Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all articles
Browse latest Browse all 1916

دو عیدیں اور غزہ

$
0
0

میلبورن ( آسٹریلیا) میں کتنے مسلمان ہوں گے؟ لاکھ‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ۔ یہ مٹھی بھر مسلمان اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ عید کس دن کرنی ہے! ماشاء اللہ دو عیدیں ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال رہا۔ اندازہ لگائیے‘ جو لوگ عید کے تہوار پر متفق نہیں ہو سکتے‘ وہ غزہ کو دشمن کے پنجے سے چھڑائیں گے!! چلیے‘ ہم پاکستان میں رہنے والے تو پسماندہ ہیں اور تارکینِ وطن کی نگاہوں میں قابلِ رحم! مگر یہ حضرات جن کی زندگیاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گزریں اور بہت سوں کی تو پیدائش ہی وہیں کی ہے‘ یہ لوگ ایک عید کیوں نہیں کر لیتے؟ یا تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ عید کریں یا کیلنڈر کے مطابق کر لیں۔ جن حضرات کو اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ہے وہ رمضان المبارک میں چھت پر چڑھ کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟ حکم تو یہ ہے کہ کھاؤ اور پیو‘ جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے۔ مگر چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر اصرار کرنے والے اس بات کا کبھی جواب نہیں دیتے کہ سحری کے وقت گھڑی دیکھ کر کھانا پینا کیوں بند کر تے ہیں؟ جس طرح ہمارے منتخب نمائندے صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو‘ اسی طرح مسلمان بھی اُسی وقت متحد ہوتے ہیں جب کسی کی تکفیر یا تکذیب کرنی ہو! بقول اقبال:

