت سی پیک کے اردگرد یوں لگتا ہے مکڑی کا ایک جالا‘ دانستہ یا نادانستہ‘ بن رہی ہے! ابہام در ابہام! ایک قدم آج آگے بڑھتا ہے تو کل دو قدم واپس ہو جاتی ہے۔ جیسے ملک میں سی پیک کا کوئی والی وارث نہیں! احسن اقبال غلط تھے یا صحیح۔ کم از کم سی پیک کواپنا بے بی مانتے تھے۔ اب تو یہ لاوارث بچہ چوک پر کھڑا ہے۔ حیران پریشان! کوئی اسے اپنانے کو تیار نہیں! پھر سعودی عرب کے عنصر کو درمیان میں ڈال کر مسئلے کو اور پیچیدہ کر دیا گیا ہے 

اور سعودی عرب کو ڈالا بھی یوں ہے کہ وہ اندر ہے نہ باہر! کچھ پہلوئوں سے سعودی انکار کر رہے ہیں کچھ سے چینی‘ رضا ربانی اور ان کے‘ ہم خیال‘ نظریاتی رفقا‘ الگ خم ٹھونکے کھڑے ہیں ایسے میں حکومتی عمائدین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو تکنیکی بنیادوں پر معاملے کی وضاحت کر سکے۔ 

حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کہیں ’’عدم تسلسل‘‘ کا نقصان اس کے ذمہ نہ لگ جائے۔’’عدم تسلسل‘‘ کیا ہے؟ یہی کہ جو منصوبے گزشتہ حکومت نے شروع کیے تھے‘ ان کا رُک جانا! ایسے ادھورے منصوبے چونکہ جسمانی طور پر نظروں کے سامنے آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں اس لیے رائے سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں! عوامی تبصرہ ان کے ادھورے پن پر عموماً یہ ہوتا ہے کہ 

’’پچھلی حکومت ہی بھلی تھی جس نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ انہوں نے آ کر بند کر دیا ہے۔ دشمنی اس حد تک بھی نہیں جانی چاہیے!‘‘ 

ایک بُری مثال اس’’عدم تسلسل‘‘ کی میٹرو بس کا وہ منصوبہ ہے جو گزشتہ حکومت نے دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ کو اسلام آباد سے مربوط کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔ کام زور و شور سے ہو رہا تھا۔ پشاور موڑ سے پشاور روڈ کی طرف تعمیر جاری تھی۔ نئی حکومت آئی تو تعمیر کا یہ کام رُک گیا۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ کام ہو رہا ہے مگر بددلی سے! اب حالت یہ ہے کہ شاہراہ کے دونوں طرف بڑے بڑے قوی ہیکل سٹرکچر پڑے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہر روز دیکھتے ہیں۔ اور گزشتہ حکومت سے ہمدردی کی ایک لہر اپنے دلوں میں اٹھتی پاتے ہیں۔ پھر وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ان منصوبے کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ سٹرکچر اسی طرح پڑے رہیں گے؟ حکومت اس منصوبے کو پسند کرتی ہے یا نہیں‘ اب یہ اس کے گلے کا ہار ہے۔ بقول محبوب خزاں ؎ 

محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا 
کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا

حکومت مکمل کر کے اس کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔ ورنہ اس سے منفی تاثر تو پھیل ہی رہا ہے! 

’’عدم تسلسل‘‘ کا دوسرا نمونہ جو کم بُرا نہیں‘ ایکسپریس ہائی وے کا معاملہ ہے ۔یہ وہ شاہراہ ہے جو روات‘ یعنی جی ٹی روڈ کو فیض آباد سے ملاتی ہے۔ یہ علاقے کی مصروف ترین شاہراہ ہے۔ ہر روز لاکھوں افراد چکوال جہلم ‘دینہ‘ منگلا‘ مندرہ‘ گوجر خان‘ کلر سیداں روات اور بیسیوں دوسری بستیوں سے اس شاہراہ کے راستے دارالحکومت پہنچتے ہیں اور واپس جاتے ہیں!اسلام آباد کی نئی آبادیاں جو سی ڈی اے کی کرپشن اور نالائقی کی وجہ سے نجی طور پر بسانا پڑ گئیں وہ سب بھی اسی شاہراہ کے اردگرد سانس لے رہی ہیں۔ بحریہ ٹائون کے آٹھ فیز۔ ڈی ایچ اے کے پانچ فیز۔ نیوی کالونی‘ پی ڈبلیو ڈی۔ پولیس فائونڈیشن ‘ میڈیا ٹائون‘ ڈاکٹرز ٹائون‘ پاکستان ٹائون‘ گلبرگ‘ جناح ٹائون‘ غوری ٹائون‘ کُرنگ ٹائون اور دیگر ملحقہ آبادیوں سے بھی لاکھوں لوگ اس شاہراہ کو برت رہے ہیں۔ پچھلی حکومت نے فیض آباد سے گلبرگ تک اسے وسیع اور جدید کر دیا تھا۔ آخری ٹکڑا گلبرگ سے روات چوک تک رہتا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اخباری اطلاع کے مطابق‘ اس ٹکڑے کی تعمیر و توسیع کے لیے مطلوبہ فنڈز منظور کر کے جاری کر دیے تھے۔ اب خبر یہ گردش کر رہی ہے کہ یہ منصوبہ ادھورا ہی رہے گا۔ حکومت پر لازم ہے کہ اس ادھورے کام کو فوراً پایۂ تکمیل تک پہنچائے ورنہ لاکھوں افراد پر مشتمل یہ وسیع و عریض پٹی ساری کی ساری مخالف ہو جائے گی اور بے بسی کے مارے ہوئے لوگ‘ اور کچھ نہ کر سکے تو تحریک انصاف کو اپنے ووٹوں سے ضرور محروم کر دیں گے! کوئی ہے جو ان پہلوئوں سے وزیر اعظم کو آشنا کرے اور خبردار بھی!! 

رہا معاملہ رانا مشہود صاحب کے بیان کا تو اسے مجذوب کی بڑ گرداننے والے غلطی پر بھی ہو سکتے ہیں! تادمِ تحریر‘ رانا صاحب اپنے ہوش و حواس میں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے کسی سبب‘ کسی بنیاد کے بغیر اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہو! اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ متعلقہ حلقے‘ وزیر اعظم کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پنجاب کا معاملہ اطمینان بخش نہیں! حضور! اس کا کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ چڑیاں کھیت چُگ جائیں! جو حضرات یہ نتیجہ نکال کر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ داد وصول کرنے کے لیے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ نون لیگ بالآخر اپنے بیانیے سے منحرف ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی ہے‘ وہ یقینا غلط فہمی کا شکار ہیں! تردید تردید کا کھیل اس ملک میں عام ہے۔ ایک فِیلر چھوڑا جاتا ہے‘ ایک حقیقت کا کچھ حصہ منکشف کیا جاتا ہے۔ پھر ردِ عمل کو غور سے دیکھا اور جانچا جاتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو تردید کر دی جاتی ہے۔ یا کہا جاتا ہے کہ بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ 

پنجاب کا بہت بڑا دھڑ اِس وقت بغیر سر کے ہے! پہلے بھی عرض کیا۔ بہت سوں نے اس کمزوری کی‘ اس سقم کی نشان دہی کی۔ مگر ؎ 

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے 
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں 

اور یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ احسن اقبال جمیل نے غیر مشروط معافی مانگ لی! جیسے وہ لشکر لے کر زبردستی وزیر اعلیٰ کے گھر میں گُھسے تھے! خدا کے بندو! یا تو انہیں آنے کی دعوت دی گئی‘ یا وہ آئے تو انہیں اندر آنے کی اور سینئر پولیس افسروں سے بات چیت کرنے کی اجازت دی گئی۔ چیف منسٹر وہاں اس وقت موجود تھے! کیا ان کا کوئی قصور نہیں! کیا کوئی جاندار وزیر اعلیٰ ایسا کر سکتا تھا؟ 

پنجاب کو سنبھالیے ! جناب وزیر اعظم! اس سے پہلے کہ چڑیاں چُگ جائیں کھیت! غلطی ہو گئی ہے تو اعتراف کرنے میں کوئی برائی نہیں! مزید نقصان سے تو بچ جائیں گے!!
بشکریہ روزنامہ۔ 92


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

ملازم ہیں ہم خاندانی یہاں

$
0
0

نوجوان آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھا رہا تھا۔

فلمیں یاد آ گئیں جن میں سلطان راہی یا مصطفی قریشی اسی انداز میں چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ، گردن اوپر کر کے! صرف بازو آگے پیچھے، متکبرانہ انداز میں ہلانے کی کسر باقی تھی۔

آج لکھنا تو اُس زبردست ’’کامیابی‘‘ پر تھا جو عالمِ اسلام کے مقدس ترین ملک کو حال ہی میں نصیب ہوئی ہے مگر صبح صبح ٹیلی ویژن دیکھ کر یہ نیا سیاپا آڑے آ گیا! سو، سوچاکہ قارئین کو اِس بے کنار ’’مسرت‘‘ میں شامل کر لیا جائے۔

نوجوان کا تعلق کسی شاہی خاندان کے ساتھ نہیں، مگر عملاً وہ شہزادہ ہے۔ شہزادہ کسے کہتے ہیں؟ کیا اس کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟ کیا وہ آسمان سے براہِ راست نیچے اترتا ہے؟ کیا پیدائش کے وقت ایک غیبی آواز اعلان کرتی ہے کہ شہزادہ تولّد ہوا ہے۔ نہیں! ایسی کوئی بات نہیں! شہزادہ وہ ہوتا ہے جسے اقتدار وراثت میں ملے۔ اسے اس کے لیے جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ اردگرد اُن مصاحبین، امرا اور غلاموں کا حصار کھنچا ہو جو اس کے والد، دادا، والدہ، نانا کے زمانے سے شاہی خاندان کے وفادار رہے ہوں۔ گویا ؎ 
لہ
یہ کوٹھی ہے صاحب! ترے عشق کی
ملازم ہیں ہم خاندانی یہاں

بابر اور ہمایوں شہزادے ہی تو تھے۔ فرغانہ سے بابر کو نکلنا پڑا تو ساری جدوجہد کے دوران یہ پشتینی وفادار ساتھ رہے۔ ہمایوں کا جب شیر شاہ سوری تعاقب کر رہا تھا تو اس کے ساتھ چند خاندانی وفادار ہی تھے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ وہ خود کبھی بادشاہ نہیں بن سکتے۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا اور ہمایوں کے بعد اس کا فرزند اقتدار سنبھالیں گے۔ ادب کے طالب علم کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ پر بات کرتے کرتے شاعری کی طرف جانکلتا ہے۔ بابر اور ہمایوں بھٹکتے رہے۔ کبھی فرغانہ سے سمرقند کبھی کابل کی طرف۔ ہمایوں پنجاب سے بھاگا۔ سندھ آیا۔ عمر کوٹ کے مقام پر اکبر پیدا ہوا۔ پھر ایران گیا۔ اس سارے عرصہ میں خاندانی وفادار ساتھ رہے۔ معین نظامی نے کیا دل آویز نظم کہی ہے ؎

مرا میمنہ میسرہ/بادو بارانِ بے اعتنائی کے طوفان میں/اک زمانہ ہوا قلب سے کٹ چکا ہے/ان ایام خانہ بدوشی میں/میرے جلو میں، مرے قلب کے/صرف کچھ جاں نثارانِ مجروح باقی بچے ہیں/جو سانسوں کی ڈوری کے کٹنے تلک/میرے ہم راہ ہوں گے/مجھے ازم گاہوں کے آداب آتے نہیں ہیں/مرے خیمۂ دشتِ غربت میں مرتے ہوئے/باپ دادا کے جنگ آزما/احتراماً مجھے کچھ سکھاتے نہیں ہیں/جو شہ مات میری بساطِ تشخص کو درپیش ہے/اس سے کیسے بچوں/کچھ بتاتے نہیں ہیں!!

شہزادہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔ کیمرے والوں کا ہجوم تھا۔ شاہانہ سبک خرامی کی تصویریں لینے کے لیے فوٹو گرافر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کڑی جدوجہد کر رہے تھے۔ پرانے خاندانی وفادار ساتھ تھے۔ کچھ تو پیچھے پیچھے یوں سمجھیے لڑھکتے چلے آ رہے تھے جیسے تارڑ صاحب کے بقول اُبلا ہوا انڈا لڑھکتا ہے! طمطراق اور تزک و احتشام اس قدر تھا جیسے عدالتِ عالیہ کی سمت عالی ترین عدالت چلی آ رہی ہے۔

مروّت، خوف فیوڈلزم اور شاہ پرستی سے چھلکتے ہوئے اس معاشرے میں فقط سوچ آزاد ہے۔ جو اُڑ کر، کہیں بھی، کسی بھی منڈیر پر بیٹھ سکتی ہے۔ شہزادے کو دیکھا، اس کے پشتینی فدائیوں کی وابستگی دیکھی۔ پھر فوٹو گرافروں کی جدوجہد دیکھی تو سوچ سارے بندھن توڑ کر پوچھنے لگی، شہزادے کے
 Credentials
 کیا ہیں؟ کیا اس نے جماعت کی شریک سربراہی تک پہنچنے کے لیے طویل سیاسی سفر طے کیا ہے؟ کیا اس نے سیاست سب سے نچلی سطح سے شروع کی؟ کیا پارٹی نے اسے اس منصب کے لیے کسی کے مقابلے میں منتخب کیا؟ نہیں! کچھ بھی نہیں! واحد وجہ اس سیاسی امارت کی شہزادگی ہے۔ 
Credentials
صرف اور صرف یہ ہیں کہ والدہ پارٹی کی سربراہ تھیں۔ وہ اس لیے تھیں کے ان کے والد سربراہ تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد والد محترم نے سربراہی سنبھالی۔ اگر بے نظیر کے بجائے مرتضیٰ بھٹو پارٹی کے سربراہ بنتے تو آج مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا یا بیٹی اس میراث کے مالک ہوتے۔

نصرت بھٹو کا یہ قول مشہور ہے کہ بھٹو خاندان کے افراد حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔
‏Bhuttos are Born to rule
نوجوان جب چل رہا تھا اور کیمرے جب اسے چلتے ہوئے دکھا رہے تھے تو نانی جان کا یہ قولِ فیصل فضا پر پوری طرح چھایا ہوا تھا۔ یہی صورت حال دیگر بڑی جماعتوں کی ہے۔ مسلم لیگ نون جمہوریت کی اِس ’’رُوح‘‘کو برقرار رکھنے میں پیپلزپارٹی سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں۔ دختر نیک اختر کا اعتبار بھی صرف اور صرف شہزادگی ہے۔ حمزہ شہباز کے والد صوبے کے بادشاہ تھے تو شہزادے کے سامنے وزیروں اور پارٹی کے سفید ریش ارکان کی حیثیت ملازموں سے زیادہ نہیں تھی۔ مفتی محمود کی وفات ہوئی تو پوری جماعت میں کوئی اہل نہ تھا۔ سوائے مفتی محمود کے فرزند کے جس کے سر پر پارٹی سربراہی کا تاج رکھا جاتا۔ اب مفتی صاحب کا پوتا ولی عہد کے عہدے پر فائز ہے۔ اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی کو بھی یہ سربراہیاں ورثے میں ملی ہیں۔ رضا ربانی ہوں یا اعتزاز احسن یا کائرہ صاحب یا شیری رحمن، خواجہ آصف ہوں یا راجہ ظفر الحق یا احسن اقبال، یا حافظ حسین احمد، یہ اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ قیامت تک نہیں بن سکتے۔ ان کے مقدر میں فقط شہزادوں اور شہزادیوں کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ہے۔ ان کے بخت میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کو تخت پر بٹھانے کے لیے انہوں نے جدوجہد کرنی ہے۔ ماریں کھانی ہیں، جیلوں میں جانا ہے۔ نعرے لگانے اور لگوانے ہیں! اور بس!!

کسی نے جمہوریت کا اصل ’’چہرہ‘‘ دیکھنا ہو تو سندھ کی اقلیم میں جا کر شہزادے کی تام جھام دیکھے۔ پروٹوکول کی گاڑیاں گنے۔ سفید سر اور سفید ریش ارکانِ جماعت کو حالتِ رکوع میں دیکھے۔ پنجاب کے شہزادے اور وفاق کی شہزادی کے گاڑیوں کے جلوس ابھی کل کی بات ہے۔ چالیس چالیس گاڑیاں، یہ منظر بھی دیکھنے والے نہیں بھولے کہ شہزادی سرخ قالین پر چل رہی تھی اور سپیکر، ساتھ ساتھ یوں چل رہا تھا کہ قدم سرخ قالین پر نہ آئے۔ سبحان اللہ! کیا احتیاط تھی! اس نظریاتی اسلامی مملکت میں صرف ولدیت ہے جو اہم ہے۔ ابھی ہم عوام نے مزید پوتوں اور نواسوں کو بھگتنا ہے۔ ابھی ہم نے مزید دامادوں کے سایۂٔ اقتدار میں بیٹھنا ہے۔

پارٹیوں کے اندر اصلی اور حقیقی انتخابات کا کوئی امکان دور دور تک نہیں دکھائی دے رہا۔ کس میں ہمت ہے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کے حقِ وراثت کو چیلنج کرے۔

رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے!


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

جب باغ چھپروں پر گر پڑتا ہے!

$
0
0
> اور اُن دو شخصوں کی مثال
> ان میں سے ایک کے دو تاکستان تھے‘ انگوروں سے بھرے ہوئے۔ اردگرد کھجوروں کی باڑ! اور درمیان میں کھیتی! دونوں چمنستان بھر پور پھل دیتے ذرا سی کسر بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی نہیں! درمیان میں نہر بھی رواں تھی!
> پھل اُترا اور خوب اُترا! پھر اس نے دوسرے شخص کو جتایا کہ میرے پاس مال و متاع بھی خوب ہے اور افرادی قوت بھی! پھر وہ اپنے چمنستان میں اٹھلاتا ہوا داخل ہوا۔ زعم میں !
> ’’کیسے ممکن ہے کہ اس پر کبھی زوال آئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روز حساب آئے گا! آیا تو میں وہاں بھی مراعات یافتہ ہی رہوں گا!‘‘
> مگر ہوا کیا؟ پھل اس کے سمیٹ لیے گئے!چمنستان اپنے چھپروں پر اُوندھا ہو گیا اور مالک ہاتھ ہی ملتا رہ گیا!!
> میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری پر یہ مثال بے طرح یاد آ گئی! کیا غرّہ تھا اورکیا تکبّر! حساب کتاب کا تو ذکر ہی کیا‘ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بے کنار طاقت‘ یہ بے پناہ اختیار! یہ مکمل بادشاہی‘ بے زبان‘ بے دماغ غلاموں کا یہ ٹڈی دل لشکر۔ صاحبزادے کا مغل شہزادوں جیسا طمطراق! وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا!
> جسے انجام کا ڈر ہو جو یہ سوچے کہ کل سوالوں کے جواب دینے ہوں گے‘ دنیا میں اور آخرت میں۔ وہ اپنے آپ کو روک کر رکھتا ہے! بے مہار نہیں ہو جاتا۔ بے لگام خواہشوں کو ٹوکتا ہے! مگر شہباز شریف!! سچی بات یہ ہے کہ طاقت کے بے محابا استعمال اور بے حد و حساب اقتدار کے نشے میں انہوں نے عملاً تیمور کو اور شاہ عباس صفوی کو پیچھے چھوڑ دیا! صوبائی اسمبلی میں وہ جاتے ہی نہیں تھے کہ سوالوں کے جواب دیں! کابینہ اتنی بے وقعت تھی کہ رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی وزیر کا نام ہی کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں کے دورے کرتے تو وزیر صحت یا تو خود ہوتے یا کوئی ہوتا تو اسے خاطر ہی میں نہ لاتے۔ یہی حال دیگر محکموں کا تھا۔
> تیسری قوت روکنے والی بیورو کریسی تھی اس کا علاج موصوف نے خوب کیا! بیورو کریسی کے اندر سے گردے‘ دل‘ پھیپھڑے ‘ انتڑیاں‘ جگر‘ دماغ سب کچھ نکالا‘ جاتی امرا محل کے اندر وسیع و عریض صحن میں یہ سارے اعضا تار پر لٹکا دیے۔ پھر بیورو کریسی کے اس چیرے ہوئے جسم کو سیا اور مردے کو اٹھا دیا۔ بس یہ تھی وہ بیورو کریسی جو ان کے احکام پر ایک مردے کی طرح ایک 
Zombie
کی مثال‘ ایک روبوٹ بن کر‘ بے چون و چرا عمل کرتی تھی!
> نسخہ کیمیا چھوٹے میاں صاحب کے ہاتھ میں یہ آیا کہ جونیئر افسروں کو اوپر لائو اور جو سینئر افسر شاہی عقل کی بات بتانے کی ہمت رکھتی تھی اسے کونوں کھدروں میں ڈال دو۔ جونیئر افسر جب شاہ کے قریب ہوتا تو مجسم پلاسٹک بن جاتا۔ بادشاہ دن کو رات کہتا تو یہ دن میں چاند تارے بھی ڈھونڈ لیتا۔
> حکومت کے قوانین سے جان چھڑانے کے لیے شہباز شریف نے ایک عجیب و غریب کام کیا جو کبھی کسی حکومت نے نہ کیا ہو گا۔ چھپن کمپنیاں بنا کر پوری صوبائی حکومت کے متوازی ایک نجی حکومت کھڑی کر دی۔ جن افسروں کے دودھ کے دانت ابھی گرے نہیں تھے انہیں دس دس بارہ بارہ پندرہ پندرہ لاکھ روپے تنخواہیں دیں۔ مراعات کا موٹا بھاری بنڈل اس کے علاوہ! پھر غضب اندر غضب یہ کیا کہ ان کمپنیوں کے جو قوانین و ضوابط خود بنائے تھے‘ ان کے بھی پرخچے اڑا دیے‘ بورڈ آف ڈائریکٹرز ہر کمپنی کا بے بس ہو کر رہ گیا۔ فیصلے وزیر اعلیٰ کرتے شہزادہ بھی اجلاسوں میں شریک ہوتا۔ کچھ دن پہلے سپریم کورٹ نے پوچھا کہ میاں صاحبزادے کس حیثیت سے ان اجلاسوں میں بیٹھ کر حکم چلاتے تھے تو شہباز شریف نے جو جواب دیا وہ اس ملک کی تاریخ کا غلیظ ترین حصہ ہے۔ فرمایا کہ صاحبزادے پارٹی کے رکن کی حیثیت سے ان اجلاسوں میں اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔ غالب ہوتے تو ضرور کہتے ع
> شرم تم کو مگر نہیں آتی!
> کاش چیف جسٹس پوچھتے کہ پوری مسلم لیگ نون میں سوائے آپ کے بیٹے کے اور کوئی اس لائق نہ تھا؟
> تین عشروں سے زائد شہباز شریف نے پنجاب کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ بارہا وزیر اعلیٰ بنے۔ قبضہ گروپ ان کے ہمایونی عہد اقتدار میں دندناتا پھرا۔ موجودہ حکومت نے غصب کی ہوئی زمینیں واگزار کرائی ہیں تو ان کی مالیت کا سُن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں!
> اس سارے عرصہ میں شہباز شریف نے کسی پریس کانفرنس میں کسی ڈھنگ کے سوال کا جواب نہ دیا۔ جواب کیا دیتے! سوال ہی کسی کو نہ پوچھنے دیا۔ شہباز شریف اپنے آپ کو احتساب سے‘ حساب کتاب سے‘ کسی قسم کی باز پرس سے مکمل ماورا گردانتے تھے۔ کتنی ہی بار لندن گئے؟ موجودہ حکومت کو یہ ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کتنی بار لندن گئے؟ وزارت خارجہ‘ وزارت پانی وبجلی‘ وزارت توانائی‘ ہر جگہ دخیل تھے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے۔ شعبدہ باز پرلے درجے کے!! ہیٹ پہن کر تیز تیز چلتے جیسے زمین گائے کے سینگ پر نہیں‘ ان کے ہیٹ پر کھڑی ہے۔ تقریر کرتے تو پیٹ پھاڑ کر گلیوں میں گھسیٹنے کی دھمکی دیتے بعد میں 74پکوان تیار کرا کے معافیاں مانگتے! سیلاب کی روک تھام کے لیے اقدامات صفر مگر جب سیلاب آتا اور تباہی مچ چکتی تو گھٹنوں تک لمبے بوٹ پہن کر شعبدہ بازیاں کرتے۔ کبھی انگلی نچاتے!
> شہباز شریف کی گرفتاری ایک نشان عبرت ہے! یہ گرفتاری چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اپنے آپ کو مختار کل سمجھنے والے ہوش میں آئیں۔ رسی دراز ہے مگر ایک نہ ایک دن اس رسی کو ضرور کھینچ لیا جائے گا۔ کیا خبر اس گرفتاری میں اُس سرکاری ملازم کی بددعا بھی کار فرما ہو جس کے تین بچوں کی ماں کو شہباز شریف نے طلاق دلوائی اور اس سے شادی رچائی! حضرت مشرق وسطیٰ میں ہوتے تو زواج المسیار کے موجد ہوتے! صاحبزادے کا پول بھی عائشہ احد ملک نے خوب کھولا۔ قاضی القضاۃ نے ذاتی دلچسپی لے کر معاملے کو رفع دفع کیا۔ بعض شوق بھی وراثت میں منتقل ہوتے ہیں!
> اب۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ! دیکھیے احد چیمہ اور فواد حسن فواد کیا کچھ کرتے ہیں! کیا کچھ بتاتے ہیں! ع
> جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
> تاریخ عالم نہیں اپنے ملک ہی کی تاریخ دونوں بھائی پڑھ لیتے تو مسعود محمود کی وعدہ معاف گواہی سے عبرت پکڑتے اور اپنے آپ کو مخمور نہ کرتے۔ بے خود نہ ہوتے!
> مگر ہائے اقتدار کی شراب!
> آہ!حکومت کا بادۂ‘ ناب!
> دماغ کو نشہ ایسا چڑھتا ہے کہ آدمی سب کچھ بھول جاتا ہے۔ پھرعیدی امین ہو یا شاہ ایران‘ حسنی مبارک ہو یا شہباز شریف! وہ دن آتا ہے اور ضرور آتا ہے کہ زنداں کا در کھلتا ہے۔ نشہ اترتا ہے اور کہانی ختم ہو جاتی ہے!!
> Muhammad Izhar ul Haq
> www.izharulhaq.net

