Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1904 articles
Browse latest View live

چھجو کا چوبارہ


مظلوموں کی پریڈ

$
0
0
عوام کے دلوں سے خدا کا خوف نکل چکا ہے۔ مظلوموں کی آہ آسمانوں کا سینہ چیر کر سیدھا اُوپر جا رہی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا شعر ایک زمانے میں زبان زد خاص و عام تھا‘ آج پھر اُس کا ورد کرنا چاہیے   ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے 
ڈاکٹر عاصم مظلوم ہیں۔ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ وہ فریاد کناں ہیں کہ غصہ کسی اور پر ہے‘ نکل اُن پر رہا ہے۔ اُنہی کے ہسپتال میں انہیں اس طرح لے جایا گیا کہ ہاتھ لوہے سے بندھے تھے۔ کبھی کہا جاتا ہے‘ اتنے کروڑ روزانہ کے حساب سے لیتے رہے‘ کبھی الزام لگایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا علاج معالجہ کراتے رہے۔ حالانکہ وہ بے قصور ہیں‘ معصوم ہیں!
آصف علی زرداری مظلوم ہیں۔ آہ! وطن سے دُور‘ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ اپنی سرزمین کی مٹی کو ترس گئے ہیں! غریب الوطنی صحت کو گھُن کی طرح کھا رہی ہے۔ روکھی سوکھی جو ملے زہر مار کرنا پڑتی ہے۔ یا رب کوئی جہاں میں اسیِر محسن نہ ہو! اُن کے احوال کا سُن کر کلیجہ مُنہ کو آتا ہے مگر افسوس! سوائے صبر کے چارہ نہیں!
قائم علی شاہ مظلوم ہیں۔ خوش قسمت لوگ ضُعف اور پیری کے عالم میں آرام کرتے ہیں‘ اولاد سے خدمت کراتے ہیں مگر شاہ صاحب کو اِس عمر میں طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے سرکاری اجلاس میں اُس نے اُن کے خراّٹے خود سنے ہیں۔ کوئی طنز کرتا ہے کہ سانس لینے سے پہلے اجازت لیتے ہیں۔ کوئی نشتر چلاتا ہے کہ وظیفہ پڑھتے وقت کہتے ہیں ’’مُنہ طرف دبئی کے‘‘! کوئی کہتا ہے صوبے میں اہمیت کے لحاظ سے ان کا ساتواں نمبر ہے۔ کبھی بلاول کے ہاں حاضری دیتے ہیں تو کبھی صاحب کے (سوتیلے یا مُنہ بولے) بھائی کے ہاں! تھر کے قحط کا معائنہ کرنے گئے تو گاڑیوں کا جلوس لے کر کیا گئے کہ طعن و تشنیع کے انبار لگ گئے۔ اِس عمر میں قوم کی دن رات خدمت کر رہے ہیں اور اِس جذبے کے ساتھ کہ دل ان کا چاہتا ہے خدمت کرتے ہی رہیں۔ مگر مظلومیت کی انتہا کہ آفرین کہنے کے بجائے ظالم عوام کُچھ اور ہی کہتے پھرتے ہیں!
الطاف حسین مظلوم ہیں! ہائے افسوس! صد افسوس! بیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا دیارِ غیر کی سختیاں سہہ رہے ہیں! وطن سے سات سمندر دُور‘ بھائی بہن‘ عزیز و اقارب کے ہجر میں مرغِ بسمل کی طرح روز و شب تڑپتے ہیں‘ مگر برطانوی حکومت جانے کی اجازت دیتی ہے نہ پاکستانی حکومت آنے کی! اور یہ دونوں کانٹے نکل جائیں تو ظالم عوام فرمائش کر دیتے ہیں کہ وہیں رہیے! اس پر مستزاد یہ کہ بیروزگار ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم جُوں تُوں کر کے قائم رکھے جا رہے ہیں‘ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اُن کی حالت اُس خاندانی شریف کی طرح ہے جو اچکن پہن کر گھر سے نکلتا تھا‘ مگر تنگدستی کی وجہ سے اچکن کے نیچے کُچھ نہیں ہوتا تھا! اِن ساری مصیبتوں کے باوجود ہر وقت قوم کا غم کرتے ہیں!
حمزہ شہباز شریف مظلوم ہیں۔ پرسوں تو ان کی آنکھیں ماضی کو یاد کر کے چھلک چھلک گئیں۔ دادا جان کی چارپائی کو اُن کے علاوہ کندھا دینے والا کوئی نہ تھا! اچھے زمانوں میں جلا وطنی کے لیے حکومتیں کالا پانی چنتی تھیں‘ یا آسٹریلیا کا غیر آباد جزیرہ! اب ظلم کی انتہا دیکھیے کہ جدہ بھیجتے ہیں‘ جہاں لق و دق صحرا ہے اور باقر خانیاں بنانے والا خاص باورچی ساتھ نہ لے جایا جائے تو بیچارے جلاوطنوں کا بُھوک کے مارے جانے کیا حال ہو! حمزہ شہباز جوانی کے دن رات قوم پر لٹا رہے ہیں۔ رکن وفاقی پارلیمنٹ کے ہیں‘ اس کے باوجود اپنی جان کو ہلکان کرتے ہوئے صوبے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ پارٹی بھی چلا رہے ہیں‘ انتخابات کی مشینری کو بھی گریس دیتے ہیں۔ مگر خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے لوگ نکتہ چینی کرتے ہیں!
مولانا فضل الرحمن مظلوم ہیں! پکار پکار کر قوم کو متنبہ کر رہے ہیں کہ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے‘ مگر قوم ہے کہ کانوں میں روئی ڈالے ہوئے ہے! مدارس کا پارلیمنٹ میں دفاع کرتے ہیں اور مدارس شکریہ تک نہیں ادا کرتے! جب بھی قوم کی کشتی بھنور میں پھنستی ہے‘ مولانا صاحب اُسے خون آشام لہروں کے مُنہ سے نکال کر ساحل پر لاتے ہیں۔ مشرف کا زمانہ ہو یا بے نظیر کا‘ زرداری کا ہو یا میاں صاحب کا‘ وہ اپنی خدمات ہمیشہ پیش کرتے ہیں۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود کشمیر کمیٹی کو وقت دیتے ہیں۔ حکومتوں کے بے حد اصرار پر مجبوراً پروٹوکول قبول کرتے ہیں! اِس وقت مُلک میں اگر امن و امان ہے اور آٹا چاول نظر آ رہے ہیں تو مولانا کی جماعت کا بے لوث کردار اس کامیابی کی پشت پر ہے۔ مگر افسوس! طوطا چشم عوام اُن کو عجیب عجیب القاب و خطابات سے یاد کرتی ہے!
میاں شہباز شریف مظلوم ہیں! بغیر تنخواہ کے وزارت خارجہ کی بیگار کاٹ رہے ہیں۔ ایک ٹانگ چین ہے تو دوسری ترکی! کبھی برطانیہ کے لیے پا بہ رکاب ہیں تو کبھی شرق اوسط کا رُخ کیے ہوئے ہیں! صوبے کی فکر الگ ہے۔ فرزند ارجمند کی صلاحیتیں صوبے کو سونپ دیں! بارہ بارہ اٹھارہ اٹھارہ وزارتیں خود چلاتے ہیں۔ ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے! مگر عوام ہیں کہ خوش نہیں ہوتے۔ سڑکوں کے جال بچھا دیے‘ مگر نا شکر گزار قوم ہسپتال کا ذکر لے بیٹھی ہے جہاں مریض برآمدوں میں پڑے ہیں اور قینچی‘ روئی اور آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی نایاب ہیں! لیکن اُن سرکاری سکولوں کا قصہ لے بیٹھتی ہے‘ جن کی چھتیں ہیں نہ دیواریں۔ اساتذہ ہیں نہ پینے کا پانی! کہیں تھانہ کلچر کے نہ بدلنے کا شکوہ کرنے لگتی ہے۔ حالانکہ شاہی خاندان نے اسٹامپ پیپر پر یہ لکھ کر ہرگز نہیں دیا کہ تین عشروں میں‘ محض تین عشروں میں‘ سکول ہسپتال اور تھانے جدید عہد میں داخل ہو جائیں گے!
ان مظلوموں کا موازنہ اگر عوام سے کریں تو صورت حال ایسی سامنے آتی ہے کہ دل بھر آتا ہے۔ المیہ زیادہ گمبھیر یوں ہو جاتا ہے کہ عوام کو ذرہ بھر ان مظلوموں کا احساس نہیں! حقیقت یہ ہے کہ عوام مظالم سے واقف تک نہیں! انہیں معلوم ہی نہیں کہ دبئی میں زندگی گزارنا کتنا جانکاہ اور کٹھن کام ہے! عوام کو جلاوطنی کے جیم کا بھی علم نہیں! جدہ کے محلات میں‘ لندن کے اپارٹمنٹوں میں اور دبئی کے ایوانوں میں زندگی گزارتے تو ان ظالم عوام کے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ جتنی دولت ڈاکٹر عاصم نے اکٹھی کی ہے‘ عوام اکٹھی کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ دولت حاصل کرنا آسان ہے مگر اُسے محفوظ رکھنے کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں‘ ہتھکڑیاں‘ جیلیں‘ عدالتوں میں پیشیاں‘ میڈیا بدنامی‘ ان میں سے عوام نے تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ جتنی کربناک زندگی حمزہ شہباز گزار رہے ہیں‘ عوام کے فرشتوں کو بھی اس کی خبر نہیں ایک جہاز سے اترنا‘ دوسرے پر سوار ہونا‘ میلوں لمبے پروٹوکول کے جلو میں چلنا‘ ماتحتوں‘ ملازموں اور وابستگان کے ہجوم میں رہنا‘ بیک قلم لوگوں کی تقدیریں بگاڑنا یا سنوارنا‘ یہ سب کتنا اذیت ناک ہے۔ عوام کو اِس انوکھی دنیا کے مصائب کا کوئی اندازہ ہی نہیں!
یہ مُلک اگر اب تک سلامت ہے تو اِن مظلوموں کی آہوں‘ کراہوں اور دعائوں کی بدولت! ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں! کاش وہ دن بھی آئے کہ ظالم عوام کیفر کردار کو پہنچیں‘ اور مظلوموں کا یہ گروہ مصائب کے چنگل سے رہائی پائے۔ اُمید کا دیا دُور‘ بہت دُور‘ ٹمٹا رہا ہے! ایک نہ ایک دن اِن مظلوموں کی ضرور سُنی جائے گی! احمد ندیم قاسمی نے انہی کے لیے کہا تھا   ؎
خراشیں دل کی امڈیں گی ندیم اک موجِ خوں بن کر
یہی پگڈنڈیاں مل جل کے بن جائیں گی شہراہیں

کسبِ کمال

$
0
0
ہم تین دوست بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی میں تینوں اکٹھے تھے اس لیے ایک دوسرے کے ’’اندرونِ خانہ‘‘ احوال سے واقف تھے، اپنے مسائل پر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے اور حل مانگتے تھے یا تجویز کرتے تھے۔ بھٹی نے اُس دن بھی وہی پرانی پٹاری کھول رکھی تھی۔ بیٹے ماشاء اللہ اس کے چار پانچ تھے۔ باعثِ اذیت اس کے لیے یہ تھا کہ دس بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد بریک لگ جاتی تھی۔ کسی کی کسی مضمون میں کمپارٹمنٹ آ جاتی تھی، کوئی پورا فیل ہو جاتا تھا،کوئی کالج میں داخلے لینے کے بعد پڑھائی میں عدم دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کر دیتا تھا اور کوئی اگر فیل نہیں بھی ہوتا تھا تو آگے بڑھنے سے منکر ہو جاتا تھا!
اب تک تو جب بھی بیٹھتے تھے، یہی سوچتے تھے کہ کم از کم گریجوایشن تو کرلیں، مگر اُس دن ہم میں سے ایک کا میٹر بالکل پھِرا ہُوا تھا۔ اُس نے پوچھا، گریجوایشن، گریجوایشن کی جو ہم رٹ لگائے رکھتے ہیں، اگر دھکیل کر، مارکُٹ کر، لعن طعن کر کے، بہلا پھُسلا کر، گریجوایشن کر بھی لیں گے تو ظاہر ہے کہ اس سے آگے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔ مگر کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گریجوایشن کے بعد کیا کریں گے؟ اب تو ڈرائیور کا اشتہار دیا جائے تو بی اے، ایم اے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ لفٹ بوائے اچھے خاصے ڈگری یافتہ ہیں! نائب قاصدوں نے اوپن یونیورسٹی کی وساطت سے ایم بی اے تک کر لیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا تم نے کبھی بچوں سے پوچھا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آخر اُن کی اپنی خواہش بھی تو کچھ ہو گی؟ بھٹی نے اپنی اولاد کو ایک موٹی سی گالی دی اور کہا کہ بزنس کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں دکانیں کھول کر دو!
چوہدری کا میٹر اُس دن اچھا خاصا پھرا ہوا تھا۔ کہنے لگا، یار بھٹی! اللہ کا نام لو اور جو وہ چاہتے ہیں، انہیں کرنے دو! کاروبار چلا لیں گے تو کامیاب ٹھہریں گے، تم بھی ذمہ داری سے سبکدوش ٹھہرو گے، نہ چلا سکے تو شکوہ بھی نہیں کر سکیں گے اور یہ روز روز کی کِل کِل ختم ہو جائے گی!
بھٹی نے تین بیٹوں کو دکانیں ڈال دیں۔ ایک کو کھلونوں کی، دوسرے کو ریڈی میڈ گارمنٹس کی اور تیسرے کو سٹیشنری کی! پہلے دو نے اچھا خاصا کامیاب بزنس کیا۔ یوں سمجھیے اگر چوٹی پر پہنچنے کا مطلب دس ہے تو وہ کچھ ہی عرصے میں چھ تک پہنچ گئے۔ گریجوایشن کر کے کلرک بنتے (وہ بھی تب اگر کلرکی مل جاتی) تو دس میں سے مشکل سے چار تک پہنچ پاتے، تیسرا واقعی ٹیلنٹ رکھتا تھا۔ اس کی دکان کا محلِ وقوع بھی بہتر تھا۔ اُس کا وژن دور رس تھا۔ اس نے جنرل آرڈر سپلائی کا کام بھی شروع کر دیا۔ پانچ چھ سال بعد اُس نے ماں باپ کو حج کرایا۔ دس سال ہوئے تو شہر کے نواح میں اچھے خاصے رقبے پر مشتمل زمین خریدی، پھر ایک نسبتاً بہتر آبادی میں اپنے لیے بہت ہی مناسب مکان تعمیر کرایا۔ پھر ماں باپ کو اندرونِ شہر کی گھٹن سے نکالا اور ان کے لیے الگ رہائش گاہ بنوائی۔ چند ماہ پہلے معلوم ہوا کہ بزنس ٹرپ پر یورپ گیا ہوا ہے۔ 
یہ صرف ایک مثال ہے! کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بچوں پر، کیریئر کے حوالے سے، ماں باپ کو اپنی خواہش مسلط نہیں کرنی چاہیے! لڑکا فائن آرٹس میں جانا چاہتا ہے، باپ اسے ڈاکٹر بنانے پر مُصر ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ڈاکٹر بن نہیں پاتا اس لیے کہ زبردستی کے سودے کم ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ فائن آرٹس کا کیریئر بھی ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے پھسل جاتا ہے۔ بیٹی کی دلچسپی اکائونٹنسی میں ہے مگر ماں انجینئر بنانے پر مُصر ہے۔ بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے خبط نے کتنے ہی ذہین طلبہ اور طالبات کی زندگیاں بدمزہ کی ہیں! کتنے ہی بچے جو باکمال بزنس مین بن سکتے تھے، ماں باپ کی احمقانہ ضد کے سامنے بے بس ہو کر گریجوایٹ بنے۔ پھر ملازمت کے لیے در در کے دھکے کھاتے رہے۔ آخر کار کلرکی ملی۔ ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح مشقت کرتے رہے۔ بہت تیر مارا تو ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال پہلے نام نہاد افسری ملی!
کیریئر پلاننگ، ہمارے ہاں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ناپید ہے۔ ماں باپ کو پروا ہی نہیں کہ بچوں کا ذہنی میلان کس طرف ہے۔
باپ نے اپنی شادی سے پہلے ہی خواب دیکھ لیا تھا کہ اُس کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا۔ اب وہ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اساتذہ بے نیاز ہیں۔ اس امر کا تصور ہی نہیں کہ استاد طالب علم کے والدین کو طلب کرے، اُن سے بچے کے کیریئر اور ذہنی میلان پر گفتگو کرے اور پھر تینوں مل کر، طالب علم سے بات چیت کریں اور یوں اس کے کیریئر کا فیصلہ اس کی خواہش اور صلاحیت کے مطابق ہو!
ہر تحریر میں نصیحت کی جاتی ہے اور ہر تقریر میں یہ قولِ زریں دہرایا جاتا ہے کہ   ع
 کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی!
مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ کسبِ کمال صرف اُس شعبے میں ہوتا ہے جو دل اور دماغ دونوں کو پسند ہو! ایک غریب آدمی کا بچہ چاہتا ہے کہ صوفہ بنانا سیکھے۔ یہ کام اُسے پسند ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ پندرہ بیس سال بعد اُس کی اچھی خاصی بڑی ورکشاپ ہو، بیس پچیس کاریگر اُس کے ملازم ہوں، صوفوں کے آرڈر پر آرڈر آ رہے ہوں اور وہ ورکشاپ کے ایک کونے میں، شیشے کی دیواروں کے پیچھے، اپنے باعزت دفتر میں بیٹھا سب کی نگرانی کر رہا ہو۔ کسبِ کمال یہ ہے کہ وہ صوفے کو دیکھتے ہی جان جاتا ہے کہ اس کا ڈھانچہ کتنا مضبوط ہے، لکڑی کس قبیل کی لگی ہے اور کپڑا یا چرم لگانے والے سے کہاں چوک ہوئی ہے۔ اگر باپ صوفہ بنانے کے فن کو حقارت سے دیکھتا، اُسے دو گالیاں دیتا، تین تھپڑ رسید کرتا اور بارہ جماعتیں فیل یا پاس کرواتا تو وہ آج صاحب کو چائے پلا کر میز صاف کر رہا ہوتا!
ہماری عمر کے افراد کو، جو قیامِ پاکستان کے آگے پیچھے اِس دنیا میں آئے، یاد ہو گا کہ اُن دنوں مسجدوں میں پانی کے پائپ اور ٹونٹیاں نہیں ہوتی تھیں۔ مٹی کے کوزے ہوتے تھے۔ اِن کوزوں کا دہانہ تنگ ہوتا تھا۔ یہ وضو کے لیے اور نہانے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ وہ زمانہ حد درجہ کفایت شعاری کا تھا! بستیوں میں ماچس کی ایک تیلی بچانے کے لیے سلگتا ہوا انگارہ پڑوسن کے چولہے سے، دھات کے چوڑے ٹکڑے پر رکھ کر لایا جاتا تھا! لالٹین کا شیشہ ٹوٹتا تھا تو ٹوٹا ہوا ٹکڑا، آٹے سے یا سریش سے دوبارہ جوڑا جاتا تھا۔ چائے کی پیالی ٹوٹتی تھی تو پٹھان کاریگر اُسے ٹانکا لگا کر دوبارہ قابلِ استعمال کر دیتا تھا۔ اسی طرح کوزہ ٹوٹ جاتا تو اسے مسجد سے باہر نہیں پھینک دیا جاتا تھا۔ اُس پر چمڑے کا پیوند لگتا تھا۔ بزرگوں سے ایک ایسے ماہر کاریگر کے بارے میں بھی سنا، جو پیوند لگاتے وقت، سوئے کو کوزے کے اندر سے واپس بھی لے آتا تھا۔ اُس کی مہارت کا چرچا اتنا ہوا کہ علاقے کے حاکم نے دربار میں بلایا، اُس کے فن کا مظاہرہ دیکھا اور اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ ہمیں کسبِ کمال کا بنیادی فلسفہ ہی معلوم نہیں! کسبِ کمال فقط یہ نہیں کہ آپ آنکھ کا آپریشن کرنے کے ماہر ہیں یا فائیو سٹار ہوٹل کی چین کامیابی سے چلا رہے ہیں یا لوہے کے ایک کارخانے سے دس کارخانے کما لیتے ہیں یا اے لیول طلبہ کو ریاضی یوں پڑھاتے ہیں کہ سب کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کسبِ کمال یہ بھی ہے کہ آپ فرش پر ٹائلیں یوں لگائیں کہ دیکھنے والا آپ کے ہاتھ کی صفائی پر قربان ہو جائے۔ فرنیچر ایسا بنائیں کہ استعمال کرنے والا تہہ خاک جاسوئے مگر لکڑی خراب نہ ہو! کپڑا ایسا سیئیں کہ درجنوں سفیر یورپ واپس جا کر بھی ملبوسات آپ ہی سے سلوائیں اور باغبان ایسے ہوں کہ لوگ آپ کے پیچھے پیچھے پھریں!
رہی یہ بات کہ ہاتھ سے کام کرنے والوں کی ہمارے ہاں عزت نہیں اور یہ منافق معاشرہ انہیں حقارت سے دیکھتا ہے تو آپ اس معاشرے پر تین حرف بھیجئے۔ یہ اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ یہ تہذیب اپنے خنجر سے خود ہی خود کشی کر رہی ہے! یہاں اگر بڑھئی کی، موچی کی، راج کی، درزی کی عزت نہیں تو پی ایچ ڈی استاد کی تکریم کہاں ہے؟ یہاں تو تنگ ذہن والا سیکشن افسر، باہر سے پڑھ کر آنے والے پروفیسر کو لوہے کے چنے چبوا دیتا ہے اور شام کو اپنے بے ضمیر ساتھیوں میں بیٹھ کر فائلوں پر حاصل کی ہوئی فتوحات کے قصے، ہنس ہنس کر سناتا ہے! جن ملکوں نے ترقی کی ہے وہاں ہائوس آف کامنز کے ممبر کے ساتھ والے گھر میں خاکروب رہتا ہے اور وزیر اعظم کی بیٹی، پلمبر کے بیٹے سے شادی کرے تو کسی کے پیٹ میں مروڑ نہیں اُٹھتے!

