Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1924 articles
Browse latest View live

دھچکا

$
0
0
برف کا دیو ہیکل پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا اور نیچے کی طرف بڑھنے لگا....
یہ سیاچن کا گیاری سیکٹر تھا دیو ہیکل گلیشیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی۔ اس نے پاکستانی مستقر کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ایک سو تیس فوجیوں کو ہڑپ کر گیا۔ 
یہ سیاچن‘ یہ کارگل‘ یہ گیاری برف اور پتھروں سے نہیں قائم۔ یہ اس خون کی قوت سے کھڑے ہیں جو پاکستانی مائوں کے جوان بیٹوں نے ان پہاڑیوں کو دیا ہے‘ پاکستانی قوم سلام کرتی ہے اپنے جوانوں کو جو دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر برفانی ہوائوں کا سامنا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ایسی برفانی ہوائیں جن کی شدت سے جسم کے اعضا صرف شل نہیں ہوتے‘ جھڑ جاتے ہیں۔ جو آنکھوں کی بینائی لے اُڑتی ہیں پاکستانی قوم شہیدوں کی ان میتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو کارگل کی چوٹیوں سے واپس اپنے قریوں‘ اپنی بستیوں میں آتی ہیں۔ اور زمین میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ شہید‘ پاک پوّتر بارش کے وہ قطرے ہیں جو آسمان سے اترتے ہیں اور زمین کے اندر چلے جاتے ہیں۔
پاکستانی عوام احسان نہیں بھولتے۔ اُنہیں چونڈہ کا میدان آج تک یاد ہے۔ جہاں بھارتی ٹینکوں کے آگے پاکستانی فوج کے جوان لیٹ گئے تھے۔ ٹینک ان کے اوپر سے گزرتے اور بھک سے اڑ جاتے اس وقت چاون بھارت کا وزیر دفاع تھا شورش کاشمیری نے بے ساختہ کہا    ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاون کے حق میں تیغِ جگردار ہو گیا
زندہ دلانِ شہر نے ایسا دیا ثبوت
لاہور ہر لحاظ سے بیدار ہو گیا
میرے وطن کی فوج ظفر موج کا جلال
ہندوستاں کے حق میں قضا کار ہو گیا
سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک‘ ہمارے وطن کی فوجِ ظفر مند کے پرچم‘ دہشت گردوں کے سینوں میں گڑے ہیں پاکستانی فوج نے ہزاروں جوان اور افسر صرف اور صرف اس لیے قربان کر دیے کہ قوم کے بوڑھے بچے عورتیں اور مرد سکون کی نیند سو سکیں۔ دہشت گردوں کی گولیوں کے سامنے ہماری فوج کے سینے ہمارے لیے سپر بن گئے ہمارے جوان بارودی دھماکوں کی نذر ہوئے تاکہ پاکستان کے شہر اور قصبے‘ قریے اور گائوں سکول اور بازار‘ مسجدیں اور خانقاہیں محفوظ رہیں۔
تو کیا ہم کسی فرد کو یا چند افراد کو اجازت دے سکتے ہیں کہ عالمِ اسلام کی اس عظیم فوج کو اپنی ناعاقبت اندیش حرکتوں سے نقصان پہنچائے؟ کیا فوج کے چند جوشیلے ناپختہ کار اور کچے افسروں کی اُس حرکت سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے عظیم فوج کی شہرت کو دھچکا لگے؟ نہیں کبھی نہیں! ہرگز نہیں!
اٹک کے قریب جو کچھ ہوا‘ اس میں فوج کا کردار‘بطور ادارہ نہیں! یہ چندافراد کا انفرادی فعل تھا۔ پاکستانی قوم کو‘ اس قوم کے عوام کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چند طالع آزمائوں کے نامسعود اقدامات کا ذمہ دار پوری فوج کو کبھی نہیں ٹھہرایا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل یحییٰ خان تک جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک‘ سیاست دانوں میں رقوم بانٹنے سے لے کر این ایل سی سکینڈل تک۔ جو کچھ ہوا‘ چند بخت آزمائوں کی انفرادی حرکات تھیں۔ فوج‘ بطور ادارہ ‘ ان اقدامات سے بری الذمہ ہے اور اسی پر قوم کا اجماع ہے۔ جہاں فوج کی قربانیاں قوم کی یادداشت پر کھدی ہیں‘ وہاں قوم کی تعریف بھی کی جانی چاہیے کہ اس نے فوج کے ادارے کو ہر حال میں افراد سے بلند رکھا اور چند جرنیلوں یا چند افسروں کی غلط کاریوں کو ہمیشہ ان کا انفرادی فعل سمجھا!
جنرل راحیل شریف نے کمان سنبھالی تو فوج کا مورال تسلّی بخش سطح پر نہیں تھا۔ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ خطرے کا پانی گلے تک آ چکا تھا۔ جنرل نے مورال کو آسمان تک پہنچایا۔ دہشت گردی کا قلع قمع کیا ملک کو خطرے سے باہرنکالا۔ فوج کو جو عزت‘ جو حرمت‘ جو شہرت‘ جو نیک نامی‘ آج حاصل ہے‘ تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ اس عزت پر ‘ اس حرمت پر اس شہرت پر اس نِکو نامی پر کسی انفرادی فعل کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے۔
جنرل راحیل شریف جیسے جواں مرد سپاہی سے یہ بعید ہے کہ وہ اسے انا کا مسئلہ بنانے کی اجازت دیں۔ نہیں‘ یہ انا کا مسئلہ نہیں! دو تین افسروں، فوجی جوانوں کے گروہ کو ذاتی غصہ نکالنے کے لیے جس طرح باہر نکال لائے۔ جنرل راحیل شریف اسے معاف نہیں کریں گے۔ یہ جوان پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ یہ ریاست کے ملازم تھے۔ کسی افسر کے ذاتی کارندے نہیں تھے۔ یہ فوج ہے‘ کسی ایک یا دو یا تین افسروں کی ذاتی جاگیر نہیں! یہ حرکت ان کے بلند مقام سے نیچے تھی! ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا!
جنرل راحیل شریف نے رات دن ایک کر کے‘ دہشت گردوں کو ملکی قانون کا تابع کیا۔ ان سے بہتر ملکی قانون کا قدر شناس کون ہو سکتا ہے؟ جنرل راحیل شریف یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے عساکر کا کوئی افسر‘ کوئی جوان‘ کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کرے اور جب اس خلاف ورزی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اسے انا کا مسئلہ بنا لے اور فوج کو بطور ادارہ سامنے کھڑا کر دے۔
سوشل میڈیا حقیقت بن چکا ہے ایک سیلابی‘ زور آور‘ زبردست حقیقت! یہ کس طرح ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنے کرب کا اظہار کریں اور ہماری عزیز از جان فوج اور اس کا عظیم سالار اس کرب کا نوٹس نہ لیں۔ہزاروں لاکھوں پاکستانی درد سے تڑپ رہے ہیں۔ یہ درد فوج کے لیے ہے۔ یہ لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ بے پناہ محبت۔ بے پایاں محبت۔ والہانہ محبت۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ چندافراد‘ ان کی محبوب فوج کی شہرت کو نقصان پہنچائیں۔ پاک فوج کی شہرت پر ضرب پڑے تو یہ ضرب لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر پڑتی ہے اس درد کی لہر ان کے کلیجوں تک جا پہنچتی ہے!
قوم اپنے محبوب جنرل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم کو پوری امید ہے کہ جنرل راحیل انصاف کریں گے۔ ایسا انصاف جو پوری قوم کو نظر آئے گا۔


بندوق اور قلم

$
0
0
ان دنوں اس کتاب کا بہت شہرہ تھا۔
 مصباح الاسلام فاروقی نے 
Jewish Conspiracy and Muslim world
تصنیف کی جو دیکھتے ہی دیکھتے پیش نظر پر چھا گئی۔ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان اس کے اسیر ہوئے۔
سازشی تھوریاں یوں بھی مسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کا سورج نصف النہار پر رہا ان سازشی تھیوریوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ جب زوال آیا‘ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہے‘ دین اور دنیا کے علوم کے درمیان لکیر کھینچ دی، تب سازشی تھیوریاں بھی بازار میں بکنے لگیں۔ آج بھی عوام میں مقبول ترین نظریہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ساری ذمہ داری اغیار پر ہے۔ یہودی اور ہندو‘ امریکہ اور یورپ سازشیں کرتے ہیں۔ جیسے اپنا کچھ قصور نہیں۔ سازشی تھوریاں ماننے کا مطلب بالواسطہ اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ ہم اتنے بے بضاعت، ضعیف، جاہل اور سادہ لوح ہیں کہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ مومن دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے۔
ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا۔ وہاں پہنچے تو مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کا شوق دل میں چٹکیاں لے رہا تھا۔ معلوم ہوا علیل ہیں۔ بہر طور‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے، پوچھتے پوچھتے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ کیا گفتگو ہوئی‘ اب بالکل یاد نہیں‘ ہر روز ڈائری لکھنے کی عادت تو ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکلتے ہی ختم ہو چکی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ فاروقی صاحب بیمار تھے، مالی حالات اطمینان بخش نہیں تھے، چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ تاثر یہ ملا کہ جس مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے‘ وہ اب ان کی دیکھ بھال نہیں کر رہی۔ یہ بھی نہیں معلوم یہ تاثر کس حد تک درست تھا!
مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کا تذکرہ آج یوں چھڑا کہ کہنہ مشق صحافی جناب جبار مرزا کی تازہ تصنیف ’’قائد اعظم اور افواجِ پاکستان‘‘ پڑھتے ہوئے ایک مقام نے چونکا دیا۔ جبار مرزا نے ایک پیراگراف ’’صوبیدار مصباح الاسلام فاروقی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے! از حد تعجب ہوا۔ کیا فاروقی صاحب فوج میں صوبیدار تھے؟ تفصیل پڑھی تو لکھا تھا کہ فاروقی دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں شامل ہوگئے اور صوبیدارکے عہدے تک ترقی پائی! گویا بھرتی سپاہی یا لانس نائیک کے طور پر ہوئے ہوں گے! ویسے آج حیات ہوتے تو اپنی پارٹی کے ایک سابق امیر سے ضرورکہتے کہ ارے میاں! ہم انگریزوں کی فوج کی ملازمت کرتے رہے! تمہیں اپنی فوج سے کیا کد ہے؟
مشہور و معروف اخبار نویس وقار انبالوی مرحوم کے بارے میں بھی جبار مرزا نے چونکا دینے والے حقائق بیان کیے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں دس رنگروٹ بھرتی کرانے پر بونس کے طور پر انہیں ’’نائیک‘‘ کی ملازمت دی گئی۔ ترقی کر کے حوالدار ہو گئے۔ پھر نوکری چھوڑی اور روزنامہ زمیندار کے سٹاف میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ چھڑی تو وقار انبالوی نے اپنے آپ کو پھر پیش کیا۔ اب کے انہیں مصر بھیجا گیا جہاں وہ مصری ریڈیو سے تقریریں نشر کرتے رہے۔ جبار مرزا کے بقول’’سرِ راہے‘‘ کا کالم وقار انبالوی ہی نے شروع کیا۔
جبار مرزا نے ایک پورا باب ایسے ہی فوجیوں کے بارے میں مختص کیا ہے۔ یہ پڑھ کر بھی حیرت ہوئی کہ سابق آئی جی‘ سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ چودھری فضل حق نے جو تادمِ آخر ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے رہے‘ ملازمت کا آغاز انڈین آرڈننس کور میں نائب صوبیدار کے طور پر کیا!
فوج سے وابستہ قلم کاروں کی فہرست اتنی مختصر بھی نہیں! چراغ حسن حسرت برطانوی فوج میں میجر تھے۔ زیڈ اے سلہری 1965ء کی جنگ کے دوران کرنل تعینات ہوئے۔ فیض احمد فیض 1943ء میں میجر بھرتی ہوئے۔ ایک سال بعد لیفٹیننٹ کرنل ہو گئے۔ حاجی لق لق ‘ جن کا اصل نام عطا محمد چشتی تھا، پہلی عالمی جنگ میں فوج میں کلرک بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے اعزازی (آنریری) کپتان کے منصب تک پہنچے۔ رہے مزاحیہ شاعری کے بابائے اعظم سید ضمیر جعفری تو ان کا فوج سے تعلق ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہی ہے۔
جبار مرزا نے جن قلم کاروں کا ذکر فوج کے حوالے سے کیا ہے‘ زیادہ تر ان کا تعلق صحافت سے رہا۔ اس کالم نگار کو وہ مشاہیر بھی یاد آ رہے ہیں جو ادیب تھے۔ کرنل محمد خان اور ایڈمرل شفیق الرحمن نے اردو مزاح نگاری میں قابلِ رشک مقام پیدا کیا۔ مگر ایک نام ایسا ہے جسے سب بھولتے جا رہے ہیں۔ بریگیڈیئر گلزار احمد ! آپ مصنف تھے ‘ بہت بڑے عالم اور زبان دان! ان کی تصانیف تو بہت ہیں مگر ہیرالڈ لیمب کی تصنیف ’’امیر تیمور‘‘ کا جو ترجمہ بریگیڈیئر صاحب نے کیا، قلم توڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب کا ترجمہ کرنا اتنا مشکل کام تھا کہ مجھ جیسے طالب علم کو تو تصوّر ہی سے خوف آتا ہے۔ ہیرالڈ لیمب نے ایسی ایسی ادق اصطلاحات استعمال کی ہیں کہ خدا کی پناہ! مگر بریگیڈیئر صاحب نے ترجمہ کرنے کا حق ادا کر دیا۔ اتنا سلیس اور رواں ترجمہ ہے اور پڑھنے والے کو اپنے حصار میں یوں مقید کر لیتا ہے کہ کتاب کا درجہ ترجمہ کا نہیں‘ طبع زاد تصنیف کا ہو جاتا ہے۔ یہ ترجمہ’’میری لائبریری ‘‘ نے چھاپا تھا۔ اب ناپید ہے۔ خوش قسمتی سے لاہور ایک دکان سے ہاتھ آیا تو اپنے بیٹے ڈاکٹر اسرار الحق کے لیے‘ جو ہیرالڈ لیمب کا شیدائی ہے‘ خرید لیا۔ 1992ء میں جب یہ کالم نگار پہلی بار وسط ایشیا گیا تو اس کتاب کو سفری گائیڈ کے طور پر ساتھ رکھا! اب یہ نادر نسخہ میلبورن میں اسرارکی لائبریری کی زینت ہے۔
جبار مرزا کی اس تازہ تصنیف کا ایک باب’’بزم یک شب‘‘ از حد دلچسپ ہے۔ بزم یک شب اس مشاعرے کا نام تھا جو پاک فوج نے 1956ء میں راولپنڈی میں برپا کیا تھا۔ تھرڈ آرمڈ بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر ملک سرفراز خان تھے۔ ضیاء الحق (جو بعد میں صدر پاکستان بنے) میجرتھے‘ ضمیر جعفری اسی بریگیڈ سے بطور کپتان وابستہ تھے۔ میجر ضیاء الحق کو ان کے دوست بے تکلفی سے مولوی اور ضمیر جعفری کو جمروکہتے تھے۔ اس آل پاکستان مشاعرے کی شاعرانہ کمانڈ ضمیر جعفری کے ہاتھ میں تھی اور انتظامی کمانڈ میجر ضیاء الحق کے پاس تھی۔ مشاعرے کی نمایاں بات یہ تھی کہ جوش ملیح آبادی کو بھی بلایا گیا۔ جبار مرزا صاحب کے بقول‘ پاکستان ورود کرنے کے بعد جوش صاحب کا یہ پہلا مشاعرہ تھا۔ دوسری خاص بات اس مشاعرے کی یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کو دعوت نہیں دی گئی۔ بہر طور‘ جوش صاحب کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا گیا تو انہوں نے سرکاری انتظام کے تحت ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے اپنی ایک رشتہ دار کے گھر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ منتظمین حضرات وہاں ان کا خیال اس طرح نہ رکھ سکے جس طرح جوش صاحب چاہتے تھے۔ بقول جبار مرزا ’’جوش صاحب کا اشیائے کام و دہن کی کمیابی سے مزاج بگڑ گیا۔ ناراض ہو گئے‘‘۔ مشاعرے سے پہلے فوجی افسر‘ جو ڈیوٹی پر تھے‘ انہیں لینے گئے تو جوش صاحب نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ضمیر جعفری مشاعرے کا مائک عبدالعزیز فطرت کے حوالے کر کے خود وہاں پہنچے۔ جوش صاحب کی عزیزہ نے بتایا کہ وہ کسی سے نہیں مل رہے۔ بہرطور‘ ضمیر جعفری کسی نہ کسی طرح ان کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ جوش صاحب دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹے ہوئے تھے اور کچھ گنگنا رہے تھے۔ ضمیر جعفری نے انہیں مخاطب کر کے کہا: ’’جوش صاحب! آپ جتنے بڑے شاعر ہیں اس سے اگر آدھے بھی انسان ہیں تو اُٹھ پڑیے۔ لوگ آپ کو سننا چاہتے ہیں، چل کے دیکھیں ہم نے آپ کے لیے کیا کیا انتظامات کر رکھے ہیں‘‘۔ جوش صاحب نے کہا چلیے‘ ہم تیار ہیں۔ یہ الگ بات کہ جو نظم’’ہچکیوں کا قہقہہ‘‘ انہوں نے مشاعرے میں سنائی، اس کی وجہ سے بریگیڈیئر صاحب اپنے سینیٔرز کے سامنے کئی دنوں تک وضاحتیں کرتے رہے اور پیشیاں بھگتتے رہے!!

کھارا اور میٹھا

$
0
0
جھاڑ جھنکار تھے اور زمین پر بکھری ہوئی خشک چٹختی ٹہنیاں! ستمبر اُدھیڑ عمر کو چھو رہا تھا مگر دھوپ کی حدت نوجوانی پر اصرار کر رہی تھی۔ پیشانیاں پسینے سے بھری تھیں۔ کوئی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کی نگاہیں ایک طرف تھیں۔ کبھی کبھی کوئی شخص کھویا ہوا سوال کرتا، نزدیک کھڑا شخص مختصر سا جواب دیتا اور پھر اُس طرف دیکھنے لگتا جدھر سب دیکھ رہے تھے۔
فیروز بشیر انصاری کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا۔ ایک نیک نام، سادہ اطوار شخص، اس کی آخری تعیناتی ٹیکس محتسب کے ادارے میں وفاقی سیکرٹری کی تھی۔ غیبت سے احتراز کرنے والے فیروز نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ والد بشیر انصاری اس خطے کے چوٹی کے وکیل تھے۔ امارت کو اس نے اپنی شخصیت کا حصہ کبھی نہ بنایا۔
اور ہؤا کیا؟ وہ کار چلا رہا تھا نہ ہوائی جہاز میں تھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سڑک کے ایک کنارے پر پیدل چل رہا تھا۔پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا۔ وحشت ناک رفتار تھی۔ سیدھا اُس کی کمر سے ٹکرایا۔ پھر سوار، سامنے، اوندھے منہ گرا۔ پھر دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مقتول بھی اور قاتل بھی!
قاتل بھی! جی ہاں! قاتل! کیا کسی کو پروا ہے کہ موٹر سائیکل سوار اِس ملک میں حشر برپا کیے ہیں؟ وحشیوں کے گروہ کے گروہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانا جرم نہیں! ضرورت ہے اور مجبوری بھی! ان میںخال خال ایسے ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں۔ مگر لاکھ میں تین چار، اس سے زیادہ نہیں! ان سواروں کی بربریت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو گاڑی خود چلاتے ہیں۔ گاڑی غلط سمت میں چلانا مشکل ہے۔ مگر موٹر سائیکل غلط سمت میں چلانا آسان! یہ سانپ ہے جو دائروں میں چلتا راستہ بناتا جاتا ہے اور کسی قانون کو نہیں مانتا۔ کم از کم پچاس فیصد گاڑیوں کو موٹرسائیکل ہِٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ فوج قانون سے ماورا ہے یا سیاست دان، یا نوکر شاہی، تو غلط کہتا ہے! ٹریفک قانون سے ماورا ہے اور ٹریفک میں موٹر سائیکل سوار قانون سے مکمل، ایک سو ایک فیصد ماورا۔ نئی افتاد جو پڑی ہے یہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر کھاریاں اور گوجرانوالہ کے درمیان یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور سب ان کے آگے بے بس ہیں۔ یہ کالم نگار لاہور میں ایک بار اپنے نواسی اور نواسوں کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا۔ سڑک پار کرنا تھی۔ گاڑیوں والے رُک گئے مگر موٹر سائیکل ایک بھی، رُک نہیں رہا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک سفید ریش شخص بچوں کے ساتھ سڑک پار کرنا چاہتا ہے، گاڑیاں رُکی ہوئی ہیں مگر جلتے شعلوں پر سوار، کوئی موٹر سائیکل والا رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بالآخر ایک نوجوان نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر انہیں ایک لمحے کے لیے لگام دی! رہی ریاست! تو ریاست محلات سے اور ڈرائنگ روموں سے اور ہوائی جہازوں سے اور ایوانِ وزیراعظم سے اور قصرِ صدارت سے اور مری کے برفستانوں سے باہر نکلے تو شاہراہوں پر آئے! تب تک شاہراہوں پر سفر کرنے والے‘ ٹرالیوں، ٹریکٹروں، تاتاری صفت موٹر سائیکل سواروں، نشے میں دُھت ٹرک ڈرائیوروں اور ڈمپر چلانے والے انسان نما جانوروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے رہیں گے! کیا ہماری زندگیوں میں وہ وقت آئے گا کہ شاہراہوں پر تہذیب آئے گی؟ تہذیب قانون سے آتی ہے اور کسی کو اچھا لگے یا بُرا، قانون شاہراہوں پر تب آتا ہے جب حکمران، ٹریفک بند کیے بغیر، ٹریفک کے درمیان سفر کریں! مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں‘ دل کے پھپھولے کچھ اور کہنا چاہتے ہیں!
سلیں رکھ دی گئیں۔ پھر سلوں کے درمیان جو گیپ تھا اُسے گارے سے بھر دیا گیا۔ اب مٹی ڈالنے کا وقت تھا۔ تعلق جتنا گہرا تھا، اسی حساب سے مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھری، آخر چھیالیس سالہ رفاقت تھی۔ واہ ری دنیا! جنہیں ہم گلے سے لگاتے ہیں۔ گھر آئیں تو قدموں میں بچھتے ہیں۔ پانی اور چائے خدام کی طرح جھک کر پیش کرتے ہیں۔ چند دن بات نہ ہو تو اضطراب محسوس کرتے ہیں۔ اُن پر مٹی خود ڈالتے ہیں! پھر انہیں تنہا، بے یارو مددگار، ایک وحشت ناک ویرانے میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ پھر دنیا کے ہنگاموں میں یوں کھو جاتے ہیں جیسے یہیں رہنا ہو! پھر ایک اور دن آتا ہے۔ تب مٹی ہم پر ڈالی جا رہی ہوتی ہے! مِنّہا خَلَقْنَا کُم وَ مِنْھا نُعِیْدُ کُم و مِنْھا نُخْرِ جُکُم تَارَۃً اُخْرای۔ اسی مٹی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اسی سے نکالیں گے!
ہاں! وحشت ناک ویرانے میں! مگر کیا کبھی کسی نے رات کے وقت ان وحشت ناک ویرانوں کو دیکھا ہے؟ یہ راتوں کو آباد ہو جاتے ہیں۔ پُر ہول دیو آسا درختوں سے اندھیرے اُترتے ہیں! یہ اندھیرے اجاڑ، بے آباد قبروں کے درمیان رقص کرتے ہیں۔ کبھی جب آدھی رات اِس طرف ہو اور آدھی رات اُس طرف ہو تو وہاں سے گزرو! تم ایک ایک اندھیرے کو پہچان لو گے۔ دیکھو، وہ بڑا اندھیرا، جس کے لمبے نوکیلے دانت انگاروں کی طرح دہک رہے ہیں، سرے محل کا ہے۔ رقص کرتے ہوئے کیسے قہقہے لگا رہا ہے۔ دل ہلا دینے والے، سامنے کے درخت سے وہ جو دوسرا اندھیرا اترا ہے وہ فرانس کی اُس حویلی کا ہے جو کئی سو سال پُرانی ہے اور جس پر زندگی میں ایک دوبار سے زیادہ ہیلی کاپٹر اُترا بھی نہیں! اُس ڈراؤنے درخت سے جو اندھیرا اُترا ہے وہ بار بار پاگلوں کی طرح ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہا ہے۔ ’’میں تمہیں تعینات کر دیتا ہوں، 
جتنا بنا سکتے ہو بنا لو‘‘۔ اُس چیختے اندھیرے کو دیکھو، وہ اُس سرکاری مال سے بنا ہے جو دبئی میں ہونے والے ’’سرکاری‘‘ اجلاسوں کے لیے آنے جانے پر بے تحاشا خرچ ہوتا تھا۔ مگر اُس اندھیرے کو تو دیکھو جو درخت سے اب اُترا ہے۔ کتنا ہولناک ہے۔ یہ پاناما لیکس کا مجسّم اندھیرا ہے۔ وہ دوسرا اندھیرا کتنا لمبا ہے۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس لیے کہ یہ وہ چار دیواری ہے جو ستر کروڑ روپے کے قومی مال سے محلات کے گرد تعمیر ہوئی۔ نہیں! چار دیواری نہیں بنی، یہ اندھیرا تعمیر ہوا ہے۔ عوام کے گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ شاہراہیں مقتل بنی ہیں اور ستر کروڑ کے چار دیواری! اُس پروردگار سے جو پرفیوم میں ڈوبے جسموں کو منوں مٹی کے نیچے بھیجتا ہے، کیا بعید ہے کہ چار دیواریوں کو سانپ کی شکل دے دے! مگر وہ اندھیرا دیکھو، ہاتھوں کو درندوں کے پنجوں کی شکل میں آگے کرتا، یہ وہ جھوٹی گواہیاں ہیں جو عدالتوں میں دی جاتی ہیں! یہ وہ پانی ہے جو دودھ میں ملایا جاتا رہا۔ یہ سرخ اینٹوں کا وہ برادہ ہے جو حاجی صاحب باوضو ہو کر مرچوں میں مِکس کرتے رہے۔ رات آدھی، اِس طرف اور آدھی اُس طرف! ہو کا عالم! قبریں! عفریت نما درخت! اور ان درختوں سے اُترتے ناچتے، دھاڑتے، بھونکتے، پھنکارتے اندھیرے! ناچتے ہوئے ان اندھیروں کے پاؤں سوکھی ٹہنیوں پر پڑتے ہیں تو ایسی مہیب آوازیں نکلتی ہیں کہ ایک ایک پتھر، ایک ایک کتبہ لرز اُٹھتا ہے! کیا ہیں یہ اندھیرے؟ یہ وہ تھوتھنیاں ہیں جو بیٹی کی ولادت کی خبر سُن کر سؤر کا چہرہ بن جاتی تھیں! یہ وہ حرام مال ہے جو ٹیکس چوری کرنے کے لیے ایک حرام خور کی جیب میں دوسرا حرام خور ٹھونستا تھا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا نہیں ہوا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو چند سکوں کی خاطر منہ سے نکالا گیا۔ یہ وہ غیبت ہے جو دوستوں اور رشتہ داروں کی گئی۔ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو دوسرے کی دبا کر اپنے کھیت کو بڑا کیا گیا۔ یہ وہ زمین ہے جو یتیم کی ہڑپ کرلی گئی۔ یہ وہ بدزبانی ہے جو گاہک سے اور ماتحت سے اور مزدور سے روا رکھی گئی۔ یہ وہ نخوت ہے جو حکومت کے نشے میں غرق ہو کر عوام سے برتی گئی۔ اور یہ وہ قرض ہے جسے واپس کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا 
ان وحشت ناک قبروں میں ایک اور جہاں بھی آباد ہے۔ اللہ کے بندو! اُسے بھی دیکھو! درختوں سے روشنیاں بھی اُترتی ہیں! سچائی کی روشنی ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی روشنی! اُس چٹنی کی روشنی جو حرام مال ٹھکرا کر سوکھی روٹی کے ساتھ کھائی گئی۔ اُس مال کی روشنی جو اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر ضرورت مندوں کو دیا گیا۔ اُس احتیاط کی روشنی جو سرکاری خزانے کے استعمال میں برتا گیا۔ اُس نرم گفتاری اور مسکراہٹ کی روشنی جو فیروز بشیر انصاری جیسے لوگوں نے اونچے عہدوں پر بیٹھ کر ہر طرف بکھیری۔ کسی کو نقصان نہ پہنچایا۔ بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ فرمایا گیا جس نے دو بیٹیوں کی اچھی تربیت و تعلیم کی اور پھر اپنے اپنے گھر میں آباد کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہو گا۔ پھر دو مبارک انگلیاں اُٹھائیں (مفہوم)۔ بیٹیوں کی تعظیم، قدرو منزلت، ان کے حقوق کی ادائیگی! روشنی ہے جو لحد میں اُترے گی!
کھارا اور میٹھا پانی۔ ایک سمندر میں ہے! کھارا پانی میٹھے میں نہیں ملتا اور میٹھا پانی کھارے سے الگ رہتا ہے۔ قبرستانوں میں دو دنیائیں آباد ہیں۔ کچھ کو صرف ہیبت ناک اندھیرے دکھائی دیتے ہیں، رقص کرتے، دھاڑتے، چنگھاڑتے خوفناک پنجے لہراتے اندھیرے! کچھ کو صرف روشنیاں نظر آتی ہیں۔ چاندنی جیسی ٹھنڈی روشنیاں! عطر بیز ہواؤں میں بسی ہوئی روشنیاں! روشنیاں جو مقدس آسمانی درختوں سے اُترتی ہیں اور قبروں کے اندر جاتی ہیں! سلام کرتی روشنیاں! آداب بجا لاتی روشنیاں! خوش خبری دیتی روشنیاں! مگر ایک کارنامہ قدرت کا اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے! ہر شخص کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اندھیروں کی سمت بڑھ رہا ہے یا روشنیوں کی طرف!