خوشیاں منائو اے اہل پاکستان

$
0
0


شکیب جلالی نے کہا تھا: 

یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی 
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا


کیا معلوم تھا کہ بہشت صرف چند فرسنگ کے فاصلے پر ہے 


اےاہل پاکستان! تمہارے درد کے دن ختم ہونے کو ہیں، یہ جو تم اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، بیٹیوں کے فراق میں تڑپتے رہتے ہو، یہ جو تم ہفتے میں کئی بار سکائپ پر اور وٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر اور میسنجر پر سمندر پار رہنے والے عزیزوں سے باتیں کر کے جدائی کی پیاس بھڑکاتے رہتے ہو، اب اس کی ضرورت نہیں۔ انہیں کہو واپس آ جائیں، ان کے پاس امریکہ کی شہریت ہے یا یورپی ملکوں کی، جاپان کی یا آسٹریلیا کی، ان کے منہ پر ماریں، جہاز میں بیٹھیں اور اپنے وطن واپس آئیں۔ بہت ہو چکا سفید فام قوموں پرانحصار، قدرت نے ایک اور دروازہ کھولا ہے۔ 

قوم کے محسن، پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے سیاسی عبقری، مسلم لیگ ن کے عظیم اتحادی میاں نوازشریف کے جگری یار اور عالم بے بدل فاضل اجل حضرت مولانا کے جڑواں ساتھی خان محمود اچکزئی نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کی شہریت حاصل کریں۔ فرمایا ہے کہ لاکھوں پاکستانی دوسرے ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں تو پاکستان کے پشتون افغانستان کے شہری کیوں نہیں بن سکتے؟ 

پنجاب میں بسنے والے اور کاروبار کرنے والے لاکھوں پشتونوں کے لیے کتنی بڑی خوش خبری ہے کہ ظالم پنجابیوں سے انہیں نجات ملے گی۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی سے ہمارے پشتون بھائی قطار اندر قطار افغانستان جائیں گے اور وہاں شہریت لیں گے۔ کراچی سے بھی کروڑوں نہیں تو لاکھوں پشتون افغانستان جائیں گے۔ کیا ضرورت ہے انہیں کراچی کی دھوپ میں جلنے کی اور مرطوب آب و ہوا میں پھیپھڑوں کو زنگ آلود کرنے کی۔ 

صرف ایک التجا ہے محمود خان اچکزئی سے، گڑ گڑا کر التجا کرتے ہیں کہ خدارا یہ خوش خبری صرف پشتونوں تک محدود نہ رکھو۔ سارے پاکستانیوں کو افغانستان کی شہریت کا حقدار قرار دو۔ خدا تمہیں جزا دے۔ اچھی جزا، احسن الجزا۔ 

اب ہمارے بچے جو آکسفورڈ، ہارورڈ، کیمبرج، کولمبیا اور برکلے یونیورسٹیوں کے لیے پردیس کا بن باس کاٹتے ہیں، قندھار، خوست اور جلال آباد کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اتوار کے دن بس میں بیٹھے اور چند گھنٹوں بعد راولپنڈی، کراچی یا لاہور پشاور پہنچ گئے۔ اس سے زیادہ خوش بختی کیا ہوگی۔ پیر کے دن صبح واپس۔ 

حیرت اس پر ہے کہ یہ روشنی محمود خان اچکزئی نے پہلے کیوں نہ دکھائی۔ پاکستانی قوم کب سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کوئی راہ نجات نہ تھی، ہمارے پروفیسر، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے انجینئر، ہمارے آئی ٹی کے ماہرین، سفید فام ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر قطاریں باندھے کھڑے رہتے تھے۔ اب افغانستان کی شہریت کھلے گی تو دلدر سارے دور ہو جائیں گے۔ اے محمود خان اچکزئی! تمہارے منہ میں گھی شکر، قوم کا حقیقی محسن اگر کوئی ہے تو اے بطل جلیل، تم ہو، فقط تم۔ 

اب ہمارے ماہرین امراض قلب، یعنی کارڈیالوجسٹ، ہمارے سرجن، ہمارے آئی سپیشلسٹ، اب ہیوسٹن، نیویارک لندن اور سڈنی کے ہسپتالوں کو خیرباد کہہ کر کابل کے اس بڑے ہسپتال میں کام کریں گے جوساری دنیا میں دل کے امراض کے لیے مشہور ہے۔ جہاں گردوں اور جگر کی پیوندکاری ہوتی ہے جہاں ہر روز ہزاروں مریضوں کے کامیاب آپریشن ہوتے ہیں۔ اور یہ ہمیں ٹیکنالوجی، لائف سیونگ ادویات، کاریں، ریفریجریٹر، ٹیلی ویژن سیٹ اور موبائل فون، دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اب ہم افغانستاان سے منگوائیں گے۔ مگ طیارے ہوں یا تھنڈر جنگی ہوائی جہاز، ہرات اور مزار شریف کے کاخانوں سے ان کے پرزے ہمیں محمود خان اچکزئی سستے داموں دلوائیں گے۔ ہمارے مزدوروں کو افغانستان کی صنعتوں میں روزگار ملے گا۔ یہ جو جلال آباد، غزنی، بامیان، ہرات اور غور میں اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں چل رہی ہیں، اب ہم پاکستانی، افغان شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں مزدوری کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔ 

بس ایک گزارش ہے محسن قوم جناب محمود اچکزئی سے کہ سب سے پہلے آپ خود افغان شہریت لیں اور وہاں جا کر مقیم ہو جائیں۔ یہ جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ آپ افغان پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں مگر نہیں بنوا سکتے اس لیے کہ آپ پاکستان میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو جان برادر، یہ کیا بات کی تم نے، پاکستانی انتخابات اور پاکستانی اسمبلی کی ممبری کی اوقات ہی کیا ہے۔ افغان شہریت کے سامنے، ارے بھائی، اچکزئی، کیوں ہیرے کے مقابلے میں انگار ےکو ترجیح دیتے ہو۔ دو حرف بھیجو پاکستانی انتخابات پر افغان شہریت لو، اس نعمت سے خدارا اپنے آپ کو محروم نہ کرو، وہاں جا کر ان پاکستانیوں کا استقبال کرو جو یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے، ہسپتالوں میں علاج کرانے اور افغانستان کی صنعتوں میں روزگار تلاش کرنے پاکستان سے جوق در جوق پہنچیں گے۔ آپ کی وہاں سنہری موجودگی کا فائدہ پاکستانی نوواردوں کو بے حدو بے حساب ہوگا۔ چونکہ افغانستان کی محبت آپ کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے، اس لیے آپ کے طفیل افغان قوم اور افغان حکومت پاکستانی ضرورت مندوں کو بہتر اسلوب میں خوش آمدید کہے گی۔ 

ایک کرم اور اس مفلوک الحال ملک پر کیجئے کہ جب آپ دنیا کے اس امیر ترین اور سب سے زیادہ پرامن ملک میں جائیں تو مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔ ایک تو ان کا آپ کے بغیر دل نہیں لگے گا، دوسرے، انتخابات میں جس دھاندلی کا رونا آپ رو رہے ہیں اس میں آپ کے پارٹی ارکان کے مقابلے میں مولانا کی ایم ایم اے کے ممبران ہی تو جیتے ہیں۔ دونوں بھائی یہاں ساتھ ہیں تو وہاں بھی ساتھ ہی رہیے۔ 

اور ہاں آخری گزارش! جب آپ اپنی ارض موعود 
(Promised Land)
 میں جائیں تو ان ذات شریف کو بھی ساتھ لے جائیے جو آپ کے نظریہ کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں اور جنہوں نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ

’’اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے۔ میری سیاست اسی نظریے پر چلے گی اور یہ کہ خان عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی۔‘‘ 

سوچیے! آپ اپنے پسندیدہ جنت نظیر ملک کو سدھار جائیں گے تو ان ذات شریف کا دل آپ کے بغیر کیسے لگے گا؟ ازراہ عنایت! انہیں ساتھ لے جائیے۔ انہیں بھی افغانستان کی شہریت دلوا دیجئے اور انہیں کہیے کہ لندن کی جائیدادیں فروخت کرکے وہیں، آپ کے ساتھ مقیم ہو جائیں۔



   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

فیشن سٹار کا آخری پیغام

$
0
0

کیوبا سے سبھی واقف ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوب میں واقع ملک، کیوبا، کیریبین جزائر کا حصہ ہے۔ یہاں اور ممالک بھی ہیں جو نسبتاً کم معروف ہیں۔ انہی میں ایک ملک ڈومینیکن ری پبلک ہے۔ ہسپانوی زبان بولنے والا یہ ملک کبھی ہسپانیہ کے قبضے میں رہا، کبھی اپنے پڑوسی ملک ہیٹی کے اور کبھی امریکہ کے!

کیرزادہ روڈ۔ ری گوئز 1978ء میں یہیں پیدا ہوئی۔ پہلے ملازمت کرتی رہی۔ اس ملازمت کے دوران اس نے انٹرنیٹ پر اپنا بلاگ آغاز کیا۔ اس میں تازہ ترین فیشن کے حوالے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی اس نے بوطیق شروع کر دی۔ ہر تین ماہ بعد لاس اینجلز جاتی اور بوطیق کے لیے تازہ ترین فیشن کے ملبوسات جوتے اور پرس خرید کر لاتی۔

فیشن سے دلچسپی لینے والوں کے لیے وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھی۔ اپنے دن کی ابتدا ساڑھے پانچ بجے جم جا کر ورزش سے کرتی۔ ایک بیٹی تھی۔ اس پر پوری توجہ دیتی۔ بلاگ زیادہ مقبول ہونے لگا تو ملازمت کو خیر باد کہا اور فُل ٹائم بلاگر بن گئی۔ پانچ لاکھ سے زیادہ اس کے فین یعنی دلدادگان تھے۔ امریکہ کے تمام فیشن میگزین اس کی سرگرمیاں شائع کرتے تھے، انٹرویو لیتے تھے۔ ٹیلی ویژن شوز میں بھی ہر جگہ وہ موجود رہتی۔

دس ماہ پیشتر اسے بتایا گیا کہ اُسے معدے کا کینسر ہے۔ جو ابتدائی مراحل سے گزر کر خطرناک حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ کیرزادہ نے علاج شروع کر دیا مگر اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔ بوطیق چلاتی رہی، بلاگ پر اپنے دلدادگان کے لیے مسلسل لکھتی رہی۔ ورزش اور فیشن کی تلقین کرتی رہی اور اپنے پڑھنے والوں کو کہتی رہی کہ زندگی میں رویہ مثبت رکھیں۔ اس عرصہ میں اپنی بیماری کے متعلق بھی جب علاج کارگر نہ ہوا تو اس نے لکھا: ’’میں کیموتھراپی بند کر رہی ہوں کیوں کہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ میں زندگی کے باقی دن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ رہ کر لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔‘‘ کیمو تھراپی سے سر کے بال اتر گئے تو وِگ پہنی نہ اپنے گنجے سر کو چھپایا۔ دس ماہ لڑنے کے بعد 9ستمبر 2018ء کو وہ ہار گئی اور کینسر جیت گیا۔ یہ سب تمہید تھی۔ اصل بات جو بتانی ہے اس کا آخری پیغام ہے جو اس نے اپنے چاہنے والوں کو دیا۔ ذرا غور سے پڑھیے۔