سچ کہتا تھا افضل خان

$
0
0
ایک انٹلیکچوئل اور ایک تاجر کے وژن میں کیا فرق ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو کو ’شباب جن کے دروازے پر دستک دے رہا تھا‘ وزارتِ خارجہ میں بٹھا دیا۔ فائلیں پڑھتی تھیں، ہو سکتا ہے ان پر کچھ لکھتی بھی ہوں۔ نہیں معلوم کتنا عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا! 
مریم نواز امریکہ کے حالیہ دورے میں امریکی خاتونِ اوّل سے ملاقات کے دوران بولیں تو اچھا بولیں۔ اس سطح پر، گفتگو کرنے کے حوالے سے شہزادی کا غالباً یہ پہلا Exposure
 تھا! والدِ گرامی نے بیٹی کو میڈیا کا کام سونپا ہے جو اصلاً ایک منفی کام ہے۔ اس ملک میں میڈیا کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ دریا کے اِس کنارے والوں کی تعریف و توصیف اور ہر اقدام کی خواہ وہ کتنا ہی غیر دانش مندانہ کیوں نہ ہو، ایسی توجیہہ کہ مافوق الفطرت نظر آئے۔ اور دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہونے والوں کو ہر حال میں یزداں کے مقابلے میں اہرمن ثابت کرنا! امورِ مملکت میں تربیت دینے کا یہ ایسا انداز ہے جو ہرگز مستحسن نہیں! ہاں رموزِ مملکت اس سے ضرور سمجھے جا سکتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ ’’رموز‘‘ سے مراد ہمارے ہاں وہ ساری ترکیبیں ہیں جو ’’دوسری‘‘ قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ چند دن پہلے احباب جمع تھے۔ کسی نے رونا رویا کہ وزیرِ خارجہ ہی کوئی نہیں! ایک دوست نے جو اعلیٰ سطح کے حکومتی عہدے پر ہیں، کہا کہ مریم نواز کو لگایا جا سکتا ہے! ایک معقول بات ہے۔ مگر یہ تو ہو کہ پہلے مرحلے میں وہ وزارتِ خارجہ میں بنیادی مراحل سے گزریں۔ سیکشن افسر، ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر جنرل کے دائرۂ کار سے براہِ راست واقفیت حاصل کریں۔ پھر ایسی فائلیں دیکھیں جو سیکرٹری اور مشیر کو بھیجی جا رہی ہیں! جوہر اگر قابل ہو تو تربیت زمین سے آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔ سنائی نے کہا تھا  ؎
سالہا باید کے تایک سنگِ اصلی زآفتاب
لعل گردد  در  بد خشاں یا عقیق اندریمن
بدخشاں کا لعل اور یمن کا عقیق بننے کے لیے پتھر کو ایک عرصہ سورج سے فیض حاصل کرنا پڑتا ہے!
ذوالفقار علی بھٹو قلم اور کتاب کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ دانش ور تھے۔ اگر قریشیوں، کھروں اور دوسرے پشتینی جاگیرداروں سے پرہیز کرتے! اگر دلائی کیمپ والا کارنامہ نہ سرانجام دیتے! اگر لیاقت باغ میں گولیاں نہ چلتیں، اگر سیدھے راستے پر رہتے! اگر زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالتے! مگر وہ کسی اور ہی راہ پر چل پڑے!
مریم نواز اور سشما سوراج کی باہمی ملاقات کی جو تصویر میڈیا میں چھپی ہے، وہ محض تصویر نہیں، آٹھ سو سالہ تاریخ کی علامت ہے۔ سشما، مریم نواز کے کندھوں تک مشکل سے پہنچ رہی تھیں۔ شاستری اور ایوب خان کے قد بھی ایسے ہی تھے۔ افغانستان اور وسط ایشیا سے ترک اور پھر مغل آئے۔ لمبے تڑنگے، سورما، گھوڑوں کی پیٹھیں تھک جاتیں، وہ نہ تھکتے۔ پستہ قد ہندو نشانہ بازی کے ماہر تھے، مگر گھوڑوں پر سوار، جو کارنامے وسط ایشیائی اور افغان، نیزوں، بھالوں اور تلواروں سے دکھاتے، انہیں حیران کر دیتے۔ ترک اور مغل شہزادیوں کی قامتیں قیامتوں سے کم نہ تھیں مگر جسمانی برتری کے باوجود مسلمان ہندو ذہن کی چالبازی سے اکثر و بیشتر دھوکہ ہی کھاتے رہے! بغل میں چھری منہ میں رام رام کا محاورہ یوں ہی نہیں بنا۔ شیواجی کو اورنگ زیب نے قید کیا تو مٹھائی کے ٹوکرے میں بیٹھ کر جُل دے گیا۔ اُس کی جگہ، اُس کا ہم شکل سوتیلا بھائی ہیراجی، یوں اداکاری کرتا رہا جیسے وہی شیواجی ہے! اورنگ زیب کو معلوم ہونے تک شیواجی منزلوں پر منزلیں مار چکا تھا!
کیا مریم نواز، چالاکی میں سشما سوراج کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ کیا ایوب خان نے مذاکرات میں شاستری کو پچھاڑ دیا تھا؟ نہیں معلوم ان سوالوں کے جواب کیا ہیں مگر پستہ قد شیواجی نے جو دھوکہ طویل قامت افضل خان کو دیا، کاش ہر پاکستانی اُس سے آگاہ ہو!
ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستان
مر گیا ہندو میں انسان
شیواجی جب اچھا خاصا دردِ سر بن گیا اور طاقت پکڑ گیا تو بیجاپور کے حکمران عادل شاہ نے اُس کا قصہ تمام کرنے کے لیے اپنے نامور جرنیل افضل خان کو مامور کیا۔ افضل خان شکست پر شکست دیتا شیواجی کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچ گیا۔ شیواجی نے عاجزی اور ذلت کی چادر اوڑھ لی اور پیغام بھیجا کہ وہ تو اطاعت قبول کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ خان اُس کی جان بخشی کرے۔ یہاں افضل خان سادگی سے مار کھا گیا۔ یہی سادگی مسلمانوں کو مارتی رہی ہے۔ اُس نے یقین دہانی کرنے کے لیے ایک برہمن گوپی ناتھ کو ایلچی بنا کر بھیجا۔ شیواجی نے گوپی ناتھ کو دھرم کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ تو جو کچھ کر رہا ہے‘بھوانی دیوی کو خوش کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ گوپی ناتھ دھرم کی خاطر شیواجی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گیا اور آ کر افضل خان کو آمادہ کیا کہ شیواجی اطاعت قبول کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اس لیے افضل خان درخواست قبول کرے اور شیوا جی کو ملاقات کا شرف بخشے۔
شیواجی نے استقبال کی زبردست تیاریاں کیں۔ قالینیں بچھیں۔ سائبان تنے، سنہری خوبصورت خیمے نصب ہوئے۔ مگر ساتھ ہی جنگل کاٹ دیا تا کہ خان اپنی فوج کو چھپا نہ سکے۔ خان ملاقات کے لیے اپنے مستقر سے نکلا تو پندرہ سو جاں نثار ہمراہ تھے۔ مگر گوپی ناتھ نے چرب زبانی سے یقین دلایا کہ ان کی ضرورت ہی نہیں! خان پالکی میں تھا اور پرسکون موڈ میں تھا۔ ململ کا کرتا زیب تن تھا اور پاس صرف ایک تلوار۔ باڈی گارڈ بھی ایک ہی ساتھ لیا۔ نامور شمشیر زن! جس کا نام سید بندہ تھا! خان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گوپی ناتھ غداری کر سکتا ہے!
شیواجی نے سرپر پگڑی کے نیچے لوہے کی ٹوپی پہنی اور عبا کے نیچے زرہ! خنجر اُس کی آستین میں چھپا تھا اور بدنامِ زمانہ مرہٹہ ہتھیار، لوہے کا ایک خاص پنجہ مٹھی میں بند تھا۔ اس کے کنارے کٹیلے تھے۔ افضل خان نے خیمہ گاہ سے دیکھا کہ شیواجی اپنی کمین گاہ سے نکلا اور اُس کی سمت چلا۔ چال سے عاجزی اور پست ہمتی نمایاں تھی! بظاہر مسلح بھی نہیں تھا! آ کر جھکا اور فرشی سلام کیا۔ افضل خان کا باڈی گارڈ خان کے احترام میں ایک طرف ہو گیا تا کہ خان آگے بڑھ سکے۔ شیواجی کا باڈی گارڈ بھی رُک گیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ طویل قامت، وجیہہ اور بارعب افضل خان کے سامنے شیواجی بونا لگ رہا تھا! افضل خان نے آگے بڑھ کر شیواجی کو گلے لگایا۔ شیواجی نے بند مٹھی کھولی اور قاتل کٹیلے کنارے افضل خان کے پیٹ میں بھونک دیئے۔ افضل خان اچھل کر پیچھے ہٹا۔ اس کے منہ سے لفظ نکلا... ’’دھوکہ‘‘۔ خان نے تلوار نکال لی۔ بلاکا وار کیا مگر تلوار فولادی زرہ سے ٹکرا کر ناکام واپس ہوئی۔ اس اثناء میں شیواجی نے آستین سے خنجر نکالا اور پے در پے وار کیے۔ سید بندہ تلوار سونتے آگے بڑھا مگر شیواجی اور اُس کے محافظ نے اسے قتل کر دیا۔ خان کے کہار اسے پالکی میں ڈال کر واپس بھاگے۔ راستے میں مرہٹے انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے خان کا سرکاٹ کر شیواجی کو بھیج دیا!
اب وہ زمانہ نہیں کہ ہمارے جرنیل کسی بونے بھارتی سے، کسی دور افتادہ گھاٹی میں ملاقات کریں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے! یہ طے ہے کہ کشمیر جنگ سے نہیں ملے گا۔ چین نے تائیوان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جنگ کا سہارا نہیں لیا۔ سیاح بھی آ جا رہے ہیں اور تجارت بھی ہو رہی ہے۔ مومن کی فراست اتنی پُراعتماد ہونی چاہیے کہ بھارت سے معمول کے تجارتی اور سیاحتی تعلقات اس فراست میں رخنہ نہ ڈال سکیں! جنگ ہمارے مسائل کا حل نہیں! خونریزی ہمارے مفاد میں نہیں! مگر یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ دہلی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہونے والے فیصلوں سے شیواجی کی روح لا تعلق نہیں!!

تنور! دوزخ کے! اور شکم کے!

$
0
0
اگر آپ نیدرلینڈز کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو جنوب میں یہ ایک تنگ پٹی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس پٹی کے مغرب میں بیلجیئم ہے اور مشرق میں جرمنی۔ پٹی کے اُوپر والے، یعنی شمالی سرے پر نیدرلینڈز کا پانچواں بڑا شہر آئن دھوون واقع ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ہو جائے کہ نیدرلینڈز کو ہالینڈ کیوں کہا جاتا ہے؟ نیندرلینڈز کے بارہ صوبے ہیں۔ دو صوبوں کے نام شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ ہیں۔ایمسٹرڈیم اور ہیگ جیسے بڑے بڑے شہر انہی صوبوں میں واقع ہیں۔ نیدر لینڈز کو دنیا میں اکثر و بیشتر ہالینڈ انہی صوبوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے مگر، شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ سے باہر، دوسرے صوبوں میں ملک کے لیے ہالینڈ کا لفظ استعمال کیا جائے تو ناپسند کیا جاتا ہے۔
نیدرلینڈز کا سب سے چھوٹا صوبہ زی لینڈ ہے۔ نیوزی لینڈ کا نام اِسی صوبے کے نام پر ہے کیونکہ نیوزی لینڈ کو نیدر لینڈز ہی کے ایک جہاز ران نے دریافت کیا تھا۔
ہم آئن دھوون کے شہر کی بات کر رہے تھے۔ اس شہر کی ایک وجہ شہرت فلپس کمپنی بھی ہے۔ 1891ء میں دو بھائیوں گیراڈ فلپس اور اینٹن فلپس نے بلب بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگائی۔ یہ اتنی بڑی کمپنی بن گئی کہ ہائی ٹیکنالوجی کی کئی کمپنیاں یہاں آ گئیں اور آئن دھوون صنعت اور ٹیکنالوجی کا عظیم الشان مرکز بن گیا۔ 2005ء میں پورے ملک نے ریسرچ پر جو رقم خرچ کی، اس کا ایک تہائی صرف آئن دھوون میں صرف ہوا۔ آج سے چار سال پہلے فلپس کمپنی نے ریسرچ کے لیے جو رقم مختص کی وہ پونے دو ارب یورو تھی اور یہ آمدنی کا صرف سات فی صد تھا! 
ایک ماہ پہلے آئن دھوون شہر پوری دنیا میں ایک اور وجہ سے مشہور ہوا۔ کرۂ ارض پر اس کی دھوم مچ گئی۔ سوشل میڈیا میں اس کے نام کا سیلاب آ گیا جو ابھی تک نہیں تھما۔ لاکھوں کمنٹس فیس بک پر آئے۔ لاکھوں نے لائک
(LIKE)
 کیا اور شیئر بھی! دنیا بھر کے اخبارات میں تذکرے ہوئے اور کئی ملکوں کے کروڑوں باشندوں نے اپنے اپنے ٹیلی ویژن پر اس شہر کا نام سنا!
آئن دھوون کی پولیس کو ایک ایمرجنسی ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ ایک خاتون کی طبیعت سخت خراب تھی۔ پولیس فوراً پہنچی۔ خاتون کا شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا تھا۔ پولیس نے ایمبولینس بلائی اور خاتون کو ہسپتال روانہ کیا۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پولیس کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھا۔
پولیس نے دیکھا کہ گھر میں خاتون کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یوں تو حکومت بھی اِن بچوں سے غافل نہ تھی۔ فوراً تلاش شروع ہوئی کہ مال کی عدم موجودگی میں ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ مگر اس میں تو وقت لگنا تھا۔ پولیس نے اس صورتِ حال میں بچوں کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ دو پولیس افسر گھر میں رک گئے۔ انہوں نے بچوں کے لیے کھانا تیار کیا۔ انہیں کھلایا پھر سُلایا! اس کے بعد برتن دھوئے اور باورچی خانہ صاف کیا!
اس واقعہ میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ایمرجنسی چوری، ڈکیتی یا قتل سے متعلق نہیں تھی۔ خاتون بیمار ہو گئی تھی۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پولیس سے رابطہ کر کے یہ بتایا جائے کہ اماں بے ہوش ہو گئی ہے۔ اگر کوئی سرپھرا ایسا کر بھی دے تو جواب میں تھانے سے ایک قہقہہ سنائی دے گا اور ساتھ ہی ایک کھردری آواز کہ پاگل دے پتر!یہ تھانہ ہے، ہسپتال نہیں۔ اگر پاکستان میں پولیس کسی مریض کے گھر پہنچے اور اسے ایمبولینس میں لٹا کر ہسپتال بھیجے تو یہ خبر آئن دھوون کی خبر سے بھی بڑی خبر بنے گی۔
پولیس کے بارے میں ہمارا بنیادی تاثر ہی منفی ہے۔ یعنی ڈر اور خوف والا! اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری پولیس عوام کے لیے نہیں، حکمران کے لیے ہے! پہلے یہ برطانوی حکومت کی حفاظت کرتی تھی۔ تقسیم کے بعد یہ ان حکومتوں کی حفاظت کر رہی ہے جو برطانوی حکومت کی جانشین ہیں۔ آپ صرف اسی واقعہ پر غور کر کے دیکھ لیجیے جو تین دن پہلے پشاور میں پیش آیا۔ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلامیہ کالج پشاور پہنچنا تھا مگر پولیس نے شہر کو سر بہ مہر کر دیا اور عوام کے گردے نکال کر خاردار درختوں پر ٹانگ دیئے۔ صبح جس وقت وزیر اعظم چک شہزاد اسلام آباد کے قریب ایک سکول میں طالبات سے خطاب کر رہے تھے، اُس وقت پشاور کی شہراہیں بند تھیں! اس لیے کہ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر پر آنا تھا! اسلامیہ کالج پشاور سے گورنر ہائوس پشاور تک کا سفر بھی وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر ہی سے طے کیا۔ پشاور شہر کی شہ رگ یونیورسٹی روڈ ہے۔ اس روڈ کو پولیس نے بند کیا تو لاکھوں راہ گیر عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ ٹریفک رنگ روڈ کی طرف موڑ دی گئی۔ رِنگ روڈ بھی ازدہام کی وجہ سے بلاک ہو گئی۔ صدر جانے والی ٹریفک اور صدر سے یونیورسٹی، یونیورسٹی ٹائون، تہکال اور حیات آباد جانے والی ٹریفک امن چوک پر روک دی گئی۔ پھر گردوں کے ساتھ ساتھ عوام کی انتڑیاں نکالنے کے لیے خیبر روڈ بھی بند کر دی گئی۔ ہزاروں افراد میلوں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ جن بچوں نے چھٹی کر کے بارہ بجے(اُس دن جمعہ تھا) گھروں میں پہنچنا تھا وہ سہ پہر کو اور کچھ اس کے بعد پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے درمیان اس معاملے پر نوک جھونک بھی ہوئی کیوں کہ پولیس نے اِس ’’عوام دوست‘‘ اقدام کی خبر ضلعی انتظامیہ تک پہنچنے ہی نہ دی۔ ضلعی انتظامیہ کو اُس وقت معلوم ہوا جب شہریوں کی سسکیوں، آہوں اور کراہوں کی آواز اُس تک پہنچی۔
کیا آپ نے کبھی پولیس کے افسروں اور جوانوں کے چہروں کو اُس وقت غور سے دیکھا ہے جب وہ کسی شاہی سواری کی آمد پر ٹریفک بلاک کرتے ہیں؟ اُن کے چہروں پر کس قدر رعونت، سختی اور اجنبیت ہوتی ہے! وہ بسا اوقات گاڑیوں کے بونٹ پر مکا مار کر اُسے رُکنے کا حکم دیتے ہیں اور کبھی کسی ٹیکسی ڈرائیور کو گالی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کالم نگار نے ایک بار پولیس کے ایک افسر سے پوچھا کہ ٹریفک کیوں روکی جا رہی ہے؟ اُس نے جواب دینے کے قابل تو نہ سمجھا مگر جن شعلہ بار نظروں سے دیکھا، وہ بھلائی نہیں جا سکتیں! اس رُکی ہوئی ٹریفک میں جب حاملہ عورتیں بچے جَن کر بے ہوش ہوتی ہیں یا دل کے مریض تڑپتے ہیں تو یہ پولیس مکمل لاتعلق رہتی ہے کیوں کہ یہ اُس کی ’’ڈیوٹی‘‘ میں شامل نہیں!
حکومتی پولیس اور عوامی پولیس میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں اگر چوری ہو، ڈاکہ پڑے یا قتل کا ارتکاب ہوتو پولیس کے دروازے پر جانا پڑتا ہے مگر مہذب ملکوں میں ایسے واقعات ہوں تو پولیس خود آ کر دروازے پر دستک دیتی ہے! ہزاروں لاکھوں پاکستانی نقصان اٹھانے کے باوجود وارداتوں کی اطلاع پولیس کو نہیں دیتے؟ کیوں؟ اس لیے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ دادرسی نہیں ہو گی اور رہا سہا مال، رہا سہا سکون اور رہی سہی عزت بھی تفتیش کی ’’نذر‘‘ ہو جائے گی!!
تو کیا پولیس کے اس خوفناک منفی تاثر کی ذمہ دار پولیس خود ہے؟ انصاف کی بات یہ ہے کہ نہیں! اس کی ذمہ داری پولیس نہیں! زیادہ سے زیادہ دس پندرہ فی صد ذمہ داری پولیس کے کندھوں پر آتی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی ذمہ داری پالیسی سازوں پر ہے! سیاست دانوں پر ہے جو حکمرانی کرتے ہیں۔ اُن آمروں پر ہے جو آ کر، ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے، ملک کو سیدھے راستے پر چلانے کی بڑیں ہانکتے رہے اور پولیس کو بد سے بدتر کر گئے! اور بھیڑیے کی کھال اوڑھے اس بیورو کریسی پر ہے جو اصل میں بھیڑیے اور جس کی سفید اون سے تیار ہونے والے گرم کپڑے صرف خوشامد پسند حکمرانوں کے جسم گرم رکھتے ہیں! آج تک ایوان صدر اور وزیر اعظم کے دفتر میں براجمان کسی بیورو کریٹ نے، کسی نام نہاد پرنسپل سیکرٹری نے، کسی حکمران کو یہ نہیں کہا کہ حضور! پولیس کو غیر سیاسی 
(De Politicise)
 کیجیے تا کہ اس ملک کے عوام سکھ کا سانس لیں اور کھوئی ہوئی عزتِ نفس دوبارہ حاصل کر سکیں! نوکر شاہی کے ان بلند ترین نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں میں حکمرانوں کے ساتھ والے کمروں میں بیٹھ کر تنور تو یاد آتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ وہ تنور نہیں ہوتے جو دوز، میں ہوں گے، انہیں صرف اپنے شکم کے تنور یاد رہتے ہیں جو کبھی بھرتے ہی نہیں! پینتیس پینتیس سال، اڑتیس اڑتیس سال ملازمتیں کرنے کے بعد بھی ان کی رال بدستور ٹپکتی رہتی ہے۔ کوئی ایشیائی ترقیاتی بنک کو سدھارتا ہے اور کوئی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر واشنگٹن چلا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے فائل روکے رکھی یہاں تک کہ خود ایک اتھارٹی کے چیئرمین لگ گئے!
رہے حکمران! تو وہ پولیس کو غیر سیاسی کیوں کریں؟ اگر ایسا کریں تو کل ڈاکٹر عاصم کو بے گناہ کون قرار دے گا اور ماڈل ٹائون میں گولیاں کون چلائے گا؟
آج اگر سندھ یا پنجاب یا وفاقی دارالحکومت کے پولیس کے سربراہ کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ تمہارے کام میں مداخلت نہیں ہو گی! تمہاری رضا مندی کے بغیر تمہارے دائرہ کار میں کسی ایس پی، کسی ایس ایچ او اور کسی انسپکٹر کی تعیناتی نہیں ہو گی اور کسی مجرم کو چھوڑنے یا کسی بے گناہ کو پکڑنے کا حکم ’’اوپر‘‘ سے نہیں آئے گا مگر ریزلٹ سو فیصد درکار ہو گا تو یقین کیجیے، یہی پولیس جرائم کا بھی صفایا کر دے گی اور گھروں میں پہنچ کر بچوں کو کھانا بھی کھلائے گی!

پرانے شکاری…نیا جال

$
0
0
بالآخر وہ ہو کر رہا جو امریکی تھنک ٹینک چاہتے تھے۔ سعودی عرب کے زیر انتظام 34 ملکوں کے اتحاد نے عالمِ اسلام میں اُس شیعہ اور سنی تقسیم پر مہر لگا دی ہے جس کا آغاز ایران نے کیا تھا اور پھر اِس تقسیم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مسلسل تگ و دو کی! امریکی وزیر دفاع نے کسی لگی لپٹی بغیر کہہ دیا ہے کہ ’’یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے جس کے تحت داعش کے مقابلے کے لیے سنیوں کے کردار کو وسعت دینا ہے‘‘
اس شیعہ سنی تفریق میں امریکی کردار تاریخ کے لیے نیا نہیں ہے۔ یہ ایک پرانی مہم کا تسلسل ہے۔ ایران کو ایک مسلک کی ریاست میں ڈھالنے کی ابتدا شاہ اسماعیل صفوی نے کی۔ اُس کی پالیسی کشت و خون کی پالیسی تھی۔ لاتعداد سنی مارے گئے۔ بہت سے پڑوسی ملکوں میں جا بسے۔ شاہ اسماعیل نے عرب امامیہ علماء کو دعوت دی کہ آ کر اِس ’’کام‘‘ میں اُس کا ہاتھ بٹائیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اکثر عرب شیعہ علماء اپنی اِس روایت پر قائم رہے کہ کسی حکومت کی خدمت نہیں کرنی۔ انہیں اِس رسم پر بھی اعتراض تھا جو شاہ اسماعیل نے دربار میں شروع کی تھی کہ اس کے آگے جھکا جائے۔ عرب شیعہ علماء اِسے عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے تھے۔ تا ہم ایک لبنانی عالم شیخ علی الامیلی نے شاہ اسماعیل کی دعوت کو قبول کیا۔ پہلے تو وہ کئی بار ایران گیا، اور بعد میں وہیں مقیم ہو کر شاہ اسماعیل کی شیعہ سازی کی مہم میں سرگرمی سے شریک رہا۔ یوں سمجھیے کہ یہ  لبنانی حزب اللہ کا آغاز تھا!
اس وقت صفوی سلطنت مشرقی اناطولیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ اسماعیل سلطنت عثمانیہ کو تر نوالہ سمجھ رہا تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ عثمانیہ 
سلطنت میں بسنے والے بہت سے ترکمان‘ شاہ اسماعیل سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ایک خفیہ نیٹ ورک تھا جو ان ترکمانوں کو ایرانی حکومت سے جوڑے ہوئے تھا، تاہم ترکوں نے 1514ء میں شمال مغربی ایران میں شاہ اسماعیل کو ایک لڑائی میں بری طرح شکست دی۔ مشرقی اناطولیہ ہمیشہ کے لئے چھن گیا۔ آج بھی یہ ترکی ہی کا حصہ ہے۔ آج کے حالات کو سمجھنے کیلئے 1514ء کی اس جنگ کے اثرات پر نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔ جو ترکمان‘ شاہ اسماعیل صفوی کو ناقابل شکست سمجھتے تھے، ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ مگر اس جنگ کا دوسرا نتیجہ مسلمانوں کے لئے بہت خطرناک نکلا۔ ایرانی سلطنت نے فیصلہ کرلیا کہ عثمانیوں سے نمٹنے کے لئے یورپ کی عیسائی طاقتوں کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ ترک فوجیں یورپ میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ یوں یورپی طاقتیں، ایران کو دوست سمجھنے لگیں۔ سلطنت عثمانیہ دونوں کا مشترکہ ہدف تھا!
شاہ اسماعیل نے اس کے بعد یورپی ملکوں میں سفارتوں پر سفارتیں بھیجیں۔ اس نے ایک ایک یورپی  طاقت پر زور دیا کہ وہ مغرب سے ترکوں پر حملہ کریں تاکہ وہ مشرق سے حملہ کرے اور یوں ترک چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس جائیں، برصغیر کے مغربی ساحل پر گوا کی پرتگیزی کالونی نے اس سفارت کاری میں نمایاں حصہ لیا۔ اس وقت  صفوی تخت پر شاہ عباس بیٹھ چکا تھا۔ گوا کے پرتگیزی وائسرائے نے ایک معروف سفارت کار ڈی گو وی کو ایران بھیجا۔ اس کے پاس ہسپانوی بادشاہ کا خط بھی تھا۔ اس خط میں ہسپانیہ نے ایران کو یقین دلایا تھا کہ جیسے ہی ایرانی، ترکوں پر حملہ کریں گے، یورپ بھی ترکوں پر چڑھائی کردے گا۔ دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب ڈی گو وی نے گوا کے وائسرائے کی طرف سے تحائف پیش کرنے چاہے۔ ایرانی افسروں نے اسے متنبہ کیا کہ وائسرائے کا درجہ شاہ ایران کے برابر کا نہیں اس لئے بادشاہ کو یہ بتایا جائے کہ یہ تحائف ہسپانیہ کے بادشاہ نے بھیجے ہیں۔ عیسائی مشن کے پاس سرخ رنگ کی مجلد کتاب تھی جو حیات مسیح پر مشتمل تھی۔ شاہ عباسی نے اس کتاب میں گہری دلچسپی لی۔ بہرطور یہ طے ہوگیا کہ دونوں طاقتیں بیک وقت ترکوں پر حملہ کریں گی۔
مگر جب شاہ عباس نے ترکوں پر حملہ کیا تو یورپ سے کسی طاقت نے معاہدے کی پاسداری نہ کی ۔ شاہ عباس کی مایوسی انتہا کو پہنچ گئی۔1605ء میں اس نے یاددہانی کے لئے ایک اور سفارت میڈرڈ بھیجی، مگر اسے یہ حوصلہ شکن اور مایوس کن خبر ملی کہ ہابس برگ کے شہنشاہ روڈولف نے ترکوں سے صلح کرلی ہے۔ اس صلح کی افواہیں تو وہ سن رہا تھا مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس لئے کہ رو ڈولف نے پختہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ترکوں کو نہیں چھوڑے گا۔ اس یقین دہانی کی وجہ سے شاہ عباس کو ہابس برگ کے شہنشاہ سے اس قدر محبت اور عقیدت ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی خواب گاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کر دی تھی اور خواب گاہ میں داخل ہوتے وقت اسے سلام کرتا تھا۔ اسے زیادہ قلق اس منافقت کا تھا کہ جس دن روڈولف نے اپنی ٹیم کو ترکوں سے مذاکرات شروع کرنے کا حکم دیا، ٹھیک اسی دن پراگ میں تین ایرانی سفارت کاروں کو رخصت کرتے وقت اپنا عہد دہرایا کہ وہ ترکوں کو لوہے کے چنے چبوا دے گا۔ دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان سفیروں کو روس میں روک لیا گیا اور وہ تین چار سال بعد ایران پہنچے۔ یوں شاہ عباس کو بروقت خبر ہی نہ ہوئی کہ یورپی طاقتیں ترکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں۔ ترکوں اور ہابس برگ کے درمیان یہ معاہدہ پچاس برس برقرار رہا۔ اس عرصہ میں ترکوں نے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دی اور ایران کے ساتھ اپنی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنالیا۔
شاہ عباس نے 1609ء میں ایک اور سفارت کار زینل بیگ کو یورپی دارالحکومتوں میں بھیجا تاکہ ترکوں کے خلاف مدد مانگے۔ زینل بیگ ایک دردمندانسان تھا اور حقیقت پسند بھی تھا۔ اس نے شاہ عباس کو یورپ سے خط لکھا اور بتایا کہ یورپی طاقتیں ترکوں سے صلح کرنے میں مخلص نہیں‘ نہ ہی وہ ایران سے مخلص ہیں۔ ان کا  اصل مدعا یہ ہے کہ ایرانی اور ترک آپس میں لڑتے رہیں اور مسلمان کمزور سے کمزور تر ہوتے رہیں تاکہ اسلام کو نقصان پہنچے۔ مگر شاہ عباس پر زینل بیگ کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اب اس نے پوپ سے مدد کی درخواستیں کرنا شروع کردیں۔ پوپ سے اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر بیت المقدس پر اس کا قبضہ ہوگیا تو وہ شہر پوپ کو پیش کردے گا۔ مگر پوپ جانتا تھا کہ یہ محض ہوائی ہے اور ایسا خواب ہے جس کا حقیقت میں بدلنا ازحد مشکل تھا۔ ایک سفیر ایران نے پولینڈ بھی بھیجا مگر وہ استراخان سے آگے نہ جاسکا اور تین برس روسیوں کی قید میں گزار کر ایران واپس آ گیا۔
اس سارے عرصہ میں شیعہ علماء اس سفارت کاری کی مخالفت کرتے رہے۔ وہ ترک مسلمانوں کے خلاف یورپ سے مدد مانگنے کو ازحد ناپسند کرتے تھے۔ اسی اثنا میں ترک سفیر ایرانی دربار میں پہنچ کر، شاہ ایران کو قائل کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے کہ ایران اور ترک سلطنتوں کو آپس میں جنگ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے خوشی صرف غیر مسلموں کو ہوگی۔ دربار کے شیعہ علماء نے اس کی تائید کی۔ مگرقزلباش عمائدین صلح کے مخالف تھے۔ بڑی بڑی جاگیریں قزلباشوں کے قبضے میں تھیں۔ جنگ کے وقت عسا کر وہی بہم پہنچاتے تھے اس لئے ایران نے ترک دشمن پالیسی جاری رکھی۔ اس پس منظر میں آج کے شرق اوسط کو دیکھا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ سعودی عرب کے تجویز کردہ اتحاد کا سرگرم ترین رکن ترکی ہی ہوگا جو پہلے ہی شام میں ایرانی مداخلت کے خلاف ہے اور ایران کے مددگار، روس کا، طیارہ بھی جس نے حال ہی میں مار گرایا ہے۔ 
شیعہ سنی صف آرائی مشرقی وسطیٰ میں کن خطوط پر کی گئی ہے، اس کی تفصیل آئندہ نشست میں پیش کی جائے گی!

