Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1918 articles
Browse latest View live

جی ڈی پی کا کیپسول

$
0
0

نہ جانے حسنِ اتفاق تھا کہ سوئِ اتفاق‘ اس سال بھی بجٹ آیا تو میں گائوں میں 
تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ چاچا گاما ملا۔ اب وہ ہے تو میری ہی عمر کا مگر سارا گائوں اسے چاچا گاما کہتا ہے تو میں اور میرے ہم عمر بھی یہی کہتے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا‘ ٹی وی پر بجٹ پڑھا جا رہا ہے اور تم یہاں گائوںمیں نمازیں پڑھتے پھر رہے ہو۔ کیا تم نے ٹی وی چینلوں پر بجٹ کی تعریفیں نہیں کرنا تھیں؟ چاچے گامے کی یہ پرانی خصلت ہے۔ بات بات پر طنز‘ بات بات پر چوٹ۔ اب مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے کیا بتاتا کہ بجٹ کی تعریفیں کرنے والے کون ہیں۔ اگر اسے بتاتا کہ تعریفیں کرنے والے اپنے خریدے ہوئے ملبوس نہیں پہنتے۔ خلعتِ شاہی زیب تن کرتے ہیں اور بیرونی دوروں پر ہم رکابی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس نے طنز کا کوئی نیاتیز چھوڑ دینا تھا۔ کہنے لگا‘ ساری باتیں یہاں نہیں ہو سکتیں‘ صبح ناشتہ ہمارے گھر آ کر کرو تمہاری چاچی بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔
چاچے گامے اور چاچی کے ساتھ ناشتہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر ان کا ایک عدد بھتیجا جو ان کے ساتھ رہتا ہے‘ قطعاً پسند نہیں۔ ایسی ایسی باتیں کرتا ہے ‘گویا گامے کا نہیں افلاطون کا بھتیجا ہے۔ پچھلے سال بجٹ پر اس نے اتنی بحث کی اور میری باتوں پر ایسے کمنٹ کئے کہ میں لاجواب ہونے کے ساتھ شرمندہ بھی ہوا۔تاہم چاچے گامے کی دعوت قبول کر لی اس لیے کہ چاچی سے تو ملنا ہی تھا۔
صبح پہنچا تو چاچی نے پراٹھے پکا رکھے تھے۔ ساتھ میٹھی لسی اور مکھن! میں نے تعریف کی تو چاچے کا بھتیجا فوراً بولا ’’ہمارے ہاں ٹوسٹر تو ہے نہیں کہ آپ کے لیے پتلے اور سمارٹ ٹوسٹ میں اس سینکتے۔ پھر آپ چھری کے ساتھ ان پر مکھن لگاتے‘ بالکل اسی طرح جس طرح آپ صحافی حضرات مکھن لگانے کے ماہر ہیں اور پھر ہمارے گھر میں کافی بھی نہیں۔جس کی آپ صبح صبح چسکیاں لیتے ہیں‘‘
طنز کے ان تیروں کا جواب دینا ضرور ی نہ سمجھ کر میں نے چاچی کی صحت کا حال پوچھا۔ اب بھتیجا پھر بولا۔’’چاچی کی صحت کا تو آپ پوچھ رہے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے گائوں کی ڈسپنسری کو منظور ہوئے دس سال ہونے کو ہیں ۔زمین بھی عطیہ کی جا چکی مگر دو یا تین ملین روپے تخت لاہور سے نہیں مل رہے کہ اس کی عمارت ہی بن جاتی! چاچی کو ہر بار ڈاکٹر کے پاس سوزوکی پک اپ میں بیٹھ کر ’دور‘ قصبے میں جانا پڑتا ہے۔ واپس آتے آتے نڈھال ہو جاتی ہے۔ سڑک ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہچکولے وہ لگتے ہیں کہ انجر پنجر ہل جاتا ہے‘‘
چاچا کہنے لگا’’بجٹ کی سنائو‘ ہم غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟
میں سوچ میں پڑ گیا کہ بجٹ میں غریبوں کے لیے اگر کچھ ہے تو ڈھونڈنا پڑے گا۔ اتنے میں بھتیجا بول اٹھا۔
’’میں بتاتا ہوں ‘غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟ ہم غریبوں کے لیے جی ڈی پی آئی ہے اور اس کی شرح نمو آئی ہے۔ ہمارے لیے بجٹ کے مجموعی حجم میں اور بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ آیا ہے۔ اصل بجٹ تو وزیر اعظم اور صدر مملکت کے لیے ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور صدر صاحب کی تنخواہ میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پونے تین کروڑ روپے ایوان صدر کے آپریشنل اخراجات کے لیے ہیں اب پتہ نہیں یہ آپریشنل اخراجات کیاہیں؟ تحائف اور خیرات کی مدد میں پندرہ لاکھ روپے! سبحان اللہ! صدر صاحب خیرات اپنی جیب سے نہیں‘عوام کے ٹیکسوں سے دیں گے! ڈرائیوروں اور ملازمین کے لیے چار کروڑ کے لگ بھگ۔ گارڈن اور مالیوں کے لیے سوا چار کروڑ!! وزیر اعظم آفس کے لیے 91کروڑ 67لاکھ روپے! صدر صاحب کے دوروں پر ایک کروڑ32لاکھ روپے صرف ہوں گے۔ یہ ہیں بجٹ سے فائدہ اٹھانے والے حضرات! رہے عوام تو ان کے لیے وعدے ہی وعدے ہیں 2018ء کے بعد لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔2030ء تک یہ ہو جائے گا۔2050ء تک وہ ہو جائے گا!
میںاس بھتیجے سے جلدازجلد جان چھڑانا چاہتا تھا سو لسی کا دوسرا گلاس پیتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔!
گائوں کی گلیاں کچی تھیں لوڈشیڈنگ دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی تھی۔ سکول میں بچے بیٹھے کے لیے سیمنٹ اور گندم کے خالی بیگ گھر سے لاتے تھے‘ پینے کا صاف ناپید تھا! ڈسپنسری کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ تھا اصل پاکستان! اس اصل پاکستان میں وزیر اعظم کا کبھی گزر نہ ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے تو کبھی بھول کر بھی یہاںکا رُخ نہ کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر تک کو یہاں آنے کی توفیق کبھی نہ ہوئی۔
نہیں! یہ اصل پاکستان نہیں! اصل پاکستان تو وہ خاص بیلٹ ‘خاص پٹی ہے جو پانچ سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی ‘شیخو پورہ کواپنے اندر سمیٹتی ‘نارروال اور سیالکوٹ جا کر ختم ہو جاتی ہے! تمام کلیدی وزارتیں کچن کابینہ کے تمام عہدے اسی مخصوص پٹی کے پاس ہیں۔ صحت کی وزارت پانی اور بجلی کی وزارت‘ ریلوے کی وزارت‘ منصوبہ بندی کی وزارت‘ خزانے کی وزارت‘ تجارت کی وزارت! دفاع کی وزارت! خارجہ امور کی وزارت! اہم ترین وزارتوں میں سے 
صرف داخلہ کی وزارت ہے جو اس مخصوص پٹی سے باہر ہے اور وہ بھی کیا باہر ہے!!
کاش ! الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر جی ڈی پی اور فی کس شرح آمدنی کی شیخیاں بگھارنے والے جعلی اور بنائوٹی دانشور کبھی اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی سے باہر آ کر جی ڈی پی اور فی کس آمدنی کا سراغ لگاتے! سوزوکیوں سے لٹکتے اور بسوں کی 
چھتوں پر بیٹھے پاکستانیوں کو دیکھتے! سرکاری ہسپتالوں کے وحشت زدہ ڈرائونے برآمدوں 
میں ذلیل ہونے والی خلقِ خدا کو دیکھتے ان لاکھوں سکولوں کو دیکھتے جن کی چھتیں ہیں نہ دیواریں‘ جن میں کرسیاں ہیں نہ میز نہ پینے کا صاف پانی!
بجٹ ! بجٹ! جی ڈی پی ! جی ڈی پی!کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے رکھی گئی ہے! وزارت خزانہ کے بابو یا الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے خوش لباس معیشت دان کبھی اُس پاکستانی کا بجٹ بھی بناتے جس کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ پندرہ ہزار روپے اور بجلی پانی اور گیس کے بل‘ تین وقت کا کھانا‘ ڈاکٹروں کی فیسیں‘ دوائوں کی قیمت‘ عید پر بچوں کے نئے کپڑے‘ سکولوں کے اخراجات‘ شادیوں پر اٹھنے والے مصارف! اور بہت کچھ اور! لاکھوں گھرانے سال میں دو یا تین دفعہ گوشت خرید سکتے ہیں! اس کالم نگار کو ٹیلی ویژن پر سنا جانے والا‘ ایک عورت کا وہ انٹرویو کبھی نہیں بھولا‘ جس کا بیٹا نائب قاصد تھا اور جس کے گھر میںصرف عید پر بڑا گوشت پکتا تھا!
ٹیلی ویژن پر ایک شخص جس کی بصارت کا علم نہیں اور جس کی بصیرت صفرتھی کہہ رہا تھا کہ شاپنگ مال خریداروں سے چھلک رہے ہیں! اس سے کوئی پوچھے کہ ان چھلکتے شاپنگ مالوں میں پچیس کروڑ آبادی کا کتنا حصہ شامل ہے؟ خدا کے بندو!پاکستان صرف چار شہروں اور ان چار شہروں کے شاپنگ مالوں کا نام نہیں! پاکستان ان شہروں قصبوں‘ بستیوں اور قریوں کا نام ہے جن کے نام بھی ہمارے حکمرانوں نے کبھی نہ سنے ہوں گے! انہیں کیا معلوم کہ قلعہ سیف اللہ اور جھل مگسی کہاں واقع ہے! لورالائی اور مستونگ کے عوام کس حال میں ہیں؟ کوہستان سے لے کر کرک تک خلقت کس طرح وقت پورا کر رہی ہے۔ دادو‘ گھوٹکی ‘ سانگھڑ‘ تھرپارکر اور ٹنڈو اللہ یار بھی اسی پاکستان میں ہیں۔ اٹک ‘راجن پور ‘ لیّہ ‘میانوالی اور ڈیرہ غازی خان بھی اسی پنجاب میں واقع ہیں جس پنجاب کے بجٹ کا کثیر حصہ ایک ہی شہر پر صرف ہو رہا ہے!۔
یہی ہو رہا۔ یہی ہوتا رہے گا! بجٹ ہر سال پرانی فائلوں سے نئی فائلوں میں منتقل ہو کر نئے سال کا بجٹ کہلاتا رہے گا۔ وعدے کئے جاتے رہیں گے۔ ڈیسک بجائے جاتے رہیں گے ۔وزیر خزانہ کو مبارکیں ملتی رہیں گی۔ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں تقسیم ہوتی رہیں گی جنہیں حسب معمول کوئی نہیں پڑھے گا!قریوں میں دُھول اڑتی رہے گی۔ کروڑوں بچے سکولوں سے دور رہیں گے ۔گائوں کے گائوں قصبوں کے قصبے لوڈشیڈنگ میں پستے رہیں گے اور بجلی کے بل ادا کرتے رہیں گے۔ بے روزگار نوجوان ڈاکو بنتے رہیں گے۔ بیوائیں گھروں میں برتن مانجھتی رہیں گی! قلاش بے سہارا لوگ خودکشیاں کرتے رہیں گے۔ لندن میں فلیٹ‘ نیویارک میں اپارٹمنٹ اور دبئی میں محلات خریدے جاتے رہیں گے۔ ہر سال ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کا بجٹ بڑھتا رہے گا۔اسمبلیوں کے ارکان کی مراعات میں کئی گنا اضافہ ہوتا رہے گا۔ عوام کو جی ڈی پی کا کیپسول کھلایا جاتا رہے گا۔


میری اور لال چند کی ایک ہی قوم ہے۔ پاکستانی قوم!!

$
0
0

لال چند ربڑی بدین(سندھ) کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا 
ہوا۔ والد گڈریا تھا۔ ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ گیارہ بچوں میں لال چند پانچویں نمبر پر تھا۔

2009
ء میں اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے ذہن میں کچھ خواب تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک دن اس نے گھر والوں کو بتائے بغیر بدین شہر کا رُخ کیا۔ اور پاک فوج میں بھرتی ہو گیا۔
بھرتی ہونے کی وجہ بے روزگاری تھی نہ کچھ اور۔ اس کی وجہ اس کے خواب تھے۔ مادرِ وطن کا دفاع کرنے کے خواب! دشمن سے لڑنے کے خواب! اس کے بھائی بھیمن کا کہنا ہے کہ جب اس کی تعیناتی وزیرستان میں ہوئی تو وہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو کچل دینے کے ولولے کے ساتھ  وہاں پہنچا ۔اس کا کہنا تھا’’جن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں اور بچوں کو نقصان پہنچایا ہے‘ میں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا!‘‘
اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند تھا۔ اس کی ہمت قابلِ رشک تھی۔ ارادے بلند تھے۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھرگریجوایشن کر لی! اب وہ لانس نائک تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کوفوج میں خدمات بجا لانے کے لیے آمادہ کرتا رہتا تھا۔ اب جب لال چند مادر وطن پر قربان ہو گیا ہے اس کے دوبھائی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج میں بھرتی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لال چند کے بھائی بھیمن نے آہ و فغاں کی نہ گریہ و زاری ! کہا تو یہ کہا کہ یہ ملک ہمارا گھر ہے۔ ہماری ماں کو بیٹے کی قربانی کا کوئی دکھ نہیں! وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اسی راہ پر چلانے کی خواہش رکھتی ہے۔ ماں نے اپنے آنجہانی شوہر کو یاد کیا اور کہا کہ وہ زندہ ہوتا تو آج فخر سے اس کا سر بلند ہوتا۔
مئی کی17تاریخ تھی جب لال چند ملک کی پاسبانی کرتے ہوئے ملک کے کام آیا اس نے جان اس دھرتی پر فدا کر دی جس کے دفاع کی اس نے قسم کھائی تھی!
مگر لال چند ہمیں کچھ سبق دے گیا ہے اور کچھ سوال چھوڑ گیا ہے! لال چند زبان سے نہیں‘ خون سے ثابت کر گیا کہ یہ ملک کسی ایک گروہ‘ کسی ایک مذہب ‘کسی ایک نسلی یا لسانی اکائی کا نہیں‘ یہ ملک سب کا ہے! ایک پاکستانی جس مذہب کا بھی ہو‘ جو زبان بھی بولتا ہو‘ جس نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ اول آخر پاکستانی ہے۔ اور سب پاکستانی برابر ہیں! اگر مذہب یا زبان یا نسل کی بنیاد پر کوئی پاکستانی کسی دوسرے پاکستانی سے برتری کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے‘ بہت بڑی غلطی پر ۔ہاں برتری ممکن ہے! مگر مذہب‘ مسلک ‘زبان یانسل کی بنیاد پر نہیں! خون کے ان قطروں کی بنیاد پر جو وطن کی مٹی پر گرتے ہیں اور جن کی سرخی خاک وطن کو رنگین کر جاتی ہے!
میں لال چند ربڑی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنے آپ میں اور اس میں ایک ایسی یکسانیت ‘ایسی مماثلت نظر آتی ہے جو پتھر کی طرح ٹھوس ہے اور سورج کی کرن جیسی صاف اور ناقابل تردید۔ وہ سندھی بولتا تھا میں پنجابی بولتا ہوں ‘میں اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا ہوں‘ وہ اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا تھا‘ وہ جنوبی پاکستان سے تھا‘ میں شمال سے تعلق رکھتا ہوں مگر قومیت یعنی نیشنلٹی 
(Nationality)
کے خانے میں وہ بھی پاکستانی لکھتا تھا اور میں بھی پاکستانی لکھتا ہوں۔ پاسپورٹ ہو یا قومی شناختی کارڈ سکول میں داخلے کا فارم ہو یا کسی غیر ملک کے اندر جانے کا فارم ‘قوم کے خانے میں ہم دونوں پاکستانی لکھتے تھے یعنی میری اور لال چند ربڑی کی قوم ایک ہے۔ سو اس ملک میں جتنے لوگ بھی آباد ہیں‘ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘ کسی بھی رنگ یا نسل کے ہیں‘ سب کی ایک ہی قوم ہے اس ملک میں ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ قوم ہے پاکستانی! اگر کوئی کہتا ہے کہ یہاں دو یا تین یا چار قومیں بستی ہیں تو بتائے کہ کیا نیشنلٹی کے خانے میں وہ پاکستانی نہیں لکھے گا؟ اور کیا لال چند ربڑی بھی پاکستانی نہیں لکھتا تھا؟ یہ ایک ٹھوس پتھر‘ پہاڑ‘ چٹان جیسی ٹھوس حقیقت ہے ! اس کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ہوائی جہاز فضا میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ اچانک ایک آواز جہاز میں ابھری:’’ خواتین و حضرات خاطر جمع رکھیے‘ جہاز کو کچھ نہیں ہونے والا‘ بس ذرا انجن میں خرابی ہے‘ آپ کھڑکی سے باہر نیچے دیکھیں‘ سمندر کی نیلگوں شفاف لہروں پر ایک خوبصورت کشتی خراماں خراماں چل رہی ہے‘ میں اسی کشتی میں بیٹھ کر آپ سے مخاطب ہوں!‘‘
لال چند ربڑی ان بہت سے لوگوں سے بازی لے گیا جو آرام دہ کشتیوں میں بیٹھ کر دوسروں کو قربانی کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ان آگ لگانے والوں سے بدرجہا بہتر ثابت ہوا جو رنگ ‘نسل ‘علاقائیت ‘مذہب‘ مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ جو دوسروں کے بچوں کو شہادت کا درس دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بزنس کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جو دوسروں کے نوجوان بیٹوں کے ہاتھوں میں بندوق اور کلاشنکوف دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں قلم کاغذ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ دیتے ہیں! لال چند ربڑی نے ان سب کو ایک نگاہ غلط انداز سے دیکھا۔ سینے پر گولی کھائی اور وطن پر نثار ہو گیا!   
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا‘ سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
ہر پاکستانی کے جذبات لال چند کے لیے وہی ہیں جو اس کالم نگار کے ہیں! یہ خبر جب چھپی تو اخباروں کے آن لائن ایڈیشنوں میں پاکستانیوں نے دل کھول کر لال چند کو خراج تحسین پیش کیا۔ صرف ایک اخبار سے چند کمنٹس:
فرزانہ حلیم:اس کی روح سکون میں رہے۔
ریحاب علی خان : ہمارے ایک بھائی نے ہمارے لیے اپنی زندگی قربان کی۔ وہ ہمارے احترام کا مستحق ہے۔ ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ لانگ لائف پاک آرمی۔
سید: تمہیں سیلوٹ!بہادر لال چند! تم اپنے نام کی طرح ہیرے ہو!
خان: ہمارا سیلوٹ! حکومت اس کے خاندان کی دیکھ بھال ضرور کرے۔
فیروز: کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک جاں باز سپاہی کی قدرو قیمت نسل‘ زبان یا مذہب کی بنیاد پر جانچی جاتی 
ہے ! دنیا میں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
او ایس ڈی: ہمیں تم پر 
اور تمہارے خاندان پر فخر ہے۔
عزیز۔:ویل ڈن! اے مادرِ وطن کے بہادر فرزند!
عرفان: لال چند کے لیے سیلوٹ! اس نے اپنے وطن سے محبت کی اور ثابت کر دیا کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکتا تھا!
ایس ایم:ان سب کو شرم آنی چاہیے جو غیر مسلموں کو سکینڈ کلاس شہری سمجھتے ہیں۔
دھرمیش جھالا: میں بھارت سے ہوں اور جب دیکھتا ہوں کہ پاکستانی اپنے ہندو سپاہی پر کس قدر محبت نچھاورکر رہے ہیں تو میری آنکھوںمیں آنسو آ جاتے ہیں ‘ایک بات ضرور کہوں گا کہ بھارت اور پاکستان لڑائی جھگڑا ختم کر دیں!
سید شیراز:لال چند! تم ہمارے ہیرو ہو! 
چنگیز کے: لال چند ربڑی زندہ باد۔ پاکستان آرمی زندہ باد
امیر قیصرانی: لال چند! ہم تمہیں سیلوٹ کرتے ہیں! اور ان سب جانباز سپاہیوں کو بھی جنہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے اس مقدس مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ! ہم انہیں بھی سلام کرتے ہیں جو اس وقت لڑ رہے ہیں! 
پاکستانی۔ بے پناہ احترام اور سیلوٹ 
سید احمد : زمین کے اس بہادر بیٹے کے لیے احترام! اور ان سب کے لیے جو آرمی‘ پولیس‘ نیوی اور ایئر فورس میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے ہماری حفاظت کر رہے ہیں! 
جے کے ڈی: اس کے ہندو ہونے کا تذکرہ ہی کیوں کیا جائے؟ وہ پاکستانی تھا۔ یہ ملک سب کا ہے خواہ وہ کسی مذہب کے پیرو ہوں! بہت سے غیر مسلم اس ملک کے لیے کام کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔آفرین ہے تم پر لال چند! پاکستانی تم پر فخر کرتے ہیں۔
2: کتنا خوبصورت جوان تھا! اور کیا ہی بہادرانہ انجام پایا۔ امید ہے اسے کوئی میڈل ضرور دیا جائے گا۔ اور اس کے اہل خانہ کا بھی خیال رکھا جائے گا!
پاکستانی: ہم تمہاری قربانی کبھی نہیں بھولیں گے۔
ایم ایس: لال چند اور اس کے خاندان کو سلام! وہ ہم میں سے بہت سوں کی نسبت اور ہمارے بہت سے لیڈروں کی نسبت بہتر تھا۔
مقصود: ابدی راحت میں رہو میرے بیٹے! ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم پاکستانی تھے اور بس! باقی سب کچھ غیر ضروری ہے!
ثاقب: لال چند کے لیے ٹنوں کے حساب سے احترام! وہ ہمارا ہیرو ہے۔ ہندو ہماری قوم کا قابل فخر حصہ ہیں!
خالد رشید: میڈیا کو چاہیے کہ اس خبر کو نمایاں کرے تا کہ دنیا کومعلوم ہو کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔
یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے ورنہ پاکستانیوں نے اس پاکستانی سپاہی کو جتنا خراج تحسین پیش کیا ہے ایک کالم میںسمویا نہیں جا سکتا! 
لال چند اس حقیقت کو واشگاف کر گیا ہے کہ پاکستان کی فوج قومی فوج ہے اس فوج پر کسی ایک نسل‘ زبان‘ مذہب ‘ مسلک یا عقیدے کی اجارہ داری نہیں! پاکستانی فوج کا ہر سپاہی صرف اور صرف پاکستانی ہے!