2018ء

$
0
0
کھلا میدان تھا۔ دو سانپ تھے۔ ایک نے دوسرے کی دُم منہ میں دبائی۔ دوسرے نے پہلے کی! دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو ہڑپ کر گئے۔ میدان صاف تھا۔
میدان صاف ہے۔ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرنے والی کوئی فیصلہ کن قوت میدان میں نہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہ برپا ہؤا۔ اگر الیکشن کے روز آسمان سے پتھر نہ برسے، اگر اُس دن زمین نہ دھنسی، اگر اُس دوپہر کو سورج کے بجائے روشنی بکھیرنے کے لیے چاند نہ مامور کر دیا گیا اور اگر کسی تیز چیخ نے دلوں کا رُخ پھیر نہ دیا تو 2018ء میں بھی مسلم لیگ ہی فتح کا پرچم لہرائے گی۔ شاعر نے کہا تھا؎
علم اے حُسن! تیری فتح کے لہرا رہے ہیں
بریدہ سر ہیں عاشق اور واپس آرہے ہیں
سندھ میں پیپلز پارٹی کی دُم ایم کیو ایم کے منہ میں ہے ۔کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سندھ کارڈ نہیں چل سکتا نہ چلے گا۔ رہا اندرون سندھ، تو سید، مخدوم، پیر، جاگیردار جو صدیوں سے حکمران ہیں، 2018ء میں بھی کامیاب ٹھہریں گے۔ جہاں عوام بینائی واپس لانے کے لیے جھروکے سے درشن دینے والی شخصیت کا روئے مبارک دیکھنا کافی سمجھیں وہاں ووٹ دیتے وقت بھی یہی عقل بروئے کار آئے گی۔ مسلم لیگ نون کا چراغ وہاں پہلے جلانہ اب جلے گا۔ ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور کئی اور سیاسی شخصیات شریف برادران کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔ یوں بھی تخت لاہور کی جو برانچ اسلام آباد میں قائم ہے، اس کے مخصوص طرزِ عمل سے سندھی وزیر ہمیشہ شاکی ہی رہے۔ کوئی مانے نہ مانے، وفاق کا دارالحکومت لاہور ہے۔ اسلام آباد سیکنڈ کیپیٹل ہے۔ صدر ایوب خان نے ڈھاکہ میں سیکنڈ کیپیٹل بنایا۔ نام اس کا ایوب نگر رکھا۔ سیکنڈ کیپیٹل فرسٹ کیپیٹل بن گیا اور ایوب نگر تاریخ کی مٹی میں مل کر مٹی ہو گیا۔ قبر بنی نہ کتبہ۔ مگر کوئی نہیں جو عبرت پکڑے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گاڑی میں تحریک انصاف کوئی ڈینٹ نہیں ڈال سکی۔ لاہور کا ضمنی انتخاب ہو یا چیچہ وطنی کا، ذرا سی کسر رہ جاتی ہے اور یہ ذرا سی کسر ہی کسرِ نفسی کا کام دیتی ہے یعنی نفس کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دیتی ہے۔ پشاور کے ایک شاعر تھے۔ مرحوم ہو چکے۔ اچھا کہتے تھے۔ پڑھتے اس سے بھی زیادہ اچھے تھے مگر آشنایانِ فن ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے! پنجاب سے بالعموم اور وسطی پنجاب سے بالخصوص مسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں اور سب ٹھوس ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد وسطی پنجاب کا دل ہیں۔ یہ دل شریف برادران کی مٹھی میں ہے۔ تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان کے لیے شریف برادران کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ ٹیکس سے لے کر شاہراہوں تک، ایف بی آر سے لے کر وزارتِ تجارت تک، ہر جگہ انہیں فوائد پہنچائے گئے ہیں۔
تین عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا کہ پنجاب پر شریف برادران کا غلبہ ہے۔ غبی سے غبی شخص کے لیے بھی یہ عرصہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ ایک ایک ضلع کی سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ ایک ایک انتخابی حلقے کا نقشہ ان کے دفتر کی میز پر نہیں، ان کے ذہنوں کی میزوں پر پھیلا ہے۔ انہیں معلوم ہے کس حلقے میں کون سی برادری فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ کس کو خریدنا ہے۔ کس سے غفلت برتنی ہے۔ کس کو کس کے مقابلے پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ سیاسی حرکیات پست سطح کی ہیں مگر ان کا وجود حقیقت ہے۔ تحریکِ انصاف کے پاس تجربہ نہیں اس لیے علم بھی نہیں۔ یہ وہ علم نہیں جو ایم بی اے سے حاصل ہو۔ یہ وہ علم ہے جس کی تدریس ڈیروں میں، بیٹھکوں میں، چوپالوں میں، حویلیوں میں، ڈرائنگ روموں میں ہوتی ہے۔ اس تدریس میں ڈایا گرام سازش سے بنتے ہیں۔ چاک کرنسی سے بنتے ہیں اور بلیک بورڈ وسیع و عریض جاگیروں سے وجود میں آتے ہیں۔ 
اس سے پہلے کہ تحریک انصاف کے مستقبل کا امکانی نقشہ کھینچیں، ایک اور زبنیل کا ذکر ضروری ہے جو مسلم لیگ نون کے پاس ہے۔ سیاست کے دو زرخیز ترین دماغ شریف برادران کے ساتھ ہیں۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن۔ عمران خان کا دھرنا جب خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا تو زرداری صاحب ہی نے دست گیری کی    ؎
دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشان حالی و درماندگی!
عام حالات میں پیپلز پارٹی لاکھ مسلم لیگ نون کی مخالفت کرے مگر پریشان حالی اور درماندگی میں پیپلز پارٹی ہی مسلم لیگ نون کے کام آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ حلیفوں کو چھوڑ کر اقتدار ایسی قوت کو لینے دے جو حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہیں۔ دونوں کی مال و دولت جائدادیں محلات کارخانے بیرون ملک ہیں۔ دونوں ایک ایک پارٹی کے مالک ہیں۔ دونوں سیاسی جاگیردار ہیں۔ دونوں کے پاس سیاسی ہاریوں کی فوجیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا خواجہ آصف، خاقان عباسی ہوں یا حنیف عباسی، کائرہ صاحب ہوں یا رضا ربانی یا اعتزاز احسن یا شیری رحمن، سب زرداریوں اور شریفوں کی اولاد کے سامنے دست بستہ ہیں اور تابعِ فرمان! پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن نہیں سکتی اور متبادل بہترین حکومت پیپلز پارٹی کے لیے مسلم لیگ نون ہی کی ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن سے لاکھ اختلافات سہی، کرسیوں اور مراعات پر ان کی عقابی نظریں گڑی ہونے سے بھی کسی کو انکار نہ ہو گا مگر اس کا کیا کیجیے کہ سیاسی مستقبل میں جو کچھ ان کی نظر پہلے دیکھ لیتی ہے، دوسروں کو وہ دیر میں نظر آتی ہے۔ وہ جذبات کو اپنے اوپر حکمرانی نہیں کرنے دیتے۔ سوچتے ہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی دوراندیشی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شدید مذہبی ہونے کے باوجود وہ ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ جیسے پلیٹ فارموں سے دور رہتے ہیں اس لیے کہ انہیں معلوم ہے ایسے پلیٹ فارم بنانے والی قوتیں، عام طور پر، انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور منظرِ عام پر رہنے کے لیے بیساکھیاں استعمال کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی بلاک کے اندر بائیں بازو کی نمایندگی کرتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا نام صدام حسین یا قذافی کے ساتھ لیا جاتا رہا مگر مشرق وسطیٰ کے کسی بادشاہ کے ساتھ ان کی نسبت کبھی پڑھنے یا سننے میں نہ آئی۔
ایک برات لڑکی والوں کے گاؤں روانہ ہو رہی تھی۔ سارے نوجوان تھے۔ کسی نے مشورہ دیا، لڑکو! ساتھ کسی تجربہ کار چٹ داڑھیے کو لے چلو، کیا خبر، تم پر کیا بیتے، جس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں چکھی ہو گی کام آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک معمر شخص کو بھی ساتھ لے لیا۔ وہی ہؤا جس کی سیانوں نے پیشگوئی کی تھی۔ لڑکی والوں نے شرط رکھی کہ براتی دس سالم پکے ہوئے بکرے کھائیں گے تو لڑکی روانہ کی جائے گی۔ نوجوان براتیوں کے ہوش اڑ گئے۔ بابے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرایا۔ کہنے لگا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جوابی شرط یہ رکھو کہ تمہاری شرط منظور ہے مگر دس بکرے دسترخوان پر ایک ساتھ نہیں آئیں گے۔ ایک ایک رکھا جائے گا اور ایک بکرے اور دوسرے کے درمیان اتنے منٹ کا وقفہ ہو گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ براتی شرط جیت گئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ توے سے گرم گرم پھلکے اترتے جائیں تو کھاتے وقت حساب کتاب نہیں رہتا۔ معمول سے بہت زیادہ کھانا کھا لیا جاتا ہے۔ سو، مسلم لیگ نون کے براتیوں پر جب بھی مشکل وقت پڑا، دونوں شاطر دماغ سیاست دان انہیں کسی نہ کسی ترکیب نمبر چھ سے ضرور آگاہ کریں گے۔رہی تحریک انصاف! تو شاید ہی اس حقیقت سے کوئی انکار کرے کہ اس کا گراف گر چکا ہے اور رکنے میں نہیں آ رہا۔ شادیاں کرنا ہر شخص کا انفرادی فعل ہے اور ذاتی معاملہ، مگر عمران خان نے جس طرح اپنے آپ کو تماشا بنایا اور خالص نجی معاملات میڈیا پر پیش ہوئے اس سے ذہنی کچاپن کھُل کر ثابت ہوا۔ یہی رویہ ان کا سیاسی معاملات میں بھی ہے۔ ایک لہر تھی جو گلے گلے آئی مگر پھر اُتر گئی۔ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا تحریکِ انصاف کا نصف النہار تھا۔ اگر وہ اس وقت لچک دکھاتے تو یہ عروج برقرار رہتا۔
ایک بہت بڑا سبب اُن کا گراف گرنے کا ان کے سیاسی حلیف ہیں۔ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید! کتنے سنجیدہ لوگ ان دونوں کو ووٹ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری صاحب کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں مگر اس جذباتی اور شیخ پرست قوم میں جو بیس بائیس کروڑ کی تعداد میں ہیں، لاکھوں مریدوں کا حصول چنداں مشکل نہیں۔ یہاں تو پیر سپاہی لاکھوں کا مجمع لگا لیتا تھا۔
عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کے حلقے کو فنڈز دیے اور سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے بھی ایک مدرسہ کو فنڈ دیے اور سیاسی نقصان اُٹھایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس مدرسہ کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ انہیں چیلنج کیا گیا کہ مین سٹریم کی تعریف ہی کر دیکھیں مگر انہیں ان معاملات کا ذرہ بھر ادراک نہیں!
کاغذ کا دامن تنگ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا سے کم نشستیں ملیں گی۔ بہت ہی کم! کیا عجب اگلی حکومت صوبے میں اے این پی اور جے یو آئی (ف) کے اشتراک سے بنے۔ واللہ اعلم۔
وضاحت۔ کل کے کالم میں آیتِ کریمہ کے الفاظ ’’وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُم‘‘ درست کمپوز نہ ہوئے جس پر معذرت۔

سوار کا انتظار

$
0
0

ایسا نہیں کہ لیڈر نہیں ملے۔ لیڈر ملے۔ ذہین لیڈر! مگر بخت نے یاوری نہ کی۔ قسمت دو نقطوں والے قاف سے نہیں، ’’ک‘‘ سے تھی! یہ وہی ’’ک‘‘ ہے جس سے ایک جانور کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ہمیں بھٹو جیسا لیڈر ملا۔ ولولے اور جوش سے بھرپور۔ صرف ذہین نہیں، نابغہ! دنیا کے کسی بھی رہنما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ یہ جو آج ہم رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، تو بھٹو کتابیں پڑھتا تھا اور کتابیں لکھتا بھی تھا۔ وہ چاہتا تو پاکستان کے لیے چرچل بن سکتا تھا۔ ڈیگال بن سکتا تھا۔ مہاتیر بن سکتا تھا۔ لی بن سکتا تھا۔ مگر وہی بات کہ ہماری قسمت قاف سے نہیں تھی۔ جاگیرداروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔ قومیانے کی جس پالیسی نے سوویت یونین کو کھوکھلا کر رکھا تھا، اس انتہائی غیر دانش مندانہ پالیسی کو پاکستان پر مسلط کیا۔ انڈسٹری، تعلیمی ادارے، سب کچھ بیورو کریسی کی نذر ہو گیا۔ کارخانے نوکرشاہی کے ایسے کارندوں کے ہاتھ چڑھ گئے جو اینٹوں کا بھٹہ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسی پر بس نہ کیا بھٹو صاحب قتل و غارت پر اُتر آئے۔ مخالف لیڈروں کو قتل کرایا۔ دلائی کیمپ قائم کیا۔ مسعود محمود کو نیم پرائیویٹ سپاہ کا امیر بنا دیا۔ پھر پاکستان کے بخت کے ساتھ بھٹو صاحب کا اپنا بخت بھی سفید سے سیاہ ہو گیا۔ ایک لیڈر جو پاکستان کی کایا پلٹ سکتا تھا، پھانسی کے تختے پر جھول کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔الطاف حسین کو دیکھیے! اگر صرف کراچی کے نکتۂ نظر سے بھی سوچیے تو الطاف حسین کے پاس کئی آپشن موجود تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی بناتے جو بین الاقوامی معیار کی ہوتی۔ کراچی کے نوجوان نجی شعبے پر چھا جاتے اور سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم یوں، خودہی، شکست سے دو چار ہو جاتا۔ مگر انہوں نے تعمیر کے بجائے تخریب کا راستہ اختیار کیا۔ مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی۔ خود بھی خراب ہوئے اور اہلِ کراچی کو بھی ابتلا میں ڈالا۔ آج ندیم نصرت لندن میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ متحدہ کے بانی نے مہاجروں کو شناخت دی۔ کاش وہ یہ بھی بتاتے کہ یہ شناخت کیا ہے؟ جون ایلیا کا جملہ ایک بار پھر لکھنے کو دل کر رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سلیمان ندوی، شبلی نعمانی، حکیم اجمل خان، محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد پیدا کرتے تھے اب وہ اجمل پہاڑی اور جاوید لنگڑا پروڈیوس کر رہے ہیں۔ کیا حکیم سعید مہاجروں کی شناخت نہ تھے؟ ہاں! مان لیا متحدہ کے بانی نے شناخت دی۔ ڈرل مشینوں کی شناخت! بوری بند لاشوں کی شناخت! بھتہ خوری کی شناخت! سیکٹر کمانڈروں کی شناخت! کراچی کا کون سا مسئلہ الطاف حسین نے حل کرایا؟ پانی کا مسئلہ؟ رہائش کا مسئلہ؟ بجلی کا مسئلہ؟ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ کچھ وزیروں کو ہمیشہ مخصوص وزارتیں ملیں۔ کچھ افراد بیرون ملک مقیم ہو گئے جہاں ان کا معیارِ زندگی شاہانہ ہے۔الطاف حسین جب لیڈر کے طور پر اُبھرے اس وقت پاکستان بھر میں ایسے لیڈر کی فطری طلب تھی جو مڈل کلاس کی اُمیدوں پر پورا اُترتا اور عوام کو نام نہاد اشرافیہ سے اور جدی پشتی جونکوں سے نجات دلاتا۔ الطاف حسین اگر ملک گیر سطح پر مڈل کلاس کو اکٹھا کرتے تو وہ ایک تاریخ ساز عظیم شخصیت کے طور پر اُبھرتے۔ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر خطوں کے تعلیم یافتہ لوگ، جو لغاریوں ‘مزاریوں چوہدریوں‘ نونوں ‘ٹوانوں‘ ملکوں، خانوں، کھروں، قریشیوں، گیلانیوں وڈیروں مخدوموں، پیروں اور میروں سے نفرت کرتے تھے، الطاف حسین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ مگر وہی بات کہ قسمت!پھر عمران خان ملے۔ عوام نے ساتھ بھی دیا۔ ولولہ تھا، ابال بھی تھا۔ کچھ کچھ پروگرام بھی تھا۔ صوبہ بھی ملا۔ مگر قسمت کا قاف یہاں بھی بدل گیا۔ ان کی ساری سیاست، ہر سرگرمی، ہر پروگرام میاں نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ کالم نگار مسلم لیگ نون کو سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہو گا، شریف برادران وسطی پنجاب اور لاہور سے ذہنی طور پر آج تک نہ نکل سکے۔ جو رہنما اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد خود ہی مسرور ہو اور اس مسرت کے اظہار کا طریقہ نئی ٹائی خریدنے کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کی حمایت وہی کر سکتے ہیں جو اس سے فائدے اُٹھا رہے ہوں۔ مگر عمران خان ایک سیاسی پرکار کی طرح صرف اور صرف وزیراعظم کے گرد دائرے بنا رہے ہیں۔ دُھن جب
 OBSESSION
 کا، جنون کا، روپ اختیار کر لے تو وبال بن جاتی ہے۔ عمران خان توانائیں کے پی پر لگاتے۔ صوبے کی صورت بدل کر رکھ دیتے، پھر تنظیم سازی کرتے، آزمودہ اور ازکار رفتہ سیاست دانوں کے بجائے نیا خون اُوپر لاتے۔ ڈویژن کی سطح پر ضلع کی سطح پر، تحصیل کی سطح پر، تھانے اور یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کو منظم کرتے اپنا ٹارگٹ آیندہ الیکشن رکھتے تو مستقبل ان کا بھی اور ملک کا بھی روشن ہوتا۔ وہ
 Electables
 کے جھانسے میں آگئے یعنی وہ اُْمیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں جیتتے ہیں خواہ جس پارٹی کا بھی ٹکٹ لے لیں۔ جہلم میں جس شخصیت کو انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ حالیہ ضمنی انتخاب میں دیا، اس سے پارٹی کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا؟ رہی سہی عزت سادات بھی گئی! پھر مسلم لیگ نون سے گلہ کیا ہے کہ اس نے امیر مقام ‘ماروی میمن اور زاہد حامد کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیا۔ آپ بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں!اگر دھرنے کا مقصد میاں نواز شریف کی حکومت سے چھٹکارا پانا ہے تو اس کی صرف تین صورتیں ہیں۔ اوّل۔ آپ کے دھرنے میں ملک پورا امڈ آئے۔ جم غفیر اور ابنوہِ کثیر سے ڈر کر، میاں صاحب، شاہ ایران کی طرح ملک سے بھاگ جائیں۔ اس کا امکان ایک فیصد بھی نہیں! پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں لاکھوں کروڑوں افراد مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں۔ دوم۔ میاں صاحب دھرنے سے ڈر کر، یا کارنر ہو کر استعفیٰ دے دیں۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے دلائل دینا بھی حماقت ہے۔ سوم۔ آرمی آکر تختہ الٹ دے۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ اگر کمانڈر انچیف نے ایسا کرنا ہوتا تو اسلام آباد کا دھرنا بہترین موقع تھا۔ اگر دھرنے کا مقصد رائے عامہ کی بیداری ہے اور کرپشن کے ایشو کو پیشِ منظر پر حاوی کرنا ہے تو کیا دھرنا اس مقصد کے حصول کا کامیاب ترین راستہ ہے؟ایاز امیر ہمارے کہنہ مشق صحافیوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ کیا دلکش اور سحر انگیز انگریزی لکھتے ہیں! انگریزی کاؤس جی بھی دلکش لکھتے تھے مگر وہ اکثر و بیشتر کراچی ہی کے مسائل پر لکھتے تھے۔ بیسیویں صدی کی یورپ کی تاریخ پر ایاز امیر کو عبور حاصل ہے۔ یہ کالم نگار اگر چکوال میں ہوتا تو ہٹلر اور سٹالن کی تاریخ ان سے سبقاً سبقاً پڑھتا۔ جس زمانے میں ہم نے مقابلے کا امتحان دیا، دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ کے لیے ای ایچ کار کی کتاب بائبل کا درجہ رکھتی تھی۔ سول سروس اکیڈیمی کو چاہیے کہ ایاز امیر کو تاریخ پڑھانے کے لیے مدعو کیا کرے۔ بات دور نکل گئی۔ ایاز امیر صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ایک خواب بُنا ہے۔ اور بین السطور کہا ہے کہ کیا عجب جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آجائیں اور اگر ایسا کریں گے تو عوام اُن کے گرد جمع ہو جائیں گے جیسے بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے تھے اور پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! جنرل کے مزاج میں جو متانت ہے جسے خالص عسکری متانت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، اس کے پیشِ منظر اس خواب کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں! جنرل راحیل شریف اتنے سادہ لوح نہیں کہ جو عزت کمائی ہے اسے سیاست کے چوراہے پر انڈیل دیں۔ جو خواب ایاز امیر دیکھ رہے ہیں وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سخت گرمی میں، پسینے میں شرابور، ایک شخص ریڈیو کے مائیک کے سامنے، آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہواؤں والے خنک موسم کی پیشین گوئی کر رہا تھا!تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہے؟ گڑھی خدا بخش اور رائے ونڈ کے تخت؟ اور تخت کے خاندانی وارث؟ اور وہی خاندان جو سترہ برسوں سے ’’منتخب‘‘ اداروں میں تشریف فرما ہیں؟ ایک شخص بلند چٹان سے گرا نیچے، بہت دور، قاتل گہرائی تھی۔ ایک درخت کی ٹہنی کو پکڑ لیا۔ آہ! شکیب جلالی یاد آ گیا؎جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسممیں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میںاُس نے غیبی قوت کو مدد کے لیے پکارا۔ آواز آئی ٹہنی کو چھوڑ دو۔بلند آواز میں کہا۔ کوئی اور ہے؟ عمران خان سے اُمیدیں باندھنے والے اب پکار رہے ہیں ’’کوئی اور ہے‘‘؎فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہےانتظار! انتظار! غیب سے آنے والے سوار کا انتظار!!