ایجنڈا

$
0
0
34مسلمان ملکوں کے اتحاد کی تشریح اس اتحاد کے معمار سفارت کاری کے انداز میں کر رہے تھے مگر امریکی وزیر دفاع نے نرم گفتاری کو ایک طرف رکھ کر اسے ایک خاص مسلک سے منسوب کر دیا ۔
اصل سوال اور ہے، بالکل اور! وہ یہ کہ کیا یہ اتحاد جارحانہ ہے؟ یا دفاعی ہے؟ابتدا کس نے کی؟ انگریزی محاورے کی رُو سے پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہنا پڑے گا، اُسے گلدان یا روئی کے بنے تکیے کا نام نہیں دے سکتے! دوسرے مسلک نے مشرق وسطیٰ میں عمل دخل کا اسّی کے عشرے ہی میں آغاز کر دیا تھا۔ یہ عمل دخل، زبان و بیان پر مشتمل نہ تھا، نہ محض تھیوری تھی، یہ جارحانہ عمل دخل تھا اور مسلّح عمل دخل تھا! اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دوسرے مسلک کا یہ حالیہ اتحاد تیس پینتیس برس بعد وجود میں آیا ہے۔
 لبنان کی مسلّح جماعت حزب اللہ بظاہر تو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے بنی تھی مگر اس میں شامل سب لوگ ایک خاص ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ اسے مالی امداد ایران نے دی۔ اس کی رہنمائی ایرانی لیڈر شپ کے ہاتھ میں تھی۔ پندرہ سو ایرانی انقلابی گارڈ، شام کی اجازت سے آئے اور حزب اللہ کے ارکان کی جنگی تربیت کی۔ حزب اللہ کی تشکیل میں اسرائیل کا نام لیا گیا۔ اس نے اسرائیل سے لڑائیاں بھی لڑیں مگر جلد ہی حزب اللہ نے اپنے عمل سے واضح کر دیا کہ وہ دراصل مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرونفوذ کا ہر اول دستہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں حزب اللہ ایران کی جارحانہ پالیسی کے ایک علامت ہے۔ ایک سمبل ہے! 2014ء کے جون میں نصراللہ نے اعلان کیا کہ ’’ہم نے شام میں جتنے جاں نثار شہید کیے ہیں، عراق میں اس سے پانچ گنا زیادہ شہید کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ عراق میں شیعہ جنگ جوئوں کو حزب اللہ ہی نے تیار کیا۔ 2009ء میں آسٹریلیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ  ’’حزب اللہ عراق میں جنگی قابلیت حاصل کر چکی ہے۔ حزب اللہ کے یونٹ، ایران کے القدس بریگیڈ کے وسائل سے قائم کیے گئے ہیں‘‘! 
عالمِ اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذرائع ابلاغ محض اُن خبروں کی جگالی کرتے ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ پیش کرتے ہیں۔ ایران کے رہنما کھلم کھلا انقلاب کو برآمد کرنے کا اعلان ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ مگر اس کا نوٹس، دوسرے مسلمان ملکوں کے ذرائع ابلاغ نے نہیں لیا، اس لیے کہ مغربی میڈیا اِس ’’ایکسپورٹ‘‘ کا اعلان اُس وقت کرنا چاہتا تھا جب مغرب کے مفاد کا تقاضا ہو! چالیس سال سے جو انقلاب برآمد ہو رہا تھا، اُس کا ذکر مغربی ذرائع ابلاغ نے کم ہی کیا مگر جیسے ہی سعودی عرب نے اتحاد تشکیل دیا، امریکی وزیر دفاع ڈھول لے کر کوٹھے پر چڑھ گیا اور ڈھنڈورا پیٹا کہ یہ سُنی کر دار ہے! اصل بات وہی ہے جو ایران کے سفارت کار زینل بیگ نے چار سو سال پہلے کر دی تھی اور جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ کالم میں کیا گیا ہے۔ اُس نے یورپ سے شاہ عباس صفوی کو لگی لپٹی رکھے بغیر، بے مثال جرأت کے ساتھ لکھا تھا کہ یورپی طاقتیں ترکوں کے ساتھ مصالحت میں سنجیدہ ہیں نہ ایران کے ساتھ مخلص ہیں، وہ تو دونوں مسلمان سلطنتوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں تا کہ نقصان اسلام کو پہنچے!
افسوس ! آج کوئی زینل بیگ نہیں جو مسلمان طاقتوں کو سمجھائے! اگر ایرانی یہ سمجھ رہے ہیں کہ روس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھے گا اور اگر عرب اس خیال میں ہیں کہ امریکہ ہاتھ سینے پر باندھ کر آمین بھی بلند آواز سے کہے گا تو دونوں احمقوں کی جنت میں ر ہ رہے ہیں ۔ ایران، جو جارحانہ حکمت عملی مشرق وسطیٰ میں اپنائے ہوئے ہے، کوئی مانے نہ مانے، وہ امریکہ کے طویل المیعاد منصوبے کے عین مطابق ہے۔ ایران کے پالیسی ساز، نا دانستہ، امریکی تھنک ٹینکوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ سعودی عرب اگر اس کے مقابلے میں دوسرے مسلک کا اتحاد بنا رہا ہے تو وہ بھی امریکی حکمت عملی کے مطابق ہے! اگر دونوں طاقتیں، (ایران اور عرب) اسلام اور عالمِ اسلام کا بھلا چاہتی ہیں تو ایک دوسرے کے ملکوں میں نقب لگانے کے بجائے ایک میز پر بیٹھیں اور پریشر گروپ تشکیل دینے کا سلسلہ ختم کریں!
آہ! عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن نظر آرہا ہے۔زمینی حقائق کیا ہیں ؟ ہر سال فروری میں انقلاب ایران کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ اس سال یعنی فروری 2015ء میں اس سالگرہ کے موقع پر ایران کی ’’القدس فورس‘‘ کے کمانڈر، جنرل قاسم نے فخر سے کہا: ’’ہم پورے خطّے میں، بحرین اور عراق سے لے کر شام، یمن اور شمالی افریقہ تک اسلامی انقلاب کی ایکسپورٹ کا منظر دیکھ رہے ہیں!‘‘
اس سے پہلے کہ ہم ایکسپورٹ کی نوعیت پر بحث کریں۔ آئیے، دیکھتے چلیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کتنی اہم شخصیت ہیں! ان کی اہمیت سمجھنے کے لیے القدس فورس کا تعارف ضروری ہے۔ القدس فورس ایرانی فوج کا وہ ڈویژن ہے جو بیرون ملک آپریشن کرتا ہے۔ جنرل قاسم گزشتہ اٹھارہ سال سے القدس فورس کے کمانڈر ہیں۔ حزب اللہ کو جنگی مدد القدس فورس ہی بہم پہنچاتی ہیں۔ پھر جب مالکی کی حکومت عراق میں بنی تو وہاں شیعہ ملیشیا کو القدس فورس ہی نے مستحکم کیا۔
شام میں بشار الاسد کو بچانے کے لیے ایران نے جو کوششیں کی ہیں، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں! ایران کے سپریم لیڈر جناب علی خامنہ ای نے روس میں اپناخصوصی ایلچی بھیجا اور صدر پوٹن سے مداخلت کی اپیل کی۔ روایت یہ ہے کہ پوٹن نے سفیر کو جواب دیا: ’’ٹھیک ہے، ہم مداخلت کر یں گے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو بھیجو‘‘۔ جولائی 2015ء میں جنرل قاسم سلیمانی نے جا کر روسیوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے میز پر شام کا نقشہ پھیلا کر، نشانات لگا کر، روسیوں کا سمجھایا کہ روسی کس کس طرح اور کہاں کہاں باغیوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
ایرانی انقلاب کے موقع پر، اس سال جنرل قاسم سلیمانی کا یہ اعلان کہ ’’پورے خطے میں ، بحرین اور عراق سے لے کر شام یمن اور شمالی افریقہ تک، دنیا ایرانی انقلاب کو برآمد ہوتا دیکھ رہی ہے‘‘ کوئی معمولی یا عام اعلان نہیں! جنرل قاسم عملی طور پر انقلاب برآمد کرنے کے انچارج ہیں! عام مسلمان اسلامی انقلاب کی ایکسپورٹ سے یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوگا۔ مگر اصل میں انقلاب کی برآمد ایک نپی تُلی ڈرل ہے۔ جب یمن میں حوثی ایرانی مدد کے ساتھ منظر آرا ہوئے تو ایران کی ایک سرکاری ویب سائٹ نے حوثیوں کی حکمت عملی واضح کی۔ ایرانی انقلاب کی برآمد میں ’’عوامی کمیٹیاں‘‘ مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ عوامی کمیٹیاں انقلاب کی حفاظت کرتی ہیں اور اُن عناصر کی بیخ کنی کرتی ہیں جو انقلاب کے مخالف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک سٹریٹ فورس ہے۔ ایران کی عوامی ملیشیابھی جسے ’’سازمانِ بسیجِ مستضعفین‘‘ کہا جاتا ہے، ایرانی انقلاب کا ایک اہم ستون ہے۔ شام عراق اور یمن میں یہی ماڈل دُہرایا جا رہا ہے! 
صاف نظر آرہا ہے کہ خطے کے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔ ایک طرف شام عراق اور ایران ہے اور ایرانی تنظیمیں ہیں جو ہر ملک میں موجود ہیں۔ روس بھی اسی صف میں ہے۔ دوسری طرف عرب اور ترک ہیں۔ امریکہ ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ اور بات کہ امریکہ نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔ وسائل کی دونوں طرف کمی نہیں! ایران اور عراق کے پاس بھی تیل کی دولت ہے اور عرب بھی پیٹرو ڈالر کما رہے ہیں۔ روس اس موقع سے فائدہ اٹھا کر عالمی بساط پر اپنے آپ کو نمایا ں کرنا چاہتا ہے۔ کریمیا میں فوج کشی کر کے وہ امریکہ کی مونچھیں پہلے ہی نیچے کر چکا ہے! ایک محتاط انداز ے کی رُو سے اِس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو کے قریب امریکی بیسس
(Bases)
 موجود ہیں۔ دوسری طرف روس کے پاس 
Bases
صرف اُن ملکوں میں ہیں جو 1992ء سے پہلے سوویت یونین کا حصّہ تھے! روس دنیا کو یک قطبی
(Unipolar)
 صورتِ حال سے باہر نکال کر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بھی امریکہ کے برابر کی طاقت ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال اُسے راس آ رہی ہے۔ امریکہ اگر بشارالاسد کے مستحکم ہونے کی بنا پر، بظاہر شکست خوردہ بھی لگ رہا ہے تو حقیقت میں کامیاب اور مسرور ہے اس لیے کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنا، امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے! اور یہ سب کو معلوم ہے!!
کیا کوئی سبیل ایسی ہے کہ یہ فرقہ وارانہ صف بندی ختم کی جا سکے؟ خطّے کے نقطۂ نظر سے مشرق بعید کے اسلامی ممالک (انڈونیشیا، ملائشیااور برونائی) غیر جانب دار ہیں۔ مگر ان ملکوں میں مہاتیر جیسا دماغ اب نا پید ہے۔ بنگلہ دیش کردار ادا کر سکتا تھا مگراس کی  وزیراعظم کا ذہن اتنا ہی تنگ ہے جتنا قدیم فارسی شاعری میں محبوب کا دہانہ تنگ ہوتا تھا۔ ایک شے ’’او آئی سی‘‘ (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) ہوا کرتی تھی۔ جانے کس سیارے پر رہ رہی ہے!
کون ہے جو اُٹھے اور اِس خطرناک صورتِ حال کو سنبھالے، درجۂ حرارت کو کم کرے، ایرانیوں اور عربوں کو ایک میز پر بٹھائے! پاکستان کے پاس کبھی صاحبزادہ یعقوب خان اور آغا شاہی جیسی دانش مند ہستیاں ہوتی تھیں! اب بلبلوں اور قمریوں کی جگہ زاغ و زغن نے لے لی ہے! کیا علماء کرام کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں! اس لیے کہ ان میں سے جو درد مند دل رکھتے ہیں ، وہ گوشہ نشین اور گمنام ہیں! کوئی محمد اسد؟ کوئی ذوالفقار علی بھٹو؟ کوئی ذکی یمنی؟   ؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

انتہا

$
0
0
کس مونہہ سے؟
کس برتے پر؟
جو کچھ ہم حلب میں کر رہے ہیں اور جو کچھ عدن میں کر رہے ہیں اور جو کچھ بیروت میں کر رہے ہیں اور جو کچھ رقّہ میں کر رہے ہیں اور جو کچھ دمشق میں کر رہے ہیں اور یہ جو ہم قبریں اکھاڑ رہے ہیں‘ قیدیوں سے قبریں کھدوا کر انہیں ان قبروں میں لیٹنے کا حکم دے رہے ہیں‘ عورتیں فروخت کر رہے ہیں بچوں کو اچھال کر سنگینوں میں پرو رہے ہیں‘ اسلحہ کبھی سعودی عرب سے یمن اور کبھی ایران سے بھیج رہے ہیں‘ جنگ جُو کبھی تہران سے دمشق بھیجتے ہیں اور کبھی وزیرستان سے‘ کبھی پیرس پر حملہ کرتے ہیں تو کبھی لندن پر۔قندوز میں خون بہاتے ہیں تو کبھی قندھار میں! ہم میں سے کچھ ہلمند پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ دفاع‘ عورتوں کو گھروں میں بند کر دیتے ہیں یا چوراہوں پر سنگسار! بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیتے ہیں۔ ان کے کاندھوں پر بندوقیں رکھتے ہیں اور ان کے کچّے ‘ادھ پکے جسموں پر بارودی جیکٹیں پہناتے ہیں۔دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے ہم بارہ ربیع الاول کو دربارِ نبوت میں بھی حاضر ہو جاتے ہیں۔جس مقدس ہستی کا نام‘ فرشتے بھی درود پڑھے بغیر زبان پر نہیں لاتے‘ جہانوں زمانوں اور کائناتوں کا پروردگار‘ خدائے عزّو جلّ ‘ خود جن پر درود بھیجتا ہے اور پھر اپنے کلام میں اس کا اعلان کرتا ہے‘ اس ہستی کے دربار میں یہ سب کچھ کر کے ہم کس مونہہ سے کس برتے پر حاضر ہونے کی جسارت کرتے ہیں؟
دنیا کی کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں‘ ہم جو کچھ کر رہے 
ہیں‘ اس میں ایک لمحے کا رخنہ نہیں برداشت کر سکتے‘ ٹیکس بچا کر ہم حکومت کو غچہ دیتے ہیں‘ حکومتی کارندوں کو کرپٹ کرتے ہیں خوراک میں زہر ملا رہے ہیں‘ ادویات میں جعل سازی کر رہے ہیں‘ معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ کارخانے اور دکان کے ساتھ والی زمین آہستہ آہستہ ہڑپ کر رہے ہیں‘ سرکاری رقبے پر راتوں رات مسجد یا مزار یا خانقاہ یا مدرسہ تعمیر کر لیتے ہیں‘ دین کے نام پر لوگوں کی جیبوں سے رقم نکلواتے ہیں اور پرورش اس سے اہل و عیال کی کرتے ہیں!لاکھوں روپے کی تنخواہ لیتے ہیں مگر ڈیوٹی پر گیارہ بجے پہنچتے ہیں۔ سرکار سے پچانوے ہزار ماہانہ گاڑی کی مد میں لے کر بے حیائی کے ساتھ سرکاری گاڑی اور سرکاری ڈرائیور بھی استعمال کرتے ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع کے لیے ہر فرعون کے تلوے چاٹتے ہیں۔ فائلوں پر وہ کچھ لکھتے ہیں جس سے قوم کی پھنسی ہوئی کشتی مزید ہچکولے کھاتی ہے کروڑوں بناتے ہیں اور بنانے والوں کی چشم پوشی کرتے ہیں!
مذہب کے نام پر کبھی جزیرہ نمائے عرب سے درہم لیتے ہیں کبھی ایران سے ریال اور کبھی لیبیا قطر اور عراق سے دینار! پھر خلقِ خدا کے سامنے دستار باندھ کر‘ عبا اوڑھ کر‘ تسبیح کے دانے گھما کر‘ ہونٹ ہلا کر آسمان کی طرف دیکھ کر‘ اللہ اللہ یوں کرتے ہیں جیسے دل باہر آ جائے گا!پھر راتوں کی تاریکی میں دوسرے مسلک والوں پر حملے کے منصوبے بناتے ہیں! دن کی روشنی میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں!
قطر سے گیس لاتے ہیں‘ نندی پور اجاڑ دیتے ہیں۔ مہینے میں دو بار لندن ‘ تین بار بیجنگ اور چار بار ترکی جاتے ہیں‘ اقتدار صاحبزادوں کو سونپ دیتے ہیں۔ عوام کے خون پسینے سے چلنے والے جہازوں میں براتیں ڈھوتے ہیں‘ رعایا کا ماڈل ٹائون کر دیتے ہیں ۔سرکاری سکولوں کو اصطبل اور ہسپتالوں کو ذبح خانوں میں تبدیل کر رہے ہیں‘ ڈاکو راج ہر طرف پھیلا ہے‘ اغوا برائے تاوان انڈسٹری بن چکا ہے سٹریٹ کرائم سکہ رائج الوقت ہے مگر پولیس کو ہم خانہ زاد غلام بنا کر اپنے محلات پر مامور کیے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ممیاتی بھیڑ بنا کر الیکشن جیتنے کے فن کو سائنس بنا دیتے ہیں۔
ہم نے حاجیوں کے احرام بیچ کھائے‘ چالیس چالیس کارٹن ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے ان محلات میں اتروائے جو تحفے میں ملے تھے! ہم نے ڈکشنری میں کمال دیدہ دلیری سے ایم بی بی ایس کے معنی تک تبدیل کر ڈالے۔ ایوان صدر کو وال سٹریٹ بنا دیا‘ گماشتوں کو لاکھوں کروڑوں روپے خزانے سے عیدی کی مد میں بخش دیے۔ پٹرول اور گیس کے محکموں سے اور ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو کنٹرول کر کے بیس بیس کروڑ روپے روزانہ کماتے رہے‘ ہم وہ ہیں جو ماڈلوں اور یاروں کو بچانے کے لیے حکومتیں دائو پر لگا دیتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کو اٹھا کر دساور لے جاتے ہیں‘ ہاتھوں پر بٹھاتے ہوئے اور سدھائے عقابوں کو حکم دیتے ہیں کہ ہمارا دفاع کریں! پارٹی کو ہم نے خاندان میں میں یوں بند کر رکھا ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں!
ہم سات سمندر پار بیٹھ کر اہلِ وطن سے پائونڈ منگواتے ہیں ‘ بوریوں میں لاشوں کو بند کرتے ہیں‘ پوری ایک نسل کو کتاب اور قلم سے ہٹا کر سیکٹر کمانڈروں کی بندوقوں کے سائے میں بٹھادیتے ہیں۔ سرحد پار جاتے ہیں تو اپنے ہی ملک کی تشکیل کو غلط قرار دیتے ہیں‘ پھر اسی ملک کے خزانے سے ہائی کمیشن میں ڈنر بھی اڑاتے ہیں ۔ بھارت سے مال کھاتے ہیں‘ اپنے حواریوں کے کنبوں کو بیرون ملک مقیم کراتے ہیں اور سیاست ان سے ملک کی کراتے ہیں!
ہمارا عام آدمی جو اپنے آپ کو غریب کہتا ہے سب سے زیادہ ڈھیٹ اور بے شرم ہے۔ وہ ریڑھی سے گندے سیب اور پھٹے ہوئے ٹماٹر گاہک کی نظر بچا کر اس کے تھیلے میں ڈالتا ہے‘ گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکتا ہے‘ گھر کے نقشے کو خلافِ قانون تبدیل کرا کے رشوت دیتا ہے۔ کم نمبروں کے باوجود بچے کے داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتا ہے‘ بیٹی کی پیدائش کے جرم میں بیوی کو گالیاں اور طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے‘ پڑوسی کو اذیت پہنچاتا ہے‘ دن میں دس بار جھوٹ بولتا ہے اور پانچ بار وعدہ خلافی کا ارتکاب کرتا ہے‘ قرض لے کرواپس نہیں کرتا‘ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے‘ بچوں کے سامنے جھوٹ کی قسمیں کھاتا ہے اور ان کے پیٹ میں حرام کی چوگ ڈالتا ہے‘ یہ سب کچھ کر کے وہ اپنے آپ کو عام شہری کہتا ہے اور غریب کہلواتا ہے۔ اُس کے خیال میں اصلاح صرف لیڈروں کی اور حکومتوں کی اور علماء کی اور امرا کی اور وزیروں کی اور افسروں کی اور جرنیلوں کی ہونی چاہیے!
ہم یہ سب کچھ سارا سال کرتے ہیں! اگلے سال بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہاتھ باندھ کر دربارِ نبوت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ہم کتنے ’’جری‘‘ اور ’’بہادر‘‘ ہیں جس ادب گاہ میں جنیدؒ اور با یزیدؒ جیسے اولیاء اللہ سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں‘ جس کے حوالے سے اقبال جیسا شخص کہتا ہے کہ    ؎
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہان بگیر
 کہ میرا حساب کتاب حشر کے دن کرنا بھی ہو تو نگاہِ مصطفی سے چھپا کر کیجیو! اُس ادب گاہ میں ہم ناپاک قلوب اور متعفن روحوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں‘ اور دوسرے دن پھر وہ سب کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو گزشتہ برس کرتے رہے! ہم ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر نہیں سوچتے کہ کل ‘ حشر کی دھوپ میں‘ اور پُل صراط پر اور حوضِ کوثر کے کنارے‘آپ ﷺ کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ انتہا ہے! دیدہ دلیری کی انتہا ہے!


