پہلا بیان:
''دونوں ممالک غربت وافلاس کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور دونوں ہی نیوکلیائی ممالک ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اور یہاں کی سیاسی وعسکری قیادتیں اب تیزی سے پائیدار امن کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام بھارتی شہریوں کی ہلاکت کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ بے قصور شہریوں کو لاحق خطرات ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تمام ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرے۔ سرحد کے اُس پار بھی کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ معصوم شہریوں‘ بالخصوص خواتین اور بچوں کی ہلاکت‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل‘ مذہب‘ زبان‘ قومیت یا طبقے سے ہو‘ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام فریقوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دہشت گردی خطے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قیمتی اور بے قصور جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لوگ مسلسل شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر طرح کے تنگ نظر مفادات سے اوپر اٹھ کر اس اصل مسئلے کے پائیدار حل پر توجہ دی جائے‘‘۔
دوسرا بیان:
''بھارت کی جنونیت اور تکبر کے مقابلے میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔ پاکستان نے بہت تدبر سے بھارتی جارحیت کا جواب دیا۔ مذاکرات میں کشمیر ایجنڈا نمبر وَن ہونا چاہیے‘ کشمیر کے بغیر مذاکرات قبول نہیں کریں گے۔ پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی افواج کی پشت پر کھڑی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھارتی غرور خاک میں مل گیا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ بھارت کا دنیا میں کوئی مددگار تھا تو وہ اسرائیل تھا۔ بھارتی جارحیت نے قوم کو اکٹھا کر کے نوجوانوں میں مایوسی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ہم نے جس راستے کو اختیار کیا ہے یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔
آپ نے حالیہ جنگ کے حوالے سے اوپر کے دونوں بیانات پڑھے۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ پہلا بیان منمناہٹ ہے‘ دوسرا دھاڑ۔ پہلا بیان امیر جماعت اسلامی بھارت‘ سعادت اللہ حسینی کا ہے۔ دوسرا بیان امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ہے۔ پہلا بیان بھارتی مسلمانوں کی بے بسی‘ اور بیچارگی ظاہر کرتا ہے۔ اس بیان میں کسی جارح کا ذکر نہیں۔ دونوں ملکوں کو یکساں قرار دیا گیا ہے حالانکہ جنگ بھارت نے شروع کی تھی۔ وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں دہشت گردی کر اور کرا رہا ہے۔ دوسرا بیان ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے۔ جو مسلمان پاکستان میں رہتے ہیں‘ وہ الحمدللہ آزاد ہیں۔ سچ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں۔ سچ وہی ہے جو حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے۔ کوئی بھارتی مسلمان اس انداز میں بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا!!
ہمیں بھارتی مسلمانوں سے ہمدردی ہے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارے جسم وجان کا حصہ ہیں۔ 'روزنامہ دنیا‘ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر مسلسل لکھا ہے۔ آسام کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر بھی لکھا ہے۔ ادتیا ناتھ نے یو پی میں جو اندھیر مچایا ہوا ہے اس پر بھی مسلسل احتجاج کیا ہے۔ شاید اس کالم نگار کی آواز تنہا آواز ہے جس نے اُن بھارتی شہرو ں کے نام بدلنے پر بارہا ماتم کیا جن کے نام مسلم تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ ادتیا ناتھ آگرہ‘ الہ آباد اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں کے نام بدل چکا ہے۔ ادتیا ناتھ مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ حقائق ہیں اور تلخ حقائق! اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان نہ بنتا تو آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی حالت بھی وہی ہوتی جو بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو پاکستان‘ بنگلہ دیش اور موجودہ بھارت کے مسلمان مل کر بہت بڑی قوت بن جاتے۔ مگر یہ ایک مفروضہ ہے جس کا غلط ہونا واضح ہے۔ آج بھارت میں بیس کروڑ مسلمان ہیں۔ وہ اقلیت میں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ بنتے تو مسلمانوں کی تعداد اٹھاون کروڑ ہوتی۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں تب بھی وہ اقلیت ہی ہوتے۔ ون مین ون ووٹ کے فارمولے کے سامنے ان کی کیا حیثیت ہوتی! وہی حیثیت ہوتی جو تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی تھی۔ لاہور کا شاہ عالمی تقریباً سارا ہندوؤں کے پاس تھا۔ جہلم جیسے شہر کے بازار میں مسلمانوں کی صرف دو دکا نیں تھیں۔ ہر گاؤں میں تجارت ہندوؤں کے پاس تھی۔ مسلمان کسانوں کی اکثریت مقروض تھی۔ راولپنڈی میں ٹاپ کی جائدادیں ہندوؤں کی ملکیت تھیں۔ جس وسیع وعریض عمارت میں آج فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی ہے‘ اور پہلے ایوانِ صدر تھا‘ وہاں سے لے کر جھنڈا چیچی تک تمام جائداد دو ہندو بھائیوں کی تھی۔ مسلمان ان کے سرونٹ کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہی حالت ان تمام صوبوں کی تھی جہاں مسلمانوں کی نام نہاد اکثریت تھی۔ آج اگر بھارتی پارلیمنٹ سے مسلمان تقریباً غائب ہیں تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہونا تھا۔ کیا آج بھارتی مسلمانوں کو ملازمتوں میں اور منتخب ایوانوں میں آبادی کے لحاظ سے حصہ مل رہا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! بھارت کی مرکزی حکومت میں کتنے وزیر مسلمان ہیں! کتنے سیکرٹری مسلمان ہیں؟
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں ہیں‘ اقوام متحدہ میں انکی نشستیں ہیں‘ انکے وزرا مسلمان ہیں۔ بیورو کریسی میں مسلمان غالب ہیں‘ انکے طلبہ اور طالبات دنیا بھر میں سکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو مسلمانوں کو زیرہ تک نہ ملتا۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ریاستیں نہیں‘ قومی ریاستیں ہیں‘ تو بنگالی تو بھارت میں بھی موجود ہیں۔ مغربی بنگال کی آبادی دس کروڑ ہے۔ بنگلہ دیش کی اس سے صرف پانچ کروڑ زیادہ ہے۔ نیشن سٹیٹ ہوتی تو تمام بنگالی اکٹھے ہوتے۔ پنجابی اور سندھی بھارت میں بھی ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گُجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے!
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اتار سکتے! ذرا سوچیے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا؟ میلبورن کے ایک محلے کا نام ہائیڈل برگ ہے۔ میں اُس بھارتی مسلمان کو نہیں بھول سکتا جو وہاں مسجد میں نمازِ جمعہ کے موقع پر مجھے ملا۔ اس سے پوچھا: بھارت کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے اور کیا پوزیشن؟ اس کا جواب دو لفظوں میں تھا۔''بس اقلیت میں ہیں‘‘۔
لیکن ہمیں ناشکر گزاروں سے بچنا ہو گا۔ ہم باہر کے مودیوں‘ امیت شاہوں اور ادتیا ناتھوں کو تو نتھ ڈال چکے ہیں‘ اندر کے دشمنوں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ اُن برخود غلط‘ نام نہاد دانشوروں کو ان کی حیثیت بتانا ہو گی جو مبہم لفظوں اور مغالطہ آمیز اصطلاحوں کی شعبدہ گری سے پاکستان کی جڑوں کے درپے ہیں!