Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1904 articles
Browse latest View live

نرسریوں کے شوقین

$
0
0
میٹرو بس راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے تو پہلی شاہراہ جو اس کا استقبال کرتی ہے نائنتھ
 (9th) 
ایونیو کہلاتی ہے۔ تقریباً دو تین منٹ کے بعد بائیں طرف قطار اندر قطار نرسریاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ پودوں، پھولوں سے بھری ہوئی! کہیں گملوں کے ڈھیر لگے ہیں، کہیں گاڑیاں کھڑی ہیں، بیگمات پسند کے پودے خرید رہی ہیں۔ ایک وسیع کاروبار ہے۔۔۔۔ پتوکی، ساہیوال اور اوکاڑہ سے اسلام آباد تک پھیلا ہوا۔ پرانے اسلام آباد پر چوریوں، ڈاکوں، پانی کی قلت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں نے پنجے گاڑے تو جو استطاعت رکھتے تھے، ایکسپریس وے کی آبادیوں کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں بحریہ اور عسکری رہائشی کالونیوں میں معیارِ زندگی پرانے اسلام آباد کی نسبت بہتر ہے۔ ساتھ ہی وہاں بھی نرسریاں نظر آنا شروع ہو گئیں؛ چنانچہ جیسے ہی اب ایئرپورٹ چوک سے بحریہ اور ڈیفنس کی طرف بڑھتے ہیں تو دائیں بائیں نرسریوں کی قطاریں شروع ہو جاتی ہیں۔
پھول، پودے، درخت انسانی زندگی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجید امجد نے کہا تھا  ؎
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور نغمے ندی تتلیاں گلاب کے پھول
اِس حقیر کا شعر ہے  ؎
پرندے، پھول، پانی گر خوشی سے اذان دے دیں
تو ہم اس باغ میں کچھ دن ٹھہرنا چاہتے ہیں
بابر نے تزکِ بابری میں شکوہ کیا ہے کہ اہلِ ہند کو پھولوں اور پودوں کا شوق نہیں۔ آگرہ میں پہلی’’ہائوسنگ کالونی‘‘جو اس نے بسائی اس کا نام کابل رکھا، پھر باغات لگانے کا سلسلہ شروع کیا جو شاہجہان کے عہد تک جاری رہا! ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانیوں کو یہ شوق مسلمان بادشاہوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ خواتین اس معاملے میں مردوں سے آگے ہیں۔ گائوں ہو یا قصبہ یا شہر، کوشش کرتی ہیں صحنوں اور لان میں سبزہ و گل ضرور نظر آئیں۔
یہ تو عوام کا ذکر تھا مگر خواص بھی پیچھے نہیں۔ بلند مرتبہ خواص کا ایک گروہ سینیٹ میں تشریف فرما ہے۔ ان حضرات کو بھی نرسریوں کا بہت شوق ہے۔ یہ خواص عوام سے مختلف ہیں۔ ان کے شوق اور مشغلے بھی عوام سے الگ ہیں۔ اسی حساب سے ان کی نرسریاں بھی مختلف واقع ہوئی ہیں۔ ان کی دلچسپی ان نرسریوں میں نہیں جہاں عوام پودے اور پھول خریدنے جاتے ہیں۔ یہ بلند مرتبہ خواص، سیاست کی نرسریوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے کچھ حضرات نے سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو مویشی خانوں اور غلے کے گوداموں میں بدل ڈالا۔ یہ حضرات جو سینیٹ میں ہیں، اپنے طبقے کی روایات کی پاسبانی کرتے ہوئے یونیورسٹیوں، کالجوں کو سیاست کی نرسریاں سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہاں سے سکالر، سائنس دان، پروفیسر، ڈاکٹر، ٹیکنالوجی کے ماہرین نکلیں یا نہ نکلیں، سیاست دان ضرور نکلیں۔
گزشتہ ہفتے سینیٹ کے معزز ارکان نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کی بحالی، مستقبل کی سیاست کی نرسریوں کی ضرورت ہے‘‘۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کا سیاست میں بہت اہم کردار ہے‘‘۔
الحمد للّٰہ! تعلیم کے عالمی میدان میں پاکستان دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔ ٹاپ کی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ مشرقِ بعید کے طلبہ بھی پاکستانی یونیورسٹیوں میں آ کر پڑھتے تھے۔ اب ان ملکوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ تعلیمی نہیں سیاسی نرسریاں ہیں۔ سینیٹ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے، تعلیم کے میدان میں جو تنزل کارفرما ہے، اُسے سینیٹ کے خواص نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ غم ہے تو صرف یہ کہ طلبہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تاکہ وہاں سے افرادی قوت آتی رہے اور سیاسی جماعتوں میں داخل ہوکر بلاولوں اور حمزہ شہبازوں کے سامنے دست بستہ کھڑی ہوتی رہے! طلبہ یونینوں کی بحالی کے غم میں دُبلے ہونے والے اِن حضرات میں یہ دم خم تو ہے نہیں کہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا مطالبہ کریں۔ ہاں تعلیمی اداروں کو بد سے بدتر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ فلاں فلاں سیاست دان طلبہ یونینوں کی دین ہیں۔ کون فلاں فلاں؟ معاف کیجیے، ان میں کچھ تو پراپرٹی ڈیلر ہیں، کچھ ہر ہفتے پارٹیاں بدلتے ہیں۔ کچھ پاکستان کے کم اور امریکہ کے زیادہ وفادار ہیں۔ دوسرے ملکوں میں فخر سے یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں یونیورسٹی نے فلاں سائنس دان، فلاں نوبل انعام یافتہ مصنف اور فلاں پروفیسر پیدا کیا۔ فلاں لائف سیونگ دوائی دریافت کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا سپوت تھا۔ فلاں سائنسی عجوبہ ایجاد کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔ یہاں شہنائیاں اس بات پر بجائی جا رہی ہیں کہ فلاں فلاں اوسط درجے کے سیاست دان طلبہ تنظیموں کی پیداوار ہیں۔ اِنّا للّٰہ واِنّا اِلیہ راجعون!
ڈکٹیٹر اگر این آر او کا تحفہ پلیٹ میں رکھ کر دے تو وہ تو قبول کر لینا چاہیے مگر ڈکٹیٹر اگر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائے تو وہ آمریت کی وراثت ہو جاتی ہے۔
اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی سیاست ختم کب ہوئی؟ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کراچی یونیورسٹی پرکس سیاسی جماعت کا قبضہ ہے، پنجاب یونیورسٹی کو کس سیاسی جماعت نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور دارالحکومت کی یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ نئے آنے والے طلبہ پر کون کس طرح جھپٹتا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے ٹیلی ویژن پر آ کر قوم پر باقاعدہ احسان جتایا کہ ’’ہوسٹل اسی فیصد تو خالی کر دیا گیا تھا‘‘۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں تقابلِ ادیان کا استاد چاہیے تھا مگر اس شعبے کے لیے اینتھروپالوجی کی ڈگری رکھنے والے شخص کو رکھا گیا اس لیے کہ وہ ’’اپنا‘‘ تھا! گویا میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا ہو۔ اسی بنیاد پر بھرتیاں کر کر کے پی آئی اے جیسے قومی اداروں کو نوچا گیا۔ تعلیمی اداروں میں بھی یہی ہوتا رہا اور اب تک ہو رہا ہے۔
کیا کوئی شخص ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے انکار کر سکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی طلبہ تنظیمیں، سیاسی جماعتوں کے دم چھلے ہیں؟ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ تک، جماعتِ اسلامی سے جے یو آئی تک، اے این پی سے ایم کیو ایم تک سب کی پراکسی جنگیں یونیورسٹیوں کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ قائدِ اعظم نے تو کہا تھا:
"Let me give you this word of warning: you will be making the greatest mistake if you allow yourself to be exploited by one political party or another.''
’’میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ اگر تم کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کے استحصال کا شکار ہوئے تو سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھوگے‘‘۔
پشاور یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
Do not be exploited and do not be misled.
’’خبردار استحصال کا شکار نہ ہونا، نہ ہی تمہیں کوئی غلط راستے پر لگائے‘‘۔
پھر کہا:
Your main occupation should be, in fairness to yourself, in fairness to your parents, in fairness to the state, to devote your attention to your studies. If you waste away your energies now, you will always regret.
’’اگر تم اپنے آپ سے، اپنے والدین سے اور ملک سے انصاف کرنا چاہتے ہو تو تمہارا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ پوری توجہ تعلیم پر دو۔ اس وقت اگر تم نے اپنی توانائیوں کو ضائع کر دیا تو ہمیشہ پچھتاتے رہو گے‘‘۔
کیا ایوانِ بالا میں تشریف فرما معزز نمائندوں کو معلوم ہے کہ ان کے صوبوں میں خواندگی کی شرح کیا ہے؟ آبادی میں اضافے کا کیا ریٹ ہے؟ کتنے فیصد بیروزگار ہیں؟ ہر سال کتنے افراد سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیسن میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں؟ کن تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ہے؟ پچھلے تین سال یا پانچ سال کے دوران کتنے کارخانے لگائے گئے؟ کتنی زراعت کو مشینی
 (Mechanised)
 کیا گیا؟ چلیے، یہ تو دور کی باتیں ہیں، کبھی اسی پر بحث کر لیجیے کہ پشاور اسلام آباد، لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں ہر روز کتنی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں؟ کتنے ڈاکے پڑتے ہیں؟ دن دہاڑے سڑکوں پر کتنے لوگ لوٹے جا رہے ہیں؟ یہ سب مسائل حل ہو جائیں تو پھر طلبہ کو سیاست دان بنانے کا عظیم الشان فرض بھی سرانجام دے دیجیے گا! ایک صاحب ہو گزرے ہیں، سینیٹ میں بیٹھے ہوئے دانش وروں سے ذرا سے سینیٔر، تھوڑے سے زیادہ عقل مند! نام ان کا سعدی تھا، شیراز سے تعلق رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں:
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی؟
کیا تم نے زمین کے کام مکمل کر لیے ہیں کہ آسمان کو سنوارنے چل نکلے ہو؟


ماتم

$
0
0
ہم گروہوں کی صورت میں آئے۔
ہم گروہوں کی شکل میں مشہد سے آئے۔ نیشاپور سے آئے۔ بخارا اور ترمذ سے آئے۔ شہرِ سبز سے آئے۔ گردیز اور بلخ سے آئے غور اور غزنی سے آئے۔ گیلان اور تبریز سے آئے۔
ہم جہاں سے بھی آئے۔ ہمارے لیے پشاور نے اپنے دروازے کھولے۔ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ ہمیں کھانے کو نان اور سونے کو بستر دیا۔ پھر ہم وہاں سے چلے۔ ہم میں سے کچھ لاہور بس گئے۔ کچھ دہلی، کچھ جونپور، کچھ پٹنہ، کچھ لکھنؤ، کچھ دکن۔ ہم نے اٹھارہ گھڑ سواروں کے ساتھ ڈھاکہ فتح کیا۔ ہم آسام گئے، اور آباد ہوئے۔ یہ سارے احسانات پشاور کے تھے۔
پشاور دروازہ ہے جو اب بھی ہمارا تعلق ان سرزمینوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو ہم نے چھوڑیں۔ پشاور کھڑکی ہے جس سے ہمیں اب بھی ترمذ، بخارا، گیلان، مشہد اور تبریز کی ہوا آتی ہے۔ جس سے وسط ایشیا کے میدانوں کی دھوپ در آتی ہے۔ جس سے افغانستان کے چھوڑے ہوئے تاکستانوں اور ایران کے چھوڑے ہوئے زعفران زاروں کی خوشبو آتی ہے اور ہم سے اور ہم اس سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔
مگر آہ! پشاور کے ان احسانات کا بدلہ ہم نے کیا دیا؟ خون اور آگ۔ لوہے کی بارش، بارود کے انبار، اسلحہ کی یورش، گولیوں کی بوچھاڑ، مہاجرین کے ہجوم!
کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس نے اپنے شہر کو اور صوبے کو یوں چھوڑا کہ پچھواڑے کی دیوار ہی نہیں ہے۔ کیا کوئی ذی ہوش شخص اپنے مکان کو یوں رکھتا ہے کہ عقب کھلا ہو اور جو چاہے، اندر آ کر مکینوں کو قتل کرتا پھرے   ؎
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لیے
یہاں دیوار کیا گرتی، دیوار تو تھی ہی نہیں!
بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزا رتک غیر ملکی روزانہ خیبرپختونخوا میں داخل ہوتے ہیں جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہوتیں۔ پاسپورٹ کے بجائے کلاشنکوف ہوتی ہے۔ ویزے کی جگہ بارود ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس کا سوا دو ہزار کلومیٹر بارڈر دنیا بھر کے مجرموں، دہشت گردوں، ڈاکوئوں، لٹیروں، جاسوسوں کے لیے کھلا ہو؟ مشیرِ خارجہ نے کچھ عرصہ پہلے حسرت کا اظہار کیا کہ درمیان میں دیوار ہوتی! تو پھر دیوار آپ کیوں نہیں بناتے؟ سترسال میں ایک ایک اینٹ بھی لگائی جاتی تو اب تک دیوار چین بن چکی ہوتی۔ بارڈر سے اِس طرف تو آپ کا اپنا ملک تھا۔ آپ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ پہریداروں کے لیے برج بنوا سکتے تھے۔ باڑ 
(Fence)
 لگوا سکتے تھے۔ حکمرانوں کے دوروں عیاشیوں، محلات، پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہوتے رہے، کھلے بارڈر کی کسی نے فکر نہ کی۔ اب یہ بارڈر دہشت گردوں کے لیے شاہراہِ عام ہے۔ اب ایک نہیں کئی فضل اللہ دن میں کئی بار آتے اور جاتے ہیں۔ 
جو ملک اپنے بارڈر مستحکم نہیں کر سکتا۔ اس کے بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچوں کے ساتھ ہوا۔ ستر سال ہم نے وزیرستان اور فاٹا میں وہی پالیسی اپنائے رکھی جو گوری چمڑی والے آقائوں نے بنائی تھی۔ ہم نے اِن علاقوں کو راشی افسروں کے سپرد کیے رکھا۔ کروڑوں اربوں روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کی صوابدید پر رکھے۔ جو انہوں نے اپنی مرضی سے سمگلروں، خانوں اور ملکوں کو دیئے اور کچھ ادھر ادھر کیے۔ عام قبائلی بیچارہ بنیادی سہولتوں کو ترستا رہا۔ ایک سیاست دان کا لختِ جگر وہاں تعینات کیا گیا جہاں ٹِمبر(عمارتی لکڑی) مافیا سے ہر روز تین لاکھ روپے وصول ہوتے تھے اور یہ سالہا سال پہلے کی بات ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے۔ کوئی ہے جو اِس بے زبان قابلِ رحم قوم کو حساب دے کہ اڑسٹھ برسوں میں کتنے روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کو دیئے گئے اور کتنے بانٹے گئے؟ اور کس کس کو بانٹے گئے؟ یہ رقوم آڈٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھی گئیں! کیوں؟ کیا یہ ملک جنگل ہے؟ کیا باجوڑ، مہمند،خیبر کے رہنے والے، کیا شنواری اور آفریدی،  وزیر اور محسود اس ملک کے باشندے نہیں؟ مانا وہ اتنے ’’عظیم‘‘ اور ’’سپیریئر‘‘ نہیں جتنے تمہارے لاہور اور کراچی کے باشندے ہیں لیکن اللہ کے بندو! وہ بھی پاکستانی ہیں، وہ بھی مسلمان ہیں، وہ بھی 
اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ تم نے ظلم یہ کیا کہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیں اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیں۔ تم نے اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ دیئے اور قبائلی بچوں کو بندوقیں تھمائیں۔ تم نے اپنے بچوں کو پڑھنے امریکہ بھیجا اور قبائلی بچوں کو بہادر کہہ کر میدانِ جنگ میں جھونک دیا۔ تم نے اپنے بچوں کو بزنس مین بنایا اور قبائلی بچوں کو شہادت کے فضائل سنائے۔ تم نے جہادیوں کی وہ فصل بوئی جو آج آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچے کاٹ رہے ہیں۔ تمہیں چیچنیا سے لے کر عراق تک اور فلسطین سے لے کر افغانستان تک، ہر ایک کا غم کھاتا رہا مگر تم نے نہ کیا تو اپنے بچوں کا غم نہ کیا۔ تم نے دیوارِ برلن کے ٹکڑے اپنے قیمتی ڈرائنگ روموں میں سجا لیے مگر آہ! تم کوئی ایسی دیوار نہ بنا سکے جو تمہارے اپنے بچوں کے لیے اوٹ کا کام دیتی۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر قربان ہونے والے عساکر کو شہید ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔ انکار کرنے والے اسی سرزمین کی چاندنی، ہوا اور پانی سے حظ اٹھاتے ہیں۔ اس ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قاتلوں کے پھانسی چڑھنے پر واویلا مچتا ہے کہ ’’اسلام پسندوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ پھر واویلا مچانے والے مگرمچھ کے آنسو بہاتے پھرتے ہیں۔ آہ! نفاق! ہائے نفاق! یہ کیسے لوگ ہیں جو اِس طرف ہیں نہ اُس طرف!
مُذَبْدَبِیْنَ بَیْنَ ذٰالِکَ، لَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ وَلَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ
بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ اِن کی طرف نہ اُن کی طرف۔ مذمت کے لیے کہا گیا تو جواب دیا، یہ فتنوں کا زمانہ ہے۔ مذمت کی بھی تو ساتھ اگر مگر لگا کر۔ دودھ دیا بھی تو مینگنیاں ڈال کر۔ اسی ملک میں، جی ہاں اسی ملک میں ایسے رسائل بھی چھپتے رہے جن میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد جو حفاظتی اقدامات کیے گئے اور جو ایکشن لیا گیا اُس پر طنز کیے گئے، حملہ آوروں کا بین السطور دفاع کیا گیا، جی ہاں! اسی ریاست میں کئی ریاستیں بستی ہیں، کئی قانون ہیں۔ اسی ملک میں ایسے لوگ ہیں جو شہیدوں کو ہلاک اور قاتلوں کو مجاہد کہتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں ہیں اور ان ریاستوں کے سربراہ بھی ہیں!!
ماتم کرو! نوحہ خوانی کرو! بال کھول لو! سیاہ لباس پہن لو! سروں پر دو پتھر مارو! سینہ کوبی کرو۔ جو چاہے کر لو، مگر تمہارے بارڈر کھلے رہیں گے۔ غیر ملکی تمہارے شہروں، قصبوں، قریوں، بستیوں میں مسلح ہو کر دندناتے رہیں گے۔ تمہارے رشوت خور بے حیا اہلکار چند سکوں کی خاطر غیرملکیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیتے رہیں گے۔ مادرِ وطن کے دودھ سے غداری کرتے رہیں گے۔ تمہارے اندر وہ لوگ پنپتے اور مسکراتے رہیں گے جو تمہیں کافر سمجھتے ہیں اور تمہارے بچوں کو قتل کرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔
جس ملک کے بارڈر کھلے ہوں اور جس ملک میں ’’اگر مگر‘‘ کرنے والے لوگ لاتعداد ہوں، اور وفاداریاں بکھری ہوئی ہوں اور تعلیمی نصاب بے شمار ہوں اور باشندے ’’نیکو کاروں‘‘ اور ’’گنہگاروں‘‘ میں بٹے ہوئے ہوں اور حکمران بے نیاز ہوں اور پالیسی سازوں کا وژن ناپید ہو اور سرداروں نے اپنے اپنے قبیلے کو رعایا اور جاگیرداروں نے ہاریوں کی عورتوں کو رکھیل بنایا ہوا ہو، اور لوگ بے سمت بھیڑوں کی طرح الگ الگ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہوں، اُس ملک میں یہی کچھ ہو گا اور یہی کچھ ہوتا رہے گا۔

چار کاندھوں پر سواری

$
0
0
طاق صفیں 
چار تکبیریں
دائیں بائیں سلام
یہ ہے ساری کہانی!
ابھی ابھی جنازہ پڑھ کر‘ قبر پر مٹی ڈال کر‘ دعا مانگ کر‘ تھکے تھکے بوجھل قدموں سے گھر لوٹنا ہوا ہے۔
کیا یہ ہے زندگی کی حقیقت؟ زندگی‘ جس کے لیے ہاہاکار مچی ہے! جس کے لیے گلے کاٹے جا رہے ہیں! جائیداد کے بٹواروں پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ چُھپ چُھپ کر چالیں چلی جاتی ہیں۔ فلاں کو معلوم نہ ہو پائے۔ فلاں کو کچھ نہیں بتانا!
دوست دیرینہ وحید بھٹی کے صاحبزادے کی شادی ایک ماہ پہلے تھی۔ پھول ابھی مرجھائے نہ تھے۔ مبارکبادیں ابھی ختم نہ ہوئی تھیں۔ حجلۂ عروسی ابھی جوں کا توں سجا تھا۔ دلہن کے ہاتھوں پر حنا کا رنگ ابھی بھڑک رہا تھا۔ جوانِ رعنا عفان کمرے میں داخل ہوا۔ لائٹر سے ہیٹر جلایا۔ پورا کمرہ آگ کے شعلوں سے بھر گیا۔ گیس لیک ہو رہی تھی۔ تنصیبات اس ملک میں غیر معیاری ہیں۔ پلگ ہیں یا پائپ‘ بجلی کے بورڈ ہیں یا گیس کے متعلقہ آلات کسی شے پر اعتبار نہیں۔ ٹھپّہ چین کا یا تائیوان کا لگا ہوتا ہے‘ چیز دھرم پورے میں بنی ہوتی ہے۔ انسانوں کی زندگی سے کھیلنا اس ملک میں ایسے ہی ہے جیسے مکھی مچھر کو مار دینا۔ چند سکوں کی خاطر‘ دوائیں جعلی اور غذا ملاوٹ والی بیچی جا رہی ہے۔ گھروں میں پیراسٹامول بنانے کی ’’فیکٹریاں‘‘ قائم ہیں! خدا ہی جانتا ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والا آٹا‘ گھی‘ دودھ‘ مرچ‘ مکھن‘ شہد‘ دہی اصل میں کیا ہیں۔ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جا رہا۔ دکانوں کے اوپر درود پاک لکھا ہے۔ شکلیں نورانی ہیں‘ وضع قطع‘ دیندار ہے مگر ہوس ایک ہی کہ‘ ہَل مِن مزید! ہم پاکستانیوں پر خدا رحم کرے‘ دروغ گوئی اور عہد شکنی میں ہمارا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ حرمتِ رسول پر جانیں نثار کرنے کے 
لیے تیار‘ مگر اطاعتِ رسول ترجیحات میں ہی نہیں! ہمارا حال تو اب یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہیں تو اسلام ساتھ آنا چاہتا ہے مگر ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس محراب کے پاس لے جاتے ہیں۔ اس سے گلے ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں آپ یہیں بیٹھیں۔ پھر ہم مسجد سے تنہا باہر نکلتے ہیں اور جہاں کا رُخ کرتے ہیں‘ بازار ہے یا کارخانہ‘ دفتر ہے یا کھیت‘ سکول ہے یا مدرسہ‘ اسلام کا وہاں عمل دخل نہیں۔ تولنا ہے یا ماپنا ہے‘ فائل نکالنی ہے یا میٹنگ اٹنڈ کرنی ہے‘ مصنوعات ہیں یا زرعی پیداوار‘ رشتہ داروں سے معاملات ہیں یا دوستوں کے حقوق‘ ماں باپ کی خدمت ہے یا اولاد کے حقوق‘ جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنی اغراض کو درمیان میں رکھ کر کرتے ہیں۔ پھر ظہر کے وقت مسجد جاتے ہیں تو اسلام کو وہیں بیٹھا دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ تعلق اسلام سے ہمارا قائم ہے! دھوکا! فریب! کس کو؟ اپنے آپ کو! خدا کو تو دے نہیں سکتے! رہی دنیا تو وہ بھی جان جاتی ہے اس لیے کہ نیکی ہو یا بدی‘ دیانت ہو یا خیانت‘ مالِ حرام ہو یا اکلِ حلال! چُھپتا کچھ نہیں! اگر ہمارے سامنے کوئی مروّت کی وجہ سے یا خوف سے یا وضع داری سے یا مصلحتاً خاموش رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہماری اصلیت نہیں معلوم! خدا نے ذہانت اپنی مخلوق میں کسی کی سفارش سے نہیں بانٹی! امرِ واقعہ یہ ہے کہ افسر یا وزیر یا صنعت کار یا جاگیردار جب گاڑی سے گردن اکڑا کر اترتا ہے تو اس کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والا نائب قاصد اور اس کا بریف کیس اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے مودب ہو کر چلنے والا ملازم اس کی اصلیت‘ اس کی دیانت‘ اس کے فیملی بیک گرائونڈ‘ اس کی ذہنیت‘ غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے! ہمارے علماء بحث کر رہے ہیں کہ مردے سب کچھ جانتے ہیں یا نہیں‘ پہلے ہم یہ تو مانیں کہ زندوں کو ہمارے بارے میں سب کچھ معلوم ہے اور ملمّع سازیوں سے ہم اپنی رسوائی میں تو اضافہ کر سکتے ہیں عزت میں نہیں!
مقصود ذاتی غم کی تشہیر نہیں! ذات سے غم کائنات کا رُخ کرتا ہے۔ اگر ہم یہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ پہلے اپنی فلاں فلاں ضروریات پوری کر لیں‘ پھر اس کے بعد اہلِ حاجت پر توجہ دیں گے اور اُن ضرورت مندوں کی مدد کریں گے جن کا ہمارے ساتھ تعلق ہے‘ تو ہم احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں! اجل کا بٹ مار (قزاق) تاک میں ہے۔ جسم کا تار جو روح سے جُڑا ہے‘ حد درجہ ناپائدار ہے! اللہ کے بندو! اگر کسی ضرورت مند کو کچھ دینا ہے تو ابھی دو! انتظار کس چیز کا کر رہے ہو؟ آمدنی قلیل ہے تب بھی مہینے میں ہزار یا پانچ سو یا دس یا پانچ ہزار جو بھی کر سکتے ہو مختص کر لو۔ کتنے ہی سفید پوش تمہارے اردگرد عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عزتِ نفس انہیں مانگنے کی اجازت نہیں دیتی! کتنے ہی بچے تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ کتنوں ہی کی بیٹیاں استطاعت نہ ہو سکنے کی وجہ سے بالوں میں سیندور کے بجائے چاندی بھرے جا رہی ہیں! چلو مہینے میں ہزار روپے کا سودا سلف ہی کسی مستحق گھرانے کو دے دیا کرو!
سُوٹ مارک اینڈ سپنسر کا ہے یا کنالی کا‘ جوتا ’’کلارک‘‘ کا ہے یا ’’چرچ‘‘ کا ہاتھوں سے بنا ہوا! گاڑی آٹھ سو سی سی ہے یا بی ایم ڈبلیو‘ محل ڈیفنس میں ہے یا باتھ آئی لینڈ میں! جو کچھ بھی ہے خدا نصیب کرے مگر ساتھ نہیں جانے کا!
نظیر اکبر آبادی نے تنبیہ کی تھی؎
کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں
دلچسپ دلفریب ہیں پیاری سواریاں
کس کس طرح کی ہم نے سنواری سواریاں
پر ہم سے کچھ نہ کر گئیں یاری سواریاں
جب چار کاندھے پر ہوئیں بھاری سواریاں
جھک مارتی یہ رہ گئیں ساری سواریاں
دولت حاصل کرنا جرم نہیں! اگر جائز مراحل سے گزر کر آئی ہے اور اس میں سے محروم طبقے کا حصّہ الگ مختص کیا جا رہا ہے اور فیّاضی سے مختص کیا جا رہا ہے تو یہ دولت نعمتوں میں سے ہے۔ ایسی جائز دولت کے لیے محنت کرنا بھی کارِ خیر ہے! مگر حصولِ زر کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا‘ پھر اقربا کے حقوق سے روگردانی کرنا اور اہلِ حاجت کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنا‘ یہ تو دولت کو وبالِ جان بنا دے گا! زرد دھات کی چھینک اور سانپ کی پھنکار دونوں آوازیں ایک ہی لہر پر سوار آتی ہیں اب یہ انسان کی اپنی صوابدید پر ہے کہ اِس آواز کو نرم بشارت میں تبدیل کر لے یا عذاب کی کرخت چیخ میں ڈھال لے!
یہ ملک جس شخص نے دھوتی پوش برہمنوں اور سفید فام متکّبر آقائوں کے جبڑوں سے چھین کر ہمارے حوالے کیا تھا۔ اُس شخص کا رویّہ کیا تھا؟ مرض الموت تھا اور زیارت کے خوشبودار درختوں کا ماحول ! جورابوں کی قیمت پوچھی اور واپس کرا دیں کہ مہنگی ہیں! خدمت گاروں نے لاہور سے باورچی منگوایا کہ شاید قلیل خوراک میں تھوڑا سا اضافہ ہو جائے‘ واپس بھجوا دیا! سرکاری میٹنگ سے پہلے پوچھا گیا کہ چائے پیش کرنی ہے‘ جواب دیا اپنے اپنے گھر سے پی کر آئیں۔ کبھی وہ روداد پڑھیے کہ سرکاری جہاز اور گاڑی خریدنے سے پہلے کیا کیا سوال جواب اور کیا کیا احتیاط نہ کی‘ جیسے متوسط طبقے کا کوئی فرد جیب سے خریداری کرتے وقت کرتا ہے‘ حالانکہ کار کے مالک اُس وقت تھے جب خال خال ہی کسی کے پاس ہوتی تھی‘ دلہن کو رونمائی میں جو رقم دی‘ اُس کا اُس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا! پھر وہ اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوئے اس حال میں کہ سامان میں بیت المال کا ایک پیسہ نہ تھا۔ خیانت تھی نہ دروغ گوئی! مائونٹ بیٹن سے لے کر گاندھی تک ہر ایک کے سامنے وہی بات کی جو دل میں تھی اور جسے صحیح سمجھا! دشمن بھی دیانت اور صدق گفتاری پر الزام نہ لگا سکے!
آج کے رہنمائوں کو بھی دیکھ لیجیے۔ سندھ کے ریگزاروں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک ثروت مندی کے جھنڈے گڑے ہیں! ملکیت اور ملوکیت چار دانگِ عالم میں پھیلی ہے! مگر آہ! پیاس ہے کہ بجھ نہیں رہی!
کیا خبر ان حضرات نے یقین دہانی حاصل کر لی ہو کہ اس خاک دان میں چند ہزار سال قیام فرمائیں گے!