پسِ دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی ہے

$
0
0

ظلّ ہما پر درد کا شدید حملہ ہوا۔ 23 برس کی یہ لڑکی کراچی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ شعبے کی طالبہ تھی۔ گھر والوں نے ٹیکسی میں ڈالا اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی طرف بھاگے۔
مگر کراچی شہر پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نازل ہو چکے تھے۔ شاہراہیں بند تھیں‘ راستے مسدور تھے‘ گھنٹوں انتظار کے بعد ہسپتال پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپنڈکس پھٹ چکا تھا۔ ظلّ ہما کمانڈو صدر کی رعیت سے نکل کر ایک اور عدالت میں پہنچ چکی تھی‘ یہ قتل 2006ء کے اپریل میں ہوا۔ گورنر عشرت العباد سے لے کر وزیراعلیٰ ارباب رحیم اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال تک کسی کو ظلّ ہما کے گھر آ کر معافی مانگنا تو درکنار تعزیت کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ اخباری بیان تک جاری کرنا مناسب نہ سمجھا گیا!
یہ کالم نگار بلاول زرداری کی موروثی سیاست کی ہم نوائی کرنے والا اس ملک میں آخری شخص ہو گا۔ مگر بسمہ کی موت پر سیاست دانوں اور مصنوعی سیاست دانوں کے ’’غم زدہ‘‘ بیانات پڑھ اور سُن کر ہنسی نہ آئے تو کیا ہو؟ چھاج تو بولے مگر نو سو چھید دامن میں رکھنے والی چھلنی کو بولنے کا کیا حق ہے؟ کیا ہی دلچسپ اور مضحکہ خیزخبر ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین جنرل مشرف اور ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ سیاست دان پروٹوکول کی لعنت ختم کر دیں کیونکہ بقول ان کے پروٹوکول کی وجہ سے بسمہ کی ہلاکت انسانیت کے لیے باعث شرم ہے! اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کا بیان ہے کہ شہریوں سے جانوروں کا سلوک بند کیا جائے اور ذمہ داروں پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے!
اپنے عہد ہمایونی میں پرویز مشرف صاحب جب بھی کراچی آئے‘ شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی ہر بار دل کے کئی مریض‘ ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں مر گئے۔ کسی ’’حق پرست‘‘ نے کسی موقع پر بھی چُوں تک نہ کی کیونکہ حق وہی ہوتا ہے جو راس آئے اور جس سے مفاد وابستہ ہو! اور پھر پرویز مشرف صاحب تو اپنے تھے!
18 اپریل 2004ء کو صدر پرویز مشرف لاہور تشریف لائے۔ جیل روڈ‘ مین بلیوارڈ اور ساری لنک روڈز بند کر دی گئیں۔ مزنگ چونگی چوک‘ بہاولپور روڈ اور ریلوے روڈ پر ٹریفک رُکی رہی! تنگ آمد بجنگ آمد ‘پولیس سے ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔
3 ستمبر 2002ء کو جنرل صاحب کراچی آئے۔ ہمیشہ کی طرح وہ تمام راستے بلاک کر دیے گئے جو شاہراہ فیصل پر نکلتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے امراض قلب‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ‘ کڈنی سینٹر‘ غرض تمام ہسپتالوں کے راستے بند ہو گئے۔ جب بھی صدر کا شہر میں ورودہوا‘ معصوم بچے رُل گئے اور شام گئے گھروں تک پہنچے۔ ایم کیو ایم نے جو ہڑتالیں کیں اور کرائیں‘ ان کا شمار ممکن ہے ‘نہ اُن اموات کا جو ان ہڑتالوں کے دوران ہوئیں۔ 2010ء میں صدر زرداری کوئٹہ کے دورہ پر تھے۔ شہر کو سیل کر دیا گیا ۔ایک حاملہ عورت نے رکشے میں بچے کو جنم دیا۔ یاسر عرفات کے لاہور آنے پر شہر کو قیامت کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ قصور کی حاملہ عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے‘ سڑک پر سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اپنی وزارت کے زمانے میں ذوالفقار مرزا صاحب نے خیابان شمشیر کو اپنی زر خرید جاگیر بنایا ہوا تھا۔ دونوں طرف سپیڈ بریکر تھے۔ جب بھی گھر سے نکلتے یا واپس آ رہے ہوتے‘ راستے بند کر دیے جاتے۔ ایک ایسے ہی موقع پر معروف ماہر تعمیرات ثمر علی خان نے جرأت دکھائی‘ بند ٹریفک کے درمیان گاڑی سے نکل کر احتجاج کیا‘ پھر گھنٹی بجا کر صاحب خانہ یعنی ذوالفقار مرزا سے بات کرنا چاہی۔ نتیجہ وہی نکلا‘ جو نکلنا تھا۔ ثمر علی خان کو درخشاں پولیس سٹیشن میں بند کر دیا گیا! لاہور کے شاہی خاندان نے بابل کے معلّق باغات تو‘ کرم کیا‘ کہ شہر سے باہر جا کر تعمیر کیے مگر شہر کے اندر بھی کئی پوش علاقوں میں ان کے بُوہے باریاں ہیں۔ اردگرد کی سڑکوں کے مکینوں سے کون پوچھے کہ اُن پر کیا گزرتی ہے۔
جو کُچھ دارالحکومت میں ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے‘ سب سے سوا ہے! ’’رُوٹ لگنا‘‘ ایک ایسا منحوس‘ مکروہ محاورہ جو ہر راہگیر کی زبان سے گالی بن کر نکلتا ہے خواہ وہ راہگیر پیدل چلنے والا ہے یا اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر رہا ہے یا کسی کا ڈرائیور ہے یا ٹیکسی‘ بس یا ویگن چلا رہا ہے۔
اِس بے بضاعت لکھنے والے نے غلامی کی اس علامت پر سب سے زیادہ لکھا ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں! یہاں تک کہ پڑھنے والے تنگ آ گئے ۔اندرون ملک اور بیرون ملک سے قارئین نے کہا کہ کیا رائی کا پہاڑ بنا رکھا ہے! جنوبی ایشیا میں یہ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا! یہ وہی طرز فکر ہے جس کے سبب لوگ کہا کرتے تھے کہ قتل کرائے تو کیا ہوا! آخری بادشاہ مخالفین کو مرواتے ہی رہے ہیں‘ یہ بھی تو دیکھو کہ بھٹو صاحب سُوٹ کتنے اچھے پہنتے ہیں اور انگریزی کتنی خوبصورت بولتے ہیں!
مگر بسمہ کی اندوہناک موت نے اِس ملک کی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹا ہے! جنوبی ایشیا کی تاریخ بدلے گی اور ضرور بدلے گی! پاکستانیوں کے مقدر میں ہمیشہ کی غلامی نہیں لکھی گئی! قوموں کا مقدر قومیں خود بناتی ہیں! دن بدل رہے ہیں۔ نو سال پہلے ظل ہما اسی ظلم کا شکار ہوئی تھی۔ مگر اُس وقت سب مُہر بہ لب تھے۔ کچھ کے ہونٹ مفادات کی شیرینی کھا کر بند تھے ‘کچھ اس خوف سے چُپ رہے کہ آمریت کا کوڑا کڑک رہا تھا۔ ’’ہوشیار‘‘ سیاست دان وردی استری کرنے کے لیے دھوبی بنے ہوئے تھے! حالت یہ تھی   ؎
بہت لمبی روش تھی باغ کی دیوار کے ساتھ 
پِس دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی تھی!
مگر پھر   ؎
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں! ہم نہ کہتے تھے!
آج وہی پاکستان ہے‘ وہی کراچی ہے‘ نثار کھوڑو نے قتل کا جواز پیش کیا تو سوشل میڈیا میں طوفان بپا ہو گیا یہاں تک کہ بلاول زرداری کو مقتولہ کے گھر جا کر اس غیر دانش مندانہ بیان پر معذرت کرنا پڑی۔
مگر ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑنے والے مریض اس لعنت کا ایک چھوٹا سا شکار ہیں! اصل شکار وہ عزت نفس ہے جس کو شاہی جلوس موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ایک شریف شہری‘ خون پسینے کی کمائی سے خریدی ہوئی گاڑی پر اپنے گھر یا کام پر جا رہا ہے۔ وہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ گاڑی کے سارے ٹوکن ادا کردہ ہیں! سڑک پر بچھی ہوئی تارکول اُس کی جیب سے نکلے ہوئے پیسے سے خریدی گئی ہے۔ سڑک بنانے والے ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں اُس کی کمائی سے کی گئی ہیں یہاں تک کہ بدطنیت‘ بداصل اور حرام خور انجینئر افسروں کے تنور نما شکم میں ڈالے جانے والے کمیشن کا بوجھ بھی اُسی کی کمر پر لادا گیا ہے۔ اچانک ایک سپاہی سیٹی بجاتا ہوا‘ سڑک پر ایڑیوں کے بل گُھوم کر اسے روک دیتا ہے۔ نہ رکے تو اُس کے بونٹ پر مکہ مارتا ہے یا بندوق تان لیتا ہے کہ فرعونوں کی طرح گردن اکڑانے والوں نے گزرنا ہے! وہ فرعون جو ٹیکس نہیں دیتے اور جو کروڑوں روپوں کی گاڑیوں میں بیٹھے ہیں۔ وہی گاڑیاں جو روکے جانے والے شہری کے ادا کردہ ٹیکسوں سے خریدی گئی ہیں! ہسپتال جانے والا وہیں دم توڑ دیتا ہے! حاملہ عورت بچے کو وہیں جنم دے دیتی ہے۔ طالب علم کمرہ امتحان میں نہیں پہنچ سکتا۔ ائرپورٹ یا ریلوے سٹیشن جانے والا خوار و زبوں ہو جاتا ہے۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ جس حاکم کو جمہور نے زمام اقتدار اس لیے سونپی تھی کہ جمہور کے دکھوں کا مداوا کرے‘ وہ اُسی جمہور کے گلے پر پائوں رکھتا ہے اور پھر پوری قوت سے پائوں کو دباتا ہے!
عمران خان کا اعلان کہ کے پی کے میں اس لعنت کا خاتمہ کر دیا جائے گا‘ ہوا کا رُخ بتاتا ہے! رُخ متعین ہو چکا ہے! دیر ہوئی ہے‘ اندھیر نہیں۔ وہ جو انگریز محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ
 IT IS A BIG IF
 تو عمران خان کا اعلان بھی ایک بہت بڑا 
IF
 ہے۔ پروٹوکول کے مارے ہوئے ‘احساس کم تری کا شکار‘ ذہنی مریض‘ ہٹو بچو کی بیساکھیوں کے بغیر کہاں رہ سکتے ہیں مگر ایک بار مریض کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا آ گیا تو چلنا بھی شروع کر دے گا۔ وزیراعظم اور صوبائی حکمرانوں کی اور پارٹی کے موروثی مالکوں کی سواریاں عام ٹریفک کا سامنا کریں گی تو ٹریفک کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے۔ پولیس کا رویہ بھی منصفانہ ہو جائے گا۔ کیا عجب اس حوالے سے ہم بھی مہذب اقوام میں شمار ہونے لگیں۔ 
1986ء کی بات ہے۔ سویڈن کا وزیراعظم آدھی رات کو سینما میں فلم دیکھ کر‘ گھر کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ بیگم ساتھ تھی۔ پیٹھ پر گولی لگی اور وزیراعظم کی موت واقع ہو گئی۔ حکمرانوں نے اس خوفناک واقعہ کے بعد بھی سکیورٹی کا حصار اپنے گر دنہ قائم ہونے دیا۔ سترہ سال بعد 2003ء میں سویڈن کی وزیر خارجہ اینا لَینڈھ کو ایک نامعلوم قاتل نے چُھرے کے پے در پے وار کر کے اُس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ گاہکوں سے بھرے ہوئے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں شاپنگ کر رہی تھی۔ ایک بار پھر بحث شروع ہوگئی کہ حکمرانوں کو اپنی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے اندر رہنا چاہیے مگر ملک کے اہل سیاست نے خاص طور پر برسر اقتدار سیاست دانوں نے طرز زندگی تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عام شہری ہی کی طرح رہیں گے۔ چنانچہ اب بھی وہ عام ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ سبزی اور کریانے کی دکانوں سے اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جسے جان کا خطرہ لاحق ہو‘ وہ سیاست میں آئے نہ حکومت میں بلکہ گھر بیٹھے  ع
جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اُسکی گلی میں جائے کیوں؟

بادشاہ ہزارے نا ہوسی

$
0
0
یہ ایک نمایاں اور ممتاز یونیورسٹی تھی۔ جس کلاس میں گفتگو کرنا تھی اس کے طلبہ اصل میں کالجوں کے اساتذہ تھے جو ایک ہی صوبے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے، کالج میں پڑھانے والے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں؟ نہیں! اعلیٰ تعلیم یافتہ! ایم اے کے ڈگری ہولڈر‘ ملک کی آبادی کے عشیر عشیر سے بھی کم! مگر جب عینک ایک خاص رنگ کے شیشوں کی پہنا دی جائے اور ذہن کو ایک کٹہرے میں لپیٹ کر دنیا سے لاتعلق کر دیا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم بھی لاحاصل ثابت ہوتی ہے۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ تعلیم بھی فلاں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی‘ تو کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا!
بات صرف اتنی ہوئی کہ ان طلبہ سے خطاب کرنے والے نے ایک واقعہ سنا دیا جو کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر لاہور میں پیش آیا تھا۔ ایک نواب صاحب پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ کسی بد دماغ نے سوال کر دیا کہ جھوٹ سچ میں تمیز کرنے کے لیے جلتے سلگتے انگاروں پر چلانا کہاں کا انصاف ہے۔ نواب صاحب نے فخر سے جواب دیا کہ یہ ہماری روایت ہے! طلبہ کو واقعہ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ روایت کے نام پر ظلم و جہالت کو جاری رکھنا عوام کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر کُچھ طلبہ برافروختہ ہو گئے!
اب مزے کی بات یہ تھی کہ بر افروختہ ہونے کے لیے دلیل کوئی نہیں تھی! یہ تو کہہ نہیں سکتے تھے کہ جلتے کوئلوں پر چلانا شرعی یا قانونی یا سائنسی اعتبار سے جائز ہے! لے دے کہ ایک ہی نکتہ تھا کہ ہمارے سرداروں کو کچھ نہ کہا جائے!
سرداری یا بادشاہی کی بقا کے لیے سب سے ضرری حفظ ماتقدم کیا ہے؟ عوام کو باور کرانا کہ تم فلاں قبیلے سے تعلق رکھتے ہو اس لیے برتر ہو‘ اور تمہارا حکمران یا سردار یا نواب تنقید سے بالاتر ہے! رضا شاہ پہلوی نے اپنے گرد تقدس کا جو ہالہ بُنا تھا‘ کیا تھا؟ اور کس لیے تھا؟ یہ کہ بادشاہ مقدس ہے! غلطی سے بادشاہ نے ٹائم غلط بتا دیا تو اسے ٹوکنے کے بجائے پورے ملک کی گھڑیاں غلط ٹائم کے مطابق تبدیل کر دی گئیں۔ ابوالفضل اور فیضی کے لکھے ہوئے روزنامچے پڑھ کر دیکھ لیجیے، لگتا ہے نعوذ باللہ بادشاہ نہیں‘ پیغمبر کا تذکرہ ہے! اسی طرح! جی ہاں، بالکل اسی طرح! اگر قبیلے کے ہر فرد کو یہ یقین دلایا جائے کہ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تمہارا قبیلہ تمہارے سردار کی قیادت میں زندگی بسر کرے اور جو روایات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں‘ تمہارے لیے باعث فخر ہیں‘ تو لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عصبیت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے اور اگر تعلیم یافتہ افراد قبیلے میں اتنے ہیں جتنا آٹے میں نمک تو معاملہ اور بھی آسان ہے!
زخم کریدنے کو دل اس لیے چاہ رہا ہے کہ بلوچستان کے ریگستان میں چند مربع فٹ پر مشتمل جو نخلستان آیا تھا‘ گزر گیا ہے۔ آگے پھر لق و دق صحرا ہے۔ ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں۔ اُکھڑے ہوئے خیمے ہیں۔ ہر آن محل وقوع بدلتے خوفناک ٹیلے ہیں اور بے امان مسافر!
گزشتہ چالیس سال کے دوران جتنے وزیراعلیٰ آئے‘ سب سردار تھے اور نواب! عطاء اللہ مینگل‘ جام غلام قادر خان‘ محمد خان باروزئی‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ خدا بخش مری‘ نواب اکبر بگتی‘ ہمایوں خان مری‘ تاج محمد جمالی‘ ذوالفقار علی مگسی‘ محمد نصیر مینگل‘ اختر مینگل‘ میر جان محمد جمالی‘ جام محمد یوسف‘ محمد صالح بھوٹانی‘ نواب اسلم رئیسانی اور غوث بخش باروزئی۔ ان صاحبوں میں سے کُچھ دو دو بار بھی سریر آرائے اقتدار ہوئے۔ یہ سب وہ امرا ہیں جو وسیع و عریض جاگیروں کے مالک ہیں۔ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں یا حد درجہ ممتاز ارکان! قبیلے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ ان کی زبانوں سے نکلا ہوا لفظ قانون بنتا ہے۔ کئی کئی سو مسلح پہرے دار ان کے جلو اور عقب میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر وہ ہیں جن کے محلات کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہیں۔ ان کے قبیلوں کی اکثریت نے کوئٹہ بھی نہیں دیکھا مگر یہ لوگ بڑے بڑے شہروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو ملازمت یا کاروبار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جاگیروں سے آمدنی آتی ہے۔ معدنیات ان کی ملکیت میں ہیں!
پورے صوبے میں ان صاحبوں سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ حضور! آپ نے اپنے عہد اقتدار میں کتنے کالج بنوائے؟ کتنی یونیورسٹیاں قائم کیں؟ کتنے ہسپتال بنوائے؟ کتنے کارخانے لگوائے؟ زراعت کو کتنا مشینی بنایا؟ چلیں‘ صوبے کو چھوڑیے‘ اپنے قبیلے کے کتنے طلبہ کو آپ نے آکسفورڈ یا ہارورڈ بھجوایا؟ ان مقتدر افراد سے‘ جو ہر وقت پروٹوکول کے سائے میں رہتے ہیں‘ کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ آپ کے قبیلے میں خواندگی کا تناسب کیا ہے؟ کتنی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں؟ کتنے لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں؟ صوبے میں آپ کے قبیلے کی آبادی کے لحاظ سے کیا پوزیشن ہے اور ملازمتوں کے لحاظ سے قبیلہ کہاں کھڑا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے سرداری نظام کی مثال‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے کچھ مافیا زدہ ملکوں کو چھوڑ‘ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے؟ کیا آپ جانتے ہیںکہ سردار نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے گلی میں گزرنے والے کسی بھی شخص کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ کالجوں اور سکولوں کی عمارتیں ان سرداروں کے غلّے کا گودام ہیں؟
غلامی کی اِس بدترین شکل کی ذمہ دار پاکستان کی ریاست ہے۔ اڑسٹھ سال ہو گئے‘ بلوچستان کے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدیوں پرانا قبائلی طرز زندگی جاری و ساری ہے۔ ملک کے دارالحکومت میں جو نام نہاد پالیسی ساز بیٹھے ہوئے ہیں‘ سچی بات یہ ہے کہ وہ اُس وژن سے، اُس ادراک سے محروم ہیں جو تبدیلی لانے کے لیے درکار ہے! عبدالمالک بلوچ پہلا غیر سردار تھا جسے اڑھائی برس کی چیف منسٹری ملی۔ اب اس گناہ کا کفارہ ادا کیا جا رہا ہے۔ اقتدار سرداروں کے پاس واپس آ گیا ہے۔
قبائلی طرز زندگی ان سرداروں کو خوب راس آتا ہے۔ اس طرز زندگی میں کوئی شخص خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا! کچے گھر میں رہنے والا ایک ناخواندہ قبائلی جس کے بیوی بچے ہزار سالہ قدیم زندگی گزار رہے ہیں‘ کندھے پر بندوق رکھ کر فخر سے کہتا ہے کہ میں بگتی ہوں‘ مری ہوں‘ مینگل ہوں اور اپنے سردار کا وفادار ہوں! اُسے آپ لاکھ بتائیں کہ تمہارے کچھ حقوق بھی ہیں‘ وہ آپ کی بات نہیں مانے گا! اصرار کریں گے تو آپ کو حکومت کا یا اسٹیبلشمنٹ کا یا پنجاب کا گماشتہ قرار دے گا! وہ جو اقبالؒ نے گوشے میں بیٹھے ہوئے اور دنیا سے کٹے ہوئے مسلمان کے لیے کہا تھا کہ ؎
اس سے بہتر ہے الٰہیات میں اُلجھا رہے
یہ کلام اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
تو بلوچستان کا عام باشندہ اگر پتھر کے زمانے میں رہ رہا ہے تو رہتا رہے۔ سرداری نظام کا بھلا اسی میں ہے!
پتا نہیں یہ واقعہ ہے یا زیب داستاں کے لیے بات گھڑی گئی۔ صدر ایوب خان کی وفات پر اُن کے علاقے کے لوگوں نے جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ ’’بادشاہ ہزارے نا ہوسی‘‘۔ بادشاہ تو دوسرا ہزارے سے نہ آ سکا مگر یہ طے ہے کہ بلوچستان کی حکمرانی سرداروں کے پاس ہی رہے گی! 

خواب جھوٹے خواب! تیرے خواب میرے خواب بھی!