افسوس! خوشامد کا فن کن کے ہتھے چڑھ گیا

$
0
0

تنازع کھڑا ہو گیا۔ گائوں کے بزرگ نے جو عالم تھے اور معلم، زمیندار کو 
کسی معاملے میں چیلنج کر دیا۔ ’’نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا‘‘ بزرگ نے دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیا۔ زمیندار ’’نہ‘‘ سننے کا عادی نہ تھا۔ ’’میں کل تمہیں ٹھیک کروں گا‘‘۔ اس نے فیصلہ کن تحکمانہ لہجے میں کہا۔
بزرگ کے منہ سے بے اختیار نکلا…’’کل تم ہو گے تو ٹھیک کرو گے نا!‘‘
کسی کو معلوم نہیں، وہ رات بزرگ نے کیسے بسر کی مصلے پر یا بستر میں! مگر لوگوں نے دیکھا کہ دوسرے دن زمیندار چارپائی پر چت لیٹا ہوا تھا۔ چارپائی کو گائوں والوں نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ کلمۂ شہادت کی تکرار ہو رہی تھی۔ قبر کھودی جا چکی تھی۔ یہ اس کا جنازہ تھا جس نے اسی دن بزرگ کو ٹھیک کرنا تھا!
نہال ہاشمی!!
نہال ہاشمی؟؟
کون نہال ہاشمی؟؟
اس سے پہلے کہ حساب لینے والے ’’حاضر سروس‘‘ سے ریٹائرڈ ہو جائیں‘ اس سے پہلے کہ نہال ہاشمی ان پر اور ان کے بچوں پر زمین تنگ کر دے، وقت کا جھکڑ، ایک نہال ہاشمی کو نہیں، کئی نہال ہاشمیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جا چکا ہو گا! وقت نہال ہاشمی سے زیادہ طاقت ور ہے۔
تاریخ نہال ہاشمی کی کنیز ہے نہ زرخرید!تاریخ کا دھارا بڑے بڑوں کو نابود کر گیا، نہال ہاشمی تو محض خدمت گار ہے!
نہال ہاشمی نے دھمکی دی تو اس دھمکی میں اس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ جس کا حساب لے رہے ہو وہ نواز شریف کا بیٹا ہے۔ یہ خوشامد کی انتہا ہے۔ نواز شریف نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ خوشامدی کس سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ کی ایک شخص نے خوشامد کی۔ آپ نے جھک کر زمین سے مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی!
دو ہی صورتیں ہیں! پہلی یہ کہ نہال ہاشمی کو استعمال کیا گیا اور اس سے یہ الفاظ کہلوائے گئے۔ یعنی اسے آلۂ کار بنایا گیا۔ ایک شخص جو آلۂ کار بن کر دوسروں کے ہاتھ میں کھیلتا ہے، اس کی کیا وقعت ہے؟ خلقِ خدا کے دلوں میں اس کا کیا مقام ہے؟ لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب واضح اور کھلے ہیں! مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ! جسے کسی بھی وقت نکال کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں پھینکا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ نیا پرزہ لگا لیا جاتا ہے۔ کوڑے کا ڈھیر! جس میں ایسے درجنوں بیسیوں پرزے پڑے ہوتے ہیں! دوسرے دن وہ ڈھیر غائب ہوتا ہے! کیا کبھی کسی نے ایک لمحہ کے لیے بھی سوچا کہ ڈھیر کہاں گیا؟ ایک لمحہ بھی کوئی نہیں ضائع کرتا۔ کوئی کھوج نہیں لگاتا کہ ڈھیر کو کھیتوں میں بکھیر دیا گیا یا کمیٹی کا ٹرک آ کر لے گیا۔ مگر نہال ہاشمیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کمیٹی کے کارکن ناک پر کپڑا رکھ کر اس ڈھیر کو ٹرک پر لادتے ہیں!
دوسری صورت یہ کہ یہ اس کی اپنی ہمت تھی ایک روایت میں ہے کہ اس دھمکی سے پہلے اس نے کہا تھا کہ آج کی تقریر سے قیادت خوش ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہے تو اس کی حیثیت ایک ملازم ایک درباری ایک خوشامدی سے زیادہ کیا ہے۔
افسوس! صد افسوس! خوشامد کا معیار بھی کس قدر گر گیا ہے۔ ابوالفضل اور فیضی شہنشاہ اکبر کی پرستش کرتے تھے تو زبان و ادب کا ایسا اعلیٰ معیار قائم کرتے تھے کہ وہ زبان و ادب آج بھی ادب کی تاریخ میں زندہ ہے۔ مگر نہال ہاشمیوں اور پرویز رشیدوں نے تو خوشامد کے لیے زبان بھی استعمال کی تو عامیانہ! غور کیجیے، اپنے آقا و مربی شہنشاہ اکبر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابوالفضل اکبر کے باپ ہمایوں کا تذکرہ کس طرح کرتا ہے:
مظہرِ کراماتِ عالی، مصدر الہاماتِ متعالی، رافعِ صریرِ خلافتِ عظمیٰ، ناصبِ لوائے ریاستِ کبریٰ، ملک بخشِ ممالکستان، مسند نشینِ سعادت نشان، منبعِ عیونِ رافت و احسان، موردِ انہارِ علم و فرمان، حق گزینِ حقیقت شناس، کثرتِ آئینِ وحدت اساس، بادشاہِ درویش نصاب، درویش پادشاہ خطاب، چمن پیرائی نظامِ دین و دنیا، نخل بندِ بہارِصورت و معنیٰ، کرسیٔ کرۂ اسرارِ ابدی و ازلی، عضادۂ اصطرلابِ حکمتِ عملی و علمی، گوہرِ ہفت دریا و فروغِ چہار گوہر، مطلعِ انوارِ اعظم و مشرقِ سعدِ اکبر، ہمائی آسمان بالِ اوجِ بلند پروازی، نصیر الدین محمد ہمایوں پادشاہ غازی!
خدا کے بندو! چاکری کرنا تھی تو یوں کرتے کہ کچھ دن تاریخ میں زندہ ہی رہ جاتے، مگر پہلے زمانے کے بادشاہوں اور آج کل کے جمہوری آمروں میں یہی تو فرق ہے کہ بادشاہ حساب برابر کرنے کے لیے علما و فضلا اپنے اردگرد رکھتے تھے۔ اس لیے کہ وژن تھا اور ذوق کے مالک تھے! یہاں! خزانہ اور عوام کی کمائی بھی لوٹتے تھے۔ اب تو صرف لوٹ مار ہے اور علماء و فضلا سے نہ صرف دُوری بلکہ نفرت! صحیح معنوں میں پڑھے لکھوں کی آج کی سیاسی جماعتوں میں کیا تعداد ہے، کچھ بتانے کی حاجت نہیں۔
علم؟ اور آج کے خوشامدیوں میں؟   ع
ایں خیال است و محال است و جنوں
اس پروردگار کی قسم جس نے الفاظ کو معانی عطا کیے، جس نے حرف کو حرمت بخشی اور جس نے قلم کو توقیر عطا کی، اس کالم نگار کے دل میں پرویز رشید صاحب کے لیے بے وقعتی تب پیدا ہوئی جب انہوں نے لندن کی آبادی مڈل سیکس کے لیے اپنے ’’علم و عرفان‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ خوشامد اور خوشنودی کی دنیا میں یہ ایک ایسا ’’شہکار‘‘ہے جس کی مثال آئندہ وقتوں میں شاید ہی ملے۔ فرمایا
’’صرف اُس ایریا کا نام لے لیں جہاں خان صاحب کے بچے پل رہے ہیں۔ میں اس ایریا کا نام نہیں لوں گا کیوں کہ مسلمان کی زبان پر وہ نام آ جائے تو وضو کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتنا بتاتا ہوں آپ کو! لیکن خان صاحب سے پوچھیے گا کہ اس ایریا کا نام کیا ہے۔ خان 
صاحب اگر وہ نام بتا دیں تو انہیں بھی وضو کرنا پڑ جائے اگر وہ وضو کرنے 
پر یقین رکھتے ہیں‘‘
غور کیجیے، آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس ایریا پر کیا کمال ’’تحقیق‘‘ کی ہے! اور عمران خان سے کون سا جائداد کا جھگڑا تھا؟ صرف اور صرف آقا کو خوش کرنے کے لیے! اس بات کو تو چھوڑیے کہ مفتی پرویز رشید صاحب نے وضو کے حوالے سے جو فتویٰ دیا اس پر امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی ارواح پر کیا گزری ہو گی، فی الحال اِس حقیقت سے لطف اٹھائیے کہ ’’مڈل سیکس‘‘ میں سیکس سے مراد وہ نہیں جو پرویز رشید صاحب نے کہا۔ مڈل سیکس میں سیکس کا لفظ اینگلو سیکسن سے آیا۔ اینگلو سکسین اصل میں قبیلے کا نام تھا! 
ESSEX
 کی کائونٹی کا نام بھی اسی سے نکلا ہے۔
نہال ہاشمی کو سوچنا چاہیے تھا کہ جن پرویز رشید صاحب کی تصویر اور بیان ہر روز بیسیوں اخبارات کے پہلے صفحوں پر چھپتا تھا۔ اب ان کا ذکر ہی خال خال رہ گیا ہے۔ سنا ہے کہ اشک شوئی کے لیے پارٹی کے سیکرٹری مالیات کا عہدہ دیا گیا ہے۔ واہ رے اقتدار! اقتدار اپنے کل پرزوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ایک جگہ سے اٹھایا، بے جان پرزے کو دوسری جگہ لگایا! بے جان پرزہ تو پھر بھی کبھی کبھی فٹ ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ چھوٹا نکل آتا ہے یا بڑا۔ مگر خوشامدی چاکر تو اتنا بھی نہیں کر سکتا!
وقت اس ملک کو بہت آگے لے آیا ہے۔ ہم ارتقا کا سفر طے کر رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ پر حملہ آسانی اور عجلت سے نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھرے ہوئے بریف کیس لے کر کوئٹہ جانے والے جہاز پر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ شہزادہ، اپنے سارے کروفر اور درباریوں کے ہجوم کو باہر رکھ کر، تن تنہا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہا ہے! کیا یہ کم ارتقا ہے؟ کیا یہ کوئی معمولی مرحلہ سر ہوا ہے؟ یہی تو وہ تبدیلی ہے جو درباریوں کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی ہے!
یار لوگوں کو شکایت ہے کہ نافرمان لوگ!
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ؟
زاغ کی اولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے؟
نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے؟
کوئی مانے نہ مانے، اتنی بڑی تبدیلی کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ اگر آج عمران خان سیاست چھوڑ کر دھند دھندلکے رخ کر لے تب بھی تاریخ میں اس کا ذکر اس حوالے سے ضرور آئے گا کہ اس کی مستقل اور انتھک جدوجہد سے شاہی خاندان کے افراد تفتیش کرنے والوں کے سامنے پیش ہوئے۔   ؎
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
ویسے یہ بھی خوب ہے کہ تین عشروں سے اقتدار میں رہنے والوں سے حساب مانگا جائے تو وہ جواب میں یہ مطالبہ کریں کہ حساب مانگنے والے بھی حساب دیں۔ یہ فارمولا امیر المومنینؓ کو معلوم ہوتا تو وہ بھی کُرتے کا حساب لینے والے شخص سے کہتے کہ پہلے تم اپنا حساب دو!
افسوس! خوشامد کا فن کن کے ہتھے چڑھ گیا
 

پھلوں کا بائی کاٹ کاش یہ محض ابتدا ہو

معاشیات کے طلبہ کے لیے بجٹ پر ایک سبق

$
0
0

یہ اینٹیں بنانے کا بھٹہ ہے۔ ثقیل اردو میں اسے ’’بھٹہ خشت‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے اقبال نے کہا ہے ع
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
غالب بھی خشت سے واقف تھا   ع
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
اینٹوں کے اس بھٹے پر بچے عورتیں اور بوڑھے کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ نسل درنسل بھٹوں ہی سے منسلک چلے آتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی کسی ایک بھٹے سے سلامت بچ نکلے تو کسی اور بھٹے میں بھی یہی کام کرتا ہے۔ اس کی زندگی کی باگ بھٹے کے منشی کے ہاتھ میں ہے۔ بھٹے پر جتنا کام خرکار کے کھوتے کرتے ہیں، یہ انسان اُس سے زیادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھٹے کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے ماچس نما کمروں میں رہتے ہیں‘ ان کی ساری زندگی ان ڈربوں ہی میں گزرتی ہے کیوں کہ شہر آنے جانے کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہیں۔ اینٹیں بنانے والے یہ خاندان ہر وقت دھوپ اور گرمی کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ بارش اور سردی میں ان کا کام ٹھپ ہو جاتا ہے اور یہ فاقوں پر اتر آتے ہیں۔
یہ لوگ بھٹے کے منشی سے ایک بار پیشگی وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد یوں سمجھیے کہ بھٹے کے ساتھ یہ زنجیروں سے بندھ گئے۔ اگر سوروپے روزانہ اجرت ہے تو ستر اسی روپے پیشگی کے ضمن میں کاٹ لیے جاتے ہیں۔ پیشگی ادائیگی کے نظام میں جکڑا ہوا خاندان ایک بھٹے سے دوسرے بھٹے میں ’’منتقل‘‘ ہوتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں سیاہ فام غلاموں سے کپاس کے فارموں پر ایسے ہی کام لیا جاتا تھا۔ یہ غلام ایک فارم سے دوسرے فارم تک فروخت ہوتے رہتے تھے۔ بھاگنے والوں کو پکڑ کر عبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ پائوں کاٹ دیا جاتا تھا۔ کتے چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ جنسی بربریت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مگر حالات بدل گئے۔ غلامی ختم ہو گئی۔ نسلی امتیاز کے ظاہری مظاہر بھی اوجھل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ان غلاموں کا ایک بیٹا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر بنا۔ ایک بار نہیں، دو بار!
مگر پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کے حالات نہیں بدل سکتے۔ کبھی نہیں! قانون پاس ہوتے رہتے ہیں مگر زمینی حقائق وہی رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم، سوشل سکیورٹی کا کوئی منصوبہ، کوئی خدمت کارڈ، بھٹوں پر کام کرنے والوں کے شب و روز نہیں بدل سکتا۔ بجٹ آتے ہیں۔ بھٹوں کے پاس سے سیٹی بجاتے گزر جاتے ہیں۔ ان 
غلاموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تنخواہوں میں بجٹ اضافہ 
-------کرے یا نہ کرے، انہیں اس سے کوئی غرض ہے نہ علاقہ۔
(2)گائوں کے عقب میں یہ چھوٹا سا گھر ہے اس کا صحن بڑا 
ہے۔ صحن میں کانوں(سرکنڈوں)سے بنی ہوئی چقیں، چھاج اور کھاریاں پڑی ہیں۔ یہ گائوں کے مصلی کا گھر ہے۔ مصلی کا نام کوئی نہیں ہوتا۔ بس وہ مصلی ہوتا ہے۔کچھ سال ہوئے پنجاب کے ایک سیاستدان نے ’’مالو مصلی‘‘ کا نام استعمال کیا تھا۔ بس اس مصلی کو بھی مالو ہی کہہ لیجیے۔ اس کی بیوی بیٹیاں بچے بہنیں چودھری صاحب کی حویلی میں کام کرتی ہیں۔ شادی بیاہ غم یا موت کے موقع پر مصلی بے دام غلام ہوتا ہے۔ اس کی اپنی ملکیتی زمین نہیں ہوتی۔ اس کے گھر میں غلہ وغیرہ چودھری فصل اترنے پر بھجوا دیتا ہے۔ یہ جس مکان میں رہتا ہے وہ بھی پٹواری کے کاغذات میں چودھری صاحب ہی کا ہے۔ مصلی کا باپ مصلی ہوتا ہے۔ اس کا بیٹا اور پوتا بھی مصلی ہوتے ہیں۔ اس کا اور اس کے گھر والوں کے شناختی کارڈ چودھری صاحب لے کر بنکوں سے قرضہ لیتے ہیں۔ پھر یہ کارڈ مصلی کو واپس مل جاتے ہیں۔ بجٹ، کیا وفاقی اور کیا صوبائی، کئی آئے اور اس کے قریب سے گزر گئے۔ -------اس پر اور اس کے خاندان پر کسی بجٹ کا سایہ نہیں پڑتا۔
(3)یہ ایک بڑے شہر کی بڑی کوٹھی کا سرونٹ کوارٹر ہے۔ ایک ہی کمرہ ہے مگر اسے کوارٹر کہا جاتا ہے۔ کل چھ افراد یہاں رہائش پذیر ہیں۔ مرد ترقیاتی ادارے کے دفتر میں مالی ہے۔ اس کی بیوی بہن اور ماں کوٹھیوں میں برتن مانجھتی ہیں۔ کپڑے دھوتی ہیں اور فرش صاف کرتی ہیں۔ جس دن صاحب کو یا بیگم کو غصہ آئے‘ انہیں چند گھنٹوں کے نوٹس پر کوارٹر سے نکال دیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی تقریباً مزارع یا مصلی ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ دیہات کے بجائے شہر میں رہتے ہیں۔ جس طرح مزارع یا مصلی کا اپنا گھر نہیں ہوتا‘ اسی طرح سرونٹ کوارٹر میں رہنے والے کا بھی اپنا گھر نہیں ہوتا۔ سرونٹ کوارٹر کیوں بنائے جاتے ہیں‘ اس کی وجہ نہیں معلوم! امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘  فرانس میں سرونٹ کوارٹر نہیں ہوتے بجٹ جیسا بھی ہو‘ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ مزید ان کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا! 
(4)یہ ایک بڑے شہر کے امیر علاقے میں واقعہ دینی مدرسہ ہے۔ زرگل خان یہاں دوسرے لڑکوں کے ساتھ زیرتعلیم ہے۔ یہ سب لڑکے مانسہرہ‘ دیر اور دیگر شمالی اور قبائلی علاقوں سے آئے ہیں یا لائے گئے ہیں! زرگل کے تیرہ بہن بھائی ہیں جو گائوں میں رہتے ہیں۔ زرگل سب سے بڑا ہے۔ اس کے گائوں میں ایک بار ایک مولانا صاحب آئے۔ اس کے والد سے کچھ بات چیت کی۔ پھر زرگل کو ساتھ لیا اور ایک لمبی سی بس میں بٹھا کر اسے اپنے ساتھ شہر کے اس مدرسہ میں لے آئے۔ زرگل رات کو چٹائی پر سوتا ہے۔ دن کو چٹائی ہی پر بیٹھ کر سبق پڑھتا اور یاد کرتا ہے۔ جمعہ کے دن اسے سبق کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن وہ اپنے کپڑے دھوتا ہے۔ زرگل یہاں آٹھ برس رہے گا۔ کیونکہ پڑھائی کی مدت آٹھ برسوں پر محیط ہے۔ ان آٹھ برسوں میں اس کی نقل و حرکت‘ بالعموم‘ مدرسہ اور ملحقہ مسجد تک محدود رہے گی۔ اس کا کھانا پینا مدرسہ کے ذمہ ہے۔ اگر کسی دن اس کا کسی ایسی شے پر دل چاہے جو مدرسہ کے مطبخ میں نہیں پکتی تو وہ صبر کرلیتا ہے۔ اسے تین سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اس کا باپ اسے ملنے نہیں آ سکا۔ وہ باقی بارہ بچوں کے اخراجات پورے کرنے میں گلے گلے تک پھنسا اور دھنسا ہوا ہے۔ زرگل کے بھائی جیسے جیسے بڑے ہوتے جائیں گے‘ اس مدرسہ میں‘ یا دوسرے مدارس میں رہنے کے لیے آتے جائیں گے۔ زرگل خان کے طرز زندگی پر‘ اندازِ رہائش پر‘ لباس پر‘ اسے پڑھائے جانے والے نصاب پر کسی بجٹ کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
(5)یہ جھنڈے والی کار ہے۔ اس میں وزیر صاحب سوار ہیں‘ وزیر بہت اہم ہوتے ہیں‘ ملک چلانے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ وزیر صاحب کے والد مرحوم بھی وزیر تھے۔ ان کے دادا بھی اسمبلی کے رکن تھے۔ پڑدادا انگریزوں کے زمانے میں وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے۔ وزیر صاحب کے خاندان کی زرعی زمین کئی قریوں اور بستیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی حویلیوں میں درجنوں جیپیں‘ بیسیوں ٹریکٹر اور بے شمار ٹرالیاں ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ علاقے کا تھانیدار‘ تحصیل دار‘ پٹواری سب وزیر صاحب کی منشا کے مطابق تعینات اور تبدیل ہوتے ہیں‘ وزیر صاحب کی خاندانی شرافت کا یہ عالم ہے کہ حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اے سی‘ ڈی سی‘ ایس پی اور ڈی آئی جی کے گھروں میں تحائف باقاعدگی سے بھجواتے ہیں۔ بٹیروں کے موسم میں سینکڑوں بٹیرے ان افسروں پر قربان کردیئے جاتے ہیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ صنعت کار بھی جاگیرداروں کی طرح وزارتیں اور ممبریاں خاندانی حوالوں سے حاصل کرنے لگے ہیں۔ اب صنعت کاروں کے زرعی فارموں پر بھی ہزاروں من گندم اگتی ہے۔ اگر صنعت کار صوبے کا وزیراعلیٰ ہو‘ یا ملک کا بادشاہ ہو تو اسے عام کسانوں زمینداروں کی نسبت باردانہ فوراً سے پیشتر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عام کسانوں کو اس کے حصول کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
بجٹ کے آنے جانے سے وزیر صاحب پر‘ ان کے اہل خانہ پر‘ ان کی زمینداری پر‘ ان کی ممبری اور وزارت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس سبق میں جتنے لوگوں یا پیشوں کا ذکر آیا ہے‘ اگر ان میں سے کسی پر بھی بجٹ اثر انداز نہیں ہوتا‘ تو پھر کن پر ہوتا ہے؟ اس کا جواب کسی آئندہ سبق میں!

وی آئی پی کباڑخانہ

$
0
0

ایک دن ہزار سے زیادہ عرضیاں آئیں‘ جعفر برمکی نے سب پر اپنے قلم سے 
احکام لکھے۔ یوں کہ کسی عرضی پر مکرر الفاظ نہ آئے۔ اس قسم کے مختصر احکام کو توقیعات کہتے ہیں۔ ان توقیعات میں حسن اختصار بھی ہوتا تھا‘ حسن کتابت بھی اور فصاحت و بلاغت بھی! شائقین ادب کا یہ حال تھا کہ بغداد کے بازاروں میں جعفر برمکی کے توقیعات ایک ایک اشرفی میں فروخت ہوتے تھے!
جعفر برمکی اور خالد برمکی کون تھے؟ ابوالفضل‘ فیضی‘ راجہ ٹو ڈرمل اور بیربل کون تھے؟ یہ اس زمانے کی سول سروس کے ارکان تھے۔ اس لیے کہ یہ جاگیردار تھے نہ نواب‘ نہ کمانڈر! ان کی شناخت ان کا علم و فضل تھا۔ کبھی کبھی ان زمانوں میں وزیر اور سیکرٹری کا منصب ٹو ان ون بھی ہوتا تھا۔ نظام الملک طوسی کا یہی سٹیٹس تھا! ابوالفضل نے جو کچھ لکھا‘ آج اکبر کا زمانہ اسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ برٹش انڈیا میں جب سول سروس ایک مستحکم انسٹی ٹیوشن کی شکل اختیار کر گئی تو علم و ادب‘ سول سروس کی پہچان ٹھہرا۔ ضلعی گزٹ اس پر گواہ ہیں! فلپ میسن برٹش انڈیا کی وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ اس وقت سکندر مرزا بھی وہیں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ فلپ میسن نے ایسی کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی مشہور اور مقبول ہیں۔ سید امیر علی نے سپرٹ آف اسلام اور ہسٹری آف 

History of Saracen 
جیسی معرکہ آرا کتابیں لکھیں۔ یہ روایت تقسیم کے بعد بھی قائم رہی۔ آج اردو ادب میں انڈین سول سروس کے شمس الرحمن فاروقی سے بڑا نام شاید ہی کوئی ہو۔ سرحد کے اس طرف شیخ محمد اکرام‘ عزیز احمد‘ رفیق خاور‘ قدرت اللہ شہاب‘ الطاف گوہر‘ سرتاج عزیز‘ محبوب خزاں‘ ابن الحسن سید‘ نجم حسین سید اور عبدالعزیز خالد سول سرول کے وہ ستارے ہیں جو ادب و دانش کے آسمان پر چمک رہے ہیں!
جمیل بھٹی بھی اسی کہکشاں کا حصہ ہے۔ وہ بیک وقت دو روایتوں کا وارث ہے۔ معروف مصنف پروفیسر اسماعیل بھٹی کا فرزند ہونے کے حوالے سے ادبی ذوق وراثت میں ملا۔ اس ذوق کو سول سروس نے صیقل کیا۔ سروس کے دوران اس نے حکومتوں کو اور ابنائے حکومت کو قریب سے دیکھا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے شعبہ حسابات و مالیات کے سربراہ کی حیثیت سے ان جونکوں‘ بھیڑیوں‘ سانپوں اور بچھوئوں کو قریب سے دیکھا جو عوام کی خون پسینے کی کمائی کے اردگرد کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کی نئی تصنیف ’’وی آئی پی کباڑخانہ‘‘ بظاہر تو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی ہے مگر اصل میں آہوں‘ ہچکیوں‘ سسکیوں‘ خراشوں اور کراہوں کی کہانی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا اہم شعبہ ہو جس کی دلخراش سرگزشت جمیل نے اس کتاب میں نہ سموئی ہو۔ سیاست دان‘ بیوروکریٹ‘ جاگیردار‘ صنعت کار‘ تاجر‘ ٹھیکیدار‘ کلرک‘ علماء سب کے کارنامے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچہری‘ تعلیمی ادارے‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ عدلیہ‘ سب کا رونا رویا ہے۔ اسلوب اتنا دلچسپ ہے اور انداز بیان اس قدر دلکش کہ قاری پڑھتا ہی چلا جائے۔ عام طور پر ان موضوعات پر لکھی ہوئی تحریریں ثقیل ہو جاتی ہیں اور عام قاری کے کام کی کی نہیں رہتیں۔ مگر جمیل نے ان ادق موضوعات کو ہلکے پھلکے طنزیہ انداز میں برتا ہے اور مقصد اپنے سامنے یہ رکھا ہے کہ وہ پاکستانی بھی جو ’’دانش ور‘‘ نہیں‘ حقیقت حال کا ادراک کرسکیں۔ اس کے طنز کے تیر میٹھے زہر میں بجھے ہیں۔ مثلاً تاجروں کے بارے میں اس کی یہ سطور پڑھیے:
’’بوڑھے تاجر احساس ذمہ داری کے بوجھ تلے دب کر مساجد اور مولوی صاحبان کو گود لے لیتے ہیں اور ان کی کفالت سے آخرت کا راستہ آسان کرتے ہیں‘ یہ جوانی میں نیویارک اور بڑھاپے میں سعودی عرب جانے کے مشتاق ہیں۔‘‘
سیاست دانوں کی اصلیت دیکھئے:
’’اصلی کوئوں کی طرح جمہوریت کے کوے بھی گروہ بنا کر رہتے ہیں اور اس کوے کو اپنا سردار بناتے ہیں جو سب سے زیادہ کائیں کائیں کر سکتا ہو اور اچھا ہدف تلاش کرنے کا ماہر ہو۔ ان میں خوب بھائی چارہ ہوتا ہے۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔‘‘
پی آئی اے کی حالت زار ملاحظہ ہو:
’’پی آئی اے کا سٹاف ہیروئن‘ سمگلنگ اور جعلی امیگریشن میں بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے اور ملک کے لیے زرمبادلہ کا خفیہ بندوبست کرتا رہا ہے۔ اپنی کارکردگی کی بنا پر کئی ملکوں کے ایئرپورٹ اپنے لیے بند کروائے ہیں۔ حکومت کو اس نالائق اولاد کے لیے بارہا معافیاں مانگنا پڑیں۔ پی آئی اے دنیائے عرب کی اکثر ایئرلائنوں کی ماں ہے جن کو اس نے اڑنا سکھایا مگر اب یہ بوڑھی مرغابی کی طرح ان کو دور سے اڑتا دیکھتی ہے!
ریلوے کی صورت حال دیکھئے:
’’سکریپ ادھر ادھر کرنا ریلوے کے عملہ کا پسندیدہ نسخہ ہے۔ مصری شاہ میں سینکڑوں لوہے کی بھٹیاں برسوں سے ریلوے کے سکریپ پر چل رہی ہیں۔ خانیوال‘ میاں چنوں کے ٹریکٹر کے ہلوں کے بھالے بہت مشہور ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ ریلوے بریکوں سے بنتے ہیں۔ ریلوے کی بریکیں سکریپ ہو کر خود بخود وہاں حاضر ہو جاتی ہیں۔ سنا ہے ریلوے ورکشاپوں کے اہم عہدہ داروں اور مزدور لیڈروں کے گھروں میں روٹی پکانے کے توے‘ چولہا گرم کرنے کے پھنکنے اور چمٹے ریلوے ورکشاپ کی طرف سے تحفتاً جاتے ہیں۔‘‘
انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کس طرح کی جاتی ہے‘ ایک جھلک دیکھئے:
پچھلے دنوں آپ نے اخبارات میں ایک واقعہ ضرور پڑھا ہو گا کہ کس طرح ایک ضلعی ایجوکیشن افسر کے تبادلے کے سلسلے میں وزیروں کے درمیان ٹھن گئی اور اس افسر کا ڈیڑھ ماہ میں سات مرتبہ تبادلہ ہوا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ایسی صورت میں محکمہ تعلیم کے افسران اور اساتذہ بالکل ان معصوم جانوروں کی طرح دبکے اور سہمے رہتے ہیں جن کے سامنے دو بھیڑیے اس بات پر لڑ رہے ہوں کہ انہیں پہلے کون کھائے گا۔‘‘
الیکٹرانک میڈیا نے صحافت کا جو حال کیا ہے اس کا حال دیکھیے:
’’خبرنامہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبروں کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ باہر کے 
ممالک میں خبرنامہ اہم ملکی اور غیر ملکی خبروں کا احاطہ کرتا ہے اور عوام کو ان کے مثبت اور مضر اثرات سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں خبرنامہ سے مراد اعلیٰ سرکاری سیاسی اور سماجی خیریت نامہ ہے۔ یعنی ملک کے اہم لوگوں نے صبح اٹھ کر کیا کیا؟ دوپہر کو کیا کھایا؟ شام کہاں گزاری؟ کس کے ساتھ پیار سے گفتگو کی؟ البتہ رات کہاں گزاری؟ یہ ان کا ذاتی معاملہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
رشوت خور صرف رشوت خور نہیں‘ بہت کچھ اور بھی ہے۔ سنیے:
’’انسانی تہذیب کی معراج یہ ہے کہ بدتہذیبی کی آدم خور علت‘ مختلف مراحل طے کرتی‘ چغل خور‘ مفت خور‘ حرام خور اور گوشت خور کی خوبیاں سمیٹے‘ رشوت خور کی صورت میں تہذیب کا منہ چڑانے ہم سب کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ رشوت خور آدم خور بھی ہے۔ یہ اپنے مقاصد کے لیے انسانوں کو نوچتا اور ہڑپ کرتا ہے۔ یہ چغل خور بھی ہے۔ ادھر کی بات ادھر کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اور اپنے معاوضے میں اضافہ کرا لیتا ہے۔ یہ مفت خور بھی ہے یعنی دوسروں کی کمائی کو مکاری سے اپنی تجوری میں بھر لیتا ہے۔ یہ حرام خور بھی بلا کا ہے! اپنے سارے کام دوسروں سے کرواتا ہے۔ کام چوری کے سو بہانے تلاش کرتا ہے۔ یہ گوشت خور بھی انتہا کا ہے جن محفلوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان میں زیادہ تر رشوت خور ہی گلچھرے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے رشوت خور کو اکیسویں صدی کا ’’خوروں‘‘ کا بے تاج بادشاہ کہنا اس کے شایان شان ہوگا!‘‘
یہ چند اقتباسات ہیں جو ’’وی آئی پی کباڑخانہ‘‘ سے پیش کئے گئے ہیں‘ اس انتخاب میں مشکل پیش آئی‘ اس لیے کہ ہر عنوان اور ہر باب ہی دامن پکڑ لیتا ہے۔ ابواب کے عنوانات سے موضوعات کے تنوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ معاشرتی مافیے‘ لوٹا کہیں جسے‘ پارلیمانی جمہوریت یا فری سٹائل کشتی‘ لیڈر بھبکی‘ قبریں (خاموش ثقافت)‘ گناہِ جاریہ‘ چاچا آئی ایم ایف‘ لالو‘ للو اور ریلوے‘ چھتر‘ پیاز اور کالا باغ ڈیم‘ قومی سوچ کے فاتح خوان‘ کوے پال مہم‘ چند ابواب کے عنوانات ہیں۔ جمیل نے نئے نئے نکتے نکالے ہیں۔ مرثیہ خوانی ہے مگر ہجو بھی ہے۔ ماتم ہے مگر زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ! امید ہے جمیل لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ خوباں سے یہ چھیڑ جاری رکھنی چاہیے!
سول سروس کے ارکان ایک طرف تو حکومت سے جڑے ہوتے ہیں دوسری طرف کی کھڑکی عوام کی طرف کھلی ہوتی ہے۔ ہر سول سرونٹ کو اپنی یادداشتیں قلم بند کرنی چاہئیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد‘ سرکاری بندھنوں سے آزاد ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے‘ اپنے تجربے عوام کے ساتھ شیئر کرنے چاہئیں۔ یہ تجربے سول سروس کے تازہ واردان کے لیے رہنما ثابت ہوں گے اور کبھی کبھی سامان عبرت بھی!! ساحر لدھیانوی نے کہا تھا    ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