’’باہر میری نئی نویلی قیمتی کار کھڑی ہے مگر وہ میرے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ میرے پاس بہترین ڈیزائنر ملبوسات، بیگ اور جوتے ہیں مگر وہ بھی میرے لیے بیکار ہیں۔ بینک میں بہت سا پیسہ پڑا ہے وہ بھی میرے کام نہیں آ سکتا۔ میری ملکیت میں بہت بڑا گھر ہے جو بہترین فرنیچر سے آراستہ ہے، یہ بھی میرے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے دیکھو! میں ہسپتال میں، ایک بستر پر پڑی ہوں۔ چاہوں تو کسی بھی دن جہاز چارٹر کرا سکتی ہوں مگر وہ بھی تو بیماری میں کوئی مدد نہیں دے گا۔ چنانچہ کسی کو کبھی اس امر کی اجازت نہ دو کہ وہ تمہیں احساس دلائے فلاں شے تمہارے پاس نہیں! جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے، اس سے لطف اٹھائو اور خوش رہو۔ اگر تمہارے سر پر چھت ہے تو کوئی یہ سوچے گا نہ دیکھے گا کہ اندر فرنیچر کیسا ہے۔ زندگی میں سب سے زیادہ اہم شے محبت ہے۔ فقط محبت! اور آخری بات، اس بات کو یقینی بنائو کہ جن سے تم محبت کرتے ہو، ان کے ساتھ اچھا وقت بھی بسر کرو۔‘‘

ایک بے خدا کیرزادہ کو وہ بات معلوم تھی جس کا ہم نام نہاد اہلِ ایمان کو نہیں پتہ! رات دن سڑ رہے ہیں، کسی کے پاس کوئی شے دیکھیں جو ہمارے پاس نہیں تو جل کر کوئلہ ہو جاتے ہیں۔ حسد دل کے اندر نارِ جہنم کی طرح دہک رہا ہے۔ اپنی آگ میں خود ہی بھسم ہو رہے ہیں۔ فلاں کا مکان ایسا ہے۔ فلاں کی گاڑی بڑی ہے، فلاں کے بچے بیرون ملک پڑھ رہے ہیں۔ فلاں کا منصب عالی شان ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ بڑا مکان، بڑی گاڑی، بیرون ملک پڑھتے بچے اور بلند منصب، خوشی کی گارنٹی نہیں۔ تفتیش کرتے ہیں تو منہ کی کھاتے ہیں۔ بڑے مکان والا رو رہا ہے کہ بھائیں بھائیں کرتا محل جن کے لیے بنایا تھا وہ باہر سے پلٹ کر آ ہی نہیں رہے۔ جہازی سائز کی کار والا ایک چپاتی نہیں ہضم کر سکتا۔ بڑے منصب والے کو اس کے ما تحت رات دن جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔

جو نعمتیں میسر ہیں، وہ نظر نہیں آتیں۔ اپنے آپ پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ شیخ سعدی نے لکھا ہے، کہیں جا رہے تھے۔ جوتے نہیں تھے۔ رنجیدہ خاطر تھے۔ شاید پروردگار سے شکوہ کناں بھی۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا جس کے پائوں ہی نہیں تھے۔ نادم ہوئے اور شکر بجا لائے۔

انہیں دیکھیے جو گردہ بیچ کر معیشت کی تنگی کو کشادہ کرتے ہیں، وہ بھی کچھ دیر کے لیے، وہ بھی ہیں جو گردوں کو مشین سے ہفتے میں دوبار صاف کراتے ہیں اور لاکھوں روپے لگاتے ہیں۔ آپ چل پھر رہے ہیں، بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے، سانس کی ڈوری چل رہی ہے،دل دھڑک رہا ہے، جگر کام کر رہا ہے۔ دورانِ خون صحت مند ہے اور کیا چاہیے۔ بچے نارمل ہیں، انہیں دیکھیے جن کے گھروں میں ایک نہیں، دو دو تین تین جسمانی طور پر اپاہج اور دماغی طور پر ناکارہ بچے لیٹے ہیں۔ ماں باپ ہِل نہیں سکتے۔ ایک مستقل روگ ہے جو زندگی کو مسلسل کاٹ رہا ہے۔

مادی خوشحالی کے لیے محنت کرنا جرم نہیں۔ عمودی ترقی
(Vertical Mobility)
کے لیے کام کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ یہ واعظین جو غربت کے فضائل بیان کرتے ہیں، چندہ غریبوں سے نہیں، امرا سے مانگتے ہیں۔ مگر مادی خوشحالی کی دھن میں نفسیاتی مریض بن جانا قابلِ مذمت ہے۔ کُڑھنا، حسد کرنا، خوشحالی ہونے کے لیے حرام جمع کرنے پر اتر آنا، مادی طور پر تو کیا خوشحال کرے گا، ذہنی طور پر بھی لعنت زدہ کر دے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے نواز شریف، زرداری صاحب، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، یہ سب معززین کیا خوش ہیں؟ آئے دن عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ برائی کا ذکر ہو تو مثالیں ان کی دی جاتی ہیں۔ ان کے چہروں کو غور سے پڑھیے۔انہوں نے سامانِ تعیش جمع کیا ہے۔ سامانِ تعیش
 (Comforts)
اور شے ہے
۔ خوشی اور شے!

؎ تڑپ نہ اتنا بھی کمخواب و پرنیاں کے لیے
سکونِ دل ہے میسر تو خاک پر سوجا

انگریزی، سنسکرت، لاطینی، رومن، فرانسیسی، جرمن، عربی، چینی، فارسی، اردو، ہندی، غرض دنیا کی ہر زبان میں لکھی گئی داستانیں، ناول، کہانیاں سب ایک مضمون کے حوالے سے مشترک ہیں۔ وہ یہ کہ مال و اسباب کے لیے بائولا کُتّا بن جانے کا انجام خوفناک ہے، اور ہمیشہ خوفناک، جس طرح سورج حرارت دیتا ہے جس طرح پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے، جس طرح بیج پھوٹ کر زمین سے باہر نکلتا ہے، اندر کی طرف نہیں، اسی طرح یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ وسائل اکٹھے کرنے کے لیے حسد، جھوٹ اور فریب کو بروئے کار لانے والا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

ایک اور اٹل حقیقت بھی ہے۔ برے مقصد کے لیے باہمی تعاون کرنے والے آخر میں ہمیشہ لڑ پڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ختم کر دیتے ہیں یا پکڑوا دیتے ہیں۔ عدالتی زبان میں انہیں وعدہ معاف گواہ کہا جاتا ہے۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

ایک فقرے کی مار

$
0
0

شہزادہ امریکہ میں سفیر مقرر ہوا تو سفارت کاری کی تاریخ میں تو کوئی معجزہ برپا نہ ہوا مگر خریداری کی دنیا میں انقلاب ضرور آ گیا۔
اٹھائیس برس کا نوجوان جو پائلٹ تھا امریکہ جیسے ملک میں سفیر مقرر ہوا۔ یہ وہ ملک ہے جس میں سفارت کاری کے لیے ان افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جن کے سر کے بال اڑ چکے ہوتے ہیں۔ بھویں تک، سفارت کاری کے شعبے میں کام کرکے سفید ہو چکی ہوتی ہیں۔ جن کے بیسیوں سفیروں سے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں، مگر آہ! اگر کوئی حکمران اعلیٰ کا بیٹا ہو تو پھر سارے معیار منسوخ ہو جاتے ہیں۔
شہزادے نے آتے ہی ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا محل خریدا جو واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں واقع ہے۔ اسی لاکھ ڈالر اس کے علاوہ خرچ کئے۔ سفر کے لیے وہ 767 لگژری جیٹ استعمال کرتا ہے۔ والد گرامی کے اثاثوں کی قیمت سترہ ارب ڈالر ہے۔ شہزادے نے ایک سفر میں پانچ سو چھ ٹن سامان ساتھ رکھا۔ اس سامان میں دو مرسڈیز کاریں اور برقی سیڑھیوں کے دو سیٹ بھی شامل تھے۔
یہ محل، جس میں آٹھ بیڈ روم ہیں اور جو سفیر بننے سے دو ماہ پہلے ڈھونڈ لیا گیا، شہزادے کو اس وقت پسند آیا جب وہ جارج ٹائون یونیورسٹی میں طالب علم تھا۔ دو ماہ بعد دنیا نے دیکھا کہ وہ سفیر مقرر ہو چکا تھا۔ اس محل کے اندر تھیٹر ہے۔ کھیلوں کے میدان ہیں۔ سوئمنگ پول ہے جس کے آگے پیچھے نظروں کو خیرہ کرنے والے ستون اور برآمدے ہیں۔ سفر کرنے کے لیے جو جہاز لیا جاتا ہے اس کا کرایہ تیس ہزار ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ اس جیٹ جہاز میں 63 نشستیں ہیں۔ دفتر ہیں اور بہت بڑا بیڈ روم ہے۔ ساڑھے چھ کروڑ ڈالر اس جہاز کی قیمت ہے۔
بادشاہ سلامت گزشتہ سال جب بالی کے جزیرے میں تفریح کے لیے تشریف لے گئے تو چار سوساٹھ ٹن سامان ہمراہ تھا۔ وفد میں چھ سو بیس افراد تھے۔ آٹھ سو مندوب اس کے علاوہ تھے جن میں دس وزیر تھے اور پچیس شہزادے۔ جکارتہ کے لیے ستائیس پروازوں اور وہاں سے بالی کے لیے 9 پروازوں میں یہ سب کچھ پہنچا۔ انڈونیشین پولیس کے اڑھائی ہزار نوجوان پہرے پر مقرر تھے۔ اخراجات کا محتاط تخمینہ تین کروڑ ڈالر تھا۔
کچھ عرصہ پہلے بادشاہ سلامت نے فرانس میں تفریح منانے کا پروگرام بنایا۔ ایک طویل ساحل (بیچ) ان کے لیے مخصوص کیا گیا جہاں فرانسیسی عوام کے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ لاکھوں فرانسیسیوں نے تحریری درخواست کے ذریعے احتجاج کیا تو تعطیل کا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ 
جب تفریح کا یہ معیار ہو، جب کاریں خالص سونے کی ہوں، جب ہوائی جہازوں کے اندر محلاتی خواب گاہیں دالان، غلام گردشیں اور بارہ دریاں ہوں، جب پورے پورے جزیرے خرید لیے جائیں تب عزت کا گراف اوپر نہیں نیچے کا رخ کرتا ہے اور مسلسل گرتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اپنے عوام کو جلسہ عام میں خوش خبری دیتا ہے کہ ’’میں نے بادشاہ کو بتا دیا کہ امریکہ تمہارے سر پر سے ہاتھ اٹھالے تو دو ہفتے بھی تمہاری حکومت زندہ نہ رہ سکے۔‘‘
یہ ہے اس نشاۃ ثانیہ کا اصل چہرہ جس نے پورے عالم اسلام کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ دنیا بھر کو فتح کرنے کا خواب، کبھی لال قلعے پر اور کبھی وائٹ ہائوس پر پرچم لہرانے کا دعویٰ۔
دوسروں کو کافر قرار دینے کی فیکٹریاں دن رات چل رہی ہیں۔ فخر سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’خودکش جیکٹ‘‘ ہماری ایجاد ہے۔ اپنے عوام کو تزک و احتشام دکھانے والوں، سجدہ ریز ہونے کے لیے حرم کی حدود کے اندر محلات بنانے والوں کی حقیقت کیا ہے؟ جھاگ! جو فوراً بیٹھ جائے، ریت! جو ایک ہی ریلے میں بہہ جائے، عکس! جو آئینے پر پانی کے دو قطرے پڑنے سے دھندلا جائے۔ امریکی صدر کا ایک فقرہ اور شان و شوکت تزک و احتشام جاہ و جلال دھڑام سے نیچے آ گریں۔
اور امریکی صدر کے پاس کیا ہے؟ یہ دھمکی اس نے اس لیے نہیں دی کہ اس کے غسل خانوں کے دروازوں کے ہینڈل اور پانی کھولنے اور بند کرنے کی ٹونٹیاں سونے کی بنی ہیں۔ اس امریکی صدر کی بہشت پر صدیوں کی محنت شاقہ ہے جو امریکی عوام نے کی ہے۔ وہ درجنوں امریکی سربراہ ہیں جو عوام سے تھے اور اقتدار سے ہٹنے کے بعد پھر عوام میں واپس آ جاتے تھے اور آ جاتے ہیں۔ وہ نظام ہے جو صدر کو اس لیے کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے کہ اس نے عوام سے جھوٹ بولا۔ وہ عدالتیں ہیں جن پر کوئی حکمران حکم نہیں چلا سکتا۔ انتخابات کا وہ مستحکم نظام ہے جو چار سال بعد حکمران کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے جو دوبار سے زیادہ کسی کو صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔


جو قوم ہوائی جہاز ایجاد کرے، جو پوری دنیا کے بہروں کو آلہ سماعت کا تحفہ دے جس نے انٹرنیٹ، ای میل اور موبائل فون ایجاد کئے، پہلا کمپیوٹر بنایا۔ راستہ ڈھونڈنے کا آلہ (جی پی ایس) ایجاد کیا۔ اسی کا سربراہ ایسی دھمکیاں دے سکتا ہے۔ پچپن مسلمان ملکوں کے سربراہ اور عوام یہ دھمکی سن کر، دبک کر، بیٹھ گئے۔
لیزر پرنٹر، ڈیجیٹل کیمرہ، خلائی شٹل، تھری ڈی پرنٹنگ، آنکھوں کے اندر لگائے جانے والے لینز، وائی فائی، جگر کی پیوندکاری، فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، آئی فون، کیا ہے جو امریکہ نے دنیا کو نہیں دیا۔
آپ امریکی نظام کا استحکام دیکھیے کہ یونیورسٹیوں نے جو تاریخیں داخلے کی، امتحانات کی، فارغ التحصیل ہونے کی مقرر کیں وہ صدیوں سے جوں کی توں ہیں۔ کبھی تبدیل نہیں ہوئیں۔
ہمارے مقدس ترین شہر کے ہوائی اڈے پر مسافر قطار میں کھڑے تھے۔ اپنے اپنے پاسپورٹ دکھا کر بورڈنگ کارڈ لے رہے تھے۔ ایک شخص دمکتی عبا پہن کر آتا ہے اور سیدھا کائونٹر پر جا کر سب سے پہلے بورڈنگ کارڈ لیتا ہے۔ ایک مسافر احتجاج کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ عبا والا فلاں خاندان سے ہے۔ خاموش ہو جائو ورنہ پانچ منٹ میں ایسی جگہ پہنچا دیئے جائو گے جہاں کسی کوسراغ تک نہیں ملے گا۔
قوموں کو استحکام، عزت اور برتری انصاف، تعلیمی نظام اور مساوات سے ملتی ہے۔ جہاں شاہی خاندان عوام کی دولت کو ذاتی دولت سمجھیں جہاں نظام، سسٹم، وجود ہی نہ رکھتا ہو اس ملک کا کیا وقار اور کیا عزت۔
سر کے نیچے اینٹ رکھنے والے عمرؓ کو ڈھونڈو عید کے دن سوکھی روٹی تناول فرمانے والے علیؓ کو تلاش کرو، ورنہ بدبختو! پیٹھ پر ٹرمپ کے کوڑے کھاتے رہو۔





Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net


جیسی حکومت ویسے عوام‘ جیسے عوام ویسی حکومت

$
0
0

…………یہ کل تیرہ اکتوبر کا واقعہ ہے۔

اسلام آباد کے ایک مرکزی سیکٹر کا رہائشی علاقہ ہے۔ دونوں طرف مکان ہیں۔ درمیان میں سڑک ہے۔ صبح آٹھ بجے ایک مکان کی گھنٹی بجتی ہے۔ مکین باہر نکلتا ہے۔ پولیس کا اہلکار گیٹ پر کھڑا ہے۔
’’یہ گاڑیاں ہٹائیے! رُوٹ لگنے لگا ہے۔‘‘ 
گاڑیاں سڑک پر کھڑی تھیں نہ فٹ پاتھ پر! فٹ پاتھ اور مکان کے درمیان‘ خالی جگہ تھی جو مکان کا حصہ تھی۔ گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔
’’گاڑیاں سڑک پر ہیں نہ فٹ پاتھ پر‘‘۔ آپ کو ان سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’بس حکم ہوا ہے کہ کوئی گاڑی سڑک پر نہ ہو‘‘ 
’’گزرنا کس نے ہے؟‘‘ 
’’یہ نہیں معلوم! مگر کوئی بڑا وی وی آئی پی ہے۔‘‘ 
’’لیکن نئے پاکستان میں تو یہ وی آئی کلچر۔ یہ روٹ سسٹم سب کچھ سنا تھا ختم ہو رہا ہے‘‘

اس پر پولیس اہلکار بے بسی سے ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گھر کے مکین نے زیادہ بحث کی کہ گیٹ کے اندر جگہ نہیں‘ تو اہلکار نے دور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے‘ عاجزانہ درخواست کی کہ وہاں کھڑی کر دیجیے۔ اس نے کہا کہ ’’ہماری مجبوری ہے۔ ہم تو خود بے بس ہیں‘‘ 

کل کے اس واقعہ میں‘ جو وفاقی دارالحکومت کے قلب میں واقع ہوا‘ ایک رمق بھر مبالغہ نہیں! مکین کو پولیس کے اہلکار پر رحم آیا۔ اس نے سوچا کہ یہ غریب‘ نہ جانے کس کس کی منتیں کر کے آیا ہو گا! اس نے دونوں گاڑیاں اس جگہ جا کر پارک کر دیں۔ جہاں اہلکار چاہتا تھا۔ 

دوسری طرف وزیر اطلاعات نے صاف بتا دیا ہے کہ بیورو کریسی کو حکومتی احکام پر عمل کرنا پڑے گا! گویا پرنالہ وہیں پر ہے جہاں تھا اور ’’جتھوں کی کھوتی اوتھے ای جا کھلوتی‘‘ یعنی گدھی جہاں کی تھی وہیں پہنچ گئی ہے! 

چلیے !مان لیا کہ اقتصادی اشاریے تبدیل کرنے میں وقت لگے گا۔ آبادی بڑھنے کی شرح‘ سالانہ ترقی کی شرح ‘ ڈیمو ں کی تعمیر‘ تعلیمی نظام میں تبدیلی اور کئی دوسرے مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لیے دن ‘ ہفتے اور مہینے نہیں‘ سال اور کبھی کبھی عشرے درکار ہوتے ہیں۔ مگر وی آئی پی کلچر اور پولیس میں مداخلت کا سدباب تو ایک حکم سے ہو سکتا ہے! 

اب یہ طے ہے کہ ایسا نہیں کیا جا رہا ! انہی صفحات پر رویا جا چکا ہے‘ دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ پر وی آئی پی کلچر شدومد سے مسلسل جاری ہے۔ نہ جانے اس پر کیا ایکشن ہوا۔ اگرچہ لگتا نہیں کہ ہوا ہو گا۔ اس لیے کہ ع

قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا 

باغ کودیکھ کر معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ بہار کس رنگ کی ہے!! وزیر اعظم نے اپنے سارے دعوئوں کے باوجود‘ عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کے ایشو پر ہتھیار ڈال چکے ہیں! اگر وہ ہتھیار نہ ڈالتے تو معاملہ سپریم کورٹ تک جاتا ہی کیوں؟ ان کی خاموشی اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ آئی جی پولیس کو ایک سائڈ پر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا پولیس افسروں کو طلب کرنا اور غیر متعلقہ شخص کو اس سارے معاملے میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے درمیان میں ڈالنا۔ وزیر اعظم یہ سب قبول کر چکے ہیں۔ اقبال نے تو بہت پہلے وارننگ دے دی تھی ؎ 

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا 
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی 

یہ تو حکومت کا رویہ ہے! عوام کا رویہ اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن ہے! جب بھی کسی کو جرم کے حوالے سے پکڑا جاتا ہے تو اس کے حمایتی اس کی خدمات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ رہا جرم تو اُس کی بات ہی نہیں کرتے!میں اگر ڈاکٹر یا انجینئر ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جرم میں نہیں پکڑا جائے گا؟ آخر میں نے اتنے مریضوں کا علاج کیا ہے۔ اتنی شاہراہیں اور اتنے پُل بنائے ہیں! جُرم جو بھی ہے اس پر گرفت نہیں ہونی چاہیے! 

مانا کہ پروفیسروں کو ہتھکڑی نہیں لگانی چاہیے تھی مگر جو الزامات ان پر لگے ہیں‘ ان کی چھان بین کیوں نہ کی جائے؟ عدالتوں میں انہیں طلب کیوں نہ کیا جائے! ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں کا بُرا حال ہے! اقربا پروری اور قانون شکنی عروج پر ہے! گروہی سیاست یونیورسٹیوں کے کلاس روموں تک سرایت کر چکی ہے! اساتذہ قوم کے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ اگر وہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو ان کے شاگرد کل عملی زندگی میں کیا گل کھلائیں گے؟ اگر وہ استاد ہیں‘ اگر وہ عمر رسیدہ ہیں‘ اگر وہ عصادر دست ہیں تو ان کا احترام واجب ہے۔ ہتھکڑی نہیں لگنی چاہیے‘ پولیس کارویہ مودبانہ ہونا چاہیے۔ مگر خدارا انہیں فرشتہ تو نہ ثابت کیجیے۔ آخر کار وہ انسان ہیں یہ اور بات کہ انسان سازی پر مامور تھے! ایمرجنسی اختیارات کو 2175بار استعمال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ منظور شدہ فیس طلبہ سے 62کروڑ‘ منظور شدہ سے زیادہ وصول کرنا‘ پرائیویٹ سب کیمپسز کو اتنی کھلی چھٹی دینا کہ وہ کروڑوں کی واجب الادا رقم ادا ہی نہ کریں۔ ایسے پروگراموں میں داخلے دے دینا جو یونیورسٹی میں پڑھائے ہی نہیں جا رہے۔ ایسے منصوبے شروع کر دینا جن میں فائدے کے بجائے نقصان کا احتمال ہے۔ ساری کاغذی کارروائی ایک ہی دن میں مکمل کر کے من مانے کام کرنا‘ بغیر اشتہار کے سینکڑوں ملازمتیں بانٹ دینا اور اس کے علاوہ کئی غیر قانونی کام کرنا اور پھر حواریوں کا اور ہم خیال ساتھیوں کا احتجاج کرنا۔ یہ تعلیم یافتہ اور قانون پسند لوگوں کا رویہ نہیں! 

ایک عالی منصب ’’استاد‘‘ کے بارے میں ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ ایک ہی تقریر من و عن‘ لفظ بہ لفظ ‘ ہر جگہ کرتے ہیں! اہل علم کی شان ایسی نہیں ہوتی!ایسی حرکتیں اساتذہ نہیں دغل کار اور حیلہ گر کرتے ہیں! 