غیرت مند

$
0
0
’’نادرا نے ایک لاکھ تیس ہزار افغان شہریوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ سالِ رواں میں ایک لاکھ مزید افغانوں کے بارے میں چھان بین کی جائے گی۔ نادرا کے ذرائع سے وصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق افغان باشندوں نے ملک کے طول و عرض میں وسیع کاروبار اور جائیدادیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ اس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ متعلقہ حکام کو افغانوں کی شناخت میں دقت ہو رہی ہے، تا ہم نادرا نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ موجودہ سال کے دوران ایک لاکھ مزید ایسے افغان دریافت کر لیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب شناختی کارڈوں کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا تھا تو اس وقت پچیس لاکھ افغانوں نے ناجائز ذرائع سے پاکستانی شہریت حاصل کر لی تھی۔ یہ بات وزارتِ داخلہ نے اور ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت( سیفران) نے حکومت کو بتائی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی نشاندہی ہو جائے‘‘۔
یہ عام سی خبر اُن سیکڑوں خبروں میں سے ایک ہے جو آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ سرخی پڑھتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں۔ بہت سے سرخی بھی نہیں پڑھتے۔ کچھ نادرا کا نام دیکھ کر ایسی خبروں کو پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے اور کچھ افغان کا لفظ دیکھ کر کسی اور خبر کی تلاش میں اگلا صفحہ کھول لیتے ہیں۔
دلچسپ ترین حصہ اس خبر کا آخری دو سطریں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ سیفران نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی شناخت ہو جائے گی۔ کون پوچھے اور کس سے پوچھے کہ کیا یہ وزارتیں خود، حکومت نہیں ہیں؟ اور اگر انہوں نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے تو ’’حکومت‘‘ سے مراد کیا ہے؟ یہ ہے وہ طریقِ واردات جس سے حکومتِ پاکستان میں کسی کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہوتا اور نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے! نادرا وزارت داخلہ کی سلطنت کا ایک حصہ ہے۔ وزارت داخلہ ہی حکومت ہے۔ اب اس نے جس اور حکومت کو بتایا ہے، وہ نہ جانے کون سی ہے؟
ایک گزشتہ کالم میں ہم نے دہائی دی ہے کہ اڑھائی ہزار کلومیٹر کا بارڈر افغانستان کے ساتھ، بارڈر نہیں بلکہ شاہراہِ عام ہے، جہاں سے پچاس ساٹھ ہزار مسلح افراد ہر روز سفری دستاویزات کے بغیر آتے اور جاتے ہیں۔ اس سارے معاملے کا دوسرا شرمناک ترین پہلو وہ لاکھوں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں جو متعلقہ محکموں نے کرپشن کی سیڑھی پر چڑھ کر افغان غیر ملکیوں کو پیش کیے ہیں! ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت اور ہزاروں خاندانوں کے اجڑنے کے بعد اس قوم کوبتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ افغانوں نے شہریت حاصل کی ہوئی ہے۔ 
تو کیا اس ’’دریافت‘‘ اور اس اعتراف کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا؟ ناجائز ذرائع کے ذکر سے یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ دستاویزات جاری کرنے والوں نے کرپشن کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ پچیس لاکھ دستاویزات فرشتوں نے آسمان سے پھینکی تھیں؟ یا پاکستانی دفتروں میں بیٹھے ہوئے پاکستانی اہلکاروں نے تیار کی تھیں؟ تیار کرنے والوں کے نام یقیناً دفتروں کے ریکارڈ میں موجود ہوں گے۔ تو کیا اِن مجرموں کو کوئی سزا ملے گی؟ یہ مجرم معمولی مجرم نہیں، یہ غدار ہیں۔ رشوت لے کر غیر ملکیوں کو پاکستانی شہریت دینے والے اِن دوزخیوں نے ملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی کم از کم سزا یہ ہے کہ ان کی جائیدادیں ضبط کر کے انہیں پھانسی یا عمر قید کی سزائیں دی جائیں تا کہ آئندہ کوئی اس لعنت کا مرتکب نہ ہو۔
مگر آپ یقین کیجیے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کبھی ہوا بھی نہیں! اس لیے کہ ڈالر اور روپے وصول کر کے دوستوں کے ساتھ، اپنے مقتولین کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنے کے لیے پاکستان پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب اجمل کانسی کو گرفتار کرنے کے لیے امریکہ نے کانسی کے اُن دوستوں کو، جنہوں نے اُسے چھپایا ہوا تھا، 35 لاکھ ڈالر دیے اور انہوں نے یہ رقم لے کر اپنے دوست کو پکڑوایا تو امریکی وکیل نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ لوگ تو بیس ہزار میں بک سکتے ہیں، انہیں اتنی زیادہ رقم دینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہ موقع تھا جب اس وکیل نے وہ تاریخی فقرہ کہا جو ہماری پیشانیوں پر ثبت ہو چکا ہے۔۔۔۔ ’’پاکستانی ایک ڈالر کے لیے اپنی ماں کو بیچ دیں گے‘‘۔
مگر ہم غیرت مند بہت ہیں۔ اِس ریمارک پر ہماری غیرت جاگ اٹھی۔ اس وقت تھامس سائمن اسلام آباد میں امریکی سفیر تھا، اسے وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا گیا کہ ہماری 
غیرت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ غالباً اُس نے معذرت بھی کی تھی۔ واشنگٹن میں بھی ہمارے سفارت خانے نے امریکی نائب وزیر خارجہ(انڈر سیکرٹری) سے شکوہ کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ چند برسوں بعد ہمارے ملک کے ایک صدر نے اپنی کتاب میں ببانگِ دہل اعتراف کیا کہ ’’ہم‘‘ نے القاعدہ کے 369 ارکان پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیے اور لاکھوں ڈالر لیے۔ اگر آپ انہیں پکڑ کر اپنے ملک کی خدمت کر رہے تھے تو معاوضہ کیوں لیا؟ اور اگر آپ نے معاوضہ لیا، جس کا آپ تحریری اعتراف کر رہے ہیں، تو پھر گویا آپ دوسروں کے ملازم تھے۔ امریکہ جاگیردار تھا اور آپ اس کے کارندے تھے۔ کارندے جاگیردار کے دشمنوں کو پکڑ کر جاگیردار کے حوالے کرتے ہیں اور معاوضے میں تنخواہ اور انعام پاتے ہیں۔ اور وہ رقم گئی کہاں؟ کیا وہ بیت المال میں جمع ہوئی؟ اگر جمع ہوئی تو کوئی ثبوت؟ نہیں جمع ہوئی تو کس کی جیب میں گئی؟ کیا اِس قوم کی سیاہ بختی کا کوئی کنارا نہیں؟ کہ اُسی سابق صدر کی ’’حفاظت‘‘ پر قوم کی خون پسینے سے حاصل کردہ آمدنی کروڑوں میں خرچ ہو رہی ہے۔ مگر اس کا بھی کیا غم کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا ایک سابق چیف جسٹس، سیاسی جماعت بنا کر اس کا سربراہ بھی بن چکا اور ’’انصاف پسند‘‘ کا یہ عالم ہے کہ بلٹ پروف گاڑی ابھی تک سرکار کی رکھی ہوئی ہے! لاکھوں روپے کی رقم اس کی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک ہر ہفتے اور ہر مہینے خرچ ہو رہی ہے مگر الحمد للہ ضمیر مطمئن ہے!
اجمل کانسی کو فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد ہوں گے۔ مگر پچیس تیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد نہیں ہو سکتے۔ یہ تو کم از کم بھی سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ ان میں سے کثیر تعداد اب بھی نادرا کے دفتروں میں ’’کام‘‘ کر رہی ہو گی! جو ریٹائر ہو چکے، وہ بھی اس ملک کے اندر ہی ہوں گے اور پنشن اور دیگر مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔ مگر انہیں سزا دینے کا سوال اس لیے نہیں پیدا ہوتا کہ ماں اپنی ہو یا مادرِ وطن ہو، اسے بیچنے کی کالک ہمارے چہرے پر ملی جا چکی ہے!
ہم نے کیا فروخت نہیں کیا؟ کیا نوکریاں نہیں بیچی جاتیں؟ کیا تھانے نہیں فروخت ہوتے؟ چیلنج ہے وزیر اعظم کے لیے اور صدرِ مملکت کے لیے کہ بھیس بدل کر، گمنام شہری بن کر کسی کچہری میں جائیں اور کوئی مکان یا کھیت یا پلاٹ رشوت دیے بغیر کسی کے نام پر منتقل کر کے دکھائیں! اب تو محکموں کے نام ’’دبئی سیکشن‘‘ اور ’’کویت سیکشن‘‘ رکھے جا رہے ہیں۔ اب تو ترقیاتی اداروں میں روڈ بنوانے والے محکموں کو ’’گولڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں۔ انتخابات کے ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں فروخت ہوتی ہیں۔ بچے فروخت ہوتے ہیں۔ عورتیں فروخت ہوتی ہیں۔ جسم کے اعضا فروخت ہوتے ہیں۔ وزارتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور تو اور عزتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور انتظار کیجیے اس دن کا جب ولدیتیں بھی فروخت ہونے لگیں۔ 
پچیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت کی فروخت تو محض نمونے کی فروخت ہے! شعر تو پامال ہو چکا ہے مگر اطلاق اس کا ہم پر مکمل ہو رہا ہے    ؎
دہقان وکشت وجو و خیابان فروختند
قومی فروختند و چہ ارزان فروختند
قوم بیچ ڈالی اور کتنی سستی! ملک بیچا جا رہا ہے اور کتنا ارزاں!!

خوب! بہت خوب!!

$
0
0
سازش اقتدار کی بہن ہے!
یہ دونوں بھائی بہن ہمیشہ مل جل کر رہتے ہیں۔ بھائی خطرے میں ہو تو بہن اس کی مدد کرتی ہے۔ بھائی کا جب بھی بس چلے، بہن کو چُپڑی دیتا ہے اور دو دو! اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازش کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ پھر اقتدار اپنے آپ کو طول دینے کے لیے سازشوں کے جال بچھا دیتا ہے اور جب تک بس چلے، بچھاتا رہتا ہے۔
ساموگڑھ کی لڑائی میں اورنگ زیب اور مراد نے دارا کو مل کر شکست دی۔ کریڈٹ سارا اورنگ زیب کو مل رہا تھا۔ مراد کو کھٹکا لگ گیا۔ دہلی کی جانب بڑھے تو دونوں بھائیوں کی رفتار سست تھی۔ آگے آگے اورنگ زیب کی سپاہ۔ پیچھے پیچھے مراد کا لشکر، اس قدر سست رفتاری کہ متھرا پہنچنے میں بارہ دن لگ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف۔ ایسے مواقع پر سازش ہمیشہ اقتدار کی مدد کرتی ہے۔ مراد شکار سے واپس اپنی لشکر گاہ کو جا رہا تھا کہ ایک مصاحب نے ’’تجویز‘‘ پیش کی کہ ساتھ ہی اورنگ زیب کا کیمپ ہے دو گھڑی وہاں رک جاتے ہیں۔ گپ شپ ہو جائے گی۔ اورنگ زیب نے چھوٹے بھائی کے مشاغل کا پاس کرتے ہوئے اس کا پسندیدہ مشروب پیش کرایا۔ مراد نیم مدہوش ہوا تو ساتھ والے خیمے میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ خیمے میں ایک سیم تن زہرہ وش بھی جلوہ گر تھی! دوسرے دن سورج ابھی اپنی کرنیں زمین کی طرف بھیجنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ اورنگ زیب کے لشکر سے تین ہاتھی مختلف سمتوں کو روانہ ہوئے۔ ان کے کجاوے ڈھکے ہوئے تھے۔ جیسے شاہی حرم کے ہوتے تھے۔ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ تینوں میں سے مراد کس پر سوار ہے۔ کسی نے چھڑانے کی کوشش بھی نہ کی۔ مراد کو رہائی اس وقت ملی جب کچھ عرصہ بعد گوالیار کے قلعے میں اس کی روح کو بدن سے رہائی ملی!
ایک برس پہلے اچانک یہ معاملہ ہرطرف کیوں پھیل گیا کہ سپہ سالار کو توسیع ملے گی یا نہیں؟ کیا کچھ حلقے مضطرب ہو رہے تھے؟ کیا توسیع کچھ سروں پر خوف کی تلوار بن کر لٹک رہی تھی؟ کیا سوشل میڈیا پر توسیع کی مہم خودبخود چل گئی؟ کیا کچھ خواب گاہوں میں نیند کی پری غمزہ وعشوہ نہیں دکھا رہی تھی؟ اطمینان حاصل کرنے کے لیے لازم تھا کہ یہ اونٹ درست کروٹ پر بیٹھ جائے؛ چنانچہ بیٹھ گیا۔ عسکری اطلاعات کے محکمے نے واشگاف اعلان کر دیا کہ توسیع کی ضرورت ہے نہ لی جائے گی۔ چلیے! مسئلہ حل ہو گیا۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ شاعر نے معشوق کو کہا تھا   ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی 
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
مطلع صاف ہو گیا ہے۔ کالے بادل چھٹ گئے ہیں۔ اب دور دور تک پھول ہی پھول ہیں۔ خوش رنگ مناظر ہیں۔ سونا سی دھوپ پھیل گئی ہے سرخ پرندے باغ میں اڑتے پھرتے ہیں۔ سکون کی چادر تن گئی ہے۔ اطمینان نے دلوں کو آسودہ کر دیا ہے۔ ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔ مگر کائنات کے اسرار عجیب و غریب ہیں۔ حافظ ظہور الحق ظہور کا شعر یاد آ رہا ہے   ؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِ نہاں کا راز داں کوئی
پینتیس چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے، کالم نگار ایک بس میں بیٹھا راولپنڈی سے واہ جا رہا تھا۔ راستے میں بس رکی۔ ایک سفید ریش بزرگ سوار ہوئے اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہو گئے۔ سامنے ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے ایک اور نوجوان کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ تم کھڑے ہوجائو اور اپنی سیٹ باباجی کو دے دو! وہ شریف لڑکا فوراً اٹھا اور بابا جی کو بٹھا دیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے نصیحت کرنے والے نوجوان سے پوچھا۔ آپ نے خود اپنی سیٹ کیوں نہ پیش کی؟ تا ہم اس نے تاثر یہ دیا کہ اسے سوال سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سابق صدر سمیت ہر کوئی توسیع قبول نہ کرنے کے فیصلے کی تعریف کر رہا ہے۔ ہر طرف سے خراجِ تحسین پیش ہو رہا ہے۔ ’’فوج ملک کا ایک باوقار اور عظیم ادارہ ہے اور یہ بات بہت ہی بہتر ہے کہ کوئی ملازمت میں توسیع کی روایت کو نہ دہرائے‘‘ یہ وہ حضرات ہیں جو خود اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں، اور دوسروں کے ایثار پر خوش ہو رہے ہیں۔ مانا کہ فوج ایک عظیم اور اہم ادارہ ہے۔ مگر کیا سول سروس ایک عظیم اور اہم ادارہ نہیں؟ ان حضرات کا انپا کیا طرزِ عمل ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی محتسب کے آئینی منصب پر جو صاحب تشریف فرما ہیں ان کی عمر کیا ہو گی؟ 75 سے یقینا زیادہ بلکہ اسی کے لگ بھگ! وزیر اعظم کے دفتر میں جو ریٹائرڈ افسر اِس وقت پورے ملک کی افسر شاہی کو کنٹرول کر رہے ہیں انہیں ریٹائر ہوئے دس سال سے کم کیا ہوئے ہوں گے!
صدر جنرل پرویز مشرف نے جب سول کے اداروں کو ’’فوجیا‘‘ دیا تو سول سروس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے، سٹاف کالج لاہور، پر بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل کو بٹھادیا۔ ایک اجلاس میں جہاں بہت سے سول سرونٹس موجود تھے، ان جرنیل صاحب نے پھبتی کسی کہ یہ کیسی سول سروس ہے، جہاں افسروں کو کہا جاتا ہے کہ جہاں تعیناتی کرانی ہے، وہاں سے کہلائو، یعنی کوئی وزیر یا سیکرٹری فرمائش کرے کہ فلاں نام کے افسر کو ہمارے ہاں تعینات کیجیے۔ جرنیل صاحب کو کون بتاتا کہ گیارہ سال جنرل ایوب خان کے، تین سال جنرل یحییٰ کے، پھر گیارہ سال جنرل ضیاء الحق کے اور پھر نو سال جنرل پرویز مشرف کے۔ یہ کل چونتیس برس بنتے ہیں، قیامِ پاکستان کے بعد اڑسٹھ برسوں میں سے پورا نصف عرصہ جرنیلوں کی حکومت رہی، تو پھر بیوروکریسی اگر کھنڈر بن کر رہ گئی ہے تو پچاس فی صد ذمہ داری ان جرنیلوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اس عرصہ میں برسرِ اقتدار رہے اور صرف برسرِ اقتدار نہیں رہے۔ کلی طور سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
فوج کا ادارہ کیوں باوقار ہے؟ اس کی ساکھ کیوں بہتر ہے؟ اس لیے نہیں کہ فوج کو فرشتے چلا رہے ہیں۔ فوج کو چلانے والے بھی پاکستانی ہیں۔ ایک بھائی فوج میں ہے تو دوسرا سول سروس میں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سول سروس والے بھائی کو کہا جاتا ہے کہ تعیناتی کرانی ہے تو کہلوائو۔ پھر اس کی تعیناتی ہوتی ہے تو چار ماہ بعد یا ایک سال بعد یا چند ہفتوں بعد اسے اٹھا کر کہیں اور تعینات کر دیا جاتا ہے۔ گویا وہ لکڑی کا ایک بے جان ٹکڑا ہے۔ جہاں چاہیں رکھ دیں۔ فوجی افسروں کی تعیناتیاں فوج کے جس محکمے کی تحویل میں ہیں۔ اسے ملٹری سیکرٹری برانچ کہا جاتا ہے۔ ملٹری سیکرٹری کے پاس ایک کمپیوٹر پڑا ہے۔ اس میں ہر فوجی افسر کی ماضی کی تعیناتیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ روزِ اول سے لے کر آج تک پورا کیریئر سامنے پڑا ہے۔ اس کے مستقبل کی تعیناتیاں بھی واضح ہیں۔ اگر کمانڈ پوسٹ پر ہے تو آئندہ تعیناتی سٹاف پوسٹ پر ہو گی۔ ملک کے شمالی حصے میں ڈیوٹی دے رہا ہے تو آئندہ تعیناتی جنوبی حصے میں ہو گی۔ اِس وقت نان فیملی مقام پر تعینات ہے تو اس کے بعد اسے ایسی جگہ لگایا جائے گا جہاں وہ فیملی کو ساتھ رکھ سکے۔ کیا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس سول سروس کے ارکان کے متعلق یہ ساری معلومات موجود ہیں؟ کیا وہ بھی ایک بٹن دبا کر کسی پولیس افسر یا ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کے بارے میں مستقبل کے خطوط بتا سکتا ہے؟ یہاں تو اڑسٹھ سالوں میں یہی نہیں طے ہوا کہ مرکزی سیکرٹریٹ میں فیلڈ سے آنے والے کتنے آیا کریں گے اور کتنا عرصہ رہ کر واپس جائیں گے۔ بھارت میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ فیلڈ سے وفاق کے سیکرٹریٹ میں آ کر کتنے عرصہ کے لیے کام کرنا ہو گا۔
چار کام فوج میں ایسے ہو رہے ہیں جو سول سروس میں ہمارے سیاست دان خاص طور پر وہ سیاست دان جو حکومت میں ہوتے ہیں، نہیں کرنے دیتے۔ اول، فوجی افسر کو جہاں لگایا جاتا ہے، وہاں وہ مقررہ میعاد، دو سال یا تین سال پوری کرتا ہے۔ یہ بات اسے بھی معلوم ہے اور اس سے اوپر والوں کو بھی۔ دوم، تعیناتی کرنے والوں کے پاس ہر افسر کا کیریئر چارٹ موجود ہے جس میں اس کے پورے کیریئر کی منصوبہ بندی درج کی جاتی ہے۔ سوم، فوج میں ترقی(پروموشن) دینے کا ایک منظم طریقہ ہے جو نیچے سے شروع ہوتا ہے اور اوپر تک جاتا ہے۔ اس میں یونٹ سے لے کر ٹاپ تک تمام مراحل ایک طریقِ کار کے مطابق طے پاتے ہیں۔ چہارم، ان تعیناتیوں اور ترقیوں میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جاتی۔
آج فوج کے ادارے کی تعریف کرنے والے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ سول سروس کو کس طرح داشتہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ایک سو ایک فیصد سفارش اور روابط پر ہوتی ہیں۔ کیریئر پلاننگ کا وجود ہی نہیں۔ کوئی ’’اپنا‘‘ ہے تو اس کا خیال رکھا جائے گا ورنہ وہ جانے اور اس کی قسمت! جنرل راحیل شریف کے فیصلے کو خراجِ تحسین وہ حضرات پیش کر رہے ہیں جو آدھی افسر شاہی کو توسیع کی تاروں سے نچاتے رہے ہیں اور نچا رہے ہیں! خوب! بہت خوب!!