توازن

$
0
0
مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اور مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک میں خواتین کے لیے گھروں سے باہر عبایا پہننا لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبایا سیاہ رنگ کا ہو۔ حال ہی میں ایک عزیز وہاں سے واپس آئے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ شاپنگ مال میں تنہا مرد نہیں جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ پابندی سارے ملک میں ہے یا صرف دارالحکومت میں۔
فرض کیجیے ایک غیر ملکی خاتون کالے رنگ کا عبایا پہننے سے انکار کر دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا طرز عمل درست ہے؟ یقیناً نہیں! وہ جس ملک میں آئی ہے‘ اس کے اپنے قوانین ہیں۔ یہ قوانین جیسے بھی ہیں‘ زمینی حقیقت ہیں۔ یہ بحث تو کی جا سکتی ہے کہ غلط ہیں یا صحیح‘ مگر ان کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی خاتون انکار کرے گی تو اسے ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اور ہاں! یہ بھی کہا جائے گا کہ کیا ہم نے آپ کو بلانے کے لیے ہرکارہ بھیجا تھا؟ آپ عبایا کی پابندی گوارا نہیں کر سکتیں تو اس ملک میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟
فرض کیجیے‘ حکومتی قانون نہیں ہے، یہ صرف اس ملک کی ثقافت کا تقاضا ہے۔ تب بھی اس کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر وہاں کا رسم و رواج آپ کو نہیں پسند‘ تو وہاں رہنے کی کیا مجبوری ہے؟
یہ ستمبر کا وسط تھا۔ مغربی جرمنی کے شہر بیلا فیلڈ کے ایک ریستوران میں ایک خصوصی تقریب تھی۔ ہال‘کمرے اور بیرونی باغ‘ سب گاہکوں سے بھرے تھے۔ ایک خاتون وہاں آئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانکا ہوا تھا۔ صرف آنکھوں کا حصہ نظر آ رہا تھا۔ ریستوران کے منیجر نے خاتون سے کہا کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹائے تاکہ وہ اسے پہچان سکے۔ خاتون نے انکار کر دیا۔ اس پر منیجر نے اسے کہا کہ وہ ریستوران سے چلی جائے۔
اب ایک تنازعہ پیدا ہو گیا۔ چند گھنٹوں میں فیس بک پر پیغامات کے انبار لگ گئے۔ جو لوگ خاتون کے طرف دار تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ جرمنی میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کی رو سے چہرہ ڈھانکنا جرم ہو۔ دوسری طرف والوں کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایسا گاہک دیکھ کر باقی لوگ اگر اضطراب محسوس کرتے ہیں تو منیجر ایسے گاہک کو نکال سکتا ہے۔ تاہم منیجر  کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک صاحب کا کمنٹ تھا۔’’منیجر کا فیصلہ درست تھا۔ اسے کیا خبر نقاب کے پیچھے کون ہے! مرد یا عورت یا گن مین؟ آپ گھر میں جو چاہیں کیجیے مگر ایک غیر ملک میں آپ کو دوسروں کا کچھ تو خیال رکھنا ہی پڑے گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے لکھا ’’معاملہ بالکل سادہ ہے۔ جرمنی میں جرمن ثقافت کا احترام کرنا ہو گا۔ میں جب مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو غیر مسلم ہو کر بھی جوتے اتار دیتا ہوں۔ منیجر کا فیصلہ درست تھا‘‘۔
منیجر نے ایک معروف روزنامے کو بتایا کہ اس کے ریستوران میں گھانا‘ ترکی‘ مصر، یوکرائن ‘ پولینڈ‘ پاکستان اور پرتگال کے لوگ ملازم ہیں۔ کسی کے ساتھ رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ مہمانوں کی کثیر تعداد ایسے گاہک کی موجودگی میں نارمل نہیں محسوس کر رہی تھی۔
اب اس سارے معاملے کو ایک طرف رکھ کر ہم متحدہ عرب امارات کا رُخ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ توازن کس شے کو کہتے ہیں اور بین الاقوامی برادری میں نکِو بنے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ اسی سال جولائی میں متحدہ عرب امارات کا ایک باشندہ امریکہ میں سفر کر رہا تھا۔ اس نے اپنا روایتی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ پولیس نے سادگی کی وجہ سے یا بدنیتی کے سبب ‘ اسے داعش کا رکن سمجھا اور ہتھکڑی لگا لی۔ اگرچہ بعد میں چھوڑ دیا اور معذرت بھی کی!
آپ کا کیا خیال ہے متحدہ عرب امارات کا ردِعمل کیا ہونا چاہیے تھا؟ نہیں معلوم وہاں کی حکومت نے احتجاج کیا یا نہیں‘ مگر بہر طور یہ نہیں کہا کہ ’’یہ ہمارا لباس ہے۔ آپ کون ہیں اس لباس پر اعتراض کرنے والے؟ یہ ہمارے کلچر، ہماری تہذیب، ہمارے مذہب کا حصہ ہے‘‘۔ اس کے برعکس‘ بالکل برعکس‘ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اپنے شہریوں کو ایک ہدایت جاری کی۔ اس میں تلقین کی گئی کہ مغربی ملکوں میں جانے والے اپنے روایتی لباس سے احتراز کریں تاکہ انہیں کسی قسم کا خطرہ نہ لاحق ہو۔ خواتین کو خصوصی طور پر تلقین کی گئی کہ یورپی ملکوں میں جانا ہو تو چہرے کو نہ ڈھانپیں۔
متحدہ عرب امارات سو فیصد اسلامی ملک ہے، مسجدوں سے بھرا ہوا‘ ایک سے ایک جید عالم دین وہاں بیٹھا ہے۔ کسی نے حکومت کے اس فرمان پر تنقید نہ کی۔کسی نے نہیں کہا کہ یہ دین کا بنیادی رکن ہے۔ متحدہ عرب امارات کا یہی وہ Pragmatic
 اور حقیقت پسندانہ رویہ ہے جس کی بنا پر آج وہ واحد مسلم ملک ہے جہاں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں اور سفید فام مغربی بھی وہاں ملازمت پانے اور قیام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اب ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ کیا چہرے کوڈھانپنا اُس خاتون کا‘ جسے ریستوران سے نکال دیا گیا‘ حق نہیں تھا؟ تھا! بالکل تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اتنی ہی بے لچک ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ جرمنی میں ایسا کرنا تضحیک یا تو ہین کا سبب بنتا ہے تو اسے جرمنی میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے روایتی علماء صرف تین صورتوں میں غیر مسلموں کے ملک میں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اوّل‘ مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے۔ دوم، تحصیل علم کے لیے۔ سوم، اگر اپنے وطن میں اس حال کو پہنچ جائے کہ بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہو۔ آج جو کروڑوں مسلمان مغربی ملکوں (بشمول جاپان، آسٹریلیا) میں رہ رہے ہیں‘ ان میں سے بہت ہی کم تعداد ایسی ہے جو حصول علم کے لیے رہ رہی ہے۔ اور شاید ہی کسی کی ہجرت کا سبب یہ ہو کہ وہ اپنے وطن میں دو وقت کی روٹی سے محروم تھا!
یہاں یہ بے بحث بے کار ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا اس خاتون کا مذہبی فریضہ تھا۔ یہ دلیل بھی یہاں بے سود ہے کہ حج کے موقع پر خواتین چہرہ ڈھانپ ہی نہیں سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خاتون جس قسم کا لباس بھی پہننا چاہتی ہے‘ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ یہی دلیل کافی ہے کہ وہ چہرہ ڈھانپنا پسند کرتی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس پر اعتراض کرے یا اسے منع کرے۔ مگر ایسی صورت میں غیر مسلم ملکوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ شام اور عراق کے لاکھوں مہاجرین کو جرمنی نے پناہ دی۔ جرمنی کی چانسلر نے ساتھ جتا بھی دیا کہ مکہ اور مدینہ ان کے زیادہ قریب تھے بہ نسبت جرمنی کے۔ مگر ہم جب دینے والے نہیں بنتے‘ لینے والے بنتے ہیں تو سب کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے، سو یہ طعنہ سننا پڑا۔
2010ء کا واقعہ ہے۔ آسٹریلیا کی ریاست (غالباً نیو سائوتھ ویلز میں) ایک ممبر اسمبلی نے بل پیش کیا کہ مسلمان خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کر دیا جائے۔ یہ بل ناکام ہوا۔ خود سفید فام آسٹریلوی ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود‘ سڈنی کے مسلمان علاقے لکھمبا میں خواتین نے احتجاجی جلسہ کیا۔ مقررین نے کہا کہ آسٹریلیا کا ’’زوال پذیر‘‘ معاشرہ ہمیں قابل قبول نہیں؟ اس پر آسٹریلوی میڈیا نے ایک ہی جواب دیا اور اس تسلسل سے دیا کہ مسلمانوں کی اکثریت مضطرب ہو گئی۔ جواب یہ تھا کہ اس زوال پذیر معاشرے کو چھوڑ کر فوراً اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائو؟
یہاں احمد ابو طالب کا ذکر نامناسب نہ ہوگا۔ مراکش سے تعلق رکھنے والا یہ مسلمان ہالینڈ کے شہر راٹرے ڈیم کا میئر منتخب ہوا۔ چارج سنبھالنے کے بعد اس نے ہالینڈ میں مقیم مسلمان تارکین وطن سے خصوصی خطاب کیا اور کہا کہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور مظلوم ثابت کرنا بند کرو۔ مذہب پر کاربند رہو مگر لوگوں سے گُھل مل کر رہو۔ اپنے آپ کو علیحدہ نہ رکھو۔ اور اگر تمہیں یہاں کا طرز زندگی پسند نہیں تو خدا کا واسطہ ہے سامان باندھو اور چلے جائو۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند افراد کے رویے کی وجہ سے سارے کے سارے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
ایک نکتہ اس سارے بکھیڑے میں ثقافت اور مذہب کے درمیان فرق کرنے کا ہے۔ تمام مسلمانوں کا مذہب ایک ہے مگر مقامی ثقافتیں مختلف ہیں۔ اگر کوئی ہجرت کر کے دوسرے ملک میں جا بستا ہے تو اپنے مذہب پر بے شک کاربند رہے مگر وہ اپنی ثقافت پر‘ خواہ وہ ثقافت انڈونیشیا کی ہے یا پاکستان کی یا مصر کی یا مالی کی‘ ڈٹا رہے گا تو اپنے نئے ملک میں اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی سمجھے گا۔ معاشرے میں گھلنے ملنے سے احتراز کرے گا۔ نقصان یہ ہو گا کہ اس رویے کا الزام اسلام پر آئے گا۔
کاش 
Sense of Proportion 
بازار سے مل سکتا!

None Of Your Business

$
0
0

اس نے پلائو کی فرمائش کی۔ بیگم نے کہا آپ اچھا سا گوشت لے آئییِِ، میں پکا دیتی ہوں۔ میاں لے آیا۔ بیگم نے پکانا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دیگر گزری تھی کہ میاں باورچی خانے میں آیا۔ لُونکی سے دھنیا اور نمک نکال کر بیگم کو دیا کہ یہ بھی پلائو میں ڈالنا ہو گا۔ بیگم نے تعجب سے دیکھا تاہم خاموش رہی۔ پھر پوچھنے لگا پیاز کتنے ڈالو گی؟ گھی ڈال دیا ہے یا نہیں؟ یخنی کہاں ہے؟ بیگم نے ایک ہولناک تیوری اپنے ماتھے پر ٹانکی اور ڈانٹ کر کہا، آپ نکلیں باورچی خانے سے۔ آپ کو پلائو چاہیے نا؟ پسند نہ آیا تو گلہ کیجیے گا لیکن میرے کام میں مداخلت نہ کیجیے۔ اگر بیوی انگریز ہوتی تو ایک ہی فقرہ کہتی:
It is none of your dirty Business
معلوم نہیں گائودی میاں کو بات سمجھ میں آئی یا نہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ چپ کر کے باورچی خانے سے نکل گیا ہو گا۔ مگر یہ سادہ سا نکتہ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔
آج پاکستان جس حال کو پہنچا ہوا ہے، جس کھائی میں گرا ہوا ہے اور قوموں کی برادری میں جس عبرت ناک مقام پر کھڑا ہے، اس کا اصل سبب جاننا ہو تو صرف یہ دیکھ لیجیے کہ جمعہ کے دن وزیر اعظم آفس اور دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے درمیان کیا آنکھ مچولی کھیلی جاتی رہی۔
اس سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ ایک منتخب نمائندے کی کارکردگی اور نوکر شاہی کے ایک رکن کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کی مزید وضاحت تحصیل حاصل ہو گی۔ منتخب میئر کو ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کا قلم دان سونپا گیا۔ اس کے بعد اسے کام کرنے دیا جائے گا تو وہ کچھ کر کے دکھا سکے گا۔ کسی دوسرے محکمے سے ادھار پر مانگے گئے ایک افسر کی مدت تمام ہو چکی تھی۔ ترقیاتی ادارے نے بہت پہلے توسیع کا مطالبہ کیا۔ وفاقی حکومت نے توسیع کا حکم نامہ جاری نہ کیا۔ میئر نے اسے ادارے سے فارغ کر دیا۔ یہ میئر کا اختیار تھا اور بات بھی منطقی تھی کیونکہ توسیع کے احکامات تھے ہی نہیںٖ!
وزیر اعظم کے دفتر نے مداخلت کی۔ فارغ کیا گیا افسر، تین چار گھنٹوں کے اندر، وفاقی حکومت سے اپنا توسیع نامہ لے کر آگیا۔
یہ ہے وہ مذاق جو اس ملک میں عرصہ سے چل رہا ہے۔ یہ مائیکرو لیول کی مداخلت، یہ 
House-Keeping 
یہ نمک اور دھنیا نکال کر پکانے والی کو ہدایت نامہ جاری کرنا، صرف اِسی حکومت پر موقوف نہیں۔ حسبِ توفیق یہ ظلم ہر حکومت نے کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو دو دن پہلے نیویارک میں گھڑی خریدتے پائے گئے، وفاقی حکومت میں ایک ڈائرکٹر جنرل اپنی مرضی سے لگایا حالانکہ یہ وزارتِ تعلیم کا کام تھا۔ پھر دوست نوازی کی ساری حدیں پار کر کے اسے پانچ بار توسیع دی۔ یہاں صوبے میں کسی کو پولیس کا سربراہ لگایا جاتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے فلاں کو تھانیدار لگائو۔ فلاں کو فلاں تھانہ دو۔ فلاں ایس پی کو فارغ کرو۔ سربراہ صاحب کا سارا ولولہ، سارا پلان، حسرت و یاس کی نذر ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ڈنگ پٹائو کام کرتا ہے۔ وقت پورا کرتا ہے۔ دفتر میں بیٹھ کر مکھیاں مارتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے کام میں توہین انگیز مداخلت کی جا رہی ہوتی ہے۔ عقل کا تقاضا ہے آپ پولیس کے صوبائی سربراہ کو صرف اتنا بتائیے کہ صوبے میں امن و امان قائم ہو، ڈاکو اور چور پکڑے جائیں۔ پھر اسے کام کرنے دیجیے۔ وہ جسے چاہے جہاں لگائے یا وہاں سے ہٹائے۔ آپ سال بعد، یا چھ ماہ بعد نتائج کا جائزہ لیجیے۔ اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہ ہو تو گلہ کیجیے، سرزنش کیجیے، سزا دیجیے مگر خدا کے لیے اس کے کام میں لُچ نہ تلیں۔
یہی ظلم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ ہو رہا ہے اور ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ ایک عام قاری کی اطلاع کے لیے یہ بتانا مناسب ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وفاقی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو پوری بیورو کریسی کا انچارج ہے۔ پولیس، ڈپٹی کمشنر، سب کی ترقیاں وہاں سے ہوتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ہی فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں پولیس افسر یا فلاں انتظامیہ کا افسر صوبہ سندھ میں یا پنجاب میں یا کے پی یا بلوچستان میں تعینات ہو گا۔ مہذب ملکوں میں ایسے ادارے ہر اہلکار کا کیریئر چارٹ تعمیر کرتے ہیں۔ یعنی یہ طے کر لیتے ہیں کہ یہ اتنا عرصہ ضلع میں رہے گا، اتنا عرصہ وفاق میں رہے گا تا کہ ہر شعبے کا، ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوتا رہے۔ مگر آج تک یہ ڈویژن ڈاکخانہ بنا رہا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ناقابلِ بیان حد تک مداخلت کی جاتی ہے۔ کون سی منصوبہ بندی اور کون سا کیریئر چارٹ؟؟ اِن دنوں سید طاہر شہباز اس ڈویژن کے سیکرٹری ہیں۔ نیک نام، دیانت دار اور حد درجہ محنتی شخص۔ فرض کیجیے طاہر شہباز ایک منظم طریقے سے ترقیوں اور تعیناتیوں کی منصوبہ بندی شروع کرتے ہیں۔ ہر شخص کی کیریئر پلاننگ کرتے ہیں۔ کمپیوٹر پر کلک کرنے سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ مسٹر الف چار سال سے صوبے میں کام کرتا رہا ہے۔ اب اسے وفاق میں آ کر اتنا ہی عرصہ خدمات سرانجام دینی چاہئیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، شاہ صاحب کو یہ کام آزادی سے کرنے دیا جائے گا؟ نا ممکن! مداخلت جاری رہے گی۔ صوبائی حکمرانوں نے اسمبلی کے ممبروں کو خوش کرنا ہے۔ اگر ایم این اے کہتا ہے کہ اِس ایس پی کو دیانت داری کا ہیضہ ہے، یہ مجھے نہیں منظور تو کیا صوبائی حکمران ایم این اے کو کہے گا کہ 
It is none of your dirty business ،
 نہیں۔ ہرگز نہیں۔ مکروہ مفادات آڑے آئیں گے۔ دیانت دار افسر کو صوبے سے فارغ کر کے وفاق کا راستہ دکھایا جائے گا کہ جائو، میکے جائو۔ شاہ صاحب کی ساری کیریئر پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی!
وزیر اعظم نے ترقیاتی ادارہ منتخب میئر کی تحویل میں دیا۔ خوش آئند اقدام ہے۔ انقلابی تبدیلی ہے۔ مگر اب خدا را اسے کام کرنے دیجیے۔ وزیر اعظم کے دفتر میں جو ازکار رفتہ ریٹائرڈ حضرات بیٹھے ہیں وہ ماضی میں رہ رہے ہیں۔ منتخب میئر ان کے لیے ایک انوکھی چیز ہے۔ وہ ایسی لکڑیاں ہیں جو فروختنی ہیں نہ سوختنی! عین ممکن ہے کہ میئر نے جن صاحب کو فارغ کیا ہے، وہ لائق ہوں، دیانت دار ہوں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادارے کے سربراہ کو بے بس کر کے رکھ دیا جائے اور اس کی پوزیشن خراب کی جائے۔
منتخب سربراہ اور نوکرشاہی کے درمیان فرق کو سمجھنا ہو تو جمہوریت اور مارشل لاء کے درمیان جو تفاوت ہے، اُس پر نظر ڈالیے۔ اِن کالموں میں بارہا ماتم کیا جا چکا ہے کہ ضلعی ناظم، ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او سے ہزار درجے بہتر تھے۔ انہوں نے ووٹروں کو بھی منہ دکھانا تھا اور مخالفین کو بھی! میئر اگر ترقیاتی ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے تو اس نے بھی کل ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ وہ عوام میں سے ہے۔ اس کا زاویۂ نظر ہی اور ہے۔ بیورو کریسی کے رکن کے سامنے صرف اپنی تعیناتی اور اپنا کیریئر ہے۔ میئر کچھ کر کے دکھائے گا تو سروخرو ہو گا۔ نوکرشاہی کا رکن کچھ بھی نہیں کرے گا تب بھی ترقی کا حقدار ٹھہرے گا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کالم نگار کا تعارف، ملاقات، میئر سے ہے نہ نوکرشاہی کے ہٹائے گئے رکن سے۔ تعارف یا ملاقات کا امکان ہے نہ خواہش!   ؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
ملک اس طرح نہیں چلتے کہ کسی ایک شہر، کسی ایک علاقے، کسی ایک برادری، کسی ایک سیاسی جماعت کے وابستگان کو میرٹ پر ترجیح دی جائے۔ پی آئی اے کا حال سب کے سامنے ہے۔ جیالوں کے گروہوں کے گروہ در آتے رہے۔ پھر متوالے اپنی باری لیتے رہے، آج ایئر لائن اُن ایئر لائنوں کے پاسنگ بھی نہیں جن کو اس نے گودوں کھلایا تھا۔
فوج میں جو شعبہ ترقیاں اور تعیناتیاں کرتا ہے اسے ملٹری سیکرٹری برانچ کہا جاتا ہے۔ اس کا سارا نظام کمپیوٹر میں نصب ہے۔ ایک ترتیب ہے جس سے سلسلہ چل رہا ہے۔ شاید ہی چوٹی سے مداخلت ہوتی ہو۔ کم و بیش ہر افسر کو معلوم ہے کہ اس نے اپنے موجودہ عہدے پر کتنا عرصہ رہنا ہے۔ کمانڈ اور سٹاف اسامیاں توازن سے دی جاتی ہیں۔ بجا کہ فوج اور سول کے درمیان مکمل مشابہت ممکن نہیں، مگر کچھ تو سیکھا جا سکتا ہے۔
حضور! پلائو پکانے دیجیے۔ باورچی خانے میں منہ نہ ماریے۔