$
0
0

جذبات کو کچھ دیر کے لیے تھیلے میں ڈالیے‘ تھیلا دیوار میں لگی کیل کے ساتھ لٹکا دیجئے۔ پھرٹھنڈے دل سے‘ خالی الذہن ہو کر‘ سوچیے۔
جب بھی ہم عالم اسلام کی بات کرتے ہیں تو زمینی حقائق کی روشنی میں ہم اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ایک طرف سے شروع ہو جائیے۔
مراکش‘ الجزائر‘ تونس سے ہمارے کون سے تعلقات ہیں؟ وسطی اور مغربی افریقہ کے مسلمان ملکوں کے ہم میں سے اکثر لوگ نام تک نہیں جانتے۔ مصر سے ہمارے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے کسی بھی دور دراز ملک سے ہو سکتے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں نے جتنے معاہدے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے ہیں‘ ہماری سوچ سے زیادہ ہیں۔ مشرق بعید میں انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی کی اپنی دنیا ہے۔ کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ ماضی قریب میں ان ملکوں میں سے کسی ملک کا سربراہ یہاں آیا ہو یا کوئی معاہدے ہوئے ہوں؟ ایران کو دیکھیے۔ کھلم کھلا نہ سہی‘ اندر خانے چپقلش ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات مثالی ہیں۔ ہماری مجوزہ اقتصادی راہداری کے مقابلے میں ایران اور بھارت دونوں ایک پیج پر ہیں۔ یو اے ای میں چند ہفتے پہلے جو پذیرائی مودی کو ملی‘ پاکستان کو اپنی اوقات یاد آگئی۔ لے دے کر‘ عالم اسلام سے ہماری مراد سعودی عرب رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات‘ بلاشبہ قریبی ہیں مگر ان تعلقات کی تہہ میں ہمارے حکمرانوں اور سعودی حکمرانوں کے شخصی روابط کا کردار‘ ریاستی کردار کی نسبت زیادہ ہے۔ ہمارے تارکین وطن کو جو وہاں ملازمتیں کر رہے ہیں یا ہمارے حجاج کو‘ کبھی بھی دوسرے ممالک کی نسبت ترجیحی سلوک نہیں ملا۔
پھر‘ یہ قریبی تعلقات دو ملکوں کے دوطرفہ باہمی تعلقات ضرور ہیں‘ عالم اسلام سے ان کا کیا تعلق ہے؟
آپ بار بار اس تھیلے کو دیکھ رہے ہیں جو دیوار میں لگی کیل سے لٹکا ہے اور جس میں آپ نے کچھ دیر پہلے جذبات ڈالے تھے۔ ازراہ عنایت‘ ابھی جذبات کو تھیلے ہی میں رہنے دیجیے اور اس تازہ خبر پر غور فرمائیے۔ حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے لحاظ سے سعودی عرب اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جو پاکستان میں اپنے مدارس کو سب سے زیادہ مالی امداد پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بی بی سی کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین سو مدارس اس ضمن میں نمایاں ہیں۔ سعودی عرب 172 اور ایران 84 مدارس کی مدد کر رہا ہے۔ قطر‘ کویت‘ یو اے ای‘ امریکہ‘ انگلینڈ‘ یورپی ممالک اور جنوبی افریقہ بھی حسب توفیق اس کارِخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ 172 مدارس جو سعودی عرب نے منتخب کیے ہیں اور یہ 84 مدارس جو ایران کے منظور نظر ہیں‘ اپنے طلبہ کو اٹلی اور برازیل کی تاریخ پڑھا رہے ہوں گے؟ یا جاپان اور فلپائن کے جغرافیے کا درس دے رہے ہوں گے؟ ہم جانتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب عقائد‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور کپڑے پھاڑ کر‘ نوالے منہ کے بجائے کان میں ٹھونسنے والا پاگل بھی جانتا ہے کہ ایران سے مدد لینے والے مدارس اپنے طلبہ میں ایران کی محبت اور سعودی عرب سے وابستہ مدارس اپنے طلبہ میں سعودی نقطۂ نظر سے پیار بھر رہے ہیں!
اب معاملے کا ایک اور پہلو دیکھیے۔ روزنامہ دنیا نے کل کی اشاعت میں یہ راز کھولا ہے کہ مودی دراصل پاکستان کو روس اور ایران کا پیغام دینے آئے تھے۔ پیغام یہ تھا کہ پاکستان 34 ملکوں کے اسلامی اتحاد میں شامل نہ ہو۔
ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ پیغام کس کا تھا اور لانے والا کون تھا؟ ظاہر ہے کہ مودی بھارت کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے اور صدر پیوٹن کی اولین ترجیح روسی مفادات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا مفاد کیا ہے؟
ہمارا مفاد۔ ہمارا اولین مفاد۔ ملک کے عوام ہیں۔ ان عوام کے درمیان ہم آہنگی پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان قرضوں کے لحاظ سے‘ عقائد کے اعتبار سے‘ زبانوں‘ نسلوں اور قومیتوں کے حوالے سے ایک متنوع اور رنگارنگ سرزمین ہے۔ یہ تنوع اور یہ بوقلمونی ہی ہمارے ملک کا حسن ہے اور اگر ہم نے دانش مندانہ رویہ نہ اپنایا تو یہ رنگارنگی‘ یہ تنوع‘ ہمارے لیے اضطراب کا باعث بھی بن سکتا ہے! اگر ہم پاکستان کے خیرخواہ ہیں تو ہمیں وہ اقدامات فوراً سے پیشتر اٹھانے ہوں گے۔
اوّل : ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو سرد جنگ جاری ہے‘ اور جو تیزی سے صف آرائی کی طرف گامزن ہے‘ اس جنگ میں ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ ہمارا واسطہ نہ اُس اتحاد سے ہونا چاہیے جو روس ‘شام اور ایران کے درمیان ہے ‘نہ ہی اُس سے جو اس کے مقابلے میں تشکیل پا رہا ہے! ہمارے ہاں شیعہ بھی ہیں اور سُنی بھی۔ ہم کسی ایسی پالیسی کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ہمارے ماتھے پر ان دونوں میں سے کسی ایک بلاک کا لیبل لگا دے۔ ہماری مسلح افواج میں تمام فرقوں اور تمام عقائد کے افسر اور جوان شامل ہیں اور سب ملک پر قربان ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہماری عافیت اسی میں ہے کہ دونوں اتحادوں سے دور رہیں!
ہمیں دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ان ملکوں سے اپنے مدارس کے لیے امداد قبول کرنا ہمارے لیے سودمند ہے یا مُہلک؟ کیا ایران ہمیں اجازت دے گا کہ ہم وہاں سُنی آبادیوں کے لیے مسجدیں بنوائیں اور کیا جزیرہ نمائے عرب میں ہم شیعہ یا بریلوی مکتب فکر کے مدارس کو امداد بہم پہنچا سکتے ہیں؟ حضور! ان دونوں ملکوں میں تو چڑیا پر نہیں مار سکتی! پاکستانیوں کی ہر دو ملکوں میں وہ چھان بین ہوتی ہے اور ائرپورٹوں پر اُن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہ ’’عالم اسلام کے اتحاد‘‘ کا پول کُھل کُھل جاتا ہے۔ حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ دونوں ملکوں سے صاف صاف کہے کہ کسی مدرسہ کو مدد نہ دیں ورنہ یہ مدد پاکستان دشمنی پر محمول کی جائے گی! یہاں ایک سوال وزارت داخلہ سے کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کیا وزارت داخلہ کے ارباب قضا و قدر کو معلوم ہے کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ پڑھانے والے کون ہیں؟ اور گزشتہ تین یا پانچ برسوں میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اِس وقت کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اتحاد ایک روحانی تصور ہے۔ اس کا سیاست‘ معیشت اور معاشرت سے کوئی عملی تعلق نہیں! کون سا اسلامی اتحاد؟ بنگلہ دیش اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس اتحاد کی اصلیت کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جو آگ جل رہی ہے‘ درست ہے کہ اس کے جلانے میں امریکی ہاتھ کا عمل دخل ہے مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ امریکہ کو اشیرباد مسلمان ملکوں کی حاصل رہی ہے؟ ایران اور عراق برسر پیکار رہے۔ پھر عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی۔ خطے کے اسلامی ممالک نے عراق کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی ہر ممکن معاونت کی۔ ترکی اور ایران صدیوں سے ایک دوسرے کے مخالف چلے آ رہے ہیں۔ یمن میں مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے! ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر جو حضرات الیکٹرانک میڈیا پر اسلامی اتحاد کے حوالے سے لچھے دار گفتگو کرتے ہیں ان میں سے کچھ تو خود فریق ہیں کیونکہ ان کے مدارس کو بیرونی امداد ملتی ہے اور کچھ اپنے آپ کو عوامی سطح پر مقبول سے مقبول تر بنانے کے لیے اس امرت دھارے کا استعمال کر رہے ہیں! 
سادہ لوح عوام کو اسلامی ممالک کے نام تک نہیں معلوم! یہ تک نہیں پتا کہ اپنے ملک کے صوبوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے‘ اسلامی اتحاد کے نام پر ان سادہ لوح عوام کے خون کو گرم کرنا آسان ترین سرگرمی ہے۔ مقبول عام ہونے کا یہ نسخہ اکسیر ہے!
مشرق وسطیٰ میں آگ جل رہی ہے! ہمیں اس آگ سے اپنے ملک کو بچانا ہو گا۔ سرحدیں اس قدر مضبوط کرنا ہوں گی کہ کوئی رضا کار ایران کے تربیتی کیمپوں میں جا سکے نہ داعش میں شمولیت اختیار کر سکے۔ ہمیں اپنے سادہ دل لوگوں کو قائل کرنا ہو گا کہ یہ عقائد کی جنگ ہے‘ نہ اسلام کی‘ یہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ ہے۔ روس امریکہ کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر برابر کا حریف ہے۔ امریکہ اپنی برتری کو بچانے کے درپے ہے۔ یہ راز کی بات نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ جنگ کی منصوبہ بندی امریکہ کے پالیسی سازوں نے چالیس پچاس برس پہلے کر لی تھی اور جو کُچھ ہو رہا ہے‘ منصوبہ بندی کے عین مطابق ہو رہا ہے!

صرف سورج؟؟

$
0
0
2015
ء کا سورج غروب ہو کر شفق کی کرسی نئے سورج کے لیے خالی کر رہا ہے؟
بحرالکاہل کے کنارے جس شہر میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں وہاں آج درجۂ حرارت چالیس کے قریب ہے۔ دنیا کے اس گوشے میں سورج کا زاویہ ہی شاید ایسا ہے کہ شعائیں کاٹتی ہیں اور دھوپ سوئیوں کی طرح چبھتی ہے۔ نیوایئر کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ سب سے بڑا ہنگامہ آور اجتماع سڈنی ہاربر(بندرگاہ) پر ہوتا ہے۔ دھوپ کو ترستے سفید فام گروہ یورپ اور امریکہ کی برفانی ہوائوں سے بھاگ کر اِدھر کارخ کرتے ہیں۔
کتنے ہی نئے سال آئے، کتنے ہی سورج وقت کی دھول میں کھو گئے   ؎
رنگ جماکے اُٹھ گئی کتنے تمدنوں کی بزم
یاد نہیں زمین کو، بھول گیا ہے آسماں
ہر نئے سال کی رات میلے منعقد ہوتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں بس یہی نیو ایئر نائٹ ہے جو دنیا میں جگمگا رہی ہے اور جھلملا رہی ہے۔ گزری ہوئی صدیوں سے بے نیاز، آتی رُتوں سے بے خبر!
مجید امجد نے کہا تھا   ؎
مگر آہ یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے میرے بس میں ہے میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ!
انسان کے لیے آسمان کا وہی ٹکڑا اُس کا اپنا ہے جتنا اُسے کھڑکی میں سے نظر آتا ہے۔ اُسے اس سے کیا غرض کہ ایک پرانی صدی جب آخری سانسیں لے رہی تھی تو سرنگا پٹم میں ٹیپو پر کیا گزر رہی تھی۔ پھر ایک اور صدی گزر گئی۔ ہمالیہ سے لے کر سری لنکا تک اور طورخم سے لے کر رنگون تک ایک ایک انچ پر اُن کا قبضہ ہو گیا جن کے پاس طاقت تھی اور ٹیکنالوجی تھی اور اپنے ملک کے جھنڈے کو ہر جگہ لہرانے کی دُھن تھی اور تدبیر تھی؟ 
انسان ماتم کرے بھی تو کیوں؟ وہ اپنے حصے کی نیوایئر نائٹ دوسروں کے لیے روتے ہوئے کیوں گزارے؟ اُس کے تو نصیب میں وہی کچھ ہے جو اُس کے پاس ہے۔ اُس کی آنکھ جس غنچے کو چٹکتا دیکھ رہی ہے وہی اس کا ہم سفر ہے۔ اسے گلی میں کھیلتے بچوں کی جو آوازیں آ رہی ہیں، وہی اس کے لیے زندگی کی علامت ہیں! اس کا عشق اُسی زلف کا اسیر ہے جو اس کے دل کے گرد لپٹی ہوئی ہے۔ اُسے اس سے کیا غرض اگرقلوپطرہ خوبصورت تھی یا ڈیانا جنتِ نگاہ تھی۔ اُسے تو یہی معلوم ہے کہ   ؎
یہ دنیائے امروز میری ہے، میرے دلِ زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
لُو کے تھپیڑے بحرالکاہل سے اُٹھ رہے ہیں۔ آسٹریلیا کا صحرا جھلس رہا ہے !نئے سال کی کئی راتیں یاد آ رہی ہیں جو میں نے اپنے گائوں میں ’’منائی‘‘ تھیں! ہم راتوں کو، لالٹین بجھا کر، لحاف اوڑھ کر سو جاتے۔ ہماری نیند کے دوران ہی سال رخصت ہو جاتا تھا۔ صبح اُٹھتے تھے تو ایک نیا برس ہوتا تھا۔ مگر سب کچھ تو وہی ہوتا تھا! وہی دھواں جو اُس چھپر نما کمرے میں بھرا رہتا تھا جو رسوئی کا کام دیتی تھی۔ وہی کچے صحن، کیچڑ سے بھرے ‘جن پر جھپ جھپ چلتے، چھینٹے اڑاتے، ہم دوڑتے پھرتے تھے! پھر بابا بہادر خان، چار خانے والا کھیس اوڑھے، گلی میں سے، کلمہ پڑھتے، گزرتا تھا کہ مسجد سے وہ ہمیشہ دن چڑھے واپس آتا تھا! چرواہوں کے لیے کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ نئے سال کی پہلی صبح بھی وہ ڈھور ڈنگروں کو ہانکتے، چتکبری گائے کو جھڑکتے، سست بھینسوں کو کوستے، ساتھ ساتھ چلتے کتے کو چمکارتے مویشیوں کی گردنوں میں پڑے ہوئے گھنگروئوں کی مترنم آوازوں کی لے کے ساتھ قدم اٹھاتے، گلی میں سے گزرتے تھے۔ شام کو لوٹتے تھے تو سروں پر کٹے ہوئے درختوں کی ٹہنیاں اُٹھائے، تھکے تھکے قدموں سے چل رہے ہوئے تھے۔ اُس وقت صحنوں میں تنور تپ رہے ہوتے تھے۔ دھوئیں کے مرغولے دیواروں سے اُٹھتے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہوتے۔ نئے سال کا پہلا ’’ڈنر‘‘ بھی وہ پتلی دال اور کٹے ہوئے پیاز سے کرتے!
زمانے کے الٹ پھیر نے ایک نیوایئر نائٹ ہسپانیہ کے شہر بارسلونا میں دکھائی۔ شہر کے بڑے چوک پر خلقت جمع تھی۔ گھڑیال نے رات کے بارے بجائے تو بارہ بار گھنٹی بجی۔ ہر گھنٹی کے ساتھ لوگوں نے ایک انگور کھایا۔ یوں بارہ انگور کھانے کی رسم سارے ہسپانیہ اور ہسپانیہ کے زیر اثر، لاطینی امریکہ کے ملکوں میں ہر نیوایئر نائٹ کو منائی گئی۔
نئے سال کی وہ رات بھی یاد آ رہی ہے جو وقت کے ہچکولوں کے سبب اردن کے دارالحکومت عمان میں آئی۔ کتنی ہی تگ و دو کے بعد اُس اردنی دوست کو ڈھونڈ نکالا جو یورپ کے ایک تعلیمی ادارے میں میرا ہم جماعت تھا۔ فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ مجھے دیکھا تو حیران ہوا، پھر خوشی سے اچھل پڑا۔ اُس کے فلسطینی رشتہ دار، نئے سال کی رات منانے فرانس سے بطور خاص آئے ہوئے تھے۔ خوشبودار پلائو سے بھری پراتیں چلغوزوں کی گریوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اور منوں کے حساب سے بریاں کیا ہوا گوسفند کا گوشت تھا۔
نئے سال آتے رہیں گے‘ غروب ہوتے رہیں گے۔ مگر کیا کوئی سال ایسا بھی آئے گا کہ مظلوموں کی دلجوئی خادمِ اعلیٰ نہیں، نظام کرے گا؟ کیا کوئی نیا برس ایسا بھی ہو گا کہ صوبے کی پولیس کا سربراہ، چیف منسٹر کی وجہ سے نہیں بلکہ ظالموں کی کمر، اپنے طور پر اپنا فرض سمجھتے ہوئے توڑے گا۔ یہ سال کا کیسا آخری دن ہے جو ہمیں خبر دیتا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے گائوں کے قریب اترے اور خود گاڑی چلاتے ہوئے اُس بدقسمت نوجوان کے گھر پہنچے جس کے دونوں ہاتھ ایک طاقتور نے کٹوا دیئے ہیں۔ کیا کوئی نیا سال ایسا بھی آئے گا کہ شفاف انکوائری، پولیس کا سربراہ، خادمِ اعلیٰ کی فرمائش کے بغیر کرے یا کروائے گا! کیا کوئی نیا سال ایسا آئے گا کہ قوم کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ جہاں جہاں، خود جا کر حاکم نے سزا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اُن مجرموں کو سزا مل چکی ہے! کیا کوئی نیا سال ایسا بھی آئے گا جب ہمارے کانوں میں تسلی کی یہ روئی(کاٹن) نہیں ڈالی جائے گی کہ… ’’جب تک انصاف نہیں فراہم ہو گا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا…‘‘ کیا کوئی نیا سال ایسا آئے گا کہ ظالم کو سزا، خودکار سسٹم کے تحت ملے گی اور مظلوم کے آنسو پونچھنے کے لیے ہیلی کاپٹر کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کیا کوئی ایسا سال طلوع ہو گا کہ ہمیں دولت کے انبار سمیٹنے والوں سے نجات ملے گی؟ کیا کوئی نجات دہندہ آئے گا؟ کیا کوئی آئے گا؟ ہم کب تک اس امید پر بیٹھے رہیں گے کہ   ؎
کوئی آئے گا اور سب کچھ بدل کے رکھ دے گا
یہ سورج بھی، یہ خلقت بھی، کوئی آئے گا
کوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گی
بے چارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گا
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اس کی داد رسی کوئی آئے گا
ہماری قسمت صرف نئے سورج سے نہیں بدل سکتی! ہمیں تو سب کچھ نیا درکار ہے! نئی پولیس، نئی نوکر شاہی! نئے ادارے، نئے وزیر، نئے حکمران! ہمارا وہ حال ہے کہ اب مرمت نہیں، نئی تعمیر کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے، اُسے دیمک لگ چکی ہے! سڑاند آ رہی ہے۔ تعفن ہمارے اُوپر چادر کی طرح تن چکا ہے۔ بددیانتی ہمارے روئیں روئیں میں دھنس چکی ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی ہماری ہڈیوں کے گودے میں سما چکا ہے! ہمارے واعظ ہمارے تاجر، سب ہمیں فریب دے رہے ہیں۔ ہمیں صرف سورج نیا نہیں، سب کچھ نیا درکار ہے! نئی زمین! نیا آسمان! نئے چہرے! نئے شش جہات!!

ماسی

$
0
0
دو ہی خاندان تھے پورے ضلع میں، کھاتے پیتے، آسودہ حال اور علاقے کی سیاست میں دخیل۔ ایک راجوں کا اور دوسرا جاٹ!
بڑے راجہ صاحب اور بڑے چوہدری صاحب جب تک زندہ رہے، دونوں میں گاڑھی چھنتی رہی۔ سیاسی اختلاف کے باوجود، تعلقات میں گرم جوشی رہی۔ رشتے تک ہوئے۔ پھر دوسری نسل برسرِ اقتدار آئی۔ نئے راجہ صاحب تیز مزاج تھے۔ اکھڑ اور زود رنج! بات بات پر بڑ ہانکنی اور تفاخر! نئے چوہدری نے کچھ عرصہ برداشت کیا۔ پھر اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کیا۔ مخاصمت تلخی میں بدل گئی۔ یہاں تک کہ سرِراہ، سلام دعا سے بھی گئے۔
انسانوں کے طبائع مختلف ہوتے ہیں۔ صرف انگلیوں کے نشانات ہی نہیں‘مزاج بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ تیسری نسل اوپر آئی تو نیا راجہ، جو آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا تھا، چل کر چوہدریوں کے گھر گیا۔ اپنے والد کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگی اور تجویز پیش کی کہ علاقے کے عوام کی اقتصادی ترقی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔
آپ کا کیا خیال ہے ‘راجہ اور چوہدری خاندان کے درمیان باہمی تعلقات نے جو تین مختلف ادوار دیکھے، وہ کوئی طے شدہ پالیسی کا نتیجہ تھے یا تین خاندانی سربراہوں کی ذاتی پسند یا ناپسند تھی! یقینا ان تبدیلیوں کی پشت پر انفرادی خواہشات تھیں۔ سخت مزاج راجہ صاحب نے باگ سنبھالی تو گھوڑے پر چابکوں کی بارش کر دی۔ اُن کا جانشین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، جہاں دیدہ تھا، مزاج میں نرمی تھی اور نفاست بھی۔چنانچہ ایک شخص کی وجہ سے پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔
مگر ملکوں کے درمیان تعلقات، کسی فرد کی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں بدلتے! سخت مزاج وزیر اعظم آ کر لڑائی جھگڑے کی طرف بڑھے بھی تو ادارے اسے لگام ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی ریشہ خطمی ہونا چاہے تو اُسے بھی ملک کے عوام کو، سیاسی حالات اور طویل المیعاد بیلنس شیٹ کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔
تین سو سال تک روس نے اپنے خونی پنجے جنوب کی طرف بڑھائے رکھے۔ وسط ایشیا کوہڑپ کرنے کی پالیسی کسی زار نے تبدیل نہ کی۔ ایک بار توچنور کی طرف بڑھتی ہوئی روسی سپاہ پوری کی پوری برفانی طوفانوں کی نذر ہو گئی۔ صدیوں پر پھیلے ہوئے پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے 1865ء میں تاشقند پر قبضہ ہوا۔ بالشویک آئے تو انہوں نے زار کے مقابلے میں حمایت حاصل کرنے کے لیے وسط ایشیائی مسلمانوں سے آزادی کا وعدہ کیا مگر جیسے ہی قدم جمے، زار کی پالیسی اپنا لی۔ یہاں تک کے بسماچی تحریک نے ترکستان کو آزاد کرانے کی جدوجہد تیز کر دی۔ یہ اور بات کہ روس کی اشتراکی حکومت نے پورے سنٹرل ایشیا پر قبضہ مستحکم کر لیا۔ کئی زار آئے اور گئے۔ سٹالن تھا یا برزنیف! وسط ایشیا کے معاملے میں سب ایک ہی پالیسی پر گامزن رہے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی صدر کے آنے سے امریکی خارجہ پالیسی بدل جاتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایل بی جانسن آیا یا نکسن یا بش یا اوباما تو آتے ہی وزارتِ خارجہ کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی دوستوں کی ڈیوٹی لگا دی کہ روس سے تعلقات بہتر کرو‘ مشرق وسطیٰ میں یوں کر دو اور چین جاپان کو فلاں پیغام بھجواؤ۔ نہیں! جناب ایسا نہیں ہوتا! جو کچھ بش سینئرنے کیا وہ عشروں پہلے طے ہو چکا تھا۔ جو سرگرمیاں بش جونیئر نے دکھائیں وہ بھی فردِ واحد کی آرزو پر مشتمل نہیں تھیں۔ رفتار کا فرق ہو سکتا ہے! مگر پالیسیاں طے شدہ تھیں۔ اوباما منتخب ہوا تو مسلم دنیا میں ایسے ایسے احمق بھی تھے جو یہ توقع کر رہے تھے کہ افغانستان سے فوج واپس بلا لی جائے گی اور مسلمانوں سے معافی مانگی جائے گی! آج نہیں تو کل امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات ثابت کر دیں گی کہ مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلمانوں کی تقسیم امریکہ نے بہت پہلے طے کر لی تھی۔ اگر تیسری دنیا کے کسی ملک میں میجر کی سطح کے کسی فرد کو چن لیا جاتا ہے اور فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اسے اس ملک کا سربراہ بنایا جائے گا تو نیا امریکی صدر آ کر اُس کی خفیہ ’’سرپرستی‘‘ جاری رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ آ کر، ایک نئے شخص کے نام کے گرد دائرہ لگائے۔
عربوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسی طے شدہ ہے۔ یہی حال عرب طاقتوں کا ہے۔ ایران کی جو پالیسی بھارت اور پاکستان کے ضمن میں چلی آ رہی ہے‘ اس میں تسلسل ہے اور اگر تعصب یا وابستگی سے بالا تر ہو کر دیکھا جائے تو اس تسلسل کا نظر آنا چنداں مشکل نہیں! یہی حال بھارت کا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس کی پالیسی طے شدہ ہے۔ حکومت کانگرس کی ہو یا بی جے پی کی یا کل کسی اور پارٹی کی آ جائے تو اِس پالیسی میں فرق نہیں پڑے گا۔ اگر من موہن سنگھ نے اپنے آبائی گائوں گاہ ضلع چکوال میں گائوں کے لوگوں کو شمسی توانائی کی سہولت بہم پہنچائی تو احمق سے احمق بھارتی نے بھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ پاکستان سے دوستی ہو گی! ہاں‘ مودی کے لاہور آ کر وزیر اعظم سے غیر سرکاری ملاقات کرنے سے بہت سے پاکستانی یہ ضرور سمجھ رہے ہیں کہ باہمی تعلقات نے نیا ورق الٹا ہے اور جنوبی ایشیا کا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا! ایسا نہیں! ایسا ہوتا بھی نہیں۔ یہ دو خاندانوں کا مسئلہ نہیں‘ دو ملکوں کا مسئلہ ہے۔ بھارت کی پالیسی وہی رہے گی جو طے شدہ ہے۔ یہ تو وقتی مصلحتوں کے پیشِ نظر مودی نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی ہے۔ بہار میں الیکشن نہ جیتا جا سکا۔ کچھ ادیبوں اور شاعروں نے انتہا پسند پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوارڈ واپس کیے۔ عیسائیوں کو ہدف بنایا گیا۔ برطانیہ میں مودی کو خفت اٹھانا پڑی۔ دنیا بھر میں نفرین ہوئی۔ اس کا ازالہ مودی نے اپنے طور پر یہ کیا کہ پاکستان کا رُخ کیا۔ اس کی وزارتِ خارجہ اس میں شامل نہ تھی۔ شامل نہ ہونے کا مطلب واضح ہے کہ اصل پالیسی وہی ہے جو چلی آ رہی ہے!
بھارت کے معاملے میں ہماری پالیسی کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے کچھ اور سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری وزارت خارجہ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ راولپنڈی کا اس میں کیا کردار ہے اور کتنا ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ان کے چہیتے پرنسپل سیکرٹری جب کار میں سوار ہو کر امرتسر گئے اور بھارتی سکیورٹی ایڈوائزر ڈکسٹ کو ملے تو پرنسپل سیکرٹری کے ہمراہ بھارتی سفیر تھا‘ دہلی میں متعین پاکستانی سفیر نہیں تھا!نہ ہی ہماری وزارتِ خارجہ اس سارے معاملے میں شامل تھی! تو پھر اس ذاتی اور شخصی رابطے کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا بھارت اور پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی ملاقاتیں جگہ پائیں گی؟ نہیں! شاید آدھی سطر کی جگہ بھی نہ پائیں‘اس لیے کہ اگر پاکستان میں وزارتِ خارجہ کو گھر کا کام کاج کرنے والی ماسی بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور پالیسی سازی کبھی راولپنڈی منتقل ہو جاتی ہے اور کبھی رائے ونڈ تو بھارت میں ایسا نہیں ہوتا!
جس ملک میں اڑسٹھ سال میں یہی نہ طے ہوا ہو کہ ملک کے بازار جمعہ کے دن چھٹی کریں گے یا اتوار کو، اور جمعہ یا اتوار کے دن شاپنگ کے لیے نکلتے وقت کسی بازار کے بارے میں یقین نہ ہو کہ بند ہو گا یا کھلا، اُس ملک میں خارجہ پالیسی کیا طے ہو گی اور کس طرح ہو گی؟ ہم آج تک یہی نہ طے کر پائے کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے تک ہمارے عمومی تعلقات بھارت کے ساتھ کیسے ہوں گے؟ ایک ماڈل چین کا ہے۔ تائیوان کو چین الگ ملک نہیں مانتا مگر سیاحتی، تجارتی، سفارتی اور ثقافتی تعلقات معمول کے مطابق چل رہے ہیں! ہم آج تک اس کنفیوژن کا شکار ہیں کہ تجارتی، سیاحتی اور ثقافتی تعلقات بھارت کے ساتھ معمول کے مطابق رکھیں یا نہ رکھیں۔ ضرورت پڑنے پر پیاز تک درآمد ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں غیر ریاستی(نان سٹیٹ) ایکٹر جذبات کو آسمان تک لے جاتے ہیں اور فضا میں جنگی ترانے گونج اُٹھتے ہیں!
مودی صاحب ایک بار نہیں، پچاس بار وزیر اعظم کے ذاتی محلات میں تشریف لائیں! پاکستانی مہمان کے آنے پر کبھی تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ مگر مودی کو معلوم ہے کہ اصل فیصلے وہ وفد کرے گا جو بھارتی وزارت خارجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے نمائندوں کو ملے گا! مودی تو جانتا ہے! کیا ہمارے وزیر اعظم کو بھی معلوم ہے؟