آ بیل مجھے مار

$
0
0
کُچھ عرصہ کے لیے انگلستان کے ایک دلکش قصبے گلوسٹر میں قیام تھا۔ فراغت تھی‘ موسم خوشگوار تھا‘ میلوں پیدل چلنے سے جو فرحت حاصل ہوتی تھی‘ بے مثال تھی۔ ٹائون سنٹر میں قدیم عمارتیں تھیں‘ بُک شاپیں تھیں‘ ٹائون لائبریری تھی‘ مسجد تھی‘ پاکستانی سینڈوچ فروش تھے۔
ایک صبح معمول کے مطابق نکلا اور فُٹ پاتھ پر چلتا جا رہا تھا کہ آگے راستہ بند ملا۔ سڑک کھودی جا رہی تھی‘ سُرخ رنگ کے فیتے ہر طرف رکاوٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ایک طرف لکھا تھا: ’’پیدل چلنے والوں کے لیے‘‘۔ سُرخ رنگ کے فیتوں کے درمیان ایک راستہ بنایا گیا تھا جو تنگ تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ ایک راہگیر آسانی سے چل سکے‘ یہ اہتمام کئی فرلانگ تک کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا اُس جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں فُٹ پاتھ کا راستہ کلیئر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں کے لیے اس قدر اہتمام تھا تو گاڑیوں کو متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔
یہ بُھولے بسرے دن آج یوں یاد آئے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مقدمہ سنتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ متبادل رُوٹ اختیار کیا جائے اور متبادل رُوٹ کی تخصیص کیے بغیر کام جاری نہ رکھا جائے۔ کوئی ڈھنگ کا ملک ہوتا تو کام شروع کرنے سے ہفتوں کیا مہینوں پہلے‘ متبادل راستے متعین کئے جاتے اور پبلک کو اخبارات‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے تمام تبدیلیوں سے آگاہ کیا جاتا۔
جن بیماریوں میں ہم قومی اعتبار سے مبتلا ہیں‘ ان میں سرفہرست بیماری یہ ہے کہ ہم صحیح کام کو غلط طریقے سے کرتے ہیں۔ یہ فیشن بن چکا ہے کہ عوام کو اصل حقائق سے مطلع نہ کیا جائے۔ عوام کے نمائندے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ جیسے بھی ہیں‘ بُرے یا بھلے‘ لائق یا گزارا‘ نمائندے تو ہیں‘ اتنا بڑا پروجیکٹ پنجاب اسمبلی کے سامنے لایا ہی نہیں گیا۔ اب تک ہر فورم پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اورنج لائن ٹرین‘ اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ نہیں‘ مگر عدالت میں سرکاری وکیل دہائی دے رہا ہے کہ حکومت کے چین کے ساتھ معاہدے ہیں‘ اگر منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تو نقصان ہو گا۔
شفافیت کا یہ عالم ہے کہ عدالت کو جب بتایا گیا کہ گیارہ تاریخی عمارتوں کے بارے میں این او سی لیا جا چُکا ہے تو مخالف وکیل نے پول کھول کر بیچ چوراہے کے رکھ دیا۔ ڈائریکٹر آثار قدیمہ سلیم الحق تھے‘ اُنہوں نے این او سی دینے سے انکار کر دیا کیونکہ 1975ء کا متعلقہ ایکٹ این او سی کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ کُچھ عمارتوں کا این او سی چیف سیکرٹری نے دیا جو دینے کے مجاز ہی نہ تھے۔ مانا کہ ڈائریکٹر آثار قدیمہ چیف سیکرٹری کا ماتحت ہوتا ہے مگر تکنیکی پیچیدگیوں سے چیف سیکرٹری نہیں‘ ڈائریکٹر واقف ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ اگر چیف میڈیکل آفیسر کسی مریض کو لاعلاج قرار دے دے تو چیف سیکرٹری صاحب اُس مریض کا خود علاج کرنا شروع کر دیں۔ نیّر علی دادا فن تعمیر کا ایک معتبر نام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب اس پائے کے معتبرین سے خود صلاح مشورہ کرتی‘ وہ بھی نہ کیا اور جب نیّر علی دادا اور دوسرے ماہرین تعمیرات نے این او سی دینے کی مخالفت کی تو سرکاری افسروں نے یہ مخالفت بُلڈوز کر کے ’’آل کلیئر‘‘ کی اطلاع اُوپر پہنچائی اور کام شروع ہو گیا۔ اس وقت لاہور کا جو حال ہے‘ اُس پر لاہور کے شعراء کو شہر آشوب لکھنی چاہیے تھی۔
ایک شاعر نے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ایک دوست کو دو غزلیں دکھائیں اور پوچھا کون سی سنانی چاہیے۔ دوست نے جس غزل کی سفارش کی‘ شاعر نے اُسے پھاڑ کر پھینک دیا‘ دوسری غزل سنائی اور خوب داد سمیٹی۔ پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے بھی کم و بیش ایسا ہی کیا لیکن المیہ یہ ہوا کہ جو غزل رد کی‘ وہی کام کی تھی۔ آپ دہلی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں زیر زمین ریلوے (دہلی میٹرو) کا معائنہ کیا۔ معروف ترین سٹیشن دیکھا۔ سواری بھی کی۔ مگر لاہور میں میٹرو بس کا قوی ہیکل منصوبہ، جس کا آغاز ہو چکا تھا، بہرطور پر مکمل کیا گیا۔ ایک خطیر رقم کی سالانہ امداد میٹرو بس کو سرکار کی طرف سے ملنا ضروری ہے۔
بچے کو بھی معلوم ہے کہ دہلی‘ ممبئی‘ کراچی‘ لاہور‘ لندن‘ نیویارک‘ سنگاپور اور اس قبیل کے بڑے عفریت نما شہروں کے لیے زیر زمین ریلوے ہی بنائی جاتی ہے۔ لندن کی زیر زمین ریلوے کی شروعات 1863ء میں ہوئی۔ 1907ء تک یہ ریل بجلی سے چلنا شروع ہو گئی تھی۔ مگر لندن کو چھوڑیے‘ وہ تو سفید فام ہیں‘ پیرس میں زیر زمین ریلوے بنانے پر 1845ء میں غور شروع ہوا۔ پیرس کو بھی چھوڑ دیجیے کہ وہ تو فرانسیسی بولتے ہیں‘ دہلی زیر زمین کی مثال لے لیجیے۔ دہلی والوں کا رنگ بھی ہمارے جیسا ہے‘ زبان بھی ملتی جلتی ہے اور عادات حسنہ اور عادات قبیحہ میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے۔ دہلی زیر زمین ریلوے کی منصوبہ بندی 1984ء میں شروع ہوئی۔ اس کی خاص بات جو ہمارے لیے سبق آموز ہے‘ یہ ہے کہ یہ اصلاً زیر زمین ہے مگر جہاں جہاں ضرورت پڑی اور صورتحال نے مجبور کیا یا اجازت دی تو زمین کے اُوپر بھی چل رہی ہے۔ عدالت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایل ڈی اے اورنج ٹرین منصوبے کی نگرانی کر رہا ہے۔ ترقیاتی اداروں کی جو شہرت ہمارے ہاں عام ہوئی ہے‘ اس کے پیش نظر ایسا کوئی بھی منصوبہ کے ڈی اے یا ایل ڈی اے یا سی ڈی ای کے حوالے کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ دہلی میٹرو کے منصوبے کا تصور دہلی کے ترقیاتی ادارے (ڈی ڈی اے) نے پیش کیا تھا مگر انڈین گورنمنٹ نے اسے ڈی ڈی اے کے حوالے نہیں کیا۔ ایک خاص ادارہ ’’دہلی میٹرو ریل کارپوریشن‘‘ اس مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یکم نومبر 2015ء کے اعداد و شمار کی رُو سے دہلی میٹرو اس وقت ایک سو ساٹھ سٹیشن پر رُک رہی ہے۔ ایک سو بتیس میل اس کی کُل لمبائی ہے۔ ایئرپورٹ کے خصوصی رُوٹ کے علاوہ یہ ریل بنفشی لائن‘ سبز لائن‘ نیلی لائن‘ زرد لائن اور سُرخ لائن کے راستوں پر مشتمل ہے۔ 2002ء میں ابتدا ہوئی تو روزانہ اسّی ہزار مسافر سفر کر رہے تھے۔ 2015ء میں روزانہ کے مسافروں کی تعداد چھبیس لاکھ ہو چکی ہے۔
مزید تفصیلات یہاں بیان کرنا کار لاحاصل ہے۔ دل سلگانے والی بات ہے۔ دہلی سمیت جہاں جہاں زیر زمین ریلوے کے منصوبے بروئے کار لائے گئے‘ ان میں شفافیت تھی۔ جہاں جہاں جمہوریت تھی‘ عوامی نمائندوں کی شمولیت نے اسے سوچا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سالہا سال پہلے ازبکستان جیسے ممالک نے‘ جو ہم سے کئی فرسنگ پیچھے ہیں‘ زیر زمین ریلوے چلا دی جو کامیابی سے چل رہی ہے۔
ہم کب تک صحیح کام غلط طریقوں سے کر کے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جاتے رہیں گے؟ اگر اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جاتا‘ اگر نیّر علی دادا جیسے ماہرین فن کو اوّل دن سے ساتھ رکھا جاتا‘ اگر کار سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے متبادل رُوٹ کا بروقت اہتمام کر لیا جاتا‘ اگر ہر معاملے میں حد درجہ شفافیت اختیار کی جاتی تو یہ منصوبہ اس وقت تنقید‘ تردید اور تنقیص کا شکار ہونے کے بجائے تعریف کا مستحق ہوتا۔ مگر شاید ہمارے اہل اقتدار کو عوام کی محبت راس نہیں آتی۔ ہر ممکن کوشش سے ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور پھر وضاحت در وضاحت کا ایک لامتناہی سلسلہ!!    ؎
کھنچیں میر تُجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قُدرت نہیں

جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟

$
0
0
بال اس کے کھچڑی تھے۔ جُھریوں نے رخساروں پر کام شروع کر دیا تھا۔ ہم ریل کار کے اے سی پارلر میں اس میز کے گرد بیٹھے تھے جو درمیان میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک دس سال کی بچی۔ ایک چھ سال کا بچہ۔ وہ خود ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ دونوں بچے اپنی اپنی سٹوری بک میں محو تھے۔ میں اخبار چاٹ چکا تھا اور باہر دیکھ رہا تھا۔ کھیت مکان درخت مویشی نہریں گزرے جا رہے تھے۔ قدرت کے تخلیق کردہ۔
حسن کو انسان نے اپنی پیدا کردہ آلودگی کے ساتھ خوب مکس کیا تھا۔ لہلہاتے کھیت اور ساتھ ہی کوڑے کے ڈھیر۔ کیچڑ میں لپٹے ننگ دھڑنگ، نیم برہنہ بچے جن کے والدین اینٹوں کے بھٹوں پر نسل درنسل وہ مزدوری کر رہے تھے جسے غلامی بھی کہا جاسکتا ہے۔
اقبال نے پروردگار کو بڑے اعتماد سے کہا تھا:
توشب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
کہ تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی، میں نے اس سے پیالہ تخلیق کیا۔ تو نے صحرا پہاڑی اور خارو خس بنائے۔ میں نے وہاں شاہراہیں اور باغات بناڈالے۔
مگر یہ دعوے پرانے ہو چکے ہیں۔ اب ہم زمین کے اس حصے میں استعمال شدہ شاپنگ بیگوں کی فصل بو رہے ہیں اور شاہراہوں کے کناروں پر بدصورت، کالی گندی، ورکشاپوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں باندھ رہے ہیں۔
چائے دینے والے سست رفتار لڑکے سے پانی لانے کا کہا تو کھچڑی بالوں والے اس شخص نے جس کے رخساروں پر جھریوں نے کام شروع کر دیا تھا، اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور مجھے پیش کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی اس عادت کو فوراً بروئے کار لایا جس سے گھر والی تنگ  ہے۔ ہر شخص کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کرنا اور پھردنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جانا!
بات چیت کا سلسلہ چلا تو اس نے بتایا کہ یہ بچے اس کی پوتی اور پوتا ہیں۔ دو دن پہلے صوبائی دارالحکومت کے سکول بند کر دیئے گئے تو پوتی نے فون کیا ’’دادا ابو، چھٹیاں پھر ہوگئی ہیں۔ آپ آ کر ہمیں اسلام آباد لے جائیے‘‘ اور دادا ابو چل پڑے!
بات اس طرف نکل پڑی کہ معمول کی چھٹیاں تو دسمبر میں ہو چکی تھیں اور سکول کھل گئے تھے۔ تو یہ ’’سردیوں‘‘ کی وجہ سے سکول اچانک پھر کیوں بند کر دیئے گئے اور کیا پہلے جنوری کے اواخر میںکبھی سردی نہیں پڑی تھی؟
کھچڑی بالوں والا شخص کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جھٹپٹے کا سماں تھا۔ باہر کے مناظر نے دھندلانا شروع کر دیا تھا۔ ڈبے میں لگے قمقموں میں روشنی یک دم تیز ہوگئی۔ اس کے رخساروں پر جھریاں پہلے سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک ڈرا دینے والا خالی پن دکھائی دینے لگا جو پہلے نہیں تھا! اچانک محسوس ہوا کہ یہ شخص کہیں درد سا محسوس کر رہا ہے۔ جیسے آپ کا ناخن زخمی ہو، جیسے پائوں کے انگوٹھے میں شدید درد ہو رہا ہو، جیسے سانس لیتے ہوئے پسلی میں بل سا پڑ جائے اور اذیت ہونے لگے، جیسے زبان پر چھالا ہو اور درد کی نوعیت بتائی نہ جاسکے! نہیں معلوم یہ اس کی خود کلامی تھی یا وہ مجھ سے مخاطب تھا۔ لیکن میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔
میںایک چھوٹے سے دورافتادہ گائوں میں پیدا ہوا، جس کے ٹاٹ سکول میں پہلی جماعت پڑھی۔ صحن کے کونے میں پڑا گھڑا، جس کا منہ توڑ کر کھلا کیا گیا تھا اور جس کے گندے پانی سے ہم تختیاں دھویا کرتے تھے، میری یادوں کا پکا پکا حصہ ہے۔ ایک دورافتادہ قصبے میں سکول کی تعلیم مکمل کی! ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی کہ اس وقت بجلی کے دو بلب بھی صرف ان گھروں میں ہوتے تھے جو بہت زیادہ امیر تھے! میں اور میرے ہم جماعت راتوں کو لالٹین کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ ہم بان کی کھردری چارپائیوں سے سرد راتوں کو گدے ہٹا دیتے تھے تاکہ نیند ہم پر غالب نہ آ سکے۔ آدھی رات کو بھوک لگتی تو اسی لالٹین کے اوپر ننھی سی رکابی میں گڑ رکھ کر پتیسہ نما شے بناتے اور کھا لیتے۔ گرمی کی چلچلاتی دوپہروں میں ہم درختوں کے سائے کے ساتھ ساتھ چارپائیاں گھسیٹتے اور ہوم ورک کرتے جاتے۔ ہم میں سے اکثر کے پاس سکول یونیفارم کا ایک ایک جوڑا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیص! جوتوں کا ایک ایک جوڑا! ہم کپڑوں کو کوئلوں والی استری سے خود استری کرتے تھے۔ ہمارے جوتوں کا اکلوتا جوڑا ہمیشہ صاف رہتا۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستان بنا تو حکومت کے دفتر خیموں میں لگتے تھے اور کاغذوں پر پن کے بجائے کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔ ہم نے محدود… انتہائی محدود وسائل کے ساتھ پڑھا۔ ہماری سب سے بڑی عیاشی دال والے پراٹھے تھے اور گائوں سے آنے والے ستو! ہمارے اساتذہ ہمیں گرما کی تعطیلات میں مفت پڑھاتے۔ ہم نے امتحانوں میں پوزیشنیں لیں۔ ہم نے مقابلے کے امتحان دیئے اور ان نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ کیا جو آکسفورڈ اور لندن سے پڑھ کر
 آئے تھے۔ ہمارے ذہن میں ایک ہی نصب العین تھا کہ ہم اس ملک کو خیموں اور کیکر کے کانٹوں سے آگے لے جائیں اور ہماری اگلی نسل بان کی کھردری چارپائیوں کو کیکر کے ڈھلتے سایوں کے ساتھ نہ کھینچتی پھرے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی طرح میز کرسی پر برقی قمقموں کی روشنی میں پڑھے۔ ہم نے دیانتداری سے ملازمتیں کیں۔ ریاست کے اربوں کھربوں روپے بچائے۔ ہم بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے مگر چائے کی پتی، بسکٹوںکے ڈبے، دو چپاتیاں اور پلیٹ بھر سالن ہمیشہ گھر سے لائے۔ ہم نے کالم نگاری کی تو کاغذ اور قلم سرکاری کبھی نہ استعمال کیا۔ ہم میں ایسے بھی تھے جو ایک صفحہ فوٹو کاپی بھی ذاتی استعمال  کا سرکاری مشین پر نہیں کراتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ اسی سیٹ اپ میں کروڑوں بنانے والے بھی ہیں۔ ایسے بھی تھے جن کے گھروں میں ڈانس فلور تھے اور سربراہان ان کی بیگمات کے ساتھ رقص کرتے تھے۔ ایسے بھی تھے جو ملک سے کئی کئی سال فرار رہ کر کرپشن کے مقدمے ’’ختم‘‘ کروا دیتے تھے۔ مگر بخدا ہمیں کبھی ان کے مال و دولت پر رشک نہ آیا۔ ہمیںمعلوم تھا کہ سکون کی نیند خلاق عالم نے ان کے نہیں، ہمارے مقدر میں لکھی تھی!
مگر یہ تو اب معلوم ہوا کہ ہم جن سہولتوں سے محروم تھے، ہماری اگلی نسل کو وہ حاصل ہوگئیں مگر جو سہولت ہمارے پاس موجود تھی، ہمارے بچے اسی کو کھو بیٹھے! ہماری اگلی نسل کو میز کرسی مل گئی۔ تختیوں اور سلیٹوں کے بجائے سکول بیگ آ گئے۔ برگر اور سنیک میسر ہوگئے۔ لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ مل گئے۔
اب وہ سکولوں میں مخصوص ویگنوں اور کاروں میں آتے جاتے ہیں۔ ان کے پاس رنگین ٹیلی ویژن، ایئرکنڈیشنر اور ہیٹر ہیں۔ اب نہانے کے لئے وہ گرم پانی کی بالٹیاں نہیں اٹھاتے، ایک گراری گھماتے ہیں تو سر پر لگی چھلنی سے آسودگی بخش پانی برسنے لگتا ہے۔ اب صبح صبح مائی ڈوری گندگی کا ٹوکرا، پہلو میں رکھے، آ کر اوپر کی منزل کے کونے میں واقع لیٹرین میں نہیں جاتی، اب حمام خواب گاہ کے اندرہی ہے اور بٹن دبانے سے کموڈ دُھل کر آئینے کی طرف صاف ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ہماری اگلی نسل کو مل گیا مگر یہ اس سکیورٹی سے، اس امن سے محروم ہوگئے، جو ہمیں حاصل تھی۔ ہماری درسگاہوںپر کبھی کوئی حملہ آور نہیں ہوتا تھا۔ ہم سردیوں میں اس وقت پیدل اکیلے جاتے تھے۔ جب ابھی کچھ کچھ اندھیرا ہی ہوتا تھا۔ اور واپسی پر ہمیںدور دور تک دہشت گردی کا ڈر نہ ہوتا تھا۔ یہ بچے، جو اس ڈبے میں بیٹھے ہیں، انہیں ہماری دیانت اور ہماری محنت مشقت کا کیا فائدہ ہوا؟؟ یہی کہ ان کے سکول بند کرکے انہیں ان کے گھروں میں بٹھا دیا گیا۔ ان کے اساتذہ اور استانیوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کتابیں رکھو اور کلاشنکوفیں سنبھالو۔ ان کی درسگاہوں کے اردگرد دیواریں نہیں، فصیلیں بنوائی جا رہی ہیں۔ ہم نے پوری پوری زندگیاں لگا کر اس ملک کو آگے بڑھایا۔ مگر اب اسی ملک کی ترقی سے فائدہ اٹھانے والے، اسی ملک کی ہوا چاندنی دھوپ اور پانی سے پرورش پانے والے، اسی ملک کے بچوں کو نشانے پر رکھ کر لبلبی دبا رہے ہیں! تو گھاٹے میں تو ہم مڈل کلاسیے اور لوئر مڈل کلاسیے رہے جن کے بچے دبک کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے بچے بھی محفوظ ہیں اور مدارس بھی۔ کوئی نہیں حملہ آور ہوتا!
کھچڑی بال اور مسلسل کام کرتی جھریاں!! اب باہر مکمل اندھیرا تھا! بچے سٹوری بکس بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے، بیٹھے تھے۔ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟ آنے والے دنوں کا خواب؟ جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟

کباڑ خانہ

$
0
0
رچرڈ صاحب برطانوی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ وہاں قومی اسمبلی کو ہائوس آف کامنز ( دارالعوام) کہتے ہیں! ایک دن بیٹھے بٹھائے رچرڈ صاحب کا بلڈ پریشر شُوٹ اَپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ایک دو دن سے دوانہ کھا رہے ہوں۔ بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال پہنچائے گئے۔
ہسپتال تو پہنچا دیے گئے مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا! ڈاکٹروں کو یہ کون بتائے کہ رچرڈ صاحب کا علاج کس طرح کرنا ہے؟ میڈیکل سپیشلسٹ سارے جمع تھے۔ کیا امراض قلب کے ڈاکٹر، کیا دماغ کے ماہرین، کیا بے ہوش کرنے والے، کیا آپریشن کرنے والے! نرسیں بھی حاضر تھیں۔ آپریشن تھیٹر بھی موجود تھا مگر برطانوی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ کسی ضروری میٹنگ میں تھے۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو غیر ملکی وفود سے ملنے لگ گئے۔ رچرڈ صاحب بے ہوش پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں وزیر اعظم صاحب کی ہدایات کی منتظر رہیں۔ افسوس! رچرڈ صاحب کا اس سارے سیاپے میں انتقال ہو گیا! 
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب سچ ہے؟ کیا ایسا ہوا ہو گا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ہسپتال ایک الگ دنیا ہے۔اس میں تعینات ڈاکٹر، خواہ انتظامیہ کے ہوں، یا فزیشن ہوں یا سرجن ہوں، اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوتے ہیں! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مریض، کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو ، کتنی ہی اہم شخصیت کیوں نہ ہو، داخل ہو اور وزیر اعظم یا ملکہ یا وزیراعلیٰ یا گورنر یا صدر مملکت کی ہدایات کی ضرورت پڑے کہ اب اسے بیڈ کہاں الاٹ کرنا ہے؟ اب خون کے ٹیسٹ کرنے ہیں یا سی ٹی سکین کرنا ہے؟ اب آپریشن کرنا ہے یا محض دوائوں سے کام چل جائے گا۔ اگر ایسا ہونے لگے تووہ ملک نہیں، مذاق ہے! وہ کیلا ریاست  
(Banana Republic) 
ہے! وہ ایک بڑا اصطبل ہے! وہ ایک بہت بڑا کباڑ خانہ ہے، جہاں کسی ہسپتال میں مریض داخل ہو تو اس ہسپتال کو حکمران اعلیٰ ہدایات دے کہ اب کیا کرنا ہے!
بد قسمتی سے یا خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسا ہی ملک ہے! خوش قسمتی سے اس لیے کہ آخر دنیا میں کتنی ریاستیں کیلا ریاستیں ہوں گی؟ کتنے ملک اصطبل کہلائے جانے کے مستحق ہوں گے؟ کتنے ملکوں کو کباڑخانہ (جنک یارڈ) کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعزاز دنیا میں ہمارے ملک ہی کا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی رکن ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے آئی سی یو میں رکھا۔ مگر ساتھ ہی وزیراعلیٰ پنجاب نے علاج کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دیں!!
جن ملکوں میں سسٹم نہ ہو، خود کار نظام نہ ہو، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ورنہ کیا وزیراعلیٰ کا یہ کام ہے کہ وہ ہر مریض کے لیے ہسپتال کو ہدایات جاری کرے؟ اگر یہ ہدایات ضروری ہیں تو ہر مریض کے لیے کیوں نہیں؟ صرف اسمبلی کی رکن کے لیے کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے بغیر ہسپتال میں علاج کرانا ممکن ہی نہیں! اور اگر ڈاکٹر اپنا کام کر رہے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے تو یہ ہدایات محض ایک ڈرامہ ہیں! محض دکھاوا ہے! صرف مذاق ہے! اور ایسے ہی ڈراموں، ایسے ہی دکھاوے، ایسے ہی مذاق نے اس ملک کو کباڑ خانہ بنا کر رکھ دیا ہے! کسی عورت کو بے آبرو کیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ پولیس کو ہدایات جاری کرتے ہیں! کوئی قتل ہوتا ہے تو وزیراعلیٰ تفتیش کے لیے حکم دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں وزیراعلیٰ کی مداخلت کے بغیر کارروائی نہیں ہوتی! یہ سب کیا ہے؟ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ یہ ملک ہے یا کسی وڈیرے کی جاگیر ہے، جہاں ہر کام کے لیے حکمران اعلیٰ کی ہدایات ضروری ہیں؟
جب ملک ملک نہ رہے، مذاق بن جائے، کیلا ریاست ہو جائے، کباڑخانہ بن کر رہ جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ پھر افغان شہری روح اللہ کو نادرا میں ملازمت مل جاتی ہے، جہاں وہ اپنے بھائیوں جعفر اور رزاق کے شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے! جہاں اسمبلیوں کے رکن تصدیق کرتے ہیں کہ افغان مہاجروں کے ڈومیسائل بنائے گئے! پھر صفورا جیسے قومی سانحوں کے سہولت کار ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔ پھر قومی ایئرلائنوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افراد یر غمال بنا لیتے ہیں۔ ایسے ملک میں پھر یہی ہوتا ہے کہ خون کی ہولی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کھیلی جاتی ہے مگر سرکاری مراعات پر پرورش پانے والے حضرات اُن مدارس کا تحفظ کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں جہاں کبھی پٹاخہ تک نہیں چھوٹا۔ پھر ایسے ملک میں افسروں کی ترقی کے معمول کے معاملات سال سال بھر وزیراعظم کے دفتر سے نہیں نکلتے اور عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بہت جگہ ہے، وزیراعظم کو بل الیا تو واپس دفتر نہیں جا سکیں گے۔ پھر ایسے ملک میں کسٹم کے اہلکار کو محکمہ تعلیم کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر عدالت دہائی دیتی ہے کہ بادشاہت چلائی جا رہی ہے، خدا کا واسطہ ہے حکومت تعلیم کے شعبے پر رحم کرے۔ پھر ایسے ملک میں ایان علی چھوٹ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصموں کا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا، مافیا ڈان بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر حکومتیں چلاتے ہیں مگر آٹھ آٹھ سال کے بچوں کو پکڑ کر عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، جہاں وہ سہمے کھڑے رہتے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیوں لائے گئے ہیں! ایسے ملک میں ایک ایئرپورٹ نو سال میں بھی مکمل نہیں ہوتا۔ خواتین ڈاکٹروں کا ایک عام ہوسٹل سات 
سال میں بھی نہیں بن پاتا، یہاں تک کہ لاگت تین کروڑ سے چھ کروڑ ہو جاتی ہے۔ جہاں صرف وکیلوں کو ٹول پلازوں کی ادائیگی کے لے چھوٹ دی جاتی ہے جبکہ عام شہریوں کی جیبوں پر ہر چند کلو میٹر کے بعد ٹول ٹیکس کے نام پر بھاری ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ ایسے ملک میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے قوم سے انصاف کی قیمت وصول کرتے ہیں اور قوم کے خرچ پر بلٹ پروف سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں، جی بھر کر سیاست کرتے ہیں اور قوم کا نجات دہندہ بن کر دوبارہ برسرِاقتدارآنے کے خواب دیکھتے ہیں!
کباڑ خانے اور ملک میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق ہے کہ ’’ملک‘‘ میں وزیراعظم کسی مریض کی عیادت کے لیے بھی آئے تو ہسپتال کا ڈاکٹر اسے ایک منٹ میں باہر نکال دیتا ہے جیسا کہ برطانیہ میں ہوا مگر کباڑ خانے میں وزیراعلیٰ خود ڈاکٹروں کو ہدایات دیتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ کباڑ خانہ اُس وقت ملک بنے گا جب ڈاکٹر وزیراعلیٰ کو کہے گا کہ حضور! میرے کام میں مداخلت نہ فرمائیے! جب پولیس کا سربراہ کہے گا حضور! میں اپنے فرائض چھوڑ کر ہر جگہ آپ کے ہمراہ نہیں جا سکتا اور ازرہِ کرم مجھے یہ نہ بتائیے کہ میں نے کس کیس کی تفتیش کرنی ہے اور کس کی نہیں!
جب تک ایسا نہیں ہوتا، کباڑ خانہ ، کباڑخانہ ہی رہے گا! اسے ’’ملک‘‘ سمجھنے والے مراعات یافتہ ہوں گے یا نفسیاتی مریض!