وقت کم ہے۔ بہت کم

$
0
0
یہ کوہستانِ نمک کا ایک قصبہ تھا۔ ایک وقت تھا کہ یہ قصبہ بڑا نہیں تھا۔ بس قلیل 
سی آبادی تھی۔ جہاں اب بازار ہے، وہاں کھیت تھے۔ جہاں اب مکان ہیں، وہاں جنگل تھا۔
بازار کا چوک تھا جہاں ایک تیرہ بخت، رُوسیاہ نے اپنے باپ کے ساتھ گستاخی کی! لوگ دیکھ رہے تھے۔ دکانداروں کی نظریں اُس کی طرف تھیں۔ گاہک بھی متوجہ ہو گئے۔ اس نے بلند آواز میں باپ کو برا بھلا کہا، اور پھر، میرے قلم کے منہ میں خاک، اُس نے اپنے باپ پر ہاتھ اُٹھایا! لوگ اُٹھ کر اس کی طرف بھاگے۔ اُسے پکڑا۔ روکا۔شرم دلائی۔ اس کے بوڑھے باپ کو سہارا دیا اور دلاسہ بھی۔

وقت کم ہے! بہت جلد یہ آسمانی درخت یہاں نہیں ہو گا! یہ اُٹھ کر، اُڑ کر، آسمان میں غائب ہو جائے گا۔ پرندے نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ فرشتے چل دیں گے۔ پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا تمہاری زنبیل میں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر تم حسرت و یاس کے ساتھ اپنے آپ سے کہو گے کاش، فلاں وقت یہ بات نہ کہتا! کاش! اُن کا فلاں حکم فوراً مان لیتا! کاش اُن کی فلاں خواہش پوری کر دیتا۔مگر تم تو اُس وقت مصروف تھے۔ تمہاری سوشل سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں۔ تمہاری ترجیح اپنی اولاد، اپنی بیگم، اپنے دوست احباب تھے۔

پروفیسر راجہ یعقوب صاحب جب یہ آنکھوں دیکھا واقعہ سنا رہے تھے، اِس کالم نگار کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور سرگھوم رہا تھا۔ لیکن ابھی تو واقعہ باقی ہے۔ مکمل نہیں ہوا۔ اُسی بازار میں ایک بوڑھا بھی تھا۔ عمر میں اگر سب سے نہیں، تو اکثر و بیشتر سے بڑا۔ جب بات آئی گئی ہو گئی تو بوڑھے نے کہا کہ یہ قصبہ اُن دنوں بڑا نہیں تھا۔ بس قلیل سی آبادی تھی۔ جہاں اب بازار ہے، وہاں کھیت تھے۔ جہاں اب مکان ہیں وہاں جنگل تھا۔ جس چوک پر اُس نے باپ کے ساتھ گستاخی کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیا، کم و بیش یہی جگہ تھی، اُس وقت چوک تھا نہ دکانیں! مگر اسی جگہ پر اِس بدبخت کے باپ نے سالہا سال پہلے اپنے باپ کے ساتھ گستاخی کی تھی۔ یہی جگہ تھی۔ یہی انداز تھا۔ گستاخی زبانی بھی کی تھی اور ہاتھ بھی اٹھایا تھا۔
جو جانتا ہے، وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ اچھی طرح جان لے، کانوں میں سے بے نیازی کی روئی نکال لے، ذہن پر پڑا ہوا جالا صاف کر لے اور دل کو ڈھانپتے ہوئے پردے کو ایک طرف دھکیل دے۔ اچھی طرح جان لے کہ جو وہ بو رہا ہے، وہی کاٹے گا۔ ماں باپ کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے، وہی اس کے ساتھ ہو گا۔ نہیں! ایسا کسی مقدس کتاب یا صحیفے میں ’من و عن‘ بلیک اینڈ وائٹ، لکھا ہوا تو نہیں، مگر صدیوں سے، ہزاروں برس سے لوگ ایسا ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ مشاہدہ ایک بار نہیں، لاکھوں بار کیا گیا۔ ہوں گی! مستثنیات ہوں گی مگر قاعدہ کلیہ اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔
وقت کم ہے! خدا کے بندو! وقت کم ہے۔ اگر ماں باپ حیات ہیں تو یوں سمجھو تمہارے گھر کے صحن میں ایک آسمانی درخت ہے۔ جس پر دو پرندے بیٹھے ہیں۔ پرندے ہیں یا فرشتے، ولی ہیں یا اوتار! جو کچھ بھی ہیں، تمہارا سب کچھ یہی ہیں۔ تم دعا کرانے اگر پیروں، بزرگوں، بابوں، ملنگوں کے پاس جا رہے ہو تو تمہارا حال اُس اعرابی جیسا ہے جو مکہ جانا چاہتا تھا مگر رُخ ترکستان کی طرف تھا۔ دعا کا خزانہ تو تمہارے گھر میں موجود ہے۔ جنت تمہاری ماں کے قدموں میں ہے اور دعا، نبی ٔ برحقؐ نے فرمایا کہ ،باپ کی قبول ہوتی ہے۔ تم کہاں بھٹک رہے ہو؟ تم قسمت کا حال جاننے اگر نجومیوں، جوتشیوں اور دست شناسوں کے ڈیروں پر دھکے کھا رہے ہو تو بہت بدبخت ہو، تمہاری قسمت تو اُس سلوک سے متعین ہو گی جو تم اپنے ماں باپ کے ساتھ کرو گے! تمہار ے بخت کا انحصار تو اُس رویّے پر ہو گا جو تم اپنے ماں باپ کے ساتھ رکھو گے۔
وقت کم ہے! بہت جلد یہ آسمانی درخت یہاں نہیں ہو گا! یہ اُٹھ کر، اُڑ کر، آسمان میں غائب ہو جائے گا۔ پرندے نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ فرشتے چل دیں گے۔ پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا تمہاری زنبیل میں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر تم حسرت و یاس کے ساتھ اپنے آپ سے کہو گے کاش، فلاں وقت یہ بات نہ کہتا! کاش! اُن کا فلاں حکم فوراً مان لیتا! کاش اُن کی فلاں خواہش پوری کر دیتا۔
مگر تم تو اُس وقت مصروف تھے۔ تمہاری سوشل سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں۔ تمہاری ترجیح اپنی اولاد، اپنی بیگم، اپنے دوست احباب تھے۔ اس گہما گہمی میں، اس ہائو ہُو میں، تم بھول جاتے تھے کہ ایک بوڑھا اور ایک بڑھیا کہیں تمہارا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ تمہارا چہرہ چومنا چاہتے ہیں۔ تمہارے ہاتھ اپنے جھریوں بھرے نرم پلپلے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ تم رات کو دیر سے آتے تھے تو تمہاری بیوی اور بچے سو رہے ہوتے تھے مگر ایک کمرے سے روشنی باہر جھانک رہی ہوتی تھی۔ بوڑھی آنکھوں میں تمہارے آنے سے پہلے نیند کہاں آتی تھی۔ ہونٹ تمہاری خیریت کے لیے دعائیں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ آنکھیں تمہارا راستہ دیکھ رہی ہوتی تھیں۔ اُس وقت تم اُن کی درد کرتی پیٹھ کے ساتھ لگ کر تکیہ نہ بنے۔ ان کی کمزور بصارت کے لیے لاٹھی نہ بنے۔ پھر موت کھڑکی کے راستے اندر آئی، انہیں لیا اور اُسی کھڑکی سے باہر نکل گئی اور اب تم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہو کہ    ؎
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا
کم ہے! وقت بہت کم ہے خدا کے بندو! جن کے ماں باپ حیات ہیں، اپنے آپ کو خوش بخت گردانیں، اُن کے پیروں میں جوتے اپنے ہاتھوں سے ڈالیں، تمہارے جوتے اگر ملازم پالش کرتا ہے تو ماں باپ کے جوتے اپنے ہاتھوں سے پالش کرو! انہیں ہر وہ سہولت بہم 
پہنچائو جو تم نے اپنے آپ کو اپنی بیوی کو اپنی اولاد کو فراہم کی ہوئی ہے۔ ان کا کمرہ 
صاف رکھو، ان کے لباس پر توجہ دو۔ انہیں ان کی مرغوب غذا کھلائو۔ ان کے سینے کے ساتھ لگو، ان کے پائوں پر ہاتھ رکھو۔ ان کے ہاتھوں کو چومو! ان کے علاج معالجہ اور ادویات کی فراہمی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ اس لیے کہ وقت تیز رفتار ہے۔ ٹھہرتا ہے نہ کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بہت جلد تمہارے قویٰ مضمحل ہو جائیں گے۔ تمہارا یہ کڑیل جسم گداز ہو کر ضعیف ہو جائے گا۔ تمہارا چہرہ جھریوں سے اَٹ جائے گا۔ تمہارے پیروں کی سکت ہوا ہو جائے گی۔ تمہارے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔ تمہاری بینائی میں خلل واقع ہو جائے گا۔ تمہاری یادداشت ناقابلِ اعتبار ہو جائے گی۔ تم پہلے محلے میں، پھر اپنے کوچے میں، پھر اپنے مکان میں اور آخر کار اپنے کمرے میں محدود و مقید ہو کر رہ جائو گا۔ تم اولاد کے دست نگر ہو جائو گے۔ یہ وقت ہے جو تم پر کٹھن ہو گا۔ اس لیے کہ تمہیں ایک ایک بات یاد آئے گی۔ تم اپنے بچوں کے سلوک پر اپنے آپ سے کہو گے کہ میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور میں نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔
پس جو جانتا ہے، وہ تو جانتا ہے، جو نہیں جانتا، وہ اچھی طرح، کسی شک و شبہ کسی ابہام کے بغیر جان لے کہ جیسا کرے گا ویسا ہی پیش آئے گا۔ سیب کا درخت لگائے گا تو جھولی میں سیب گریں گے اور ببول کا پیٹر لگائے گا تو دامن کانٹوں سے بھر جائے گا۔
اور وہ جو اِن آسمانی طائروں سے محروم ہو چکے ہیں، رفتگاں کے لیے دعائیں کریں۔ اُن کی مغفرت کے لیے گڑ گڑائیں، اپنی کوتاہیوں اور فروگزاشتوں پر معافی مانگیں۔ یہ مقدس مہینہ ہے۔ تکبر اور نخوت کو اور خوش گمانی کو ایک طرف پھینک کر غلط رویے کو دل کی گہرائیوں میں تسلیم کریں۔ اس لیے کہ رضا کا تسلیم کے ساتھ گہرا رشتہ ہے۔ اپنے ماں باپ کے رشتہ داروں، دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ کیا خبر تلافی ہو جائے۔
اور کوئی بھول کر بھی یہ گمان نہ کرے کہ اس نے حق ادا کر دیا ہے۔ اس لیے کہ حق تو اس ایک رات کا بھی نہیں ادا کیا جا سکتا جو ماں نے پیٹ میں رکھ کر تکلیف میں بسر کی۔ اور اُس ایک ہاتھ کا بھی نہیں ادا کیا جا سکتا جو باپ نے سر پر رکھا۔ ثواب تو کیا، یہی انعام کیا کم ہے کہ پکڑ نہ ہو! اور وہی قسمت کا دھنی ہو گا جو پکڑ سے بچ جائے گا۔ 
اور اس کالم نگار کو دیکھیے، گناہوں کی گٹھڑی اس کی شناخت ہے    ؎
شاید جگرِ حزیں ہمین است
از بارِ گنہ کمر خمیدہ
یہی ہے غم زدہ جگرؔ۔ بارِ عصیاں سے کمر جھکی ہوئی! 
ہو سکے تو دعا کر دیجیے کہ کوتاہیاں معاف ہو جائیں!
طوفِ کعبہ کو گئے تو باقیؔ
میرے حق میں بھی دعا کیجیے گا



بی بی تھریسامے کی کس مپرسی

$
0
0

برطانیہ میں الیکشن ہوئے۔ خاک الیکشن ہوئے۔ سچ پوچھیے تو 
ذرا مزہ نہیں آیا۔
انگریز بہادر ہندوستان میں وارد ہوا تو شروع شروع میں اس نے اپنے طور کوشش کی کہ گھل مل جائے۔ نوابوں کا طرزِ زندگی اسے یوں بھی خوب بھایا۔ چنانچہ بہت سے صاحب بہادروں نے انگرکھا اور پاجامہ پیش کیا۔ قالین بچھائی ‘گائو تکیے رکھے ۔ حقہ پینا شروع کیا اور تو اور‘ شادیاں بھی مقامی خاندانوں میں کیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی میں ہر تین انگریزوں میں سے ایک کی بیگم ہندوستانی تھی ۔ ایسے انگریزوں کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح وضع کی گئی۔ ’’وائٹ مغل‘‘ یعنی وہ برطانوی جو ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں کے رنگ میں رنگے گئے۔
یہ لارڈ ولز لے تھا جس نے آ کر اس رجحان کے آگے تکبر اور استعمار کا بند باندھا۔1797ء میں وہ ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو یہ ’’چونچلے‘‘ اسے پسند نہ آئے۔ اس کا اصول صاف اورواضح تھا:
حاکم حاکم ہے اور محکوم محکوم! کون سے ہندوستانی اور کیسی شادیاں! قالینوں‘ حقوں‘ انگرکھوں چوڑی دارپا جاموں‘ پان کی گلوریوں اور پازیب پہنے تھرکتے پیروں کا انگریزی تہذیب سے کیا تعلق! ولز لے نے اپنے قیام کے دوران نہ صرف ٹیپو سلطان کا ’’کانٹا‘‘ استعمار کے راستے سے نکال دیا بلکہ ایک ایسا رویہ ایسا ذہن اور ایسا مائنڈ سیٹ انگریزوں کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا جس کے بعد دو تہذیبوں کا اختلاط ختم ہو گیا۔
لگے ہاتھوں یہاں روسی استعمار کا بھی اسی حوالے سے ذکرہو جائے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں روسیوں نے وسط ایشیا کے شہروں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کیا۔1865ء میں زار کی فوجیوں نے تاشقند پر حملہ کیا تو روسی آرتھوڈکس چرچ کا نمائندہ پادری‘ صلیب اٹھائے لشکر کی قیادت کر رہا تھا۔ لینن کا بالشویک انقلاب آیا تو وسط ایشیا کو آزادی کا خواب دکھایا گیا مگر سٹالن کے آنے تک استعمار جڑیں پکڑ چکا تھا۔ پھرروسیوں کو ان علاقوں میں بسانے کا پروگرام بنا۔
سوویت یونین 1991-92ء میں منہدم ہوا تو سفید فام باشندے تاشقند میں آبادی کا چالیس فیصد ہو چکے تھے مگر یہ وہ روسی نہیں تھے جو صرف وڈ کاپر گزارہ کریں۔ انہوں نے مقامی معاشرت کو بہت حد تک اپنا لیا تھا۔ان کے گھروں میں قالینوں کے فرش تھے اوریہ ازبکوں کی طرح پھل افراط سے کھانے لگے تھے۔ سوویت یونین ٹوٹا تو ان میں سے بہت سے روسی واپس چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اپارٹمنٹوں میں قالینیں بچھائیں اور ان بے مثال پھلوں کی تلاش میں بازاروں میں نکلے جو وہ تاشقند بخارا اور ترمذ میں کھایا کرتے تھے۔ پھل تو خیر وہاں کیا ملتے‘ پرانے روسیوں کو ان کی قالین پسندی بھی بری لگی۔ چنانچہ بہت سے روسی وسط ایشیا واپس آ گئے۔ اس کالم نگار کو ایک بار ٹرین میں تاشقند سے بخارا تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بارہ گھنٹوں پر محیط تھا۔ سکینڈ کلاس ڈبے میں چھ افراد کی گنجائش تھی ایک ازبک خاندان ہم سفر تھا۔ تمام راستہ وہ انواع اقسام کے کھانے کھاتے رہے اور اس ہم سفر کو زبردستی شدید اصرار کے ساتھ‘ شریکِ طعام رکھا۔ قسم قسم کے خشک اور تازہ پھل ‘لذیذ نان‘ مرغِ بریاں‘ سوپ اور چائے کا دور تو چلتا ہی رہا کہ وہاں پانی پینے کا رواج نہیں۔ ٹرین میں انتظامیہ نے جگہ جگہ سماوار رکھے تھے جن سے چائے کے لیے گرم پانی لیا جاتا تھا۔ ایک اور سفر میں بخارا سے ٹرین پر تاشقند تک کا سفر کیا۔ پھربارہ گھنٹے! بیگم رفیقِ سفر تھیں ایک سفید فام ماسکو سے آیاہوا روسی جوڑا ساتھ تھا۔ ہماری ہی عمر کے ہوں گے۔ بارہ گھنٹوں میں حرام ہے جو انہوں نے ہم سے کوئی بات کی ہو یا آپس میں ہی بولے ہوں یا کچھ کھایا پیا ہو! آنکھیں تک نہ کھولیں کہ ہم ہی کچھ پیش کرسکتے!
لارڈ ولزلے کی بات ہو رہی تھی کیا عجب وہ نہ آتا تو برطانوی ہند کی صورت حال مختلف ہوتی! یوں بھی استعمار محکوموں کی معاشرت پر اثر انداز ہی ہوتا ہے۔ ان کی معاشرت سے خال خال کچھ اپناتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد شام‘ فلسطین اور اس پورے علاقے کو انگریزوں اور فرانسیسیوں نے آپس میں بانٹ لیا اور اس کا نام 
MANDATE
(انتداب) رکھا۔ پہلے بھی اس کالم نگار نے کہا ہے کہ اقبال کی ضربِ کلیم کا باب ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ انٹرنیشنل افیئرز کے طلبہ کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ شام پر یورپ کے قبضہ کا ذکر خوب کیا ہے     ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
بنی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
انگریز دو اڑھائی سو سال ہم پر حکمران رہے۔ ہمیں کرکٹ دے گئے‘ آملیٹ بنانا سکھا دیا انگریزی کی گِٹ مِٹ بھی سونپ گئے۔ مگر افسوس! ہم سے کچھ نہ سیکھا۔ کچھ سیکھا ہوتا تو برطانیہ کا حالیہ الیکشن اتنا پھیکا ‘ اتنا بے رنگ اتنابور نہ ہوتا!
ہم سے انگریزوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو بی بی تھریسامے کبھی اپنے پیروں پر خود کلہاڑی نہ مارتی اور آبیل مجھے مار کہہ کر الیکشن وقت سے پہلے نہ کراتی! یہاں دیکھ لیجیے‘ کون سی قیامت نہ اتری اور کون سا حشر نہ ٹوٹا۔ عدالت عالیہ کے دو منصفوں نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا ۔ تشبیہات ڈان اور مافیا تک پہنچ گئیں۔ خاندان کا خاندان لائن حاضر ہے مگر کیا مجال کہ تخت سے اترنے یا الیکشن پہلے کرانے کا خیال بھی آیا ہو! مستقل مزاجی ہو تو ایسی ہو! زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ڈان لیکس کا ڈول حکومت نے خود ڈولا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پاناما کیس اور ڈان لیکس سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمین تہہ و بالا بھی ہو جائے‘ کراچی گلگت میں جا بسے اور راکا پوشی گوادر کے ساحل سے چھلانگ لگا کر سمندر میں غائب ہو جائے تب بھی ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ آئے! تھریسامے ہوتی تو پاناما لیکس کا نام سنتے ہی پائوں ڈگمگا جاتے اور ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ لاتی تو میڈیا سے لے کر اپوزیشن تک اور عوام سے لے کر اس کی اپنی کابینہ تک سب درپے ہو جاتے!
یہ کیسا الیکشن تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں ووٹروں سے گاڑیاں بھر بھر کر پولنگ سٹیشنوں پر 
نہیں آئیں۔ اسلحہ کی نمائش تک نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں ہر الیکشن پر اور کچھ نہیں تو چھ 
سات ہلاکتیں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر گولی چل جاتی ہے۔ گالیوں اور دھمکیوں کا تبادلہ تو عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کسی سرکاری اہل کار کو تھپڑ بھی رسید کر جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کیاڈرپوک اور بابو منشی قسم کے لوگ ہیں! پجارو کلچر تک نہیں نظر آتا۔ لکڑی کی طرح کھڑ کھڑاتا ‘ خالص کاٹن کا لباس پہنے‘ ہاتھ میں گولڈ لیف کی ڈبی پکڑے۔ انگلی میں انگوٹھی دکھاتے چوہدری ‘مہر ‘خان ‘ ملک اگلی پجارو سے اترتے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں پر کلاشنکوف بردار محافظ!! انگریزوں کو مزہ آ جاتا ! سرداری‘چوہدراہٹ ‘ خان گیری نہ ہو تو ووٹ کون دیتا ہے بھئی! ووٹ اسے ملتا ہے جوتھانیدار تحصیل دار پٹواری کا تبادلہ ایک فون سے کرا دے‘ ایس پی اور ڈی سی او اپنی مرضی کا تعینات کرائے۔ اور ’’خونی انقلابی‘‘ لانیوالے اور حبیب جالب کے نغمے الاپنے والے وزیر اعلیٰ سے کہہ کر ناپسندیدہ افسر کو فوراً علاقے سے دور بھجوا دے!
پورے برطانیہ میں ایک بیلٹ بکس بھی کوئی نہ لے اڑا! بزدلی کی حد ہے! حیرت اس پر ہے کہ کیا یہی قوم ہے جس نے نیوزی لینڈ سے لے کر برٹش کولمبیا تک اور مصر سے لے کر جنوبی افریقہ تک حکومت کی اور جس کی ایمپائر پر سورج غروب نہ ہوتا تھا! اتنے ڈرپوک کہ ووٹ ڈالنے والے نہتے‘ عام شہریوں کے فیصلے ہر سر جھکا دیں! غضب خدا کا‘ کسی ایک پارٹی نے کسی ایک امیدوار نے دھاندلی کا رونا نہ رویا! حالانکہ یہ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ ہم نے تو یہ میراسی سے سیکھا ہے۔ کاش ہم سے انگریز سیکھ لیتے۔ میراسی قمار بازی کر رہا تھا۔ جو کچھ پلے تھا‘ دائو پر لگاتا گیا اور ہارتا گیا۔ کچھ نہ بچا تو بیوی دائو پر لگا دی۔ بیوی نے غیرت دلائی‘ بے شرم ہار گئے تو یہ مجھے لے جائیں گے! میراسی نے پیلے دانت نکالے اور تسلی دی۔ نیک بخت ! میں ہار تسلیم کروں گا تو لے جائیں گے نا! میں تو مانوں گا ہی نہیں!! سو‘ ہم شکست تسلیم ہی نہیں کرتے! دھاندلی کچھ تو ہوتی بھی ہے اور عمر بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے !
پھر ستم بالائے ستم دیکھیے کہ لیبر پارٹی نے ٹوری پارٹی کے امیدوار توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوئی سعی نہ کی! ٹوری پارٹی نے بھی لیبر کے ارکان کو سبز باغ دکھا کر ورغلانے کی کوشش نہ کی! جوڑ توڑ‘ نہ ہارس ٹریڈنگ! تعجب ہے کہ پاکستانی یہاں سے اپنے اپنے فرقے کے مولوی اور پیر تو برطانیہ لے گئے‘ لوٹے لے کر نہ گئے ورنہ وہاں کی سیاست میں بھی لوٹے بہار دکھاتے اور راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہوتیں!
اور نالائقی کی انتہا دیکھیے کہ پارٹیوں کے سربراہ تبدیل ہو جاتے ہیں! لیبر پارٹی ہی کو لیجیے‘ 1980ء سے لے کر اب تک دس سیاست دان اس پارٹی کی سربراہی کر چکے ہیں۔ یعنی اوسطاً ہر تین سال سات ماہ بعد پارٹی کا لیڈر تبدیل ہوتا رہا۔ یہی ’’عدم استحکام‘‘ ! جی ہاں! ’’عدم استحکام‘‘ کنزر ویٹو پارٹی کی قسمت میں رہا! 
1975ء میں بی بی مارگریٹ تھیچر پارٹی کی قائد منتخب ہوئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بی بی عقل سے کام لیتی‘ اپنے بعد پارٹی اپنے بیٹے یا بیٹی کو یا بھائی کو سونپتی۔ مگر دامن جھاڑ کر رخصت ہوئی اور پلٹ کر نہ دیکھا! ایک کے بعد ایک سربراہ آتا گیا۔ پھر ہٹتا گیا۔ (باقی صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
اب یہ جو بی بی تھریسامے ہے یہ تھیچر کے بعد ساتویں سربراہ ہے! اس دوران جان میجر بھی بھگتا دیئے گئے اور ڈیوڈ کیمرون بھی ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو! کاش ہم سے یہ سفید چمڑی والے کچھ تو سیکھتے! دیکھیے عشروں پر عشرے گزر رہے ہیں! دہائیوں پر دہائیاں بیت رہی ہیں! وہی نواز شریف پارٹی کے سربراہ ہیں! وہی بھٹو یعنی زرداری خاندان! وہی اسفند یار ولی‘ وہی مولانا فضل الرحمن! وہی چوہدری شجاعت الٰہی ‘ وہی الطاف حسین ‘ وہی عمران خان اور وہی چادر پوش افغان نواز اچکزئی ! اسے کہتے ہیں قیادت کا تسلسل! اسے کہتے ہیں استحکام! اسے کہتے ہیں مستقل مزاجی! ہائے بدقسمت تھریسامے! بیچاری کے دفاع کے لیے وہاں کوئی دانیال عزیز ہے نہ رانا ثناء اللہ ! نہ کوئی آصف کرمانی! نہ کوئی ایمبولینس بھیجنے والا ڈاکٹر فضل چوہدری!! کیا بے بسی ہے اور کس مپرسی کا عالم! اور یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ یہ بی بی جب وزارتِ عظمیٰ سے ہٹی تو اسے کوئی پوچھے گا ہی نہیں! برگر کنگ یا میکڈانلڈ کے سامنے قطار میں کھڑی ہو کر کھانا خریدے گی! بس میں عام پبلک کے ساتھ سفر کرے گی! مگر یہ انگریز شروع ہی سے نالائق اور کند ذہن ہیں! اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنے والا کلائیو سراج الدولہ اور اس کے لشکریوں سے پالکی میں بیٹھنا تک نہ سیکھ سکا!!