زمیں گردش میں ہے

$
0
0

’’کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
بہت سی باتیں پاکستانی عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر نے جو بیرون ملک قیام پذیر ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ پر اپنے پیغام میں اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کسی فرد یا ادارے کو اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیں گے۔ باہر بیٹھ کر وہ اتنا بڑا کام کیسے کر لیں گے؟ یہ بات عوام کی سمجھ سے باہر ہے! ’’شریک چیئرمین‘‘ کی اصطلاح بھی عوام کے لیے نئی ہے۔ اس سے پہلے سیاست میں یہ استعمال نہیں ہوئی۔ ہمارے کلچر میں ’’شریک‘‘ اتنا با عزت لفظ نہیں۔ خاندان برادری میں شریکوں کا کام عام طور پر حسد کرنا، کیڑے نکالنا، غیبت کرنا اور شادی کے کھانے پر اعتراضات کرنا ہے۔ ظفر اقبال کا پنجابی شعر ہے    ؎
اُسّی دے سب شہر شریکے، نالے پِنڈ گراں
ساڈا کی اے، اسی مرن نوں لبھدے پھردے تھاں
یہ اور بات کہ شریک چیئرمین، ’’تھاں لبھدے پھردے نہیں‘‘ وہ تو مشرق وسطیٰ کے قلب میں بیٹھے ہیں اور محل میں بیٹھے ہیں۔ معلوم نہیں کیا یہ وہی محل ہے جو مبینہ طور پر اُن کی بیگم صاحبہ نے خریدا تھا اور جس کے آنکھوں کو چندھیا دینے والے فوٹو سوشل میڈیا پر عام ہیں!
ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو اِس وقت دنیا کے بڑے بڑے شہروں پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ دبئی میں ہماری ایک بڑی سیاسی پارٹی کے شریک سربراہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ لندن ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ الطاف بھائی اس شہر کو عالمی شہرت بخشے ہوئے ہیں۔ کینیڈا(غالباً ٹورنٹو) میں ڈاکٹر طاہرالقادری مسلمانوں کی بیک وقت روحانی اور سیاسی قیادت کا حق ادا کر رہے ہیں! اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر اسفند یارولی خان کابل جا بیٹھیں، مولانا فضل الرحمن لیبیا یا عراق چلے جائیں اور ہمارے وزیر اعظم پورا دارالحکومت ہی جدہ منتقل کر دیں تو مزہ آ جائے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
لیبیا اور عراق گزرے ہوئے سنہری دنوں میں ہمارے مذہبی رہنمائوں کے نام منسوب تھے۔ مومنؔ یاد آ گیا  ؎
یادِ ایّام عشرتِ فانی
نہ وہ ہم ہیں نہ وہ تن آسانی
اپنے بیان میں جناب زرداری نے ایک بات کمال کی کی ہے! بات کیا کی ہے، بھارت کے چھکے چھڑا دیئے ہیں! فرمایا ہے کہ مقدس گائے کا نظریہ بھی بدترین کرپشن ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گائے کو مقدس کہاں سمجھا جاتا ہے۔ جو بھی بھارت سے ہو کر آتا ہے، شکایت کرتا ہے کہ گلیوں بازاروں میں ہر جگہ گئو ماتا کھلی پھر رہی ہے۔ اس کے گوبر اور پیشاب کو بھی تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ مسلمان ہمیشہ گائے کو ذبح کرنے کے جھوٹے یا سچے الزام پر زیر عتاب رہتے ہیں۔ اب تو یکے بعد دیگرے متعدد بھارتی ریاستیں گائے کو ذبح کرنے پر پابندیاں عاید کیے جا رہی ہیں۔ بھارت میں کرپشن عام ہے۔ تھانوں، کچہریوں، دفتروں میں ’’پرشاد‘‘ بانٹے بغیر کام نہیں ہوتا مگر جناب زرداری نے یہ کہہ کر کہ مقدس گائے کا نظریہ بدترین کرپشن ہے، بھارتیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
ہماری جناب سابق صدر سے گزارش ہے کہ یہ جو بھارت میں بندروں کو تقدیس عطا کی جاتی ہے، اس پر بھی اظہار خیال کریں اور ہندو مسلمان کی ثقافتی جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ کالم نگار جب آگرہ کے نواح میں اکبر بادشاہ کے مزار پر گیا تو بندروں کی فوج ظفر موج دیکھ کر حیران ہوا۔ ہمارے پسندیدہ شاعر جناب ظفر اقبال نے اس موضوع پر ’’ہے ہنومان‘‘ کے عنوان سے پورا شعری مجموعہ مختص کیا ہے۔ ان کے بے شمار شعر یاد ہیں مگر افسوس! اس مجموعے کا کوئی ایک شعر بھی اس وقت یادداشت کا ساتھ نہیں دے رہا۔
جہاں تک عوام کے نہ سمجھ سکنے کا تعلق ہے تو اس میں جناب آصف زرداری ہی نہیں، ہمارے دیگر رہنمائوں کے اسمائے گرامی بھی درمیان میں پڑتے ہیں۔ مثلاً عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اقتصادی راہداری کے مشرقی اور مغربی رُوٹ کو متنازع بنانے میں کون سی حکمت عملی کارفرما ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ راہداری پر ایک آواز ہو کر وفاق سے بات کریں گے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اسے گورکھ دھندہ بنایا گیا تو ایک اور کالا باغ ڈیم بن جائے گا۔ یعنی اصل کالا باغ ڈیم تو بن نہ پایا، ہاں اقتصادی راہداری ایک اور کالا باغ ڈیم بن جائے گی۔ کئی معروف کالم نگاروں کے بعد اب کے پی کے وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک نے بھی اعتراض کیا ہے کہ وزیر اعظم نے ژوب میں جس شاہراہ کا افتتاح کیا وہ راہداری منصوبے کا حصہ ہی نہیں! عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت آبیل مجھے مار اور ضرور مار کے مصداق، اس معاملے کو سنگین اور پیچیدہ کیوں بنا رہی ہے۔ جناب احسن اقبال نے کہ وزیر باتدبیر ہیں، یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ راہداری منصوبے کی اہمیت نیوکلیئر پروگرام جیسی ہے۔ گویا لطیف پیرائے میں انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح نیوکلیئر منصوبے کی تفصیلات منظرِ عام پر نہیں لائی جا سکتیں، اسی طرح راہداری کی تفصیلات بھی خفیہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تک سب سر مارتے رہیں کہ ژوب میں کس شاہراہ کا افتتاح ہوا، اور مغربی رُوٹ کتنی لائنوں پر مشتمل ہو گا۔ اصل صورتِ حال خفیہ ہی رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی جناب اعتزاز احسن کے اس بیان پر غور فرمائیے کہ وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی ہی غلطیوں سے نقصان اٹھاتے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ کب اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری مصور ہوتا تو تصویر بناتا جس میں وزیر اعظم کلہاڑی پکڑے کھڑے ہیں اور پوری قوم سانس روکے دیکھ رہی ہے کہ کس پائوں پر وار کرتے ہیں! آخر اس تاثر کو کیوں نہیں زائل کیا جا رہا کہ مغربی رُوٹ کی قربانی دے کر پنجاب کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صحافیوں اور سیاست دانوں کو بلا کر، ایک بار ہی یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کیا بدقسمتی ہے کہ جب بھی دودھ سامنے آتا ہے، اس میں مینگنیاں نظر آتی ہیں۔ ہم کسی بھی معاملے کو بخیروخوبی سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔ بھارت بھی ابتدائی شورو غوغا کے بعد راہداری کے سلسلے میں خاموش ہے اور اطمینان سے بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ اگر پاکستانی خود ہی اس سارے منصوبے کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو بھارت کو ایران کے ساتھ یا کسی اور ملک کے ساتھ مل کر، کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے!   ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہو تو یہ روزِ سیاہ
خود مرے گھر کے چراغاں نے دکھایا ہے مجھے
سیدھی سی بات ہے۔ چین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، وہ اگر پوری قوم کے سامنے نہیں رکھا جا سکتا تو کم از کم تشویش ظاہر کرنے والے سیاست دانوں اور صوبوں کے حکمرانوں کو تو دکھایا جا سکتا ہے۔ اسے اتنا خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے؟
جیسے یہ سارے مسائل کم نہ تھے کہ ایک اور وحشت اثر خبر قوم کو سنائی گئی۔ ڈاکٹر عاصم میں خودکشی کے رجحانات پائے گئے ہیں اور یہ کہ وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ گویا جس وقت وہ کروڑوں روپے روزانہ کا حساب کتاب کر رہے تھے، اس وقت نفسیاتی مریض نہیں تھے! اور کیا ڈاکٹر عاصم اس ملک کے پہلے نفسیاتی مریض ہیں؟ کبھی کبھار اس قسم کی خبریں چھپتی ہیں کہ ایک گداگر مرا تو اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر سے لاکھوں روپے ملے۔ وہ بھی تو نفسیاتی مریض ہی تھا۔ اگر جائیدادیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہوں، ان میں رہنے کا وقت ہو نہ موقع ملے، تجوریاں اور بینک اکائونٹ بھرے کے بھرے رہ جائیں اور مالک، ساری بدنامیاں سمیٹ کر صرف چند گز کفن اوڑھے قبر میں جا لیٹے تو ماہرینِ نفسیات اسے کیا نام دیں گے؟   ؎
زمیں گردش میں ہے اس پر مکاں رہتا نہیں ہے
مگر اس سے نہیں آگاہ وارث آہ میرے

از راہِ کرم اُونٹ سے پنگا نہ لیجیے

$
0
0
شامڈھلرہیتھی۔آخریکشتیگھاٹسےروانہہوچکیتھی۔
میراثیبھاگتابھاگتاگھاٹپرپہنچا۔اگراُسےآخریکشتینہملیاوراپنےگائوںنہپہنچسکاتوراتکہاںگزارےگا؟اُسنےکنارےپرکھڑےہوکرپوریقوتسےکشتیوالوںکوپکارا۔ہاتھلہرائے،پھرکندھےسےچادراتارکراسےہوامیںلہرایا۔بالآخرملاحکواُسپررحمآگیا۔کشتیوالوںنےبھیہمدردیکرتےہوئےکشتیکوواپسکرنےکامشورہدیا۔کشتیواپسگھاٹپرلگائیگئی۔میراثینےسوارہونےسےپہلےایکنظرمسافروںپرڈالی۔اچانکٹھٹھکگیا۔اُلٹےپائوںواپسہوااورکشتیمیںسوارہونےسےانکارکردیا۔
ملاحکےساتھمسافروںنےبھیاُسےبرابھلاکہا۔ابکیاہوسکتاتھا! میراثینےنہسوارہوناتھا،نہہوا۔کشتیدوبارہروانہہوگئی۔دریاکےعیندرمیانمیںپہنچیتوہچکولےکھانےلگی۔توازنبگڑگیا۔پھرپانیبھرنےلگا۔جواچھےتیراکتھے،پانیمیںکودپڑے۔باقیٹوٹےہوئےتختوںکےساتھچمٹگئے۔بہرطورکنارےپرواپسپہنچےتومیراثیریتپرآلتیپالتیمارےمسکرارہاتھا۔سباسسےپوچھنےلگےکہتمسوارنہیںہوئےاسکامطلبہےتمہیںمعلومتھاکشتیڈوبجائےگی۔بتائو،کیسےمعلومہوا۔میراثیہنسا۔کہنےلگاکشتیقریبآکررُکیاورمیںسوارہونےکےلیےآگےبڑھاتودیکھاکہکشتیکےمسافروںمیںایکبندراورایکاونٹبھیشاملتھا۔مجھےدواوردوچارکیطرحیقینہوگیاکہبندرنےشرارتسےبازنہیںآنا۔یہپھدککراونٹکیپشتپرسوارہوجائےگا۔پھراچھلکودشروعکردےگا۔کبھیاونٹکیگردنپرپنجےمارےگاکبھیاسکیدمسےلٹکنےکیکوششکرےگااورکبھیکوہانپربیٹھےگا۔اونٹکوغصہآئےگا۔وہجانچھڑانےکےلیےہاتھپائوںمارےگا۔جھلاکرکودےگا۔کشتیکاتوازنخرابہوجائےگا۔افراتفریمچےگی۔مسافراٹھکھڑےہوںگے۔اونٹمزیدخوفزدہہوکرپورےزورسےاچھلکودکرےگااورکشتیڈوبجائےگی!
پاکچیناقتصادیراہداریکیکشتیگھاٹسےروانہہوئیتوجاننےوالےجانگئےتھےکہاسپرپنجاببلوچستاناورکےپیکےاونٹاوربندرسوارہیں۔بندرنےشرارتسےبازنہیںآنااوراونٹنےاحتجاجکرناہیکرناہے۔ابکشتیکاتوازناسحدتکبگڑچکاہےکہدودنپہلےپشاورمیںہونےوالےاجلاسمیںمسلملیگنونسےتعلقرکھنےوالےگورنرنےبھیکےپیکےاونٹکاساتھدیا۔وفاقیوزیرکیکسییقیندہانیپرکسینےاعتبارنہکیا۔معاملہجہاںتھاوہیںرہا۔کےپیکےنمائندوںنےفنڈنگکےذرائع،وفاقیبجٹاورچینکےساتھہونےوالےمعاہدوںکیمکملتفصیلاتمانگیں۔اساجلاسکیجوخبریںموصولہوئیہیںانسےایکہینتیجہنکلتاہےکہوفاقیوزیرمعترضینکیتسلینہکرسکے۔مبینہطورپرانکیوضاحتیںاطمینانبخشنہتھیں۔پرنالہوہیںکاوہیںرہا۔ہاںاجلاسکےخاتمےکو’’باعزت‘‘ رنگدینےکےلیےگورنرکیتجویزپرمرکزکےساتھمعاملاتطےکرنےکےلیےکمیٹیتشکیلدےدیگئیجسمیںتمامپارٹیوںکےپارلیمانیلیڈروںکوشاملکرلیاگیا۔گویانشستندوگفتندوبرخاستندسےباتآگےنہبڑھسکی۔
وفاقیوزیرنےکہاہےکہانتیرہسوالوںکےجوابانہوںنےدےدیئےہیںجوکےپیکےوزیراعلیٰنےسرکاریمراسلےمیںاٹھائےتھے۔دوسریطرفوزیراعلیٰانجواباتکوناکافیقراردیتےہیں۔اسکاایکہیحلہے۔آنراکہحسابپاکاست،ازمحاسبہچہباک۔جواباتتسلیبخشہیںتووفاقیوزیرکوچاہیےکہیہتیرہسوالاتاورانکےجوابپریسکوجاریکردیں۔عوامخودہیجانلیںگےکہمرکزطفلتسلیاںدےرہاہےیاصوبہہٹدھرمیکررہاہے۔
عجیبوغریباورپراسرارمعاملہیہہےکہ 30 دسمبرکووزیراعظمنےجوافتتاحکیااسکےبارےمیںاُسوقتیہبتایاگیاکہیہژوبمغلکوٹہائیوے(این50) اورقلعہسیفاللہواگمہائیوے(این 70) کاافتتاحتھا۔ابپشاورمیںوفاقیوزیرنےاسضمنمیںیہوضاحتکیہےکہافتتاحتوکوئٹہاورگوادرکےدرمیاناُسحصےکاہواتھاجوخراببلکہغائبہے۔دلچسپباتیہہےکہژوباورمغلکوٹاُسشاہراہپرواقعہینہیںجوکوئٹہسےگوادرجاتیہے۔سوالیہہےکہاگریہافتتاحکوئٹہاورگوادرکےدرمیان Missing روڈکاتھاتویہباتاُسوقتکیوںنہبتائیگئی؟ہائیوےاورموٹروےکےفرقکےحوالےسےبھیصحافیوںنےکالملکھےاوروضاحتیںطلبکیں۔جنکاابھیتکوفاقیحکومتنےکوئیجوابنہیںدیا۔پھریہسوالبھیپوچھاجاناچاہیےکہ 35بلینڈالرکیسرمایہکاریچینیکمپنیوںنےپنجابہیمیںکیوںکی؟
اصولیطورپر،پشاورمیںمنعقدہاجلاسکیکارروائیپوریقومکودکھائیجانیچاہیےتھی۔وفاقیوزیرنےاُساجلاسمیںاپنایہمشہورمؤقفدہرایاکہ’’اگرپاکچیناقتصادیراہداریمنصوبےکومتنازعبنایاگیاتوآئندہنسلیںہمیںمعافنہیںکریںگی‘‘۔اسکاجواباےاینپیکےرہنماسردارحسینبابکنےوہیںدےکرحسابصافکردیاکہ’’اگرکسیصوبےیاعلاقےکاحقماراگیاتوآجکینسلنہیںبخشےگی‘‘۔اسپریہیکہاجاسکتاہےکہ   ؎
کسکایقینکیجیے،کسکایقیںنہکیجیے
لائےہیںبزمِنازسےیارخبرالگالگ
وفاقیوزیراگرمناسبسمجھیںتوآئندہنسلوںسےپہلے،موجودہنسلکومطمئنکرنےکیفکرکریں۔ابتککےمعاشیمسائلکاذمہدارتوتحریکانصافکےدھرنےکوٹھہرایاجاتارہاتھا۔یہجواقتصادیراہداریکےسلسلےمیںیُدھآنپڑاہے،اسکاذمہدارکسکوٹھہرایاجائےگا؟مکابازیکیمشقکرنےکےلیےایکغلافمیںگندمکےدانے،ریتاورچیتھڑےڈالکراُسےلٹکادیاجاتاہے۔مُکہبازاُسےاپنےمُکوںاورگھونسوںکاہدفبناتاہےاورتربیتکےمراحلطےکرتاہے۔اسےپنچنگبیگ
(Punching Bag) 
کہاجاتاہے۔دھرنےکےبعدتحریکِانصافکوپنچنگبیگبنالیاگیا۔جاپانمیںزلزلہآیایابرازیلمیںسیلاب،الزامدھرنےپردھراگیا۔وفاقیحکومتکےلیےابغیرخوشگوارصورتِحالیہآنپڑیہےکہاقتصادیراہداریکےجھگڑےمیںحکومتکےدیرینہسرپرستمولانافضلالرحمنسےلےکراےاینپیتکاورآفتابشیرپائوصاحبتکسبیکساںمؤقفرکھتےہیں۔ایکعامپاکستانیسوچتاہےکہجبیہسبیکزبانہوکرچیخرہےہیںکہمغربیروٹپرکوئیسمجھوتہنہیںہوسکتاتوکیایہسارےعقلکےکچےہیں؟یاکندذہنہیں؟یاکیاوفاقسےانکیدشمنیہے؟آخرانہیںمطمئنکیوںنہیںکیاجارہا؟آخرمسلملیگنونکےاپنےگورنر،وفاقیوزیرکیوضاحتوںسےکیوںمطمئننہیںہوئے؟

ازراہِکرمکشتیکوپارلگانےکیفکرکیجیے۔بندرکوباندھکررکھیے،اونٹکوآرامسےسفرکرنےدیجیے۔وفاقیحکومتعوامکوثالثبنائے۔کےپیکےاٹھائےگئےتیرہسوالاتاورانکےجواباتکوبرقعنہپہنائے۔جسشاہراہکاافتتاحوزیراعظمنےکیا،اُسکےبارےمیںمؤقفتبدیلنہکرےیاتبدیلیکیوضاحتکرےاورلگےہاتھوںقومکویہرازبھیبتادےکہچینیکمپنیاں 35 اربڈالرکیسرمایہکاریایکہیصوبےمیںکیوںکررہیہیں؟کیایہفیصلہانکمپنیوںنےکیاہےیاانسےکرایاگیاہے؟