کوئی ہے سننے والا؟

$
0
0

ڈاکٹر ریحان جب بھی صبح گھر سے نکلتے، آدھ گھنٹے کا مارجن ضرور رکھتے تاکہ ٹریفک کا کوئی مسئلہ تاخیر کا سبب بنے تو وقت میں گنجائش ہو۔ اس دن انہوں نے یہ گنجائش چالیس منٹ کی رکھی‘ اس لیے کہ ایک نازک آپریشن کرنا تھا۔ مریض کو رات سے خالی پیٹ رکھا گیا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر سرجری کا آغاز ہونا تھا۔ وہ فیض آباد کے قریب پہنچے تو ٹریفک بلاک تھی۔ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی انتظار کرنا شروع کر دیا۔ خیال یہی تھا کہ دس پندرہ منٹ کی بات ہو گی۔ مگر آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر ڈیڑھ گھنٹہ‘ اور پھر دو گھنٹے۔ ان کا مریض، ان کا سٹاف، ان کے مریض کے لواحقین سب انتظار کر رہے تھے۔ وہ انہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ کیوں رُکی ہوئی ہے؟ یہ نہیں معلوم۔
اس رُکے ہوئے اژدہام میں ایک اور گاڑی بھی پھنسی ہوئی تھی‘ جس میں نصیر صاحب مسلسل قے کر رہے تھے۔ وہ دل کے مریض تھے۔ ان کے بیوی بچے رُکی ہوئی گاڑی میں آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے اور نصیر صاحب کا منہ اور چہرہ ہر قے کے بعد ٹشو پیپر سے پونچھ رہے تھے۔ گاڑی کے فرش پر ٹشو پیپروں کا ڈھیر بڑھتا جا رہا تھا۔ نصیر صاحب کی آنکھیں مُندی ہوئی تھیں۔ ان کی بیوی کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ مگر گاڑیوں کا ایک سمندر ان کی گاڑی کے آگے اور ایک سمندر ان کی گاڑی کے پیچھے موجزن تھا۔ دھوپ تیز ہو رہی تھی۔
اس سمندر میں، فیض آباد کے دوسری طرف ایک اور گاڑی میں چوہدری شریف دھاڑیں مارتی بیوی کو دلاسہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کے والد کا لاہور میں انتقال ہو گیا تھا‘ اور وہ جلد سے جلد اپنے باپ کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ تین گھنٹوں سے ٹریفک رُکی ہوئی تھی۔ بیوی کو غش پر غش آ رہے تھے اور چوہدری شریف اس کے چہرے پر پانی چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس نظر آ رہی تھی نہ ریاست!
ٹریفک کے اس بحرِ اوقیانوس میں ایک موٹر سائیکل سوار بھی تھا‘ جو مسلسل رو رہا تھا۔ اِس بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے انٹرویو کے لیے طلب کیا تھا۔ جوں جوں انٹرویو کا وقت قریب آ رہا تھا، اس کے دل کی دھڑکن اس کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اُمیدواروں کی کمی نہیں تھی اور اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ وہ اس کا انتظار کریں۔ پھر انٹرویو کا وقت آ گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر انٹرویو کا وقت گزر گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا۔ اسے بے بسی میں، اِس بے کسی میں، اس بیچارگی میں وہ اور کیا کرتا۔
تقریباً تین گھنٹے گزر چکے تو ٹریفک پولیس کی وردی میں ملبوس ایک اہلکار بھاگتا بھاگتا گزرا… ’’واپس چلو، آگے شاہراہ بند ہے۔ انہوں نے لاشیں ہائی وے پر رکھی ہوئی ہیں۔ کسی کو گزرنے نہیں دے رہے‘‘۔
اب ایک اور قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں گاڑیاں ریورس ہونے میں لگ گئیں۔ بہت سی ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ جھگڑے ہوئے۔ ایک خاتون ڈرائیور، دو نوجوانوں سے بحث کر رہی تھی‘ جو اُلٹا اُسے قصوروار ثابت کر رہے تھے۔
اورنج ٹرین، میٹرو بسوں اور کھلی شاہراہوں کا کیا فائدہ جب آپ یہ ضمانت نہ دے سکیں کہ وہ ٹریفک کے لیے ہمہ وقت میسر رہیں گی۔ دارالحکومت کی ایکسپریس ہائی وے ایک عرصہ سے ٹارگٹ بنی ہوئی ہے۔ جس کسی کا کوئی عزیز قتل ہوتا ہے، وہ لاش لا کر شاہراہ پر رکھ دیتا ہے۔ پھر پولیس اور انتظامیہ کے افسران آ کر اِن قانون شکنوں سے ’’مذاکرات‘‘ کرتے ہیں جیسے کوئی ٹریڈ یونین ہو یا دوسرے ملک کے نمایندے ہوں! یہ ریاست کی حد درجہ کمزوری ہے۔ یہ ’’مذاکرات‘‘ جو اصل میں منت سماجت ہوتی ہے‘ بعض اوقات گھنٹوں بلکہ پہروں جاری رہتے ہیں اور ٹریفک میں مریض، ڈاکٹر، مسافر، طالب علم، حاملہ عورتیں، سکولوں کے معصوم بچے، تھکے ماندے بوڑھے‘ سب اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کئی موت کا پیالہ پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بلیک میلنگ پورے ملک میں جاری ہے۔ حیدر آباد اور کراچی کے درمیان سپر ہائی وے بھی بلاک کر دی جاتی ہے۔ پنجاب کے تقریباً ہر قصبے اور ہر شہر میں شاہراہ بلاک کرنے کا ’’رواج‘‘ عام ہے۔ سیاسی جماعتیں الگ ظلم ڈھاتی ہیں۔ ان کے جلوس، احتجاج اور دھرنے عوام کو بے پناہ مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔
معمر حضرات کو یاد ہو گا کہ ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی میں جی ٹی روڈ پر ایک پولی ٹیکنک کالج بنا تھا۔ اس کے طلبہ آئے دن جی ٹی روڈ بلاک کر دیتے۔ اسی کالج کا طالب علم عبدالحمید ایک احتجاج کے دوران جی ٹی روڈ پر موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ بھٹو صاحب کی سیاست کا آغاز تھا۔ وہ مرحوم طالب علم کے آبائی قصبے پنڈی گھیب میں تعزیت کے لیے بھی گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو آئے دن کے اِس بکھیڑے کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ اُس کالج کو کہیں اور منتقل کر دیا اور یہاں ایک عسکری ٹیکنیکل ادارہ قائم کر دیا۔ اس کے بعد یہ شاہراہ کبھی نہ بلاک ہوئی۔ پولی ٹیکنک کالج کہاں منتقل ہوا؟ کم از کم اس کالم نگار کو اس کی خبر نہیں۔ مگر جو کچھ ہوا بالکل درست ہوا۔ 
ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں کیا کر رہے ہیں؟ امریکی قانون دیکھیے:۔
’’اگر آپ احتجاج کے دوران دوسروں کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں، تو آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جو احتجاج گاڑیوں کی آمد و رفت یا پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کرے وہ غیر قانونی ہے۔ آپ کسی عمارت کے اندر داخل ہونے کا راستہ بند نہیں کر سکتے‘ نہ ہی عوام کو ہراساں کر سکتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ آپ آزادیء تقریر کا حق کسی کی ذاتی جائداد پر، کسی شاپنگ مال پر، مالک کی اجازت کے بغیر نہیں استعمال کر سکتے۔ جب آپ کو پرائیویٹ پراپرٹی سے چلے جانے کا کہہ دیا جائے تو پھر آپ کو وہاں موجود رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کا احتجاج کرنے کا حق متاثر ہوا ہے تو قانونی چارہ جوئی کیجئے‘‘۔
امریکہ ہی میں کچھ عرصہ پہلے ایک احتجاج کے دوران گاڑیوں کا راستہ بند کر دیا گیا۔ یہ منی سوٹا ریاست کا واقعہ ہے۔ ایک گاڑی نہیں رکی اور ہجوم میں سے راستہ بناتی گزرتی گئی۔ اس کشمکش کے دوران ایک لڑکی کی ٹانگ گاڑی کے نیچے آ کر کچلی گئی مگر ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا نہ اُس پر کوئی الزام لگا۔
احتجاج کرنے والے یہ دلیل لا سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی آمد و رفت کے وقت بھی تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ یہ دلیل ضعیف ہے۔ اصولی طور پر حکمرانوں کے شاہی جلوسوں کے لیے ٹریفک بالکل بند نہیں ہونی چاہیے؛ تاہم اِس بیماری… کا وقفہ اب مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم لکھنے والوں کے پیہم احتجاج کے سبب ایسا ہوا ہو۔ اس سلسلے میں شدید ترین ظلم جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ہوتا رہا‘ جب پورا کراچی دن بھر کے لیے سیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے سبب اموات بھی ہوئیں۔ ایک بار موصوف کوئٹہ گئے تو مبینہ طور پر ایک دن کی سکیورٹی پر دو کروڑ روپے صرف ہوئے۔ لاہور کا نہیں پتہ مگر وفاقی دارالحکومت میں شاہی جلوس کے طویل قافلے کے لیے پندرہ بیس منٹ ہی عوام کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اس کا موازنہ لاشوں کے احتجاج کے ساتھ نہیں ہو سکتا جو کئی پہروں پر محیط ہوتا ہے۔ 
روزنامہ دنیا کی وساطت سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔
٭ اب وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون پاس کیا جائے کہ کسی بھی شاہراہِ عام کو بند کرنا شدید جرم سمجھا جائے گا اور شاہراہ واگزار کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭ اس کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس قانون کی بھرپور تشہیر ہونی چاہیے تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہو جائے۔
٭ کسی بھی شاہراہ عام کو بند کرنے والوں کو وہاں سے ہٹانے کے لیے آنسو گیس یا ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے متعلقہ قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭ سیاسی تقاریر کے لیے ہر شہر میں ایک جگہ مختص کی جائے۔ دارالحکومت میں ایف نائن پارک کا ایک گوشتہ اس کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی اور احتجاجی تقاریر اس مخصوص جگہ کے علاوہ کہیں بھی نہ کرنے دی جائیں۔
٭ سیاسی جماعتیں جلوس نکالنے کے لیے پرمٹ حاصل کریں اور ضمانت دیں کہ ٹریفک نہیں روکی جائے گی۔
٭ مذہبی نوعیت کے جلوسوں کا معاملہ حساس ہے‘ مگر یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے جلوس آدھی شاہراہ کو استعمال کریں اور بقیہ آدھی ٹریفک کے لیے کھُلی رہے۔


خمسہ

$
0
0
اس طالب علم کو اگر غالب یا اقبال پر یا سعدی یا حافظ پر لکھنا ہو تو‘ معیار سے قطع نظر، کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جیتے جاگتے غالب‘ اقبال‘ سعدی یا حافظ تو دیکھے ہی نہیں! سروکار صرف ان کی تصانیف سے ہے! مگر ظفر اقبال پر لکھتے وقت معاملہ مشکل یوں ہو جاتا ہے کہ شاعر کی شخصیت اور شاعر کی شاعری، دونوں گڈمڈ ہو جاتی ہیں!
یہ 1966ء تھا۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اب اُس طالب علم کا نام یاد نہیں جو کالج میں ہم سے سینئر تھا۔ کینٹین میں ایک دن اس نے شاعری کی ایک نئی کتاب کا ذکر کیا۔ یہ ظفر اقبال کی گلافتاب تھی۔ اُس کے اور دوسرے سینئر طلبہ کے درمیان دھواں دھار بحث ہوئی۔ ایک طرف ظفر اقبال کی مخالفت تھی اور دوسری طرف موافقت! ہم جونیئر انتہائی دلچسپی اور انہماک سے یہ گفتگو سنتے رہے۔ غالباً یہی وہ دن تھا جب خلاقِ عالم نے یہ طے کر دیا کہ جہاں بھی اُردو شاعری کے دو پڑھنے والے ہوں گے‘ وہیں دو گروپ بن جائیں گے۔ ایک پرو ظفر اقبال اور دوسرا اینٹی ظفر اقبال۔ یہ تقسیم کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک، آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک، بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ہر جگہ، ہر گھر میں اور ہر ایج گروپ میں دیکھی‘ اور دیکھ رہے ہیں۔
گلافتاب بگولے کی طرح اٹھی اور آندھی کی طرح چھا گئی۔ جسے جدید اُردو شاعری میں رمق بھر بھی دلچسپی تھی، وہ اس سے تغافل نہ برت سکا۔ اس میں جو تجربہ تھا، اور جو تازگی تھی اور جو نئی تشبیہیں تھیں، اور پُرانے الفاظ کا جو نیا استعمال تھا‘ اس نے بہت سوں کے حواس گم کر دیے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سرسوں کی گندل اُردو شاعری میں در آئے گی؟  ؎  
لوہے کی لاٹھ بن کے اڑے عمر بھر تو ہم 
اب ٹوٹنے لگے تو سرہوں کی گندل ہوئے
کیا سرسوں کی گندل کو آپ نے انگوٹھے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کے درمیان رکھ کر کبھی ناخن سے کاٹنے کی کوشش کی ہے؟ کرکے دیکھیے اور پھر یہ شعر پڑھیے۔ کیا زندگی کی نزاکت کی اس سے بہتر تشریح ہو سکتی ہے؟
بد قسمتی سے یا خوش بختی سے‘ میں شاعری کا قاری ہوں، نقاد نہیں۔ ورنہ زنبیل سے ایسی ایسی اصطلاحات‘ اوزار اور ہتھیار نکالتا کہ ایک تو پڑھنے والے کے ہوش اُڑ جاتے دوسرے، وہ کسی بھی شاعر کی تخلیقات پر منطبق ہو جاتے۔ 
اور یہ جو لکھا ہے کہ شاعر کی شخصیت درمیان میں آ جاتی ہے، تو پھر وہ وقت بھی آیا کہ ظفر اقبال کو غریب خانے میں پایا! والد محترم جب اپنے دوسرے فرزند کے پاس کچھ دن گزارنے کے لیے پہلی بار امریکہ کے سفر پر جا رہے تھے تو ایئرپورٹ پر گمبھیر اداسی کے درمیان ایک جملہ کہا: انسان کی زندگی میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سو یہ عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا کہ جس شاعر کے مجموعہ ہائے کلام ’’آبِ رواں‘‘ اور ’’گلافتاب‘‘ کسی شعوری کوشش کے بغیر تقریباً حفظ ہو چکے تھے، وہ شاعر پاس بیٹھا تھا! ہم اُسے براہِ راست سُن سکتے تھے۔ باتیں کر سکتے تھے اور چُھو سکتے تھے!
شاعری نے تو حیران کیا ہی تھا، ظفر اقبال کی شخصیت نے اور بھی حیران کیا۔ یاخدا! یہ کیسا شاعر ہے جو سورج کی پہلی کرن سے بہت پہلے اُٹھ پڑتا ہے! شام چار بجے کا وقت طے ہوا کہ اسلام آباد راولپنڈی کے کچھ منتخب شاعر ادیب آئیں گے اور ظفر اقبال صاحب سے گفتگو کریں گے۔ ساڑھے تین بجے تک بہت سے احباب وفور اشتیاق میں آچکے تھے۔ اب ماتھا ٹھنکا۔ معلوم نہیں ظفر صاحب کہاں ہیں، پہنچتے بھی ہیں یا نہیں! اس ضمن میں دوسرے شعرا کے حوالے سے جتنے تلخ تجربات ہوئے تھے، ایک ایک کرکے یادداشت پر ہتھوڑے چلانے لگے۔ چار بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ ظفر اقبال ہمارے درمیان موجود تھے! یارِ دیرینہ شعیب بن عزیز نے اِس کالم نگار کے بارے میں کہا تھا کہ اتنی واجبی ذہانت کے ساتھ اتنی بڑی شاعری! سو حیرت ہوئی کہ اتنی غیر شاعرانہ عادات کے ساتھ ظفر اقبال نے اتنی عظیم شاعری کر ڈالی!
پھر وہ وقت بھی آیا کہ جناب نے حکم صادر فرمایا کہ آبِ رواں کا نیا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے، تم اس کا فلیپ لکھو۔ یہ ایسے ہی تھا کہ چوہدری اپنے مزارع کو کہے کہ میرے ساتھ والی کرسی پر تشریف رکھو! حیرت سے گنگ ہو کر جسارت کی کہ یا حضرت! یہ کیسے ممکن ہے؟ کہنے لگے، میں اپنے جونیئرز کی آرا بھی لینا چاہتا ہوں۔ سو اس وقت آبِ رواں کا جو ایڈیشن مارکیٹ میں دستیاب ہے اور جو برادر محترم فرخ سہیل گوئندی صاحب نے شائع کیا ہے، اس کا فلیپ اِس طالب علم کا لکھا ہوا ہے۔ ظفر صاحب نے یہ اعزاز صرف مجھے ہی نہیں دیا، اپنے دوسرے جونیئرز کو بھی عطا کیا۔ اس وقت سامنے ان کی کلیات ’’اب تک‘‘ کا پانچواں حصّہ ہے۔ اس میں ابرار احمد، جاذب قریشی، گوہر نوشاہی، الیاس بابر اعوان، فاطمہ حسن، سرور جاوید، ظفرالنقی، اصغر ندیم سید، علی اکبر ناطق، حسین مجروح، سلیم کوثر، اختر عثمان، آفتاب حسین اور عابد سیال کے تبصرے، مضامین اور آرا شامل ہیں۔ جونیئرز کے حوالے سے ان کی ایک اور عادت بھی سینئر شعرا سے بالکل مختلف ہے! وہ اپنے بعد کے شعرا کو غور سے اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ اور یہ کہنا تو تحصیل حاصل ہے کہ رائے دیتے وقت لحاظ یا رعایت نہیں کرتے! اِس لکھنے والے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی نثری تصنیف لا= تنقید میں ایک مضمون اس کے حوالے سے بھی ہے جو دراصل ایک کالم پر کڑا تبصرہ ہے!
محبت پر جو شعر ظفر اقبال نے کہے ہیں‘ وہ تو کہے ہی ہیں، زندگی کی تلخیوں، معاشرے کی مکروہات، ہمارے متعفن گلے سڑے مائنڈ سیٹ اور عام آدمی کو درپیش روزمرہ کی بے حرمتی پر ظفر اقبال نے جو کچھ غزل میں کہا ہے، سچ یہ ہے کہ نظم کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے! ایک کالم اس کا کیا متحمل ہو سکتا ہے اور ایک مجھ سا طالب علم اس پر کیا لکھے گا! مگر اُردو شاعری کا پرو ظفر اقبال گروہ انگشت بدنداں ہے کہ غزل کو وہ کہاں سے کہاں لے گیا۔ یوں لگتا ہے اُردو غزل اس کے تھیلے میں ہے۔ تھیلا اس کے کندھے پر ہے۔ وہ جا رہا ہے۔ جہاں چاہتا ہے، رُکتا ہے، تھیلے کو کندھے سے اُتارتا ہے اُس سے غزل نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیرت سے گنگ رہ جاتے ہیں کہ ہر بار غزل کی ایک انوکھی ہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ رہا اُردو شاعری کا وہ گروہ جو اینٹی ظفر اقبال ہے، تو اصل میں وہ بھی پرو ظفر اقبال ہی ہے اس لیے کہ تیلی نے کہا تھا جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ، تو جاٹ نے جواب دیا تھا کہ تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو! تیلی نے طعنہ دیا کہ قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے کہا‘ قافیہ نہیں ملا تو کیا ہوا، کولہو تمہیں بھاری تو لگے گا نا! سو اینٹی ظفر اقبال گروہ کو ظفر اقبال کے شاعری پسند نہیں آرہی تو کیا ہوا! بھاری تو لگ رہی ہے! یوں بھی عربی کا محاورہ ہے مَنْ صَنَّفَ قَدِ اسْتَہْدَف جس نے بھی نئی راہ نکالی، تنقید اور ملامت کا ہدف بنا   ؎
ازان کہ پیروئی خلق گمرہی آرد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
خلق کے پیچھے چلنے سے گمراہی کے سوا حاصل ہی کیا ہؤا؟ اس لیے تو گزرے قافلے کے نقوشِ پا کو لائقِ التفات نہ سمجھا!
معاشرے کی مکروہات اور گلے سڑے مائنڈ سیٹ کی بات ہو رہی تھی۔ طوالت کی گنجائش نہیں مگر دو چار اشعار: 
گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی
کتے بلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا!
ہم وہی کمّی اور کمین
نون ٹوانے کھوسے تم
عزت ملی تو آخر اُسی سے ملی ظفر
بے غیرتی کے ساتھ جو پیسہ بنایا ہے
رہی محبت! تو محبت کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو بابے نے چھوڑا ہو۔ صرف ایک شعر   ؎
زندگی کے گھپ اندھیروں میں کہیں پر تھوڑی تھوڑی 
اس کے ہونٹوں کی چمک سے روشنی ہونے لگی ہے
ادب میں خمسے بہت مشہور ہیں۔ نظامی گنجوی 1130ء میں پیدا ہوئے۔ پانچ کتابوں پر مشتمل خمسہ لکھا اور بعد میں آنے والوں کو امتحان میں ڈال گئے۔ مخرنِ اسرار، خسرو شیریں، لیلیٰ مجنوں، سکندر نامہ اور ہفت پیکر۔ سکندر نامہ ہمارے مدارس میں پڑھایا جاتا رہا۔ امیر خسرو 1253ء میں پیدا ہوئے۔ نظامی کے جواب میں خمسہ لکھا۔ اس میں مطلع انوار معرکے کی تصنیف ہے۔ 1414ء میں جامی تشریف لائے۔ انہوں نے بھی خمسہ لکھا۔ تحفۃ الاحرار مشہور ہوئی۔ ان کی تصنیف یوسف زلیخا درس نظامی کا حصہ رہی۔ ظفر اقبال 1932ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا خمسہ ایک اور ہی طرز کا ہے۔ یہ جو پانچویں جلد کلیات کی اب آئی ہے‘ اس میں چھ کتابیں شامل ہیں مگر پانچ جلدیں خمسہ ہی تو ہیں اور ابھی تو اللہ اسے سلامت رکھے سِتہ سبع یہاں تک کہ تِسع اور عشرہ بھی آئے گا!