یوں بھی حیلہ گری بہت کچھ کر دکھاتی ہے! سرکاری یونیورسٹی ہو تو اُس پر مافیا کی طرح چھا جائیے۔ پورے نظام کو یرغمال بنا لیجیے۔ اساتذہ کو بے بس کر دیجیے! کچھ کو حواری بنا لیجیے کیمپس کو سیاسی جماعت کا گڑھ بنا لیجیے۔ مگر نجی یونیورسٹی ہو اور اپنی ہو تو رویہ مکمل طور پر بدل لیجیے۔ یہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ دیجیے۔ جب زمینوں کا کاروبار کرنے والے اور پراپرٹی ڈیلر مصلحین کا روپ دھار لیں گے تو حیلہ گری اور دوغلے پن کے علاوہ کیا نظر آئے گا!! ؎ 

ان ظالموں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

روشنی مقدر ہو چکی

$
0
0

موسموں کا الٹ پھیر مقرر کردیا گیا ہے۔ گرما رخصت ہورہا ہے۔ سب کو معلوم ہے آنے والے مہینے سرد، تند ہوائوں کے ہیں۔ جھکڑ چلیں گے۔ درختوں کے پتے گریں گے۔ زرد خشک پتے! زرد خشک پتوں کے ڈھیروں پر چلنے سے کھڑکھڑانے کی آوازیں آئیں گی۔ پھول نہیں کھلیں گے۔ یہ وہ موسم ہیں جب برفانی وسط ایشیا کے باشندے چرم کے موزے پہنتے ہیں اور گھٹنوں کو چھونے والے لمبے جوتے۔ 

مگر خزاں ہمیشہ نہیں رہتی۔ خلاق عالم نے موسموں کا الٹ پھیر طے کر رکھا ہے تاکہ مخلوق اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار رکھے۔ باغوں پر آئے ہوئے سختی کے دن بیت جائیں گے۔ بہار آئے گی، شگوفے پھوٹیں گے،کونپلیں نکلیں گی، صحنوں میں لگے ہوئے انار اور ریحان کے پودے گلبار ہوں گے۔ سبز گھنیرے پتوں سے لدی دھریکوں پر کاسنی رنگ کے پھول کھلیں گے۔ میرے گائوں کی دوشیزائیں کھنکھناتی چوڑیوں سے بھری باہوں سے گارا تیار کریں گی۔ پھر وسیع و عریض صحنوں میں گارا ڈال کر مٹی کا فرش بچھائیں گی۔ پھر گول پتھروں سے اسے یوں صیقل کریں گی کہ سنگ مر مر شرمائے گا۔ لکڑی کے نردبانوں پرکھڑی ہو کر دیواروں پر سفید پوچا ملیں گی۔ جھومتے درختوں سے پھل گریں گے، فصلیں لہلہائیں گی، کٹوروں میں چھلکتی سفید براق لسّی سیال چاندی جیسی ہوگی۔ شام کو ڈھور ڈنگر قریے کی طرف پلٹیں گے تو خوبصورت گردنوں کے ساتھ لٹکے گھنگھرئوں کی آوازیں بشاشت کی نوید سنائیں گی۔ 

موسم ایک سے نہیں رہتے۔ خزاں کا لمبا دور سخت سہی، مگر یہ طے ہے کہ باد برشگال کے بعد بادصبا نے آنا ہی آنا ہے ؎ 

دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے 
یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ ہمیشہ ہی جھکڑوں طوفانوں میں آنکھیں بند کر کے کھڑا رہے اور تند ہوائوں میں سانسیں بے ترتیب ہوتی رہیں۔ نقب زنوں نے کیفرکردار کو پہنچنا ہے۔ رسی جتنی دراز ہو، ایک دن سمیٹ لی جاتی ہے۔ 

عمران خان غلطی پر غلطی کئے جا رہا ہے مگر ایک اطمینان ہر شخص کو ہے کہ وہ راہ زن نہیں، وہ قاطع الطریق نہیں۔ وہ گھات لگا کر نہیں بیٹھا ہوا کہ قومی وسائل گزریں تو جھپٹ پڑے۔ تاریخ غلطیوں کو معاف کردیتی ہے۔ غلطی کرنے والا اپنے آپ کو بدل لیتا ہے۔ مگر قافلوں کو لوٹنے والے کم ہی راہ راست پر آتے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت زنجیرپا بن جاتی ہے۔ اسے بچانے کے لیے نقب زنی کی مزید وارداتیں کرنا پڑتی ہیں۔ 

حیرت ہے ان بزرجمہروں پر جوضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر شہنائیاں بجانے پر اتر آئے ہیں۔ کیوں نہ اتریں، انہیں وہ شاداب چراگاہیں یاد آتی ہیں جن میں وہ بغیر روک ٹوک، بغیر حساب کتاب، رات دن، سبز میٹھی گھاس چرتے تھے۔ اڑن کھٹولوں پر حکمرانوں کے ساتھ سواری کرتے تھے۔ دربار تک ہمہ وقت رسائی تھی۔ الائچی کے پانی میں گندھے آٹے سے بنے ہوئے طلسمی داس کلچہ کھاتے تھے۔ شاہی دستر خوان پر شہد، دودھ اور بریاں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ان کی قابوں میں ڈالے جاتے تھے یا بیرونی دوروں سے لے کر ہیلی کاپٹروں کی اندرونی پروازوں تک۔ راتب خوروں کا ناپاک گروہ ساتھ ہوتا۔ کفش برداری کے اپنے مزے ہیں۔ یہ مزے خوب خوب لوٹے جاتے ہیں۔ 

سیاسی پارٹیاں اس کچی جمہوریت میں ارکان پر نظم مسلط نہیں کرسکتیں۔ ہرنشست پر امیدوار اپنا اپنا زور دکھاتے اور لگاتے ہیں۔ انتخاب جیتنے کی سائنس کا جو جتنا اطلاق کرسکے اتنا ہی کامیاب ٹھہرے۔ پھر نوزائیدہ حکومت کی اپنی پارٹی میں ابھرتے ہوئے اختلاف۔ کیا خبر، کتنوں نے ذاتی مایوسی سے مغلوب ہو کر پشت سے وار کر ڈالا۔ 

ضمنی انتخابات میں اونچ نیچ کچھ اور شے ہے۔ یہ پالیسیوں کو ماپنے والا بیرومیٹر نہیں۔ ابھی تو وادی سے راہزنوں کا صفایا کرنا ہے۔ یہ راہ زن، یہ نقب زن، اٹھائی گیروں کا یہ ٹولہ ادھر ادھر کے درّوں سے ہوتا، منظر نامے سے معدوم ہوگا، پھر بحالی ہوگی۔ بحالی میں وقت لگے گا۔ حکمران کی اپنی صنعتیں نہ ہوں، اپنی جاگیرنہ ہو، اپنا مفاد نہ ہو، اس کے اقربا اس کے گرد، کشکول اٹھائے، نہ کھڑے ہوں، سمندر پار محلات اور کارخانے کھڑے کرنے کا شوق نہ ہو تو جلد یا بدیر حالات درست ٹریک پر آ جاتے ہیں۔ 

مہاتیر کو سالہا سال لگے۔ تب جا کر ملائیشیا وہ ملک بنا جس نے دنیا میں عزت کمائی اور نام پیدا کیا۔ مہاتیر وزیراعظم بنے تو سلطان آف ملائیشیا کے اختیارات ترقی میں مانع تھے۔ متوازن بنانے میں وقت لگا۔ پھر نقصان اٹھاتے کاروبار کے سرکاری مراکز کو نجی شعبے کے سپرد کرنے میں مزید وقت لگا۔ ایئرلائنوں، یوٹیلیٹیز (Utilities)
 اور مواصلات۔ سب نجی شعبے کو منتقل کردیئے۔ نجی شعبے نے پیداوار خوب بڑھائی۔ حالات بدلنا شروع ہوئے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ پھر کارسازی کی طرف توجہ دی۔ دس سال۔ پورے دس سال لگے کارسازی کی صنعت کو پائوں جمانے میں۔ یہاں تک کہ ملائیشیا خطے میں کاریں بنانے کے حوالے سے سرفہرست ہوگیا۔ پھر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو کنٹرول کیا۔ 

لی کوان یو کو دہائیاں لگ گئیں، تب کہیں جا کر مچھیروں کی گندی بستی نے موجودہ سنگاپور کی شکل دھاری۔ کئی برس لگ گئے لی اور اس کے ساتھیوں کو اس فیصلے پر پہنچنے میں کہ معیشت کو مہمیز لگانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ یہ فیصلہ بہار آفریں ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی، جاپانی اور یورپی کمپنیوں نے سنگاپور میں دفاتر بنا لیے۔ یہاں تک کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ الیکٹرانکس کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ بہت بڑا مالی مرکز بننے کے علاوہ سنگاپور کرپشن سے بالکل پاک صاف ہوگیا۔ پاکستانی اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے پر غوغا اٹھا ہے۔ کیا یہ کم جرم ہے ان اساتذہ کا کہ یہ نصاب سازی میں ملائیشیا اور سنگاپور کی ترقی کی داستان نہیں شامل کرتے۔ پاکستانی طلبہ یہ داستان پڑھتے تو معلوم ہوتاکہ ان دو ایشیائی ملکوں نے پسماندگی کے پہاڑ کو کس تیشے سے ریزہ ریزہ کیا۔ 

پتھر لعل بدخشاں بنتا ہے۔ کپاس کا بیچ معشوق کا گلوبند بنتا ہے اور شہید کا کفن۔ اون سے فقیر کی گدڑی تیار ہوتی ہے۔ بچہ شاعر بنتا ہے یا سکالر مگر حکیم سنائی کہتا ہے کہ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ مہینے، سال اور کبھی کبھی عشرے۔ اس ملک نے افق سے ستارہ بن کر ابھرنا ہے۔ کل نہیں تو پرسوں۔ ایک دن ضرور! رہزنی کے آثار کو مٹانا پہلا قدم ہے، گرد اٹھے گی، یہاں تک کہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ پھر گرد بیٹھے گی، مطلع صاف ہوگا۔ روشنی اس سرزمین کا مقدر ہے۔ لوح محفوظ پر نقش ہو جانے والا مقدر!!


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

کیا اس زہر کا بھی کوئی علاج کرے گا؟

$
0
0


پانی جو جھیلوں‘ دریائوں اور سمندر میں تھا۔ گلی کوچوں میں آ گیا ہے۔ سیوریج کا غلیظ بدبودار پانی بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پانی میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ گھروں سے باہر آنے والا متعفن پانی اس میں مزید شامل ہو رہا ہے۔ ہر لمحہْ ہر گھڑی! بدبو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عفونت سنڈاس میں بدل رہی ہے۔ یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب سانس لینا محال ہو جائے گا! گندے پانی میں کوڑے کرکٹ کے ساتھ انسانی لاشیں تیرتی ملیں گی!

مذہبی اختلافات آج سے نہیں‘ اس دن سے چلے آ رہے ہیں جس دن کرہ ارض پر مذہب وجود میں آیا۔ کیا عجب انسان اور مذہب نے اس دھرتی پر ایک ساتھ زندگی شروع کی ہو!

عہدِ رسالت تمام ہوا تو ان مقدس اور برگزیدہ ہستیوں کا دور شروع ہوا جنہوں نے شب و روز رسالت مآب ﷺ کی زریں معیت میں گزارے تھے۔ یہ حضرات بھی آپس میں اختلافات رکھتے تھے۔ تعبیر کا اختلاف! توجیہہ اور تشریح کا اختلاف! نکتہ نظر کا اختلاف! مگر یہ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کی رائے جاننے کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔

پھر ائمہ کرام کا دور آیا۔ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام جعفر صادق‘ امام احمد بن حنبل امام شافعی! ان میں سے کچھ ایک دوسرے کے استاد اور شاگرد بھی تھے۔ کیا مجال جو ایک دوسرے کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی توقیر سے گرا ہوا استعمال کیا ہو!!
پھر مناظروں کا دور شروع ہوا۔ مناظرے مجادلوں اور مناقشوں کی صورت اختیار کر گئے۔ وہ مسئلے زیر بحث آنے شروع ہو گئے جو مضحکہ خیز تھے۔ یہ روایت عام ہے کہ ہلاکو خان کا لشکر جرار جب بغداد میں داخل ہو رہا تھا اس وقت بغداد کی مسجد میں علماء کرام اس موضوع پر دھواں دھار مناظرہ فرما رہے تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام !!
شاہ ولی اللہ تک برصغیر میں کوئی دیو بندی تھا نہ بریلوی! پھر یہ مسلک وجود میں آئے۔ مسلک فرقوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس زمانے میں غالباً فرنگی حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ مسلمان ترقی کا راستہ طے کرنے کے بجائے مسلکی جھگڑوں میں پڑے رہیں! ؎

ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

چنانچہ مسلکوں کی باہمی لڑائی فرنگی عہد میں شروع ہوئی اور پھر روز بروز‘ سال بسال بڑھتی رہی۔ مناظروں کا کلچرایک کنارے سے دوسرے بارڈر تک پورے برصغیر پر چھا گیا۔ سنی تھے کہ شیعہ‘ بریلوی تھے کہ دیوبندی‘ وہابی تھے کہ غیروہابی‘ سب آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ حکمرانی انگریزوں کے پاس تھی۔ تعلیمی اور اقتصادی ترقی کا زینہ ہندو چڑھتے رہے‘ مسلمان مذہبی گروہ بندی میں مصروف رہے۔
پھر پاکستان بنا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلکوں‘ فرقوں اور گروہوں سے بالاتر ہو کراقتصادی ترقی پر توجہ دی جاتی۔ عوام کے مائنڈ سیٹ کو پستی سے باہر نکالا جاتا‘ مگر ہوا یہ کہ سارا زور مذہبی منافرت پر لگا دیا گیا۔ کہا یہ گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اب یہ سوال پیدا ہو گیا کہ کس کا لا الہ الا اللہ درست ہے اور کس کا غلط! چھوٹے بڑے مدارس اپنا اپنا ہفت روزہ اپنا اپنا ماہنامہ نکالنے لگے۔ ایسے ماہنامے‘ ایسے ہفت روزے صرف اپنے مسلک کی ترویج کرتے۔ ہر مکتب فکر اپنا جلسہ الگ کرنے لگا۔ بڑے بڑے اشتہار چھاپ کر شہر کے ہر درو دیوار پر چسپاں کئے جاتے۔ ہر عالم کو ان اشتہاروں میں مناظر اسلام لکھا جاتا۔ ان جلسوں میں ’’فریق مخالف‘‘ پر خوب لعن طعن کی جاتی۔ نعروں کی گونج آسمان تک سنائی دیتی۔ سامعین کو مشتعل کیا جاتا۔ تقریباً ہر مسلک کے کسی نہ کسی عالم پر حملہ ہوا۔