تنی ہوئی رسّی

$
0
0
نہیں! ہر گز نہیں!
نہیں! حضور! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ہمیں تنی ہوئی رسّی پر چلنا ہو گا! ہمیں جذبات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ(تھیلے) ہر طرف اُڑتے پھرتے ہیں! شمالی علاقہ جات کا حُسن اِس گندگی کی وجہ سے زائل ہو رہا ہے۔ ہم ان تھیلوں کو، اِن اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز کو کام میں لائیں، ہم اپنے بے مہار، برافروختہ، جذبات کو اِن تھیلوں میں بند کر دیں اور تھیلے بند کمروں میں پھینک دیں۔ نہیں! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ایران کی طرف نہ عربوں کی طرف! پاکستان اگر قلعہ ہے تو اِس قلعے کی ہر صورت میں، ہر حال میں، حفاظت کرنا ہو گی! ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ کینیڈا کی طرح، سوئٹزر لینڈ کی طرح اور مسقط(عمان) کی طرح!
اس میں کیا شک ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے۔ ایران کبھی بھی وہ ماں نہیں بنی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی ہے۔ اس نے کبھی ہمارے منہ میں گھی شکر نہیں ڈالا۔ سارے گلے شکوے بجا ہیں۔ مگر یہ وقت گلوں، شکووں کا نہیں! یہ وقت زمینی حقیقتوں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ہے۔
پاکستان ترکی کا دوست ہے۔ اس دوستی کی جڑیں گہری ہیں۔ ترکی شاید ان ایک دو ملکوں میں سے ہے جہاں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ترکی اس وقت سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔  شیخ نمرالنمر کو پھانسی دینے پر ترکی نے برملا کہا ہے کہ یہ جزیرہ نمائے عرب کا اندرونی معاملہ ہے۔ مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے ترکی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے! مت بھولیے کہ ترکی اور ایران کا جھگڑا آج کا نہیں۔ اس کی تفصیل یہ کالم نگار اپنے کالم ’’پرانے شکاری نیا جال‘‘ کے عنوان سے بیان کر چکا جو اٹھارہ دسمبر 2015ء کو روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔
سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے۔ ہمارے حکمرانوں پر اپنی سرزمین تنگ ہوتی ہے تو وہ سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ سعودی عرب ہمارا دوسرا گھر ہے۔ ہمارا دوسرا وطن ہے۔ اُس سرزمین پر خدا کا وہ گھر ہے جو ہمارا پاسبان ہے اور جس کے ہم پاسبان ہیں۔ اُس دیارِ خوش آثار میں وہ سبزگنبد ہے جس کے تصور ہی سے ہماری آنکھیں وفورِ عقیدت میں بند ہونے لگتی ہیں۔ مدینتہ النبی کے گلی کوچوں میں ہمارے نبی اقدسؐ کے قدم پڑے۔ امام مالکؒ جیسے کتنے ہی بطلِ جلیل، زمین کا نمک، مدینہ کی گلیوں میں ننگے پیر چلتے رہے تا کہ بے ادبی نہ ہو۔ اُس سرزمین جنت نشان میں خدا کے اُس محبوب کی مبارک قبر ہے جس کی خاطرپندرہ صدیوں سے قافلے، زمین کے ہر گوشے سے، مدینہ کا رُخ کیے ہوئے ہیں اور قیامت تک جتنے مسلمان پیدا ہوں گے، اُس مبارک قبر کی طرف گامزن رہیں گے۔ حجازِ مقدس کا کیا ہی کہنا! درخت اُس کے آسمانی ہیں۔ چٹانیں اس کی سنہری ہیں۔ مٹی اس کی ہمارے لیے سرمہ ہے۔ کنکر اس کے ہمارے لیے ہیرے ہیں۔ زمزم اس کا ہمارے لیے آبِ حیات ہے۔ کھجور اس کی ہمارے لیے بہشتی میوہ ہے۔ پرندے اس کے ہمارے لیے ہما ہیں۔ وہاں حاضر ہونے کی آرزو ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ ہم تو وہاں مرنا اور دفن ہونا اپنے لیے کامرانی اور ظفریابی سمجھتے ہیں۔ وہاں مقام ابراہیم ہے۔ صفا اور مروہ ہے۔ حجرِ اسود ہے جو ہمارے لیے سنگ نہیں، سنگِ میل ہے۔ ملتزم ہے جس سے ہم چمٹ چمٹ جاتے ہیں! مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے جزیرہ نمائے عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے۔ مت بھولیے کہ عربوں اور ایرانیوں کا جھگڑا آج کا نہیں! یاد رکھیے کہ عجم سے، عرب ساری غیر عرب دنیا مراد لیتے ہیں مگر خاص طور پر ایران، ذہن میں رکھیے کہ ایرانی دربار تھا جہاں مٹی کے ٹوکرے عرب ایلچیوں کے سروں پر رکھے گئے اور واپس بھیجے گئے۔ عربوں 
نے ایران فتح کیا۔ یہ فتح ایران کے ذہن پر نہیں، دل پر نقش ہے! بنوامیہ کی سلطنت کے خلاف بغاوت کا پودا ایران کی سرزمین میں بویا گیا۔ وہیں اسے پانی دیا گیا، وہیں یہ تناور درخت بنا۔ پھر عباسی سلطنت آئی جسے برامکہ نے مضبوط کیا۔ کون برامکہ؟ جو بلخ کے آتش پرستوں میں سے تھے! مگر ہم! اللہ کے بندو! ہم عرب ہیں نہ ایرانی۔ نہ ترک! ہم پاکستانی ہیں۔ ہم نے اپنا گھر دیکھنا ہے۔ کھیل کود میدان میں اکٹھی، مگر ڈیرہ اپنا اپنا۔
ہمیں اپنے جغرافیائی محلِ وقوع پر غور کرنا ہو گا۔ مشرق میں بھارت ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں نہ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات قابلِ رشک ہیں۔ ایران کی سرحدیں مغربی سمت ہم سے گلے مل رہی ہیں! ہم اگر غیر جانب دار، مکمل غیر جانب دار نہ رہے تو ہمارے لیے بھارت اور ایران چکی کے دو پاٹ بن سکتے ہیں۔ ہم سینڈوچ ہو کر رہ جائیں گے۔ ہماری سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں نہ کسی عرب ملک سے۔ ہماری آبادی پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہم پہلے ہی عقیدوں، زبانوں، نسلوں اور قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونکے کھڑے ہیں! ہم عرب اور ایران 
کے اِس تنازعہ سے دور نہ رہے تو بکھر کر رہ جائیں گے۔ ہمیں ہر پاکستانی کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ایران ہماری ایک آنکھ ہے تو عرب دوسری آنکھ۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ مودی نے یو اے ای کو سفارتی محاذ پر اپنی جیب میں ڈالا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ کل بھارت ایران اتحاد ہمارے سینے پر مونگ دلنا شروع کر دے۔ خدانخواستہ، اللہ نہ کرے، ایسا ہوا تو ترکی کچھ کر سکے گا نہ مشرق وسطیٰ والے دوست! زبانی جمع خرچ ضرور کریں گے مگر اوکھلی میں سر تو پاکستانیوں کا ہو گا۔
سلطنتِ عثمانیہ کا اپنا ماضی ہے۔ عربوں کا اپنا ماضی ہے۔ پاکستان کا اپنا ماضی ہے! ہمایوں پر سُور کے افغانوں نے زمین تنگ کی تو وہ ایران گیا۔ شاہ طہماسپ نے اس کی پذیرائی کی۔ محل میں رکھا۔ خدام دیئے۔ سواریاں مہیا کیں۔ پھر اپنی فوج کے جوان دیئے جنہوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھے اور کابل اور پھر آگرہ اور دہلی واپس دلوانے میں معاونت کی۔ درست کہ شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو مسلک تبدیل کرنے کا کہا مگر ہمایوں نے انکار کر دیا۔ تو کیا پھر ایرانیوں نے اس کے باوجود مدد نہیں کی؟ اڑھائی تین سو سال تک ایران اور مغل سلطنت کی گاڑھی چھنتی رہی! اتنا قریبی ثقافتی، تجارتی اور معاشرتی ربط ایران کا کسی اور ملک سے نہیں رہا۔ صائب تبریزی سے لے کر، نظیری نیشاپوری تک، طالب آملی سے لے کر درجنوں نہیں، سینکڑوں اہلِ علم تک سب ایران سے چلے اور دہلی آ کر دم لیا۔ ان میں جرنیل بھی تھے اور تاجر بھی۔ رشتے ہوئے۔ برادریاں تشکیل ہوئیں۔ پھر مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا۔ حیدر آباد اور لکھنؤ سامنے آئے۔ ایران سے آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ حیدر آباد میں ایرانی گلی آج بھی موجود ہے اور آباد ہے۔ فارسی زبان و ادب پر ہمارا ملکیتی حق ہے۔ ایرانیوں نے، ہمارے ساتھ ثقافت کے میدان میں وہ سلوک نہیں کیا جو عرب کرتے ہیں۔ کسی مجلس میں پاکستانی کہہ اٹھے کہ ہم نے سپین فتح کیا تھا۔  عرب اُٹھ کر اُن کے پاس آئے اور کہا تم نے نہیں، ہم عربوں نے فتح کیا تھا! ایرانیوں نے ہمارے خسرو سے لے کر ہمارے بیدل تک، ہمارے غالب سے لے کر ہمارے اقبال تک سب کو تسلیم کیا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ نصابوں میں شامل کیا۔ ایرانیوں کی تیار کردہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ خسرو بھی موجود ہے، بیدل بھی، فیضی بھی اور اقبال لاہوری بھی! اقبال لاہوری پر وہ جان چھڑکتے ہیں!
قندھار ایک عرصہ تک ایران کے صفویوں اور ہندوستان کے مغلوں کے درمیان باعثِ نزاع رہا۔ 1605ء میں اکبر کی آنکھ بند ہوئی۔ ہرات کے ایرانی گورنر حسین خان نے قندھار پر چڑھائی کر دی۔ شاہ عباس نے جہانگیر کو خط لکھا اور حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ قندھار مغلوں کے پاس ہی رہا۔ 1622ء میں ایرانیوں نے قندھار پر حملہ کیا۔ جہانگیر نے شاہ جہان کو حکم دیا کہ جا کر دفاع کرے۔ شہزادے نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ اس کی نظر جانشینی پر تھی۔ قندھار چلا گیا مگر جہانگیر نے اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا۔ ایلچی بھیجا۔ ایرانیوں کا قبضہ تسلیم کیا اور تعلقات معمول کے رکھے!
تاریخ قصہ گوئی نہیں! سبق ہے جو سیکھنا ہو گا! ہمارا ماضی ترکوں اور عربوں کا ماضی نہیں۔ ہمارا اپنا ہے اور مختلف ہے۔
یہ تنی ہوئی رسّی ہے جس پر ہمیں چلنا ہے۔ غیر جانب داری کے ساتھ! ہم آبگینہ ہیں۔ جسے پہلے ہی ٹھیس لگ چکی ہے، مزید برداشت نہیں کر پائیں گے! دوسروں کا نہیں، اپنا گھر دیکھیے! معاملات حساس ہیں! پلڑے کو کسی ایک طرف نہ جھکنے دیجیے   ؎
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے!

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ

$
0
0
ان میں سے اکثر نے عمران خان کو دیکھا‘ نہ کبھی ملے۔
ان کی جیبوں میں دنیا کے بہترین ملکوں کے پاسپورٹ ہیں۔ ان ملکوں میں سکیورٹی ہے۔عزتِ نفس ہے۔ پولیس ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ آگے بڑھنے کے لیے سفارش درکار ہے نہ خوشامد! رہنے کے لیے صاف ستھرے‘ دیدہ زیب شہر، میلوں ڈھونڈ لیجیے کوڑا کرکٹ نظر نہ آئے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ نوجوان اس فکر میں غلطاں ہیں کہ آبائی ملک کی قسمت بدلے اور اس غم میں پریشان کہ خود غرضی ملک کو نوچے جا رہی ہے۔ بحرالکاہل کے مشرقی کنارے آباد وینکوور سے لے کر، کرۂ ارض کے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ان نوجوانوں کو تحریک انصاف کی روشنی کے سوا اُفق پر کچھ نہیں دکھائی دیتا! جس ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا صدر ملک سے باہر پڑائو ڈالے ہو، اس کی زندگی کا مقصد کرپشن کے مقدمات کو ہوا میں اڑانا اور ڈاکٹر عاصموں اور ایانوں کو بچانا ہو اور دوسری پارٹی پر قابض خاندان اپنے بزنس کو فوقیت دیتا ہو، وہاں اگر ان تارکینِ وطن کو عمران خان کے سوا روشنی کی اور کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو کیا کریں؟ دو دن پہلے ہی ایک کالم نگار نے خبر دی ہے کہ سرکاری دوروں میں اعزہ و اقربا ساتھ ہوتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ شوگر مافیا، اقتدار کے کاندھے پر سوار، بزنس ایمپائر کو ’’برآمد‘‘ کرنے میں لگا ہے۔
میلبورن سے پرتھ کا سفر عناصر کی بے تاج بادشاہی دکھا رہا تھا۔ زمین کا جنوبی کنارہ، پانیوں پہاڑوں اور ریگستانوں کی حکمرانی! جہاں انسان بے کنار وسعتیں دیکھ کر پروردگار کی قوتِ تخلیق پر حیران ہوتا ہے۔ برسوں پہلے کا صومالیہ کا سفر یاد آ گیا۔ اُن دنوں ہمارے عساکر، اقوامِ متحدہ کی طرف سے صومالیہ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مزدوری کی نوعیت ایسی تھی کہ جانا پڑا۔ سی ون تھرٹی جہاز نو گھنٹے اڑتا رہا۔ جھاگ اور ریت کی کائناتیں! کہیں دلدلیں تو کہیں بادلوں کو چیرتے کہستانوں کے نوکیلے کنارے! اور موگادیشو کیا تھا! جھونپڑیوں اور کچے پکے کوٹھوں پر مشتمل ایک بڑا گائوں!
پرتھ ااور میلبورن کے وقت میں تین گھنٹوں کا فرق ہے! بادل نیچے تھے اور اڑن کھٹولا اُوپر، ہوا میں اڑتے قالین پر شعر یاد آتے رہے   ؎
ہوا میں تخت اڑتا آ رہا ہے اُس پری رُوکا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
کہیں دُور سے اُڑ کر اک غالیچہ آتا ہے
یا شہزادہ یا لال پری، کوئی آئے گا!
پرتھ پہلے بھی دو بار جانا ہوا مگر اِس بار نوجوانوں سے گفتگو کر کے شکیب جلالی یاد آ گیا   ؎
یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
معین ارشد‘ عمر شیخ اور عثمان سے تو ایک عرصہ سے رابطہ تھا، عمیر چوہدری سے بھی ملاقات ہوئی جو انتہائی متحرک نوجوان ہے۔ یہ نوجوان پاکستانیوں کے ایک بڑے اور مؤثر گروہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں او رتنظیمی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے طفیل انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کر رکھا ہے۔ یہ نوجوان مضطرب ہیں، بے چین ہیں۔ ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ آنکھیں اُس پاکستان کو دیکھنا چاہتی ہیں جہاں احتساب ہو اور بے لاگ ہو۔ یہ اُس نظام کو لانا چاہتے ہیں جس میں نوجوان ملک سے ہجرت نہ کریں بلکہ بیرونِ ملک سے وطن واپس آئیں۔ تحریکِ انصاف سے اور عمران خان سے ان کی رشتہ داری ہے نہ کوئی غرض! انہوں نے عہدے لینے ہیں نہ الیکشن لڑنے ہیں۔ انہیں صرف یہ لگن ہے کہ وہ اور ان کے بچے ترقی یافتہ ملکوں کے جس ماحول میں رہ رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو ملک کے اندر وہی ماحول ملے۔ان کی گفتگو میں تلخی بھی تھی اور شکوے بھی، وزیرستان کے حضرت حسین نے قبائلی علاقوں کے جو آنکھوں دیکھے واقعات سنائے، افسوسناک تھے! جس بے رحمی سے ملک کے وسائل ایک چھوٹا سا طبقہ لوٹ رہا ہے، وہ اِن نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک حقیقت ہے۔ پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ خاندان کیا ہیں؟ کوئی بزنس مافیا ہے، 
کوئی صنعت کاری کی سلطنت ہے، کچھ مذہب کو استعمال کر کے بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمران خان میں ان نوجوانوں کو امید نظر آ رہی ہے۔ کے پی میں، ان کے بقول، تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان پر اقربا پروری کا الزام نہیں لگ سکتا۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ختم ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر صوبہ رُول آف لا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ رُول آف لا پورے ملک پر سایہ فگن کیوں نہیں ہو رہا؟
ان نوجوانوں کو پاکستانی میڈیا سے بہت زیادہ شکوے ہیں۔ معصوم اور سادہ دل لوگ میڈیا کو فرشتہ خصلت سمجھ بیٹھے ہیں اور پھر جب توقعات کو ٹھیس لگے تو رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جس معاشرے میں اہل سیاست سے لے کر اہلِ مذہب تک، ڈاکٹروں سے لے کر وکیلوں تک اور تاجروں سے لے کر عام لوگوں تک، سب خود غرضی کے سمندر میں ڈوب رہے ہوں، وہاں صرف میڈیا معصوم نہیں ہو سکتا کہ میڈیا بھی اُسی معاشرے کا حصہ ہے، اس کے باوجود میڈیا، سر ہتھیلی پر رکھے، جو کچھ اس کے بس میں ہے، اُس سے زیادہ ہی کر رہا ہے! میڈیا ہی کرپشن کے سکینڈل بے نقاب کر رہا ہے اور پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کے دوسرے گروہوں کا مؤقف عوام تک پہنچا رہا ہے!
عمیر چوہدری نے ایک شام اُن اصحاب کو جمع کیا جو نوجوان تھے لیکن ماضی قریب میں! ان سابق نوجوانوں میں بھی تحریکِ انصاف کے لیے جوش و خروش اتنا ہی تھا، جتنا ’’حاضر سروس‘‘ نوجوانوں میں! مسعود محمود خان، اقبال خان، نذر خان اور دوسرے احباب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ قابل رشک معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر ساتھ ساتھ ملک کے لیے فکر بھی کر رہے ہیں اور حتی المقدور فلاحی اور تنظیمی میدانوں میں جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ اِن ترقی یافتہ ملکوں میں جب پاکستانی دیکھتے ہیں کہ کوئی مزدوری مزدوری نہیں اور معاشرے میں ہر شخص کو، خواہ وہ بس ڈرائیور ہے یا سکیورٹی کا کام کر رہا ہے یا چوٹی کا سرجن ہے یا چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے، یکساں حرمت و مقام حاصل ہے تو وہ کڑھتے ہیں کہ ایسا اپنے ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا! پاکستانی بچے کب تک ریستورانوں میں برتن مانجھتے رہیں گے۔ ورکشاپوں میں کب تک ہاتھ کالے کرتے رہیں گے اور ننھے ننھے ہاتھوں سے کب تک جوتے پالش کرتے رہیں گے؟ صبح تو آنی ہے مگر کب آئے گی؟  ع
اے زہرِ غم یار! بہت ہو چکی ‘بس بھی!
میلبورن میں نوجوان کاشف بونس
 اپنی ذات میں پورا ادارہ ہے! اس نے پہلے تو پاکستانی طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ اب اس تنظیم کے ارکان کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ پھر اس نے ’’شاہین‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی جو مسلمان نوجوانوں کو بالعموم اور پاکستانی نوجوانوں کو بالخصوص کھیلوں کے میدان میں آسٹریلیا کے مقامی نوجوانوں کی سطح پر لا کھڑا کر رہی ہے۔ وکٹوریہ صوبے کی حکومت بھی اُس کی اِس مساعی کو تسلیم کرتی ہے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسیم جان، ملک راشد علی اور کئی اور نوجوان معاشی ذمہ داریوں سے وقت نکال کر کمیونٹی کے لیے اور پاکستان کے لیے دردمندی اور دلسوزی سے مصروفِ عمل ہیں۔ 
تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کی پرانی سیاست گری سے تنگ آ چکی ہے۔ جہاں بینی اور دشت نوردی نے اِن تارکین وطن کے اذہان کو وسیع کر دیا ہے یہ جان چکے ہیں کہ جاگیرداروں اور سیاسی جماعتوں پر قابض صنعت کاروں اور تاجروں نے جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ تارکین وطن اپنے ملک میں ووٹ کا حق مانگتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان کے اہلِ اختیار ان تارکین وطن کو یہ حق دیں گے! نہیں! ان کی پوری کوشش ہے کہ اس حق کے راستے میں کوئی نہ کوئی دیوار کھڑی کرتے رہیں۔ کبھی عدلیہ کی! کبھی نوکرشاہی کی اور کبھی کسی اور عذرِ لنگ کی! ان کا اپنا مفاد ہو تو غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو ملک کے اعلیٰ ترین آئینی مناصب پر بٹھا دیتے ہیں مگر تارکین وطن کو یہ ووٹ کا حق نہیں دیتے اس لیے کہ تارکین وطن ان کی سفارشوں اور کرم فرمائیوں کے محتاج نہیں۔ انہیں ترقی اور تبادلوں کے لیے سیاست دانوں کے رُقعے درکار نہیں نہ ٹیلی فون، یہ لوگ ووٹ میرٹ کی بنیاد پر دیں گے۔ انہیں اگر ایان علی سے نفرت ہے تو گلوبٹ سے بھی محبت نہیں! 
پردیس میں رہنے والے یہ دردمند پاکستانی مایوس نہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مستقبل کے گلدستے ہیں! یہ اُس صبح کے منتظر ہیں جب وہ اپنے ملک میں واپس آبسیں گے مگر اُس وقت جب شاہراہوں پر شاہی سواریوں کے لیے شہریوں کو غلاموں کی طرح کھڑا کرنے کی قبیح رسم ختم ہو چکی ہو گی۔ جب ایوانِ وزیر اعظم سے ہیلی پیڈ تک چند فرلانگ کی سڑک پر کروڑوں روپے نہیں جھونکے جائیں گے۔ وہ وقت آئے گا ۔ضرور آئے گا! وقت کے پہیے کو اُلٹا نہیں چلایا جا سکتا۔ دریا نشیب کی طرف بہتا ہے ۔چند خاندانوں کا گٹھ جوڑ، پانی کو واپس بلندی کی طرح نہیں لے جا سکتا  ؎
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے

پروفائل

$
0
0
ٹرین کراچی سے روانہ ہوئی، ہم دو تھے، دونوں رفقائے کار(کولیگ) اور دوست بھی! غالباً لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کوئی سٹیشن تھا۔ شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنا بستر کھول رہی تھی۔ رفیقِ کار نے کہا ’’تم بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں کچھ توجہ کتاب پر مرکوز کرتا جو جھولی میں کھلی پڑی تھی اور کچھ پلیٹ فارم کی چہل پہل دیکھتا۔ اچانک خیال آیا کہ باہر نکلوں اور ٹانگیں سیدھی کروں جو بیٹھے بیٹھے اکڑ سی گئی تھیں۔ ٹہلتے ٹہلتے کیا دیکھتا ہوں کہ ہم سفر ایک سٹال پر کھڑا کھانا کھا رہا ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس کی پشت میری طرف تھی۔ جو بات نوٹ کرنے والی تھی یہ تھی کہ وہ ایک حیرت انگیز سرعت کے ساتھ کھا رہا تھا۔ میں الٹے پائوں واپس آ کر نشست پر بیٹھ گیا۔ ٹرین نے وسل دی تو وہ واپس آیا۔ اُس نے ذکر کیا نہ ہی میں نے آنے والے تین عشروں کی رفاقتِ کار کے دوران جتایا، تا ہم اُسی وقت اُس کا ایک پروفائل ذہن میں بن گیا۔ گھر کی اٹھان اچھی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔ جو تنگ دل نہ ہو وہ کہتا ہے اٹھو یار کچھ کھا پی لیں، یا سٹال سے کھانا لے آتا ہے۔ جبھی تو فرمایا گیا کہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ محمد اسد اسلام قبول کرنے کی داستان میں لکھتے ہیں کہ فلسطین میں سفر کر رہے تھے۔ ریل رُکی تو سامنے بیٹھا ہوا بدو پلیٹ فارم سے روٹی لے کر آیا۔ اس کے دو حصے کیے۔ ایک محمد اسد کو پیش کیا۔ یورپ کے رہنے والے اسد کے لیے یہ رویہ نیا اور عجیب تھا۔ لینے میں ہچکچاہٹ کی تو بدو نے کہا تم بھی مسافر ہو، میں بھی، تو تردد کیسا؟ یہ پہلا دروازہ تھا جو اسد کے دل میں عربوں کی طرف، یا یوں کہیے کہ اسلام کی طرف کھلا!
رفیقِ کار کا پروفائل اس واقعہ سے ذہن میں خود بخود بن گیا۔ رفاقتِ کار کے اگلے تین عشرے اس پروفائل کی تصدیق کرتے رہے۔ کھانا ہمیشہ اس قدر سرعت سے کھاتے کہ یا وحشت! ماتحتوں کو نوکری سے نکال کر فاتحانہ مسرت محسوس کرتے۔ یہاں صرف اِن دو پہلوئوں کا ذکر ہی کافی ہے!(باقی زیر تعمیر خود نوشت میں!!) تو پھر کیا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ مزاج، شخصیت اٹھان، تربیت، فیملی بیک گرائونڈ، جینز
(Genes)
، یہ سب کچھ ظاہر سے نہیں معلوم کیے جا سکتے۔ خوش قامتی، خوش لباسی، چہرے کی معصومیت، دل کشی، بجا، مگر یہ تو معاملات ہیں جو اٹھان، تربیت، خاندانی پس منظر اور جینز کی اصل حقیقت واشگاف کرتے ہیں۔ مجبوری میں بھی دستِ سوال دراز کرنے میں ہچکچاہٹ، ملازموں کے خورونوش کا خیال، ماتحتوں پر اتنی ہی شفقت جتنا اوپر والوں کا احترام، مری کے رہنے والے خاندانی پس منظر کا بیان کرتے وقت کہا کرتے ہیں کہ سیب کے درخت پر سیب ہی لگیں گے۔ فردوسی نے محمود غزنوی پر یہی تو طنز کیا تھا    ؎
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بزانو بُدی
بادشاہ کی ماں اچھے خاندان کی ہوتی تو بادشاہ مجھے اس قدر نوازتا کہ سیم و زر گھٹنوں تک ہوتا!
تخت و تاج اور لباسِ فاخرہ کا تہذیب اور شائستگی سے کیا تعلق؟ سقراط کے سامنے ایک شخص، خوبرو، خوش لباس، اتراتا ہوا آیا تو سقراط نے کہا کچھ بولیے تا کہ آپ کی قابلیت معلوم ہو۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ پطرس بخاری نے کیا کہا تھا۔ پطرس دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ ایک صاحب آئے پطرس نے اوپر نگاہ کیے بغیر کہا تشریف رکھیے، ملاقاتی نے کہا ’’میں ایم این اے ہوں‘‘ پطرس کام کرتے رہے اور کہا: ’’تو پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیے‘‘!
گفتگو کی سواری دوسری سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہار کھینچتے ہیں اور اصل موضوع کو پلٹتے ہیں۔ پروفائل ملکوں کا اور قوموں کا بھی بنتا ہے۔ ظاہری حسن، بڑے بڑے منصوبے، دمکتی وسیع شاہراہیں، ساحلوں پر جلوہ افروز محلات، نہروں کے کنارے خوش نما وسیع رہائش گاہیں، حکمرانوں کا تزک و احتشام۔ یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود، قوم کی ذہنی پختگی، ملک کی ترقی، اِس ظاہر پر انحصار نہیں کرتی! جدہ، رباط، قاہرہ، دوحہ، تاشقند، اشک آباد، لاہور اور کراچی کے محلات قابل رشک ہیں۔ ایسے کہ اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کیا، ملکہ الزبتھ کے نصیب میں بھی نہیں، مگر ان میں سے کسی ایک ملک میں بھی رول آف لا ہے نہ فرد کی عزت یقینی ہے۔
ہمارے ملک کا پروفائل کیسا ہے؟ عالی قدر ہے یا اسفل؟ بلند مرتبہ ہے یا پست؟ آسمان کی طرف جا رہا ہے یا کھائی کی طرف؟ چہرہ تابناک ہے یا اس پر نحوست صاف دکھائی دے رہی ہے؟ گزشتہ ہفتے ہمارا ملکی پروفائل لاہور میں ایک بار پھر منظرِ عام پر آ گیا۔ ہمارے سربراہِ حکومت کے صاحبزادے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرونِ ملک سے لاہور پہنچے۔ وی آئی پی لائونج کے راستے لفٹ میں داخل ہوئے تو بجلی بند ہو گئی۔ لفٹ جہاں تھی، وہیں رک گئی۔ آپ کا کیا خیال ہے شہزادے کو کتنی دیر لفٹ میں رکنا پڑا؟ گھنٹہ؟ آدھا گھنٹہ؟ نہیں، پانچ منٹ نصف جس کے اڑھائی منٹ ہوتے ہیں! پھر کیا ہوا؟ سول ایوی ایشن حکام کی، اخباری زبان میں، دوڑیں لگ گئیں۔ کچھ جنریٹروں کی طرف لپکے، کچھ نے یو پی ایس کے گوڈے گٹے پکڑے، لفٹ چلائی گئی، صاحبزادے اور اہلِ خانہ باہر نکلے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اُس کے بعد تین واقعات رونما ہوئے۔ اول، صاحبزادے نے موقع پر عملہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ دوم، مشیر برائے ہوا بازی نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ سوم، اس واقعہ پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
اب یہاں ایک عام شہری کے پست اور تخریبی ذہن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ اول، صاحبزادے نے عملے پر شدید برہمی کا اظہار کس حیثیت سے کیا؟ اُن کے پاس سرکاری عہدہ ہے نہ سیاسی منصب۔ وہ ایک شہری ہیں، کیا کوئی اور شہری برہمی کا اور وہ بھی شدید برہمی کا اظہار کر سکتاہے؟ دوم، بجلی بند ہونے کی ذمہ داری ایئر پورٹ کے افسروں یا کارکنوں پر کیسے عاید کی جا سکتی ہے؟ برہمی کا نشانہ انہیں بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ صاحبزادے کو اس برہمی کا اظہار اپنے بزرگوں پر کرنا چاہیے تھے جو تین دہائیوں سے صوبے پر حکمرانی کر رہے ہیں، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کی قدرت رکھتے رہے ہیں اور اب بھی یہ قدرت ان کے پاس ہے۔ اس طویل عرصہ میں وہ اتنا بھی نہیں کر سکے کہ کم از کم ایئر پورٹوں، ہسپتالوں، ریلوے سٹیشنوں اور تعلیمی اداروں میں برقی رو کا تعطل نہ ہونے پائے۔ سوم، عوام اس صورت حال سے ہر روز کئی بار گزرتے ہیں۔ کاش! صاحبزادے کو شعری ذوق ہوتا کہ بقول میرؔ   ؎
اس سے راہِ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا ترا شعار اے کاش!
تو عوام ان کی خدمت میں ڈرتے ڈرتے عرض کرتے    ؎
اے شمع! تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
چہارم، اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بجلی بند ہونے سے ڈیڑھ گھنٹہ تک کام متاثر ہوتا رہا اس دوران جنریٹر بھی نہ چلے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ تین پروازوں کے مسافر سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے! کیا مشیر ہوا بازی نے اس کی بھی رپورٹ طلب کی؟ اور کیا اس حوالے سے بھی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی؟ نہیں! یقینا نہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تہذیب سے دور ہیں۔ مہذب وہ نہیں ہوتا جو امیر ہو، مہذب وہ ہوتا ہے جو قانون کا پابند ہو۔ خواہ وہ فرد ہو یا قوم یا ملک! لاکھوں کروڑوں مسلمان، سروں پر بستر اور کاندھوں پر پوٹلیاں رکھے جن ملکوں کی طرف قافلہ در قافلہ، ہجرت کر رہے ہیں، ان ملکوں کے پروفائل میں ذرائع روزگار کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ قانون کی حکمرانی ہے، رول آف لا ہے۔ ان ملکوں میں سربراہ حکومت یا سربراہِ ریاست کا صاحبزادہ عملے پر برہمی جھاڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا! وی آئی پی لائونج اگر ہو بھی تو، استعمال کرنے کا مجاز نہیں۔ ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر وی آئی پی لائونج، ایئر لائنوں کے ہیں۔ آپ کے پاس بزنس کلاس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ ہے تو استعمال کر سکتے ہیں۔ یا قیمت ادا کیجیے اور لائونج استعمال کیجیے۔ ان ملکوں میں مشیر اور وزیر، رپورٹ اس لیے طلب کرتے ہیں اور ان ملکوں میں انکوائری کمیٹیاں اس لیے تشکیل پاتی ہیں کہ عوام کو کیوں زحمت اٹھانا پڑی؟ تین پروازیں تاخیر کا کیوں شکار ہوئیں؟ ان 
ملکوں میں، ایسا ہو جائے تو مسافروں سے معذرت کی جاتی ہے۔ جاپان میں ٹرین تین منٹ تاخیر سے پہنچی تو ایک ایک مسافر سے فرداً فرداً معافی مانگی گئی۔ یہ ہے تہذیب! یہ ہے شائستگی! یہ ہے پروفائل کی تابناکی! شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتوں میں اور پاکستان کے مقتدر خاندانوں کی بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سندھ میں شاہی خاندان کی صاحبزادیاں ووٹ ڈالنے نکلتی ہیں تو پروٹوکول عروج پر ہوتا ہے۔ راستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کے میلوں لمبے قافلے جلال و جمال دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بلیاں جہازوں پر سوار ہیں۔ ان کے لیے گاڑیاں الگ مخصوص ہیں۔ پنجاب میں پانچ منٹ لفٹ میں رہنا پڑا تو غلام ہر طرف بھاگنے لگ گئے اور یوں لگا جیسے صحرا میں اچانک بگولوں کا رقص شروع ہو جائے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور جمہوریت ہے تو احمق ہے ، گائودی ہے۔ جمہوریت آپ کے قریب ہے، بس اگلے موڑ پر رکی کھڑی ہے۔ ان خاندانی بادشاہتوں سے جان چھڑائیے تو جمہوریت آگے بڑھے۔ پروفائل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں جھانکا جا سکتا ہے۔ یہ پروفائل ہی تو تھا جس کی بنیاد پر عقل مندوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اقتصادی راہداری میں ضرور رخنہ اندازی ہو گی، گند پڑے گا، سو پڑا۔ جب استاد بچے کو کہتا ہے کہ تم امتحان میں پٹ جائو گے تو اس کے سامنے بچے کا پروفائل ہوتا ہے ورنہ اسے طالب علم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں پروفائل تھیوری سے بڑے بڑے سیریل قاتل پکڑے جا رہے ہیں۔ مجرم کا پروفائل تیار کیا جاتا ہے۔ وہ پروفائل جس پر منطبق ہو جائے، وہ پکڑا جاتا ہے۔ آپ ایمرجنسی میں جن چند مخصوص دوستوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں، ان کا پروفائل آپ کے ذہن میں ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہنچ جائیں گے۔ جن سے آپ رابطہ نہیں کرتے، ان کا پروفائل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے، رابطہ نہ کیجیے۔!
ہمارا موجودہ ملکی پروفائل بتا رہا ہے کہ صاحبزادوں اور صاحبزادیوں پر مشتمل ایک اقلیت اس ملک سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ عوام ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پروفائل تبدیل کرو! اللہ کے بندو! ملک کا پروفائل بدلو۔ اس سے پہلے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کی تیسری نسل تمہاری گردنوں پر سوار ہو جائے!