جونک

$
0
0
بات صرف ایک بھیگے ہوئے تولیے کی تھی۔
غالباً یہ سنگا پور ایئر لائن تھی جس نے سب سے پہلے پانی میں بھیگا ہوا (wet) تولیہ مسافروں کو دینا شروع کیا تا کہ وہ ہاتھ پونچھ سکیں اور چہرے پر مل کر تھکاوٹ کا احساس کم کر سکیں۔ ایک ایئر ہوسٹس نے یہ بھیگا تولیہ پرس میں رکھ لیا۔ ’’چوری‘‘ برآمد ہوئی اور اسے نکال دیا گیا!
اس کے مقابلے میں پی آئی اے کی گزشتہ تیس چالیس برس کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی آئی اے کے ملازمین کے گھر، پی آئی اے کی مصنوعات سے چلتے رہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے انسان کو لوہے کے یہ پرندے، جنہیں ہوائی جہاز کہا جاتا ہے، بنانا سکھائے، اس میں کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ تولیہ؟ تولیہ کیا چیز ہے؟ پی آئی اے کے کمبل، پی آئی اے کی گدیاں، پی آئی اے کے کھانوں کے ڈبوں کے ڈبے، پی آئی اے کا ٹائلٹ کا سامان، پی آئی اے کے اخبارات اور رسالے، پی آئی اے کے مشروبات، ڈیوٹی فری اشیاء، پائلٹ سے لے کر ایئرہوسٹس تک۔ انجینئر سے لے کر نچلے درجے کے ٹیکنیشن تک، ہر شخص نے، ہر مرد اور ہر عورت نے پی آئی اے کو لوٹا۔ یقینا کچھ دیانت دار مرد اور عورتیں ہوں گی مگر آٹے میں نمک کے برابر، بلکہ اس سے بھی کم!
پی آئی اے کیا تھا؟ سمگلنگ کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا۔ اسلام آباد لاہور، کراچی، پشاور، ملتان کوئٹہ میں مخصوص دکانیں تھیں جہاں امپورٹڈ مال ‘کپڑے، کوٹ، خوشبوئیں، جورابیں، نکٹائیاں، ٹریک سوٹ، میک اپ کا سامان، عورتوں کے پرس وغیرہ وغیرہ وغیرہ ملتا تھا اور یہ مال پی آئی اے کے ملازمین ان دکانوں پر آ کے بیچتے تھے۔ لبرٹی لاہور میں ان دکانوں کا سب کو پتہ تھا۔ جناح سپرمارکیٹ اسلام آباد، جو اب کھوکھوں کی وجہ سے راجہ بازار بن چکی ہے، ماضی قریب تک پی آئی اے کے ملازمین کا ’’پسندیدہ‘‘ کاروباری مرکز رہا ہے! یہاں کرسٹل ون اور کرسٹل ٹو کے نام سے شاندار دکانیں تھیں، پوری لائن میں دکاندار پی آئی اے کے کارندوں کے منتظر رہتے تھے۔
خدا کا خوف کریں وہ سیاست دان ‘جو آج پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر ایک مقام قبر بھی ہے جہاں جانا ہے۔ ایک میدان حشر بھی ہے جہاں جمع ہونا ہے۔ اس کالم نگار نے مسلم لیگ نون کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بہت لکھا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ سے اتنا اختلاف کیا ہے کہ سزا گائوں کے معصوم بے سہارا لوگ بھگت رہے ہیں جہاں ضلعی حکومت کی منظوری کے باوجود ڈسپنسری نہیں بنائی جا رہی۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر موجودہ حکومت ایک سو دس فی صد حق و انصاف پر ہے۔ چلیے، یہ افواہ بھی سچ مان لی جائے کہ یہ کسی ’’اپنی‘‘ پارٹی کو بیچ رہے ہیں تو وہ ’’اپنی‘‘ پارٹی بھی پی آئی اے کی خود غرض یونین بلکہ یونینوں سے لاکھ درجے بہتر چلائے گی!
عشروں پر عشرے گزرتے چلے گئے پی آئی اے میں بھرتیاں بیک ڈور سے ہوتی رہیں۔ خالص سیاسی بنیادوں پر۔ مدتوں پر مدتیں گزریں، اشتہار بھرتی کے کبھی نہ دیکھے گئے۔ ایک بار صرف دو لیڈی ڈاکٹر ملازم رکھی گئیں دونوں ایک سیاسی جماعت کے ’’رہنمائوں‘‘ کی صاحبزادیاں تھیں۔ ان میں سے ایک رہنما اس دنیا میں موجود نہیں۔ ایئرلائن کبھی جیالوں کے لیے دارالامان بنا رہا، کبھی متوالوں کے لیے اور کبھی صالحین کے لیے‘ کارکردگی بدترین رہی۔ لوگ ہمیشہ تمنائی رہے، مسافر ہمیشہ نالاں رہے۔ تارکینِ وطن کے جذبۂ حب الوطنی کا پی آئی اے کے خود غرض ملازمین نے خوب خوب استحصال کیا۔ وطن سے محبت کی وجہ سے تارکین وطن کی اکثریت اپنی ایئرلائن کو ترجیح دیتی رہی یہاں تک کہ پی آئی اے کی غیر ملکی پروازیں بند ہوتی گئیں۔ صرف ایک مثال‘ صرف ایک مثال دیکھ لیجیے: اِس کالم نگار پر کیا بیتتی رہی۔ واشنگٹن جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے اسلام آباد سے لندن اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ واشنگٹن والا جہاز جا چکا تھا۔ اب رات گزارنے کے لیے پی آئی اے کوئی بندوبست کرنے سے 
انکاری تھی۔ پاکستان فون کر کے دبائو ڈالا گیا تب ایک یتیم سے ہوٹل میں ہمارے گروپ کو ٹھہرایا گیا۔ میکسیکو جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے لاہور سے نیویارک اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ میکسیکو والا جہازجا چکا تھا۔ آدھی رات اِدھر اور آدھی اُدھر تھی۔ نیویارک ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی نمائندہ عورت تھی تو پاکستانی نژاد مگر پاکستان دیکھا ہی نہیں تھا۔ بات تک کرنے کی روادار نہ تھی۔ آخرکار نیویارک کے منیجر سے بات کی اور شب بسری کا انتظام ہوا۔ بنکاک پی آئی اے کی پروازیں ہمیشہ، پچانوے فیصد، ہوشرباتاخیر سے پہنچتیں، ہانگ کانگ، سڈنی، میلبورن، کوریا اور انڈونیشیا جانے والے جہاز جا چکے ہوتے۔ پھر ایک دن بنکاک سے پی آئی اے کا خاتمہ ہی ہو گیا۔ وہ پرواز نہیں بھولتی جو اسلام آباد سے بنکاک جارہی تھی۔ بزنس کلاس ان ’’مسافروں‘‘ سے بھری تھی جو پی آئی اے کے ملازم تھے۔ سب مفت خورے! جشن کا سماں تھا۔ آوازیں یوں آ رہی تھیں جیسے پکنک منائی جا رہی ہو! یہ کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہو گی۔ ایک عزیز کی رحلت ہو گئی۔ بھکر جانا لازمی ہو گیا۔ قریب ترین ہوائی اڈہ ڈی آئی خان تھا۔ پتہ چلا جہاز میں جگہ نہیں ہے۔ صرف محکمہ دفاع کی ایک دو مخصوص نشستیں موجود ہیں جن کے لیے کوشش کرنے کا مشورہ دیا گیا؛ چنانچہ کوشش کی گئی اور محکمہ دفاع کے حوالے سے ایک نشست مل گئی۔ جہاز چلا تو اِس کالم نگار کو اپنے بچوں کی قسم! آدھے سے زیادہ خالی تھا۔ یہ تجربے صرف ایک شخص کے ہیں۔ اگر کوئی ایک سو مسافروں کے تجربے اکٹھے کریں تو یہ کتاب دنیا کی حیران کن کتابوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرے گی۔
فی جہاز ملازمین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ دوسری ایئرلائنوں کے ملازمین سنتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ کسی کو نکال نہیں سکتے۔ یونین جنگل کی بادشاہ ہے‘ انتظامیہ اُس کے خونخوار پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہزاروں ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں‘ کام کوئی نہیں کر رہا۔ ملک کے خزانے کو پی آئی اے جونک کی طرح چوس رہی ہے‘ خاندان کے خاندان پل رہے ہیں۔ مشٹنڈے سینے تان کر چل رہے ہیں‘غنڈہ گردی کا راج ہے۔ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رُو سے ہر تین مسافروں کے استعمال کے بعد لیٹرین صاف کرنا ہوتی ہے۔ پی آئی اے میں ایسا ہونے کا تصور ہی نہیں۔ وقت کی پابندی حرام ہے۔ جو ظلم شمالی علاقہ جات کے عوام کے ساتھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے‘ ایک الگ داستان ہے۔
سب سے زیادہ حیرت حضرت سراج الحق پر ہوتی ہے جو شدومد سے نجکاری کی مخالفت فرما رہے ہیں۔ سوشلزم سے جماعت اسلامی کا اور ابوالاعلیٰ مودودی کا کیا جھگڑا تھا؟ یہی کہ پبلک سیکٹر(حکومتی شعبے) میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ مولانا مودودی نے سینکڑوں مقامات پر لکھا کہ نجی شعبے میں منافع کی ترغیب، کاروبار کو جِلا بخشتی ہے۔ جبکہ پبلک سیکٹر میں سرکاری ملازم کو منافع سے کوئی غرض نہیں! سینکڑوں صفحات پر مشتمل ’’چراغِ راہ‘‘ کا سوشلزم نمبر، جماعت نے شائع کیا۔ پروفیسر خورشید احمد اس کے مدیر تھے۔ گزشتہ صدی میں اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کے خلاف جتنا مولانا مودودی نے لکھا، شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ نعیم صدیقی نے اس موضوع پر بے تحاشا لکھا۔ اقتصادی شعبے پر حکومتی کنٹرول کے جتنے نقصانات کی ان حضرات نے نشاندہی کی وہ پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے، محکمہ ڈاک، واپڈا، سوئی گیس، سب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن اب یہی حضرات سٹیٹ کنٹرول یعنی اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کی حمایت میں آگے آگے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ اب   ؎
ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی
اب تک اس ملک میں جتنی ترقی ہوئی ہے نجی شعبے کی مرہون منت ہے۔ ڈاک رسانی میں پرائیویٹ کوریئر کمپنیاں آئیں تو عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ لاہور اسلام آباد رُوٹ پر غیر ملکی پرائیویٹ بسیں چلنا شروع ہوئیں تو پہلی بار اس ملک میں وقت کی پابندی کا تصور وجود میں آیا۔ موبائل فون کی ہما ہمی ساری نجی شعبے سے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انقلاب غیر سرکاری چینل لے کر آئے۔ اس کے مقابلے میں سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، اذیت رسانی کے سوا کچھ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے شدید محنت کے بعد ریلوے کے منہ سے آکسیجن کی نلکی نکالی تو ہے مگر اصل مسئلہ حکومتی شعبے میں بدعنوانی اور اقربا پروری ہے۔ اسد عمر ٹیلی ویژن پر حکومتی کنٹرول کے حوالے سے سنگاپور کے لی اور ملائشیا کے مہاتیر کی مثالیں دے رہے تھے   ؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
مخالفت برائے مخالفت کرنی ہو تو پڑھا لکھا انسان بھی آنکھوں پر خوشی سے پٹی باندھتا ہے۔ لی اور مہاتیر کی مثال دیتے ہیں تو پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ لی اور مہاتیر کی بغل میں بھائی تھا نہ کوئی بھتیجا، بہن تھی نہ صاحبزادہ۔ وہاں ایان علی تھی نہ ڈاکٹر عاصم، نہ گلوبٹ نہ لوہے، دودھ اور پولٹری کے کاروبار پر مضبوط خاندانی گرفت۔ کیا لی اور مہاتیر اپنے اپنے ایف بی آر سے ایک ایک دن کے لیے قانون بدلواتے تھے؟
قومی خزانے میں ایک دھیلا جمع نہ کرانے والی پی آئی اے اور ہر سال قومی خزانے سے اربوں روپے چوسنے والی پی آئی اے کو باقی رکھنا ہے تو ضرور رکھیے۔ مگر صرف ملازمین کی پرورش کے لیے اور صرف اس لیے کہ یونین کی دھونس اور دھاندلی سلامت رہے۔ ہاں مسافروں کے لیے کچھ اور بندوبست کرنا ہو گا۔

بابے

$
0
0
عجیب عالم تھا۔ بیان نہیں کر سکتا۔ زمین… اگر وہ زمین تھی تو ‘ مختلف قسم کی تھی۔ آسمان تھا ہی نہیں! وزن ناپید تھا۔ قدم اٹھاتا تو سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت طے ہو جاتی! ستارے اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے۔ کہکشائیں‘ ایک دوسرے کو شاہراہوں کی طرح کاٹتیں‘ مختلف سمتوں کو رواں تھیں۔ کہیں پھل بوٹے تھے اور باغ چمنستان‘ کہیں پہاڑیاں تھیں‘ سیب اور انار کے درختوں سے ڈھکی ہوئی۔ کبھی صحرا نظر آتے مگر یوں کہ ان کے درمیان میں دریا رواں دواں تھے جن کے کناروں پر سبزہ زار تھے۔ طائروں کی اتنی اقسام تھیں کہ عقل دنگ تھی۔ بولیاں ان کی طرح طرح کی! معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ عالم یہ خواب کا تھا یا بیداری کا۔ اچانک ایک پردہ سا افق سے افق تک تن گیا۔ معلوم ہوا فرشتہ اڑ رہا ہے اور اس کے پروں نے پورے منظر کو جیسے ڈھانپ لیا ہے۔
اچانک دیکھا تو ایک قالین اڑتا چلا آ رہا ہے ۔ایک بزرگ تکیے سے ٹیک لگائے اُس پر نیم دراز بیٹھے ہیں اور کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف سے جُھک کر دیکھا تو کتاب کا نام نظر آیا… ’’باغ و بہار‘‘۔سوچنے لگا ان بزرگوار کو کہیں دیکھا ہے‘ ایک آواز آئی‘ یہ میر امن دہلوی ہیں اور فورٹ ولیم کالج کے لیے ایک نئی تصنیف کی تیاری کر رہے ہیں۔ عجیب عالم تھا اس جہان کا۔ ذرا یادداشت پر زور دیا اور آواز نے آ کر یاد تازہ کر دی! قالین رک گیا۔ میر امن قالین سے اترے‘ کتاب ہاتھ میں پکڑے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور غالیجہ اڑتا چلا آ رہا ہے۔ ایک بزرگ اس پر نیم دراز محو استراحت تھے۔ آواز آئی یہ رجب علی بیگ سرور ہیں۔ لکھنؤ سے آ رہے ہیں۔ بغل میں فسانۂ عجائب نامی کتاب تھی۔ وہ بھی اترے اور میر امن دہلوی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر عبدالحلیم شرر آئے۔ مٹیا برج کلکتہ سے براہ راست سواری ان کی آئی تھی۔
اتنے میں ایک پورا گروہ آتا نظر آیا۔ آگے آگے سر سید احمد خان۔ پیچھے ان کے منشی ذکاء اللہ ‘ حالی‘ شبلی نعمانی‘ ڈپٹی نذیر احمد اور ڈپٹی صاحب کے پیچھے مودبانہ چلتے مرزا فرحت اللہ بیگ! ایک طرف رتن ناتھ سرشار نظر آئے‘ دوسری طرف سے ایک بزرگ‘ صافہ باندھے‘ گھوڑے پر سوار چلے آ رہے تھے۔ دائیں بائیں شاگرد‘ کتابیں کھولے‘ ساتھ ساتھ قدم زن ۔سبق جاری تھا۔ آواز آئی یہ محمد حسین آزاد ہیں اور گورنمنٹ کالج لاہور سے آ رہے ہیں۔پھر منشی پریم چند آئے۔ پھر ایک خاتون آئیں۔ حنا سے بال سرخ تھے۔ ذرا تنک مزاج مگر شان سب سے الگ۔ کتابوں کا انبار ساتھ ساتھ چلا آ رہا تھا۔۔۔۔ کارِ جہاں دراز ہے‘ چاندنی بیگم اور آگ کا دریا۔ یہ قرۃ العین حیدر تھیں۔ ان کے دائیں طرف عبداللہ حسین تھے۔
پھر شعرا آنا شروع ہوئے۔ علامہ اقبال کے ساتھ ان کے علی بخش حقہ پکڑے تھا۔ حیرت تھی کہ سب اسی میدان میں کیوں جمع ہو رہے تھے۔ وہ دیکھیے جُھومتے جھامتے جگر مراد آبادی چلے آ رہے ہیں۔ ن م راشد بدستور پائپ پی رہے تھے اور ’’لا۔انسان‘‘ ہاتھ میں لیے تھے۔ ایک دُبلا پتلا شخص‘ نظر کی عینک لگائے‘ سائیکل بہت آہستہ چلاتا آیا۔ آواز آئی یہ مجید امجد ہیں جنہیں بلیک آئوٹ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ نصابی کتابوں سے انہیں آئوٹ رکھا گیا مگر شان ان کی اسی طرح اونچی رہی‘ کمی کوئی نہ لاسکا! انہوں نے سائیکل کھڑی کی تو خود بخود ٹِک گئی اور وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ اچانک ایک جانی پہچانی آواز آئی ۔’’اظہار! چھوٹے بحر کی غزل سنائو تو تمہارا کچھ پتا بھی چلے‘‘ یہ جون ایلیا تھے جو حالتِ حال میں تھے!
پھر ایک خوش وضع ‘ خوش لباس‘ نرم گفتار شاعر تشریف لایا۔ یہ فیض تھے۔ آواز آئی‘ان کی شاعری نے ان کا قد اتنا اونچا کیا کہ کسی بیساکھی کی ضرورت نہ تھی مگر ان کے پس ماندگان نے الیکٹرانک میڈیا پر قبضہ کیے رکھا اور اپنی غرض کے لیے انہیں سیاسی شاعر بنانے کی کوشش کی۔ فیض صاحب نے اس سارے بکھیڑے سے یکسر بیزاری کا اظہار کیا! پھر ایک ترکمانی قالین اڑتا آیا۔ ایک بزرگ اس پر پورے دراز تھے۔ یہ منیر نیازی تھے۔ میریٹ اسلام آباد کے مشاعرے میں سٹیج پر اسی طرح لیٹے تھے کہ وہیں سے اس طرف چل پڑے۔
پھر ایک بزرگ آئے ۔ سون سکیسر کی پگڑی پہنے اور سرخ لاچہ باندھے ۔ خوش گفتار اتنے کہ بات کریں تو پھول جھڑیں ۔ چہرے پر ملائمت ہی ملائمت۔ نرمی ہی نرمی۔ کئی قالین ان کے دائیں بائیں جیسے تیرتی چلی آ رہی تھیں۔ ایک پر افسانوں کے مجموعے، دوسری پر شاعری کے دیوان‘ تیسری پر فکاہی کالم‘ چوتھی پر فنون کی فائلیں۔ یہ احمد ندیم قاسمی تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے فراز صاحب‘ کنکھیوں سے خواتین کو دیکھے جا رہے تھے‘ مگر خواتین میں تھیں ہی کون‘ قرۃ العین حیدر‘ خدیجہ مستور اور جمیلہ ہاشمی!
پھر ایک آواز آئی جس نے سب کی سماعتوں کو ڈھانپ لیا۔’’اب وہ صاحب آ رہے ہیں جن کے استقبال کے لیے ان متقدمین اور متاخرین کو یہاں دعوت دی گئی ہے‘‘۔ ہلکا سا شور برپا ہوا۔ ایک طرف سے کچھ گرد اٹھی‘ پھر بیٹھی ۔ سب کی نظریں اُسی طرف تھیں۔ دیکھا تو یہ انتظار حسین تھے۔ چال میں آہستگی تھی۔ مگر عجیب دلکشی! نظروں میں بیٹھ جانے والی! سب نے مرحبا مرحبا کہا۔ کوئی صدقے کہہ رہا تھا تو کوئی جی آیاں نوں! اب جو معانقے اور مصافحے شروع ہوئے تو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے تھے۔ کبھی رجب علی بیگ ان کی پیٹھ پر تھپکی دیتے تو کبھی میر امن۔ دہلوی بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق نے تو گال بھی تھپتھپائے !! فراق صاحب دیر تک بغل گیر رہے! کوئی ہاپوڑ کا حال پوچھ رہا تھا تو کوئی جاننا چاہتا تھا کہ لاہور میں نہاری عام ہوئی یا ابھی تک پائے اور نان چھولے ہی راج کر رہے ہیں! میرٹھ والے ایک طرف کھڑے ان سے بہت دیر باتیں کرتے رہے۔ ان میں سلیم احمد اور پروفیسر کرار حسین تھے۔ فراق صاحب نے پھبتی کسی: ’’میاں لاہور تو تم چلے گئے مگر تمہاری تحریریں ہجرت کا ماتم ہی کرتی رہیں‘‘۔
پھر خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی میں ناصر کاظمی کی آواز ابھری۔ انتظار ! تم چلے تو آئے مگر کیا پیچھے بھی کسی کو چھوڑ آئے؟ یا مکمل سناٹا ہے؟‘‘ انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے سر پر اڑتے کبوتروں کو دیکھا اور بتانے لگے : ’’بس! منظر نامہ پیچھے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں! میرے حساب میں تو چار پانچ بابے ہی بچے ہیں! خدا کرے قسمت اردو کی یاوری کرے اور یہ عمر خضر پائیں!‘‘
’’کون کون سے؟ ‘‘ سب نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’بھائی‘ سب سے بڑا بابا تو ظفر اقبال چھوڑ آیا ہوں۔ کہولت سے بھر پور مقابلہ کیے جا رہا ہے اور مسلسل لکھے جا رہا ہے۔ شاعری میں وہی تازگی ہے اور کالموں میں وہی کاٹ جس سے مشکل سے ہی کوئی بچ پاتا ہے۔ پھر شمس الرحمن فاروقی کو چھوڑ آیا ہوں اور مشتاق احمد یوسفی کو۔ دو بابے اور ہیں‘ مستنصر حسین تارڑ سفر ناموں اور ناولوں کا بے تاج بادشاہ! ہر نئی تصنیف اس کی خستگی میں پرانے لاہور کے تازہ کلچوں کو مات کرتی ہے اور بابا عطاء الحق قاسمی جس نے کالم نگاری کی تو اس آن بان سے کہ اسے اردو ادب کی صنف بنا دیا ۔وصیت ناموں میں موت سے اتنا ڈرایا کہ سنا ہے تبلیغی جماعت والے ان وصیت ناموں کو اپنے نصاب کا حصّہ بنانے پر تلے ہیں!‘‘
انتظار حسین نے ناصر کاظمی کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چل دیے۔ سروں پر کبوتروں کی ڈار تھی!!

مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری

$
0
0
مریض کو داخل کرانے کے تین چاردن بعد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ہسپتال کا معاملہ گڑبڑ ہے۔
ہسپتال کیا تھا، افراتفری کی منڈی تھا۔ بدانتظامی کا بدترین نمونہ! کوئی ڈاکٹر وقت پر نہیں آتا تھا۔ نرسیں آرام سے بیٹھی سویٹریں بنتی رہتیں۔ دوائیںجن دکانداروں سے خریدی جاتیں انہی کو آدھی قیمت پر واپس بیچ دی جاتیں۔ آپریشن تھیٹر ذبح خانوں کی طرح تھے، جہاںمریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چیرا پھاڑا جاتا۔ وارڈ اتنے گندے کے ابکائی آتی!
اس بدانتظامی میں مریض کیا خاک ٹھیک ہوتا۔ ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ہم اپنے مریض کو یہاں سے اٹھائیں اور کسی ڈھنگ کے شفاخانے میں لے جائیں، خواہ وہ مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔
مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا۔ مریض کے لواحقین دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ چاہتا تھا کہ مریض کو کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔ دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ مریض یہیں رہے مگر ہسپتال کا نظام بہتر کیا جائے۔ سسٹم کی خرابیاں دور کی جائیں۔ ڈاکٹروں کو نظم و ضبط کا پابند کیا جائے۔ ادویات کی خورد برد کو کنٹرول کیا جائے۔ بدمزاج، نکمی نرسوں کو برطرف کرکے نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔ آپریشن تھیٹر نئے بنائے جائیں۔ جب ہسپتال کی حالت بدلے گی تو ہمارے مریض کا علاج بھی بہتر ہونے لگے گا!
آپ کا کیا خیال ہے، مریض کے حق میں کیا بہتر تھا؟ پہلے گروہ کا موقف کہ مریض کو یہاں سے کہیں اور لے جایا جائے یا دوسرے گروہ کا نقطۂ نظر کہ پہلے سسٹم کو ٹھیک کرو! ظاہر ہے سسٹم کے ٹھیک ہوتے ہوتے مریض نے جان دے دینی تھی۔ تاتریاق ازعراق آوردہ شود ۔ مارگزیدہ مردہ شود۔ عراق سے تریاق کے آتے آتے سانپ کا ڈسا ہوا اللہ کو پیارا ہو جائے گا!
یہی تو ہم چیخ رہے ہیں کہ اللہ کے بندو! پی آئی اے مریض ہے۔ ایسا مریض جو جاں بلب ہے۔ ہچکی لگی ہے۔ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسے سرکاری شعبے کی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نکال کر نجی شعبے میں لے جائو، ورنہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ملازمین اس مریض کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں گے اور یونین کے سفاک خود غرض عہدیدار اپنے شکم کے تنوروں کی خاطر اس مریض کو زمین کے اندر دفنا کردم لیں گے۔ مگر دوسرا گروہ مصر ہے کہ نہیں! پی آئی اے کو سرکاری شعبے ہی میں رکھا جائے۔ ہاں، سرکاری سیکٹر میں جو خرابیاں ہیں وہ دور کی جائیں! یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ جو سرکاری سیکٹر میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، تو اس کے ٹھیک ہونے کا تو کوئی امکان ہی دور دور تک نہیں نظر آتا۔ تو کیا رشوت، بدانتظامی، نااہلی، اقربا پروری، دوست نوازی، یونین بازی، بددیانتی، خیانت… دور ہونے تک پی آئی اے اسی طرح گلتی سڑتی رہے؟ یہاں تک کہ گلے سڑے جسم میں کیڑے پڑ جائیں اور لاش ویرانے میں پھینک دی جائے؟
دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ آخر یہی سرکاری سیکٹر تھا جس میں پی آئی اے، ساٹھ ستر کے عشرے میں لاجواب کارکردگی دکھا رہی تھی اور دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی! بجا فرمایا! مگر وہ تو ماضی کا قصہ ہے! اس وقت پاکستان کی حکومتوں میں بدعنوانی، رشوت اور اقربا پروری برائے نام تھی۔ قانون کی بالادستی تھی۔ اس وقت تو ریلوے بھی درست چل رہی تھی۔ واپڈا بھی صحیح کام کر رہا تھا۔ لوڈشیڈنگ کے نام سے بھی کوئی نہیں واقف تھا۔ ڈاکخانے کا محکمہ برق رفتار تھا۔ کراچی سے خط دوسرے دن لاہور پہنچ جاتا تھا۔ آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں؟ وہ زمانے ہوا ہو چکے۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اس وقت پاکستان کا حکومتی شعبہ گیلانیوں، راجہ اشرفوں، ڈاکٹر عاصموں، سیف الرحمانوں، گلو بٹوں اور ایان علی جیسی ماڈلوں کی چراگاہ نہیں ہوا تھا۔ آپ کا حکومتی شعبہ تیز دھار دانتوں اور مضبوط جبڑوں کے درمیان پھنس چکا ہے۔ اب تو حاجیوں کے احرام بک گئے۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمینیں غائب ہوگئیں۔ ڈاکخانے کا یہ عالم ہے کہ یو ایم ایس(ارجنٹ میل سروس) جس نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ملنا ہوتا ہے، پانچویں دن ملتا ہے۔ نافرمان بیٹے کو ماں نے بددعا دینی ہو تو کہتی ہے جا تجھے واپڈا اور سوئی گیس کے محکموں سے پالا پڑے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے دل میں حکومتی سیکٹر کے لئے نرم گوشہ موجود ہے تو جائے اور جا کر ایک دن کچہری میں گزارے، ایک دن تھانے میں بیٹھ کر دیکھ لے یا پانچ مرلے کا پلاٹ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں جا کر بیٹے کے نام منتقل کرکے مزا چکھ لے!
دوست گرامی جناب ارشاد عارف کا یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کی نج کاری کے بعد راتوں رات فی بوری قیمت میں ایک سو روپے کا اضافہ ہوا! غلط ہوا۔ مگر حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، دوسروں کے کاروبار پر نظر رکھنا ہے۔ ایک طریقہ قیمتیں کم کرنے کا آزادانہ مسابقت ہے۔ امریکہ اور پورے یورپ میں نجی ایئرلائنوں کا جال بچھا ہے، مقابلہ اتنا ہے کہ سفر کرنے سے ایک ماہ پہلے کوڑیوں کے بھائو ٹکٹ ملتے ہیں۔ میلبورن سے سڈنی تک تیس تیس ڈالر میں ٹکٹ ملتے دیکھے ہیں!
کوفہ آباد ہوا تو اس کی تعمیر و توسیع میں سرکاری سیکٹر کا کوئی عمل دخل نہ تھا مگر حکومت عوام کے مفاد کے لئے چوکنا تھی۔ حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ کوئی عمارت اتنی منزلوں سے زیادہ کی نہ ہو۔ پھر جب گھوڑوں کا ایک تاجر مدینہ میں بہت سے گھوڑے لے آیا تو آپ نے اس پر واضح فرمایا کہ اپنے گھوڑوں کا چارہ باہر سے منگوائو کیونکہ مدینہ کا سارا چارہ تمہارے گھوڑے کھاگئے تو دوسروں کا کیا بنے گا! یہ ہیں حکومت کے فرائض! یوں بھی حکومت خود کاروبار کرنے لگے تو دوسروں کے کاروبار کو غیر جانبدارانہ طور پر کس طرح کنٹرول کرسکے گی؟ اس کا کام تو یہ ہے کہ کاروبار کی دنیا کو شفاف رکھے، خیانت کرنے والوں کو کڑی سزا دے۔ ناجائز منافع خوری کو روکے اور ٹیکس جمع کرکے عوام کو سکیورٹی فراہم کرے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہر دوسرے گھر میں ڈاکہ پڑ رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان کا جرم انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے۔ بھتہ خوری عام ہے اور حکومت ایئر لائنیں چلا رہی ہے! واہ! کیا بات ہے حکومتی ترجیحات کی!!
ہاں! یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ نج کاری شفاف انداز میں ہونی چاہئے۔ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے کسی منظور نظر فرد یا افراد کو قومی اثاثے اونے پونے داموں فروخت کریں اور یوں دال جوتیوں ہی میں بٹ جائے۔
ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پی آئی اے کی نج کاری کے لئے حکومت ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائے جس میں اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔ نج کاری کا سارا عمل ایسی کمیٹی کی نگرانی میں مکمل کیا جائے۔ اس میں اسد عمر، نوید قمر، کائرہ صاحب اور دوسرے اصحاب شامل ہوں اور اگر اپوزیشن جماعتیں تعاون نہ کریں تو نجی شعبے سے اچھی شہرت رکھنے والے ٹیکنوکریٹ اس کمیٹی کے رکن بنائے جائیں۔ سب کچھ میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ہو اور نجکاری پوری شفافیت اور حق و انصاف سے کی جائے!
رہا یہ مطالبہ کہ پی آئی اے حکومتی شعبہ ہی میں رہے مگر حکومتی شعبہ اپنے لچھن ٹھیک توکرے۔ یہ مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے یہ فرمائش کی جائے کہ زرداری صاحب عبدالستار ایدھی بن جائیں ، میاں محمد نواز شریف مہاتیر بن جائیں اور سید قائم علی شاہ سنگاپور کے لی بن جائیں۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر یہ خبر بھی درست ہو گی کہ    ؎
سکھر کا پُل، جہلم دریا دونوں ہو گئے چوری
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری

سینے پر رکھا بیر اور گھڑ سوار

$
0
0
دادا خان نوری غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا سرخ سفید چہرہ مزید سرخ ہو گیا۔ میں ہنس پڑا۔
پہلی ملاقات دادا خان نوری سے تاشقند میں ہوئی۔ مختار حسن مرحوم نے ان کا پتہ دیا تھا۔ اُس وقت تاشقند میں پاکستانی سفارت خانہ تھا ‘نہ اسلام آباد میں ازبک سفارت خانہ! وسط ایشیا کی ریاستیں نئی نئی آزاد ہوئی تھیں۔
دادا خان نوری نے تاشقند یونیورسٹی میں ہندی پڑھی تھی۔ اس لیے اردو لکھ نہیں پاتے تھے مگر بول لیتے تھے۔ تاشقند میں وہ پاکستان کے چلتے پھرتے سفیر تھے۔ پاکستان کی محبت دل میں بسائے‘ کبھی سفارت خانے کے قیام کی کوشش کر رہے ہوتے‘ کبھی پاکستانی سیاحوں کی رہنمائی کر رہے ہوتے اور کبھی پاکستان کے سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ۔کئی بار پاکستان آئے۔ متعدد بار غریب خانے پر قیام کیا۔ یہ لوگ پانی نہیں پیتے۔ مسلسل چائے پیتے ہیں جس میں میٹھا نہیں ہوتا۔ جب بھی تشریف لاتے، گھر والے ان کی چائے کا خاص خیال رکھتے۔ چینک ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتی۔
اُس دن صبح صبح اُٹھ کر وہ سیر کے لیے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ ہر گھر کے ساتھ، اردگرد، خالی جگہ ہے اور بیکار پڑی ہے۔ کیا آپ لوگ پھل دار درخت نہیں لگا سکتے؟ کیا آپ لوگ سبزیاں نہیں اگا سکتے؟‘‘
میں ہنس پڑا۔ اور کیا کرتا! تزک بابری یاد آ گئی جس میں بابر اہلِ ہند کا تمسخر اڑاتا ہے کہ باغوں، پھولوں، پودوں کا ذوق نہیں رکھتے۔ تاشقند میں اور پورے وسط ایشیا میں یہ حال ہے کہ ہر گھر پھلوں میں تقریباً خود کفیل ہے۔ روایتی گھروں کا نقشہ ہی وہاں یہ چلا آ رہا ہے کہ اردگرد رہائشی کمرے ہوتے ہیں اور درمیان میں بڑا صحن جسے ’’حولی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پھلوں کا باغ ہوتا ہے۔ انگور، چیری، سیب، اخروٹ، ناشپاتی، آڑو، آلو بخارا اور نہ جانے کیا کیا۔ چیری اور شہتوت کا رس ہرگھر میں عام استعمال ہوتا ہے۔
دادا خان نوری کے بجائے کوئی اور ہوتا، کوئی انگریز ہوتا، سنگاپور کا کوئی چینی ہوتا، کوئی جاپانی ہوتا، اُس نے بھی یہی کہنا تھا کہ تم پاکستانی عجیب مخلوق ہو! اس میں کیا شک ہے کہ ہم اہلِ پاکستان عجیب لوگ ہیں۔ 
اپوزیشن ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ جو حکومت بھی ہو، اس میں کیڑے نکالتے ہیں۔ احتجاجی سیاست میں جواب نہیں۔ ہاں! اگر نہیں کرنا تو خود کچھ نہیں کرنا۔ ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو شاہراہ کے کنارے گھاس پر لپٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر بیر رکھا تھا۔ ایک گھوڑ سوار گزرا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اترو اور یہ بیر میرے منہ میں ڈالو۔ گھوڑ سوار نے سنی ان سنی کر دی۔ اس پر لیٹے ہوئے شخص نے طعنہ دیا کہ تم کس قدر سست ہو۔
گھروں کے اندر اور گھروں کے ارگرد پھل دار درخت لگانا اور سبزیاں اگانا تو دور کی بات ہے۔ نوے پچانوے فی صد گھروں کے ارگرد کوڑا کرکٹ پڑا ہوتا ہے۔ وہی نہیں صاف کیا جاتا تو پھل دار پودے کون لگائے! گیٹ کے نیچے نالی نہیں رکھی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں کی ’’کوٹھی‘‘ کے پورچ میں کاریں دھوئی جاتی ہیں اور پانی گلی میں بہتا ہے۔ جتنی وسیع زمین قدرت نے اہلِ پاکستان کو دی ہے، بہت سے ملک اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے ملک بھی ہیں جو سبزیاں اور پھل دار درخت گملوں میں لگا اور اگا رہے ہیں اور ہم سے زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں! یہ امتیاز صرف ہمیں حاصل ہے کہ زمین وافر ہے۔ وقت کی کمی نہیں۔ مگر ہمت ہے نہ عقل۔
پانی کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بارش کا پانی لاکھوں کروڑوں لٹرضائع ہو رہا ہے۔ جو ممالک اس ضمن میں حساس ہیں، وہاں بارش کاپانی جمع کر لیا جاتا ہے۔ چھتوں کا پانی پائپ کے ذریعے نیچے لایا جاتا ہے۔ ایک الگ ٹینکی اس پانی کے لیے بنائی جاتی ہے اور یوں اس پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ باغبانی کے لیے، کار دھونے کے لیے اور کئی دوسرے مقاصد کے لیے یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ کموڈ کی ٹینکی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے، دو بٹن لگائے جاتے ہیں تا کہ ہر بار پوری ٹینکی کے بجائے، آدھی ٹینکی کا پانی فلش میں استعمال ہو۔ یوں پانی کا استعمال پچاس فی صد کم کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اجتماعی سطح پر جس ملک میں بارشوں اور سیلابوں کا اربوں کھربوں ٹن پانی ضائع ہو رہا ہے اور سیدھا سمندر میں گر رہا ہے‘ وہاں انفرادی لحاظ سے گھروں کا ماتم کیاکیا جائے۔ حکومت ڈیم نہیں بنا رہی۔ بری ہے، مگر کیا زمیندار اور کسان ڈیم بنا رہے ہیں؟
گھروں کی تعمیر پر غور کیجیے۔ غور کرنے سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ شخص، جو پتلون قمیض یا ریشمی واسکٹ پہنے، راج اور مزدوروں کے سر پر کھڑا، محل نما مکان بنوا رہا ہے، کس قدر احمق ہے! ایک طرف یہ رونا کہ بجلی مہنگی ہے۔ ایئرکنڈیشنر کا بل زیادہ آ رہا ہے۔ ہیٹر چلے تو گیس کی قیمت جیب پر جیسے ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف گھروں کے کمرے بے تحاشا بڑے۔ ایک اصطلاح چل نکلی ہے۔ ’’ماسٹر بیڈ روم‘‘۔ یہ بڑا ہونا چاہیے۔ عقل کے اندھے سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہونا چاہیے؟ کیا تم نے یہاں کبڈی کھیلنی ہے؟ تمہارا دن پیسے کمانے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ کچن میں مصروف رہتی ہیں یا ملنے ملانے میں۔ شام کو تم لوگ لائونج میں بیٹھ کر، بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہو۔ ماسٹر بیڈ روم رات کو سونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آدھا ہو، تب بھی کافی ہے۔ ایک خواب گاہ میں آخر کیا چاہیے؟ پلنگ، سنگل یا ڈبل! ایک دو کرسیاں۔ تھوڑی سی جگہ نماز ادا کرنے کے لیے۔ بس یہ ہے ایک خواب گاہ کی ضرورت۔ بیڈ روم جتنا چھوٹا، یعنی ضرورت کے اعتبار سے پورے سائز کا ہو گا، بجلی، ہیٹر اور ایئرکنڈیشنر کا خرچ اتنا ہی کم ہو گا۔ اسی طرح سچ پوچھیے تو کھانے کے کمرے کی الگ ضرورت نہیں۔ کھانے کی میز لائونج میں بھی لگائی جا سکتی ہے اور بیٹھک میں بھی جسے اب ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے جو شیش محل کی طرح سجایا جاتا ہے مگر استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ کمروں کا سائز کم کرنے سے، جو جگہ بچے، اس سے صحن کا یالان کا سائز بڑا ہو سکتا ہے۔ جہاں سبزہ بھی لگایا جا سکتا ہے، پھل دار درخت بھی اور سبزیاں بھی اگائی جا سکتی ہیں۔
’’عقل مند‘‘ ملکوں میں گھروں کی بیرونی صورت پر پیسہ نہیں لٹایا جاتا۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک دیکھ لیجیے، باہر سے سارے گھر سادہ اور ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالت میں رنگ روغن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ صرف پاکستان اور عرب دنیا میں گھروں کی بیرونی آرائش پر بے تحاشا اسراف بلکہ تبذیر سے کام لیا جاتا ہے۔ ڈھیروں ماربل تھوپا جاتا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے خوبصورت، زیور نما، اینٹیں منگوا منگوا کر، ٹانکی جاتی ہیں۔ کچھ ’’اہلِ ذوق‘‘ گیٹ پر سونے کے رنگ کی پتریاں لگواتے ہیں، جنہیں دیکھ کر، سچ پوچھیے تو اُبکائی آتی ہے۔ اس دبئی پلٹ ذہنیت کا بس چلے تو مکانوں کے باہر سونے کی چوڑیاں، بندے، بِندی اور ٹِکا بھی لٹکا دے۔ 
مگر عوام پر کیا گلہ! جس ملک کے حکمرانوں کی ذہنی سطح یہ ہو کہ وہ کروڑوں روپوں کی گھڑی باندھ کر تسکین حاصل کریں‘ وہاں کے عوام کا ذوق بھی تو یہی ہو گا کہ گھر کروڑوںکے، گلیوں میں کوڑا کرکٹ، درخت پودے پھل پھول ناپید اور سڑکوں پر پانی۔

جَٹ چڑھیا کچہری

$
0
0
شریف آدمی عمر رسیدہ اور پریشان تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زندگی کا کیا پتہ، رگِ جاں کس وقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے۔ اس ملک میں ہر شریف آدمی کی یہی خواہش ہے کہ اس کے بچوں کو کچہری اور تھانے کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور وہ اپنی زندگی ہی میں جو کچھ اس حوالے سے کر سکتا ہے،  کر جائے۔ یہ شریف عمر رسیدہ آدمی بھی کچہری پہنچا اور متعلقہ اہلکار سے درخواست کی کہ وہ اپنا مکان اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کرانا چاہتا ہے۔ اہلکار نے اُسے دیکھا۔ دیکھا کیا، اس کا جائزہ لیا۔ کچہری کا اہلکار جائزہ لیتا ہے تو سائل کی مالی حیثیت کا اندازہ فوراً لگا لیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ اہلکار پہنچے ہوئے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ سر سے لے کر پائوں تک دیکھنے کے بعد اس نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ عمر رسیدہ شخص حیران ہوا…’’مگر میں مکان خرید یا بیچ نہیں رہا۔ میرا اپنا مکان ہے اور کاغذات پر بیٹے کے نام منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ پچیس ہزار روپے کیوں؟‘‘ اہلکار نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے سائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ عمر رسیدہ شخص کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس آ گیا۔
ہمارے شہری دوستوں کو قطعاً اندازہ نہیں کہ گائوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رشتوں، خاندانوں، برادریوں، دوستیوں اور دشمنیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ دیہاتی زندگی میں کوئی چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔ مزارع کی بھینس مر جائے تو چوہدری صاحب کو بھی جانا ہوتا ہے اور زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانا ہوتا ہے۔ ایک لڑکا افسر بن جائے تو پورے گائوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ’’ہم‘‘ نے پڑھا لکھا کر اسے افسر بنایا ہے۔ گائوں سے آئے ہوئے ملاقاتی کو چائے نہ پلائے، کھانا نہ کھلائے، اس کا کام نہ کرے تو گائوں میں محشر بپا ہو جاتا ہے اور اگلی بار افسر جب گائوں جاتا ہے تو ہر طرف سے شکووں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہم پنجاب کے دیہاتی کہا کرتے ہیں’’لیں جی! ڈاکخانہ مل گیا‘‘ ۔ اس شریف عمر رسیدہ شخص کا تعلق بھی برادری کے حوالے سے ہمارے علاقے سے تھا! چنانچہ اس نے ’’ڈاکخانہ ملایا‘‘ اور ایک صبح ایک مشترکہ عزیز کو ساتھ لیے پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر (یعنی ڈی سی او صاحب) سے صاحب سلامت تھی۔ فریاد کی تو انہوں نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو حکم دیا۔ چنانچہ واجبی سی سرکاری فیس کے ساتھ کام ہو گیا۔
یہ ہے ہماری کچہریوں کا حال! یعنی محکمۂ مال کا! جسے لینڈ ریونیو
(Land Revenue)
 کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(کرپشن بیرومیٹر 2013ء) کے اعداد و شمار پڑے ہیں۔ بدعنوان ترین محکمہ یہی لینڈ ریونیو کا محکمہ ہے۔ اس کے بعد پولیس اور
 Utilities
 کے محکمے آتے ہیں۔ سروے کے دوران 75 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ سب سے زیادہ کرپشن کچہریوں میں ہے۔ اس میں پٹواری، تحصیلدار سب شامل ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ زمیندار یا وڈیرا جب وزیر بنتا ہے تب بھی پٹواری کی ’’خدمت‘‘ جاری رکھتا ہے اس لیے کہ وہ جو اقبال نے کہا تھا  ع
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
تو جاگیردار وزیر بن جائے یا سفیر، اس کی رگِ جاں محکمہ مال ہی کے پنجے میں رہتی ہے! ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے، سیاست دانوں سے لے کر پولیس تک، کسٹم سے لے کر ماہی گیری تک، ترقیاتی اداروں سے لے کر جہازوں کی خرید و فروخت تک، سب کو برہنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نہیں ذکر ہوتا تو کچہریوں میں ہونے والی کرپشن کا ذکر نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے حکومتوں نے اور عوام نے اور کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ کچہریوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’’معمول‘‘ کی کارروائی ہے۔ یا وہ ایک لحاظ سے اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ناقابلِ اصلاح ہے۔ ضلعی انتظامیہ میں جو افسر فوج سے آئے، ان میں سے چند ایک نے ضرور کوشش کی کہ محکمہ مال کا قبلہ درست کیا جائے مگر پورا سیٹ اپ ان کے خلاف تھا۔ ایک شخص کیا کر سکتا ہے اور کتنا کر سکتا ہے۔ یوں بھی ایسے افسر کو جلد کسی ’’بے ضرر‘‘ عہدے پر لگا دیا جاتا ہے۔
صدر پرویز مشرف نے ضلعی ناظم کا ڈول ڈالا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ انگریزوں کی قائم کردہ روایت سے بغاوت تھی۔ انگریزوں نے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ اس لیے قائم کیا تھا کہ وہ ہر حال میں ملکہ برطانیہ کا وفادار رہے۔ اس کی اصل ڈیوٹی ضلع کے عوام کی خدمت نہیں تھی بلکہ انگریزی اقتدار کا استحکام تھا۔ یہ الگ بات کہ یہ انگریز ڈپٹی کمشنر محنتی تھے اور انصاف قائم کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ ان لوگوں نے خوب محنت کی۔ مقامی زبانیں سیکھیں، ہر ضلع کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات مرتب کر کے ضلعی گزٹ تصنیف کیے اور شائع کیے۔ پاکستان بنا تو ڈپٹی کمشنر نے یہ سارے کام چھوڑ دیئے۔ وہ سیاست دانوں کو خوش کرنے میں لگ گیا۔ کسی ضلع کا گزٹ بھی 1947ء کے بعد آگے نہیں بڑھا۔ ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ ووٹ اس نے لینے نہیں۔ تین سال رہنا ہے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ تعلق وہ صرف ضلع کے چیدہ چیدہ عمائدین سے قائم رکھتا تھا جو اس کے کیریئر کی تعمیر میں کام آ سکتے تھے۔
ضلعی ناظم کا ادارہ وجود میں آیا تو یہ ایک اجالے کی کرن تھی۔ ناظم کو معلوم تھا کہ اس کا جینا مرنا اسی ضلع میں ہے۔ اس نے اپنے ووٹروں کو بھی منہ دکھانا تھا۔ اپنی ساکھ بھی بنانی تھی۔ شہرت بھی داغدار ہونے سے بچانی تھی اور ضلعی اسمبلی میں اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا تھا۔ اگر ضلعی حکومتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اگر ناظم حضرات تربیتی مراحل سے گزرتے رہتے۔ تجربہ حاصل کر جاتے تو اس ملک کی قسمت بدل جاتی۔ کہاں تین سال بعد غائب ہونے والا بابو ڈپٹی کمشنر اور کہاں شلوار قمیض اور چپل پہننے والا ناظم جس کا سب کچھ اسی ضلع میں تھا۔ یہ کالم نویس شدید احساسِ ذمہ داری کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے کہ اگر ضلعی حکومتیں زندہ رہتیں تو کچہریوں میں کی جانے والی کرپشن کا، جلد یا بدیر، سدباب ہو جانا تھا مگر افسوس! سیاست دانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضلعی ناظم کو چلتا کیا اور یس سر یس سر کا راگ الاپنے والی نوکرشاہی کو دوبارہ ضلع کا بادشاہ بنا ڈالا۔ گویا اکیسویں صدی سے ملک واپس کلائیو اور کرزن کے زمانے میں پہنچ گیا۔ انڈونیشیا میں کسٹم کے شعبے میں جب کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اس ملک نے ایک عجیب و غریب حل نکالا۔ اس نے کسٹم کے شعبے کی نجکاری کر دی۔ سوئٹزر لینڈ کی ایک فرم کو یہ کام سونپ دیا گیا۔ اس فرم کے دفاتر دنیا کے بہت سے ملکوں میں تھے۔ اس کے ملازمین درآمدات اور برآمدات کی قیمت کا تعین کرنے کے ماہر تھے۔ طریقِ کار یوں تھا کہ فرض کیجیے، انڈونیشیا کے ایک تاجر نے جاپان سے مال منگوایا۔ یہ فرم جاپان میں اس مال کا معائنہ کرے گی اور تصدیق کرے گی کہ مال بیچنے والی جاپانی کمپنی اتنی ہی قیمت مانگ رہی ہے جو جاپان کی منڈی میں ہر جگہ مانگی جا رہی ہے۔ پھر وہ اس مال کی مالیت کا حساب لگا کر مال کو سربمہر کر دے گی اور انڈونیشیا کی حکومت کو اپنے طور پر کاغذات بھیجے گی جس میں مالیت کا اندراج ہو گا۔ اور یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ درآمد کرنے والے سے کسٹم محصول کتنا لیا جائے گا۔اس عمل کا نام Pre-shipment Inspection
 تھا۔ یوں کسٹم کے اہلکاروں کے اختیارات برائے نام رہ گئے۔ وہ اپنے طور پر مال کی قیمت کم یا زیادہ کر سکنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اس طرح بہت حد تک بدعنوانی کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد میں اس نظام کا کیا بنا اور صدر سوہارتو کے خاندان کی رسوائے زمانہ بدعنوانی کس طرح آڑے آئی، یہ ایک الگ داستان ہے جس کا آج کے موضوع سے تعلق نہیں۔
کچہریوں میں عام پاکستانی سسک رہا ہے۔ بلک رہا ہے۔ نائب قاصد سے لے کر پٹواری تک، قانون گو سے لے کر تحصیل دار تک، اور اس سے ’’اوپر‘‘ تک ایک باقاعدہ لمبا چوڑا ’’سلسلہ‘‘ ہے جو چلا آ رہا ہے، جڑیں جس کی گہری ہیں او رشاخیں جس کی فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ انتقال تو بعد کی بات ہے، محکمہ مال سے فرد لینا جان جوکھوں کا کام ہے۔
اس کا ایک ہی علاج ہے۔ نجکاری! نجی شعبے کی کسی نیک نام کمپنی کو یہ کام سونپیے۔ ایک تو وہ لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کر دے گی۔ جسے پٹواری جان پر کھیل جائے گا مگر نہیں ہونے دے گا۔ پھر وہ کمپنی ہر کچہری میں اپنا کائونٹر قائم کرے۔ سائل وہاں جائے ،سرکار کی طرف سے مقررہ فیس ادا کرے اور کمپنی سارا کام کر کے، ایک مقررہ تاریخ کے اندر اندر سائل کے حوالے کرے۔ رہا یہ اعتراض کہ ایسی کمپنی بھاری معاوضہ لے گی۔ تو جو رقم اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہی ہے، یہ ’’بھاری‘‘ معاوضہ اس سے کم ہی ہو گا۔ کہیں کم!!
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسا انقلابی قدم اٹھانے کے لیے مہاتیر یا لی کوآن یو، جیسے رہنما درکار ہیں۔ اور مہاتیر اور لی جیسے رہنما بازار سے نہیں ملتے   ع
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے!

