Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1914 articles
Browse latest View live

ٹشو پیپر

$
0
0

آپ ریستوران میں کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں،بیرا کپڑے کا بنا ہوا نیپکن لاتا ہے، آپ کھاتے ہوئے اس نیپکن کو اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں۔ تاکہ کھانے کے ٹکڑے یا سالن کے قطرے آپ کی پوشاک پر نہ گریں۔ 
پھر بیرا ایک پلیٹ میں چند کاغذی رومال لاتا ہے،ان سے آپ ہاتھ پونچھتے ہیں۔
آپ کی گاڑی میں ٹشو پیپر کا ایک ڈبہ پڑا ہے، کچھ کھانے کے بعد آپ ڈبے سے ایک ٹشو کھینچتے ہیں،ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں، پسینہ آئے تو ایک اور ٹشو نکالتے ہیں،پیشانی پونچھتے ہیں اسے بھی پھینک دیتے ہیں۔ 
آپ کا اس نیپکن سے،اس کاغذ ی رومال سے،اس ٹشو پیپر سے کیا رشتہ ہے،کتنی دیر کا تعلق ہے؟ پھینک دینے کے بعد کیا آپ فکرکرتے ہیں،کہ اس کا کیا بنا؟کون سا خاکروب لے گیا؟کوڑے کرکٹ کے کس ڈھیر پر پہنچا؟نہیں!آپ کا تعلق اس نیپکن سے اس کاغذی رومال سے،اس ٹشو سے محض چند لمحوں کا ہے،استعمال کیا،پھینک دیا۔
غور کیجئے کہ نیب نے شریف خاندان کے افراد پیش ہونے کے لیے حکم نامے بھیجے۔کوئی بھی نہ پیش ہوا۔۔ایسا ہی ایک حکم نامہ نیب نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھیجا،سعید احمد کی وہ اہمیت،وہ شان و شوکت،وہ جاہ وجلال وہ حیثیت نہ تھی جو میاں محمد نواز شریف اور ان کے بیٹوں کی تھی۔ سعید احمد نیب کے حکم نامے کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرسکتے تھے جو شریف خاندان نے کیا ۔سعید احمد کو پیش ہونا پڑا،انہیں گھنٹوں گرِل کیا گیا، پہروں بٹھایا گیا، پانچ رکنی ٹیم نے نچوڑا، پوچھ گچھ کی، سعید احمد کے پانچ بینک اکاؤنٹس تھے،جن سے بھاری رقوم باہر منتقل ہوئیں،انہی کے اکاؤنٹس سے اسحاق ڈار کی کمپنیوں کو رقوم گئیں۔ 
فرض کیجئے،میں صاحب بیرون ملک چلے جاتے ہیں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، جنرل پرویز مشرف بیرون ملک براجمان ہیں، رول آف لاء کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، مگر نیب سعید احمد کو نہیں چھوڑے گا، اس سے پہلے ٹی وی پر کروڑوں لوگوں نے بار ہا دیکھا کہ ایس ای سی کے چیئر مین عدالتوں میں آجا رہے ہیں، منہ پر ماسک رکھا ہے،کبھی حوالات سے نکالا جا رہا ہے،کبھی پیشی کے لیے لے جایا جا رہا ہے،
یہ بیوروکریٹ نوکر شاہی کے ارکان،یہ اہلکار کیاہیں؟یہ وہ نیپکن ہیں جنھیں بڑے لوگ کھانا کھاتے وقت اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں، تاکہ روٹی کے ٹکڑے اور سالن کے قطرے گرنے ہوں تو ان پر نہ گریں۔ یہ وہ کاغذی رومال ہیں،یہ وہ ٹشو ہیں جن سے ہاتھ پونچھ کر،ماتھے کا پسینہ صاف کرکے نیچے پھینک دیتے ہیں، اب ان کے ساتھ نیب کیا کرتی ہے،یا ایف آئی اے،یا عدالتیں،یہ ہاتھ پونچھنے والوں کا مسئلہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ پڑھے لکھے افراد اپنے آپ کو تر نوالہ کی حیثیت سے بڑے لوگوں کے دستر خوان پر کیوں پیش کرتے ہیں،؟