تیسری نشانی کا اضافہ کرنا پڑے گا

$
0
0
’’ہم لڑیں گے۔ ہم پانیوں میں لڑیں گے۔ سمندروں میں لڑیں گے۔ ہم فضاؤں میں لڑیں گے۔ روز افزوں اعتماد کے ساتھ! بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ! ہم اپنے جزیرے کا دفاع کریں گے۔ ہر قیمت پر! ہر حال میں! ہم ساحلوں پر لڑیں گے۔ ہم لینڈ کرنے کے گراؤنڈز میں لڑیں گے! ہم کھیتوں میں لڑیں گے۔ ایک ایک گلی ایک ایک کوچے میں لڑیں گے! ہم پہاڑیوں میں لڑیں گے لیکن ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے!‘‘
یہ ہوتا ہے جنگ کے ہنگام ایک اصل لیڈر کا لہجہ اور یہ ہوتی ہے لہجے کی سچائی! چرچل نے جب وزیراعظم کا منصب سنبھالا اور پہلی تقریر میں کہا کہ ’’میرے دامن میں لہو، مشقت، آنسوؤں اور پسینے کے سوا کچھ نہیں جو پیش کروں‘‘۔
تو مورخ لکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا تھا! پھر جب اتحادیوں نے العالمین میں فتح حاصل کی تو چرچل نے قوم کو سانس نہ لینے دیا۔۔۔۔’’کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ جنگ کا خاتمہ ہے۔ یہ تو خاتمے کا آغاز بھی نہیں! ہاں، شاید یہ آغاز کا خاتمہ ہے!‘‘
اوّل تو مودی میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ جنگ چھیڑے اور اگر وہ اُس وائرس کا مقابلہ نہ کر سکا جو رانا سانگا سے شیواجی میں، شیواجی سے بہت سوں میں ہوتا ہوا ولبھ بھائی پٹیل میں اور پھر منزلوں پر منزلیں مارتا مودی میں در آیا اورکیڑے کی طرح اسے مسلسل اندر سے کاٹ رہا ہے، تو پاکستانی قوم اور پاکستانی مسلح افواج یہ جنگ جیت کر دکھائیں گی مگر کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ اس جنگ میں لیڈر بھی شریک ہوں گے۔ لیڈر! جن میں حکمران شامل ہیں اور سیاست دان!!
مسلح افواج بھی جان لیں اور قوم بھی سُن لے کہ یہ جنگ صرف ان دونوں ہی کو لڑنا ہو گی! وائرس مودی کو چین نہیں لینے دے رہا۔ وہ بیمار ہے۔ کیا کوئی بیماری اس سے بھی زیادہ مہلک ہو گی جس میں مودی مبتلا ہے؟ وہ گجرات کا حکمران اعلیٰ تھا، حکمران اعلیٰ رعایا کے ایک ایک بچے، ایک ایک عورت، ایک ایک مرد کا باپ ہوتا ہے۔ باپ بچوں کا کفیل ہوتا ہے۔ مگر یہ کیسا وزیر اعلیٰ تھا، یہ کیسا حکمران اعلیٰ تھا، یہ کیسا باپ تھا جس نے رعایا کا قتل عام کیا! ہزاروں مسلمانوں کو مروایا، یہاں تک کہ مغربی ملکوں نے اس کا اپنے ہاں داخلہ بند کر دیا!
نہیں! وہ قصاب نہیں! قصاب انسانوں کو ذبح نہیں کرتے! خدا کے بندو! کبھی قصابوں نے بھی انسانوں کو مارا ہے؟ قصاب تو خود انسان ہوتے ہیں! یہ تو ایک پیشہ ہے اور دنیا میں لاکھوں کروڑوں بھلے مانس اس پیشے سے وابستہ ہیں! مودی تو درندہ ہے! بخدا! اس لیے نہیں کہ اس نے مسلمانوں کو مروایا! اس لیے کہ اس نے انسانوں کو مروایا! وہ مسلمان پہلے انسان تھے اور انسان کی حیثیت سے حکمرانِ اعلیٰ پر ان کی حفاظت، ان کی کفالت فرض تھی! 
مودی بیمار ہے۔ وائرس نے اسے جنگ پر مجبور کیا تو مسلح افواج بھی جان لیں اور قوم بھی سن لے جنگ یہ لیڈر، یہ سیاست دان یہ حکمران نہیں لڑیں گے۔ قوم لڑے گی، مسلح افواج لڑیں گی اور بس!
کیا یہ مولانا لڑے گا جو اس نازک موقع پر بھارت کا ساتھ دے رہا ہے؟ کھلم کھلا! ڈنکے کی چوٹ پر! جو کہہ رہا ہے کہ فاٹا میں حالات مقبوضہ کشمیر کی نسبت زیادہ خراب ہیں۔ انڈیا کا میڈیا بھنگڑے ڈال رہا ہے! اس بیان کو حلوہ سمجھ رہا ہے! لاٹری نکل آئی ہے! کیا یہ اچکزئی لڑے گا جو کہہ رہا ہے کہ چادر لے کر ہندوستان یا افغانستان چلاجاؤںگا۔ کیا یہ اسفند یار صاحب لڑیں گے جو افغان کہلانا ہو تو بلبل کی طرح چہکتے ہیں مگر جب بھارت جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو یوں چُپ ہو جاتے ہیں جیسے کھلونے میں جس نے بھی سیل ڈالے تھے نکال کر لے گیا ہے۔ کیا یہ حکمران لڑیں گے جو قومی خزانے کے اربوں روپوں سے فصیلیں بنوا کر ان کے پیچھے چھُپے ہیں۔ خدا کی قسم! جنگ ہوئی تو ان کی تو گھگھی بندھ جائے گی! کیا یہ زرداری صاحب لڑیں گے جو ایوانِ صدر سے پانچ برسوں میں ایک بار بھی کسی شہید کے گھر یا دہشت گردی کا شکار کسی جگہ پر نہ گئے اور جن کی دولت کا شمار خود ان کے حساب سے باہر ہے! لیڈر تو چرچل جیسے لڑتے ہیں، ڈیگال جیسے لڑتے ہیں۔ قائداعظم جیسے لڑتے ہیں جو جائیدادوں، بینک بیلنسوں، کارخانوں، کوٹھیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں! دنیا نے دیکھا کہ چرچل، اُس سلطنت کا سابق وزیراعظم جس کی حدود میں سورج نہیں غروب ہوتا تھا، لندن میں مسافروں کی قطار میں کھڑا ہوکر بس میں سفر کرتا تھا!
شرم آنی چاہیے مسلم لیگ نون کو جس کے اتحادی فاٹا کو مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دے کر بھارت کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں! اور مسلم لیگ نون اس پر خاموش ہے۔ مسلم لیگ نون کے عام محبِ وطن ورکر کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے سب متنازع سیاست دان مسلم لیگ نون کی حکومت کے اتحادی ہیں؟ اسفند یار ولی سے لے کر اچکزئی تک؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ فیکٹریوں میں بھارتی ورکروں کی باتیں ہوئی ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سارے سیاست دانوں میں صرف وزیراعظم ہی کی خاندانی تقریب میں مودی شریک ہوتا ہے اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پاکستانی وزیراعظم بھارتی دورے کے دوران نجی کاروباری ملاقاتیں کرتے پھرتے ہیں؟ مسلم لیگ نون کے ورکروں کو اپنے لیڈروں سے پوچھنا چاہیے کہ اِس موقع پر ان کے اتحادی فاٹا کو مقبوضہ کشمیر سے بدتر کیوں قرار دے رہے ہیں؟ کیا غداری کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟ 
اور معاف کیجیے گا، ایک وائرس عمران خان کے اندر سے بھی نہیں نکل رہا۔ اس کی تقریر سفید براق دودھ سے بھری اُس بالٹی کی طرح تھی جسے دودھ دینے والی گائے خود ہی آخر میں لات مار کر الٹا دیتی ہے! یہ جھاگ والے صحت بخش دودھ کی طرح تھی جس میں بکری مینگنیاں ڈال دیتی ہے۔ ایک مدلل تقریر! جس میں پاناما لیکس کا معاملہ دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا۔ کھرے کو کھوٹے سے وکھرا کر دیا! مودی کو للکارا اور حق ادا کر دیا! مگر بُرا ہو اس وائرس کا جو عمران خان کے اندر گھُسا ہوا ہے۔ بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ وائرس ہے یا سانپ جو عمران خان کے خوبصورت دل کے ایک گوشے میں کنڈلی مار کر براجمان ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے پھنکارنے لگتا ہے! عمران خان کو ابھی تک درد ہے کہ وزیرستان اور سوات میں فوج نے ایکشن کیوں لیا؟ فوج کراچی میں ایکشن لے سکتی ہے تو وزیرستان اور سوات میں کیوں نہیں لے سکتی؟ عمران خان اُس وقت کہاں تھے جب مسلم خان نے ٹیلی ویژن پر کروڑوں سننے والوں کے سامنے کہا تھا کہ ہاں! ہم لوگوں کو ذبح کرتے ہیں! بوسینا میں سربیاکے بھیڑیوں کے بعد یہ صرف پاکستان میں ہوا کہ انسانوں کو لِٹا کر بکروں کی طرح ذبح کیا گیا! عمران خان اُس وقت بے چین نہ ہوئے جب پاکستانی عساکر کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا اور مسجدوں، مزاروں، بازاروں، سکولوں اور چوراہوں پر نہتے معصوم پاکستانیوں کے پرخچے اُڑائے گئے۔ تیس کروڑ روپوں کا عطیہ محض اتفاق نہیں۔ سارا مسئلہ اُس وائرس سے جُڑا ہوا ہے جو اندر بیٹھا کاٹ رہا ہے! تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ مودی کو للکارتے وقت یہ کہنا کیا ضروری تھا کہ پاکستانی فوج نے سوات اور وزیرستان میں جاکر غلطی کی؟ ایک تو بات ہی متنازعہ ہے! سخت متنازعہ! پاکستانیوں کی غالب اکثریت اس معاملے میں عمران خان سے اختلاف کرتی ہے! شدید اختلاف! ہاں وہ لوگ اس ضمن میں اس کی حمایت ضرور کریں گے جن کے تعلیمی اداروں سے لے کر گھروں تک قائد اعظم کا ذکر تک ممنوع ہے! پھر ایک متنازع بات مودی کو للکارتے وقت!! اسے کہتے ہیں بے وقت کی راگنی!
تہذیب اور دانش کا منبع دیہات ہیں۔ گاؤں میں کہتے ہیں کہ بے وقوف کی دو نشانیاں ہیں۔ سردیوں میں پانی پلانے کا کہا جائے تو ٹھنڈے یخ پانی سے کٹورا لبالب بھر کر دے گا اور سرما میں کمرے میں آتے وقت یا وہاں سے نکلتے ہوئے دروازہ کھُلا چھوڑ دے گا! اہلِ دیہہ کو چاہیے کہ اس میں تیسری کا اضافہ کردیں! کہ یہ نہیں معلوم کس وقت کون سی بات نہیں کرنا!

ایک خطرناک تجربہ

$
0
0
وہ گھر میں بند ہو گیا۔ ایک تجربہ تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ کہ اگر وہ چھ ماہ تک گھر سے نہ نکلے اور صرف انٹرنیٹ کے ذریعے باہر کی دنیا سے رابطہ رکھے، تو کیا ایسا ممکن ہے؟
اُس نے ایسا ہی کیا۔ گھر میں بند ہو گیا۔ وہ تھا اور دیواریں اور ایک انٹرنیٹ کنکشن جو اسے دنیا سے جوڑے ہوئے تھا۔ اپنی کمپنی سے اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کام کرے گا۔ کمپنی کو آم کھانے سے غرض تھی۔ یوں بھی ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بہت لوگ گھر بیٹھ کر اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں۔
اگلا اہم مرحلہ خوراک تھا۔ بہت سی کمپنیاں تھیں جو گھر کا سودا سلف (گراسری) گھر کی دہلیز تک پہنچاتی تھیں اور اس خدمت کا معاوضہ لیتی تھیں۔ اس نے ایک معروف کمپنی کو ای میل کی اور اپنی ضروریات کی فہرست بھیجی۔ کچھ کمپنیاں جو بیس گھنٹے لیتی تھیں مگر یہ کمپنی اُسی دن سودا سلف پہنچاتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر بلب فیوز ہو جائے اور اسے میل کر دی جائے تو رات سے پہلے گھر میں بلب پہنچ جاتا۔ مشروبات سے لے کر ٹائلٹ پیپر تک، ادویات سے لے کر تازہ سبزی اور پھل تک، ضرورت کی ہر شے گھر پہنچنے لگی۔ وہ ورزش بھی گھر ہی میں کر تا۔ ورزش والی سائیکل اور ٹریڈ مل، دونوں سیکنڈ ہینڈ، سستے داموں مل گئیں۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کی طبیعت بھی خراب ہوئی۔ اس نے ڈاکٹر کو گھر پر بلا لیا اور جتنی فیس بنتی تھی، ادا کر دی۔
پورے چھ ماہ اس نے گھر کے اندر گذارے۔ یہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ انٹرنیٹ کے اس زمانے میں ایسا کیا جا سکتا ہے! ورزش سے لے کر خوراک تک ہر شے گھر منگوائی جا سکتی ہے!
چھ ماہ کے بعد وہ اپنی کمپنی کے دفتر گیا۔ دوستوں نے ہار پہنائے۔ ٹی پارٹی منعقد ہوئی۔ اس کے باس نے شہادت دی کہ کمپنی نے اُسے جو ذمہ داری دی، اس نے گھر بیٹھے بھی اسی خوبی سے نبھائی جیسی دفتر میں نبھاتا تھا۔ اُس نے اسی ٹی پارٹی میں اعلان کیا کہ کچھ عرصہ بعد وہ یہ تجربہ ایک سال کی مدت کے لیے کرے گا!
یہ تجربہ آج کل ہم بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا تعلق بھی بیرونی دنیا سے ختم ہو چکا ہے! ہم اس زعم میں ہیں کہ ہر شے گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے گی، مگر افسوس! ایک فرد تو یہ تجربہ کر سکتا ہے ایک ملک نہیں کر سکتا! یہ اور بات کہ ہمیں اس کی فکر نہیں!
غور کیجیے! مشرقی طرف بھارت ہے۔ وہ یوں ہی ہمارا دشمن نمبر ایک ہے! اس کے ساتھ تعلقات رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ افغانستان شکوہ کناں ہے کہ پاکستان، افغانی اشیا، بھارتی سرحد تک لے جانے دیتا ہے مگر بھارتی اشیائے تجارت پاکستان کے راستے افغانستان تک نہیں لے جائی جا سکتیں! یہ صرف ایک مثال ہے!
رہا افغانستان تو اُس سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ کرزئی صدر تھے تب بھی مخالفت تھی۔ اشرف غنی آئے، کچھ عرصہ ہنی مون چلا، مگر اب وہ شدومد سے مخالفانہ بیانات کے گولے برساتے ہیں۔ جنوب مغرب میں ایران ہے۔ اس سے بھی تعلقات خراب ہیں۔ کلبھوشن سے لے کر چاہ بہار تک، سرد مہری کی چادر یوں تنی ہے کہ دوستی کا آسمان کہیں سے بھی نہیں دکھائی دیتا۔
ایران سے آگے متحدہ عرب امارات ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان اب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ بھارت نے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ کاش پاکستان میں کسی کو فرصت ہوتی یا ہوش ہوتا۔ امارات کے ولی عہد کو دعوت دینا ایک سیاسی کھیل ہے جو بھارت اصل میں پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے!
مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے بڑے ملک جس سے ہماری مذہبی، جذباتی اور روحانی وابستگیاں ہیں، ان میں سے کسی نے حالیہ بحران کے دوران کشمیریوں کے لیے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ یوں بھی پچھلے مالی سال کے دوران سعودی عرب، یو اے ای، اومان، بحرین، کویت اور قطر کو بھارتی برآمدات کی مالیت بیالیس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے! اٹھانوے ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت اس کے علاوہ ہے!
امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ ہے۔ ابھی چند دن ہی تو ہوئے جب اس کے عوامی نمائندے پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ اور بات کہ ظفر یاب نہ ہو سکے۔ یوں بھی آپ اُس ریت پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جو آپ کے پیروں کے نیچے سرک رہی ہو اور برف کے اُس تودے پر تو بھروسہ کر سکتے ہیں جس پر آپ کھڑے ہیں اور وہ کڑکتی دھوپ میں لمحہ بہ لمحہ پگھل رہا ہے اور آپ سانپ کے اُس بچے پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جسے آپ دُودھ پلاتے رہے اور آگ کے اُن شعلوں پر تو اعتبار کر سکتے ہیں جنہوں نے آپ کی چادر کے ایک کونے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر آپ امریکہ کی دوستی پر اعتماد نہیں کر سکتے! امریکی تاریخ میں دوستی نبھانے کا باب ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں اگر کسی نے امریکی کیریکٹر کو پوری طرح جاننا ہے تو اُن وعدوں کا مطالعہ کرے جو ریڈ انڈین قائدین کے ساتھ امریکی کرتے رہے!
حالیہ دنوں میں روس کے فوجی دستے پاکستان آئے اور ہماری فوج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں۔ اس پر بہت سی مسکراہٹیں بکھریں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ ہے تو کیا ہوا، اب روس ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ اِن خوش گمان دانشوروں سے پوچھا جائے کہ ’’اندرا‘‘ کسے کہتے ہیں تو کہیں گے اندرا گاندھی کو کون نہیں جانتا، مگر نہیں! یہ وہ اندرا نہیں ہے۔ یہ INDRA روس اور انڈیا کا مخفف ہے۔ اس سے مراد وہ سلسلہ ہے جس کے تحت روسی اور بھارتی افواج سالہا سال سے مشترکہ مشقیں کر رہی ہیں۔ جن دنوں روسی دستے پاکستان میں تھے، انہی ایام میں بھارتی فوج کے دستے روسی شہر ولادی ووسٹوک میں ’’دہشت گردی‘‘ کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ مشقیں کر رہے تھے! یہ مشقیں 2003ء سے سال میں دوبار ہو رہی ہیں!
شمال میں وسط ایشیائی ریاستیں ہم سے زیادہ بھارت کے قریب ہیں۔ جسے شک ہو ہم عصر تاریخ میں جھانک لے۔ حکیم سعید جیسے دانشور چیختے رہ گئے کہ ان سے تعلقات میں گہرائی پیدا کرو مگر پاکستان نے ان سے خصوصی روابط قائم کرنے میں کبھی کوئی غیر معمولی دلچسپی نہ لی۔ لے دے کر ترکی اور چین ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ ترکی کے تعلقات اگرچہ پاکستان کے ساتھ تاریخی حوالے سے ہیں مگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو شاہی خاندانوں کے باہمی تعلقات ہیں۔ ترکی کے حکمران بارہا لاہور آئے مگر کبھی انہوں نے کوئٹہ، پشاور اورکراچی کو اپنی موجودگی کا شرف نہ بخشا۔
چین ہمارا دوست ہے مگر وہ زمینی حقائق کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اسی لیے تو چین چین ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات خاصی گرم جوشی پر مبنی ہیں!
دنیا میں ہم اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا شکار ہیں۔ وزیر خارجہ ہوتا تو شٹل ڈپلومیسی وقت کی اہم ضرورت تھی! آج ایک وفاقی وزیر نے دانش جھاڑی ہے کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی وزیر خارجہ نہیں تھا! یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم کا سپیچ رائٹر نہیں تھا! کوئی وزیر صاحب سے پوچھے کہ کیا موجودہ وزیراعظم عالمی رہنماؤں سے اسی طرح بات چیت کرتے ہیں جیسے بھٹو کرتا تھا؟ ہاں! اگر اِن دنوں ہماری کابینہ میں ’’وزیرِ کاروبار‘‘ کوئی نہیں تو اس میں تعجب قطعاً نہیں ہونا چاہیے! ویسے سچ یہ ہے کہ بھٹو دور میں عزیز احمد وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ ایک منجھے ہوئے سفارت کار اور خارجہ امور کے ماہر۔
مگر اس اندھیرے میں بھی اُمید کا ایک دیا ٹمٹما رہا ہے اور روشنی پھیلانے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے! صدرِ مملکت اس سفارتی تنہائی کو دور کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ بیرونی دوروں میں انہوں نے ڈرائیوروں، ویٹروں اور سٹاف کے دیگر ارکان کو ساڑھے اکسٹھ لاکھ روپے ٹپ کے طور پر نذر کر دیے۔ یہ اعداد و شمار صرف پانچ چھ دوروں کے ہیں۔ صدر صاحب کو معلوم ہے کہ یہ ڈرائیور اور ویٹر، جب اپنے اپنے ’’صاحب‘‘ کے ساتھ ہوں گے تو ضرور پاکستان کی سفارش کریں گے۔ یوں وزیر خارجہ کی کمی پوری ہو جائے گی۔
صدر صاحب ملک کے اندر بھی ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں شدت سے احساس ہے کہ وزیراعظم تحریکِ انصاف کو ناپسند کرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پی میں برسرِ اقتدار ہے۔ صدر صاحب توازن قائم کرنے کے لیے اپنا سودا سلف نمک منڈی پشاور سے منگواتے ہیں۔ پچھلے مالی سال کے دوران ایوانِ صدر نے نمک منڈی سے تقریباً پونے چار کروڑ روپے کا سودا منگوایا۔ اس میں گوشت، فروٹ اور دیگر اشیائے خوردنی اور بقول آڈٹ ’’تفریحی‘‘ اشیا شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایسی اشیا نہیں جو راولپنڈی اسلام آباد میں نہ مل سکیں۔ ایوانِ صدر تو یہ سب کچھ قومی یکجہتی کے لیے کر رہا ہے۔ ورنہ صدر گرامی قدر عمر کے اس حصے میں پونے چار کروڑ روپے کی اشیا ایک سال میں نوش ہی کہاں کر سکتے ہیں! آڈٹ رو پیٹ رہا ہے کہ اس خریداری پر تیرہ لاکھ کا ٹیکس کٹنا تھا جو سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوا! کوئی آڈٹ کو سمجھائے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑے۔ ایوانِ صدر کے بلند مقاصد پر غور کرے!

ساتواں جنم

$
0
0
پہلی بار وہ سکندر اعظم کے زمانے میں پیدا ہوا جہلم کا دریا اُن دنوں وہاں سے نہیں گزرتا تھا‘ جہاں سے اب گزرتا ہے۔ دریا کی گزرگاہ کوسوں دور تھی! جوں توں کر کے اس نے گدھا خریدا‘ پھر گاڑی بنوائی اور یوں گدھا گاڑی چلا کر گزر بسر کرنے لگا۔
ایک دن اچانک تہلکہ سا برپا ہو گیا۔ اُسے سکندر کی فوجوں نے پکڑ لیا اور پتھر ڈھونے پر لگا دیا کئی دن کام کرنے بعد اس نے ایک دن اجرت مانگی۔ یونانی افسر نے ایک سپاہی کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ سپاہی نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
دوسری بار وہ تغلق کے زمانے میں پیدا ہوا‘ اب کے حالات بہتر تھے۔ دفاع مضبوط تھا مغرب سے حملہ آور آتے تو انہیں مار بھگایا جاتا۔ وہ اچھے دن گزار رہا تھا۔ ملتان اور دہلی کے درمیان ایک گائوں تھا‘ وہاں دہلی سے بیوپاری آتے‘ گندم خریدتے۔ بہت سی گدھا گاڑیاں کرائے پر لیتے‘ اس کی گدھا گاڑی کو بھی کام مل جاتا۔
یہ زمانہ اُسے سکندر اعظم کے زمانے سے زیادہ ترقی یافتہ لگا۔ آخر ایک سسٹم تو تھا! بدقستی سے تغلق کا وہاں سے گزر ہوا۔ شاہی قافلہ ہزاروں گھوڑوں اور سینکڑوں ہاتھیوں پر مشتمل تھا اور اس کے گائوں کے راستے میں پڑائو کر رہا تھا۔ اُس شام بیوپاریوں نے اسے دیر سے فارغ کیا۔ گائوں لوٹتے لوٹتے شام ڈھل گئی۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ وہ شاہی پڑائو کے قریب سے گزر رہا تھا اچانک دو پہریدار اس پر پل پڑے اور اپنے حاکم کے پاس لے گئے۔ حاکم وزیر کے پاس لے گیا ۔ وزیر اعظم نے نمبر بنانے کے لیے اسے بادشاہ کے حضور یہ کہہ کر پیش کیا کہ اُس نے مغلوں کا جاسوس پکڑا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی کھال اتاری جائے۔
ابن بطوطہ ملتان سے دہلی جاتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ یہ ٹھیک وہی وقت تھا جب غریب گدھا گاڑی کی کھال اتاری جا رہی تھی۔ ایک گڑھا کھودا گیا۔ پھر اسے مُنہ کے بل لٹایا گیا یوں کہ اُس کی ناک والا حصہ گڑھے کے اوپر تھا۔ یہ ٹیکنیک اس لیے اختیار کی جاتی تھی کہ سانس لیا جا سکے۔ پھر جلّاد اس کی کھال اتارنے لگاوہ جلّاد کی بار بار منت سماجت کرتا کہ ایک ہی بار اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے مگر جلاد کو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کی مجال کہاں! اگر جلّاد ایسا کرتا تو خود اس کی کھال اتاری جاتی!
تیسری بار وہ شاہجہان کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ان دنوں وہ لاہور اور بھمبر کے درمیانی علاقے میں گدھا گاڑی چلاتا تھا۔ مغلوں کو گرمیوں کا موسم کشمیر میں گزارنے کا خبط تھا۔ گویا کشمیر ان کے لیے ایسے ہی تھا جیسے آج کے شاہی خانوادوں کے لیے مری اور نتھیا گلی!
شاہ جہاں کشمیر جاتا تو اس کے ساتھ ایک لاکھ افراد ہوتے۔ ان میں لشکری‘ درباری‘ دکاندار سب شامل ہوتے۔ جہاں قافلہ رکتا‘ شہر بس جاتا‘ بازار لگ جاتا۔ ہر سپاہی اپنا کھانا خود پکاتا۔ یوں دھواں اٹھتا تو آسمان تک جاتا اورکوسوں تک کا علاقہ سیاہی میں چھپ جاتا۔ راہگیروں کو راستہ نظر ہی نہ آتا۔ قانون یہ تھا کہ شاہی سواری کے راستے کے قریب سے بھی کوئی گزرے تو احتیاطاً اُسے ختم کر دینا چاہیے۔ پہریدار لاٹھیاں گھما گھما کر چل پھر رہے تھے۔ اُس کا گزر وہیں سے ہوا۔پہریداروں نے ڈنڈے مار مار کر اسے ختم کر دیا اورلاش وہیں گدھا گاڑی کے اندر چھوڑ کرآگے چلے گئے۔
چوتھی بار وہ پیدا ہوا تو رنجیت سنگھ کی بادشاہی تھی۔ اب کے وہ گدھا گاڑی میں سواریاں ڈھوتا۔ راوی کے اس طرف سکھ سپاہی کھڑے تھے۔ اس کی گاڑی کے اردگرد پرداتنا تھا۔ سکھ سپاہیوں نے پوچھا‘ کون ہے اس نے جواب دیا خواتین سواریاں ہیں۔ سکھوں نے چادر کھینچ کر ایک طرف رکھ دی دو جوان لڑکیوں کو کھینچ کرگاڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اُس سے نہ رہا گیا۔اس نے چابک ایک سکھ کے کندھے پر زناٹے سے مارا۔ دوسرے نے کرپان نکالی اوراس کاپیٹ چاک کردیا۔یوں چوتھی بارجنم لینے کا تجربہ بھی ناکام رہا۔
پانچویں بار یہ گدھا گاڑی والا انگریزی راج کے دوران پیدا ہوا۔ اب کے اُسے جنوبی پنجاب کے ایک زمیندارکا مزارع ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ زمیندار کا منشی اُسے جوکام بتاتا‘ وہ کرتا۔ اس کی قسمت گردش میں آ گئی‘ بڑی لام چھڑ گئی۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے سائیںکو کوٹھی پر طلب کیا اورحکم دیا کہ کم ازکم تیس نوجوان فوج کے لیے پیش کرے۔ گنتی پوری نہیں ہو رہی تھی وہ منشی کے پائوں دبا رہا تھا جب زمیندار نے منشی کو طلب کیا اور کہاکہ ایک بندہ کم پڑ رہا ہے‘ فوراً بندوبست کرے۔ منشی نے اسے پیش کر دیا۔ انگریز فوج اسے ہندوستان سے باہرپتہ نہیں کہاں لے گئی۔ ایک دن جرمنوں نے حملہ کیا اور گوروں کے ساتھ وہ بھی مارا گیا۔
چھٹی بار پیدا ہوا تو ہندوستان پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی حکومت تھی اس کا گائوںجالندھر سے ذرا جنوب میں تھا۔ ملک تقسیم ہو گیا۔ وہ جہاں رہتا تھا اس کے اردگرد زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ غدر برپا ہوا تو اس نے بھی پاکستان جانے کی ٹھانی۔ گدھا گاڑی میں اپنے رشتہ داروںکو بٹھایا۔جالندھر سے وہ ایک بڑے قافلے کا حصہ بن گیا۔ زیادہ تعداد بیل گاڑیوں اورگدھا گاڑیوں کی تھی۔ پیدل بھی بہت سے تھے اس بار بھی اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہوسکا۔ امرتسر سے ذرا پہلے قافلے پر حملہ ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ اسی سے لڑنے کی کوشش کی اورکام آیا۔
ساتویںبار پیدا ہوا تو ملک پاکستان پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی۔ اس بار حالات مختلف تھے۔ جمہوری دور تھا۔ حکومت افراد کی نہیں‘ اداروں کی تھی۔ شناختی کارڈ کا زمانہ تھا۔ اب کسی حملہ آور کی فوج بیگار میں پکڑ سکتی تھی نہ کوئی بادشاہ کھال اتارنے کا حکم دے سکتا تھا۔ اب حکمران ایک لاکھ افراد کے ساتھ نہیں‘ چند درجن تیز رفتار گاڑیوں کے ساتھ نقل وحرکت کرتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ پہریدار لاٹھیوں سے مار دیں سکھ بھی نہیں تھے۔ اپنا ملک تھا مسلمانوں ہی مسلمان تھے۔ اسلام پھل پھول رہا تھا۔
یہ جنم اس کا شیخو پورہ میں ہوا تھا بہت آرام سے گزررہی تھی۔ اس بار یقین تھا کہ وہ طبعی موت مرے گا اور کیا خبر‘ ایک بار طبعی موت نصیب ہو تو بار بار پیدا ہونے کے بکھیڑے سے نجات مل جائے۔ سسٹم کام کر رہا تھا‘ تھانہ تھا‘ کچہری تھی‘ جج تھے وکیل تھے‘ محتسب تھا‘ پریس تھا۔ الیکٹرانک میڈیا تھا۔ بین الاقوامی رپورٹر تھے وہ گدھا گاڑی چلاتا اوررب کا شکرادا کرتا کہ مار دھاڑ‘ قتل و غارت کا زمانہ چلا گیا اب جمہوریت ہے قانون ہے۔ اسمبلیاں ہیں‘ جواب دہی ہے۔ سسٹم ہے‘ نظام ہے۔‘کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا!
مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ہر زمانے میں مارنے کے طریقے الگ تھے۔ کبھی تلوارسے تو کبھی کھال اتار کر‘ کبھی کرپان سے تو کبھی لاٹھی سر پرمار کر‘ انصاف بھی ہر زمانے میں یکساں رہا ہے۔ سلطانی ہو یا جمہوریت‘ سکھا شاہی ہو یا انگریز کی حکومت! انصاف کی ادائیں وہی رہیں!
دروازے پر دستک ہوئی۔ سوئی گیس والا تھا اس کے ہاتھ میں بل تھمایا اوراگلے دروازے پر چلا گیا۔ وہ کونے والی دکان پر بِل پڑھوانے گیا۔89ہزارروپے کا بل تھا۔ نوّے سالہ گدھا گاڑی والے نے دل پر ہاتھ رکھا اورگر پڑا۔ محلّے والے ہسپتال لے گئے وہاں اس نے دم توڑ دیا۔
ہاں! جمہوریت کا یہ فائدہ ضرور ہواکہ موت ہسپتال میں بیڈ پر واقع ہوئی۔ رہا انصاف تو وہ اتنا ہی ہوا جتنا پہلے جنموں میں ہوتا رہا!