پھر کیسٹوں کا دور آیا۔ دکانوں پر جلسہ گاہوں میں لوگوں نے کیسٹوں کے ذریعے اپنے پسندیدہ عالموں کی اور مناظرہ بازوں کی تقریریں سنیں اور سنائیں۔ تاہم اب تک خیریت یہ رہی کہ متعفن پانی گلیوں کے اندر نہ آیا تھا۔ جلسوں میں وہی جاتے جن کا ’’ذوق‘‘ انہیں مجبور کرتا۔ مناظرے سننے بھی کوئی کوئی جاتا۔ زیادہ تر اہل علم ہی جاتے۔ کیسٹ ریکارڈر اور ٹیپ ریکارڈز تک رسائی بھی آبادی کے ایک تھوڑے سے حصے کی ہوتی۔

پھر آہستہ آہستہ بند ٹوٹنے لگے۔

انٹرنیٹ آ گیا۔ پھر یو ٹیوب نے اپنا سایہ کرہ ارض کے کونے کونے پر ڈال دیا۔ لیپ ٹاپ سے بات آئی پیڈ پر آئی اور آج …آج حالت یہ ہے کہ پندرہ کروڑ افراد کے ہاتھوں میں موبائل فون ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد کے پاس دو دو موبائل فون ہیں۔ یہاں تک کہ 3۔جی اور 4۔ جی کی تازہ ترین ٹیکنالوجی بھی چھ کروڑ افراد تک پہنچ چکی ہے! وٹس ایپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ہمارا ریکارڈ ہے کہ ہم ہر ایجاد کو اس طرح’’استعمال‘‘ کرتے ہیں کہ شیطان پناہ مانگتا ہے! لائوڈ سپیکر کو دیکھ لیجیے۔ موبائل فونوں کے رات رات بھر کے ارزاں پیکیج دیکھ لیجیے۔فحش مناظر والی فلمیں (پورنو گرافی) دیکھنے میں گوگل کے سروے کے لحاظ سے ہمارا ملک پہلے نمبر پر ہے!

المیے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ جو مسلکی اور فرقہ وارانہ آتش بازی مناظروں‘ جلسہ گاہوں ‘مدرسوں‘ مسجدوں اور امام بارگاہوں تک محدود تھی۔ اب گھر گھر‘ ہاتھ ہاتھ‘ پہنچ گئی ہے۔ فرقہ وارانہ تقریروں کے ویڈیو کلپ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں وٹس ایپ‘ فیس بک‘ میسنجر ‘ ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے رات دن ایک دوسرے کو بھیجے جا رہے ہیں! ان پڑھ اور نیم تعلیم یافتہ افراد یہ زہریلی تقریریں‘ یہ نعرے بازیاں یہ جوشیلے دعوے یہ فریق مخالف کو سبق سکھانے کی اپیلیں سن رہے ہیں اور شدید حد تک متاثر ہو رہے ہیں! ہر مسلک ‘ ہر مکتب فکر‘ ہر فرقہ سوشل میڈیا پر یلغار کئے ہوئے ہے! ایسی ایسی روح فرسا تقریریں گردش کر رہی ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے اور ہڈیوں کے اندر گودا خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ سو خنزیر مل کر فلاں مسلک کا ایک پیروکار بناتے ہیں۔ کوئی آدھا آدھا گھنٹہ صرف اور صرف لعنت بھیجنے میں صرف کرتا ہے۔ کوئی گارنٹی دے رہا ہے کہ فلاں مسلک کے پیرو کار دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک عالم دوسرے عالم کا ذکر یوں کرتا ہے کہ۔ ”وہ بھونکتا ہے۔ “۔ ایک نوجوان دستار پوش اپنی سینکڑوں ویڈیو پھیلا رہا ہے اور ہر ویڈیو میں کسی نہ کسی اختلافی مسئلے کو خوب خوب اجاگر کرتا ہے۔ خدا کی پناہ! یہ لوگ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے‘ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے‘ رفع یدین کرنے‘رفع یدین نہ کرنے اور اس قبیل کے درجنوں موضوعات پر اس طرح گھنٹوں صرف کر رہے ہیں جیسے یہ اختلافات کل پیدا ہوئے اور آج ان نام نہاد علما نے آخری حل پیش کرنا ہے!

یہ زہر پھیل رہا ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے؟ کیا پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے؟ کیا منتخب نمائندوں کو معلوم ہے کہ اس ضمن میں انہیں فوراً قانون سازی کرنی چاہیے؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ تاخیر ہو جائے اور کل مسلمانوں کے بجائے یہ ملک سُنیوں‘ شیعوں‘ دیو بندیوں‘ وہابیوں‘ بریلویوں سے بھرا ہوا ہو اور ہر شخص دوسرے فرقے کے پیروکار کو قتل کرنے کے درپے ہو۔ آج تو صرف واعظین جلسہ گاہوں میں ٹوکے لہرا رہے ہیں ایسا نہ ہو کل ہر ویڈیو کلپ کے ساتھ پانچ پانچ سو ٹوکے بھی ایک دوسرے کو بھیجے جا رہے ہوں!

سال درکار ہیں یا نوری سال ؟

$
0
0


جرم کا علم اس کے گھر والوں کو دوسرے دن ہی ہو گیا تھا۔

قتل کے دوسرے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ چھوٹے بھائی نے فوٹیج دیکھ کر اسے پہچان لیا، گھر والوں کو بھی بتا دیا۔ یہ انکار کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اس کا کوئی ہم شکل ہے جو فوٹیج میں نظر آ رہا ہے، تاہم اس نے ماں کو دودن بعد ساری بات بتا دی۔ ماں نے ٹوپی اور جیکٹ اتروا کر چھپا دی۔ رفتہ رفتہ بات رشتہ داروں تک پہنچ گئی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پکڑوا کر ایک کروڑ روپے کا انعام لیں اور خاندان کے غربت زدہ حالات سنوارلیں مگر ماں سب کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی پھر محلے میں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آ گئے۔ اس نے بھی ٹیسٹ کروایا اور پاک پتن بھاگ گیا۔ واپس آیا تو ماں نے کئی دن تک گھر سے نہ نکلنے دیا

آٹھ معصوم بچیوں کی آبرو ریزی کرنے والے اور پھر قتل کر دینے والے مجرم کو پھانسی تو چند روز پہلے دے دی گئی ہے مگر ایک سوالیہ نشان فضائوں میں تیر رہا ہے۔ زینب اس کا آخری نشانہ تھی۔ زینب کا والد پھانسی گھاٹ کے پاس مجرم کا انجام دیکھ رہا تھا۔ یہ اور بات کہ باقی بچیوں کے والدین وہاں نہیں تھے۔

یہ قوم عجیب و غریب ہے۔ سارا زور تقریروں پر ہے اوراپنی تاریخ سے بار بار واقعات سن سنا کر فخر کرنے پر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا واعظ خطیب، استاد، دانشور، لکھاری اور مبلغ ہو جس نے رسالت مآبﷺ کا یہ قول مبارک نہ سنایا ہو کہ فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ مگر عمل کا احوال یہ ہے کہ ہر خاندان، ہر قبیلہ، ہر گروہ، ہر صوبہ، ہر لسانی اکائی، ہر محکمہ، ہر ادارہ، مجرموں کو پناہ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ ماں بچے کو قانون سے بچا رہی ہے۔ باپ بیٹے کو چھپائے ہوئے ہے۔ بہن بھائی کے جرم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اہل مذہب اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنے پر آمادہ نہیں۔ جب بھی کسی واعظ کا جرم سامنے آتا ہے، ’’بزرگ‘‘ یا ’’اکابر‘‘ جمع ہو کر کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ ایک معروف مذہبی شخصیت کی بیگم نے میاں پر سنگین الزامات لگائے مگر وہ اب بھی منبر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل دارالحکومت میں پیش آیا تھا۔ ایک مسجد کے امام نے اوراق کی توہین کی تھی۔ اسے کیا سزا ملی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔

سب سے ابتر صورت حال سیاسی جماعتوں کی ہے۔ ایان علی ہو یا ڈاکٹر عاصم، شہباز شریف ہو یا جہانگیر ترین یا کوئی اور، کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ قانون کا رخ اس کی صفوں کی طرف ہو۔ سب کو معلوم ہے کہ فلاں فلاں نے کرپشن کی ہے اور اتنی کی ہے مگر آہ و فغاں کیے بغیر سب مزے میں ہیں۔

زینب کے قاتل کی ماں ایک ان پڑھ یا مشکل سے نیم خواندہ عورت ہوگی۔ اسے کیا مطعون کیا جائے اور اس سے کیا شکوہ کیا جائے۔ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور طبقہ بالا کے ارکان مجرموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کے ڈیرے پولیس کے دائرہ اختیار سے کوسوں باہر ہیں۔ اشتہاری مجرم برسوں وہاں مقیم رہتے ہیں۔ سر پر کسی نہ کسی وڈیرے یا منتخب نمائندے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ گائوں کے، تحصیل بھر کے اور ضلع بھر کے عوام کے علم میں ہوتا ہے کہ مجرم یہاں موجود ہے مگر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

مجرموں کو پناہ دینے کا عمل دوطرفہ ہے۔ اگر مجرم کسی مفلوک الحال محلے میں رہنے والا غریب انسان ہے، جیسے زینب کا قاتل، تو اس کی ماں یا باپ یا رشتہ دار اسے چھپاتے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچاتے ہیں۔ مجرم اگر امرا کے طبقے سے ہے تو پولیس خود تجاہل عارفانہ برتتی ہے، کبھی ڈر کے مارے، کبھی لالچ کے زیر اثر اور کبھی ’’تعلقات‘‘ قائم کرنے کے لیے۔

یہ چند برس پہلے کی بات ہے۔ ایک اہم ادارے میں ملازمت کرنے والے بڑے افسر کی کار چوری ہو گئی۔ اس کا جواں سال فرزند ایک دن بازار میں تھا کہ اسے اپنی گاڑی نظر آئی۔ اس نے فوراً والد کو فون کیا۔ والد نے کہا میں پہنچتا ہوں تم گاڑی پر نظر رکھو۔ ابھی گاڑی کا مالک یعنی جواں سال لڑکے کا باپ پہنچا نہیں تھا کہ کار چل پڑی۔ لڑکے نے فوراً باپ کو فون پر بتایا کہ ایک آنٹی کار ڈرائیو کرکے جا رہی ہیں۔ باپ نے ہدایت کی کہ پیچھا کرو۔ لڑکا تعاقب کرنے لگ گیا۔ گاڑی بازار سے باہر نکلی اور سڑکوں سے ہوتی ایک گھر کے سامنے رکی۔ بقول لڑکے کے آنٹی اتری اور گھر میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد باہر آئی، گاری میں بیٹھی اور قریب ہی ایک اور گھر میں چلی گئی۔ وہاں سے وہ باہر نہ نکلی۔ لڑکے کو جب یقین ہو گیا کہ یہ ’’آنٹی‘‘ کا گھر ہی ہوگا تو وہ پلٹا اور باپ کو لے آیا۔ باپ نے دیکھا تو یہ اسی کی غائب شدہ گاڑی تھی۔ خاتون سے بات کی تو اس نے دعویدار کو اندر آ کر گاڑی چیک کرنے کی اجازت ہی نہ دی۔ پھر ایک تیسرا شخص درمیان میں ڈالا گیا۔ اس نے مالک کی بتائی ہوئی نشانیوں کی مدد سے تصدیق کی کہ گاڑی وہی ہے۔ لوگ بااثر تھے۔ بہت زیادہ بااثر۔ خاتون پہلے جس گھر میں گئی تھی وہ اس کے انتہائی قریبی عزیز تھے اور بہت بڑی، بہت بڑی شخصیت تھے۔ خاتون بھی معروف کاروباری شخصیت تھی۔ گاڑی کے مالک نے بڑی شخصیت سے رابطہ کیا تو ان کا موقف واضح تھا کہ میرا اس معاملے سے کیا تعلق۔ رہی خاتون تو وہ بات کم کرتی تھی دھونس زیادہ جماتی تھی۔ بے بس مالک نے پولیس سے لے کر پریس تک ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہر تعلق آزمایا جو دوڑ دھوپ گریڈ بیس کے اس افسر سے ہو سکی کی، مگر نام سن کر ہر کوئی ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ پھر پریس کے ایک رکن نے اسے بتایا کہ ہم کیمرہ لے کر ابھی تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ تصویر چھاپیں گے اور خبر بھی۔ مگر یہ جان لو کہ ہوگا کچھ نہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ گاڑی اس گھر میں نہیں تھی۔

یہ ایک مثال ہے جو اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے۔ اگر نام افشا کئے جائیں تو بھونچال تو شاید نہ آئے مگر بھونچال سے کم بھی نہ ہو۔ کالم نگار کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر وہ احمقانہ بہادری سے کام لیتے ہوئے نام لکھ بھی ڈ الے تو گاڑی کا مظلوم مالک منقار زیر پر ہو جائے گا۔ بھائی لوگو!