ممیاتی‘ سرہلاتی بھیڑیں

$
0
0
بھیڑیں یہاں ہیں اور چرواہا سات سمندر پار!
آتا ہے تو بھیڑیں اس کے گرد اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ وہ انہیں سبز چرا گاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ بھیڑیوں کے خلاف تقریریں کرتا ہے۔ دلکشن‘ لاجواب‘ موثر‘ وجد آفریں تقریریں! بھیڑیں اس کی تقریریں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں۔ نعرے لگاتی ہیں۔ مال پڑتا ہے۔ دھمال ڈالتی ہیں۔
’’میں بھیڑیوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جن بھیڑوں کو بھیڑیوں نے ہلاک کیا تھا‘ ان کا قصاص لوں گا۔ قصاص لیے بغیر یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گا۔‘‘
بھیڑیں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں‘ ممیاتے ممیاتے نعرہ لگاتی ہیں! چرواہے کے ہاتھ چومتی ہیں۔ گھٹنوں کو چھوتی ہیں۔ قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتی ہیں۔
ایک دو ماہ گزرتے ہیں۔ چرواہا اس اثنا میں پوٹلیاں باندھتا ہے۔ سامان سے بھری ہوئی پوٹلیاں! تازہ گھاس کے گٹھے‘ سبز پتوں کے انبار! بھوسے کے ڈھیر! غلے سے بھری بوریاں! تازہ پھل! پھر ایک صبح وہ یہ ساری پوٹلیاں سر پہ رکھے‘ بغل میں دبائے‘ ہاتھوں میں پکڑے‘ اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے۔ اڑ کر سات سمندر پار جا پہنچتا ہے جہاں اس کا اصل ٹھکانہ ہے! جہاں چراگاہیں شاداب ہیں‘ پانی مصفیّٰ ہے‘ آسمان شفاف نیلا ہے۔ جہاں بحرالکاہل کے بہشت آسا ساحل ہیں۔ جہاں اوقیانوس کے پانی خوبصورت زمینوں کو چومتے ہیں! جہاں بادل سنہری ہیں اور ممیاتی بھیڑیں جہاں کا تصور تک نہیں کرسکتیں!
بھیڑیں اکیلی رہ جاتی ہیں! چرواہے کے بغیر! ممیاتی ہیں! خاموشی سے دن گزارتی ہیں! اب وہ بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھیڑئیے جو چاہے سلوک کریں! چرواہا سات سمندر پار ہے۔ اسے بھیڑوں کی خبر ہے نہ پرواہ!
سال گزرتا ہے۔ ایک دن بھیڑوں کو معلوم ہوتا ہے کہ چرواہے کی آمد آمد ہے! وہ پھر ممیاتی‘ ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ ناک کی سیدھ میں دوڑتی‘ وہاں جمع ہوتی ہیں جہاں اڑن کھٹولے نے اترنا ہے۔ چرواہا اترتا ہے۔ ممیاتی بھیڑیں استقبال کرتی ہیں۔ چرواہا پھر ایک دلدوز‘ اثر آفریں تقریر کرتا ہے۔ بھیڑیوں کو للکارتا ہے۔ پھر قصاص کا نعرہ لگاتا ہے۔ بھیڑیں نعرے کا جواب دیتی ہیں۔ ایک ماہ گزرتا ہے۔ چرواہا پھر سامان سے بھری پوٹلیاں اٹھائے اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے اور سمندر پار جا اترتا ہے!
یہ تماشا ایک عرصہ سے لگا ہے! مگر چرواہے کا کمال ہے یا اس کی قسمت! کہ بھیڑیں اس سے کبھی نہیں پوچھتیں کہ تم کیسے چرواہے ہو؟ تم کہاں چلے جاتے ہو! کیوں جاتے ہو! یہیں رہ کر قصاص کا مطالبہ منواتے کیوں نہیں! تم جنہیں بھیڑئیے کہتے ہو‘ ان کے رحم و کرم پر ہمیں چھوڑ کر بھاگ کیوں جاتے ہو! ان پوٹلیوں میں کیا ہوتا ہے؟ کہاں سے لیتے ہو؟ کہیں یہ ہمارا چارہ ہی تو نہیں جو تم سمندر پار اکٹھا کر رہے ہو! کوئی بھیڑ یہ سوال پوچھنے کا نہیں سوچتی! چرواہے کی چاندی ہے۔ اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے!  وہ یہاں کے مزے بھی لوٹتا ہے‘ وہاں کے بھی! یہاں بھی نجات دہندہ کہلاتاہے‘ وہاں بھی دادِ عیش دیتا ہے! بھیڑیں ممیاتی ہیں! ممیانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں!
یہ بھیڑوں کے صرف ایک گلے کا تذکرہ نہیں! یہ ممیاتی‘ جگالی کرتی‘ سر جھکا کر ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ بیس کروڑ بھیڑوں کی المناک داستان ہے! ان بھیڑوں کے اپنے اپنے گلے ہیں۔ اپنے اپنے باڑے ہیں۔ اور اپنے اپنے چرواہے! کوئی چرواہا لندن میں رہتا ہے۔ بھیڑیں یہاں سے اس کا سامان خورو نوش اور عیش و عشرت بھیجتی ہیں۔ چرواہا خوب موٹا تازہ ہورہا ہے۔ چہرے کی کھال وزن کی زیادتی سے لٹکنا شروع ہورہی ہے۔ یہ چرواہا ٹیلی فون پر تقریریں کرتا تھا تو سہمی‘ ممیاتی بھیڑیں فرشِ زمین پر بیٹھ کر اس کی تقریریں سنتی تھیں اور سر ہلاتی تھیں! چرواہا گالیاں دیتا تھا۔ گانے گاتا تھا۔ ڈانٹتا تھا! بھیڑیں مسلسل سر ہلاتی تھیں!
بھیڑوں کا ایک اور گلہ ہے جس کا  چرواہا وقفے وقفے سے دبئی جاتا ہے جہاں اس کے محلات اور خدام ہیں! بلکہ یوں کہیے کہ وہیں رہتا ہے۔ ہاں وقفے وقفے سے بھیڑوں کے پاس آتا ہے! ممیاتی بھیڑوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ تقریریں جھاڑتا ہے۔ بھیڑیں خاموشی سے‘ سعادت مندی سے‘ فرماں برداری سے سر ہلاتی ہیں۔ پھر چرواہا واپس دبئی چلا جاتا ہے۔ بھیڑوں کے تتر بتر ہونے کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ چرواہا‘ اپنے بیٹے کو یعنی چھوٹے چرواہے کو بھیجتا ہے۔ وہ بکھری ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے لیے چیختا چلاتا ہے‘ انہیں سبز چراگاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ کچھ ممیا کر اس کی باتوں پر سر ہلاتی ہیں۔ کچھ تتر بتر ہونے والی بھیڑوں کے پیچھے چلتی جاتی ہیں۔ کسی اور گلے کی تلاش میں‘ کسی اور چرواہے کی تقریریں سننے اور سر ہلانے کے لیے!
یہ بیس کروڑ ممیاتی جگالی کرتی بھیڑیں صرف سیاسی چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بن رہیں‘ انہیں قسم قسم کے چرواہے الو بنانے میں مصروف ہیں! کچھ چرواہوں نے روحانیت کی کھالیں اوڑھی ہوتی ہیں! مستقبل میں کیا ہوگا؟ ساری روحانیت ان پیش گوئیوں پر کھڑی ہے ان روحانی چرواہوں کا ایک سائڈ بزنس روحانیت بھری کتابوں کی فروخت ہے! بس کتاب کے عنوان میں روحانیت کا لفظ آ جائے یا فقیر کا لفظ! پھر چاندی ہی چاندی ہے! بھیڑیں فقیر کے لفظ پر‘ روحانیت کے ذکر پر جان دیتی ہیں! نجات کا آسان طریقہ! ہینگ لگے نہ پھٹکری! اکل حلال کی قید نہ فرائض کی سرانجام دہی! ایک روحانی چرواہے نے تو برملا کہہ دیا کہ اس کا مرشد نماز سے بے نیاز تھا!
بھیڑوں کے ان گلوں کو اپنے پیچھے لگانے کے لیے کچھ چرواہوں نے ستارے دیکھنے کی‘ کچھ نے زائچے بنانے کی‘ کچھ نے دست شناسی کی چادریں اوڑھی ہوئی ہیں! بھیڑیں جوق در جوق ان کے گرد جمع ہوتی ہیں! ممیاتی ہیں! سر ہلاتی ہیں! کچھ جنات کے ماہر ہیں! بھیڑوں کی ذلت کی کوئی انتہا نہیں! بے آبرو ہوتی ہیں۔ ان کے جسموں پر لگی اون کتر دی جاتی ہے۔ ان کے بچوں کو یہ چرواہے جن نکالنے کے دوران اذیت دے دے کر مار ہی ڈالتے ہیں! ان بھیڑوں کی جمع شدہ پونجی پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ ان بھیڑوں کے بچوں کے سروں کو لوہے کی ٹوپیوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ بھیڑیں بڑی ہو جاتی ہیں۔ سر چھوٹے رہ جاتے ہیں! چرواہے ان چھوٹے سروں والی نیم پاگل بھیڑوں کو مقدس قرار دیتے ہیں! یہ سن کر مزید بھیڑیں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں کہ ان کے سروں کو بھی لوہے کی ٹوپیوں میں جکڑو تاکہ یہ بھی بڑے ہو کر مقدس بنیں!
یہ بیس کروڑ بھیڑیں‘ دنیا کی عجیب و غریب بھیڑیں ہیں! یہ جس کو بھی تھری پیس سوٹ پہنے‘ ٹائی لگاتے دیکھتی ہیں تو سر! سر! کہنا شروع ہو جاتی ہیں اور خوب مرعوب ہوتی ہیں! کوئی(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 جھنڈے والی قبر دیکھتی ہیں تو ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں! کسی کو لمبا سبز چولا پہنے‘ گلے میں مالا ڈالے دیکھتی ہیں تو رکوع میں چلی جاتی ہیں! کوئی غیب کی خبریں بتانے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے گرد جمگھٹا لگالیتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ چومتی ہیں‘ کسی کے پائوں چھوتی ہیں‘ کسی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتی ہیں! کسی کو عمر بھر کی کمائی دے کر خود قلاش ہو جاتی ہیں!
ستر سال سے یہ بھیڑیں ان سیاسی‘ روحانی‘ مذہبی اور قسم قسم کے چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف بن رہی ہیں! کسی نے انہیں بھیڑیوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کسی نے ان کی چراگاہوں کے اردگرد باڑ نہیں لگائی‘ کسی نے ان کے درختوں کی حفاظت نہیں کی! کسی نے ان کے بچوں کی فکر نہیں کی! ہر چرواہے نے انہیں محض خواب دکھائے۔ ان سے نعرے لگوائے۔ عملاً کچھ نہیں کیا۔ اور تو اور‘ بعض چرواہے بھیڑیوں کے ساتھ مل گئے اور انہیں بھیڑیں پیش کرتے رہے۔ کچھ نے بھیڑیں فروخت کردیں! حالت یہ ہے کہ اب چراگاہ سوکھ گئی ہے۔ پتے پیلے پڑ گئے ہیں۔ درخت ٹنڈ منڈ ہو گئے ہیں! دریا خشک ہورہے ہیں! بھیڑیوں کے غول چراگاہ کے اردگرد دندناتے پھر رہے ہیں! مگر کسی چرواہے کو بھیڑوں کی فکر نہیں!
آج کل پھر ایک چرواہا سمندر پار سے آیا ہوا ہے!

احسان؟ کون سا احسان؟

$
0
0

امیرالمومنین عمر فاروقؓ اور امیرالمومنین علی مرتضیؓ عدالتوں میں پیش ہوتے 
رہے۔ کیا کبھی انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ایسا کر کے امت پر احسان کر رہے ہیں؟
خاتون وزیر نے کہا کہ وزیراعظم پیش ہو کر تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ فراق گورکھپوری یاد آگیا   ؎
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مسئلۂِ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
ایک گروہ ہے مفاد اٹھانے والوں کا…
 Beneficiaries
 کا‘ جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ وزیراعظم پیش ہو کر قوم پر احسان کر رہے ہیں! نہیں‘ایسا کر کے وزیراعظم اپنے آپ پر احسان کر رہے ہیں۔ تاریخ انہیں سنہری لفظوں سے یاد کرے گی کہ عدالت میں پیش ہو کر ملک کی سیاسی تاریخ کو ارتقا کی طرف لے گئے۔ ہم پختگی 
 Maturity)
 (کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاسی حکومت کے تختے الٹے جاتے تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ حکومت کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ تمام مہذب‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے۔
نہیں‘محترمہ وزیر صاحبہ! ادب کے ساتھ عرض ہے کہ تاریخ تو کب کی رقم ہو چکی۔ یہ زید بن ثابت کی عدالت تھی جس میں امیرالمومنین حضرت عمرؓ مدعاعلیہ کے طور پر پیش ہوئے۔ وقت کا حکمران عدالت میں داخل ہوا تو جج زید بن ثابت احتراماً کھڑے ہو گئے۔’’یہ پہلی زیادتی ہے جو تم دوسرے فریق کے ساتھ کر رہے ہو‘‘! امیرالمومنین ناراض ہوئے۔
ستر سال تک قاضی شریح امت کے جھگڑوں میں فیصلے صادر کرتے رہے۔ کیا کسی کو یاد ہے امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے شریح کو جج کیوں مقرر کیا تھا؟ امیرالمومنین ایک شخص سے گھوڑا خریدنے کی بات چیت کررہے تھے۔ گھوڑے کو ٹیسٹ کرنے کے لیے آپ اس پر سوار ہوئے‘ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور ٹانگ متاثر ہوگئی۔ اس شخص نے گھوڑا واپس لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب خریدنا پڑے گا۔ بات بڑھ گئی۔ گھوڑے کے مالک نے کہا کہ شریح سے فیصلہ کراتے ہیں۔ شریح نے دونوں کا موقف سنا اور کہا کہ امیرالمومنین! گھوڑا جس حالت میں آپ نے لیا تھا‘ اسی حالت میں واپس کیجئے۔ امیرالمومنین نے فیصلہ قبول کیا اور شریح کو مسلمانوں کا قاضی مقرر کر دیا۔
زرہ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کی تھی مگر یہودی کے قبضے میں تھی۔ یہودی کا دعویٰ تھا کہ یہ اس کی اپنی ہے۔ عدالت میں پیش ہوئے۔ یہودی نے جھوٹے گواہ پیش کئے۔ حسنؓ اور حسینؓ کی گواہی قاضی نے تسلیم نہ کی اس لیے کہ وہ مدعی کے صاحبزادے تھے۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کے مقام سے کون نا آشنا تھا! مگر مسلمانوں کے قاضی نے فیصلہ یہودیوں کے حق میں کیا۔ یہ اور بات کہ اس نظر آنے والے انصاف سے یہودی اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تسلیم کیا کہ ہاں‘زرہ خلیفہ ہی کی ہے اور مسلمان بھی ہوگیا۔
’’اسرار و رموز‘‘ میں علامہ اقبال نے ایک حکایت نظم کی ہے۔ ہاں‘ وہی علامہ اقبال جس کی فارسی شاعری ایران سے لے کر تاجکستان تک پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔ یوں بھی جب انتخابات جیتنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس معاشرے میں سیکنڈ کلاس شہری سمجھا جائے گا تو کون بے وقوف ہے جو علم حاصل کرے گا! اب اقبال کی زبانی یہ واقعہ سنیے:
بُود معماری ز اقلیم خجند
در فنِ تعمیر نامِ اُو بلند
خجند کے علاقے میں (اب تاجکستان میں ہے۔ روسیوں نے 1936ء میں اس کا نام لینن آباد رکھ دیا۔ 1991ء میں دوبارہ اصل نام پڑا) ایک معمار تھا جو اپنے فن میں شہرۂ آفاق تھا۔
ساخت آن صنعت گرِ فرہاد زاد
مسجدی از حکمِ سلطان مراد
بادشاہِ وقت مراد تھا۔ اس کے حکم پر اس باکمال معمار نے ایک مسجد تعمیر کی
خوش نیامد شاہ را تعمیر اُو
خشمگین گردید از تقصیر اُو
بادشاہ کو اس کی تعمیر پسند نہ آئی۔ اس کی غلطی سے وہ غضب ناک ہو گیا۔
آتشِ سوزندہ از چشمش چکید
دست آن بیچارہ از خنجر برید
بادشاہ کی آنکھوں سے جلا دینے والی آگ برسنے لگی اور اس بے چارے کا ہاتھ خنجر سے کاٹ دیا۔
جوئی خون از ساعدِ معمار رفت
پیش قاضی ناتوان وزار رفت
معمار کی کلائی سے خون کی ندی پھوٹ پڑی۔ وہ مجبور و بے کس ہو کر قاضی کے پاس گیا۔
آن ہنر مندی کہ دستش سنگ سفت
داستانِ جورِ سلطان بازگفت
اس ہنر مند معمار نے کہ جس کے ہاتھ نے پتھر پروئے تھے‘ بادشاہ کے ظلم کی داستان کہی۔
گفت ای پیغامِ حق گفتارِ تو
حفظ آئین محمدؐ کارِ تو
اس نے قاضی سے کہا کہ آپ کی بات خدا کا پیغام ہے اور آپ کا فرض ہے کہ محمدؐ کے آئین کی حفاظت کریں۔
قاضی عادل بدندان خستہ لب
کرد شہ را در حضور خود طلب
انصاف پسند قاضی نے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور بادشاہ کو اپنے حضور طلب کیا
رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید
پیش قاضی چون خطا کاران رسید
قرآن کی ہیبت سے بادشاہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ مجرموں کی طرح قاضی کے حضور پیش ہوا۔
از خجالت دیدہ بر پا دوختہ
عارضِ اُو لالہ ہا اندوختہ
ندامت سے اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں جیسے پائوں کے ساتھ سل ہی گئی 
ہوں۔ شرم سے اس کے رخسار لالہ گوں ہورہے تھے
یک طرف فریادیٔ دعویٰ گری
یک طرف شاہنشہِ گردوں فری
ایک طرف مدعی جو فریادی تھا اور دوسری طرف جاہ و جلال والا شہنشاہ!
گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام
اعتراف از جرمِ خود آوردہ ام
بادشاہ نے کہا مجھے اپنے کیے پر ندامت ہے۔میں اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہوں۔
گفت قاضی فی القصاص آمد حیات
زندگی گیرد باین قانون ثبات
مگر قاضی نے کہا کہ زندگی تو قصاص میں ہے۔ حیات اسی قانون سے قائم و دائم ہے۔ (قاضی کا اشارہ اس آیت مبارکہ کی طرف تھا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔)
چوں مراد این آیۂ محکم شنید
دست خویش از آستین بیرون کشید
جب شہنشاہ مراد نے یہ آیت مبارکہ سنی تو اپنا ہاتھ آستین سے باہر نکال کر پیش کردیا۔
مدعی را تابِ خاموشی نماند
آیۂ بالعدل والا حسان خواند
دعویٰ کرنے والا معمار اس پر چپ نہ رہ سکا‘ اس نے وہ آیت پڑھی جس میں عدل و احسان کا ذکر ہے۔
گفت از بہر خدا بخشید مش
از برائی مصطفی بخشید مش
میں خدا کے لیے اور محمد مصطفیؐ کی خاطر معاف کرتا ہوں۔
یافت موری برسلیمانی ظفر
سطوتِ آئینِ پیغمبر نگر
ایک چیونٹی نے سلیمان ؑ پر فتح پالی۔ پیغمبر کے آئین کی شان و شوکت تو دیکھو۔
پیشِ قرآن بندہ و مولا یکی ست
بوریا و مسندِ دیبا یکی ست
قرآن کے سامنے غلام اور مالک برابر ہیں اور بوریا اور ریشمی مسند میں کچھ فرق نہیں۔
رہا بار بار یہ پانی بلوناکہ صرف ایک خاندان کا احتساب کیوں؟ تو پانامہ پیپرز میں نام شریفوں کا ہے اور احتساب رعایا کا نہیں‘ حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ پانچ سال آصف زرداری برسراقتدار تھے۔ مسلم لیگ نون نے کیوں نہ ان کے جرائم کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دعویٰ تھا کہ پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے۔ کیوں نہ نکالی؟ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر حکمرانوں کا پہلے اور رعایا کا بعد میں! یہ نکتہ پہلے بھی پیش کیا تھا کہ بڑھیا نے جب امیرالمومنین سے کرتے کا حساب مانگا تو آنجنابؓ نے جواباً یہ نہیں فرمایا کہ پہلے بڑھیا حساب دے۔ سرتسلیم خم کر کے اپنا حساب دیا!
فارسی والوں نے کیا زبردست محاورہ ایجاد کیا ہے۔ آن را کہ حساب پاک است‘ ازمحاسبہ چہ باک؟ جس کا حساب کتاب درست ہے‘ اسے احتساب سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کہیں نہ کہیں تو حساب ہونا ہے!   ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے

پڑھے لکھے گنّوار

$
0
0

سوٹڈ بوٹڈ عمائدین کا خواتین کو کبھی ٹریکٹر ٹرالی اور کبھی ڈمپر کہنے سے اور جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان سے تشبیہہ دینے سے کم از کم ایک بات ضرور واضح ہو گئی ہے کہ گنّوار پن صرف اس طبقے کی میراث نہیں جسے یہ حضرات نچلا طبقہ کہتے ہیں۔ اب جانگلی زبان صرف وہ افراد نہیں استعمال کرتے جنہوں نے چپل پر کھلے پائنچوں والی شلوار پہنی ہو اور گرمیوں میں بھی گلے میں رنگین مفلر ڈالا ہوا ہو جس کے دونوں سرے مختلف سمتوں میں لہرا رہے ہوتے ہیں۔
میرؔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک بیل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں یہی ذریعۂ آمدو رفت تھا۔ بیل گاڑی میں اور بھی مسافر تھے۔ شاعر نے سارا راستہ کسی سے بات نہ کی کہ عامیانہ لہجے سے زبان نہ متاثر ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے امرا، ٹریکٹر ٹرالی، ڈمپر اور قصائی کی دکان جیسے الفاظ جن کی زبان پر اکثر و بیشتر آتے ہیں، اس بیل گاڑی میں ہوتے تو میرؔ کی کیا حالت ہوتی؟
شمالی ہندوستان کے شہروں میں بچوں کو تہذیب و تربیت کے لیے رقص و سرودوالی عورتوں کے سپرد کیا جاتا تھا۔ شرفا گالی بھی دیتے تھے تو حد ادب کے اندر! فیروز دہلوی نے اپنے مضمون ’’دلی اور دلی والے، چند تہذیبی مرقعے‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ ہر ماہ حکیم اجمل خان صاحب بعد نمازِ عشاء اپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ دلی کے محلہ سوئی گراں میں ان دنوں ایک زر دوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زر دوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انہیں بلوایا اور کہا ’’عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ آپ کوئی ایسی گالی سنائو جس میں کوئی فحش اور بے ہودہ لفظ نہ ہو! ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا!‘‘عمو جان کچھ دیر خاموش رہے پھر تیزی سے اٹھے۔ الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے، جھک کر تین بار سلام کیا پھر کہا۔ ’’عرض کرتا ہوں حکیم صاحب! قبلہ! حضور! میں آپ کا داماد!‘‘ اتنا کہہ کر جوتی پہن یہ جا وہ جا! محفل پر سکتہ طاری ہو گیا۔ سب حکیم صاحب کا منہ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی! گالی ہے! مہذب گالی! عمو جان کو لے کر آئو!‘‘ ملازم دوڑا مگر مرصع گالی دینے والا زر دوز واپس نہ آیا۔ اس زمانے میں آنکھ میں حیا ہوتی تھی! گالی حکیم صاحب کی فرمائش پر دی تھی مگر واپس آنا مناسب نہ سمجھا۔
تہذیب کے اندر رہ کر مزاح پیدا کرنے، طنز کرنے اور چوٹ کرنے کے لیے علم بھی درکار ہے۔ زکاوت بھی اور ذہانت بھی۔ اکبر کے عہد میں بڑے بڑے نابغے اور علم و فضل کے پیکر موجود تھے۔ ان کی آپس میں نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ مشہور شاعر عرفیؔ ابوالفضل کے گھر ملاقات کے لیے گیا۔ ان دنوں ابوالفضل کے بھائی فیضی نے کلامِ پاک کی تفسیر اس طرح لکھی تھی کہ کوئی حرف نقطے والا اس میں نہ آیا تھا۔ عرفی پہنچا تو ابوالفضل قلم دانتوں میں دابے سوچ میں غرق تھا۔ سبب پوچھا۔ ابوالفضل نے کہا بھائی صاحب کی تفسیر کا دیباچہ اُسی صنعت میں(یعنی نقطوں کے بغیر) لکھ رہا ہوں۔ والد صاحب کا نام لکھنا ہے۔ چاہتا ہوں نام بھی آ جائے اور نقطہ بھی نہ ڈالنا پڑے۔ فیضی اور ابوالفضل کے والد کا نام مبارک تھا۔ عرفی نے فوراً کہا، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ جو آپ کا اپنا لہجہ ہے اس میں ’’ممارک‘‘ لکھ دیجیے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مبارک کو گنواروں کا طبقہ ممارک کہتا تھا۔
ایک بار فیضی علیل تھا۔ عرفی مزاج پرسی کے لیے گیا۔ فیضی کو کتوں کا شوق تھا۔ چند پِلّے پھر رہے تھے۔ عرفی نے پوچھا ’’مخدوم زادوں کے نام کیا کیا ہیں؟‘‘ فیضی نے جوابی چوٹ کی کہ ’’بہ اسم عرفی‘‘ یعنی عام، معمولی نام ہیں۔ عرفیؔ کہاں ہار ماننے والا تھا۔ کہنے لگا مبارک باشد! اشارہ فیضی کے والد کی طرف تھا۔
گنوار ہونے کے لیے لکڑ ہارا، تیلی یا چمار ہونا ضروری نہیں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ وہ خانہ بدوش یا بنجارہ ہو! ایک دہقان بھی مہذب ہو سکتا ہے اور ایک اعلیٰ نسب شہری بھی گنوار پن کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اپنے اردگرد دیکھیے، سفید، کاٹن کے کھڑ کھڑاتے لباسوں میں ملبوس، یا نکٹائی لگائے ہوئے کئی گنواروں سے آپ کا سابقہ پڑے گا۔ وفاقی وزیر نے جس زبان کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہماری معاشرتی پستی کی صرف ایک علامت ہے۔ ورنہ معاملہ صرف زبان تک محدود نہیں۔ آپ سپرسٹور کے کائونٹر پر کھڑے ادائیگی کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔آپ کی باری آتی ہے۔آپ کائونٹر والے کو رقم دے رہے ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ایک ہاتھ بڑھتا ہے اور رقم کائونٹر پر رکھ کر کائونٹر والے سے مخاطب ہوتا ہے، یہ گنوارپن ہے۔ آپ پارکنگ میں، خالی جگہ پر اپنی گاڑی لگانے لگے ہیں۔ پیچھے سے زُوں کرتی ایک کار آتی ہے اور آپ کا راستہ کاٹتی خالی جگہ پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی گنوار پن ہے۔ آپ ہوٹل میں داخل ہوئے ہیں۔پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ کھول کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ گزرتے ہوئے شکریہ ادا کرنا تو درکنار، آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں، جیسے آپ اس کے ملازم ہیں اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ یہ شخص بھی گنوارہے خواہ مسٹر ہے یا علامہ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اگر وہ ایک کروڑ کی گاڑی سے اترا ہے اور ایک لاکھ روپے کا ڈیزائنر سوٹ زیبِ تن کر رکھا ہے۔ آپ کسی صاحب کے ہاں جاتے ہیں وہ آپ کو دیوان خانے(ڈرائنگ روم) میں لے آتے ہیں۔ ابھی آپ کھڑے ہی ہیں کہ وہ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بھائی صاحب بھی پکے گنوار ہیں۔ آپ سے ایک صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے ہاں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ آپ پانچ بجے سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ آتے ہی نہیں یا بہت تاخیر سے آتے ہیں۔ آپ کو مطلع بھی نہیں کرتے۔ یہ بھی گنوار ہیں۔ قدریں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ کل جو سیاہ تھا آج سفید ہو گیا ہے۔ والد اور والدہ کے آنے پر یا کسی بزرگ کی تشریف آوری پر جو عورت یا مرد نشست سے اٹھ کر کھڑا نہیں ہو جاتا، کیا آپ اسے مہذب کہیں گے؟ وہ وقت بھی تھا جب باپ کے جوتے سیدھے کرنے کے لیے اولاد میں مسابقت ہوتی تھی اور گلی میں چلتے وقت باپ یا بڑے بھائی سے آگے ہو کر چلنا بدتہذیبی سمجھی جاتی تھی۔
تہذیب اور گنوار پن کا اندازہ لگانا ہوتو شادی بیاہ کی دعوتوں کو غور سے دیکھیے۔ گنوارپن کا آغاز اس کوشش سے ہوتا ہے کہ جہاں کھانا لگے گا، اس کے قریب ہی نشست ملے تا کہ حملہ کرنے میں تاخیر نہ ہو۔ اس کے بعد غور سے دیکھتے جائیے۔ ہو سکے تو اس منظر کو ویڈیو میں محفوظ کر لیجیے اور بعد میں کاغذ قلم لے کر غور سے دیکھیے اور مہذب اور گنوار افراد کی فہرست مرتب کیجیے۔ قطار میں کھڑے ہو کر کون بار بار آگے ہو کر دیکھ رہا ہے؟ پلیٹ لینے کا کیا اسلوب ہے؟صبر کی رمق موجود ہے یا سخت بے تابی کا عالم ہے؟ قطار توڑنے والے اور کھانے کی پراتوں پر ہلہ بولنے والوں کی بہتات ہو گی۔ پھر یہ نوٹ کیجیے کہ کھانا کتنا ڈالا جا رہا ہے۔آپ دیکھیں گے کہ اکثر حضرات کبابوں اور بوٹیوں سے پلیٹ بھر لیتے ہیں اور پلائو یا بریانی کا پلیٹ میں مینار کھڑا کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں تناول کرتا دیکھیے۔ جیسے یہ ان کی فانی زندگی کا آخری کھانا ہی تو ہے۔ پھر مشروبات کے لیے سرگرمی، دوڑ اور بوتل قابو کرنے کی حرکات دیکھیے۔ گائوں سے تو کوئی بھی نہیں آیا ہوا۔ سب بظاہر تعلیم یافتہ اور سٹیٹس رکھنے والے معززین ہیں، بات وہی ہے جو پہلے ہو چکی ہے۔ تعلیم اور لباس کا تہذیب اور گنوارپن سے کیا تعلق! تعلیم اور شے ہے، تربیت اور شے۔
وسط ایشیا میں ایسی ضیافتوں میں شریک ہونے کے مواقع ملے جن میں تین تین ہزار مہمان بھی تھے۔ سب بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ایک پلیٹ میں دو افراد کو بھی پلائو پیش کیا جاتا ہے جو آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں کھانا رکھا جاتا ہے تو مہمان کھانا نکالنے کا آغاز کرتا ہے۔ مہمان کے لیے گھر میں پلائو پکے تو خاندان کا معمر ترین فرد آغاز کرتا ہے اور سب کو ڈال کر دیتا ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے دعا مانگی جاتی ہے۔
دی روڈ ٹو مکہ کے مشہور مصنف علامہ محمد اسد جو آسٹریا کے یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، فلسطین میں ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ یہ گزشتہ صدی کے اوائل کا قصہ ہے۔ گاڑی ایک سٹیشن پر رکی۔ ان کے سامنے بیٹھا ہوا بدو اترا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں روٹی تھی۔ اس نے روٹی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اسد کو پیش کیا۔ ایک یورپی کے لیے یہ انوکھا واقعہ تھا۔ انہوں نے لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بدوبولا، میں بھی مسافر ہوں اور آپ بھی۔ یہ پہلی کھڑکی تھی جو اسد کے دل میں اسلام کی طرف کھلی۔ اس اعرابی کا لباس دیہاتی وضع قطع کا تھا، لہجہ بھی شہری نہیں تھا۔ کیا وہ مہذب تھا؟ یا گنوار؟ اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھیے!