جب چادر پوشی بھی ستر پوشی نہ کر سکے

$
0
0
کون سی آزمائش ہے جس سے پاکستان کے پختون نہیںگزرے!
سینکڑوں سال پر محیط اُن حملہ آوروں کا تو ذکر ہی کیا جو درۂ خیبر سے آتے رہے اور پختونوں کے سکون کو درہم برہم کرتے رہے! صرف ماضی قریب کی تاریخ ہی پر نظر ڈال لیجیے! پاکستان کے کسی اور حصے نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی پختونوں نے دی ہیں۔ جتنے دھماکے صرف کے پی میں ہوئے، اتنے ملا کر کل ملک میں نہ ہوئے ہوں گے۔ مولوی فضل اللہ اور مسلم خان جیسی مصیبتیں نازل ہوئیں۔ گلے کاٹے گئے۔ سکول جلا کر خاکستر کیے گئے۔ اعتزاز نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آرمی پبلک سکول کو خون میں نہلایا گیا۔
پھر مہاجرین آئے۔ انہوں نے مزدوری سے لے کر ٹرانسپورٹ تک ہر معاشی سرگرمی پر قبضہ کر لیا۔ رہائشی مکانوں کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ خیمے اور اونٹ کی مثال اگر کہیں صادق آتی ہے تو پختونوں پر! مہاجر ابھی تک خیمے میں گھسے ہیں۔ نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ عوام کی تکالیف کی پروا کیے بغیر، چند طالع آزما خود غرض سیاست دان، اِن مہاجرین کو یہیں رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کے پی کے عوام کیا چاہتے ہیں!
اور اب … ایک نئی آزمائش!
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی 
محمود اچکزئی پختونوں کے سر پر ایک تازہ افتاد بن کر ٹوٹے ہیں! زمانہ کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ ظاہر شاہ کا عہد لد گیا۔ سردار داؤد پیشِ منظر سے ہٹ گئے‘ اچکزئی صاحب ابھی تک وہیں رہ رہے ہیں! خدا جنرل حمید گُل صاحب کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، وہ بھی گزرے وقت کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے تھے۔ اسی کی دہائی سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اچکزئی کا معاملہ بھی ویسا ہی ہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ملک کن مسئلوں میں گھرا ہے، اُن کی بلا سے! دنیا کی بہترین خُوردبین سے اُن کے بیانات کا جائزہ لے لیجیے، کیا مجال جو ایک لفظ عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں مل جائے۔ انہیں ان مسائل کا ادراک ہی نہیں! تعلیم، صحت، خواندگی، صنعت و حرفت، تجارت، زراعت! وہ اور ان کا خاندان سرکاری خزانے سے پرورش پا رہا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو دامادوں کے ساتھ ہوتا ہے! فیوڈلزم اور سرداری نظام ایسے طالع آزماؤں کو خوب راس آتا ہے۔ جس دن پس ماندہ علاقوں میں انڈسٹری لگ گئی، جس دن عوام تعلیم یافتہ ہو کر شعور کی منزل پر پہنچ گئے، ان طالع آزماؤں کے سنہری دن خاتمے کو پہنچ جائیں گے۔
اب وہ پھول دیکھیے جو اچکزئی کے منہ سے جھڑے ہیں، ’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد پختونوں کے تمام علاقے اکٹھے کرکے اسے صوبہ افغانیہ قرار دیا جاتا لیکن ایسا نہ کرکے پختونوں کو تقسیم کر دیا گیا‘‘۔
ان سے کوئی پوچھے کہ کیا بلوچستان اور کے پی کے صوبے الگ الگ پاکستان نے بنائے ہیں؟ اور پھر کیا اچکزئی کو معلوم ہے کہ پختون کراچی میں کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ راولپنڈی سے لے کر لاہور تک لاکھوں پختون آباد ہیں۔ اُن کے لیے اچکزئی کے اس قسم کے بیانات میں کون سی خیر خواہی چھپی ہے؟ اچکزئی صاحب کبھی پشاور یا کے پی کے کسی علاقے سے الیکشن لڑ کر دیکھ لیں۔ یہ جو پختونوں کی خود ساختہ ماماگیری انہوں نے اپنے اوپر سوار کر رکھی ہے اس کا ملمّع اُتر جائے گا!
اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ چادر اوڑھ کر بھی ستر پوشی نہیں کر سکتے۔ اندر کی برہنگی باہر آ کر دم لیتی ہے۔ ’’پاکستان زندہ باد کا نعرہ کسی پر تھونپا نہیں جا سکتا‘‘۔ کوئی سیاق و سباق نہ موضوع! اس مسئلے پر کوئی اسمبلی میں بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پیٹ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے سے مروڑ اُٹھیں تو قے کے علاوہ منہ سے کیا نکلے گا! پاکستان زندہ باد کا نعرہ کوئی کسی پر تھونپ نہیں رہا۔ جو یہ نعرہ لگاتے ہیں، دل سے لگاتے ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات کہ صوبہ افغانیہ جیسا بے سروپا نعرہ کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا!
کیا مسلم لیگ نون والے اپنے اس چادر پوش اتحادی کو نفاق کے بیج بونے سے منع کریں گے؟ افسوس! مسلم لیگ نون اپنی حکومتی اور حد درجہ وقتی مصلحتوں پر قومی حمیت کو قربان کیے جا رہی ہے۔ کبھی اس کے اتحادی مودی کو سنا سنا کر اسمبلی میں کہتے ہیں کہ فاٹا کے حالات مقبوضہ کشمیر کی نسبت زیادہ خراب ہیں اور کبھی پاکستان زندہ باد کی توہین کرتے ہیں۔
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو بدبخت نہیں جانتا وہ جان لے کہ ’’پ‘‘ سے پختون ہے اور ’’پ ‘‘ سے پاکستان ہے اور ’’پ‘‘ ہی سے پروردگار ہے! پختون پاکستان سے ہیں اور پاکستان پختونوں سے ہے۔ پروردگار کا کرم ہے پختونوں پر جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر اُن نابیناؤں کے سینے پر مونگ دلے تھے جنہیں سورج کی روشنی نظر نہیں آرہی تھی اور جن کی ذریت آج بھی سینہ کوبی کرکے عبرت کا مرقع بنی ہوئی ہے!
رہی حقوق کی بات! تو اچکزئی صاحب جیسے سرداروں ہی نے تو عوام کے حقوق عضب کر رکھے ہیں۔ جب تک قبل مسیح کا یہ سرداری نظام بلوچستان کے عوام پر مسلط ہے وہ عہدِ جدید میں نہیں داخل ہو سکتے! اس نظام کے محافظ اچکزئی جیسے رجعت پسند سردار ہی تو ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک فیوڈل صحافیوں پر اس لیے برس پڑا کہ اس کے نام کے ساتھ سردار نہیں لگایا جا رہا تھا! اُتھلے پن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاتال کا آخری سرا کبھی کبھی تحت الثریٰ سے بھی نیچے جا پڑتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں ان سرداروں کے غلّے کے گودام بنی ہوئی ہیں۔ یہ نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنے کے لیے گلی میں چلتے رہگیر کو نشانہ بناتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کو مہینے کے آخر میں حلال کی تنخواہ قومی خزانے سے وصول کرنے سے پہلے ان سرداروں سے پرچی لینا پڑتی ہے۔ کوئی پڑھ لکھ جائے تو یہ اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مَل کر چیونٹیوں بھرے غاروں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اِس زمانے میں بھی اپنے محکوموں کو جلتے انگاروں پر چلاتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ کون چور ہے حالانکہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ کون چور ہے!
پاکستان زندہ باد کے نعرے سے جن کی انتڑیوں میں تیزابی شعلے اُٹھتے ہیں‘ اُٹھتے رہیں، جن کے پیٹ میں بغض کے مروڑ پڑتے ہیں، پڑتے رہیں، جن کے سینوں میں آگ لگتی ہے، لگتی رہے، جن کے حلق میں منافقت کی ہڈی پھنستی ہے، پھنستی رہے۔ پختون ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد! سرداری نظام مردہ باد!

بیرم خان

$
0
0
بیرم خان نے مغل خانوادے کی تین نسلوں تک چاکری کی!
وہ بدخشاں میں پید ہوا۔ بدخشاں کے لعل مشہور تھے، جیسے یمن کے عقیق! یہ وہ زمانہ تھا جب لعل فخر سے بادشاہوں کے تاج میں سجتے تھے اور گلے کی مالا کا حصہ بنتے تھے۔ یہی حال پھولوں کا تھا! پھول کسی کے سر پر سجنا اپنے لیے باعثِ افتخار گردانتے تھے۔ اسی لیے تو مومن نے کہا تھا     ؎
بے بخت رنگِ خوبی کس کام کا کہ میں تو
تھا گُل، ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا
اقبال نے آ کر بتایا کہ کسی کی دستار پر لگ کر اونچا ہونا، عزت کی نہیں، محکومی کی نشانی ہے   ؎
نہیں یہ شانِ خوداری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کر لے
بیرم خان نے بابر کی نوکری شروع کی تو سولہ سال کا تھا۔ ہمایوں کے سارے عرصۂ اقتدار میں اور عرصۂ مہاجرت میں وہ اس کا ساتھی رہا۔ ہمایوں ایران گیا تو بیرم خان ساتھ تھا۔ شیر شاہ سوری کے خاندان کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی کہ ہمایوں دنیا کو چھوڑ گیا۔ بیرم خان نے تیرہ سالہ اکبر کو تخت پر بٹھایا اور پھر جان و دل سے مغل سلطنت کے استحکام میں لگ گیا۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں بیرم خان ہی نے ہیمو کو شکست دی ورنہ مغل سلطنت کو تاریخ میں صرف دو سطریں ملتیں! اُس نے جنگیں لڑیں۔ انتظامِ سلطنت سنبھالا، دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔ زندگی کا ہر لمحہ آقا کی خدمت میں گزارا۔ یہاں تک کہ اکبر جوان ہو گیا، حاسدوں کی کمی نہ تھی۔ نا تجربہ کار بادشاہ کے کان بھرے گئے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اکبر نے بیرم خان کو یوں باہر پھینکا جس طرح دودھ سے مکھی نکال کر پھینکی جاتی ہے۔
بیرم خان کا انجام کیا ہوا، یہ آج کا موضوع نہیں! مگر غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ کتنے ہی مواقع آئے جب بیرم خان سلطنت پر قبضہ کر سکتا تھا، خود کو بادشاہ قرار دے سکتا تھا۔ یوں اقتدار، ایک خاندانے سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا۔ مغلوں سے پہلے سلاطین دہلی کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی تھی۔ مگر چاکری بیرم خان کے خون میں شامل تھی! وفاداری اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ اس کے باپ نے اور اس کے باپ کے باپ نے بابر بادشاہ کی نوکری کی تھی! وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ نوکری کے حصار سے باہر نکل آئے۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ شہزادے کی حفاظت کرے۔ شہزادے کی تربیت کرے۔ یہاں تک کہ شہزادہ اس قابل ہو جائے کہ ’’پورا‘‘ بادشاہ بن جائے۔ پھر بیرم خان اُس کے دربار میں یوں دست بستہ کھڑا ہو جیسے ہمایوں کے دربار میں اور اس سے پہلے بابر کے دربار میں دستہ بستہ کھڑا ہوتا تھا! بالکل اس طرح جیسے بیرم خان کاباپ اور دادا بابر کے دربار میں کھڑے رہتے تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر ان دنوں گردش کر رہی ہے اور کیا خوب گردش کر رہی ہے! بلاول بھٹو زرداری میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے ہاتھ ملا رہے ہیں! بلاول کے پیچھے پیپلز پارٹی کے معمر، تجربہ کار، سرد وگرم چشیدہ رہنما کھڑے ہیں۔ سب کے چہروں پر ایک ایسا اطمینان جھلک رہا ہے جس میں تفاخر کا رنگ شامل ہے!
یہ کون ہیں! یہ سب بیرم خان ہیں! شہزادہ بلاول کون ہے؟ یہ شہزادہ اکبر ہے! ان بیرم خانوں نے نسل در نسل اس خاندان کی چاکری کی ہے۔ پہلے یہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں ان کی دختر نیک اختر بے نظیر بھٹو کے دربار میں کرسیاں اور مسندیں اور خلعتیں اور وزارتیں ملیں! پھر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے داماد کو بادشاہ بنایا اور اب بھٹو صاحب کے نواسے، زرداری صاحب اور محترم بے نظیربھٹو کے صاحبزادے کے ساتھ ہیں۔ یہ سب، بشمول خواتین، شہزادے کی تربیت کر رہے ہیں۔ یہ اس خاندان کی خاطر پانی پت کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ ایسا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ شہزادہ جوان ہو جائے گا۔ پھر وہ مکمل بادشاہ بنے گا اور یہ معزز حضرات اس کے دربار میں اسی طرح خلعتیں اور وزارتیں اور مسندیں پائیں گے جیسے بادشاہ کے نانا کے دربار میں اور بادشاہ کی والدہ محترمہ کے دریار میں اور بادشاہ کے والد گرامی کے دربار میں پاتے تھے۔
کیا کمی تھی بیرم خان میں اگر وہ بادشاہ بن جاتا؟ مگر یہ اس کی سوچ کے دائرے سے باہر تھا۔ ان مصاحبین کا تو یہ حال تھا کہ بادشاہ کسی نالائق ماتحت کو یا کسی نا اہل رشتہ دار کو بنگال یا دکن یا پنجاب جیسے اہم صوبے کا گورنر لگاتا تھا تو آمنّا و صدّقنا کہہ کر، خود اُسی تنخواہ پر کام کرنا جاری رکھتے تھے جو وصول کر رہے تھے! آپ اندازہ لگائیے، جناب یوسف رضا گیلانی کا اور جناب راجہ پرویز اشرف کا قابلیت میں اور تعلیم میں اور گفتگو کے فن میں اور بہت سی دوسری خصوصیات میں میاں رضا ربانی سے اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے اور قمر زمان کائرہ سے کیا مقابلہ تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا دامن دوسروں کی نسبت صاف ہے۔ فرشتے تو یہ بھی نہیں، ہم میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں، مگر ان حضرات کی شہرت اچھی ہے۔ لیکن بادشاہ نے گیلانی صاحب کو اور راجہ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھایا تو ان سب نے آمنّا و صدّقنا کہا۔ کون سا سکینڈل ہے جو ان وزرائے اعظم کے زمانوں میں پیپلز پارٹی کے چہرے پر سیاہی مل کر نہیں گزرا مگر ان میں سے کسی نے اُف تک نہ کی! اس لیے کہ بادشاہ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی تصور نہیں! 
اگر پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور اگر پیپلز پارٹی ایک خاندانی جماعت نہیں تو رضا ربانی یا کائرہ صاحب یا اعتزاز احسن یا کھوڑو، شیری رحمن یا کوئی اور اس جماعت کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ آخر یہ سب لوگ شہزادے کے بڑے ہونے کا انتظار کیوں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں؟ رضا ربانی ایوان سے باہر اور ایوان کے اندر آئین کی سربلندی کے لیے آواز اُٹھانے میں مشہور ہیں۔ وہ صوبوں کے اختیارات کے معاملے میں ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ وہ جمہوریت کے سپاہی ہیں اور آمریت کے شدید ناقد! مگر وہ پارٹی کے معاملے میں مہر بہ لب ہیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پارٹی پر ایک خاندان کی وراثت کا مسئلہ اُٹھائیں اس لیے کہ بغاوت کرنے سے وفاداری شک میں پڑتی ہے اور جو کچھ مل رہا ہے، وہ بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہوتا ہے    ؎
اُٹھاتے کس طرح پلکوں کی لمبائی کا جھگڑا
بہت مشکل سے آنکھیں اور بینائی ملی تھی!
اور صرف پیپلز پارٹی کا کیا ذکر! یہ پشتینی وفادار، یہ بیرم خان ہر پارٹی میں شہزادوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں خاندانی بادشاہت کی تیسری چوتھی پیڑھی جوان ہو چکی ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں ابھی پہلی اور کچھ میں صرف دوسری نسل تک معاملہ پہنچا ہے۔ ورنہ بیرم خان ہر جگہ موجود ہیں اور ہر شہزادے کو جوان کر کے تخت پر بٹھانے کا عزمِ صمیم کیے ہیں۔ رائے ونڈ سے لے کر گجرات تک! ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک ہر جگہ بیرم خان دست بستہ کھڑے ہیں، اپنی اپنی ڈیوٹی پر چوکس!

اصل چہرہ

$
0
0
یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ’’گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ’’مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔


انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

$
0
0
سات برس کا عثمانی گریڈ ون کا طالب علم تھا۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر، سکول کی بس میں آتا جاتا تھا۔ اُس دن اس کے ساتھ انوکھا ہی معاملہ ہوا۔ پانچ ہم عمر بچوں نے اسے پاکستانی کہا، پہلے آوازے کسے، پھر ایک نے اس کے چہرے پر مُکا رسید کیا۔ پھر دوسرے نے اُس کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کی پیٹھ کے ساتھ لگا لیے۔ دو بچے اسے ٹھوکریں مارنے لگے۔ 
بچہ دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا۔ سکول میں شکایت کی گئی۔ تفتیش شروع ہوئی۔ اس اثنا میں عثمانی فیملی نے سامان باندھا اور واپس پاکستان منتقل ہو گئی۔ امریکہ اب ان کے رہنے کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں تھا۔
اس کیس کو ہم اسلاموفوبیا کی واضح مثال قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اسے ’’ٹرمپ کا امریکہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ہم ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت کرنا بھی چاہیے۔ 
تاہم معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ سے بھی کچھ سوال کرنے ہوں گے۔ اس قبیل کے اکثر واقعات پاکستانیوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ پاکستانی نصف صدی سے امریکہ میں‘ یورپ میں، آسٹریلیا اور جاپان میں رہ رہے ہیں۔ ان تمام ملکوں نے پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں۔ شہریت دی۔ جائدادیں ان کے نام منتقل کرنے کی اجازت دی۔ اس کا کیا سبب ہے کہ کچھ برسوں سے پاکستانیوں کو دہشت گردی کے ہر معاملے میں گھسیٹا جا رہا ہے؟
ہم ایک ذہنی حصار کے اندر رہنے کے عادی ہیں۔ بیرونی دنیا کے تاثرات سے آگاہی تو ہے مگر ہم اس کی پروا نہیں کر رہے۔ ہمیں ایک بار اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ اگر ساری دنیا پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ سمجھ رہی ہے تو کیا ساری دنیا کو پاکستان سے دشمنی ہے؟ اور کیا اس کا سبب اسلام دشمنی ہے؟ اگر پاکستان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے تو پھر یہ سزا مراکش، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ترکی کے مسلمانوں کو کیوں نہیں دی جا رہی؟ کیا وہ سب مسلمان نہیں ہیں؟ 
یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کی اتنی جہتیں ہیں کہ ایک اخباری کالم میں سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف ملک کی اکثریت اخبارات ہی کا مطالعہ کرتی ہے۔ تحقیقی مضامین، بھاری بھرکم کتابیں اور مقالات سے بھرے جریدے چند افراد ہی پڑھتے ہیں‘ جبکہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہر پاکستانی کے لیے ضروری ہے۔
ایک وجہ پاکستان کی بدنامی کی‘ ہماری ناکام خارجہ پالیسی بھی ہے۔ بھارت، افغانستان اور امریکہ ہمارے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کا ہمارے پاس جواب کیوں نہیں ہے؟
معروف انگریزی روزنامے میں سول حکومت اور آرمی کے حوالے سے جو خبر چھپی، اس پر غور کیا جائے تو بہت سے عقدے وا ہوتے ہیں۔ جو تازہ ترین بیانات فوج کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا نے نشر کیے ہیں، ان میں خبر کی حقانیت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ یہ پوچھا گیا ہے کہ اتنی حساس خبر، بند کمرے میں ہونے والے اجلاس سے باہر کیسے آئی؟
اس اجلاس میں سیکرٹری خارجہ نے جس بے بسی کا اظہار کیا، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ لبِ لباب یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر (نان سٹیٹ ایکٹرز) کے بارے میں دنیا جب سوالات اُٹھاتی ہے تو پاکستانی ڈپلومیٹ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کچھ حوالوں سے پاکستان دوسرے تمام مسلمان ملکوں سے الگ ہے۔ مثلاً یہی غیر ریاستی عناصر کا معاملہ لے لیجیے۔ اس قبیل کے غیر ریاستی عناصر، جو خارجہ پالیسی میں ہمہ وقت دخیل ہوں، کسی اور مسلمان ملک میں نہیں پائے جاتے۔ عرب ملکوں کے سر پر اسرائیل کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ترکی کی یونان کے ساتھ قبرص کے معاملے میں نہ جانے کب سے کھینچا تانی چل رہی ہے۔ مگر کسی ملک نے اپنے دفاع کے لیے غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ کیا آپ نے دفاع ترکی کونسل اور دفاع سعودی عرب کونسل کے نام کبھی سنے ہیں؟ 
حکومتی پارٹی کے جس ایم این اے کی کچھ حلقے مذمت کر رہے ہیں، اس نے بھی کچھ نہیں کہا سوائے اس کے کہ جو کچھ اس پر فرانس میں گزری، اس نے وہ بیان کر دی۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور خارجہ میں رانا افضل نے بتایا کہ غیر ریاستی عناصر کی بنیاد پر بھارت نے ہمارے خلاف ایسا کیس بنایا ہے کہ غیر ملکی مندوب اسی کا ذکر کرتے ہیں۔ فرانس میں اس ایم این اے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے دہشت گرد ایسے پکڑے گئے جن کا مدارس سے براہِ راست تعلق نہ تھا۔ نہ ہی وہ غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ، کہاں پرورش پا ر ہا ہے؟ اس کی جڑ کہاں ہے؟
غیر ریاستی عناصر کے علاوہ دو دوسرے پہلوؤں سے بھی ہم بقیہ عالم اسلام سے مختلف ہیں۔ نہ صرف مختلف بلکہ انوکھے اور نرالے ہیں؎
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
ترکی، مصر، سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور دوسرے مسلمان ملکوں میں مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ خطیب اور امام حضرات سرکار کی قائم کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے خطبہ دیتے ہیں۔ اسی طرح مدارس کا جس طرح پاکستان میں جال بچھا ہے، ویسا جال کسی دوسرے قابلِ ذکر اسلامی ملک میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا شخص سب سے پہلے اپنے معاش کے لیے مسجد ڈھونڈتا ہے۔ نہیں ملتی تو نئی بنانے یا بنوانے پر کمر باندھ لیتا ہے۔ پھر ساتھ مدرسہ بنا لیتا ہے۔ کیا سعودی عرب، مصر، یو اے ای اور ترکی میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ حقیقت مضحکہ خیز نہیں کہ کوئی شخص کہیں بھی ایک مدرسہ کھول سکتا ہے؟ ان مدارس کے طلبہ کی اکثریت نہ صرف تاریخِ پاکستان نے نابلد ہے بلکہ اکثر میں قائدِ اعظم کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ ہر مکتبِ فکر کے الگ مدارس ہیں۔ دوسرے مکاتبِ فکر یا فرقوں کے بارے میں اِن مدارس کا جو رویہ ہے، اسے بیان کرنے کی یا اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہر پڑھا لکھا شخص بخوبی آگاہ ہے! طرفہ تماشا یہ ہے کہ کچھ مذہبی گروہوں پر‘ جن کے ہیڈ کوارٹر ہی پاکستان میں قائم ہیں، مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پابندی لگی ہوئی ہے! سوال یہ ہے کہ اِن گروہوں پر اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر کیا سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ ہم جو موقف اختیار کریں، ہمارا حق ہے! مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ دہشت گردی پر، غیر ریاستی عناصر پر، دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر، باقی دنیا کا موقف مختلف ہے۔ ہمارے سفارت کار، ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے طلبہ، ہمارے سکالر، جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو جو کچھ ان سے پوچھا جاتا ہے، وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے! اس بے بسی کا، اس شرمندگی کا حل تلاش کرنا ہو گا!
اور ہاں! دنیا ہم سے ایک اور سوال بھی پوچھتی ہے۔ پاکستان کے لوگ کٹڑ مذہبی ہیں۔ یہاں لاتعداد مذہبی مدارس قائم ہیں۔ مذہبی اور تبلیغی سرگرمیاں دنیا کے کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ ہمارا رویہ وہی ہے جو ایک ٹھیکیدار کا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک میں دروغ گوئی، پیمان شکنی، ملاوٹ، ماپ تول میں بددیانتی، چور بازاری، ناقص عمارتوں اور شاہراہوں کی شرح دوسرے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے! اب تو ٹیلی ویژن کو حرام قرار دینے والے اور بے شمار گھروں میں ٹی وی سیٹ تڑوانے والے، ٹیلی ویژن چینلوں پر دن رات وعظ بھی فرما رہے ہیں۔ پھر بھی معاملات میں ہم بدترین شہرت کے مالک ہیں۔ آخر کیوں؟ لازم نہیں کہ ہر سوال کا جواب دینے کے لیے حشر کا انتظار کیا جائے۔