لطیفے ہی لطیفے

$
0
0
بعض دن اتنے خوشگوار ہوتے ہیں کہ لطیفوں سے شروع ہوتے ہیں اور لطیفوں ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ خوف اور بے یقینی کی اس فضا میں ایسے ایام غنیمت ہیں۔ یوں بھی کل کا دن بیزار گزرا۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ دارالحکومت کے لوگ خوش تھے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر دس سال بعد برفباری ہوئی۔ لیکن برف باری سب کو تو پسند نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ایک چمکدار دن پسند کرتے ہیں۔ سرما کی نرم دھوپ ! اور اگر سرد ہوا نہ چل رہی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے! ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیر گہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
برف اور دھوپ کے موسموں کو چھوڑ کر اُن لطیفوں کی طرف آتے ہیں جن سے دن کا آغاز ہوا۔ دوحہ (قطر) میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تین سال میں پاکستان بدل گیا ہے۔ حکومت وعدوں کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ اخبارات کے پہلے صفحات پر یہ تقریر شائع ہوئی مگر ساتھ ہی‘ اوپر نیچے‘ دائیں بائیں‘ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے ایسے بیانات بھی شائع ہو گئے جو اس ’’بدلے ہوئے پاکستان‘‘ کی چغلی کھا رہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ حکومتیں خود ہی قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر دیتی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے بھی رہائشی منصوبے بننے چاہیں۔ سی ڈی اے لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر زمین کی خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر ریمارکس دیے کہ ریاستی اداروں میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں جو اپنا اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور ان کا فائدہ لاقانونیت میں ہے۔ 
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس تو وزیر اعظم کی تقریر کے دائیں طرف شائع ہوئے۔ بائیں طرف کیا شائع ہوا؟ بائیں طرف بھی سپریم کورٹ ہی کا بیان ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور ایس ایچ او کروڑوں روپے دے کر لگتے ہیں! انہوں نے پھر پیسے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ایک وکیل نے عدالت کو اطلاع دی کہ اگر ملک کے چیف جسٹس بھی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر پرچہ کے اندراج کے لیے تھانے جائیں تو ایس ایچ او اُن سے بھی پیسے لے لے گا!
لطیفے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہنسانے والے‘ دوسرے رُلانے والے! یہ لطیفہ نما صورتِ حال جو اخبارات کے صفحات پر ظاہر ہوئی‘ ہنسانے والی نہیں‘ رُلانے والی ہے! اصل قصّہ یہ ہے کہ پاکستان میں دو دنیائیں الگ الگ آباد ہیں! قرآن کریم میں دو سمندروں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کے درمیان ایک آڑ ہے اور وہ دونوں اپنی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں دو سمندر تو نہیں‘ خشکی کی دو الگ الگ دنیائیں ضرور ہیں؎
اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بنی ہیں
روش سے سیڑھیاں مر مر کی پانی میں گئی ہیں
ایک دنیا وزیر اعظم کی ہے جس میں قطر ‘ ترکی ‘ برطانیہ اور امریکہ کے دورے ہیں۔ جہاز ہیں، جائیدادیں ہیں، کارخانے اور کاروبار ہیں، کابینہ کے اجلاس ہیں، قیمتی گاڑیوں پر مشتمل شاہانہ جلوس ہیں جن کے کناروں پر رکی ہوئی ٹریفک وزیر اعظم کو دُور سے رعایا کی جھلک دکھاتی ہے۔ اس دنیا میں ان کے دوستوں کے اڑن کھٹولے ہیں۔ رائے ونڈ اور مری کے محلات ہیں۔ موٹر وے اور اورنج ٹرین کے دلکش منصوبے ہیں۔ خداّم ہیں، نوکر شاہی ہے، بِچھ بِچھ جانے والے پارلیمنٹ کے ارکان ہیں!
دوسری دنیا پاکستانی عوام کی ہے۔ اس میں بکنے والے تھانے ہیں، کروڑوں دے کر تعینات ہونے والے تھانیدار ہیں! قبضہ گروپ ہیں، لینڈ مافیا ہے، بغیر چھتوں کے اور بغیر پینے کے پانی کے لاکھوں سرکاری سکول ہیں۔ بغیر ڈاکٹروں کے اور بغیر ادویات کے ہزاروں سرکاری ہسپتال ہیں جن میں کبھی کوئی وزیر اعظم‘ کوئی وزیر اعلیٰ‘ کوئی گورنر‘ کوئی وزیر‘ کوئی عوامی نمائندہ، اپنے یا اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے نہیں آتا۔ یہ دو الگ الگ دنیائیں ہیں! انہیں دو سمندر کہیے‘ یا دو لطیفے‘ یا دو متوازی لکیریں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر آپس میں کبھی نہیں ملتیں! ظفر اقبال یاد آ گیا   ؎
یہاں تک لا سکی ہے زندگی بھر کی مسافت
لبِ دریا ہوں میں اور وہ پسِ دریا کِھلا ہے
مگر یہ دن کے آخری لطیفے نہیں تھے۔ ناشتہ کرتے ہوئے پرتھ سے عزیزی معین ارشد کی ای میل موصول ہوئی۔ معین نے کالم نگار کی تحریر پڑھی جس میں کچہریوں کی حالتِ زار پر آنسو بہائے گئے تھے۔ معین نے خبر دی کہ اُسی اخبار میں پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’اراضی کی کمپیوٹرائزیشن مکمل! جدید نظام رائج اور پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا۔ صوبے کی تمام تحصیلوں میں جدید لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم رائج کر دیا گیا ہے۔ 143تحصیلوں میں سروسز سنٹر مکمل طور پر آپریشنل ہیں اور عوام کو خدمات فراہم کر رہے ہیں‘‘۔
معین ارشد نے پوچھا کہ آپ کچہریوں کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں اور صوبے کی حکومت کچھ اور خوشخبری دے رہی ہے۔ بقول فراق    ؎
کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
ہزاروں میل دُور ‘ مغربی آسٹریلیا میں بیٹھا ایک نوجوان 
اضطراب کا شکار ہو تو ناشتہ آپ خاک کریں گے؟ چائے کی پیالی زہر مار کی اور اپنی سی کوشش سے حکومتی دعوے کی پڑتال شروع کر دی۔ سب سے پہلے پنڈی گھیپ کے ایک معروف وکیل کو فون کیا جو سارا دن عدالت میں زمینوں کے اور کسانوں کے اور جائداد کی منتقلی کے اور پٹواریوں کے مہیا کردہ کاغذات کے معاملات طے کرتے اور کراتے ہیں۔ جو خبر انہوں نے دی یہ تھی کہ پوری تحصیل کے چند دیہات کا ریکارڈ کمپیوٹر پر چڑھایا گیا ہے مگر پنڈی گھیپ شہر اور بستیوں اور قریوں کی اکثریت بدستور پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اصل مسئلہ انہوں نے یہ بتایا کہ پٹواری‘ کمپیوٹر کی دنیا سے ناآشنا ہیں اور کمپیوٹر چلانے والے بابو‘ زرعی زمین کی باریکیوں اور پیچیدگیوں سے ناواقف!  
تسلّی بہر طور نہ ہوئی۔ دوسرا فون اپنے گائوں کے زمیندار ماسٹر مجتبیٰ کو کیا۔ پوچھا پٹواری کلچر ختم ہوا ہے یا نہیں؟ ماسٹر صاحب ہنسے۔ وہ چند دن ہوئے فتح جنگ تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ کمپیوٹر سنٹر والے رشوت نہیں مانگتے مگر وہ آپ کی زمین کا خسرہ نمبر مانگتے ہیں تاکہ آپ کا کام کر سکیں اور خسرہ نمبر پٹواری بادشاہ نے دینا ہے! اکّا دُکاّ پڑھے لکھے زمیندار اور کسان خسرہ نمبر یاد رکھتے ہیں یا کہیں لکھ لیتے ہیں مگر اکثریت خسرہ نمبر پٹواریوں سے پوچھتی تھی۔ سو اب بھی پوچھ رہی ہے! جب تک پٹواری خسرہ نمبر نہیں دیتا‘ کمپیوٹر سنٹر والے کچھ نہیں کر سکتے۔ تیسرا فون کھنڈہ کے بڑے زمیندار ملک عابد خان کو کیا۔ انہوں نے عینی شہادت دی کہ وہ اپنے کام سے تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے۔ ایک گائوں کے کچھ سائل بھی اُس دفتر میں بیٹھے تھے۔ان سائلوں سے ساٹھ ہزار روپے مانگے جا رہے تھے۔ ملک عابد خان صاحب نے اُس گائوں کا نام بھی بتایا جس سے ان مظلوم کسانوں کا تعلق تھا! چوتھا فون جھنگ کے زمیندار میاں صفدر صاحب کو کیا۔ ان کی اطلاع یہ تھی کہ تیس فیصد سے زیادہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہی نہیں ہوا اور یہ کہ رخنے جان بوجھ کر چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ع
سلسلہ چلتا رہے حُسن کی دلداری کا
میاں صفدر منجھے ہوئے زمیندار ہیں۔ انہوں نے بہت درد سے بتایا کہ ضلع ناظم کا سسٹم رہتا تو پٹواری کلچر ختم ہو سکتا تھا مگر جنرل مشرف کے جانے پر یہ جو نوکر شاہی کو دوبارہ تخت نشین کیا گیا ہے‘ اس سے گھوڑا‘ گاڑی کے آگے نہیں‘ پیچھے جُت گیا ہے۔ پانچواں فون جناب ایاز امیر کو کیا جو تعارف کے محتاج نہیں اور جو لاہور یا اسلام آباد نہیں‘ بلکہ چکوال میں عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ ان کی شہادت یہ تھی کہ کچھ بھی بدلا نہیں‘ پٹواری الماس ہو یا زمرد‘ یا عقیق یا یاقوت‘ کل بھی وہی حاکم تھا اور آج بھی وہی حاکم ہے!
اب شہر میں پیدا ہونے والے‘ شہر میں پلنے بڑھنے والے اور پنڈی گھیب، فتح جنگ‘ جھنگ‘ چکوال‘ شرقپور اور چونیاں کے بجائے لندن، انقرہ، بیجنگ اور دوحہ کے دورے کرنے والے شہنشاہوں کو کون سمجھائے کہ خسرہ نمبر کیا ہوتا ہے؟ فرد کیا ہوتا ہے؟ لٹھا کیا ہوتا ہے؟ پٹواری کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور کمپیوٹر دفتروں میں بٹھائے گئے بابو جب خسرہ نمبر لینے کے لیے سائل کو پٹواری کے پاس بھیجتے ہیں تو کتنے معصوم لگتے ہیں!
ایسے منصوبے خونِ جگر مانگتے ہیں! ایسے منصوبے اگر چیختے چلاتے بیانات سے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتے تو یہ ملک کب کا سنگا پور یا سوئٹزر لینڈ بن چکا ہوتا۔ مصیبت یہ ہے کہ محض بیانات کافی نہیں! شیر شاہ سوری‘ ٹو ڈرمل‘ لارڈ کارنوالس جیسے نابغے ہی ایسے کام مکمل کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہفتہ وار بیانات نہیں دیتا تھا!!
تھانہ کلچر ختم ہونے کی شہادت تو چیف جسٹس نے دے دی ہے کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور تھانیدار کروڑوں میں لگتے ہیں۔ کل پرسوں پٹواری کلچر کے ’’خاتمے‘‘ کی شہادت بھی مل جائے گی   ؎
تیرے امیر مال مست ‘ تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی

لَٹھ

$
0
0
عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب تو جانتے ہی ہیں، میں عوام الناس کو بھی اپنے بارے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھ میں نیکی پھیلانے اور برائی ختم کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم دینے سے ایک اضافی فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرا لہجہ مستقل طور پر تحکمانہ ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس میں شک ہی کیا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ پارسا ہوں۔ معاشرے کی اصلاح کی بھاری ذمہ داری میرے مضبوط کاندھوں پر ہے، جسے میں احسن طریقے سے انجام دے رہا ہوں۔ برائی کو میں عام طور پر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے یعنی طاقت سے روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ان سے نمٹنا میں بخوبی جانتا ہوں۔ ہاں! کبھی کبھی اگر برائی کو زبان سے روکنا پڑے تو پورا محلہ جانتا ہے کہ میری زبان بھی ہاتھ سے کچھ کم نہیں! تیر، تفنگ، بھالا، تیزاب، کلہاڑی، چھری، سب میری زبان کے آگے ہیچ ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے، محلے کی مسجد میں ایک لڑکا نیکر پہنے نماز پڑھ رہا تھا۔ اگرچہ نیکر اس کی گھنٹوں سے نیچے تھی مگر اس نابکار نے سر پرٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ میں نے مصلحتاً اِس برائی کو روکتے وقت ہاتھ کنٹرول میں رکھے مگر زبان سے اس کے وہ لتے لیے، وہ لتے لیے کہ اس کے بعد وہ مسجد میں نظر نہیں آیا۔
گزشتہ چند دنوں سے میں ایک پریشانی میں مبتلا تھا۔ اِدھر اُدھر، معاشرے کا جائزہ لیا، تو سچ پوچھیے، ہر طرف نیکیوں کا سیلِ رواں تھا، برائی ڈھونڈنے نکلا تو کوئی نظر ہی نہ آئی۔ اِس جستجو میں بازار جا نکلا۔ الحمد للہ! بہشت کا سماں تھا۔ تاجر برادری میں انقلاب آ چکا تھا۔ ماپ تول میں کمی تو کیا ہوتی، گاہکوں کو کچھ زیادہ ہی دے رہے تھے۔ شے بیچتے وقت دکاندار شے کا نقص بتا رہے تھے۔ ایک اور معجزہ دیکھا کہ تجاوزات کا خاتمہ بالخیر ہو چکا تھا اور فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے جگہ خالی تھی۔ انکم ٹیکس والے ملے تو حیران کہ کوئی تاجر، کوئی صنعت کار، کوئی درآمد یا برآمد کنندہ، ایک پائی نہیں چھپا رہا تھا۔ محصولات سے حاصل شدہ رقم دس گنا زیادہ ہو چکی تھی۔
دفتروں کا چکر لگایا۔ خوشی کے مارے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ ہر سیٹ پر اہلکار موجود، کام میں مصروف تھا۔ افسروں نے چائے پینے پلانے کا سلسلہ یکسر موقوف کر کے، پوری توجہ سائلوں کو ملنے اور انہیں مطمئن کرنے پر لگائی ہوئی تھی! بیوائوں کو پینشن گھر بیٹھے مل رہی تھی۔ ہر سرکاری دفتر سے سائل کی درخواست دو دن میں نمٹائی جا رہی تھی۔ وزیر اعظم صاحب نے تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ریٹائرڈ نوکر شاہی کو دوبارہ ملازمتیں دینے کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔ اب اہم وزارتوں میں اپنی برادری اور اپنے شہر کے علاوہ بھی، خالص میرٹ پر تعیناتیاں ہو رہی تھیں۔ 
سرکاری سکولوں کا معائنہ کرنے نکلا۔ حالت ہی بدلی نظر آئی۔ دور افتادہ بستیوں میں بھی سکولوں کی عمارتیں خوبصورت! کلاس روموں میں باعزت فرنیچر، اساتذہ کی اسامیاں پوری! پینے کے پانی کا زبردست انتظام، دل خوش ہو گیا۔
پھر میں نے معاشرے کا ایک عمومی جائزہ لیا۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے مواقع ہی ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف نیکیاں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ منکرات کا یعنی برائیوں کا نشان تک نہ تھا۔ سو فیصد والدین جائداد میں سے بیٹیوں کو پورا پورا شرعی حصہ دے رہے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ بیٹی کی پیدائش پر اچھے بھلے تعلیم یافتہ مرد ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ اب یہ جاہلی تصورات مٹ چکے تھے۔ جہیز کی لعنت ختم ہو چکی تھی۔ صلہ رحمی کا دور دورہ تھا۔ ہر شخص اپنے رشتہ داروں کے حقوق خندہ پیشانی سے ادا کر رہا تھا۔ لین دین میں مکمل شفافیت تھی! شادیوں کا اسراف ختم ہو چکا تھا۔ مردوں نے بیویوں پر ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا تھا۔ خواتین شوہروں کی دلداری میں یوں مگن تھیں کہ گھر جنت کے نمونے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بازاروں میں ہر شے خالص تھی۔ ملاوٹ کا نام و نشان نہ رہا تھا۔ کوئی شخص جعلی دوائیں بنانے کا یا خوراک میں ملاوٹ کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ مسجدیں بھری ہوئی تھیں۔ ہر فرد قرآن کی آیات کا مفہوم سمجھتا تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ 
ڈاکے، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ امن و امان مثالی تھا۔ یوں سمجھیے کہ ایک عورت خالص سونے کے زیورات سے لدی پھندی اگر کراچی سے چلتی اور پیدل، تن تنہا، سارا ملک عبور کر کے شمال میں چینی سرحد تک پہنچ جاتی تو کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا روادار نہ تھا۔
یہ صورتِ حال جہاں اطمینان بخش تھی، وہاں میرے لیے پریشان کن بھی تھی۔ میں نے ہر حال میں، ہر صورت میں نیکی کا حکم دینا تھا اور برائی کو روکنا تھا۔ معاشرہ پوری طرح سنور چکا تھا۔ کوئی برائی دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ تو میں کیا کروں؟ اسی شش و پنج میں ایک دن چارپائی پر نیم دراز پڑا تھا۔ اچانک روشنی کا ایک کوندا سا ذہن میں لپکا۔ بند راستے کھلنے لگے۔ کیا ہوا اگر معاشرے سے ساری برائیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ فروری کا مہینہ ہے۔ ایک برائی پھیلنے کے آثار تھے۔ خوشی سے نہال ہو گیا۔ دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ ویلنٹائن ڈے! جی ہاں! ویلنٹائن ڈے! یہ واحد خرابی تھی جو اس وقت معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ ایک ناقابلِ بیان طاقت مجھ میں آ گئی۔ میں اٹھا اور کمر میں نے اِس برائی کو ختم کرنے کے لیے کس لی!
کچھ دوستوں کا نکتۂ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اول، یہ فیشن آبادی کے ایک قلیل حصے میں رائج ہے، وہ بھی زیادہ تر تین چار بڑے بڑے شہروں میں۔ اگر اس کے خلاف مہم چلائی گئی تو یہ ختم ہونے کے بجائے زیادہ پھیلے گی۔ جنہیں اس کا کچھ نہیں معلوم، وہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے۔ فرض کیجیے، دس نوجوان اس سے واقفیت حاصل کرتے ہیں تو ان میں چار پانچ اس کے حق میں ہو جائیں گے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے درخوارِ اعتناہی نہ سمجھا جائے۔ دوم، ایک اوسط نوجوان، اِس ملک میں گرل فرینڈ کے تصور سے ناآشنا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں، کھاتے پیتے گھروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں میں بھی، نوجوان لڑکے لڑکیاں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رواج سے کوسوں دور ہیں۔ یہ کلچر چند ہی گھرانوں میں در آیا ہے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کی کل تعداد کا اس تعداد سے موازنہ کریں جو سکولوں کالجوں کے اردگرد منڈلاتی ہے۔ حقیر تعداد! بہت ہی حقیر تعداد! سوم، غالب تعداد ان نوجوان عورتوں اور مردوں کی ہے جو اپنے شوہروں، بیویوں، یا زیادہ سے زیادہ منگیتروں کو ویلنٹائن ڈے پر تحفے تحائف دیتے ہیں یا دیتی ہیں۔ مگر میں نے ان کے سارے دلائل رد کیے ہیں۔ لٹھ لے کر گھر سے نکلا اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔
میرا اگلا ہدف بسنت ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ مقامی ثقافت ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! اور ہمارا مذہب مقامی ثقافت، لباس، خوراک اور دوسرے ثقافتی مظاہر سے منع نہیں کرتا۔ ہاں مقامی ثقافت کے جن حوالوں میں کفر وشرک کی آمیزش ہو، ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور پتنگ بازی کے دوران انسانی جانوں کی مکمل حفاظت کا بندوبست ہونا چاہیے۔
مگر میں ان دلیلوں کو خاطر ہی میں نہیں لائوں گا۔ دیکھتے جائیے، بسنت کا مقابلہ میں مذہبی جذبات کو مشتعل کر کے کروں گا اور یوں کروں گا کہ مزا آ جائے گا۔