صحرا میں اذان دے رہا ہوں

$
0
0
سال 1951ء کا تھا۔ پارلیمنٹ مصر کی تھی۔ حکومت شاہ فاروق کی تھی۔ وزارت تعلیم اُس ڈاکٹرطٰہٰ حسین کے پاس تھی جو بچپن میں ایک ڈاکٹر کی نا اہلی کی وجہ سے بصارت کھو بیٹھا تھا۔ جس نے فرانس سے پی ایچ ڈی کی اور تاریخ پر اور عربی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر درجنوں نہیں بیسیوں کتابیں تصنیف کیں۔
اُس دن ڈاکٹرطٰہٰ حسین پارلیمنٹ میں آیا اور تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اُس نے ایوان کو بتایا کہ ایک کاغذ اس کے کوٹ کی دائیں جیب میں ہے اور ایک کاغذ اس کے کوٹ کی بائیں جیب میں ہے۔ اس نے ایوان کے ارکان کو حق دیا کہ وہ چاہیں تو دائیں جیب والا کاغذ منظور کر لیں اور چاہیں تو بائیں جیب والا کاغذ پسند کر لیں۔ دائیں جیب والے کاغذ پر تجویز تھی کہ مصر میں پرائمری تعلیم مفت کر دی جائے۔ بائیں جیب میں اس کا استعفیٰ تھا۔ ایوان نے مفت پرائمری تعلیم کی تجویز منظور کر لی۔ آنے والے وقت میں اسے میٹرک تک بڑھا دیا گیا۔ نابیناطٰہٰ حسین نے قرآن پاک پڑھانے والے مدارس کو پرائمری تعلیم کا کام بھی سونپ دیا۔ سکولوں کو کالج اور کالجوں کو یونیورسٹیاں بنایا۔ کئی نئی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ آج مصریوں کی اکثریت کو جانے معلوم ہے یا نہیں کہ طٰہٰ حسین نے ستر سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں مگر مصری یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہر مصری بچہ بستہ اٹھائے سکول جا رہا ہے توطٰہٰ حسین کی وجہ سے جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بیان کے مطابق پرائمری سکول جانے والی لڑکیوں کا تناسب اس وقت 99.2 فیصد ہے۔ 98.9 فیصد بچے اور بچیاں پرائمری سکول کے آخری درجے تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو جا تی ہیں۔ 71 فیصد بچے اور بچیاں سکینڈری سکول کی تعلیم مکمل کر رہے ہیں!
مصریوں کو یہ سہولت تھی کہ ان کے ملک نے انگریزی زبان کا ہیٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہمارے ہاں یقینا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ لاکھوں بچے پرائمری سکولوں میں نہیں جا رہے۔ پتیلے اور دیگچیاں مانجھ رہے ہیں۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹے کپڑے اور ہاتھ کالے کر رہے ہیں یا گھروں میں صاحبوں اور بیگمات کی جھڑکیاں اور بعض اوقات تشدد سہہ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بڑا ضرور ہے مگر بنیادی نہیں! اصل مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کی پوٹلی قوم کے کاندھے سے کیسے اتار جائے؟
اس کا حل یہ نہیں کہ سپریم کورٹ یا حکومت کہہ دے کہ کل سے اردو زبان کا نفاذ ہو جائے یا ہو جائے گا۔ فرمایا تو قائد اعظم نے بھی تھا کہ ملک کی زبان اردو ہو گی۔ مگر کیا ان کے کہنے سے ہو گئی؟ نہیں! اس لیے کہ بیورو کریسی حائل ہے اور بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے والے سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے نہ بیورو کریسی کے حربوں کا مقابلہ کر سکتی ہے! ریاست یا حکومت کے سربراہ کے اردو میں تقریر کرنے پر بغلیں بجانے والے سادہ دل اردو دوست یہ نہیں جانتے کہ اردو کے نفاذ کا مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت کے دفتروں اور خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں فائلوں پر سارا کام اردو میں کرنا ہے۔ اس کام کی نزاکتوں اور باریکیوں سے وزیر اعظم آشنا ہیں نہ ان کے وزراء۔ نتیجہ یہ ہے کہ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر اردو کے نفاذ کا جو غلغلہ برپا ہوا تھا، وہ حکومتی ناواقفیت اور بیورو کریسی کی لاپروائی کی دھول میں گم ہو چکا ہے! ہوا میں اڑتے ہوئے مٹی کے چند ذرات کے سوا پیش منظر پر کچھ بھی نہیں نظر آ رہا!
ہمارے محترم دوست اور سینئر جناب عرفان صدیقی کی قلمرو گزشتہ ہفتے وسیع سے وسیع تر کر دی گئی ہے۔ ان کی سلطنت میں اب تمام ادبی، تحقیقاتی، تاریخی اور لسانی اداروں کی اقلیمیں شامل ہو گئی ہیں۔ عرفان صدیقی کی مرصع اور مسجع اردو کی ایک دنیا رطب اللسان ہے الفاظ پر ان کی حکمرانی ہے اور فقروں کو نوک قلم سے زر وسیم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ شاعر تُھڑ دلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے نثر نگاروں کی تعریف کم ہی کی ہے۔ حافظؔ نے تو شاعری میں بھی اپنی ہی کی  ؎
غزل گفتی و دُر سفتی، بیا و خوش بخوان حافظؔ
کہ برنظم تو افشاند فلک عقدِ ثریا را
حافظ! تو نے غزل کیا کہی، موتی پرو دیے۔ اب آ کر خوش الحانی سے سنا اس لیے کہ آسمان، ثریا کا ہار تیری شاعری پر قربان کرتا ہے۔
ظفر علی خان نے خواجو کرمانی کی غزل گوئی کو خراجِ تحسین پیش کیا  ؎
تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خواجوئے وقت
زلفِ عنبر بار سے کژدم بکھیر، اژدر نکال
ہاں! حسرت موہانی نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا  ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرتؔ میں کچھ مزا نہ رہا
کیا عرفان صدیقی یہ بھاری پتھر اٹھائیں گے؟
اس وقت کابینہ میں وہ واحد رکن ہیں جو اردو کے ادیب ہیں۔ وہ اس پیڈسٹل پر بیٹھے ہیں جو افسر شاہی کی مسندوں سے بلند تر ہے۔اُن کے پاس اختیار ہے، اقتدار ہے۔ وزیر اعظم کا کان ان کے نزدیک ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانی نوکر شاہی کے دو پُرزے بیٹھے ہوں تو سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ سائل کی موجودگی میں اسی سائل کے کیس پر انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تا کہ برتری قائم رہے اور سائل رکاوٹوں کی نوعیت نہ سمجھ پائے۔ غریب اور ان پڑھ شخص کا بیٹا پائلٹ بنا تو باپ نے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہو گا کون سا جہاز اس کا بیٹا اڑا رہا ہے۔ بیٹے نے کہا وہ باپ کے مکان پر بم گرائے گا تا کہ جان جائے۔ انگریزی سے ناآشنا عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات ہڑپ کرنے والے اہلکار، انہی عوام پر انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں! تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
مقتدرہ قومی زبان کو قائم ہوئے عشرے گزر گئے۔ تین سال بعد اس کے قیام کو چالیس برس ہو جائیں گے۔ اس نے سارا بنیادی کام کر لیا۔ معروف ادیب اس کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی، جمیل جالبی، افتخار عارف، پروفیسر فتح محمد ملک، دوستِ دیرینہ ڈاکٹر انوار احمد، سب لائق فائق لوگ تھے۔ اردو زبان و ادب کے اساتذہ اور رہنما! ہر ایک نے بساط بھر حصہ ڈالا۔ تراجم ہوئے۔ کتابیں چھپیں۔ مگر بیورو کریسی کے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اور بات ہے۔ یہاں وفاقی سیکرٹری تو دور کی بات ہے، سیکشن افسر اپنے آپ کو پروفیسروں، پی ایچ ڈی ڈاکٹروں اور دیگر اہلِ علم پر فائق گردانتا ہے۔
اصل مسئلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے معاملات طے کرنا ہے۔ ان معاملات کی تفصیل یہ کالم نگار روزنامہ دنیا کی سترہ ستمبر 2015ء کی اشاعت میں بیان کر چکا ہے۔ جناب عرفان صدیقی مقتدرہ قومی زبان کے ادارے کا اس انداز میں احیا کریں اور کرائیں کہ یہ کمیشن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور افسر شاہی کے دیگر ارباب قضاو قدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ پہلے مرحلے میں مقابلے کے مرکزی امتحان (سی ایس ایس) میں اردو کا مضمون اسی طرح لازمی قرار دیا جائے جس طرح انگریزی زبان کا ہے۔ دوسرے مرحلے میں سارا امتحان اردو یا انگریزی دونوں میں دینے کا آپشن ہو۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں سارا امتحان اردو میں ہو مگر ساتھ ہی انگریزی جانچنے کا کڑا امتحان ہو تا کہ سول سرونٹس انگریزی پر اسی طرح دسترس رکھتے ہوں جیسے اردو پر۔ بیورو کریسی میں اِس وقت ڈاکٹر وحید احمد، یاسر پیرزادہ اور شکیل جاذب جیسے مستعد افسر موجود ہیں جو اردو زبان و بیان پر مہارت رکھتے ہیں۔ نفاذِ اردو کے تقاضوں سے آشنا ہیں اور اپنے قبیلے یعنی افسر شاہی سے نمٹنے کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔
یہ فقیر تو یہی صدا لگا سکتا ہے کہ  ؎
خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشترکہ بانگ برآید فلان نماند
سلیم احمد یاد آ رہا ہے  ؎
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں

’’انکشاف‘‘

$
0
0
کچے رستے پر لینڈ کروزر آ کر رُکی۔ قیمتی فرنگی سوٹ میں ملبوس ایک خوش شکل نوجوان اترا۔ اس نے باس کی گراں بہا قمیض پہنی ہوئی تھی۔ نکٹائی ریشمی تھی، سمسونائٹ کا چرمی بیگ کاندھے سے لٹکائے تھا۔ اس میں ایپل کا تازہ ترین ٹیکلنالوجی سے بھرپور لیپ ٹاپ تھا۔
ایک طرف پہاڑی تھی، لہلہاتا کھیت جس کی ترائی پر نظروںکو سرسبز تازگی بخش رہا تھا۔ دوسری طرف ندی تھی، خراماں خراماں چھوٹے چھوٹے پتھروں میں راستہ بناتی! پہاڑی اور ندی کے درمیان وسیع سبزہ زار تھا۔ گھاس تھی اور درخت، جن کے ہرے پتے ہوا میں ہلتے تھے تو زمین پر سائے کا قالین بچھ بچھ جاتا تھا۔ بھیڑیں بے خوف پھر رہی تھیں۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کہا تھا  ؎
کسان دلشاد، کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے
شیشم کے درخت تلے کسان بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ مجید امجد یاد آ گیا  ؎
نخیلِ زیست کی چھائوں میں نَے بلب تری یاد
فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جُو ترا غم
لینڈ کروزر سے اترنے والا خوش پوش نوجوان سبزہ زار پر چلتا کسان کے پاس پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے عجب فیاضانہ پیش کش کی: ’’میں حساب کتاب کر کے تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تمہارے پاس کتنی بھیڑیں ہیں، بدلے میں تم سے ایک بھیڑ بطور فیس لوںگا‘‘۔
کسان راضی ہو گیا۔ نوجوان نے لیپ ٹاپ نکالا، کسان کی بچھائی ہوئی چادر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ انگلیاں کی (KEY)
 بورڈ پر مہارت سے رقص کرنے لگیں۔ سکرین پر اعداد و شمار کا ڈھیر لگ گیا۔ دو تین گھنٹوں کی محنتِ شاقہ کے بعد اس نے بھیڑوں کی صحیح تعداد بتا دی اور حسبِ معاہدہ اپنی مرضی کی بھیڑ اٹھا کر لینڈ کروزر کے پچھلے حصے میں لاد دی۔ اب کسان کی باری تھی۔ اس نے پوچھا: ’’میں اگر تمہارے بارے میں بتا دوں کہ تم کون ہو توکیا تم مجھے میری بھیڑ واپس کر دوگے؟‘‘ نوجوان مان گیا۔ کسان نے کہا، تم امریکی ہو۔ تم نے تازہ تازہ ایم بی اے کیا ہے اور تم ورلڈ بینک میں کام کرتے ہو۔ نوجوان حیران ہو گیا۔ پوچھا کیسے معلوم ہوا؟ کسان نے جواب دیا، اس لیے کہ ایک تو تم بن بلائے میری چراگاہ میں گھس آئے، دوسرے مجھے وہ اطلاع فراہم کرنا چاہتے ہو جو مجھے پہلے ہی معلوم ہے، آخر میں بھیڑوں کا مالک ہوں۔ اب مہربانی کر کے میرا کتا واپس کر دو جسے تم نے بھیڑ سمجھ کر اٹھا لیا ہے!
ایک امریکی نے ہم پاکستانیوں کو بھی ایک ایسی ہی اطلاع فراہم کی ہے جو بچے کو بھی معلوم تھی اور اندھے کو بھی نظر آ رہی تھی۔ امریکی کا نام صدر اوباما ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں میں پاکستانی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ ویسے لگے ہاتھوں اگر موصوف یہ راز بھی آشکار کر دیتے کہ سائبیریا روس کے شمال میں ہے اور سعودی عرب کی زبان عربی ہے اور گائے دودھ دیتی ہے تو ہمارے علم میں اضافہ ہو جاتا!
اگر صدر اوباما یہ فرماتے کہ پاکستان جلد ہی عدم استحکام سے نجات حاصل کر لے گا تو یہ ایک غیر متوقع خبر ہوتی اور ہم پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ اوباما کے قبضے میں کوئی مافوق الفطرت ذریعہ ہے جو ایسی حیران کن پیش گوئیاں کرتا ہے یا صدر اوباما خود مستقبل میں جھانکنے کی غیر معمولی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
جس ملک کی سوا دو ہزار کلو میٹر (تقریباً چودہ سو میل) لمبی سرحد سے ساری دنیا کے لوگ کسی روک ٹوک کے بغیر آتے جاتے ہوں، اور روزانہ سفری دستاویزات کے بغیر بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار افراد تک بارود اور ہتھیاروں سمیت بارڈر پار کرتے ہوں، وہاں کے بارے میں کیا صرف صدر اوباما ہی کو معلوم ہے کہ عدم استحکام جاری و ساری رہے گا؟ واہگہ بارڈر پر دھماکہ کرنے والا دہشت گرد افغان سرحد سے در آتا ہے۔ پورا خیبرپختونخوا روندتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور لاہور کے اضلاع کے آر پار منزلوں پر منزلیں مارتا، پاکستان انڈیا بارڈر پر آ کر دھماکہ کر دیتا ہے۔ کوئی عسکری یا سول یا پولیس یا رینجر کی ایجنسی مشکوک جان کر اسے روک نہیں پاتی۔
ماضی قریب میں دارالحکومت کی ایک غیر قانونی آبادی میں ایکشن لے کر مکان گرائے گئے۔ سارے پریس نے خبر دی کہ وہاں افغان خفیہ پولیس کے اہلکار اہل و عیال سمیت مقیم تھے اور ’’ڈیوٹی‘‘ بھی سرانجام دے رہے تھے۔ تین دن صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں گزارے، ان تین دنوں کے دوران بارہ کہو سے لاکھوں ٹیلی فون کالیں افغانستان کی گئیں۔ یہ بارہ کہو وہی جگہ ہے جو ایوان وزیر اعظم سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ فرض کیجیے آپ دارالحکومت کے حکام سے اس بات پر ایک کروڑ ڈالر (روپے نہیں!) کی شرط لگاتے ہیں کہ بارہ کہو، ترنول اور سکیٹر جی 12 کی آبادیوں میں غیر ملکیوں کی تعداد سے یہ حکام مکمل طور پر بے خبر ہیں تو یقین کیجیے ایک کروڑ ڈالرکی شرط آپ جیت چکے، اس لیے کہ اس تعداد کے بارے میں ان حکام کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم!
کرۂ ارض پر جہاں بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے، 
پاکستانیوں کے دل اس خدشے سے لرز اٹھتے ہیں کہ الزام پاکستان پر لگے گا۔ کوئی کہتا ہے طالبان شوری،ٰ کوئٹہ میں ہے۔ ملا عمر کی وفات کی خبر عام ہوئی تو کراچی کا نام خبروں میں آنے لگا۔ تاشفین ملک پاکستان کی نکلی۔ اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہوا۔ ہزاروں پاکستانی عساکر اپنے ہی ملک کے اندر شہید ہوگئے۔ کراچی کے کور کمانڈر پر حملہ ہوا۔ صدر پرویز مشرف پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔ شوکت عزیز کو مارنے کی کوشش ہوئی۔ میاں نواز شریف، عمران خان، سب کو دھمکیاں دی گئیں۔ مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ آفتاب شیر پائو کئی بار نشانہ بنتے بنتے رہ گئے۔ میاں افتخار الدین کا اکلوتا فرزند دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ بشیر بلور نے جام شہادت نوش کیا۔ پشاور میں مولانا حسن جان اور لاہور میں مولانا نعیمی گولیوں کی نذر ہو گئے۔ درجنوں سنی اور شیعہ علماء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پولیس کے بیسیوں جوان اور جرأت مند افسر اپنے ہی شہروں کی سڑکوں پر خون میں نہلا دیے گئے۔ سکول جلا دیے گئے۔ مزارات کے پرخچے اڑ گئے۔ مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بازاروں میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی بوٹیاں کٹ کٹ کر ہوا میں اڑیں۔ پشاور سکول میں ڈیڑھ سو افراد کے سروں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا جن میں غالب اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔ عساکر کے نوجوانوں کو مار کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا۔ سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہو کر بارڈر کے اس پار پہنچا دیا گیا۔ جس ملک میں یہ سب کچھ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اوباما صاحب اپنی طرف سے دور کی کوڑی لائے ہیں کہ یہ عدم استحکام کا شکار رہے گا! واہ جناب صدر اوباما! کیا بات ہے آپ کے اس ’’انکشاف‘‘ کی!
پھر اس حقیقت پر غور کیجیے کہ یہ وہ قوم ہے جس کی آدھی آبادی جنہیں ہیرو سمجھتی ہے، آدھی انہیں مجرم اور قاتل قرار دیتی ہے۔ ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو پاکستان کے شہری ہیں مگر اپنا امیرالمومنین کسی اور کو کہتے ہیں۔ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے فوجی جوانوں کو ایک پارٹی کا رہنما شہید ہی نہیں مانتا۔ ملک کے لاکھوں افراد اس رہنما کے پیروکار ہیں۔ جنوری 2015ء میں دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع ہوا تو ایک رہنما نے برملا کہا کہ حکمران اسلام پسندوں کو پھانسیاں دے رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جن افراد کو مجرم سمجھ کر پکڑنا چاہتے ہیں، ہزاروں تعلیمی ادارے انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ لاہور کے قریب دھماکہ کرنے والے دہشت گرد نے ایسے ہی ایک ادارے میں رات گزاری تھی۔ ملک کے علماء کی نصف تعداد جنہیں مجاہد اور اسلام کے غازی قرار دیتی ہے، علماء کی اتنی ہی تعداد فتویٰ دیتی ہے کہ وہ مجرم ہیں۔ کچھ علما خوف کی وجہ سے منقار زیر پر ہیں، کچھ مصلحتاً اور کچھ اس لیے کہ وہ نظریاتی حوالے سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
امریکیوں سے زیادہ کسے معلوم ہے کہ پاکستان ایک ایسا گودام ہے جس میں اسلحہ کے ذخائر کے ذخائر موجود ہیں۔ جس ملک کے بازاروں میں راکٹ اور گرنیڈ ٹافیوں کی طرح فروخت ہوتے ہوں، اس ملک میں عدم استحکام نہیں ہوگا توکیا امن کی چاکلیٹ بکے گی؟ وزارتِ داخلہ ہزار سال بھی لگی رہے تو جان نہ پائے کہ ملک میں کتنے لاکھ کلاشنکوفیں ہیں اور کتنے لاکھ ریوالور اور بندوقیں!
مشیر خارجہ نے صدر اوباما کی تردید کی ہے اور ان کی پیش گوئی کو ’’زمینی‘‘ حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ اوپر جو حقائق بیان کیے گئے وہ گویا ’’آسمانی‘‘ حقائق ہیں! یعنی بلی انڈے دیتی ہے، آلو درختوں پر لگتے ہیں۔ ابن انشاء کے بقول بچہ بیٹھا حقہ پی رہا ہے، باپ انگوٹھا چوس رہا ہے! کسان کو تو اپنی بھیڑوں کی تعداد معلوم تھی، ہمیں کوئی بتائے تب بھی نہیں مانتے!

Viewing all 1904 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>