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

$
0
0
مسجد کے بڑے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا کہ ایک بزرگ صورت صاحب نمودار ہوئے۔ یوں تو چٹے سر اور چٹی داڑھی کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا بزرگ لگتا ہوں مگر وہ جینوئن بزرگ دکھائی دے رہے تھے۔ دروازہ کھول کر کھڑا رہا تاکہ وہ پہلے گزریں۔ وہ گزرے مگر یوں جیسے میں کئی نسلوں سے ان کا خاندانی مزارع تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میری طرح ان پڑھ تھے۔ لباس سے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے۔ باہر نکل کر نوٹ کیا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ وہ پرانی تھی نہ چھوٹی!
آپ ڈرائیو کر رہے ہوں‘ راستہ تنگ ہو یا کسی دوسرے گاڑی والے نے مڑنا ہو‘ اور آپ رک جائیں تاکہ وہ پہلے گزر جائے تو وہ یوں شانِ بے نیازی سے گزرے گا‘ جیسے رکنا آپ کا فرض تھا اور اس کا حق۔ پوری مہذب دنیا میں دوسری گاڑی والا ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہاں! ایک بار ایک ٹیکسی والے نے ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے‘ جس کے گزرنے کے لیے میں نے بریک لگائی‘ شکریہ ادا کیا۔ مگر یہ شرح اس قدر برائے نام ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے!
آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم شکریہ ادا کرنے میں یا ایک مسکراہٹ بکھیرنے میں‘ جس پر کوئی خرچ بھی نہیں اٹھتا‘ اس قدر تنگ دل کیوں ہیں؟ دو افراد بات کر رہے ہوں تو ان کی گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے‘ درمیان میں کیوں کود پڑتے ہیں؟ کسی کو فون کریں تو بات کرنے سے پہلے اپنا تعارف کیوں نہیں کراتے؟ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی کو فون کریں گے اور مطلوبہ معلومات مہیا کریں گے‘ مگر اس وعدے کی کوئی اہمیت نہیں۔ دوسری بار پوچھے گا تو دیکھیں گے۔ سیڑھیوں کے پاس کھڑے دو اشخاص بغل گیر ہونے کے بعد باتیں کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اوپر جانا ہے۔ وہ راستہ بند کرکے کھڑے ہیں۔ آپ جب راستہ دینے کے لیے کہتے ہیں تو معذرت کرنے کے بجائے یوں دیکھتے ہیں جیسے آپ نے ان کی خواب گاہ کی پرائیویسی میں خلل ڈالا ہے!
آپ دکاندار سے یا کائونٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے کچھ پوچھتے ہیں‘ وہ یا تو جواب ہی نہیں دیتا یا انتہائی بددلی سے ایک نامکمل جواب دیتا ہے!
اچھی خاصی پارکنگ کی جگہ چھوڑ کر دکان کے عین سامنے گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔ اصل میں بس نہیں چلتا ورنہ گاڑی کو اندر لے جائیں اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی خریداری کریں۔
اتنی بڑی گاڑی اندھے کو بھی نظر آ جائے لیکن ہمیں نہیں نظر آئے گی۔ اس کے عین پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ واپس آئیں گے تو وہ شخص جس کی گاڑی بلاک تھی‘ کہے گا کہ آپ کو یہاں گاڑی کھڑی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم اس سے معذرت کے دو بول نہیں کہیں گے۔ ایک بدبخت گائودی کی طرح‘ ایک نیچ کی بے شرمی کے ساتھ ٹھسّے سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دیں گے۔
دیکھ رہے ہیں کہ دکاندار ایک گاہک کو اٹنڈ کرنے میں مصروف ہے‘ پھر بھی دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں بھی اتنا شعور نہیں کہ انتظار کرنے کی تلقین کرے۔ وہ دو گاہکوں کو بیک وقت اٹنڈ کرنے لگے گا۔ ایک کا کام تسلی بخش ہو گا‘ نہ دوسرے کا! اور تو اور‘ اے ٹی ایم کے کیبن میں کھڑے ہو کر ٹیلی فون پر لمبی بات کریں گے‘ یہ سوچے بغیر کہ باہر لائن لگی ہے!
ترقی یافتہ ملکوں میں یہ قاعدہ عام ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کا آپ کی توجہ پر زیادہ حق ہے بہ نسبت اس کے جو فون پر بات کرنا چاہتا ہے۔ آپ جب تک اپنی بات یا اپنا کام ختم نہیں کر لیتے‘ وہ فون نہیں سنے گا یا فون کرنے والے کو بتائے گا کہ بعد میں بات ہو گی۔ مگر ہم سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو عجیب و غریب صورت حال میں ڈالنے کے ماہر ہیں۔ فون پر لمبی غیر ضروری بات ہو رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فون اٹنڈ ہو رہا ہے۔ سامنے بیٹھا ہوا سائل یا ضرورت مند‘ یا کلائنٹ‘ اٹھ کر جا سکتا ہے نہ ہی ہماری توجہ حاصل کر پاتا ہے۔
ہماری بداخلاقی سوشل میڈیا پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ مہذب دنیا میں جب مارکیٹنگ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے ای میل کی جاتی ہے تو لامحالہ‘ ای میل کے مضمون کے آخر میں یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ اس قسم کی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کریں۔ اسے UN-Subscribe کرنا کہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں! ہر شخص اپنے مخصوص مذہبی نظریات یا سیاسی نقطہ نظر کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو ای میل ایڈریس نہ جانے کہاں سے اکٹھے کر لے گا۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے! دھڑا دھڑ ای میلیں آپ کے ان بکس میں اتریں گی۔ آپ ان ای میلوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر وہ آپشن تو دیا ہی نہیں گیا۔ پھر آپ خصوصی ای میل کرتے ہیں کہ جانِ برادر! اِس طویل فہرست سے میرا ایڈریس ازراہ کرم نکال دیجیے۔ تجربہ یہ ہے کہ صرف دس فیصد لوگ اس درخواست کو درخور اعتنا گردانیں گے! ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے چند سیاست دانوں کو دام میں لا کر ایک تھنک ٹینک قسم کی شے قائم کی ہے۔ اب ان صاحب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار کون ہو گا؟ بے شمار رپورٹیں‘ جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہیں‘ دھڑا دھڑ بھیج رہے ہیں۔ زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی ای میلیں بلاک کرنے کی گنجائش بھی کم از کم میرے آئی پیڈ پر نہیں!
ان بداخلاقیوں کے لیے ایس ایم ایس ہی کیا کم تھا کہ وٹس ایپ بھی پلے پڑا ہوا ہے۔ مذہبی روایات‘ سیاسی بحثیں‘ وڈیوز‘ سب کچھ بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ یہ تلقین بھی کہ جان کی خیر چاہتے ہو تو دس افراد کو آگے روانہ کرو۔ خوش قسمتی سے ایسے فارغ اصحاب کے ایس ایم ایس اور وٹس ایپ بلاک کیے جا سکتے ہیں!
یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ من حیث القوم ہم میں پیدائشی نقص یعنی
manufacturing Defect 
ہے۔ ہرگز نہیں! خلاّقِ عالم نے ساری صلاحیتیں‘ حواسِ ظاہری اور غیر مرئی اعضا ہماری قوم کو کمال فیاضی سے عطا کیے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر جون کیسے بدل لیتے؟ کیا آپ نے بارہا نہیں دیکھا کہ پاکستانی لندن یا نیو یارک کے ہوائی اڈوں پر کتنے خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ اپنی باری کا انتظار خوش دلی سے کرتے  ہیں۔ گفتگو آہستہ آواز میں کرتے ہیں۔ مسکرا کر تھینک یو اور پلیزکہنا نہیں بھولتے۔ سپر سٹور پر اگر گوشت ختم ہو رہا ہے تو آخری پیس دوسرے گاہک کو خریدنے کا موقع دیتے ہیں اور ساتھ مسکراہٹ بھی بکھیرتے ہیں۔ سفید فام لوگوں کی دعوت میں وقت پر پہنچتے ہیں۔ جہاں ٹیلی فون کرنا ہے‘ ضرور کرتے ہیں اور تاخیر سے گریز کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی کراچی لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں‘ کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ ایئر ہوسٹس کا لہجہ بھی کھردرا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی اعلان ہوتا ہے کہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر ہی تشریف رکھیے‘ سب یوں اٹھ پڑتے ہیں جیسے نشست پر بجلی کے کرنٹ نے ڈس لیا ہے۔ دوسروں کے سروں کے اوپر سے سامان وحشیانہ سرعت کے ساتھ اتارا جائے گا۔ تھینک یو اور پلیز کے الفاظ لغت میں جیسے کبھی تھے ہی نہیں! چہروں پر مسکراہٹ کی جگہ غیظ و غضب سے بھرے مکروہ نقوش نے لے لی ہے۔ ہر شخص کو جلدی ہے۔ بیلٹ سے سامان اتارتے وقت 
ہمارے اندر کی پاکستانیت عروج پر ہوتی ہے! پھر شاہراہیں تو ہمارے باپ دادا کی ملکیت ہیں۔ سگریٹ کی خالی ڈبیا‘ خالی ماچس‘ پھلوں کے چھلکے‘ خط نکالنے کے بعد خالی لفافہ‘ یہ ساری اشیا صرف ٹیکسیوں اور رکشوں سے باہر نہیں پھینکی جاتیں‘ شاہراہوں پر یہ احسانات بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز اور پجارو والے بھی کر رہے ہیں۔
بچّے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں‘ ان کے کورے ذہنوں پر نقش ہو جاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگیاں تو جنگلیوں کی طرح گزر گئیں‘ کم ازکم بچوں کے معاملے میں تو ہوش کے ناخن لیں۔ انہیں سکھائیں کہ شکریہ کہنا ہے۔ کسی کو زحمت دینی ہو تو پلیز یا ’’مہربانی ہو گی‘‘ کے الفاظ کہیں۔ دوسرے بات کر رہے ہوں تو درمیان میں نہ کودیں‘ بلکہ انتظار کریں۔ کھانے میں نقص نہ نکالیں۔ اگر کوئی ڈش پسند نہیں تو بے شک نہ کھائیں‘ مگر تنقید نہ کریں۔ اندھوں‘ لنگڑوں‘ بہروں کا مذاق نہ اڑائیں۔ ان کے تضحیک آمیز نام نہ رکھیں۔ اگر کوئی حال چال پوچھے تو شکریہ ادا کرکے اس کا حال احوال بھی دریافت کریں۔ مہمان سے ہاتھ ملاتے وقت اس کی طرف دیکھیں۔ دوست کے گھر کھانا کھائیں یا پارٹی اٹنڈ کریں تو اس کے ماں باپ کا شکریہ ضرور ادا کریں۔ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیں۔ فون کریں تو پہلے اپنا نام بتائیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں فلاں سے بات کر سکتا ہوں۔ ای میل یا ایس ایم ایس کے ذریعے ضروری پیغام وصول کریں تو وصولی کی اطلاع دیں ’’او کے۔ شکریہ‘‘ لکھ کر بھیجنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کسی کے گھر جا کر کوئی دستاویز یا خط یا پیغام دیتے وقت وصول کرنے والے کا نام ضرور پوچھیں۔ مذاق کرتے وقت کسی کی عزت نفس نہ مجروح ہونے دیں۔ چلتے وقت کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کریں۔ لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں۔ تھوکنے سے گریز کریں۔ کھانستے وقت یا جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں۔
خدا کرے ہماری آئندہ نسل صرف آدمی نہ ہو‘ انسان بھی ہو!

مراد علی شاہ صاحب! ڈٹ جائیے

$
0
0
بلیک میلنگ کا پہلا تحریری تذکرہ 1530ء کے کاغذات میں ملتا ہے۔ آدم سکاٹ‘ ایک غنڈہ تھا جو بلیک میل کر کے لوگوں کو لوٹتا تھا۔ اُسے موت کی سزا دی گئی۔ 
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بلیک میلنگ کا مطلب محض یہ تھا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے نقد روپیہ یا اشیا بٹوری جائیں۔ بلیک میل کے لفظ میں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’’میل‘‘ کا مطلب ڈاک ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ سولہویں صدی کی انگریزی میں یہ لفظ
 MAILL  
تھا۔ یعنی ایل کا لفظ حرف دو بار لکھا جاتا تھا۔ اس میل کا مطلب خطوط یا ڈاک نہیں تھا۔ اس کا مطلب کرایہ تھا یا ٹیکس۔ ہم اسے جگا ٹیکس بھی کہہ سکتے ہیں جو غنڈے وصول کرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے بارڈر پر رہنے والے انگلینڈ کے کسان سکاٹ لینڈ کے ظالم جاگیرداروں کو نقد رقم دیتے تھے یا مویشی اور غلہ۔ ایک دوسری روایت میں انگلینڈ کے زمیندار‘ سکاٹ لینڈ کے کسانوں سے یہ سب کچھ بٹورتے تھے۔
یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ آج کی بلیک میلنگ کا مقصد ضروری نہیں‘ دھمکی دے کر رقم بٹورنا ہو‘ اس سے مراد اپنی بات منوانا بھی ہے۔ مشہور تفریحی ڈرامے ’’تاقے کی آئے گی برات‘‘ میں بشریٰ انصاری ایک نٹ کھٹ شوخ چنچل بیگم کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ڈرامے میں ان کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ وہ سب سے اوپر والی چھت پر جا کر پلنگ پر چڑھ جاتی ہیں اور دھمکی دیتی ہیں کہ اگر میاں نے دوسری بیوی کو فوراً طلاق نہ دی تو وہ چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گی۔ دوسرے لفظوں میں آج کی بلیک میلنگ کا مطلب ہے دوسرے پر کنٹرول حاصل کرنا! اس کی مثال ہماری موجودہ سیاست میں ان دنوں نمایاں ہے۔ جب کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ آتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ غوغا برپا کر کے سیاست دان اپنے ناقدوں پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔
مگر ایک طبقہ پاکستان میں ایسا بھی ہے جو بلیک میلنگ کے مقابلے میں ہر بار اول آتا ہے۔ اگر آپ کا ذہن ڈاکٹروں کی طرف جا رہا ہے تو ایک بار پھر آپ غلطی پر ہیں۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر اپنے کسی بھی ساتھی کی حمایت میں ہڑتال کر کے مطالبات منوا لیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہیں تو سرکاری ملازم! اس لیے ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ورنہ حکومت انہیں ملازمت سے برطرف کر کے بیروزگار ڈاکٹروں کو رکھ لے گی۔ جس زمانے میں ہمارے شہروں میں فلش سسٹم نہیں شروع ہوا تھا‘ بھنگی کمیونٹی بہت کامیابی سے بلیک میلنگ کرتی تھی اور دو دن میں سب کا دماغ درست کر کے رکھ دیتی تھی۔
پاکستان میں کامیاب ترین اور بیک وقت مکروہ ترین بلیک میلنگ تاجر برادری کرتی ہے۔ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت آج تک اس بلیک میلنگ کا توڑ نہیں کر سکی۔ تاجر دو بنیادی مسئلوں پر ڈنکے کی چوٹ پر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ اول اُس وقت جب ان سے کہا جائے کہ ٹیکس پورا ادا کرو۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور دیوانہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تاجروں کی اکثریت ٹیکس دیانت داری سے ادا نہیں کرتی اور یہی وہ کمیونٹی ہے جو ٹیکس کے اہلکاروں کو کرپشن کا راستہ دکھاتی ہے۔ مگر جب کبھی حکومت سختی سے محاسبہ کرتی ہے تو تاجر برادری ہڑتال کی دھمکیاں دے کر بلیک میلنگ کرتی ہے۔ اس وقت ان لوگوں کو اچانک یاد آتا ہے کہ ٹیکس کی رقم کا استعمال درست طور پر نہیں ہو رہا۔ حالانکہ یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ بجا کہ ٹیکس کی ساری رقم ہماری حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں خرچ کرتیں اور اللّے تللّے ضائع کر دیتی ہیں مگر اس کا حل یہ نہیں کے ٹیکس نہ دیا جائے۔ اس کا حل حکومت کا محاسبہ اور الیکشن میں اہل امیدواروں کا انتخاب ہے۔ دوم‘ ایک عرصہ سے حکومتیں کاوش کر رہی ہیں کہ تاجر برادری بزنس کے اوقات میں اعتدال لائے اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح سرشام دکانیں بند کر دے‘ مگر یہاں پھر بلیک میلنگ پر کمر باندھ لی جاتی ہے اور خوئے بد را بہانہ بسیار کے مطابق سو طرح کے عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر ہٹ دھرمی سے کام لے کر صاف انکار کیا جاتا ہے اور پوری تاجر برادری خم ٹھونک کر ریاست کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اپریل 2010ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کوشش کی کہ دکانیں شام آٹھ بجے بند ہو جائیں مگر یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔ 2015ء کے اپریل میں موجودہ حکومت نے ایک بار پھر کوشش کی کہ شادی کی تقریبات رات دس بجے تک اختتام کو پہنچ جائیں‘ ریستوران رات کو گیارہ بجے اور عام دکانیں آٹھ بجے تک بزنس کریں۔ اس پر وہ بلیک میلنگ کی گئی کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وجہ فوراً ہتھیار ڈالنے کی یہ بھی تھی کہ وفاق اور پنجاب میں خود تاجر برادری کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے شوکت عزیز کی حکومت تھی تو بینک اور بینکار کھُل کھیلتے رہے۔ صرف عوام ہی وہ بدقسمت ’’طبقہ‘‘ ہے جس کی طرف داری کرنے والا کوئی نہیں!
اب کے سندھ کے جواں مرد وزیراعلیٰ نے پھر عزم کیا ہے کہ اس خودسر‘ اتھرے‘ اونٹ کو نکیل ڈالی جائے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بازار سات بجے تک اور شادی ہال دس بجے تک کاروبار بند کر دیں۔
حسب توقع تاجر برادری نے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی گردان شروع کر دی ہے۔ کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔ سب سے بڑی دلیل وہی گھسی پٹی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تاجر برادری کو ’’آن بورڈ‘‘ نہیں لیا گیا‘ ظاہر ہے آن بورڈ لینے یا نہ 
لینے سے فرق نہیں پڑتا۔ تاجر برادری اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ دلائل اس کے اتنے بودے‘ ضعیف اور مضحکہ خیز ہیں کہ ایک بچہ بھی انہیں رد کر سکتا ہے۔ دلائل کیا ہیں؟ یہ کہ یورپ میں تو غروب آفتاب کے بعد شدید سرما کی وجہ سے کاروبار ہو ہی نہیں سکتا جبکہ یہاں موسم گرم ہے اور لوگ ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا پسند کرتے ہیں۔ عتیق میر صاحب یقیناً کئی بار سمندر پار گئے ہوں گے۔ انہیں چاہیے کہ ایک بار پھر ہیوسٹن‘ امریکہ کی جنوبی ریاستوں‘ آسٹریلیا کے شہروں‘ سنگاپور‘ ہانگ کانگ اور دوسرے ایشیائی ملکوں میں جا کر گرما کا موسم گزاریں۔ پرتھ‘ ایڈی لیڈ‘ برسبن‘ میلبورن اور سڈنی میں بے تحاشا گرمی پڑتی ہے۔ یہی حال امریکہ میں جنوبی ریاستوں کا ہے۔ مگر ان سب مقامات پر گرمیوں میں بھی کاروبار سرشام بند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سرد موسم کی دلیل بودی اور بے بضاعت ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستانی ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا چاہتے ہیں تو میرؔ صاحب بتائیں کہ دکانیں صبح نو بجے کیوں نہیں کھُل سکتیں؟ کیا اس وقت موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ تاجر حضرات دن کو بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ کیا اُس وقت برفباری ہو رہی ہوتی ہے؟
تاجروں نے یہ بھی کہا ہے کہ دکانیں جلد بند کرانے سے پہلے کچرے اور سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کرائی جائے۔ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ! اگر یہ کوئی دلیل ہے تو پھر تاجر حضرات بھی حکومت سے اپنی بات منوانے سے پہلے اُن چھ برائیوں کا خاتمہ کریں جن میں یہ برادری کمر تک نہیں‘ گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ عتیق میر صاحب اور ان کے ہمنوا کیا انکار کر سکتے ہیں کہ اوّل: تاجروں کی اکثریت ملاوٹ جیسے گھنائونے جرم میں ملوث ہے۔ خوردنی تیل سے لے کر مرچوں‘ آٹے‘ گھی‘ دودھ اور خوراک کے اکثر آئٹموں میں مکروہ اور ناقابل تردید ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ دوائوں اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے وقت بھی ان صاحبان کو خوف خدا نہیں آتا۔ ملاوٹ کے اعتبار سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہے۔ دوم: تاجروں کی اکثریت ٹیکس چور ہے۔ دُہرے رجسٹر رکھتے ہیں۔ گاہکوں کو رسید نہیں دیتے۔ سوم : 
Refund
 پالیسی کا کوئی وجود نہیں۔ یہ جو دکانوں میں ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘‘ کے بورڈ گاہکوں کا اور قانون کا منہ چڑا رہے ہیں تو یہ دھاندلی‘ یہ سینہ زوری اور یہ بدتمیزی دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں پائی جاتی۔ شے واپس یا تبدیل کرنا گاہک کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ پیکنگ خراب نہ ہوئی ہو اور رسید دکھائی جائے۔ چہارم: تاجروں کی اکثریت وعدہ خلافی کا کھلم کھلا ارتکاب کرتی ہے۔ شادی کے ملبوسات اور جہیز کا سامان خریدنے کے لیے ان کے پاس خواتیں آتی ہیں۔ مقررہ تاریخ پر شاذ و نادر ہی کام مکمل ملتا ہے۔ ان خواتین کو بے رحمی سے پھیرے پہ پھیرا ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نوے فیصد تاجر تاریخ طے کر کے وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجم: پورے ملک میں تاجروں کی اکثریت ناجائز تجاوزات کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ گھنائونا جرم شرعی‘ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے بدترین فعل ہے۔ شاہراہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ فٹ پاتھ ہڑپ کئے ہوئے ہیں۔ برآمدوں کو دکانوں کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ دکانوں کے سامنے ٹھیکے والوں اور سٹال لگانے والوں کو بٹھا کر رشوت وصول کی جاتی ہے۔ اس سے آمدنیاں مشکوک ہو رہی ہیں۔ یہ ایسا ظلم ہے جس سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو اور انکار کر سکے! ششم: سب سے بڑا ظلم تاجر برادری یہ کر رہی ہے کہ مذہب کو تجارت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ چندہ وصول کرنے والے مذہبی عناصر ان کے ساتھ ہیں۔ حج‘ عمرے‘ نمازیں‘ دیگیں‘ خیرات‘ ان پانچ جرائم کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ دکانوں اور کمپنیوں کے نام رکھتے وقت عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے۔
تاجر برادری کو توانائی کے مسئلے پر ملک سے کوئی ہمدردی نہیں۔ دوپہر کے بعد کاروبار شروع کرنے اور آدھی رات کے وقت بند کرنے پر یہ برادری تلی ہوئی ہے۔
مراد علی شاہ صاحب! اس وطن دشمن رویے کیخلاف ڈٹ جائیے! میڈیا آپ کیساتھ ہے! عوام آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں۔