کیا ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟

$
0
0

عرب بہار آئی‘ عربوں کو اجاڑ کر خزاں کا تسلط قائم کر کے واپس چلی گئی۔ لیبیا اجڑ گیا۔ مصر کی تیس سالہ آمریت ختم ہوئی مگر آج وہاں فوجی ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔ بشارالاسد کی حکومت دمشق تک محدود ہے۔
کیا ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا اس بہار کے نتیجہ میں ہمیں اصل جمہوریت ہاتھ آئے گی یا وہی جمہوریت جاری رہے گی جس میں دو تین خانوادے اپنی باریاں لیتے ہیں؟
ویسے مسلم دنیا کا بخت عجیب ہے! کہنے کو وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی جمہوریت ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ صدر کے مقابلے میں کسی ماتحت کو کھڑا بھی کیا جاتا ہے مگر عشروں پر عشرے گزرتے ہیں‘ حکمران وہی رہتا ہے۔ 
پاکستان کی جمہوریت مصر‘ شام‘ ازبکستان اور قازقستان کی جمہوریت سے کتنی مختلف ہے؟ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب برطانیہ اور امریکہ کی طرح ہماری پارٹیوں کی قیادت مسلسل تبدیل ہو گی؟ پیپلزپارٹی کی تشکیل کو نصف صدی ہورہی ہے۔ ایک ہی خاندان اس پارٹی پر مسلط ہے۔ باپ کے بعد بیٹی‘ بیٹی کے بعد بیٹی کا شوہر‘ شوہر اب اپنے بیٹے کو تیار کررہا ہے! پنجاب میں تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ ایک ہی خاندان تخت پر متمکن ہے۔ مسلم لیگ نون میں نون سے مراد نوازشریف ہے۔ یعنی پارٹی کا نام ہی گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ازبک جمہوریت! قازق جمہوریت! مصری جمہوریت! شامی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت!
تیس سال کے عرصہ میں‘ سرکار کے ہر شعبے میں نقب لگائی جا چکی ہے۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک ہر جگہ وفاداروں کا ایک سلسلہ ہے جو وزارتوں‘ محکموں‘ شعبوں‘ کارپوریشنوں پر چھایا ہوا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی تھے مگر نوکر شاہی رائے ونڈ میں دست بستہ کھڑی تھی۔ میڈیا نے بتایا تھا کہ وہاں ’’زائرین‘‘ کے لیے قناتیں لگیں تھیں اور تنبو نصب تھے!!
یہ عمران خان کا جنون ہے کہ ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ حکومتِ وقت نے عدالتِ عظمیٰ پر دھاوا بول دیا تھا اور کہاں یہ وقت کہ وقت کا وزیراعظم‘ تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہورہا ہے! یہ تغیر معمولی تغیر نہیں!
تو کیا ہم ان خانوادوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک‘ جو خانوادے سیاسی جماعتوں پر مسلط ہیں‘ وہ شاہی خاندان کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا قوم خاندانوں کے اس اتحاد کو شکست دے پائے گی؟
میڈیا کا ایک بھاری بھرکم گروہ برسرِاقتدار خانوادے کی حمایت میں سرگرم عمل ہے۔ کوئی دختر نیک اختر کا نام جانشین کے طور پر تجویز کرتا ہے‘ کوئی برادر خورد کا!    ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ان میں سے کوئی بھولے سے بھی یہ نہیں تجویز کرتا کہ پارٹیوں کی قیادت تبدیل ہونی چاہیے۔
مگر ایک سفر تاریخ کا بھی ہے! پارٹیوں کی طرح خانوادوں کی بھی طبعی عمر ہوتی ہے۔ کیا عجب پارٹی پر حکمران ایک خاندان اپنی قیادت کی طبعی عمر پوری کرنے کو ہو! کیا عجب بخت یاوری کرے اور قوم کو ایک اور قیادت نصیب ہو جائے!
عمران خان کا یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ جب تک ایک خاندان اقتدار میں ہے‘ ادارے اُسی کے لیے سرِگرم کار رہیں گے۔ نوکر شاہی کی اولین ترجیح اپنی بقا ہوتی ہے۔ پنجاب میں شاید ہی بیوروکریسی کا کوئی ایسا رکن ہو جو شاہی خاندان کے مفاد کے خلاف کچھ کر سکے یا کچھ کرسکنے کا سوچے۔ ایسے میں اگر عمران خان پارٹی میں ان سیاستدانوں کو لارہا ہے جو انتخابات جیت سکتے ہیں تو اُس کے ذہن میں منصوبہ بندی یہی ہے کہ ایک بار‘ اس خانوادے سے تو نجات حاصل کی جائے جو عشروں سے حکومتوں پر اور اداروں پر قابض ہے۔ بجا کہ جو سیاست دان نیک نام نہیں‘ ان کے ورود سے پارٹی کے جوشیلے اور نوجوان کارکن خوش نہیں‘ مگر عام طور پر‘ حکومت کا سربراہ دیانت دار ہو تو وہ دیانت نیچے ضرور سرایت کرتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس مسلسل ہوں اور ایک ایک وزیر کی کارکردگی پر سربراہِ حکومت کی کڑی نظر ہو تو بدعنوانی پنپ نہیں سکتی۔
اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ ان کے وزیروں کی کارکردگی کیا ہے؟ اور عوام کے ساتھ اور سائلین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ اس کالم نگار کو ایک وزارت میں کئی بار جا کربراہ راست مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ وزیر صاحب ہفتہ میں ایک بار صرف ایک بار۔ دفتر تشریف لاتے ہیں اور اس ایک دن کا دن دہاڑے کھلم کھلا اعلان کیا جاتا ہے۔ پوری وزارت لسانی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ جنہوں نے کام کرانا ہے وہ اس لسانی حوالے ہی سے سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی قاعدہ ہے نہ قانون! کوئی سسٹم ہے نہ ضابطے! یہ صرف ایک وزارت کا احوال ہے۔ وزیراعظم کسی وزارت میں کبھی آئے ہی نہیں! وزرا کی کارکردگی چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں! کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہونے کا تصور تک ناپید ہے۔ وزیراعظم نے آج تک یہی نہیں سوچا کہ جن ضرورت مندوں کو وفاقی وزارتوں سے شکایات ہیں‘ ان سے آگاہ کیسے رہیں اور ان کی داد رسی کا کیا بندوبست ہو! ایک وزیر اگر کسی ضرورت مند کا کام نہیں کرتا‘ یا کسی کا حق اسے نہیں دیا جاتا تو وزیر کے بعد کوئی دروازہ نہیں جو ضرورت مند کھٹکھٹا سکے۔ اب یہی ہے کہ وہ عدالتوں کے چکر لگائے اور سالہا سال انصاف کی طلب میں گزر جائیں! 
اسی کرۂ ارض پر ایسے ایسے ملک ہیں جہاں وزیر کے دفتر میں موصول ہونے والی شکایات‘ وزیر سے پہلے میڈیا کو پڑھائی جاتی ہیں۔ میڈیا ان شکایات کی تشہیر کرتا ہے۔ وزیر میڈیا کو بھی جواب دیتا ہے اور حکومت کے سربراہ کو بھی!! مگر جہاں یہ خبر عام ہو کہ حکومت کا سربراہ خود فائل پڑھتا ہے نہ اس پر کچھ لکھتا ہے‘ سارا نظامِ حکومت کارندوں کی وساطت سے چل رہا ہے‘ وہاں وزرا کی کارکردگی کو کون پوچھے گا!
سیاست اور شے ہے۔ کاروبار حکومت اور شے! ہمارے ہاں سیاست دان جب حکومت کا سربراہ بنتا ہے‘ تو سارا وقت سیاست پر صرف کرتا ہے۔ سیاست کا مفہوم ہمارے ہاں جوڑ توڑ ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جس کا دعویٰ آصف زرداری صاحب فخر سے کیا کرتے ہیں! جوڑ توڑ! مک مکا! مخالفین کو رام کرنا! ہنس کر‘ دولت سے یا رعب ڈال کر! پہلا اور آخری مقصد اقتدار کی طوالت ہے اور حکمرانی کی بقا! اس کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔ مناصب بانٹے جاتے ہیں! عہدے تقسیم ہوتے ہیں! اہلیت کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ ہر جگہ ’’اپنے بندے‘‘ براجمان کیے جاتے ہیں۔ برادری معیار بنتی ہے۔ علاقہ کسوٹی بن جاتا ہے۔ جن کا حق ہوتا ہے وہ گلیوں میں گرد اڑاتے جوتے چٹخاتے ہیں‘ جو اہل نہیں ہوتے وہ خانوادے کی قربت کے سبب مسندوں پر بیٹھ جاتے ہیں! تھانیداروں کی تعیناتیوں کے فیصلے صاحبزادہ کرتا ہے۔ میڈیا سیل دختر نیک اختر چلاتی ہے! فنڈز کے حصول کے لیے عوامی نمائندے پسرِ نسبتی کو سلام کرتے ہیں! وزرا ہفتوں اپنے دفاتر میں نہیں جاتے‘ عدالتِ عظمیٰ کے باہر یا جے آئی ٹی کے دروازے پر میلہ لگاتے ہیں! یہ ہے پاکستانی جمہوریت!
’’پنجاب سپیڈ‘‘ اور پنجاب ماڈل کا بہت شہرہ ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سو بچے جو لاہور میں اغوا ہوئے‘ ان کی تلاش کیا ہوتی‘ فائلیں ہی ٹھپ ہو گئی ہیں! حکومت وہ ہوتی ہے جو توازن برقرار رکھے اور ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ نظم و نسق اور امن و امان کی ضمانت دے۔ اگر صوبے کے دارالحکومت سے بچے سینکڑوں کی تعداد میں اغوا ہورہے ہوں اور پولیس خون کے آنسو روتے ماں باپ کی داد رسی نہیں کرتی تو خادم اعلیٰ کہلانے والے حکمران کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ مگر جواب کا تقاضا کون کرے گا؟ وہ تو اسمبلی ہی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وزارت داخلہ کا قلم دان اپنی تحویل میں ہے۔ کئی اقسام کی پولیس قومی خزانے سے تنخواہیں لے رہی ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اس پولیس کے تصرف میں ہیں۔ مگر اغوا شدہ بچے نہیں برآمد ہورہے! جہاں پولیس خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہوگی‘ وہاں پولیس کی کارکردگی کا معیار کیا ہوگا!
کیا ایسی مطلق العنان بادشاہی ہمیشہ رہے گی؟ کیا عشروں پر عشرے اسی طور گزرتے رہیں گے    ؎
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
پھر فیض یاد آتے ہیں    ؎
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
کیا  ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟

کہیں ہماری ملّی غیرت سو تو نہیں گئی؟

$
0
0

ہر جیت سنگھ سجن بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والد 
پولیس میں کانسٹیبل تھا۔ ہرجیت سنگھ چھ سال کا تھا جب اس کے کنبے نے کینیڈا کا رخ کیا۔ وہاں ہر جیت کا باپ لکڑی کاٹنے کی مل میں اور ماں ایک زرعی فارم میں ملازمت کرتے رہے۔
ہر جیت بڑا ہوا تو فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کینیڈا کے جو فوجی افغانستان تعینات تھے ان میں ہر جیت بھی تھا۔ پنجابی اور اردو سے آشنا ہونے کی وجہ سے اسے افغانوں سے بات چیت کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل تھی۔ کینیڈا واپس ہوا تو اس کے ان افسروں نے جنہوں نے افغانستان میں اس کی کارکردگی دیکھی تھی‘ اسے ’’کینیڈا کی انٹیلی جنس کے لیے بہترین سرمایہ‘‘ قرار دیا۔ فوج کی طرف سے تمغہ دیا گیا۔ پھر وہ اپنے صوبے ’’برٹش کولمبیا‘‘ کے گورنر کا اے ڈی سی رہا۔ داڑھی کی وجہ سے ملٹری گیس ماسک پہننے میں دقت کا سامنا ہوا تو ہرجیت نے ایسا گیس ماسک ایجاد کیا جو داڑھی کے ساتھ چل سکتا تھا۔ اس نے اس ایجاد کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر بھی کرا لیا۔
طویل قصے کو مختصر کرتے ہیں۔ ملازمت سے فارغ ہو کر ہر جیت نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے چینی نژاد مدمقابل کو شکست سے دوچار کیا اور پارلیمنٹ میں پہنچ گیا۔ آج وہ کینیڈا کا وزیر دفاع ہے‘ کابینہ کا رکن ہے۔
اشوک وردکار بمبئی میں پیدا ہوا ‘ ڈاکٹر بنا تو انگلستان ہجرت کر گیا۔ وہاں سے ایک بار پھر واپس بھارت آیا۔ دوسری بار ہجرت کر کے آئر لینڈ میں مقیم ہو گیا۔ وہیں اس کا بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام اس نے لیو وردکار رکھا۔2003ء میں اس لڑکے نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔ کئی سال ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد 2010ء میں جی پی (جنرل پریکٹیشنر) تعینات ہوگیا۔ سیاست میں دلچسپی شروع ہی سے تھی۔ کالج کے زمانے میں انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس قصے کو بھی مختصر کرتے ہیں۔ سیاست میں زینہ بہ زینہ اوپر ہوتا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور سیاحت کا وزیر رہا۔ پھر وزارتِ صحت کا قلم دان سنبھالا۔ آج یہ بھارتی نژاد آئر لینڈ کا وزیر اعظم ہے!
برداشت اور ہم آہنگی کی یہ مثالیں مغربی معاشرے سے ہیں! کیا یہ برداشت صرف غیر مسلم تارکین وطن کے لیے مخصوص ہے؟ شواہد اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لندن کا میئر پاکستانی نژاد مسلمان ہے۔ درجنوں مسلمان مرد اور عورتیں دارالعوام برطانیہ کی ارکان منتخب ہوئی ہیں اور ان علاقوں سے جہاں سفید فام اکثریت میں رہتے ہیں! آسٹریلیا کا مواصلات کا نیٹ ورک’’آسٹریلین پوسٹ‘‘ کہلاتا ہے اور یہ سرکاری سرپرستی میں  نجی کاروبار کے اصولوں پر چلتا ہے۔ اس کا سربراہ ایک لبنانی نژاد مسلمان احمد فاعور رہا ہے۔ آسٹریلیا کی بیورو کریسی میں اس کی تنخواہ سب سے زیادہ تھی۔ حال ہی میں اسے بلند ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔ یہ اس کی ان خدمات کے صلے میں دیا گیا جو بقول حکومت‘ اس نے بنکاری بزنس اور سرمایہ کاری کے میدان میں سرانجام دیں۔ آسٹریلیا کے ’’اسلامی عجائب گھر‘‘ کی بنیاد احمد کے بھائی مصطفی نے رکھی۔ پورے خاندان نے اس میوزیم کی ترقی کے لیے مالی اور انتظامی خدمات سرانجام دی ہیں۔
اب ہم مشرق وسطیٰ کی طرف آتے ہیں۔
المشرف
 (Al-mushrif)
 ابوظہبی کا ایک معروف علاقہ ہے۔ اس میں ایک مسجد یو اے ای کے حکمران سے منسوب تھی۔ مسجد کا نام ’’شیخ محمد بن زید النیہان مسجد‘‘ تھا۔ گزشتہ ہفتے ابو ظہبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر نے اس مسجد کا نام ’’محمد بن زید مسجد‘‘ سے بدل کر ’’مریم اُمِّ عیسیٰ مسجد‘‘ رکھ دیا۔ حکومت کے اعلان کی رُو سے اس تبدیلی کا مقصد مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان انسانیت کے رشتے کو مضبوط تر کرنا تھا! اسلامی امور کے محکمے کے سربراہ الکعبی کے بیان کے مطابق یہی وہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے دو سو سے زیادہ اقوام یو اے ای میں امن و امان سے زندگی بسر کر رہی ہیں!
اس مسجد کے قریب ہی سینٹ اینڈریوز کا گرجا ہے۔ تھوڑی ہی دور جنوبی عرب کے کیتھولک بشپ کا دفتر واقع ہے۔ کسی نے کبھی گرجائوں یا پادریوں کے دفتر کو میلی آنکھ سے دیکھا نہ کسی مسجد پر اعتراض کیا۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک اور منظر دنیا نے دیکھا۔ العین میں واقع ایک گرجا کے ملازم‘ مغرب سے تھوڑی ہی دیر پہلے چرچ کے فرش پر قالینی صفیں آراستہ کر رہے تھے۔ چرچ میں دو سو مسلمانوں نے اس دن نماز مغرب ادا کی۔
اس رمضان کے دوران یو اے ای کی کابینہ نے ایک خصوصی منصوبہ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ منظور کیا ہے اس سے پہلے ’’وزارت برداشت‘‘ بھی یو اے ای میں کام کر رہی ہے۔ ایک خاتون لبنیٰ بنت خالد القاسمی کے پاس اس وزارت کا قلم دان ہے۔ خاتون وزیر نے کابینہ کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ کی بنیاد سات ستونوں پر قائم ہو گی۔
1۔ اسلام
2۔ یو اے ای کا آئین
3۔شیخ زید کے فرامین اور اخلاقیات
4۔ بین الاقوامی معاہدے
5۔ آثار قدیمہ اور تاریخ
6۔ انسانیت
7۔ مشترکہ اقدار
یہ ہیں وہ کاوشیں جو یو اے ای کی حکومت اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے کر رہی ہے۔ انہیں سکھایا جا رہا ہے کہ دوسرے مذاہب‘ دوسری اقوام اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ کس طرح مل جل کر رہنا ہے۔ کسی سے مذہب‘ رنگ‘ نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنا ہے نہ نفرت پالنی ہے۔حکومت اس سلسلے میںایک ’’ہفتہ برداشت‘‘ بھی منعقد کرے گی۔ ایک ’’برداشت مرکز‘‘ قائم کیا جائے گا۔ ان پروگراموں میں خاندان کی بنیادی اکائی سے لے کر مرکزی حکومت تک‘ سارے سٹیک ہولڈرز کو حصہ دار بنایا جائے گا۔’’کونسل برائے برداشت‘‘ ایک اور شعبہ ہو گا جس کا کام ان ماہرین کا انتخاب ہو گا جو قومی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے پالیسیاں بنائیں‘ مشورے دیں اور نئے تصورات پیش کر کے حکومت کی پشتی بانی کریں۔
اب ہم پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ تھرپارکر کے ایک گائوں کی ایک ہندو فیملی نے تھانے میں ایف آئی آر کٹوائی ہے کہ ان کی سولہ سالہ لڑکی کو اغوا کر لیا گیااور اسی دن اس کی شادی اس سے دو گنا عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی۔ دوسری طرف لڑکی سے نکاح کرنے والے شخص نے بھی عدالت 
سے مدد مانگی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے اس سے شادی کی ہے۔
لڑکی نے شادی مرضی سے کی یا نہیں‘ اور مذہب خوشی سے تبدیل کیا یا طاقت سے کرایا گیا‘ یہ متنازعہ ہے۔ مگر اس تنازعہ سے قطع نظر‘ ایک قانونی پہلو دلچسپ ہے اور قابل غور بھی! وکیل بھگوان داس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپریل 2014ء میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام ’’سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ
(Restraint)
ایکٹ 2013ء‘‘ ہے۔ اس قانون کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کی شادی کی رجسٹریشن ایک ایسا جرم ہے جس کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور اس میں ملوث اور مددگار افراد کو تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہندو لڑکی کی عمر کیا ہے؟ پرائمری سکول کے سرٹیفکیٹ پر‘ جس کا عکس میڈیا نے چھاپا ہے‘ لڑکی کی تاریخ پیدائش14جولائی2001ء ہے۔ اس حساب سے اس کی عمر سولہ سال بنتی ہے۔ لڑکی کے بہنوئی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سال کی تو مشکل سے اس کی بیوی ہے جو لڑکی کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے رجسٹر پر دولہا کا سال پیدائش1980ء درج کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر 37سال ہے۔ دولہا کے قومی شناختی کارڈ کانمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ تاہم لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال لکھی گئی ہے۔ تاریخ پیدائش کا اندراج کیا گیا ہے نہ قومی شناختی کارڈ کے نمبر کا۔قبولیتِ اسلام کی جو سند جاری کی گئی ہے اس پر بھی لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال‘‘ درج کی گئی ہے۔
لڑکی کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ گائوں میں ان کے (یعنی ہندو برادری کے) صرف چار گھر ہیں۔ جن خاندانوں کا گائوں پر غلبہ ہے انہوں نے ’’کہلوایا‘‘ ہے کہ یہ لوگ گائوں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں!
معاملے کو مذہبی عصبیت کا رنگ دینے کے بجائے غور اس پر کرنا چاہیے کہ اگر عمر اٹھارہ برس ہے تو اس کا ثبوت کہاں ہے؟ جب کہ خاندان کے پاس پرائمری سکول سرٹیفکیٹ ہے جس پر اصل تاریخ پیدائش دیکھی جا سکتی ہے!
کبھی کبھی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ کراچی کو ایک سازش کے تحت اجاڑا گیا تاکہ دبئی ترقی کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خود ساختہ تاریخوں کے اندراجات کی مدد سے مذہب تبدیل کرانا اور شادی کرانا بھی دوسرے ملکوں کی سازش ہے؟ نہیں! خدا کے بندو! سازش کسی نے نہیں کی! ہم جو کھیتی آج کاٹ رہے ہیں وہ اس عدم برداشت کے بیج کی پیداوار ہے جو ہم ستر سال سے اس دھرتی پر بو رہے ہیں! ہم دوسرے کا مذہب نہیں برداشت کر سکتے۔
دوسروں کا مسلک برا لگتا ہے۔ دوسرے کی نسل نہیں برداشت کر سکتے‘ دوسرے کی زبان ہمیں کھلتی ہے! اس پر تو ہم مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یوم پاکستان پر دبئی کی تاریخ ساز عمارت ’’برج خلیفہ‘‘ پاکستانی پرچم کے رنگوں میں نہا رہی تھی مگر یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ اسی یو اے ای میں دو سو قومیں رہ رہی ہیں۔ وہاں کوئی ایسا واقعہ نہیں پیش آتا کہ لڑکی اسلام قبول کرے اور اس کے فوراً بعد اس کی شادی 37سالہ ’’لڑکے‘‘ سے ہو جائے اور شادی کے رجسٹر پر تاریخ پیدائش کا اندراج ہو نہ قومی شناختی کارڈ کا!
حیرت ہے‘ ابھی تک ابوظہبی کی مسجد کا نام محمد بن زید مسجد سے ’’مریم امِّ عیسیٰ‘‘ رکھنے پر ہمارے ملک میں کوئی احتجاجی جلوس نہیں نکلا! کہیں ہماری ملی غیرت سو تو نہیں گئی؟

تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں

$
0
0
قسمت کا دھنی اور مقدر کا سکندر کون ہے؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا! ہم کون ہیں 
کرنے والے! اور آپ کس طرح کر سکتے ہیں؟
خوش قسمتی کی تعریف کیا ہے؟ معیار کیا ہے؟ کیا اقتدار کی طوالت خوش نصیبی کی علامت ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر معمر قذافی اور حسنی مبارک سے زیادہ خوش قسمت کون ہے!
عوام کو ان پڑھ رکھیے۔ اداروں کو طاعون زدہ کر دیجیے۔ پولیس کو گھر کی باندی کے طور پر استعمال کیجیے یوں کہ آئی جی آپ کے ذاتی ملازم کی طرح انگلی کے اشارے کا غلام ہو، خزانے کا منہ کھول کر صحافیوں، دانشوروں، اخبار نویسوں، رائے سازوں اور تشہیر کنندگان کو خرید لیجیے، کوئی آپ کا راستہ روکنے والا نہ رہے۔ کوئی چیلنج کرنے والا نہ رہے۔ اقتدار طویل سے طویل تر ہوتا رہے، اگر یہی خوش نصیبی ہے تو پھر تو تاریخ خوش نصیبوں سے بھری پڑی ہے۔ 
پھر تو ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کی قسمت خراب تھی اور ان بادشاہوں کی اچھی تھی جنہوں نے انہیں کوڑے مارے، جسمانی اذیتیں دیں، یہاں تک کہ شہید ہی ہو گئے۔ اس وقت بھی درباریوں نے یہی کہا ہو گا کہ جہاں پناہ! مقدر آپ کے ساتھ ہے، یہ حاسد، یہ کیڑے نکالنے والے، یہ نام نہاد فقیہہ، زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آپ کو خدا نے سلامت رکھا ہوا ہے۔
طوالتِ اقتدار ہی خوش بختی کا معیار ہے تو پھر تو عمر بن عبدالعزیز کی قسمت قابل رحم ہے۔ صرف اڑھائی برس، اور اس کے مقابلے میں حجاج بن یوسف بیس سال عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس نے ایک لاکھ افراد کو قتل کیا جن میں اصحابِ رسول بھی تھے۔
پھر تو کامیاب ترین ہندوستانی فرماں روا شیر شاہ سوری صرف پانچ سال حکومت کر سکا۔ بیچارہ، بدنصیب، تاریخ اسے لاکھ کامیاب ترین خوش بخت اور قسمت کا دھنی قرار دیتی رہے، مگر صرف پانچ برس، یہ الگ بات کہ ان پانچ برسوں میں ایسی شاہراہیں بنوائیں جو آج تک استعمال ہو رہی ہیں اور زراعت اور انصاف میں ایسی اصلاحات کیں جو مغلوں نے تو کیا، انگریزوں نے بھی جاری رکھیں اور اپنائیں۔ 
قائد اعظم کہاں خوش قسمت تھے۔ بھئی! وہ تو دوسال بھی حکومت نہ کر سکے۔ اس کے مقابلے میں جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دس دس سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ قسمت کے دھنی، مقدر کے سکندر!
چنگیز خان سے زیادہ خوش قسمت پھر کون ہو گا؟ جو اس کے راستے میں آتا، ریت کی دیوار ثابت ہوتا۔ بستیوں کو جلاتا، شہروں کو راکھ میں بدلتا، ہزاروں، لاکھوں انسانوں کو قتل کرتا، عالموں، مصنفوں، ایلچیوں، کو میناروں سے نیچے گراتا، خوش بخت چنگیز خان آگے ہی آگے بڑھتا رہا، کیا مقدر تھا اور کیا ہی قسمت تھی۔ رشک آتا ہے۔
اور یہ سلطان ٹیپو کو کیا سوجھی تھی؟ کتنی غلط بات کہہ گئے سلطان شہید! کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ کہاں زندگی کے مزے۔ کہاں موت! میر جعفر اور میر صادق عقل مند تھے اور خوش قسمت بھی۔ بھٹو کی قسمت خراب تھی، معافی مانگی نہ جلاوطنی کا انتخاب کیا۔ خوش بخت ہوتے تو جیل کی کالی کوٹھڑی میں سڑتے نہ رہتے!کسی بادشاہ کی مدد طلب کرتے۔ معاہدہ پر دستخط کرتے اور سامان سے بھرے چالیس صندوق اور باورچیوں کو ہمراہ لیتے، دور کی کسی مملکت پہنچ کر کسی محل میں فروکش ہو جاتے۔!
خوش بختی کے راستے کا سنگِ مل یہ ہے کہ اپنی برادری پر انحصار کیجیے۔ اپنی ذات، اپنے قبیلے کو ترجیح دیجیے۔ اگر برادری کا آرمی چیف چل جاتا تو خوش بختی اور بھی زیادہ تابندہ ہوتی۔ یہی اصول یوگنڈا کے عدی امین نے اپنایا اور قسمت کا دھنی ثابت ہوا۔ بیورو کریسی سے لے کر فوج تک، ہر جگہ اپنے قبیلے کے افراد کو داخل کیا۔ پھر جنوبی سوڈان سے لوگ منگوائے۔ کابینہ کا پچہتر فیصد اور ٹاپ جرنیلوں کا ساٹھ فیصد اس کے اپنے قبیلے کے افراد اور جنوبی سوڈانیوں پر مشتمل تھا۔ فوج میں سوڈان اور کانگو کے کرائے کے فوجی بھرتی کیے صرف ایک چوتھائی فوجی یوگنڈا کے تھے۔ یوں یوگنڈا کی عدالتیں، الیکشن کمیشن، سیکرٹریٹ، پولیس، وہاں کی ایف آئی اے، سب ادارے اس کی برادری اور اس کے علاقے کے لوگوں سے اٹ گئے۔ اب خوش قسمتی کا راستہ کھلا تھا۔آٹھ بغاوتیں ہوئیں اور سب ناکام! اس کے حامیوں نے اسے ضرور خوش بخت قرار دیا ہو گا۔ پھر قسمت کا عروج دیکھیے کہ لاکھوں افراد قتل کرنے والے اس قاتل کو سرزمینِ حجاز سے بلاوا آگیا۔ ہیلی کاپٹر پر بھاگا تو پہلے لیبیا گیا۔ پھر سعودی عرب! جدہ کے بہترین ہوٹل میں پوری دو منزلیں اس کے لیے مختص ہو گئیں۔ مرسڈیز گاڑیاں حاضر تھیں۔ پھر ایک دن آیا کہ وہ کوما میں چلا گیا۔ اس کی بیگمات میں سے ایک نے یوگنڈا کے حکمران سے واپسی کی بھیک مانگی جو قبول نہ ہوئی۔ آخر کار عدی امین کی اپنی فیملی ہی نے اسے زندہ رکھنے والا وینٹی لیٹر ہٹا دیا اور یوں یہ خوش بخت حکمران انجام کو پہنچا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ایک سادہ سی قبر جدہ کے قبرستان میں اس کی بھی ہے۔!! 
اقتدار خوش بختی کی علامت ہوتا تو قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے والے خلفائِ راشدین یہ حسرت نہ کرتے کہ کاش وہ تنکا ہوتے اور ان کا حساب کتاب نہ ہوتا۔ ایک تعزیت کے موقع پر ایک بزرگ نے کیا فکر انگیز بات کی کہ سب کو پس ماندگان کی فکر ہے کہ اولاد کا کیا بنے گا، بیوہ کو کون سنبھالے گا، کاروبار کیسے چلے گا، مگر آہ! جانے والے کی کسی کو پرواہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ بیس کروڑ افراد کی ذمہ داری حکمران اعلیٰ کے سر پر ہے! فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کا دائرۂ اختیار ہے اور اس سے اس دائرۂ اختیار کے حساب سے پوچھ گچھ ہو گی۔ یہ دائرۂ اختیار جتنا پھیلا ہوا ہو گا، جواب دہی اُسی تناسب سے ہو گی۔ پانچ ما تحت ہیں تو ان کے حساب سے، ایک محکمہ ہے تو اس کے حساب سے، ایک پورا ملک ہے تو اس کے لحاظ سے! وہ حکمران جس نے کہا تھا کہ فرات کے کنارے کتا مر گیا تو اس کی بھی ذمہ داری مجھ پر ہو گی، کیا عقل سے بے بہرہ تھا؟ چھینک آنے پر ولایت سدھار جانے والوں سے پوچھا جائے گا کہ 
ہسپتالوں میں خلقِ خدا بے سہارا مرتی رہی، تم کہاں تھے؟ اپنی آمد و رفت کے 
لیے شاہراہوں کو سنسان کر دینے والے گردن بلندوں سے پوچھا جائے گا کہ لاکھوں انسان ٹریفک کی لاقانونیت کا شکار ہو گئے، تم اپنے لیے تو رُوٹ لگواتے رہے، اُن کی فکر کیوں نہ کی؟ لکھنے والوں نے درجنوں بار ان حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائی کہ ٹرالیاں، ڈمپر اور ٹریکٹر خلقِ خدا کو دن رات کچل رہے ہیں۔ ریاست غائب ہے، مگر ان حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کے ملازم صبح چھ بجے اخبارات کھنگال کر ان کے لیے سمریاں تیار کرتے ہیں۔ خبروں کی کٹنگز، کلپس، پیشِ خدمت کرتے ہیں مگر یہ اس غرّے میں ہیں کہ ان کے حواری انہیں قسمت کا دھنی قرار دے رہے ہیں۔ آخر کچھ کمال تو ان میں ہے وگرنہ کیا یہ سب لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جھوٹ تو وہ بھی نہیں بول رہے تھے جو بادشاہ سلامت کے ’’لباس‘‘ کی تعریف کر رہے تھے۔ جھوٹ تو وہ نامعقول بچہ بول رہا تھا جو کہہ اٹھا کے بادشاہ ننگا ہے۔
کون خوش قسمت ہے اور کون نہیں، خدا کے بندو! خدا سے ڈرو! اس کا فیصلہ وقت کرے گا اور تاریخ کرے گی اور روزِ حشر کرے گا۔ ہاں! آج فیصلہ لینا ہے تو خلقِ خدا کی طرف رجوع کرو۔ سوشل میڈیا ہی کو دیکھ لو! لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ روایت ہے کہ ایوب خان نے ایک بچے کے منہ سے اپنے خلاف نعرہ سنا تو اقتدار چھوڑ دیا۔ آج سوشل میڈیا پر عوام جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ دیکھتا تو نہ جانے اس خوش قامت اور وجیہہ خان کا کیا حال ہوتا۔
آہ! تقدیر کا فیصلہ یہی ہے کہ حکمران اعلیٰ ہی سب سے زیادہ بے خبر ہوتا ہے۔ اُسے اردگرد کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ اس کے گرد ایک حصار کے بعد دوسرا حصار اور دوسرے کے بعد تیسرا حصار یوں تناہوتا ہے کہ وہ اس کے پار کچھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ حواری اور درباری اس کے بخت کو سلام کہہ رہے ہوتے ہیں اور وہ اس پر یقین کر لیتا ہے۔ بھائی ہیرو کہتا ہے۔ بیٹی عظیم انسان کا خطاب دیتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو عظیم سمجھنے لگتا ہے۔ بیس کروڑ عوام تو دور کی بات ہے، کابینہ کے ارکان جو کچھ اس کے نام پر اور اس کے دیئے ہوئے اختیارات کے وسیلے سے کر رہے ہیں، اسی کا حساب دینا کارے وارد ہو گا۔ قیامتیں ہیں کہ عوام پر ڈھائی جا رہی ہیں۔ وزیر صاحبان ہفتے میں ایک بار مشکل سے دفتر آتے ہیں۔ عرضیوں کے انبار لگے ہیں۔ سائلین کا ہجوم ہے۔ کوئی زنجیرِ عدل نہیں کہ کھینچیں اور حکمران اعلیٰ کے کانوں تک آواز پہنچے۔ کاش کوئی بتاتا کہ عمر ے نہیں بچا سکتے، انسانوں کے حقوق انسان خود ہی معاف کریں گے تو جان چھوٹے گی۔ خاک اڑاتے قریے حکمرانوں کو دن رات بد دعائیں دے رہے ہیں۔ بارہ سال پہلے جو ڈسپنسری منظور ہوئی، اس کے قیام کے لیے چند لاکھ روپے خزانے سے نہیں دیئے جا سکتے مگر اپنی حفاظت پر، اپنے اہل و عیال حتیٰ کہ متعلقین کی پہریداری پر، اپنے علاج معالجے پر، اپنی آمدورفت پر، کروڑوں اربوں روپے دن رات پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ 
کون خوش قسمت ہے؟ تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ فیصلہ ہو گا تو سب دیکھ لیں گے۔

وطنِ اصلی، وطنِ اقامت اور دیگر معاملات

$
0
0

جب بھی عید آتی ہے، اخبارات اس قسم کی سرخیاں ضرور لگاتے ہیں۔
’’دارالحکومت خالی ہو گیا‘‘
’’پرندے اُڑ گئے‘‘
’’لوگ عید منانے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے‘‘
فقہ میں وطن اصلی اور وطن اقامت کا ذکر ہوتا ہے۔ وطن اصلی وہ ہے جہاں سے آپ کا اصل تعلق ہو، آپ کی جائیداد، گھر، عزیز و اقارب، دوست احباب وہاں ہوں۔ اس کے مقابلے میں وطن اقامت وہ ہے جہاں آپ روزگار یا کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ یہ امتیاز، وطن اصلی یا وطن اقامت میں اس لیے بھی برقرار رکھا جاتا ہے کہ وطن اقامت میں قیام پندرہ دن سے کم ہو تو غالباً نماز قصر کی پڑھنا ہوتی ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عید اکثر و بیشتر لندن میں مناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد سے لوگ عید منانے اپنے اپنے آبائی گھروں کو یعنی وطن اصلی کو چلے جاتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں یوں آتی ہے کہ پاکستان ہمارے حکمرانوں کا وطن اصلی نہیں، وطن اقامت ہے۔ حکمرانوں سے مراد صرف میاں محمد نواز شریف نہیں، بلکہ وہ طبقہ ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب سے لے کر عشرت العباد صاحب تک، حسین نواز سے لے کر بلاول تک۔ سب ہمارے حکمران ہیں۔ سب کے دو دو وطن ہیں۔ ایک وطن اصلی، ایک وطن اقامت۔ عید کے موقع پر کشاں کشاں یہ حضرات اپنے اپنے وطن اصلی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان تو ان کا وطن اقامت ہے۔ یہاں ملازمت کے لیے رکتے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے، کبھی صدر کے منصب پر کام کرنے کے لیے، کبھی گورنری کرنے کے لیے! ورنہ ان کے گھر بار، اولاد، جائیدادیں، سب پاکستان سے باہر ہیں۔ لندن اور دبئی ان کا وطن اصلی ہے اور پاکستان وطن اقامت!
چلیے رمضان اور عید کے مواقع پر اس سوال کا جواب تو مل جاتا ہے کہ پاکستان کن کن کے لیے محض وطن اقامت ہے مگر ایک سوال ایسا بھی ہے جس کا جواب حاصل کرنا غالباً ناممکنات میں سے ہے۔ رمضان ہمارے ہاں جس طرح نیکیوں کی بہار دکھاتا ہے، اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ ہے۔ رمضان آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں۔ تراویح کا اہتمام اتنی ہی شدت سے ہوتا ہے جس شدت سے فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ ستائیسویں رات عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شبینہ کی محفلیں سجتی ہیں۔ مسجدوں پر ختم قرآن کے موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک، سب مسلمانوں کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر پورا مہینہ اسلامی پروگرام چھائے رہتے ہیں۔ افطار اور سحری کے وقت جو چینل بھی لگائیں پردۂ کیمپس پر کوئی نہ کوئی معروف نعت خواں، مشہور مبلغ، متاثر کرنے والا عالم دین نظر آتا ہے۔ خوبصورت ٹوپیاں اور دیدہ زیب پگڑیاں نظر نواز ہو رہی ہوتی ہیں۔ مخیر حضرات کی بھی ہمارے ہاں قلت نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر فیاض موجود ہے۔ ناداروں کا پیٹ بھرنے کے لیے سینکڑوں، ہزا روں دسترخوان بچھے ہیں۔ یتیم خانے چل رہے ہیں۔ فائونڈیشنیں غریب طلبہ کی خدمت کر رہی ہیں۔ لاکھوں مدارس صرف او رصرف مخیر حضرات کی توجہ سے چل رہے ہیں۔ صدقات و خیرات دینے والے رات دن سرگرمِ عمل ہیں۔ ان سب مثبت پہلوئوں کے باوجود مذہب ہمارے حلق کے نرخرے سے نیچے نہیں، اوپر اوپر ہی رہتا ہے۔ معاملات میں ہم لوگ اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ دفاتر ہی کی بات کر لیجیے۔ تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر آٹھ بجے کے بجائے دس گیارہ بجے آ رہے ہوتے ہیں۔ نماز کے لیے اٹھیں تو پھر دوسرے دن دکھائی دیتے ہیں۔ جو وقت، کیا افسر اور کیا اہلکار، دفتر میں گزارتے ہیں۔ اس کا بھی زیادہ حصہ چائے اور خوش گپیوں میں گزر جاتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ کینیڈا کی ایک کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ ایک دن اپنی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ طلب کر لیے گئے۔ وارننگ دی گئی کہ دفتری اوقات میں ذاتی کام نہیں کر سکتے۔ آسٹریلیا میں ایک شخص دفتری اوقات میں کمپیوٹر پر، یو ٹیوب لگائے کچھ دیکھ رہا تھا۔ ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ یہاں آپ سرکاری ہسپتالوں میں جا کر سروے کر لیجیے، ڈاکٹر سے لے کر ڈسپنسر تک، دوا دینے والے سے لے کر پولیو سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے والے تک، سب غائب ہوں گے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں چار دن جاتے رہے، متعلقہ ڈاکٹر سے ملاقات نہ ہوئی۔ ہر روز یہی بتایا جاتا کہ رائونڈ پر ہیں۔ میٹنگ میں ہیں، چائے کا وقفہ ہے، کل آئیے۔ پانچویں دن تھک ہار کر وہ اس کے پرائیویٹ کلینک میں گئے، فیس ادا کی اور زیارت ہوئی۔ اب مثال کے طور پر انہی ڈاکٹر صاحب کا کیس لیجیے، تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر جو فرائض اس تنخواہ کے عوض سرانجام دینے ہیں وہ نہیں دے رہے اور ڈنکے کی چوٹ نہیں دے رہے۔ تراویح بھی پڑھتے ہوں گے، مسجدوں، مدرسوں میں چندہ بھی دیتے ہوں گے۔ عبادات کے اور ظاہر کے تمام دینی تقاضے پورے کرتے ہوں گے مگر سو سوالوں کا ایک سوال ان کے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی کبھی نہ اٹھا ہو گا کہ کیا وہ سرکار سے موصول ہونے والا مشاہرہ حلال کر رہے ہیں؟
اس کالم نگار سمیت ہم سب، اسلام کے اس قلعہ میں رہنے والے، صبح سے شام تک بے تحاشا جھوٹ بولتے ہیں۔ وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پھر طرفہ تماشا یہ ہے اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں گردانتے، کتنے ہی مذہب میں سر سے پائوں تک ڈوبے ہوئے نیک صورت افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نہیں، ہم نے وعدہ تو نہیں کیا تھا، بات کی
تھی۔ گویا بات منہ سے اور وعدہ کہیں اور سے نکلتا ہے۔
اس پر غور کرنے کی
ضرورت ہے کہ کافر جو ترقی یافتہ ملکوں میں رہتا ہے، وعدے کا کیوں پابند ہے؟ جھوٹ کیوں نہیں بولتا؟ جب یہ بات کی جائے تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ وہ افغانستان اور عراق و شام میں کیا کر رہے ہیں؟ اس کا موضوع سے تعلق ہی نہیں مگر پھر بھی جواب دینے کو جی چاہتا ہے کہ کافر عراق و شام میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو آپ دہلی سے لے کر انا طولیہ تک کرتے رہے۔ اس زمانے کے جدید ترین توپ خانے کے ساتھ بابر نے دہلی کی مسلم سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے۔ قتل ہونے والا ابراہیم لودھی نماز بھی پڑھتا تھا اور روزے بھی رکھتا تھا۔ جس سلطنتِ عثمانیہ کا نام سن کر یورپ لرزہ براندام ہو جاتا تھا، اس کی، مسلمانوں ہی کے بادشاہ امیر تیمور نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ترک خلیفہ بایزید کو گرفتار کر لیا۔ حلب اور دمشق کو تاخت و تاراج کیا۔ شہریوں کا قتل عام ہوا۔ بغداد پر حملہ کیا تو حکم دیا کہ اس کا ہر سپاہی کم از کم دو کٹے ہوئے سر پیش کرے۔ آرمینیا اور جارجیا کی عیسائی آبادیوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ ساٹھ ہزار تو صرف غلاموں کی تعداد تھی۔
کچھ عرصہ پہلے ایک معروف مبلغ نے برطانیہ میں کہا کہ اہلِ مغرب اپنے اعمال ہمیں دے دیں اور ہم سے ہمارا ایمان لے لیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ ہم کافر ہو جائیں۔ اعمال اور ایمان کا تبادلہ یوں بھی ناممکن ہے۔ مگر یہ سمجھانے کا ایک انداز تھا اور ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم ایمان تو رکھتے ہیں مگر ایمانی معاملات جس پاکیزگی کا تقاضا کرتے ہیں، اس سے محروم ہیں۔ ان مبلغ صاحب کے پیچھے ’’مسلمان‘‘ ہاتھ دھو کر پڑ گئے کہ انہوں نے ایسا کہا تو کیوں کہا؟
ہم اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس کا جواب کہیں نہیں مل رہا۔ تمام عبادات، صدقات و خیرات کے باوجود ملاوٹ کیوں عام ہے؟ گاڑیوں میں ڈالے جانے والے تیل سے لے کر سموسوں اور پکوڑوں میں ڈالے جانے والے تیل تک ہر شے جعلی اور جھوٹی کیوں ہے؟ ایک سو بیس روپے ایک کلو دودھ کے وصول کرنے والا مسلمان روزے رکھنے کے باوجود پانی کیوں ملاتا ہے؟ ہر سال عمرہ کرنے والے حاجی صاحب انکم ٹیکس دیتے وقت حیلہ سازی اور دروغ گوئی سے کیوں کام لیتے ہیں؟ افطار میں کھجور کا التزام کرنے والا روزہ دار، سرخ بتی کی حرمت کیوں پامال کرتا ہے؟ گھر بیٹھا ہوا نمازی فون پر کیوں کہتا ہے کہ راستے میں ہے اور گاڑی خراب ہو گئی ہے؟ ہمارے غسل خانے دنیا کے سب سے زیادہ گندے غسل خانے کیوں ہیں؟ ہم اپنے اپنے گھر کے سامنے، چند مربع فٹ جگہ بھی صاف نہیں رکھتے! آخر کیوں؟
سائنس دان رات دن یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کس طرح ہوئی، دمبدم پھیل کیوں رہی ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ کوئی سائنس دان، کوئی فلسفی، کوئی انجینئر، کوئی دانشور، اس سوال کا جواب بھی تو دے کہ ہم شدید مذہبی ہونے کے باوجود، اتنی برائیوں کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟

پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی راہ پر

$
0
0
حال ہی میں جس دن پیپلزپارٹی کے ایک معروف سیاست دان نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا‘ اسی دن 92 نیوز چینل کے پروگرام ’’نیوز روم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالم نگار نے پوچھا کہ کل عمران خان وزیراعظم بنے تو کیا اس سیاست دان کے بھائی کے خلاف کارروائی کر پائیں گے؟
یہ بھی عرض کیا تھا کہ عمران خان ان لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں جنہوں نے ’’برگر فیملی‘‘ اور ’’ممی ڈیڈی‘‘ کے طعنے سنے مگر کھاتے پیتے گھروں کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مہینوں عمران خان کے دھرنے میں فرشِ زمین پر بیٹھے رہے۔
دو قسطوں میں ایک معروف کالم نگار نے کرپشن کی جو دماغ سوز روداد بیان کی ہے اسے پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
اب وہ کہانی عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا
اس حیرت انگیز داستان امیر حمزہ کے الگ الگ اجزا‘ بہت حد تک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں اور باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو پہلے سے معلوم تھے مگر اب اس رپورٹ میں سے پوری کہانی منظر عام پر آ گئی ہے جو ایف آئی اے کی وساطت سے سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
’’ہم نے ان اٹھارہ ڈیلز میں 71 (اکہتر) کروڑ روپے رشوت اور کمیشن وصول کی۔ میرا حصہ سولہ کروڑ روپے بنا۔ باقی رقم… وہ ان کے ساتھیوں نے آپس میں بانٹ لی۔ یہ رقم بعدازاں ہنڈی کے ذریعہ برطانیہ گئی اور ہم نے اس سے وہاں پراپرٹی خریدی۔‘‘
بیان کا یہ حصہ بھی عبرت ناک ہے:
’’یوں علیم خان کو مجموعی طورپر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے ادا کئے گئے۔ یہ دونوں پلاٹ دریا برد تھے۔‘‘
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو کرپشن کی اس کہانی کا علم نہ تھا؟ اس سوال کے دو ہی ممکنہ جواب ہیں۔ عمران خان اس سے آگاہ تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آگاہ نہیں تھے۔ دونوں جواب شرم ناک ہیں۔ آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایسے سیاست دانوں کے لیے پارٹی کا دروازہ کھول دیا جو کرپشن میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کر کے عمران خان نے اپنی پارٹی کی پیٹھ میں خود ہی چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور اگر آگاہ نہیں تھے تو یہ نااہلی کی آخری انتہا ہے۔ آپ پارٹی میں کسی کو داخل کررہے ہیں اوراس کے ماضی کے حوالے سے چھان بین ہی نہیں کر رہے!
نہیں! ایسا نہیں کہ عمران خان کو حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کی شہرت کا علم نہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ مگر عمران خان کے بخت میں کاتبِ تقدیر نے لکھ دیا ہے کہ وہ استقامت سے عاری ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ ہر حال میں اقتدار کے قلعے پر قبضہ کریں گے۔ چنانچہ اب وہ فصیل پر چڑھنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے کرپٹ سیاست دانوں کے کاندھوں پر کیوں نہ سوار ہونا پڑے۔ وہ اس فصیل سے اندر کود کر‘ حکومت کے قلعے کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تاکہ پی ٹی آئی دروازے سے اندر داخل ہو جائے اور قلعے پر قبضہ کرلے۔
مڈل کلاس کے ساتھ اس ملک میں پہلا کھیل ایم کیو ایم نے کھیلا۔ لوگوں سے بندوق کے زور پرکھالیں چھینیں‘ سیکٹر کمانڈروں کا مافیا قائم کیا‘ الطاف حسین کو لندن کی پرتعیش زندگی فراہم کی‘ بوری بند لاشوں‘ ڈرل کیے گئے جسموں اور کیل ٹھونکے گئے سروں کا کلچر متعارف کرایا۔ مڈل کلاس کے نام پر پورٹ جہاز رانی کی اور ہائوسنگ اور تعمیرات کی وزارتوں کو سالہا سال تک نچوڑا گیا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلز تک سپر سٹوروں اور پٹرول پمپوں کے جال بچھ گئے۔ اکثر کے اہل خانہ امریکہ اور کینیڈا کے چمکدار شہروں کے گراں ترین حصوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ’’صاحب‘‘ یا ’’صاحبان‘‘ جنوبی پاکستان میں سیاست سے شغل فرما رہے ہیں!
مگر اس سے بھی شدید تر صدمہ مڈل کلاس کو… اس سیاہ بخت‘ لولی لنگڑی مڈل کلاس کو… عمران خان اور عمران خان کی پی ٹی آئی نے پہنچایا ہے! مومن کے بقول‘ مڈل کلاس کو اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
مرچُک کہیں کہ تو غمِ ہجراں سے چھوٹ جائے!
کس منہ سے عمران خان‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی کرپشن کی اب مذمت کریں گے ’ کس منہ سے… جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کی خدمت میں کرپشن کے انسداد کے لیے عرض گزاری کریں گے؟ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (قاف اور نون)‘ جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟
پی ٹی آئی کو کچرے کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر کے اگر عمران خان اوران کے رفقاء کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تو کم از کم ان نوجوانوں کو ضرور شرم آ رہی ہے جو کرپشن فری پاکستان اور میرٹ والے پاکستان کی آروز میں اس کے شریکِ سفر ہوئے تھے۔ ان تارکینِ وطن کے چہرے حیا سے ضرور سرخ ہورہے ہوں گے جنہوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ پرتھ‘ میلبورن اور سڈنی کے وہ بے غرض نوجوان جو شدید مصروف زندگی سے وقت نکال کر پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے تھے کیا پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو خوش آمدید کہیں گے؟ کینیڈا سے لے کر امریکہ تک اور لندن سے لے کر بارسلونا اور اوسلو تک پاکستانی تارکین وطن جس غم و اندوہ کی حالت میں ہوں گے‘ اس کا فقط تصور ہی کیا جاسکتا ہے!
جن افراد کو جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ ان کے گلوں میں پی ٹی آئی کی رنگین چادریں‘ پھولوں کے ہاروں کی طرح ڈال کر عمران خان شریف برادران کے بارے میں کس منہ سے کہیں گے کہ ان کی جگہ اڈیالہ جیل میں ہے؟ ہم جیسے کالم نگاروں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا‘ اس کے حق میں درجنوں نہیں‘ بیسیوں کالم لکھے‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر عمران خان کا دفاع کیا‘ مگر بقول ناصر کاظمی     ؎
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
تو پھر ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کو پی ٹی آئی میں کیوں نہ لے لیا جائے؟ بلکہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ عمران خان پیپلزپارٹی میں پی ٹی آئی کو مدغم کر کے کرپٹ سیاستدانوں کی سرپرستی کا کام آصف زرداری کی قیادت میں کریں اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں! جو راستہ عمران خان نے اختیار کیا ہے اس میں انہیں رہنمائی کی لازماً ضرورت پڑے گی۔ اس رہنمائی کے لیے زرداری صاحب سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟
کرپشن کی اس دلسوز کہانی کا ایک سرا علیم خان سے تو مل ہی رہا ہے‘ مگر کیا پی ٹی آئی میں شامل دیگر سیاست دانوں کے گلے رُندھ گئے ہیں کہ وہ احتجاج کا ایک لفظ زبان تک نہیں لا رہے؟ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر پی ٹی آئی کا دفاع کرنے والے خیبر پختونخواہ کے جوشیلے نوجوان کیوں چپ ہیں؟ کیا مراد سعید اور علی محمد خان نہیں دیکھ رہے کہ پنجاب میں کیا چاند چڑھائے جا رہے ہیںٖ؟ کیا محمودالرشید کے کرپشن کے خلاف دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں؟ اور کیا عارف علوی راضی برضا ہو گئے ہیں؟
عمران خان‘ پارٹی کو پستی کی ان گہرائیوں میں لے آئے ہیں جس کے بعد اب اسفل السافلین ہی کا درجہ باقی رہ گیا ہے! کوئی دن کی بات ہے کہ دانیال عزیز‘ طلال خان‘ ماروی میمن اور رانا ثناء اللہ کیلئے بھی دروازے کھل جائینگے کیونکہ اگر مقصد حکومت حاصل کرنا ہے توپھر ان حضرات نے کون سا گناہ کیا ہے؟ جو حضرات اب پی ٹی آئی میں جوق در جوق آ رہے ہیں اور خبروں کے مطابق آنیوالے ہیں‘ ان سے موازنہ کریں تو دانیال عزیز اور طلال خان بہتر ثابت ہونگے!
مگر عمران خان یاد رکھیں کہ ہم جیسے کالم نگار‘ جنہوں نے پی پی پی اور مسلم لیگ کی قانون شکنی‘ اقربا پروری اور بے ضابطگیوں کے خلاف کھل کر لکھا اور خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے‘ پی ٹی آئی کی کرپشن نوازی کے خلاف بھی لکھیں گے اور جم کر‘ ٹِکا کر لکھیں گے! قلم امانت ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید ہی کہا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون سے دشمنی ہے نہ جائیداد کا جھگڑا‘ نہ ہی پی ٹی آئی سے رشتہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا‘ کرپشن کے خلاف سٹینڈ لیا‘ ہم نے دل و جان سے حمایت کی۔ مگر اب اگر پی ٹی آئی اسی خوراک کو حلال قرار دے رہی ہے جسے حرام کہتی تھی تو ہم پی ٹی آئی کو آئینہ دکھائیں گے! اور ضرور دکھائیں گے!!
مسدس حالی کے آغاز میں حالی نے ایک رباعی لکھی ہے۔ لگتا ہے حالی عمران خان سے مخاطب ہیں     ؎
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ! تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

$
0
0

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط چھایا ہوا ہے۔ جب بھی اس 
خاندانی تسلط پر اعتراض کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آخر امریکہ میں بھی بش خاندان اور کینیڈی خاندان کئی پشتوں سے سیاست میں دخیل ہیں۔ اس سے زیادہ مغالطہ آمیز دلیل شاید ہی کوئی ہو۔ چلیے، یہ نہیں کہتے کہ یہ دلیل گمراہ کن ہے۔ شاید گمراہ کن کا لفظ سخت ہے۔ مگر نرم ترین الفاظ میں بھی اسے خلطِ مبحث ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر شریف خاندان، بھٹو خاندان، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان قابض ہیں۔ یہ قبضہ نسل درنسل چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی پارٹی کی سربراہ بنی۔ پھر اسی راستے سے وہ وزیر اعظم بنیں۔ پھر ان کے شوہر پارٹی کے سربراہ بنے۔ اسی حوالے سے پانچ سال وہ ملک کے صدر رہے۔ اب پارٹی کے سفید سرسیاست دان صاحبزادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہی اجارہ مسلم لیگ ن پر مسلط ہے۔ محمد خان جونیجو کو کہنی مار کر راستے سے ہٹا دینے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ کی سربراہی سنبھالی اور اب اس سربراہی کو کم و بیش تین عشرے ہونے کو ہیں۔
پانامہ کا معاملہ جب سے پیش منظر پر چھایا ہے، اندازے یہی لگائے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم اقتدار اپنی بیٹی کو سونپیں گے۔ اب ایک خبر یہ دی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم ان کا بھائی ہو۔
اس منظر نامے کو جو حضرات بش خاندان اور کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ ان پر حیرت ہوتی ہے۔
اگر امریکی سیاسی جماعتوں، ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی، کی صرف حالیہ تاریخ پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے تو اس دلیل کی ’’وقعت‘‘ اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے۔
پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کو لیجیے۔ صرف گزشتہ تیس برسوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ وہ تیس برس ہیں جن کے دوران مسلم لیگ نون ایک شخص…صرف ایک شخص… یعنی فردِ واحد کی زیر صدارت چلی آ رہی ہے۔ ان تیس برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے چودہ سربراہ بھگتائے ہیں۔ جی ہاں چودہ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو آنکھوں والو!
پھر یہ سربراہ بھی کلی اختیارات کا مالک نہیں ہوتا۔ پارٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک گورننگ باڈی ہے جسے ’’ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ریاست کی اپنی کمیٹی ہے۔ تمام پچاس ریاستوں میں سے دو سو منتخب ارکان اس مرکزی کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی کا سربراہ، یعنی پارٹی کا سربراہ، ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ ہر چار سال بعد یہ کمیٹی اور اس کا سربراہ قومی اجتماع(نیشنل کنونشن) منعقد کرتے ہیں تا کہ امریکی صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کریں۔ عبرت ناک اطلاع ہمارے لیے یہ ہے کہ جب اس پارٹی کا نامزد امیدوار امریکہ کا صدر بن جاتا ہے تو وہ پارٹی کی لیڈر شپ نہیں سنبھالتا۔ پارٹی کا سربراہ کوئی اور ہوتا ہے اور جو بھی ہوتا ہے، وہ پارٹی کی سربراہی جاری رکھتا ہے۔
یہی صورتِ حال ری پبلکن پارٹی کی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں چودہ افراد اس پارٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ آج کل پندرھواں ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس پارٹی کی ایک سو اکسٹھ سالہ تاریخ میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو پارٹی کا سربراہ رہا اور امریکہ کا صدر بھی بنا۔ لیکن یہاں یہ ذہن میں ضرور رکھیے کہ وہ شخص(جارج ایچ ڈبلیو بش یعنی سینئر بش) پارٹی کا سربراہ 1973-74ء میں رہا۔ ایک سال کے بعد نیا سربراہ آ گیا۔ اس کے سولہ سال بعد پارٹی نے سینئر بش کو صدارتی الیکشن کے لیے نامزد کیا اور وہ الیکشن جیت کر امریکی صدر بنا۔ اس کا بیٹا(جونیئربش) 2001ء میں امریکی صدر منتخب ہوا اور 2009ء تک صدر رہا۔ ان آٹھ سالوں میں پارٹی کی سربراہی سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ان نو سالوں میں نو مختلف سیاست دان پارٹی کے سربراہ رہے۔ ان نو سربراہوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا تعلق ٹیکساس سے ہو جہاں سے بش تھا۔
اس صورتِ حال کو پاکستان کی خاندانی اجارہ داری سے تشبیہہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کسی خاندان کا سیاست میں ہونا الگ بات ہے اور ایک خاص خاندان کا سیاسی جماعت پر سالہا سال تک، عشروں تک، مسلط ہونا بالکل مختلف حقیقت ہے۔ خواجہ آصف صاحب کا خاندان سیاست میں ہے۔ ان کے والد صاحب بھی سیاست میں سرگرم تھے۔ گوجرانوالہ کا دستگیر خاندان، مری کا خاقان عباسی خاندان، پشاور کا بلور خاندان، یہ سب خاندان سیاست میں کئی پشتوں سے دخیل ہیں۔ ان کا موازنہ کینیڈی خاندان یا بش خاندان سے ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی خاندان کا پارٹی پر تسلط نہیں۔ مگر شریف خاندان اور بھٹو(زرداری) خاندان کی پارٹی پر اجارہ داری کو باربار وزیر اعظم بننے کو، پھر اپنی بیٹی اور بھائی کو وزیر اعظم بنانے کی منصوبہ بندی کو بش یا کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دینا تاریخ کو اور حقیقتِ حال کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت ضرور ہے مگر اپاہج ہے۔ لولی لنگڑی ہے۔ ان پارٹیوں کے اندر جو انتخابات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت سب جانتے ہیں۔ کیا ان انتخابات کو ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ہونے والے ان انتخابات سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو ہر ریاست میں منعقد ہوتے ہیں اور جینوئن ہوتے ہیں؟
امریکہ میں ریاست(یعنی صوبے) کے امور، گورنر کا بیٹا نہیں چلاتا۔ امریکی صدر کی بیٹی وزراء کو ہدایات نہیں دیتی اگر امریکی صدر بیمار پڑ جائے تو غیر ملکی سفیر بیٹی کی خدمت میں نہیں حاضر ہوتے۔ امریکی پارلیمنٹ کا سپیکر، کنارے پر نہیں چلتا تا کہ سرخ قالین پر صرف صدر کی بیٹی چل سکے۔ آپ پاکستانی جمہوریت کو ضرور جمہوریت 
کہیے مگر خدا کے لیے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیے اس آمرانہ اور خاندانی 
جمہوریت کا جواز امریکہ کے نظام میں نہ تلاش فرمائیے!  ع
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
امریکی صدر کلنٹن جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا تو باہر اس کے حواری ڈائس نصب کر کے عدالت پر اور سیاسی حریفوں پر تابڑ توڑ حملے نہیں کرتے تھے۔ امریکی صدر کی جائیداد اور کارخانے امریکہ سے باہر نہیں۔ وہ سال میں پندرہ چکر لندن کے نہیں لگاتا۔برطانوی وزیر اعظم نے اپنی بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خریدی، اس کا ٹیکس ڈاکخانے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر خود جمع کرایا۔ سرکاری گھر خالی کرنا تھا تو سامان خود پیک کیا۔ وزیر اعظم کی بیوی بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کرتی پائی گئی تو اسے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان اپنے حکمرانوں کے عیاشانہ طرزِ رہائش کے خلاف عدالت میں جاتا ہے تو اسلامی طرزِ رہائش کی مثال دیتے وقت برطانوی وزیر اعظم کے سرکاری گھر کا ذکر کرتا ہے۔
ہمارے دانشوروں کی زندگیاں لکھتے اور بولتے گزر جاتی ہیں مگر وہ سیاسی جماعتوں پر خاندانی اجارہ داری کے خلاف لکھتے ہیں نہ بات کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا اگر نشان دہی کرتا ہے کہ پارٹی پر اجارہ داری ہے اور اس اجارہ داری کو یوں استعمال کیا جا رہا ہے کہ ملک کا اقتدار بھی اسی خاندان کے پاس رہے تو ایک اضطراب برپا ہو جاتا ہے۔ پھر جواز ڈھونڈے جاتے ہیں اور امریکہ کے سیاسی خاندانوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ زمینی حقائق دیکھے جانے چاہئیں۔ آئیے! زمینی حقائق بھی دیکھ لیتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون پر ایک خاندان کا قبضہ ہے اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے کہ اقتدار اسی خاندان کے قبضے میں رہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلاول کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان پر قبل از تاریخ کا سرداری نظام مسلط ہے اور سترسال میں صرف ایک وزیر اعلیٰ ایسا گزرا ہے جو سردار نہیں تھا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی دولت ملک سے باہر ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے صوبے کو دبئی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
تو پھر کیا یہ زمینی حقیقتیں ہمارے پائوں کی زنجیر بن جائیں؟ کیا یہ حقیقتیں قوم پر مسلسل مسلط رہیں؟ کیا ان خاندانوں سے نجات حاصل کرنا، زمینی حقائق کی توہین قرار دیا جائے؟ تو کیا یہاں کسی لی کسی مہاتیر کے آنے کی توقع ہی نہ کی جائے کیوں کہ زمینی حقائق ساتھ نہیں دے رہے؟
چلیے! ہم ہی ہار مان لیتے ہیں۔ قوم کو زمینی حقائق بدلنے کا سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ چلیے! راضی برضا ہو جاتے ہیں کہ ہم پر میاں نواز شریف اور بھٹو کے نواسے پوتے پڑپوتے لکڑ پوتے حکومت کریں اور کرتے ہی رہیں۔ میرؔ یاد آ رہے ہیں    ؎
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی! مگر کب؟؟

$
0
0
قے ہے کہ رک نہیں رہی! سر ہے کہ درد سے پھٹا جارہا ہے۔ پائوں سُوج گئے ہیں۔ ایک لقمہ تک نہیں کھایا جاتا۔ آنکھیں بند ہورہی ہیں۔
مگر آہ! یہ طبیب کیا کر رہے ہیں! قے روکنے کی عارضی دوا دیئے جا رہے ہیں۔ سر کے درد کے لیے پیرا سٹا مول کھلا رہے ہیں۔ پائوں پر پیاز اور ہلدی کا ملغوبہ لگا رہے ہیں۔ بند آنکھیں ہاتھوں سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیماری تو اندر ہے! یرقان ہے یا ملیریا‘ تپ دق ہے یا پھیپھڑوں کا مرض!! جو کچھ بھی ہے‘ علاج اس کا ہونا چاہیے۔ اصل بیماری کا علاج کارگر ہوا تو قے بھی رک جائے گی‘ سر درد بھی تھم جائے گا‘ پائوں کی سوجن بھی ٹھیک ہو جائے گی اور مریض آنکھیں بھی کھول لے گا۔
یہ کیسے طبیب ہیں! یہ کیسے لواحقین ہیں‘ مرض کی تشخیص نہیں کر رہے ہیں۔ ظاہری علامات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
مجید اچکزئی کا جو طرز عمل ہے اور زیارت کے ڈپٹی یا اسسٹنٹ کمشنر نے جو کچھ کیا‘ خدا کے بندو! وہ تو علامت ہے۔ ڈیوٹی پر کھڑا ہوا کانسٹیبل ایم پی اے نے گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ پھر پولیس اور میڈیا پر دھونس جمائی۔ زیارت کا افسر‘ دو لاکھ روپے لے کر مقتول کے گھر پہنچ گیا اور سادہ کاغذ پردستخط کرانے لگ گیا۔ بجا کہ محمود خان اچکزئی اس وقت وفاقی حکومت کا حمایتی ہے‘ بجا کہ اچکزئی خاندان صوبے پر حکمرانی کر رہا ہے مگر یہ قتل اچکزئی کے بجائے کسی اور سردار سے ہوتا تو اس کا بھی رویہ یہی ہوتا۔ افسر اور اہلکار اسے چھڑانے کے لیے بھی اسی طرح دوڑ دھوپ کرتے۔
یہ سب ظاہری علامتیں ہیں۔ اصل بیماری بلوچستان کا سرداری نظام ہے جس کی مثال مہذب دنیا میں شاید ہی کہیں ملے۔ یہ سردار ستر سال سے اقتدار میں ہیں۔ حزب اختلاف میں ہوں۔ تب بھی ان کے اختیارات وہی رہتے ہیں۔ یہ چیف منسٹر بن جائیں تو سارے ترقیاتی منصوبے صرف کاغذوں پر ہوتے 
ہیں۔صوبہ تو ایک طرف رہا‘ اپنے علاقے میں بھی ترقیاتی کام نہیں کرانے نہ ہونے دیتے ہیں۔ کیوں؟ تاکہ قبیلے میں کوئی سر نہ اٹھا سکے! کوئی پڑھ لکھ کران کے سامنے بات نہ کرسکے۔
سردار‘ بلوچستان میں‘ قبیلے کا حکمران مطلق ہے۔ وہی عدالت ہے‘ وہی پولیس ہے‘ وہ قبائلیوں کے خانگی معاملات میں بھی دخیل ہے۔ اس کے علاقے میں تعینات افسر‘ اہلکار‘ اس کے اشارۂ ابرو پر چلتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کو تنخواہ اس کی پرچی کے بغیر نہیں ملتی۔ وہ چاہے تو جرم ثابت کرنے کے لیے ملزم کو سلگتے انگاروں پر پائوں دھرنے کا حکم دے دے۔ چاہے تو قبائلی کو حکم دے دے کہ بیوی کوطلاق دے دو! اُس کا علاقہ اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ سرکاری منصوبوں کے پائپ اچھے نہ لگیں تو حکم دیتا ہے کہ اڑا دو‘ مخالفت ہو تو اغوا کروا دیتا ہے۔ چاہے تو پورے قبیلے کے ہاتھ میں بندوقیں پکڑوا کر پہاڑوں پر چڑھا دے۔ علاقے کے سکولوں کالجوں کی سرکاری عمارتیں ان کے غلے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے چھت پر چڑھ کر‘ گلی میں چلتے کسی بھی انسان کے سر کا نشانہ لے سکتا ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف ادیب نے بتایا کہ ایک قبیلے کا ایک نوجوان کراچی چلا گیا اور کچھ پڑھ لکھ گیا۔ واپس آیا تو اپنے باپ کے ساتھ سردار کے حضور‘ حاضری کے لیے گیا۔ کپڑے ذرا اُجلے پہنے تھے۔ بالوں کو ذرا کنگھی کی ہوئی تھی‘ باپ بیٹا واپس ہورہے تھے کہ بیٹے کو پکڑ لیا گیا۔ اس کے جسم پر شہد ملا گیا۔ پھر اسے ایک ایسے غار میں پھینک دیا گیا جس میں لاکھوں چیونٹیاں تھیں۔ سردار کی ’’دُور رس‘‘ نگاہ خطرہ نہیں مول لے سکتی تھی کہ کوئی پڑھ لکھ کر‘ کسی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ بن جائے اور قبائلی بیدار ہو جائیں۔ کالا باغ کا سردار اپنے علاقے میں سکول بنوانے کا اسی لیے مخالف تھا۔ رعایا پڑھ لکھ جائے تو بے چون و چرا حکم نہیں مانتی ‘آگے سے سوالات پوچھتی ہے۔
یہ ہے بلوچستان کی اصل بیماری! ایم پی اے کے تکبر کا سرا اسمبلی کی ممبری تک نہیں‘ سرداری تک جارہا ہے‘ وہ حیران ہے کہ سرداروں سے باز پرس ہورہی ہے۔
زاغ کی اولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے؟
نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے؟
سرداری نظام کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں‘ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ستر سال میں صرف ایک ایسا شخص وزیراعلیٰ بنا جو سردار نہیں تھا۔ ترقی روکنے کے لیے یہ سردار‘ بلوچستان کے نوجوانوں کوقومیت کی پٹی پڑھاتے ہیں‘ کبھی ’’آزادی‘‘ کے خواب دکھاتے ہیں‘ کبھی پنجابی ’’سامراجیت‘‘ کے خلاف جذبات بھڑکاتے ہیں۔ ذہنوں کو مسخ کرتے ہیں۔ زبان‘ نسل اور قومیت کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تاکہ سرداری نظام میں کوئی رخنہ نہ پیدا کرسکے۔ یہ کالم نگار دارالحکومت کی ایک معروف یونیورسٹی میں بلوچستان سے آئے ہوئے اساتذہ سے لیکچر نما گفتگو کر رہا تھا۔ اساتذہ پرائمری سکولوں کے نہیں‘ کالجوں اور یونیورسٹی کے تھے۔ انہی دنوں بلوچستان کے ایک سردار زادے نے لاہور میں پریس کانفرنس کی تھی اور سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سلگتے انگاروں پر چلنے کی رسم کا دفاع کیا تھا۔ اُس کے خیال میں یہ بلوچی روایت تھی جس کا وہ دفاع کررہا تھا۔ کالم نگار نے اس کا ذکر کیا اور غلطی یہ کی کہ سردار زادے کا نام لے لیا۔ اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی کہ سردار کی عزت پر نہ ہاتھ ڈالا جائے۔
یہ ہے وہ نیم خوابیدہ کیفیت جس میں بلوچی نوجوانوں کو مبتلا کیا جارہا ہے۔ انہیں قبیلے کی ’’عزت‘‘ کا نشہ پلایا جاتا ہے۔ ان کے لیے معاشی ترقی‘ سماجی تبدیلی یا سیاسی ارتقا‘ سب کچھ قبیلے کے سامنے ہیچ ہے۔
سرحد پار‘ بھارت میں کیا ہوا؟ کاش اس سے سبق سیکھا جاتا‘ تقسیم کے بعد چار پانچ سال ہی گزرے تھے کہ نوابوں‘ راجوں‘ مہاراجوں‘ سرداروں سے جاگیریں اور سرداریاں ریاست نے لے لیں‘ شروع شروع میں پینشنیں دی گئیں۔ بعد میں وہ بھی ختم! اس سے اسمبلیوں کی پشتینی نشستیں خود بخود ختم ہوگئیں۔ کوئی اپنے محل کو ہوٹل بنا کر گزارہ کرنے لگا کسی نے کوئی اور پیشہ اختیار کیا۔
جمشید دستی کا اصل جرم یہ نہیں کہ وہ حزب اختلاف میں ہے اور کھڑک کربولتا ہے‘ فوری وجہ گرفتاری کی یہی جرم ہے مگر اصل جرم یہ ہے کہ وہ غریب اور عام آدمی ہے اور سیاست میں منہ مارتا ہے۔ وہ بھی اس علاقے میں جو 
جاگیرداروں‘ زمینداروں اور پشتینی گدی نشینوں کا گڑھ ہے۔ انگریز سرکار سے ملی ہوئی خلعتوں اور جاگیروں کے مالک‘ ایسے عام شخص کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ جو سلوک دستی کے ساتھ ہورہا ہے‘ کسی خانزادے یا جاگیردار کے ساتھ ہوتا تو گوادر سے لے کر مظفر آباد تک سردار یک زبان ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہی کچھ منتخب ایوانوں میں اس وقت ہوتا ہے جب زرعی پیداوار پر ٹیکس کی بات ہوتی ہے۔ سارے کوے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کائیں کائیں کا وہ غلغلہ بلند کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔
سیاہ بختی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا تو اصلاحات سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہو گئیں۔ زمینداروں نے ترکیب نمبر چھ استعمال کی اور صاف بچ رہے! رہے آج کے حکمران اور سیاست دان تو ان کی سطحی ترجیحات میں ایسی بنیادی اصلاحات کی گنجائش ہے نہ انہیں اس کا ادراک ہے۔
عمران خان بہت سی بنیادی تبدیلیو ں کا ذکر کرتا ہے۔ جیسے صحت اور تعلیم کے میدان! مثلاً بدقسمتی سے سرداری نظام اور جاگیردارانہ تسلط کے ضمن میں اس نے بھی آج تک کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ اگر اسے اقتدار مل گیا تو کیا اس حوالے سے وہ کچھ کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔ سردست مجید اچکزیوں کے سردارانہ رویے اور جمشید دستیوں کی بے کسی کو گوارا کیجیے! اور فیض صاحب کی اس انقلابی نظم پر گزارا کیجیے جس کی مقبولیت کے پیچھے انقلابی خیالات کم اور اقبال بانو زیادہ ہے!      ؎
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل پر لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے

$
0
0

’’خدا کرے لاٹھی کے سہارے چلو!‘‘
کیا یہ بددعا ہے جو بڑھیا نے نوجوان کو دی؟ نہیں! یہ دعا ہے لیکن لطیف پیرائے میں دی ہوئی دعا!
بڑھیا کی دعا طویل عمر کے لیے تھی! اتنا عرصہ زندہ رہو کہ بوڑھے ہو جائو اور لاٹھی کے سہارے چلو!
یہ ادبی پیرا یہ‘ یہ لطافت‘ یہ گہرائی‘ یہ سب کچھ ہمارے قریوں بستیوں ہماری ڈھوکوں‘ گوٹھوں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں قدم قدم پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔ گلی میں معمر عورت جب کسی نوجوان کو روک کر پیٹھ تھپتھپاتی ہے اور صرف اتنا کہتی ہے ’’چاند نکل آیا ہے‘ پھول کھل اٹھے ہیں‘‘ تو وہ خوش آمدید کہہ رہی ہوتی ہے کہ تم شہر سے آئے ہوئے ہو۔ جب ماں بیٹے کو کہتی ہے کہ تمہیں گرم ہوا نہ لگے تو اس سے زیادہ جامع دعا آخر کیا ہوگی۔ یعنی ہوا معتدل ہو جس سے تم لطف اندوز ہو سکو۔ گرم ہوا سے مراد دنیا کی مصیبتیں بھی ہیں۔
پھر وہ ایک اور دعا دیتی ہے‘ ’’دونوں جہانوں کی کچہری میں سرخرو رہو۔‘‘ ہماری بستیوں کی روزمرہ زندگی میں کچہری کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے‘ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کسی گائوں یا قصبے میں پلا بڑھا ہو۔ عزت رکھنے اور عزت بچانے کے لیے‘ دشمن کو مات دینے کے لیے‘ اپنا حق ثابت کرنے کے لیے کچہری میں مقدمہ کیا جاتا ہے۔ وکیل بھرا جاتا ہے۔ تاریخوں پر تاریخیں لگتی ہیں‘ مدتیں اسی قانون جنگ میں گزر جاتی ہیں۔ پھر فیصلہ حق میں ہوتا ہے تو یہ ایک ایسی کامیابی ہوتی ہے جس پر مبارکیں وصول کی جاتی ہیں۔ یہ سب اچھا ہے یا برا‘ لیکن ہے حقیقت! اس حوالے سے ماں دعا دیتی ہے کہ وہ کچہری جو حشر کے دن قائم ہو گی‘ اس میں تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
جس زمانے میں جنگ عظیم نے برصغیر کے نوجوانوں کو ہڑپ کرنا شروع کیا تھا‘ مائیں دعائیں مانگا کرتی تھیں ’’خدا کرے لام ٹوٹے! اور سب کے بچے خیریت سے واپس آئیں۔‘‘ لام لڑائی کو کہتے تھے اور نوٹ کیجیے کہ ماں صرف اپنے بچے کے لیے نہیں ‘سب کے بچوں کے لیے دعا مانگ رہی تھی۔ اس میں اس کے دشمن بھی شامل تھے۔ پھر وہ ایک اور دعا مانگتی تھی ’’بچے وڈیرے اور دکھ پر پڑے ہوں۔ یعنی بچے پلیں بڑھیں اور دکھ دور رہیں۔
یہ ادب اور سخن سنجی صرف دعائوں میں نہیں‘ بددعائوں میں بھی موجود ہے۔ ’’خدا کرے روٹی آگے آگے ہو اور تم پیچھے پیچھے‘‘۔ یعنی روٹی کا نوالہ حاصل کرنے کے لیے تمہیں اس کی طلب میں محتاج ہونا پڑے۔‘‘ ایک اور بددعا دیکھیے۔ ’’کبھی اتنا نہ جمع ہو کہ بیٹھ کے کھا سکو!!‘‘ یعنی ہمیشہ لقمے لقمے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہو۔
’’تمہارا منہ مٹی تلے آئے‘‘ کون سی مٹی؟ یہاں بددعا یہ ہے کہ مرو‘ تمہیں قبر میں رکھیں اور تمہارے منہ پر مٹی ڈالیں۔
لوک سمجھ بوجھ کی ایک اور جھلک دیکھیے! ایک ان پڑھ چرواہا عقل مند بہت تھا۔ اس کا نام ہی سیانا تھا۔ بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا‘ اس نے پوچھا تم کون ہو‘ کہنے لگے جہاں پناہ! میں سیانا ہوں‘ بادشاہ نے طنز سے پوچھا کہ عقل بھی ہے یا صرف نام کے سیانے ہو؟ سیانے نے کہا حضور‘ عقل رکھتا ہوں جبھی تو تین سو مویشیوں کو گانے کی ایک لے سے کنٹرول کرتا ہوں۔ بادشاہ تھوڑا سا لاجواب ہو گیا۔ پوچھا تمہیں آتا کیا ہے؟ سیانے نے جواب دیا کہ میں نے اہل دنیا کے لیے کچھ فارمولے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ سناتا ہوں۔
اب سیانے کے فارمولے دیکھیے
٭  دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے۔
٭  دو آدمیوں سے بچ کے رہو‘ بسنتا نائی اور کم عقل قصائی۔
٭  دو کی بات کبھی نہ مانو‘ داڑھی والا کراڑ (ہندو) اور مونچھوں والی عورت۔
٭  بوڑھی بھینس اور کُند چُھرا! کیا حماقت ہے۔
٭  باگ پکڑنے والا جو گھوڑے کے پیچھے پیچھے چلے اور بیوی جو شوہر سے پہلے کھانا کھالے‘ دونوں نارمل نہیں۔
٭  میدان جنگ سے بھاگنے والا سورما اور سنار کا وہ بیٹا جو حساب کتاب میں مار کھا جائے‘ دونوں ٹھیک نہیں۔
٭  وہ شخص جو اندھے کے سامنے روئے‘ بہرے سے گفتگو کرے اور گونگے کے ذریعے پیغام بھیجے‘ احمق ہے۔
٭  گرمیوں کی دوپہر سخت ہوتی ہے۔ دریا کے کنارے شہر برا ہوتا ہے اور اندھا مارے تو خطرناک ہوتا ہے۔
٭  تین تباہی لاتے ہیں۔ تمباکو نوش عورت‘ رشوت خور حکمران اور لاڈ پیار میں پلا بیٹا۔
٭  راگ رنگ چونچلے رومان سب بھول جاتے ہیں‘ یاد کیا رہتا ہے۔ صرف نمک‘ تیل اور ایندھن کے لیے لکڑیاں۔
٭  تین قسم کے آدمیوں سے دور بھاگو۔ حکمران جسے عزت نفس کا پاس نہ ہو۔ چھوٹا جو بڑے کو دور سے آواز دے اور قلاش جسے اچانک ڈھیر ساری دولت مل جائے۔
٭  چار چیزیں میٹھی ہیں۔ گنڈیری‘ گڑ‘ بیٹے کی نسبت داماد اور بھائی کے مقابلے میں بیوی کا بھائی۔
٭  پانچ چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ بات نہ کرسکنے والا فرزند‘ ضدی بیٹی‘ بُڑبڑاتی بہو‘ آوارہ گرد عورت اور ژالہ باری والی بارش۔
٭  اب ان کہاوتوں پر غور کیجیے جو ہمارے بڑے بوڑھے اور ہماری نانیاں دادیاں گفتگو میں استعمال کرتی ہیں۔ ایک ایک کہاوت دانائی کا مینار ہے۔ زندگی کے تجربے ان مقولوں میں مہک اور لہک رہے ہیں۔ یہ کہاوتیں‘ یہ اقوال‘ ایک دن‘ ایک سال یا ایک صدی میں نہیں بنے‘ یہ صدیوں کے پیش آئے واقعات کے بعد ابھرے ہیں۔ مدتیں ان کی تشکیل میں لگیں۔ یہ دانش کے خزانے ہیں۔ ان میں ادبی چاشنی ہے اور ذہانت کی جھلکیاں بھی۔
٭  دھوبی کے گھر ڈاکہ پڑے تو نقصان اس کا نہیں دوسرے کا ہوگا۔
خالہ‘ ماں سے مختلف تو نہ ہوگی‘ اس لیے کہ دیوار‘ بنیاد پر ہی اٹھتی ہے۔
٭  میں بھی رانی ہوں اور تم بھی رانی‘ پانی کون بھرے گا؟
٭  نیفے میں گاجریں چھپائی ہوئی ہیں اور نام خان صاحب ہے۔
٭  بھیڑ اس لیے رکھی تھی کہ اُون حاصل ہوگی مگر وہ تو کپاس کے پودے بھی کھا گئی۔
٭  بھیڑے نے ریوڑ پر حملہ کیا‘ عین اسی وقت حفاظت کرنے والے کتے کو بیت الخلا جانا پڑ گیا۔
٭  سنار اپنی ماں کے لیے زیور بنا رہا تھا۔ بے ہوش ہوگیا۔ کھوٹ ملا کر رہا‘ تب افاقہ ہوا۔
٭  بڑے شہر میں رہنا چاہیے‘ خواہ جھونپڑی میں رہیں۔ راستہ سیدھا چننا چاہیے بے شک لمبا ہی کیوں نہ ہو۔
٭  بہو آ گئی ہے۔ اب میرے سارے دلدر دور ہو گئے۔ دودھ بلوتے وقت ناک پونچھ رہی ہے اور تڑ تڑ جوئیں مار رہی ہے۔
٭  تالاب میں اترنا ہے تو پھر چھینٹوں سے ڈرنا کیسا؟
مگر حیرت ان بجھارتوں پر ہوتی ہے جو ہمارے عوام میں گردش کرتی ہیں۔ کیسے کیسے دور رس نکتے ہیں اور تخیل کی حیرت انگیز اڑانیں۔
٭  قبر چونے گچ اور مردہ دوزخی (گندا انڈا)
٭  ہوا سے زندگی پائے اور پانی سے موت (آگ)
٭  اوپر سے بکرا گرا۔ اس کے منہ سے میٹھی رال ٹپک رہی تھی۔ پیٹ پھاڑ کر دیکھا تو چھاتی پر بال تھے (آم۔ تب آم چوسنے والے ہوتے تھے)۔
٭  دو سگے بھائی کبھی اکٹھے‘ کبھی ایک دوسرے سے الگ (دروازے کے دو کواڑ)۔
٭  تم تو جا رہے ہو مگر یہ ساتھ کون ہے؟ (سایہ)
٭  پہلی نہ آخری! میں تو اس پر قربان جو درمیان میں ہے۔ (جوانی)
٭  ذرا سی چھوکری مگر سر پر راکھ کی ٹوکری (چلم)
٭  ہمارے گھر ایک بچی آئی۔ چٹیا نئی تھی۔ کوٹی ایسی تھی جس میں نو سو بٹن تھے۔ (مکی کا بُھٹہ)
٭  دیگچہ لاہور رکھا‘ آگ ملتان میں لگی۔ پھونک دلی میں ماری‘ جلا ہندوستان (حقہ) (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
٭  ماں ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی اور بیٹا چھت پر چڑھ گیا۔ (دھواں)
٭  ذرا سی بچی اور لمبا پراندا (سوئی دھاگہ)
٭  پیٹ سے نکالو‘ پسلی میں مارو (ماچس)
جا تو رہے ہو مگر پیچھے کسے چھوڑ کر جا رہے ہو (نقش پا)
اب آخر میں دو لوک لطیفے۔
ایک چودھری لیٹا ہوا تھا۔ نوکر اس کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ سامنے سے میراثی آتا دکھائی دیا۔ چوہدری نے نوکر کو حکم دیا کہ میراثی نزدیک آئے تو اس پر بھونکو۔ میراثی نزدیک آیا تو نوکر بھونکا۔ میراثی کہنے لگا۔ ’’جو مردہ سامنے پڑا ہے پہلے اسے تو بھبھوڑ لو۔‘‘
بنیا کسان کے پاس گدھا مانگنے آیا۔ کسان نے بہانہ بنایا کہ کوئی مانگ کر پہلے ہی لے گیا ہے۔ اتنے میں اندر سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز آئی۔ بنیا کہنے لگا تمہارا گدھا تو اندر موجود ہے۔ کسان نے جواب دیا کہ عجیب بدتمیز ہو‘ میری بات پر نہیں گدھے پر اعتبار کر رہے ہو۔

اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا

$
0
0
سخاوت یہ نہیں کہ عید کے موقع پر آپ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور 
جوتے خریدیں‘ بھتیجوں اور بھانجوں کو عیدی دیں‘ بیگم صاحبہ کو نیا سوٹ خرید کردیں اور اقربا اور احباب کی ضیافت کریں! سخاوت کا دارومدار اس سلوک پر ہے جو عید کے موقع پر آپ اپنے ملازموں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ کیا آپ انہیں نئی پوشاک مہیا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ دس بارہ ہزار یا پندرہ سولہ ہزار روپے میں ان کا مہینہ کس مشکل سے گزرتا ہے؟ کیا آپ انہیں کچھ رقم تنخواہ کے علاوہ دیتے ہیں تاکہ وہ کم از کم عید کے موقع پر اچھا کھانا کھا سکیں؟ ان کے دستر خوان پر کچھ پھل آ جائیں!
دنیا میں انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ فیاض اور کنجوس! عربوں کا مقولہ ہے کہ سخاوت تلے کئی عیب چھپ جاتے ہیں‘ یعنی سخی کی بہت سی کمزوریاں پس پشت ڈالنا پڑتی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت یا کنجوسی کا سب سے زیادہ علم گھر میں کام کرنے والے ملازم‘ خاکروب‘ ڈرائیور اور چوکیدار کو ہوتا ہے۔ وہ مروت کے سبب‘ یا رعب کی وجہ سے‘ یا خوف کے باعث اس موضوع پر بات کبھی نہیں کرے گا مگر وہ ’’صاحب‘‘ کی فطرت اور عادات پر بہت کچھ کہہ سکتا ہے۔ وہ خاندانی پس منظر بھی جان جاتا ہے اورظرف کی تنگی یا وسعت کا بھی گواہ ہوتا ہے۔
فراخ دلوں‘ مہمان نوازوں‘ کنجوسوں‘ بخیلوں اور مفت خوروں پر جتنا کچھ عربی ادب میں لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور زبان کے لٹریچر میں موجود ہو! عربی سے یہ موضوع فارسی ادب میں در آیا۔ شعرا سخاوت کو بھولتے ہیں نہ خست کو معاف کرتے ہیں! عباسیوں کے عہد نے برامکہ کاعروج و زوال دیکھا۔ عروج کے زمانے میں خالد برمکی تھا یا یحییٰ برمکی یا فضل‘ سب ایک سے ایک بڑھ کر فیاض اور دریا دل تھے مگر ایک رکن ان کے خاندان کا کنجوس تھا۔ ایک شاعر نے اس کی ہجولکھی کہ اگر اس کی ملکیت میں بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات ہی محلات ہوں‘ یہ محلات سوئیوں سے بھرے ہوئے ہوں‘ کوئی شخص اس سے تھوڑی دیر کے لیے قمیض سینے کے لیے ایک سوئی‘ صرف ایک سوئی مانگے‘ تمام پیغمبر گارنٹی دیں کہ یہ شخص سوئی واپس کردے گا اور فرشتے اس شخص کی سفارش کریں‘ پھر بھی وہ سوئی نہیں دے گا!
مَرَو کے باشندوں کی کنجوسی ضرب المثل تھی۔ اکٹھے سفر کرتے تو ہر آدمی اپنے لیے گوشت کا ایک ٹکڑا الگ خریدتا۔ اس کو دھاگے سے باندھتا۔ پھر سب مل کر اسے ہانڈی میں پکاتے اور سب اپنے اپنے دھاگے کا سرا ہاتھ میں رکھتے۔ پک جاتا تو ہر شخص اپنا دھاگہ کھینچ کر اپنا گوشت الگ کرلیتا۔ شوربا آخر میں یوں بانٹتے کہ کسی کو ایک قطرہ بھی دوسرے سے کم یا زیادہ نہ ملتا!
ایک کنجوس بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا۔ کہنے لگا گوشت بہت اچھا پکا ہے مگر کاش یہاں ہجوم نہ ہوتا۔ بیوی نے پوچھا کون سا ہجوم؟ کہنے لگا‘ تم۔ پھر حسرت کا اظہار کیا کہ کاش صرف میں اکیلا ہی یہ سارا کھانا کھاتا! ایک بار بیوی نے خوشخبری دی کہ بچے کے دانت نکل آئے ہیں۔ غضب ناک ہوا اور کہا‘ تم مجھے روٹی کے دشمن کی خبر دے رہی ہو!
ایک کنجوس نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ روٹی کا لقمہ توڑتا‘ اسے تھوڑی دیر کے لیے دیوار کے شگاف میں رکھتا‘ پھر اٹھا کر کھا لیتا۔ باپ نے اس حرکت کی وجہ پوچھی‘ کہنے لگا‘ پڑوسیوں نے آج گوشت پکایا ہے‘ ان کے گھر کی طرف سے سالن کی خوشبو بھری ہوا آ رہی ہے‘ میں اس ہوا کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں! باپ ناراض ہوا اور ڈانٹا کہ کم بخت! تم سالن کے بغیر نہیں کھا سکتے!
خراسان کا ایک شخص جب بھی حج یا عمرے کے لیے عرب جاتا‘ واپسی پر عراق میں ایک شخص کے ہاں ضرور قیام کرتا جو اس کا دوست تھا۔ عراقی اس کی خوب خاطر مدارات کرتا اور ہفتوں اسے مہمان رکھتا۔ خراسانی اکثر اسے کہتا کہ کاش کبھی آپ خراسان آئیں تاکہ میں آپ کے ان احسانات اور مہمان نوازی کا کچھ بدلہ اتاروں! گردش زمانہ عراقی کو خراسان لے گئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ پتہ پوچھتا اس کے پاس پہنچ گیا۔ خراسانی اس وقت اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا تھا۔ عراقی کو دیکھ کر اس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا جیسے پہچانا ہی نہ ہو! عراقی کو گمان ہوا کہ شاید شال کی وجہ سے شناخت نہیں کر پا رہا‘ اس نے شال اتار دی۔ خراسانی پھر بھی انجان بنا رہا۔ اب عراقی کو شک ہوا کہ شاید اس کی پگڑی کے سبب نہیں پہچان رہا‘ اس نے پگڑی بھی اتار دی۔ پھر بھی وہ اجنبی ہی بنا رہا۔ پھراس نے ٹوپی بھی اتار دی۔ اب خراسانی نے سارا تکلف اور بناوٹ بالائے طاق رکھ دی اور کہا کہ اگر تم اپنی کھال اتار دو تب بھی نہیں پہچانوں گا!
ایک کنجوس کے ہاں جب بھی کوئی مہان آتا دل پر پتھر رکھ کر اسے کھانا کھلاتا اور شب بسری کے لیے کمرہ اور بستر مہیا کرتا۔ صبح مہمان اگر اظہار تشکر کے طور پر کہتا کہ رات خوب مزے کی نیند آئی تو آگے سے جواب دیتا کہ جب کھانا اتنا زیادہ کھایا تو نیند مزے کی آنی ہی تھی! اگر مہمان بے خوابی کی شکایت کرتا تو کہتا‘ بسیار خوری کے سبب تمہارے پیٹ نے تمہیں سونے نہ دیا!
ایک کنجوس گوشت کھا رہا تھا اور اس کے تین بیٹے اسے کھاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ سب کچھ چٹ کر گیا یہاں تک کہ صرف ایک ہڈی بچی۔ اس  نے تینوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ ہڈی اسے ملے گی جو اسے کھانے کا حق ادا کرے گا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ ہڈی کا حق دار صرف وہ ہے کیونکہ اسے چوس چوس کر بالکل خشک کر دے گا اور یہ لکڑی کی طرح ہو جائے گی۔ باپ متاثر نہ ہوا۔ منجھلے نے دعویٰ کیا کہ وہ اسے اتنا چوسے گا کہ یہ کئی سال پرانی لگے گی۔ باپ نے اسے بھی فیل قرار دیا۔ چھوٹے نے کہا کہ وہ اسے چوسے گا پھر اسے خشک کرے گا۔ پھر پیس کر اس کا سفوف پھانک لے گا! باپ نے اسے آفرین کہا اور ہڈی کا حقدار قرار دیا!
سخاوت کے بھی بڑے بڑے حیران کن واقعات ہیں۔ حاتم طائی سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم سے بھی بڑھ کر کوئی سخی ہے؟ حاتم نے جواب دیا کہ ہاں! ایک یتیم بچہ! دوران سفر اس کے ہاں ایک شب قیام کیا! اس کے پاس دس بکریاں تھیں۔ اس نے میرے لیے ایک ذبح کردی۔ کھانا آیا‘ تو بکری کا بھنا ہوا مغز بھی تھا۔ مجھے بہت پسند 
آیا اور میں نے اس کی تعریف کی۔ یہ سن کرلڑکا باہر نکل گیا۔ اس نے باقی نو 
بکریاں بھی ذبح کر ڈالیں اور سب کا مغز بھون کر پیش کردیا۔ صبح مجھے یہ سب معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا! لڑکے نے جواب دیا کہ مہمان کو کوئی شے اچھی لگے اور میں اس میں بخل کروں‘ یہ عربوں کے لیے گالی سے کم نہیں!
اُزبک مہمان نوازی اور سخاوت میں عربوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں! بابر کی بہن گلبدن بیگم کا بیان ہے کہ ہمایوں نے قریبی رشتہ دار خواتین کی دعوت کی تو پچپن بکریاں ذبح کرائیں! اس کالم نگار کو ازبکوں کی سخاوت اور مہمان نوازی کا بارہا تجربہ ہوا۔ تاشقند میں ایک دوست کے ہاں ملاقات کے لیے گیا تو وہ عصر کی نماز کے لیے نکل رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ مسجد گیا اور  جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ واپس گھر پہنچے تو مغرب تک کئی افراد نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مہمان کی دعوت وہ کرنا چاہتے ہیں! قیام معروف ازبک ادیب دادا خان نوری کے گھر تھا! وہ بھی ہمراہ تھے۔ ازبک مہمان کی تکریم کے لیے چپان (روئی بھرا چغہ) پیش کرتے ہیں۔ مجھے تو اس دوست نے چپان پہنانا ہی تھا‘ دادا خان نوری کو بھی نئی قمیض تحفے میں دی اور معذرت کی کہ اور کوئی شے گھر میں اس وقت نہیں تھی! خالی ہاتھ کسی کو بھی گھر سے واپس نہیں جانے دیا جاتا! مہمان جتنی دیر بیٹھے‘ مسلسل ماکولات و مشروبات آتے رہتے ہیں۔ انواع و اقسام کے خشک پھل‘ پھر تازہ پھل‘ جن میں اکثر گھر خود کفیل ہوتے ہیں! انڈے‘ مختلف پکوان‘ ہر قسم کے شربت اور کولڈ ڈرنک‘ چاکلیٹیں اور ٹافیاں‘ قسم قسم کے سالن اور کبھی تل تو کبھی خشخاش لگے نان! آخر میں پلائو پیش کیا جاتا ہے جو مہمان کی تکریم کے لیے عام طور پر گھر کے مرد پکاتے ہیں! پلائو کے اوپر بریاں گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا ہوتا ہے جسے گھر کا معمر ترین فرد کاٹ کر مہمان سمیت سب کو پیش کرتا ہے!
بہت سال ہوئے‘ یہ کالم نگار سخت بیمار پڑ گیا۔ دارالحکومت کے شفا ہسپتال میں داخل تھا۔ تاشقند دادا خان نوری کو معلوم ہوا تو پلائو کا سارا سامان لے کر جہاز میں بیٹھے اور پہنچ گئے۔ پلائو پکانے کا بڑا برتن بھی‘ جسے ازبک کازان کہتے ہیں ساتھ لائے۔ چاول سے لے کر پیاز تک‘ گاجروں سے لے کر ہر قسم کے مصالحے تک‘ ہر شے جو پلائو میں پڑنا تھی‘ تاشقند سے ہمراہ لائے۔ ازبکوں کا خیال ہے کہ پلائو سے شفا ہوتی ہے۔ اصرار کیا کہ ہسپتال میرے کمرے میں پلائو پکائیں گے۔ بہت مشکل سے انہیں سمجھایا گیا کہ اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور دنبے کا گوشت‘ جہاں سے سفیر صاحب خریدتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ پھر پلائو خود پکایا۔ واپس گئے تو فون پر کہا کہ اب پلائو کھانے سے تم جلد صحت یاب ہو جائو گے! جانے پلائو کا وسیلہ تھا‘ دوائوں اور دعائوں کا‘ جلد رو بہ صحت ہوگیا!
کئی فیاض لوگوں کو دیکھا‘ ان کے ساتھ بیٹھے اور معاملات 
(Dealings)
 کیں! ایسے لوگوں کی صحبت میں عجیب طمانیت اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے! غالباً اُن کی شخصیت سے غیر مرئی شعائیں خارج ہوتی ہیں جو ساتھ بیٹھے ہوئوں کو اپنے(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 حصار میں لے لیتی ہیں! فتح جنگ میں ایک دوست ملک بشیر تھے‘ مرحوم ہوگئے۔ وسائل زیادہ نہ تھے مگر دوست تو کیا‘ واقف بھی سر راہ مل جاتا تو کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتے۔ اسلام آباد سے پشاور جانا تھا۔ انہیں معلوم ہوگیا‘ فون کیا کہ ’’راستے میں‘‘ فتح جنگ کھانا کھا کر جانا ہوگا۔ عرض کیا کہ فتح جنگ راستے میں کہاں سے آ گیا‘ کہنے لگے بس ترنول سے ذرا بائیں مڑ جائیے گا! اتنا اصرار کہ جائے بغیر چارہ نہ رہتا! غضب کا مکھڈی حلوا‘ دیسی مرغی اور ہمارے علاقے کی خاص تندوری روٹیاں پیش کرتے۔ خود بہت کم کھاتے۔ خدا مہمان نوازی کے صدقے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے او راحت و آرام سے نوازے!
مگر جو سخاوت یار دیرینہ سید فاروق گیلانی مرحوم میں دیکھی‘ شاید ازبک اور عرب بھی اس تک نہ پہنچ پائیں۔ ہر روز بلاناغہ شام اسلام آباد کلب میں گزارتے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ دربان اور خدمت گار کو کچھ نہ دیا ہو اور اچھا خاصا نہ دیا ہو! جہاں بیٹھتے بزم کا سماں ہوتا! انجمن آرائی ہوتی! سب کو بلاتخصیص کھانا کھلایا جاتا! چائے پلائی جاتی! چائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا! دور کا واقف بھی نظر آ جاتا تو خاطر داری بغیر نہ جانے دیتے! جتنا عرصہ مکان زیر تعمیر رہا‘ باقاعدگی سے جتنے راج مستری مزدورتھے‘ سب کی دعوت کرتے۔ خود ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ شاید ہی کوئی ملازم انہیں چھوڑ کر کبھی گیا ہو! گھر میں کچھ نہ ہوتا تو ملاقاتی کو لے کر ریستوران چلے جاتے! سید کا دستر خوان تھا۔ طلسم سے بھرپور اور اسم کی تاثیر والا!
بات عید اور ملازموں سے شروع ہوئی تھی! ایسے ایسے لوگ دیکھے کہ دل عش عش بھی کر اٹھا اور بعض اوقات عبرت بھی پکڑی! ایسے اصحاب بھی دیکھے جو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملازموں کو کھانا بھیجتے اور ایسے ایسے بخت کے پیکر بھی دیکھے جو اپنے گھر میں کام کرنے والوں کو بھی روٹی اور چائے تو دور کی بات ہے‘ پانی تک نہ پوچھیں!
فیاض انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ کھلا کر‘ بانٹ کر‘ اسے مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس مسرت کے حصول کے لیے وہ کھلاتا ہے‘ بانٹتا ہے‘ یہاں تک کہ داد و دہش اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ مہمان نہ ہو تو کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ آ جائے تو سب کچھ حاضر کر دیتا ہے! مہمان کا سٹیٹس نہیں دیکھتا بلکہ اپنی نجابت اور اپنے خاندانی پس منظر کو ذہن میں رکھتا ہے! (کچھ واقعات ڈاکٹر نائف محمود معروف کی تصنیف ’’طرائف و نوادر‘‘ سے لیے گئے ہیں۔)

Viewing all 1918 articles
Browse latest View live