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔

کب پہنچیں گے ہم اس اخلاقی بلندی پر جب ماں مجرم بیٹے کو پولیس کے حوالے کرے گی۔ پارٹی کے ارکان ووٹ کے ذریعے اپنی صفوں میں موجود مجرموں کو پارٹی سے نکال باہر کریں گے۔ جب پولیس موم کی نہیں پتھر کی ہوگی جسے موڑنا ممکن نہ ہوگا۔ ایسا کب ہوگا! کچھ نہیں معلوم! کتنے ہی سال درکار ہوں گے! کیا عجب کتنے ہی نوری سال درکار ہوں۔ اس وقت تو اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ قاتل ہوں یا حرام کھانے والے، معاشرے میں ڈٹ کر، کھلے عام، ڈنکے کی چوٹ رہ رہے ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا جب مجرم چھپتے پھرتے تھے۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

2082ء

$
0
0


وہ رات کروٹیں بدلتے گزری آنکھ لگتی تو ایک آنسو نظر آتا۔ آنکھ سے ٹکپتا ہوا‘ رخسار پر گرتا ہوا۔

کمپیوٹر پر فیس ٹائم لگا کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ناراض ہو کر جب بُت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھ جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں پکوڑا بنی ہوئی ہے۔اس وقت وہ پکوڑا بنی ہوئی تھی۔ ہزاروں میل دور بیٹھا‘ میں اسے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مشکل کے بعد وہ ایک ثانیے کے لیے ہنسی مگر عین اسی وقت آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور گال پر گرا۔ ایک ٹکڑا میرے کلیجے سے کٹ کر میرے حلق میں آ گیا۔ پوچھا کیوں رو رہی ہے۔ بتایا گیا کھانا نہیں کھارہی تھی۔ ابا نے ڈانٹا۔ اب میرا اندازہ یہ تھا کہ ابا نے ایک ہلکا پھلکا ہاتھ بھی ٹکا دیا ہو گا!

پانچ دس منٹ بعد وہ سب کچھ بھول کر کھیل میں مصروف ہو گئی ہو گی مگر میں اپنی افتاد طبع کا کیا کروں کہ وہ آنسو دل میں جیسے چھید کر گیا۔ رات تک بارہا تصور میں اسی آنسو کو ٹپکتے دیکھا۔ زہرا کا چہرہ سامنے آ جاتا۔ پھر نم آنکھیں۔ چھلکتی ہوئی! پھر گرتا ہوا آنسو! آنکھ لگتی! پھر کھلتی! پھر لگتیٖ پھرکھل جاتی! یہ خیال بھی آیا کہ ویزا تو لگا ہوا ہے۔ سیٹ بُک کرا کر چلا جاتا ہوں۔ پھر وہ مصروفیات یاد آئیں جو آنے والے دنوں اور ہفتوں کے لیے طے ہو چکی ہیں۔ یوں بھی اچانک جانے کا پروگرام بناتا تو سب گھر والوں نے کہنا تھا کہ بچے روتے رہتے ہیں! اس میں ایسی کیا بات ہے کہ مسئلہ بنایا ہوا ہے! پھر ایک ڈھارس بندھی کہ دو ماہ بعد ان لوگوں نے پاکستان چھٹی آنا ہے! کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا! مگر ایک بے کلی چھائی رہی! ایک پژمردگی تھی جو اندر‘ دل کے صحن میں ٹہلتی رہی! ادھر سے اُدھر۔ ہاتھ پیچھے باندھے۔ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک!!

گزشتہ برس آئی تو پانچ برس کی تھی۔ ایک دن جانے کیا خیال آیا‘ کپڑا لیا اور صفائی پر کمر باندھ لی۔ پہلے لائونج کے صوفے صاف کئے ۔ پھر کچن کا کائونٹر اور الماریوں کے دروازے۔ پھر ریفریجریٹر ۔ پھر کھیلنے کے لیے کاغذ کی وہ چٹیں مانگیں جن پر ایک طرف گوند لگی ہوتی ہے اور دیوار پر یا کسی بھی جگہ فوراً چسپاں ہو جاتی ہیں۔ ساری دیواریں چٹوں سے بھر دیں۔ پھر جہاز اُسے واپس لے گیا۔ اس کے جانے کے بعد دیکھا تو ایک چٹ خواب گاہ کی دیوار کے ساتھ لگی تھی۔ اس پر الٹی سیدھی لکیریں کھنچی ہیں -صفائی کرنے والے لڑکے کو زہرہ کی دادی نے اور میں نے بیک وقت کہا کہ اس چٹ کو نہیں اتارنا۔ سال سے زیادہ عرصہ ہوا۔ اسی طرح لگی ہے۔ ان الٹی سیدھی لکیروں میں داستانیں چھپی ہیں اور کہانیاں! ان لکیروں میں اس کی معصوم باتیں ہیں! ان لیکروں میں ایک بچپن بھرا ہے! ہنستا مسکراتا ‘ کھلکھلاتا ‘ لہلہاتا ! فرشتوں جیسی باتیں!

ایک دن ماں یا دادی کی لپ سٹک اٹھائے اپنا میک اپ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے کہا مجھے بھی لگائیے، کہنے لگی‘ نہیں! اس واسطے کہ تُسی بوائے او! بیرون ملک جب تک رہتا ہوں‘ ساتھ ساتھ رہتی ہے گھر سے باہر جانے لگتا ہوں تو جیسے ہی دروازے کے پاس جا کر جوتے پہننے لگتا ہوں‘ نہ جانے کیسے اسے خبر ہو جاتی ہے۔ کہیں سے یک دم نمودار ہوتی ہے اور پوچھتی ہے تُسی کتھے وینے پَو(یہ آخر والا پَو۔ اس کی اپنی اختراع ہے) پھر کہتی ہے میں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ فوراً جوتے پہنے گی اور ساتھ ہو لے گی!

یاد نہیں یہ واقعہ کہاں پڑھا تھا۔ ایک امریکی تھا۔ دانشور یا مصنف یا شاید ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ! اسے وائٹ ہائوس سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ کہ امریکہ کے صدر اس اتوار کو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کسی معاملے پر مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ سو اتنے بجے تشریف لے آئیے! عمر رسیدہ شخص نے معذرت کی کہ میں اُس دن ایک طے شدہ پروگرام کی بنا پر مصروف ہوں۔ وائٹ ہائوس کے اہلکار نے تعجب سے پوچھا۔ حضور!امریکہ کے صدر کے ساتھ ملاقات سے زیادہ ضروری بھی کوئی مصروفیت ہو سکتی؟ جواب دیا! ہاں! یہ مصروفیت اس سے بھی زیادہ ضروری ہے! پوچھا کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ پوتی کو چڑیا گھر لے جانا ہے ! وائٹ ہائوس کا سیکرٹری ہنسا اور کہا سر! یہ بھی کوئی بات ہے بھلا! پوتی کو آپ اگلے اتوار کو لے جائیے۔ بوڑھے نے کہا نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! امریکی صدر اس قدر مصروف ہے کہ مجھ سے ملاقات کرنے کے ایک گھنٹہ بعد اُسے یہ ملاقات یاد ہی نہیں رہے گی۔ مگر پوتی چڑیا گھر کی اس سیر کو ساری زندگی یاد رکھے گی۔یہ اس کی یادداشت کا ایسا حصہ ہوگا جو ہمیشہ تروتازہ رہے گا!

وقت گزر جاتا ہے۔ مگر دادا دادی اور نانا نانی کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے ساعتیں‘ دن اور ہفتے ہمیشہ یاد رہتے ہیں! یہ آٹو بائیو گرافی ذہن کے صفحات پر لکھی ہوتی ہے دل کی آنکھیں اسے پڑھتی رہتی ہیں! پھروہ وقت آتا ہے جب اسے پڑھتے پڑھتے آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں! پھر بال چاندی ہونے لگتے ہیں! چہرے پر جھریوں کا قافلہ اترنے لگتا ہے! ایسے میں وہ وقت زیادہ شدت سے یاد آتا ہے جب پوتے یا نواسے کے طور پر‘ یا پوتی یا نواسی کی حیثیت سے شہزادوں اور شہزادیوں جیسی زندگی گزاری تھی! زمانہ‘ وقت کی شال اوڑھے سامنے کھڑا ہے! ایک انچ چلتا ہے تو برس گزر جاتے ہیں! پورا قدم اٹھاتا ہے تو ایک پوری زندگی افق کے اس پار اتر جاتی ہے!

2082
ء
 میں خدا اسے سلامت رکھے‘ زہرا ستر سال کی ہو گی! دادا کو زیر زمین منتقل ہوئے نصف صدی بیت چکی ہو گی! اس کے خوبصورت ‘ نرم‘ ریشمی بالوں میں نقرئی جھلک آ چکی ہو گی! وہ اپنے پوتوں اور نواسیوں کو بتایا کرے گی کہ بچو! تم کیا جانو! میں تو شہزادیوں کی طرح تھی! ایک آنسو بحرالکاہل کے کنارے‘ آنکھ سے ٹپکا تھا تو ہزاروں میل دُور‘ ہمالیہ کے جنوبی دامن میں‘ دادا رات بھر تڑپتا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اڑ کر میرے پاس پہنچ جائے! میرے ہاتھ سے کھینچی ہوئی بے معنی لکیریں اس کے لیے صحیفے کی حیثیت رکھتی تھیں ؎

یوں تھا کہ میں بھی چاند تھی‘ دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے

وہ میرے ننھے ننھے جوتوں کو سنبھال کر رکھتا تھا۔ میرے ایک ایک کھلونے کی حفاظت کرتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا تھا۔ میرے ابا نے جب مجھے ڈانٹنا ہوتا تو میرے دادا سے چُھپ کر‘ ڈانٹتا تھا۔ یہی کہانی ہمارے ہاں نسل درنسل چلی آ رہی ہے۔ اس لیے کہ جب ابا کو دادا نے ڈانٹنا تھا تو اسے لے کر بالائی منزل پر گئے۔ مڑ کر دیکھا تو ابا کے دادا بھی پیچھے پیچھے آ رہے تھے کہ پوتے کو ڈانٹ سے بچا سکیں!!

ہر شخص اتنا خوش بخت نہیں کہ اُسے یہ میوہ نصیب ہو! دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش اس لذت کے سامنے ہیچ ہے! اس آسمانی درخت کی چھائوں عام نہیں! خاص ہے! نصیب اچھا ہے تو میسر آئے گی! میسر آئے تو بخت پر ناز کیجیے کہ یہ نعمت زور سے اور زر سے نہیں ملتی! اس درخت کا تنا چاندی کا ہے۔ پتے لعل و جواہر ہیں! اس پر بہشتی پھل لگے ہیں۔ کیا خوبصورت پرندے ہیں جو اس کی سنہری شاخوں پر بیٹھے ہیں! پروردگار کا شکر ادا کیجئے جس نے آپ کو ایک خاص مراعات یافتہ 
Elite
کا رکن بنایا ہے
۔ ؎

پو توں نواسیوں کے چمن زار واہ!واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Viewing all 1926 articles
Browse latest View live


Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>