اصل سبب! اللہ کے بندو! اصل سبب

$
0
0

یہ ایک وسیع و عریض علاقہ تھا اور قبیلے کا سردار اس علاقے کا بلاشرکت غیرے حکمران تھا۔ اس حکمرانی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ رعایا کو یا سردار کے ماتحتوں میں سے کسی کو مسئلہ درپیش ہوتا تو اُسے یہ نہ معلوم ہو پاتا کہ کس کے پاس جانا ہے۔ بس کسی نہ کسی طرح سردار تک رسائی حاصل کرنا ہوتی۔ سردار مسئلہ سنتا اور کسی کو حکم دیتا کہ مسئلہ حل کرے۔ وہ کسی کو بھی یہ حکم دے سکتا تھا۔ عام طور پر جو بھی اُس وقت پاس ہوتا‘ اسے ہی یہ ذمہ داری سونپ دیتا۔ وہ شخص‘ جو کام پہلے سے کر رہا ہوتا‘ اسے چھوڑ دیتا‘ نئے سائل کو پکڑ کر دربار سے نکلتا اور اپنی دانست میں مسئلہ حل کرتا۔ حل کرتا یا خراب تر کرتا‘ یہ اُس کی ذہانت پر اور سائل کے بخت پر منحصر ہوتا۔
اردگرد کے علاقوں پر جو نواب حکمران تھے‘ ان میں سے بعض کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے اور اکثر کے ساتھ کشیدہ۔ ایک صبح شمالی سرحد کے پار حکمرانی کرنے والے نواب کا پیغام آیا کہ وہ ملاقات کے لیے اپنے عمائدین کے ہمراہ آنا چاہتا ہے۔ اُس وقت سردار کا منجھلا بیٹا اُس کے ساتھ بیٹھا گوسفند کے گوشت اور اونٹنی کے دودھ کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا۔ سردار نے نواب کے استقبال کی ذمہ داری اُسے ہی سونپ دی۔ عشائیے میں سردار نے جو تقریر کرنا تھی‘ وہ بھی منجھلے بیٹے ہی نے لکھنی یا لکھوانی تھی۔چھ ماہ بعد جنوبی سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ سردار نے اپنے بھتیجے کو طلب کیا‘ یہ ایک پچیس سالہ اتھرا نوجوان تھا۔ اسے مذاکرات کے لیے بھیج دیا۔
سردار کی بیگم نے خریداری کے لیے بڑے شہر میں جانا تھا۔ اس کے سفر کی تیاری اور پروٹوکول کے لیے ایک خدمت گار کو مامور کیا جو اصل میں حقہ بھرنے کا ماہر تھا۔ کچھ دنوں بعد سردار کی بڑی بہن نے اُسی شہر کا دورہ اور شاپنگ کرنا تھی۔ اب کے پروٹوکول کی ڈیوٹی سر پر مالش کرنے والے نائی کی لگی۔ وہ بہت تیز تھا اور اپنے آپ کو ہیئر ڈریسر کہلواتا تھا۔ اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں نصب العین یہ رکھا کہ سردار کی بہن کا دورہ‘ سردار کی بیگم کے دورے سے زیادہ کامیاب اور ہنگامہ خیز ہو۔ خریداری کاوقت آیا تو اس نے کاریگروں اور اچھی شہرت رکھنے والے ملبوسات سازوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیا۔ واپسی پر حرم سرا میں سرد جنگ شروع ہو گئی۔ سردار کی بہن نے خریداری کی بھرپور نمائش کی۔ اس کے مقابلے میں بیگم صاحبہ کی خریداری ماند پڑ گئی۔ کشمکش حرم سے نکل کر دربار میں پہنچی اور پھر پورا قبیلہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ بیگم کا تعلق قبیلے کی جس شاخ سے تھا وہ سردار سے ناراض ہو گئی۔ یوں سازش کی بنیاد پڑی۔
علاقے کے جنوب میں شاہراہ کی تعمیر اُس درباری کے سپرد کر دی گئی جس کی ڈیوٹی ہسپتالوں کی تعمیر تھی۔ قبیلے کے صدر مقام میں ریل کی پٹڑی بچھانے کا وقت آیا تو سردار نے سوتیلے بھائی کو اس کا انچارج لگا دیا۔ دوسرے علاقوں کے گورنر بھائی کے مخالف ہو گئے۔ ان کے پروپیگنڈے کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ صدر مقام پر سارے علاقوں کا حق ہے۔ اسے اپنے بھائی کے سپرد کرنا ناانصافی اور برادر نوازی ہے۔
کچھ نوجوان جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تھے‘ اس صورتحال کے انجام سے لرزہ براندام تھے۔ انہوں نے باہر رہ کر دیکھا اور پڑھا تھا کہ نظام علاقے کا ہو یا پورے ملک کا‘ یارا جواڑے کا یا جاگیر کا‘ تقسیم کار کے بغیر نہیں چلتا۔ ہر شعبے کے ماہرین الگ ہوتے ہیں‘ ان نوجوانوں نے کوشش کی کہ کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ کوئی رولز آف بزنس بنیں اور سردار اس کے مطابق سرداری کرے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ سردار ان کی بات ضرور سنتا‘ وعدہ کرتا۔ شکریہ ادا کرتا‘ حوصلہ افزائی بھی کرتا مگر دوسرے دن وہی افراتفری ازسر نو شروع ہو جاتی۔ ایک ایک شعبے کو کئی کئی افراد سنبھالنے لگتے۔ پھر غلط فہمیاں دور دور تک مار کرنے لگیں۔ سردار کو علم ہی نہ ہوا اور خبریں پھیلانے والے متعدد ادارے اور افراد ایک ایک خبر کو کئی رنگ دے کر گردش کرانے لگے۔ کچھ باتیں اس بدانتظامی کے طفیل لشکر کے سپہ سالار کو پہنچیں اور وہ بھی بدظن ہو گیا۔یہ ہے اصل سبب اُس ہڑبونگ کا 
جو معروف انگریزی روزنامے میں ایک خبر شائع ہونے سے ایک افق سے دوسرے افق تک چھا گئی ہے یہ کوئی سازش ہے نہ کوئی منصوبہ بندی۔ جو لوگ حکومت کے ساتھ ہیں اور وزیراعظم کے اردگرد ہیں وہ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ وہ بہت ذہین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ’’دیوانہ بکار خویش‘‘ ہشیار ہے‘ یہ سب وہ گروہ اور وہ افراد ہیں جو اس حکومت کے 
BENEFICIARIES
 ہیں۔ فائدے اٹھانے والے ہیں‘ مستفید ہیں! انہیں کیا پڑی ہے کہ حکومت اور میر سپاہ کے درمیان غلط فہمی پھیلا کر اُس دریا کا رُخ موڑیں جو ان کے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے؟ کسی نے یہ خبر بدنیتی یا سازش کے ارادے سے نہیں لیک کی۔ اصل وجہ وہ قبائلی طرز حکومت ہے جو میاں صاحب کے خمیر میں ہے اور جس سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ 
اللہ کے بندو! غور کرو! کیا تمہیں کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی ضابطہ دکھائی دے رہا ہے۔ رولز آف بزنس جو نظم و نسق کی بنیاد ہوتے ہیں‘ پارہ پارہ کر دئیے گئے ہیں۔ تقسیم کار‘ڈویژن آف ورکس‘ کا وجود ہی نہیں۔ حکومت کا کوئی شعبہ ‘جی ہاں‘ کوئی شعبہ‘ اٹھا کر دیکھ لو۔

OVERLAPPING
 یعنی تداخل کا بدترین نمونہ ہیِ‘ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک مرد کی کئی بیویاں ہوں تو اسے پولی گیمی
 POLYGAMY
 کہتے ہیں۔ یعنی کثرت ازدواج‘ تو جو نہیں جانتے وہ یہ بھی جان لیں کہ جب بیوی ایک ہو اور اس کے شوہر ایک سے زیادہ ہوں تو اسے 
POLYANDRY
 کہتے ہیں۔ معلوم نہیں اردو میں اس کے لیے کوئی لفظ مینوفیکچر ہوا ہے یا نہیں‘ بہرطور فارسی میں اسے ’’چند شوہری‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا رواج آج بھی نیپال‘ تبت اور جنوبی بھارت کے بعض قبائل میں موجود ہے۔ ہمارے یہاں حکومت اسی چند شوہری یعنی پولی اینڈری کے سسٹم پر چل رہی ہے۔ یعنی    ؎
بزمِ ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدستِ دگرے‘ دست بدستِ دگرے
کسی کا ہاتھ کسی کے پائوں پر ہے اور کسی کا پائوں کسی کے ہاتھ میں! وزارت اطلاعات کو لے لیجئے۔ کچھ محکموں کے سرکاری ملازم الگ یہ کام کر رہے ہیں۔ شہزادی کا میڈیا گروپ الگ مشہور ہے۔ وزارت اطلاعات کا تنظیمی ڈھانچہ تتر بتر ہے۔ پرنسپل انفارمیشن افسر کہاں ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ سی پیک جو وزارت کمیونی کیشن کے پاس ہونا چاہیے تھا‘ منصوبہ بندی ڈویژن کے تھیلے میں ہے۔ قطر سے گیس لانی ہے تو ایک صوبائی وزیراعلیٰ یہ کام کر رہا ہے۔ دارالحکومت میں میٹرو چلانی ہے تو دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ عضو معطل ہے اور فیصلہ سازی ایک صوبے کے پاس ہے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بیک وقت وزیر خارجہ ہے اور ہر اُس اجلاس میں دکھائی دیتا ہے جہاں باقی وزرائے اعلیٰ نہیں بلائے جاتے جبکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا نمونہ بنے ہیں۔ وزارت خارجہ پر مشیر مسلط ہیں جبکہ وزیر خارجہ ایک بھی نہیں۔ ہر وفاقی وزیر ہر اُس شعبے کے بارے میں بیانات دے رہا ہے جو اُس کے دائرہ اختیار میں موجود ہی نہیں۔ یعنی پطرس بخاری کے بقول سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا ہے سوائے گھنٹی کے۔ بے شمار اہم فیصلوں کی پارلیمنٹ کو ہوا ہی نہیں لگتی۔ کابینہ کے اجلاس کی باقاعدگی سے ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ لگائیے‘ قبائلی نظام کا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں تشریف لائیں یا کابینہ کا اجلاس بلائیں تو یہ ایک باقاعدہ خبر ہوتی ہے جو شہ سرخیوں کے ساتھ چھپتی ہے۔ ابھی اپریل میں میڈیا میں بھونچال آ گیا کہ وزیراعظم نے سات ماہ کے بعد کابینہ کا اجلاس بلا لیا ہے گویا    ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
وزیر داخلہ ایوان میں خارجہ پالیسی پر بولتے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون‘ وفاقی معاملات پر طبع آزمائی فرماتے ہیں۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ایک وفاقی وزیر بھرے اجلاس میں فریاد کرتے ہیں کہ فلاں جانب سے ان کی وزارت میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ ان کی بہادری تھی ورنہ مداخلت سے کون سی وزارت بچی تھی؟ یا بچی ہے؟ ایک وزیر نے تاریخ کا شعبہ بھی سنبھال لیا ہے۔ پرسوں ہی قوم کو سبق یاد کرایا ہے کہ وزیراعظم نے قائداعظمؒ ثانی کا کردار بار بار دہرایا ہے۔ تعجب ہے کہ اصل قائداعظمؒ نے قائداعظمؒ اوّل کا کردار ایک ہی بار ادا کیا۔ یعنی پاکستان بنوایا! تاریخ کے اگلے سبق میں قائداعظم ثالث اور قائداعظم رابع پر بھی نئے باب باندھے جا سکتے ہیں۔ 
صوبے پر نظر ڈالیں تو یہ عہدے پُر کرنا چنداں مشکل نہیں! فاطمہ جناح ثانی بھی موجود ہیں!
یہ ایک قبائلی نظام ہے۔ بھرپور‘ پورا پورا قبائلی نظام حکومت! خبر کا لیک ہونا سازش نہیں! اللہ کے بندو! سازش کے لیے ذہانت درکار ہے! یہ تو بدانتظامی اور نااہلی کا شاخسانہ تھا۔ قبیلے کے سردار نے ایک ایک کام اتنے افراد کو سونپا ہوا ہے کہ اب اسے خود بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ کون سی غلطی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے!!!

لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا

$
0
0
سب سو رہے تھے۔
کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے۔ سب لحافوں میں دبکے تھے۔ برف ہوا کے دوش پر اُڑتی ہوئی آئی اور گرنے لگی۔ بڑے بڑے سفید گالوں کی صورت! شاہراہیں برف سے ڈھک گئیں۔ چھتیں سفید ہو گئیں۔ جنگلے چھپ گئے۔ سوراخ بھر گئے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو گئیں۔ سات انچ برف پڑی! پھر یوں ہوا کہ تیز ہوا چلی اور برف بنانے اور برسانے والے بادل اُڑتے اُڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ صبحدم لوگ بیدار ہوئے تو خلافِ معمول ہر طرف بکھری سفیدی نظروں سے ٹکرائی۔ آنکھیں حیران ہو گئیں۔ پھر بچے سکولوں کو روانہ ہوئے‘ برف کے گولوں سے کھیلتے، گھٹنوں تک دھنستے اور درختوں کی ٹہنیوں کو تعجب سے دیکھتے، جو کیسی کیسی شکلوں میں نظر آرہی تھیں!
رابرٹ برجز (Bridges) کی یہ نظم انگریزی شاعری کے اکثر مجموعوں میں ملتی ہے۔ یہ بھائی صاحب ڈاکٹر تھے مگر آخری عمر میں ادب پر توجہ دی اور شاعری میں نام پیدا کیا۔ یہ نظم جیسے انہوں نے ہمارے لیے ہی لکھی تھی! اٹھارہ اکتوبر کو قوم غفلت کی نیند سو رہی تھی۔ سب کھیل کود میں، لہو و لعب میں، موج میلے میں لگے تھے مگر وہ جن کے دل میں قوم کا درد تھا، جمہوریت کی بساط بچھا رہے تھے۔ انیس کی صبح لوگ اُٹھے تو جمہوریت ہر طرف برف کی طرح سفید نور بن کر چھائی ہوئی تھی۔ سوراخ بھر گئے تھے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو چکی تھیں۔ درختوں کی شاخوں پر جمہوریت عجیب و غریب، مختلف شکلوں میں لٹکی تھی۔ آنکھیں جمہوریت کے نور سے چندھیا رہی تھیں۔ خیرہ ہو رہی تھیں۔ آئندہ نسل گھٹنوں گھٹنوں جمہوریت میں دھنسی ابھی سے نظر آرہی تھی۔
شام کی سیاسی جماعت ’’عرب سوشلسٹ بعث پارٹی‘‘ تھی۔ صدر حافظ الاسد تیس سال تک بلا مقابلہ اس کے صدر منتخب ہوتے رہے۔ کوئی نہ کوئی عبدالقادر بلوچ ’’مقابلے‘‘ میں اُٹھتا مگر معلوم ہوتا کہ وہ تو پارٹی آئین کی شق نمبر120 کے تحت مقابلے کا اہل ہی نہیں‘ کیونکہ مرکزی کونسل کی رکنیت اس کے پاس نہیں! تیس سال کے بعد حافظ صاحب یعنی حافظ الاسد بدقسمتی سے جمہوریت کو روتا بلکتا‘ چیخیں مارتا، سینہ کوبی کرتا، سر پیٹتا چھوڑ کر حساب کتاب دینے قبر میں جا لیٹے۔ گزشتہ سولہ سال سے ان کے فرزند ارجمند پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہو رہے ہیں۔
ترکمانستان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ہے۔ 1999ء میں پارٹی نے صدر نیازوف کو تاحیات صدر مقرر کر دیا۔ ملک کی بدقسمتی کہ 2006ء میں آپ داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے جانشین بھی تاحیات ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
اب قزاقستان کی سنیے۔ وہاں کی برسرِ اقتدار پارٹی نور وطن کہلاتی ہے۔ 1991ء سے لے کر اب تک صدر نور سلطان نذر بایوف اس کے سربراہ چلے آرہے ہیں۔ سربراہی کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ وہ ملک کے بھی صدر ہیں۔ انتخابات باقاعدہ ہوتے ہیں۔ پارٹی میں بھی اور ملک میں بھی مگر اٹھانوے فیصد ووٹ صدر ہی کو ملتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب مقابلے کے لیے اُٹھے۔ یہ ہمارے عبدالقادر بلوچ صاحب کی طرح نہیں اُٹھے تھے بلکہ واقعتاً مقابلہ کرنا چاہتے تھے مگر نااہل ٹھہرائے گئے۔ انہوں نے ایک ’’غیر آئینی‘‘ اجلاس میں شرکت کی تھی اس اجلاس کا نام تھا ’’تحریک برائے آزاد انتخابات‘‘!
مصر میں جب تک صدر ناصر برسرِ اقتدار رہے، سنگل پارٹی سسٹم رہا۔ پھر صدر انور السادات تخت نشین ہوئے۔ آپ جمہوریت کے سچے عاشق تھے۔ آپ نے عرب سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا کر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی اور دوسری پارٹیوں کو بھی سیاست کرنے کی ’’اجازت‘‘ مرحمت فرمائی۔ سارے محبِ وطن افراد راتوں رات سوشلسٹ سے ڈیموکریٹک ہو گئے اور صدر کی بنائی ہوئی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انور السادات جمہوریت کی شہزادی کو جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قتل ہو گئے۔ ان کے جانشین حسنی مبارک نے انور السادات کے اس معروف قول کو ہمیشہ اپنا رہبر و رہنما بنایا کہ ’’عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کے بھی اپنے دانت ہوتے ہیں‘‘۔ حسنی مبارک تیس سال تک پارٹی کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے رہے یہاں تک کہ 2011ء میں گردشِ زمانہ الٹ چل پڑی۔ حسنی مبارک اور ان کے خاندان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
الحمدللہ! ثُمَّ الحمدللہ! ہم جمہوریت کے حوالے سے مصر‘ شام‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور قزاقستان جیسے ملکوں کی صف میں شامل ہیں۔ ’’اندر‘‘ ہونے والے انتخابات کو ’’انٹرا پارٹی‘‘ الیکشن کہا جاتا ہے۔ یہ باہر کے انتخابات کی طرح نہیں ہوتے بلکہ اصل ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ایک بار پھر بلا مقابلہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ نائب صدر بھی سارے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بھی پنجاب مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ پارٹی موجودہ صدر کی صدارت سے صرف اُس زمانے میں محروم رہی جب وہ جدہ اور لندن میں مقیم تھے!
علم کی ایک شاخ وہ بھی ہے جو ٹرکوں بسوں اور رکشوں کے پیچھے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ایک بار ایک رکشے کے پیچھے کمال کا فقرہ نظر پڑا: ’’نیز انجن اِدھر بھی نیا ہے‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ نیز چوہدری پرویز الٰہی بھی اپنی پارٹی کے صدر بلا مقابلہ ہی منتخب ہو گئے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا تذکرہ دس اکتوبر کے روزنامہ دنیا میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
برطانیہ، امریکہ، فرانس، سنگاپور، کینیڈا اور کئی دوسرے ممالک جمہوریت کے حوالے سے کئی نوری سال پیچھے ہیں۔ اعتماد کا اس قدر ان ملکوں میں فقدان ہے کہ ایک سیاستدان پارٹی کا لیڈر بن جائے تو پارٹی اراکین اسے کچھ عرصہ بعد پارٹی کی سربراہی سے فارغ کر دیتے ہیں۔ اس کے خاندان یا اس کی اولاد کو اس کا جانشین بنانے کا تو یہ ناپختہ اذہان سوچ بھی نہیں سکتے۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی مثال لے لیجئے۔ مارگریٹ تھیچر 1975ء میں پارٹی کی قائد بنیں۔ پندرہ سال پارٹی کی خدمت کی‘ مگر احسان فراموش قوم نے 1990ء میں جان میجر کو پارٹی کی قیادت سونپ دی۔ ابھی چند دن پہلے تک ڈیوڈ کیمرون پارٹی کے لیڈر تھے۔ اِس جولائی میں انہیں قیادت سے فارغ کر دیا گیا۔ اپنا سامان خود پیک کرتے پائے گئے۔ چند دن پہلے ایک دکان کے سامنے، سڑک کے کنارے، چبوترے پر بیٹھے، بیوی کے ساتھ آئس کریم کھا رہے تھے۔ اب تھریسا مے نے پارٹی کی سربراہی سنبھال لی ہے۔ یہ اقوام، ذہنی پختگی میں ہماری سطح پر کب پہنچیں گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جس سطح پر ہم ہیں، اس تک پہنچنا ہر قوم کے بس کی بات نہیں۔ ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
اصل میں جمہوریت لمبا قد مانگتی ہے۔ اِن مغربی ملکوں کی قامتیں پست ہیں۔ یہ ہماری طرح طویل قامت نہیں۔ کان لگا کر سنیے۔ مُغنی، مطرب پر کیا گا رہا ہے ع
لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا
چوڑیاں بیچنے والی کا قد چھوٹا ہے اور پراندہ اس حرافہ نے بالوں میں لمبا باندھ رکھا ہے۔ اب برادرم رؤف کلاسرا کہیں گے کہ یہ تو سرائیکی کا لوگ گیت ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ یہ تو ہمارے ہاں فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ اٹک اور تلہ گنگ میں بھی گایا جاتا ہے۔ میانوالی کی زبان بھی تقریباً ملتی جلتی ہے مگر میانوالی والوں نے کالی قمیض کے ساتھ ساتھ سرائیکی ہونا بھی قبول کر لیا ہے۔ کسی نے ایک صاحب سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے جواب دیا عبدالرؤووووف! اب اس نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ جواب ملا، نام تو میرا بھی یہی ہے مگر اس قدر لمبا نہیں! زبان تو ہماری بھی میانوالی سے ملتی جلتی ہے مگر ہمیں کیا پڑی ہے کہ تخت لاہور کو چھوڑ کر تختِ ملتان کی نوکری اختیار کر لیں۔ نوکری ہی کرنی ہے تو تختِ لاہور کیا بُرا ہے! کم از کم یہاں پارٹی کے ’’اندر‘‘ انتخابات تو خالص جمہوری روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔

Viewing all 1924 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>