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
بھارت میں ایک متعصب پنڈت نے پھر بدزبانی کی ہے۔ بھارتی مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس گستاخ کو گرفتار کیا جائے۔ گرفتاری کا امکان‘ آر ایس ایس کی اس حکومت میں بہت خفیف ہے۔ بھارت کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی‘ بھارت کی مسلم کُش پالیسیوں کے باوجود‘ بھارت کو صدقے قربان کہتے تھکتے نہیں! کبھی کبھی کوئی اکا دکا آواز اٹھتی ہے مگر سرکاری سطح پر بھارت کے ساتھ مسلسل معانقے ہوتے ہیں حالانکہ محض تنبیہ بھی بھارت کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہمارے جو بھائی برسر اقتدار ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ہم مسلمان ''امت مسلمہ‘‘ کا ذکر کرتے تھکتے نہیں‘ یہ اور بات کہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا۔ ویسے شرقِ اوسط کے امیر حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج ہیں جنہوں نے ان کے سر پر عافیت کی چھتری تانی ہوئی ہے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے دیوار کھڑی کی ہوئی ہے ورنہ ان کا حال بھوٹان اور نیپال سے کم نہ ہوتا۔ امتِ مسلمہ کی بات ہو رہی تھی۔غزہ کے مسلمان کب سے امتِ مسلمہ کی تلاش میں ہیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی! امریکہ نے غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کے لیے پیش ہونے والی قرارداد کو‘ سلامتی کونسل میں‘ پانچویں بار ویٹو کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وارے نیارے ہیں۔ جس امریکہ کا دستِ شفقت اسرائیل کے سر پر ہے‘ اُس امریکہ کو ہمارے عرب بھائی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔امریکی صدر کے استقبال کے لیے جوان زلفوں کو پھولوں کی طرح بکھیرا گیا۔ تحفے میں پہلے تو سونے کی گھڑیاں اور زیورات کے انبار پیش کیے جاتے تھے اب ہوائی جہاز دیے جانے لگے ہیں۔ کیا عجب جہاز بھی زرِ خالص سے بنا ہو! اس لیے کہ ایک بار نیاز مندی شروع ہو جائے تو رکتی نہیں خواہ اس کی سرحد دست بستہ غلامی ہی سے مل رہی ہو! کیونکہ
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
ویسے یہ بات طے ہے کہ زلفیں بے شک قدموں کے نیچے بچھا دیں اور ایک ہوائی جہاز نہیں سو ہوائی جہاز دے دیں پھر بھی وہ والہانہ پیار نصیب نہیں ہو سکتا جو بڑے صاحب کو اسرائیل سے ہے۔ پالیسیاں طے کرتے وقت اسرائیل ہی کو اعتماد میں لیا جائے گا اس لیے کہ 
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جو ہرِ ادراک
کتنا بڑا المیہ ہے کہ غزہ کو مسلسل آگ اور خون میں نہلایا جا رہا ہے اور جو آگ اور خون کے اس کھیل میں سب سے بڑے کھلاڑی ہیں انہیں غزہ والوں کے ''اعزّہ واقربا‘‘ یعنی غزہ والوں کے سگے رشتہ دار‘ ہار پہنا رہے ہیں‘ تحائف سے لاد رہے ہیں اور ان کی بلائیں لے رہے ہیں! یہ درد ناک سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ترکوں کی پیٹھ میں خنجر بھونکا گیا۔ اقبال پھر یاد آگئے:
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
''ترکانِ جفا پیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
امتِ مسلمہ تو نظر ہی نہیں آرہی مگر و ہ جو ''عرب لیگ‘‘ ہے وہ کہاں ہے؟ کیا غزہ کے لوگ عرب نہیں؟ عرب لیگ کا تازہ ترین سربراہی اجلاس 17 مئی 2025ء کو بغداد میں ہوا۔ اس سے پہلے گزشتہ برس مئی ہی میں بحرین میں ہوا۔ چار مارچ 2025ء کو ایک ایمرجنسی سربراہی اجلاس قاہرہ میں ہوا۔ اس سے اہلِ غزہ کو کیا فرق پڑا؟ اور جو کچھ اہلِ غزہ پر بیت رہی ہے‘ اس سے عرب ممالک کے اربابِ اختیار کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ غزہ کو ختم کرنے کے بعد مسلم دشمنی اور عرب دشمنی کا یہ سلسلہ رک جائے گا تو سخت غلط فہمی میں ہے۔ چنگیز خان جب کوئی شہر فتح کرتا تھا تو سب سے پہلے ان افراد کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا تھا جنہوں نے اپنوں سے غداری کر کے چنگیز خان کی مدد کی تھی۔ کیسی زبردست پالیسی تھی! جو اپنوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنوں کے قاتلوں کے ساتھ مل جاتے ہیں انہیں چنگیز خان نے معاف کیا نہ تاریخ معاف کرتی ہے۔ وہ اپنی جلائی ہوئی آگ ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں۔ چالاک دشمن انہیں استعمال کرتا ہے۔ استعمال کرنے کے بعد تہِ تیغ کر دیتا ہے۔
مشہور جرمن پادری مارٹن نیلامر شروع میں ہٹلر کا حامی تھا اور اس کی نازی پارٹی کا ہمدرد! 1933ء میں جب ہٹلر برسر اقتدار آیا اور اس نے پروٹسٹنٹ کلیسا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی تو نیلامر نے اس پر تنقید کی۔ اس کی پاداش میں نازی اقتدار کے آخری آٹھ سال اس نے زندانوں اور حراستی کیمپوں میں گزارے۔ اس کا ایک قول بہت مشہور ہوا جو یوں تھا ''پہلے وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں تب بھی خاموش رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے۔ میری حمایت میں بولنے کے لیے کوئی باقی ہی نہیں بچا تھا!!‘‘ غزہ جہنم بنا ہوا ہے۔ بچے موت کے گھاٹ اُتر رہے ہیں۔ کھانا تو دور کی بات ہے‘ دوائیں اور پانی تک نہیں موجود۔ ایک گرداب ہے جو سفینے ڈبو رہا ہے۔ جو کنارے پر کھڑے ہیں‘ وہ مطمئن ہیں کہ محفوظ ہیں! مگر یہ ان کی خوش گمانی ہے۔ گھوڑے اور گھاس میں دوستی نہیں ہو سکتی! ہوا کی چراغ سے محبت کبھی نہیں ہوئی!!

Viewing all articles
Browse latest Browse all 1916


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>