Long Live مرزا یار

$
0
0
میرؔ کا شعر ہے   ؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
ہیر رانجھے کے علاوہ بھی پنجاب کی عشقیہ روایات بہت ہیں۔ان میں سے ایک کہانی مرزا اور صاحباں کی ہے۔ اس حوالے سے پنجابی کے یہ اشعار تعارف کے محتاج نہیں   ؎
میں بکرا دیاں نیاز دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کُتی مرے فقیر دی جہیڑی چوئوں چوئوں نت کرے
پنج ست مرن گواہنڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے
مرزا یار کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں،اس کی محبوبہ انہیں ہٹانا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا شوہر ہے جو کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے۔ اگر وہ مر جائے تو شکرانے کے طور پر وہ بکرا ذبح کرے گی۔ پھر بنیے کی دکان ہے جو رات گئے تک کھلی رہتی ہے اور جہاں دیوا یعنی چراغ جلتا رہتا ہے۔ یہ دکان بھی نذرِ آتش ہو جائے تو کیا ہی کہنا! پھر کٹیا والے فقیر کی کتیا مرے جو ہر وقت بھونکتی یعنی پہرے پر رہتی ہے۔محبوب کے وصال میں حائل، ان سارے ’’دشمنوں‘‘ کا صفایا ہو بھی جائے تو پڑوسنوں کا کیا بنے گا؟ یہ بدبخت ہر وقت کان لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ گلی میں کون آیا؟ کون یہاں سے گزرا؟ کس گھر میں داخل ہوا؟ بہتر ہے اِن فسادی پڑوسنوں میں سے کچھ اللہ کو پیاری ہو جائیں اور باقی جو بچیں، انہیں اتنا تیز بخار آلے کہ چارپائی ہی کی ہو کر رہ جائیں! اب کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔ میدان صاف ہو گا اور مرزا یار گلیوں میں دندناتا پھرے گا!۔
مرزے یار کی محبوبہ کی یہ ساری خواہشات (بلکہ دُعائیں)پوری ہو سکیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب پنجابی ادب کا کوئی عالم ہی دے سکتا ہے۔ ہمیں تو اتنا ہی معلوم ہے کہ اِن دنوں ملک کے سیاست دان مرزے کی محبوبہ کی طرح گلیاں خالی ہونے کی دعائیں کرتے پھرتے ہیں۔ یوں بھی قوم کو مبارک ہو کہ سیاست دانوں کے اتحاد کی ایک اور صورت پیدا ہو چلی ہے۔ پہلے تو آپس میں چونچیں لڑاتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست دان صرف اُس وقت باہم متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بنتے تھے جب اسمبلیوں میں ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہوتا تھا، یا زرعی آمدنی پر ٹیکس کی بات ہوتی تھی یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہونے لگتی تھی۔ اب یہ سیاست دان، یہ سارے سیاست دان اُن اداروں کے خلاف بھی متحد ہو گئے ہیں، جو کسی نہ کسی حوالے سے احتساب کر رہے ہیں۔   ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
سندھ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رینجرز سے تنگ ہیں۔ آج زرداری صاحب نے ایف آئی اے کی بھی شکایت کر دی۔ خیبرپختون خوا میں احتساب کے انچارج جرنیل صاحب استعفیٰ دے کر گھر سدھار گئے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب ایسے احتساب کو پسند نہیں فرماتے جو ’’شرفا‘‘ کی داروگیر کرے۔ اونٹ کی پیٹھ پر پڑا ہوا آخری تنکا یوں نیچے آ رہا کہ ملک کی مقتدر ترین شخصیت، وزیر اعظم نے شکوہ کیا ہے کہ نیب ’’معصوم‘‘ لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔
قربِ قیامت کے لیے اور کون سی نشانی درکار ہو گی؟ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ اپنے عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ زرداری صاحب سندھ کے ہاریوں کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی رینجرز، کبھی ایف آئی اے، کبھی نیب، ہاریوں کو پتھر کے زمانے میں رکھنے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ زرداری صاحب کو سندھ میں سماجی، معاشی اور تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر عاصم کو بھی پکڑ لیں گے، اگر آپ ایان علی کو بھی ہر روز عدالتوں میں بلا لیں گے، اگر آپ شرجیل میمن کا تعاقب شروع کر دیں گے، تو وہ خاک اپنا پروگرام مکمل کر پائیں گے؟
اس ضمن میں قوم کو دو اہم نکتے یاد رکھنے چاہئیں۔ سیاست دان ملک کا مقدر ہیں۔ انہیں قدرت نے مامور کیا ہے۔ وہ ہماری تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آدھے سیاست دان حکمران ہیں۔ باقی 
آدھے اپوزیشن میں ہیں؛ تا ہم ہر دو اقسام مقدس ہیں۔ ہر دو ظل اللہ ہیں! ہر دو ہماری قسمتوں کے مالک ہیں، یہ رینجرز، یہ ایف آئی اے، یہ پولیس، یہ نیب یہ سب آخر کیا ہے؟ کیا سلطان علائو الدین خلجی کے زمانے میں یہ سارے جھنجھٹ تھے؟ کیا شہنشاہ اکبر، شہنشاہ جہانگیر، شاہ جہان، اورنگ زیب  کے سامنے یہ رکاوٹیں تھیں؟ انہوں نے جو چاہا کیا مقبرے بنوائے، محلات تعمیر کیے، باغات بنوائے۔ ان میں بارہ دریاں کھڑی کیں۔ آبِ رواں کے لیے اِن باغوں اور محلات میں نہریں اور تالاب بنوائے۔ ان بادشاہوں کے نام آج بھی زندہ ہیں! کیا کسی نے ان کے مخالفین کے نام سنے؟ پھر زرداری صاحب ‘وزیر اعظم صاحب، پرویز خٹک صاحب اور عمران خان صاحب کے زمانے میں اِن رکاوٹوں کی، اِن اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حضرات میٹرو بسیں بنائیں، اورنج ٹرینیں چلوائیں، دبئی میں بیٹھ کر سندھ پر حکومت کریں۔ کے پی میں تبدیلی لانے کے لیے احتساب کمیشن کے سربراہ کو گھر جانے پر مجبور کریں، جو چاہیں کریں، کسی کو کیا تکلیف ہے؟ خورشید شاہ کے کتنے اثاثے ہیں؟ اور اقتصادی راہداری کا اصل نقشہ کیا ہے؟ عوام کو اِن تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
دوسرا اہم نکتہ عوام کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کرپشن کی لعنت ملک سے دور کرنے کے لیے پٹواریوں، تھانیداروں، پرائمری سکولوں کے اساتذہ، پوسٹ مینوں، کلرکوں، نائب قاصدوں اور خاکروبوں کا احتساب لازم ہے۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ نیب پنجاب کا رُخ کرنے پر تلی کھڑی ہے۔ جبکہ خاکروبوں، پوسٹ مینوں اور پٹواریوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا بھی احتساب کوئی نہیں کر رہا۔ پولیس کے سپاہی کھلے پھر رہے ہیں۔ ریڑھی والوں پر ہاتھ کوئی نہیں ڈالتا۔ صحافیوں کو جیل میں ہونا چاہیے، مسجدوں کے موذن کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ آخر اس ملک میں انصاف کب آئے گا؟
ہمارے سیاستدانوں کو آخر کار، بعد از خرابیٔ بسیار، احساس ہو گیا ہے کہ ہمارا دشمن بھارت نہیں، ہمارا دشمن غربت اور ناخواندگی نہیں، ہمارا سب سے بڑا دشمن ہر وہ ادارہ ہے جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کے احتساب کا سوچے گا اور کرنے کی کوشش کرے گا۔
ہم جناب وزیر اعظم کی خدمت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ نیب، پولیس اور ایف آئی اے کے تمام افسروں اور اہلکاروں کو فوراً جیلوں میں بند کر دیا جائے۔ رینجر زکو میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے پر مامور کر دیا جائے۔ مسلح افواج پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ بیرکوں سے باہر نہ نکلیں اور نکلنا ہو تو لاہور گروپ کے اُن افسروں سے تحریری اجازت لیں جو دارالحکومت کو چلا رہے ہیں۔ کابینہ سے وزراء کا ایک وفد دبئی جا کر جناب زرداری کو عزت و احترام سے واپس لائے۔ ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا جائے۔ ایان علی کو سندھ کا گورنر مقرر کیا جائے اور ہاں! ایک ضروری تجویز پیش ہونے سے رہ نہ جائے۔ جناب افتخار چوہدری کو دوبارہ قاضی القضاۃ تعینات کیا جائے۔ بلٹ پروف کار ان سے کبھی واپس نہ لی جائے۔ وہ اپنی سیاسی جماعت کے بدستور سربراہ رہیں۔ نیب کو کنٹرول کرنے کے لیے اتنے زرخیز دماغ سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا؟

اے جغرافیہ بدل دینے والے پروردگار!!

$
0
0
ہم پر رحم کر اے پروردگار! تُورحمن ہے۔ رحیم ہے۔ تیری رحمت کا کوئی کنارا نہیں!
اے اللہ! ہم گنہگار ہیں! خطا کار ہیں! ہم مانتے ہیں کہ ہماری بھاری اکثریت جھوٹ بولتی ہے۔ وعدہ خلافی کرتی ہے۔ مگر اے خدائے برتر! ہمارے معصوم بچوں پر رحم فرما! ہمارے گناہوں کی سزا ہمارے بچوں کو نہ دے!
تیری قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں! تُو انہونی کو ہونی کر سکتا ہے۔ تُو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ تونے اپنے پیغمبر عیسیٰؑ کو بن باپ کے پیدا کیا! یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ گھپ اندھیروں میں انہوں نے پکارا، تو نے سنا اور رہائی دی! یعقوب علیہ السلام کو بیٹے سے ملایا۔ ایوب علیہ السلام کو دردناک بیماری سے شفا بخشی! اے خدائے عزوجل! تو نے نارِ ابراہیم کو باغ میں تبدیل کر دیا! اے پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچانے والے خدا! اے ایک بیج سے ہزاروں دانے نکالنے والے رازق! اے بنجر زمین کو سرسبز کر دینے والے مالک! ہم گنہگاروں پر بھی رحم فرما! ہم بدبختُوں کو اس مصیبت سے نکال! ہم پہلے دن سے جس بدقسمتی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ ہمیں اس سے نجات دے!
اے کائنات کے رب! تُو سمندروں کو خشک کر سکتا ہے! تُو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ تُو بادلوں سے پانی برسا سکتا ہے! تُو سمندروں کو باہم ملا سکتا ہے! تُو ستاروں کی گردش روک سکتا ہے۔ تُو سیاروں کا راستہ بدل سکتا ہے۔ زمین تیری مٹھی میں ہے‘ آسمان تیرے دستِ قدرت میں لپٹے ہوئے ہیں۔ تُو قوموں کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ تُو ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کر سکتا ہے۔ تُو سب کچھ کر سکتا ہے۔
اے ربّ کعبہ! ہم تجھے تیرے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا واسطہ دیتے ہیں! ہم پر کرم فرما! ہماری جان اِس افغان بارڈر سے چھڑا!
اے پروردگار! اے ہر لحظہ پھیلتی کائنات کے رب ! ایک صبح ہم اُٹھیں تو افغانستان ہمارے پڑوس میں نہ ہو! اس کی جگہ کوئی ایسا ملک ہو جو مہذب ہو‘ امن پسند ہو! جس کے باشندے ناشتے میں انسان نہ کھاتے ہوں۔ جس کے کھیتوں میں بارود نہ اُگتا ہو! جس کے باغوں میں گولیاں نہ کِھلتی ہوں۔ جس کے درختوں پر کلاشنکوفیں نہ لگتی ہوں! جس کا مقبول ترین کھلونا راکٹ نہ ہو۔ جس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بارودی جیکٹ نہ ہو! اے جہانوں کے خالق! اے زمانوں کے مالک! اس خطۂ زمین پر اپنے دستِ غیب سے کوئی ایسا ملک رکھ دے جس کے رہنے والے پڑھے لکھے ہوں! جہاں یونیورسٹیاں اور کالج ہوں! کارخانے اور کھیت ہوں! جہاں مسافروں کے پاس سفری دستاویزات ہوں! جہاں کے حکمران بین الاقوامی قوانین کو گھاس ڈالتے ہوں! جہاں کے رہنے والے پڑوسیوں کو انسان سمجھتے ہوں۔ جہاں ماں باپ بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں نہ دیں، بستے اور تختیاں دیں۔ جہاں عورتوں کو گائیں بھینسیں اور بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے۔
اے انصاف کرنے والے خدا! ہم انصاف کی بھیک مانگتے ہیں! ہمارے کسان ٹھٹھرتے جاڑوں اور چلچلاتی دھوپ میں خون پسینہ ایک کر کے جو غلّہ اگاتے ہیں، ہمارے کارخانوں میں جو گھی بنتا ہے، ہماری فیکٹریوں میں جو کپڑا بُنا جاتا ہے‘ وہ سب افغانستان چلا جاتا ہے! یا اللہ! ہم کب تک اس بھوکے ننگے ملک کی پرورش کرتے رہیں گے؟ ہماری ادویات‘ ہمارا فرنیچر‘ ہمارا سیمنٹ‘ ہماری اینٹیں‘ ہمارا سٹیل‘ ہمارے مویشی‘ ہماری گاڑیاں‘ یہاں تک کہ ہماری پکی پکائی روٹیاں سب کچھ اس بارڈر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اے رب العالمین! ہمیں اس بارڈر سے نجات دے! یہ بارڈر ہمارے شناختی کارڈوں کو کھائے جا رہا ہے۔ یہ ہمارے پاسپورٹوں کو نگل رہا ہے۔ پچاس ہزار افراد ہر روز اس بارڈر کو پار کر کے آتے اور جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنے علی حیدر‘ نہ جانے کتنے شہباز تاثیر اغواء کر کے اسے بارڈر کے پار لے جائے جاتے ہیں!
کرنل شجاع خانزادہ کو شہید کرنے والا سہیل اس بارڈر سے آیا اور واردات کر کے اس بارڈر کے پار اتر گیا! ہم کب تک اپنے بچے اغواء کراتے رہیں گے؟ ہمارے شجاع خانزادے کب تک افغانستان کی مردم خوری کی نذر ہوتے رہیں گے؟ فضل اللہ کب تک اس سفّاک ملک کی آغوش میں پناہ لیتے رہیں گے؟ قاتلوں کا یہ ملک کب تک ہماری زمین پر آگ اور خون کی ہولی کھیلتا رہے گا؟ اس ملک کی تین نسلوں کو پاکستان نے پالا! خوراک‘ لباس‘ پانی‘ ہوا‘ دھوپ‘ چاندنی سب کچھ دیا مگر ان لاکھوں مہاجروں میں سے کوئی بھی پاکستان کا وفادار نہ ہوا۔ ہمیں پھولوں کے بدلے زخم ملے۔ ہم نے پناہ دی، ہمارے گلے کاٹے گئے! ہم نے ان کے بچوں اور عورتوں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ دیا‘ ہمارے سفارت خانے کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہی! خیبر پختونخوا کی معیشت اجڑ گئی۔ مزدور بیروزگار ہو گئے‘ ٹرانسپورٹر برباد ہو گئے۔ مگر ہمیں کیا صلہ ملا؟ اغواء‘ قتل‘ تباہی اور گالیاں!!
اے پروردگار! ہمیں اس ملک نے منشیات کے اندھیروں میں دھکیل دیا! ہمارے نوجوان نشے کا شکار ہو گئے! ہم سمگلروں کے رحم و کرم پر ڈال دیئے گئے۔ ہمارا ملک اسلحہ خانہ بن گیا۔ اس پڑوس کی وجہ سے ہم خوار اور رسوا ہو گئے۔ ہم پوری دنیا میں بدنام ہو گئے۔ ان احسان فراموشوں نے ہمارے چہرے پر کالک ملی! آسٹریلیا کا وہ پاکستانی لڑکا نہیں بھولتا جس نے روتے ہوئے بتایا: ’’انکل! میرے دفتر میں ایک افغان ہے جو پاکستان کو گالیاں دیتا ہے!‘‘ کہا‘ بیٹے! بے شک چیک کر لو! وہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آ کر پناہ گزین ہوا ہو گا اور اسی بنیاد پر شہریت لی ہو گی! دوسرے دن پاکستانی نوجوان نے آ کر بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہے!!
اے خالق کائنات! ہم تجھ سے اس بارڈر سے نجات دلانے کی دعا نہ کرتے‘ مگر ہم کیا کریں! ہمارے حکمران بے نیاز ہیں! اس لیے کہ ان کے قلعہ نما محل اس بارڈر سے سینکڑوں میل دور ہیں! ان کی ترجیحات اور ہیں! انہوں نے تو اپنے ڈیروں کے نام ہی دوسرے ملکوں کی بستیوں پر رکھے ہیں‘ انہیں اس ملک کے عوام کا دکھ درد کیسے ہو سکتا ہے! یہاں تو ایسے ایسے محب وطن بیٹھے ہیں اور بلند مسندوں پر بیٹھے ہیں جو دوسرے ملکوں میں کارخانے لگاتے ہیں تو ملازمتیں اپنے ہم وطنوں کے بجائے دشمن ملکوں کے باشندوں کو دیتے ہیں!
اے قَہّار و جَبّار! ہمارے حکمرانوں کو امن و امان سے کوئی غرض نہیں! ان کی پیشانیوں پر تو کبھی ندامت کے دو قطرے بھی اس اعتراف سے نہیں چمکے کہ ملک میں ڈاکوئوں کا راج ہے! اغواء برائے تاوان انڈسٹری بن چکا ہے‘ بھتہ خوری عام ہے! یااللہ! ہمیں اُن زمانوں میں پیدا کیا ہوتا جب حکمران قاتل پکڑنے سے پہلے اپنے اُوپر پانی اور روٹی حرام کر لیتے تھے‘ اور اغواء کاروں کو ٹھکانے لگانے سے پہلے بستر پر نہیں سوتے تھے! ہمارے تو اپنے محکمے ہمارے ساتھ نہیں! ہمارے نادرا میں افغان ملازم پائے گئے، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنانے والے اہلکار دشمنوں کی خدمت کر رہے ہیں! بارڈر پر مامور ہمارے تنخواہ دار ملازم ہماری پیٹھ میں چُھرا گھونپ رہے ہیں۔
اے براعظموں کے نقشے تبدیل کرنے والے قیوم و بصیر خدا! ہماری طرف سے بے شک افغانستان کو جنوبی ہند میں فکس کر دے۔ اسے کیرالہ، تامل ناڈو کے پڑوس میں منتقل کر دے۔ اسے نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان ڈال دے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں! اسے بہاما منتقل کر دے یا ہوائی یا جزائر فجی میں! اے قادر و قُدّوس! ہم پر رحم فرما! اس مصیبت کا اور کوئی حل نہیں! تُو گواہ ہے کہ ہمارے اس پڑوسی ملک کے رہنے والے صدیوں سے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں کر رہے! دنیا بھر کے بازار چھان مارے جائیں تب بھی اس ملک کا بنا ہوا کوئی برتن‘ کوئی کپڑا‘ کوئی جوراب‘ کوئی پنسل‘ کوئی جوتا کہیں نہیں نظر آتا۔ کبھی نہیں دکھائی دیا! اے خبیر و علیم! تُو یہ بھی جانتا ہے کہ سینکڑوں سال مستقبل میں بھی اس ملک نے یہی کچھ کرنا ہے! ہمیں اس ڈَز ڈَز سے‘ اس مستقل چاند ماری سے نجات دلوا! اے حافظ و حفیظ! ہمارے بچوں کے مستقبل پر رحم فرما! اس بارڈر سے، خون کی اس لکیر سے ہمیں محفوظ فرما دے!

ڈرتے ڈرتے

$
0
0
ڈاکٹر رُتھ فائو 1929ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور پریکٹس شروع کر دی۔ پھر ایک مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جو قناعت‘ پاک بازی اور اطاعت کا عہد لیتی تھی اور جس کے تحت زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو نے سُن رکھا تھا کہ ایشیا میں غربت‘ پسماندگی اور بیماریاں بہت ہیں؛ چنانچہ انہوں نے بھارت جا کر مریضوں کی دیکھ بھال کا قصد کیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں بھارت کا ویزا نہ مل سکا‘ کسی نے بتایا کہ پاکستان سے یہ ویزا مل جائے گا۔ چنانچہ وہ کراچی پہنچ گئیں۔ یہاں کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار اور ان کی رُلا دینے والی بستی دیکھ کر یہیں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 
ڈاکٹر رُتھ فائو گزشتہ 56 برسوں سے پاکستان میں جزام کے مریضوں کا علاج کر رہی ہیں۔ اُن مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم پرکیڑے رینگ رہے تھے اور جسم پر ہی رہتے تھے۔ پانی سے بھری نشیبی بستیوں میں میز پر کھڑے ہو کر بھی مریضوں کی خدمت کی۔ ایسے مریض بھی اٹینڈ کیے جو دونوں پائوں اور دونوں ہاتھوں پر چوپایوں کی طرح چل رہے تھے۔ مقامی ڈاکٹر ان مریضوں کے نزدیک آنے کا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ آج پاکستان میں یہ مرض تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اس کے خاتمے میں ڈاکٹر رُتھ فائو کا کردار بنیادی ہے ‘مگر ہم جو بات کرنا چاہتے ہیں وہ اور ہے!
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں اہل پاکستان کے بارے میں انہوں نے اپنے 56 سالہ تجربے کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے: ’’جرمنی میں جب کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اسے تکمیل تک پہنچاتا ہے اور اگر اسے کوئی کام نہیں کرنا ہوتا تو وہ فوراً انکار کر دیتا ہے۔ ٹال مٹول نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں اگر کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا اور اگر انکار کرے تو سمجھ لیں کہ وہ اس کام کو ضرور کرے گا۔ میں آج تک پاکستانیوں کے اس مزاج کو سمجھ نہیں پائی۔ جب میں کسی سے کوئی کام کہتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں میڈم یہ کام ہو جائے گا لیکن پھر جب میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کام کیوں نہیں ہوا تو جواب ملتا ہے کہ میں نے اس وقت یونہی ہامی بھر لی تھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ اتنی آسانی سے کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں جبکہ جرمنز میں یہ عادت نہیں پائی جاتی!‘‘
ڈاکٹر رُتھ فائو کی اس آبزرویشن پر ہم لاکھ ناک بھوں چڑھائیں‘ آئیں بائیں شائیں کریں‘ بدلے میں کفار کی ہزار برائیاں گنوائیں‘ مغربی معاشرے کے ’’خاندان توڑ‘‘ کلچر پر اُچھل اُچھل کر حملے کریں‘ مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور دل میں مانتے ہیں کہ بات وہ درست کر رہی ہیں۔ اس سچائی پر ہم میں سے ہر شخص‘ ہر عورت‘ ہر مرد‘ ہر بوڑھا‘ ہر بچہ گواہ ہے! جس دن چھت ڈالنی ہو‘ ہمیں معلوم ہوتا ہے آج راج اور مزدور غائب ہو جائیں گے‘ جو تاریخ ہمیں ٹیلر بتاتا ہے‘ ہمیں یقین ہوتا ہے اُس دن کپڑے نہیں ملیں گے۔ دفتر کا افسر اور اس کا بابو جس دن آنے کا کہتے ہیں‘ ہم اپنے دل میں سو فیصد یقین سے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کام اُس دن بھی نہیں ہو گا! دکاندار بتاتا ہے آپ کا مطلوبہ آئٹم منگل کو موجود ہو گا‘ ہم منگل کو جاتے ہیں‘ اُسے یاد ہی نہیں ہوتا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا۔ ہم کسی کے ہاں جانے کا جو وقت متعین کرتے ہیں‘ ہم میں سے ننانوے فیصد اس کی قطعاً پروا نہیں کرتے۔ پھر ہم لوگ ڈھٹائی‘ بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ ڈنکے کی چوٹ اُس وقت کرتے ہیں جب یہ کہتے ہیں کہ میں نے وعدہ تو نہیں کیا تھا‘ بس یونہی کہہ دیا تھا۔ جب ہمیں کوئی بتاتا ہے کہ آ رہا ہوں اور لبرٹی چوک یا بندر روڈ یا پشاور موڑ سے گزر رہا ہوں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی گھر سے نکلا ہی نہیں! کتنی ہی بار لوگوں سے بحث ہوئی اور معاملہ تلخی تک پہنچا۔ کچھ سال پہلے ایک بچے کی شادی تھی۔ جن مولانا نے نکاح پڑھایا‘ وہ دوست تھے۔ کہنے لگے آج مغرب کے بعد نکاح نامہ مکمل کر کے دے جائوں گا۔ دو دن بعد یاد دلایا تو فرمایا بس آج مل جائے گا! صوفہ ساز کو گھر بلایا‘ متشرع نوجوان تھا۔ کہنے لگا انکل‘ جا کر فون کرتا
 ہوں اور متعلقہ شخص کا فون نمبر دیتا ہوں۔ دوسرے دن پوچھا بیٹا تم نے وعدہ نہیں پورا کیا۔ کہنے لگا‘ وعدہ تو کیا ہی نہیں تھا‘ میں نے تو ایک بات کی تھی! دروغ گوئی اور پیمان شکنی کی یہ ’’ثقافت‘‘ انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی وجود میں بھرپور طریقے سے حلول کر چکی ہے۔ ہماری ایئر لائنوں کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ لطیفہ یونہی نہیں بن گیا کہ ٹرین وقت پر پہنچی‘ سب خوش ہوئے مگر معلوم ہوا کہ اس نے تو کل اس وقت پہنچنا تھا۔ ایسے لطیفے جاپان‘ جرمنی اور کینیڈا میں کیوں نہیں سننے میں آتے؟ تقاریب میں وزراء اور سربراہ حکومت تاخیر سے آتے ہیں۔ شادیوں کی تقاریب دیکھ لیجیے‘ کس طرح بہترین پوشاکوں میں ملبوس‘ معززین دو روٹیوں کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ دل میں میزبان کو سب کوس رہے ہوتے ہیں اورکیا ستم ظریفی ہے کہ تحقیر اور شرمندگی کا یہ کھیل کھیلنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مذہبی جلسوں میں بھی وقت کی پابندی کا کوئی تصور نہیں۔ مسجد کی دیوار پر نماز جمعہ کا وقت ڈیڑھ بجے لکھا ہے مگر وعظ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ہمارے بازاروں کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔ رمضان میں قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پوری ’’کافر‘‘ دنیا میں کرسمس پر قیمتیں گر جاتی ہیں۔ گزشتہ تین دن بارش رہی۔ کل اخبارات دہائی دے رہے تھے کہ پکوڑوں‘ سموسوں اور کباب کی قیمت تاجروں نے بڑھا دی‘ اس لیے کہ بارش کے موسم میں ان کی طلب بڑھی تھی! ملاوٹ‘ ٹیکس چوری‘ چور بازاری‘ تاجروں کا تجاوزات کا کھیل‘ شے بیچتے وقت نقص چھپانا‘ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا ہزار بار تذکرہ ہو چکا اور ہر شخص جانتا اور مانتا ہے اور ساتھ ساتھ ان جرائم میں برابر کا شریک ہے! 
اب دوسری طرف دیکھیے! یہ وہی ملک ہے جس کے باشندوں کی عظیم اکثریت ازحد مذہبی ہے۔ ملک ممتاز قادری کے جنازے کو دیکھیے۔ مدارس کی جتنی تعداد پاکستان میں ہے‘ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں نہیں‘ قدم قدم پر مسجدیں ہیں اور مدرسے‘ صرف دارالحکومت میں چار سو ایک مدارس کام کر رہے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل لاکھوں علماء‘ دین سکھا رہے ہیں۔ گنہگار سے گنہگار پاکستانی بھی جمعہ کی نماز ضرور ادا کرتا ہے اور وعظ سنتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا تو مرکز ہی پاکستان ہے۔ لاکھوں جماعتیں تشکیل ہو کر قریہ قریہ‘ گلی گلی‘ تبلیغ کر رہی ہیں۔ لاکھوں پاکستانی چلے کاٹ رہے ہیں‘ وقت لگا رہے ہیں‘ گشت کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں مسجدیں شب جمعہ کو بھر جاتی ہیں!
تو پھر جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ چور بازاری‘ ملاوٹ‘ ملمع سازی‘ ٹیکس چوری‘ حرام تجاوزات‘ بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتا کر حرام کمائی کا حصول‘ سرکاری دفتروں میں رشوت اور عوام کو اذیت رسانی کا زور! قطع رحمی! لڑائی جھگڑے‘ سڑکوں پر جگہ جگہ مارکٹائی‘ گالی گلوچ‘ کچہریوں میں جھوٹی گواہیوں کی حیران کن کثرت… اس سب کی وجہ کیا ہے؟ یہ ساری تبلیغی سرگرمیاں‘ یہ مدارس سے نکلنے والے لاکھوں علماء کرام‘ یہ جمعہ کے دن وعظ سننے والے کروڑوں سامعین‘ یہ حرمت رسولؐ پر گردن کٹانے کا جذبہ‘ آخر یہ تضاد کیوں؟ اتنی بلندی ہے تو پھر ایسی پستی کیوں ہے؟
اگر آپ غیر جانبدار ہو کر غور کریں تو اس بھیانک تضاد کے آپ کو تین اسباب نظر آئیں گے۔ اوّل : ہمارا اسلام محض عبادات اور عقائد پر مشتمل ہے۔ ہمارے علما عقائد کے اختلافات اور عبادات کی تفاصیل پر زور دیتے ہیں مگر معاملات کی طرف نہیں آتے۔ آپ یوٹیوب پر مختلف مسالک کے علما کی تقریریں سنیں تو اختلافات کی شدت‘ اشتعال انگیزی اور تکفیر کی کثرت پر حیران رہ جائیں گے۔ اذکار‘ نوافل‘ تسبیحات‘ چلہ کشی‘ سب کچھ ہے مگر معاملات سے مکمل غفلت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کی تعریف کرتے وقت یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نماز‘ روزے کا پابند ہے؛ حالانکہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے بارے میں یہ رپورٹ سُنی تو پوچھا کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟
دوم : ہم ’من حیث القوم‘ والدین کی حیثیت سے مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ سارا الزام علما پر اور اہل تبلیغ پر ڈالنا بھی انصاف پسندی نہیں! ہم بچوں کو یہ سکھا ہی نہیں رہے کہ جھوٹ کسی طور پر نہیں بولنا‘ وعدہ ہر حال میں پورا کرنا ہے‘ قانون نہیں توڑنا! آپ غور کیجیے‘ ہمارے گھروں میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان پہلوئوں کی اہمیت صفر کے برابر ہے! ایک امریکی‘ جرمن‘ فرانسیسی یا آسٹریلین گھرانے میں بچہ جھوٹ کے تصور ہی سے ناواقف ہے۔ وہاں پانچ بجے کا مطلب پانچ بجے ہے۔ پانچ بج کر ایک منٹ بھی نہیں! ہمارے حکمرانوں کا کردار بھی شرمناک ہے۔ اگر آج ہمارے وزراء اور ان کے باس جھوٹ اور وعدہ خلافی کو خیرباد کہہ دیں تو ماتحت بھی راتوں رات اپنا رویہ بدل لیں گے۔ سوم : ہمارے علما اور مبلغین عبادات و عقائد پر جو زور دے رہے ہیں‘ وہ بھی دین کا تقاضا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی ترجیحات میں وہ چیزیں بھی شامل ہو گئی ہیں جن کا اصلاً دین سے تعلق ہی نہیں! انہوں نے اپنی ’’مصروفیات‘‘ کا دائرہ اتنا وسیع کر لیا ہے کہ معاملات میں عوام کی اصلاح کا وقت ہی کہاں ملتا ہے۔

کاغذ کے پھول

$
0
0
بھائی وسیم خان! تم کس ہوا میں تھے؟
تم بھول گئے تھے کہ یہ ملک، ملکِ پاکستان ہے! یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں۔ یہاں قانون کی نہیں، شخصیات کی حکمرانی ہے! یہاں آئین کی کتاب نہیں چلتی۔ یہاں ایک ہی کتاب کارفرما ہے جسے چیک بک کہتے ہیں!
تم کیا سمجھتے تھے کہ جس شہر کی امارت تمہیں سونپی گئی، اُس کی فلاح مقصود تھی؟ نہیں! یہاں مقصود فلاح و بہبود نہیں! یہاں امیرِ شہر کا کام ہے اپنی امارت کی حفاظت! اور حفاظت تب ممکن ہے جب اثر و رسوخ والے عمائدین سے بنا کر رکھی جائے! ہاں اگر پائوں کسی کی دم پر نہ آئے تو شہریوں کی فلاح و بہبود ہوتی رہے! مگر بھائی وسیم خان، یہ ممکن نہیں کہ کسی کی دُم پر پیر آئے اور چیخ و پکار نہ ہو اور بچائو بچائو کی چیخیں بلند نہ ہوں۔
ناجائز تجاوزات ہٹانے اور گرانے کی یہ مہم جو تم نے پاکستان کے ایک قصبے میں شروع کی اور پھر دیانت داری اور حسنِ نیت سے چلائی، اگر کسی مغربی ملک کے قصبے میں چلاتے، اگر آسٹریلیا، جاپان یا سنگاپور میں چلاتے تو حکومت تمہاری پشت پر ہوتی۔ حکمران تمہیں شاباش دیتے، جب تک تم یہ مہم کامیابی سے ختم نہ کر لیتے، تمہیں اس ملک کا وزیر اعظم، اُس ملک کا صدر بھی نہ ہٹا سکتا! مگر وسیم خان، یہ جاپان ہے نہ آسٹریلیا! سنگاپور ہے نہ فرانس نہ جرمنی! یہ تو ترکی اور ملائیشیا بھی نہیں! یہ تو یو اے ای تک نہیں۔ یہ پاکستان ہے! یہاں وہی ہونا تھا جو ہوا! ٹیلی فون کھڑکے، ’’ملاقاتیں‘‘ ہوئیں، اور ’’مسائل‘‘ ’’پیدا‘‘ کرنے والے والیٔ شہر کو یوں ہٹا دیا گیا جیسے مکھن سے بال!
تجاوزات! تم نے تجاوزات ختم کرنے کی کوشش کی؟ یہاں اگر تم جیسے حکام کو کام کرنے دیا جاتا تو یہ ملک تجاوزات کی لعنت سے کب کا پاک نہ ہو چکا ہوتا؟ پورا ملک تجاوزات کی لعنت میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ جس شہر جس قصبے جس بازار جس شاہراہ کو دیکھیں، تجاوزات سے اٹی ہوئی ہے۔ فٹ پاتھوں پر قبضہ ہے، سرکاری سڑکیں، جو عوام کی ملکیت ہیں، کھوکھوں، ریڑھیوں، سٹالوں سے بھری پڑی ہیں۔ چلنے کا راستہ ہے نہ گاڑی چلانے کا۔ غلاظتوں کے سمندر ہیں اور کثافتوں کے انبار! ریڑھی والا دکاندار کو رشوت دے کر اس کی دکان کے سامنے کاروبار کر رہا ہے۔ دکاندار، متعلقہ محکمے کو رشوت دیئے جا رہا ہے۔ ورکشاپیں سڑکوں پر کام کر رہی ہیں، فروخت کی جانے والی اشیا فٹ پاتھوں پر سجی ہیں، مکانات گلیوں کو کھا رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں قبضہ گروپ سرگرم کار ہیں۔ سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمین طاقت ور جبڑوں کی نذر ہو گئی! اگر اس ملک کی پانچ غلیظ ترین لعنتوں کی فہرست بنائی جائے تو تجاوزات کی لعنت ان پانچ لعنتوں میں ضرور شمار ہو گی۔
کیریئر شروع کرتے وقت تم نے جو خواب بُنے تھے، انہیں اُدھیڑ دو! یہ ملک خوابوں کی نہیں، سرابوں کی جنت ہے۔ اس ملک کا کیا کہنا، یہاں سابق وزیر اعظم پیشانی پر ندامت کا ایک قطرہ لائے بغیر کہہ سکتا ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں نئے صوبے بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر کچھ دوست آڑے آ گئے۔ لیکن ’’نئے صوبوں کا حامی ہوں‘‘! جس ملک کو ایسے حکمران ملیں جو ملک کے بجائے دوستوں سے وفاداریاں نبھائیں اور اہم فیصلوں کو اس لیے کھائی میں پھینک دیں کہ دوست آڑے آ رہے ہیں، اُس ملک کی سیاہ بختی ثابت کرنے کے لیے کسی ریسرچ کی ضرورت ہے؟ یہ فخریہ اعتراف کسی ایسے ملک میں کیا جاتا جہاں جمہوریت اور پارلیمنٹ کا حقیقی راج ہے، تو ایسا اعتراف کرنے والے پر مجرمانہ کردار کا مقدمہ چلتا اور عبرت ناک سزا ملتی!
اس ملک کا کیا ہی کہنا! جس میں ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما پوری دنیا میں اللے تللے کرتے پھرتے ہیں۔ مڈل کلاس پارٹی؟ مائی فٹ! پارٹی کے رہنما قربانی کی کھالیں اوڑھے امریکہ میں ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں اور دبئی میں ہیں۔ ایک نہیں دو نہیں! چھ چھ آٹھ آٹھ رہنما، بیرون ملک مڈل کلاس مڈل کلاس کرتے پھر رہے ہیں اور چندے اور بھتے دینے والی غریب قوم کے غم میں ساحلوں، سیرگاہوں، شاپنگ مالوں اور گراں ترین اپارٹمنٹوں میں بیٹھ کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔
اس ملک میں یہی نہیں طے ہو رہا کہ بیرون ملک سفارت خانوں میں ملکی تجارت کی نمائندگی کون کرے گا! ’’کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ کی سروس بنائی گئی۔ اس کا کام کامرس اینڈ ٹریڈ کی دیکھ بھال تھا۔ مگر یہاں تو پچھلے ساٹھ سال سے بیرون ملک تعیناتیاں چاچوں، ماموئوں، بھانجوںاور بھتیجوں کی ہو رہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اگر ایئر پورٹ پر حکمران اعلیٰ کا استقبال کر رہا ہے تو بیرون ملک کمرشل کونسلر بھی وہی بنے گا! کامرس اینڈ ٹریڈ میں بیس بیس سال ملازمت کرنے والے افسر، جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے صرف اسی شعبے کے لیے مختص کیے جاتے ہیں، باہر نہیں بھیجے جاتے۔ اِس ’’میرٹ نوازی‘‘ کا نتیجہ ملکی تجارت کا زوال ہے۔ دو برس سے چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ سعودی عرب جا کر چاول کی برآمد میں اضافے کی کوشش کرے۔ سعودی عرب کی وسیع و عریض منڈی میں پاکستانی چاول کا حصہ صرف دس فی صد ہے۔ ہمسایہ ملک پاکستانی چاول خرید کر، اپنا ٹھپہ لگا کر اپنے نام سے برآمد کر رہا ہے اس لیے کہ جس اعلیٰ کوالٹی کا چاول پاکستان میں پیدا ہو رہا ہے، اُس کا ہمسایہ ملک میں تصور بھی ناممکن ہے۔ مگر ایسوسی ایشن کو سعودی عرب کا ویزا ہی نہیں مل رہا۔ برآمدکنندگان کی ایسوسی ایشن اب کہتی ہے کہ جب تک کمرشل اتاشی کو تبدیل نہیں کیا جاتا یہ لوگ سعودی عرب کا دورہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح کا بائیکاٹ ہوا۔ یہ نہیں معلوم کہ ویزا نہ ملنے میں کمرشل اتاشی کا کتنا قصور ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اتنی کوشش نہ کی ہو جتنی کرنی چاہیے تھی۔ یہی حال آسٹریلیا میں 
ہے۔ ایسوسی ایشن کو شکوہ ہے کہ ہمارا ہائی کمیشن تعاون نہیں کر رہا۔ چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے تو برآمدے میں نہ ڈھونڈے! مطالبہ حکومت سے یہ کرے کہ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ کے افسر جو تجارت کے کام کے ماہر ہیں اور اسی میدان کے لیے بھرتی کیے گئے، تربیت دی گئی، انہیں کمرشل اتاشی مقرر کیا جائے۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر لائق ہوں گے مگر لگان اور مالیہ کا کام کریں۔ وہ زمانے گئے جب یہ امرت دھارا ہر بیماری میں استعمال ہوتا تھا۔
بات وسیم خان کی ہو رہی تھی۔ اس افسر نے تلہ گنگ کو خوبصورت کرنے کا عہد کیا تھا۔ تجاوزات کو گرانے کی مہم چلائی۔ مگر بڑے آدمیوں کے رشتہ دار متاثر ہوئے۔ کسی کا ہوٹل گرا، کسی کا سٹور راستے میں پڑا۔ نوجوان عزمِ صمیم رکھتا تھا۔ مگر یہاں عزم کی ضرورت ہے نہ قانون کا راستہ صاف کرنے والوں کی، جس ملک میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اُن نام نہاد مذہبی رہنمائوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں جنہیں عوام کی اکثریت نے کبھی ووٹ ہی نہیں دیا اور ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر عوامی نمائندوں کے پاس کیے ہوئے حقوق نسواں کے بل پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں وہاں ناجائز تجاوزات گرانے والے افسر کا دفاع کون کرے گا! اس قبیل کے نوجوانوں کے لیے دوہی راستے ہیں۔ ملک چھوڑ جائیں یا نمک کی کان میں نمک ہو کر رہیں۔ ورنہ بارش کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں کہ بقول ظفرؔ اقبال   ؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا

حرف اُس شے کے تین ہیں

$
0
0
زیادہ مدت نہیں گزری جب عبدالستار ایدھی شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے۔ سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آ گیا۔ ہر شخص تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔ مرد بھی‘ عورتیں بھی‘ بچے بھی‘ بوڑھے بھی۔انہی دنوں ان کی وفات کی خبر اُڑ گئی۔
جلد ہی اس کی تردید کر دی گئی مگر اس تھوڑے سے وقت میں جیسے قیامتیں گزر گئیں۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ہاتھ دعائوں کے لیے اُٹھ گئے۔ آنکھیں آنسوئوں سے چھلکنے لگیں۔ 
اور اس شخص کی حیثیت کیا ہے؟ ملیشیا کی قمیض‘ اسی رنگ کا پاجامہ‘ اس لباس کی قیمت شاید ہزار پندرہ سو سے زیادہ نہ ہو۔ سر پر ایک عام سی ٹوپی! سائیدوں سے مُڑی تڑی ہوئی! لمبی داڑھی! ڈیزائنر سوٹ‘ نہ آگے پیچھے گاڑیاں‘ نہ ڈیفنس میں ‘نہ باتھ آئی لینڈ میں محل‘ نہ پرسنل سٹاف‘ نہ غیر ملکی دورے‘ نہ ڈنر‘ نہ عصرانے‘ نہ پریس کانفرنس‘ کچھ بھی نہیں۔ مگر ایدھی دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ آج اگر عبدالستار ایدھی یہ اعلان کر دے کہ سب لوگ مال روڈ لاہور یا ڈی چوک اسلام آباد پر جمع ہو جائیں کہ اس نے وہاں ایک ضروری اعلان کرنا ہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے عزت اور ذلت کے حقیقی معیار قائم کر رکھے ہیں‘ اتنا بڑا مجمع جمع ہو جائے کہ ریاستی ادارے حواس کھو بیٹھیں! 
یوں تو ایدھی صاحب کو کئی بار دیکھا مگر ایک منظر نہیں بھولتا۔ گھر والوں نے کچھ ملبوسات دیے کہ ایدھی سنٹر پہنچانے ہیں۔ اُن دنوں آئی ایٹ کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام تھا۔ وہاں سے ایدھی سینٹر نزدیک تھا۔ کپڑوں کی گٹھڑی لے کر اندر گیا۔ ایک طرف صحن میں کرسی پر ایدھی صاحب تشریف فرما تھے۔ تن تنہا‘ سٹاف کے گنتی کے چند افراد اندر کمرے میں تھے۔ کس ادائے بے نیازی سے اور کس عافیت میں یہ شخص بیٹھا تھا۔ چوکیدار تھا‘ نہ گارڈ‘ پی اے تھا‘ نہ کوئی معاون۔سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ یوں لگا جیسے وقت کوئی اور ہو! کسی اور زمانے میں! مقام کوئی اور جیسے آسمانوں میں!
حکیم سعید صاحب کی مثال لیجیے‘ کروفر نہ ہٹو بچو کی صدائیں! امریکہ گئے تو جوتا تکلیف دے رہا تھا۔ نیا خریدنا چاہا۔ قیمت سو ڈالر بتائی گئی۔ انکار کر دیا۔ کہا یہ سو ڈالر ہمدرد کے ادارے کو کیوں نہ دوں۔ جوتے کے اندر روئی رکھ لی تاکہ تکلیف کم ہو جائے۔ ایک وقت کا کھانا!! ہر پیر کے دن روزہ!! چاہتے تو واشنگٹن سے لے کر دبئی تک‘ لندن سے لے کر کراچی تک محلات کے‘ ہوٹلوں کے‘ پلازوں کے‘ کارخانوں کے ڈھیر لگا سکتے تھے۔ مگر بنائی تو یونیورسٹی بنائی‘ بنایا تو مدینۃ الحکمت بنایا۔ بنائے تو شفاخانے بنائے۔ پھر جب شہید کیا گیا تو کون سی آنکھ تھی جو آنسوئوں سے چھلک نہ اٹھی‘ کون سے ہونٹ تھے جنہوں نے قاتلوں کے لیے بددعا نہ کی۔ قتل کرانے والوں اور کرنے والوں کے گروہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس قتل پر دل گرفتہ ہوئے۔ دل کہتا ہے یہ قتل اُن رازوں میں سے ہے جو اسی دنیا میں طشت ازبام ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں۔ دستاویزی ثبوت کچھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ باقی بھی آئے گا۔ مگر اس قتل کا سراغ آج کا موضوع نہیں!
نوّے کا عشرہ شروع ہو رہا تھا۔ شاید اسّی کے عشرے کے اواخر تھے۔ ’’ہمدرد‘‘ نے دارالحکومت میں ’’ایک مہینہ ایک شاعر‘‘ کے پروگرام ترتیب دیے ۔ہر ماہ ایک شاعر کے ساتھ شام منائی جاتی تھی۔ سال بھر یہ تقریبات جاری رہیں۔ ان بارہ شعرا ء میں یہ کالم نگار بھی تھا۔ حکیم صاحب نے اپنے دست مبارک سے کلائی کی گھڑی انعام میں دی۔ ایک عام سی گھڑی‘ چند ہزار روپوں کی! ہو سکتا ہے اُس وقت چند سو کی ہو۔ مگر کیا افتخار ہے جو اس گھڑی کے ساتھ وابستہ ہے!  ع
میں تخت زر کے عوض کاسئہ گدائی نہ دوں
کتنی ہی قیمتی گھڑیاں ملیں‘ مگر جو احساس امارت یہ گھڑی باندھ کر ہوتا ہے‘ تین کروڑ روپے کی گھڑی باندھنے والے حکمرانوں کو کیا ہوتا ہو گا؟  ع
تو چہ دانی کہ درین گرد سواری باشد!
تجھے کیا پتہ کے اس گرد سے سوار بھی ظاہر ہوتا ہے!
ان شخصیات کے مقابلے میں صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کو دیکھیے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ رہے‘ تقریباً ایک عشرے تک ملک کے سیاہ و سفید کے حکمران رہے۔ ایسے حکمران کہ سیاست دان دس دس بار منتخب کرانے کا اعلان کراتے تھے۔ راولپنڈی کے ایک صاحب سید کا لاحقہ لگائے بغیر ان کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے وضو بھی کرتے ہوں۔ مگر دو 
دن پیشتر گئے تو کتنے دل رنجیدہ ہوئے؟ کتنی آنکھیں اشکبار ہوئیں؟ کتنی جھولیاں ان کی خیریت کے لیے آسمان کی طرف بلند ہوئیں؟ کتنے ہونٹ دعا کے لیے کپکپائے؟ بائیس کروڑ افراد کے دلوں کو چیر کر دیکھا جائے تو اُس خدا کی قسم! جس نے ایدھی اور حکیم سعید جیسے تہی دست فقیروں کی محبت کروڑوں دلوں میں انبار کر رکھی ہے! شاید ہی کسی دل میں پرویز مشرف کے لیے وہ جذبات ہوں جنہیں قابل رشک کہا جا سکتا ہے!
اور کروفر دیکھیے! گئے تو گاڑیوں کے جلوس میں‘ وہاں اُترے تو آگے پھر گاڑیوں کی قطاریں! گئے تو محل سے گئے۔ پہنچے تو وہاں ایک اور محل حاضر تھا! تازہ ترین تصویر میں سگریٹ ہونٹوں سے لگا رکھا ہے۔ غلام سلگا رہا ہے! روایات تواتر کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کنالی کے سوٹ پہنتے ہیں جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے آغاز ہوتی ہے۔ اگر اس سے بھی گراں تر سوٹ پہنتے ہیں تو اِس پینڈو کالم نگار کو اس برانڈ کا کیا علم! ایک بار میڈیا نے خبر دی کہ پشاور سے آٹھ یا بارہ جوڑے پشاوری چپلوں کے کراچی منگوائے۔ دارالحکومت میں فارم ایسا کہ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما خواب میں بھی نہ سوچ سکیں! سارے حکومتی ادارے‘ تمام ریاستی شعبے‘ حفاظت کے لیے کمربستہ! کوئی عامی پہنچنے کا تصّور بھی نہ کر سکے!
مگر حیف! صد حیف! 
مگر افسوس! ہزار افسوس!
مگر ہیہات! ہیہات! یہ سب کروفر‘ یہ سارا شاہانہ ٹھاٹھ! ایک شے نہیں دلا سکتا۔ حرف اُس شے کے تین ہیں! پہلا حرف عین ہے۔ جس کے نیچے زیر ہے! دوسرا حرف زے ہے۔ جس پر تشدید ہے! تیسرا حرف تے ہے! پرویز مشرف اگر خلق خدا کے سامنے مریخ سے طلسمی زینے پر اتریں‘ پرویز مشرف اگر بحرہند چل کر عبور کر لیں ‘پرویز مشرف اگر چشم زدن میں ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ جائیں تب بھی اُس عزت کا جو ایدھی اور حکیم سعید جیسی شخصیات کو میسر ہے‘ عشرعشیر بھی ان کے بخت کے تھیلے میں نہیں پڑ سکتا!
تضحیک! ایسی ویسی تضحیک؟ کوئی کہہ رہا ہے اڑان بھر لی! کوئی لکھتا ہے اُڑن چُھو ہو گئے۔ کہیں لکھا ہے پہنچتے ہی میڈیکل اپوائنٹ منٹ منسوخ کر دی! تصویر میں سگریٹ سلگایا جا رہا ہے‘ نیچے لکھا ہے ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے!! وہاں سے بیان جاری کیا ہے کہ واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ کوئی ہے جو ہنس نہیں رہا؟
خلق خدا غریب ہے مگر بے وقوف نہیں! مجبور ہے مگر کند ذہن نہیں! بدعنوان ٹولوں کی گرفت میں بے بس ہے مگر اندھی نہیں! پس جو عزت چاہتا ہے‘ ایدھی کو دیکھ لے‘ حکیم سعید کی مقبولیت پر غور کر لے‘ بھارت میں عبدالکلام کی ہر دلعزیزی کا سوچ لے پھر جنرل پرویز مشرف جیسے طاقتوروں اور گردن بلندوں کی شہرت و عزت بھی دیکھ لے! شاہی مسجد کے ایک طرف اُس اقبال کے مزار پر آنے والوں کی تعداد پر غور کر لے جو پوری زندگی صوفوں پر نئی پوشش نہ افورڈ کر سکا اور شاہی مسجد کے دوسری طرف اُس سکندر حیات کا مقبرہ بھی دیکھ لے جس کا طرّہ فلک کے رُخ پر تھا اور سلطنت برطانیہ جس کی مٹھی میں تھی!
اپنا اپنا چوائس ہے! اپنا اپنا انتخاب!

Viewing all 1904 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>