اس کی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بھی بڑے لوگوں کے طبقے میں شمار ہو گئے ہیں، وزیراعظم بلا کر بات کرتے ہیں،حکمران پیغام مات بھیجتے ہیں،محل میں بلایا جاتا ہے،خدام جھک کر سلام کرتے ہیں،سرگوشیوں میں بات کی جاتی ہے،پروٹوکول ملتا ہے،صاحب آتے وقت اٹھ کر ملتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے ہی مطلب پورا ہوا حکمران انہیں بھول جائیں گے اور کاغذی رومال کی طرح ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ 
بیوروکریٹ کی چار اقسام ہیں۔
اول: وہ سر پھرا جو غلط حکم ملنے پر صاف بلند آواز سے "نہیں "کہتا ہے۔سچ بات سامنے کرتا ہے،اور لفظوں کو چبائے بغیر بلند اورواضح انداز میں کرتا ہے۔ایسے سر پھروں کی فوراً ٹرانسف کردی جاتی ہے،اوایس ڈی بنا دیا جاتا ہے،کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے،یا کسی ایسی مصیبت میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں،
دوم: دیانتدار مگر نسبتاً ڈرپوک یا حد سے زیادہ محتاط۔یہ غلط کام کرنے سے صاف انکار نہیں کرتے، خاموش ہوجاتے ہیں،مگر غلط حکم نہیں مانتے،چھٹی لے لیتے ہیں،بیمار ہوکر بستر پر لیٹ جاتے ہیں،بھاگ دوڑ کر تبادلہ کروا لیتے ہیں،مگر اپنے آ پکو بچا لیتے ہیں،
سوم: ایسے ڈرپوک جو غلط حکم خوف کی وجہ سے مانتے ہیں،ان کا اپنا مفاد اس میں شامل نہیں ہوتا،مگر پھنس جاتے ہیں،فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی،رات بھرجاگتے ہیں،سوچتے ہیں کس طرح جان بچائی جائے،صبح دفتر جا کر،سب کچھ کردیتے ہیں،
چہارم: وہ جن کی ہڈیوں اور ہڈیوں کے گودے میں بدنیتی بھری ہوتی ہے،یہ غلط کام ڈھونڈ ڈھونڈ کرکتے ہیں، حکمرانوں کا قرب حاصل کرنا ان کا نصب العین ہوتا ہے، یہ دوکروڑ اوپر بھیجتے ہیں تو ایک کروڑ اپنی جیب میں رکھتے ہیں، افتاد پڑے تو دے دلا کر بچ جاتے ہیں، یہ اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ 
ؔ"لے کر رشوت پھنس گیا،دے کر رشوت چھوٹ جا"
محمود احمد لودھی ایک سول سرونٹ تھے، سرپھرے،لاہور میں محکمہ تعمیرات(پی ڈبلیو ڈی وغیرہ)کے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ تھے۔گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سائیکل پر آتے جاتے،محکمہ تعمیرات سے اپنی رہائش گاہ پر چونا تک نہ پھروایا،جو اہلکار اور افسر عرصے سے ایک ہی جگہ متمکن تھے،انہیں اکھاڑ پھینکا،راشی افسروں اور اہلکاروں کو "خشک"سیٹوں پر بٹھا دیا۔
متعلقہ وزیر کا فون آیا کہ فلاں کو نہ چھڑیے،وہیں رہنے دیجیے،لودھی صاحب نے معذرت کی کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔وزیر صاحب ناراض ہو گئے۔ فون دھماکے کے ساتھ بند کیا، لودھی صاحب چھٹی کے بعد گھر پہنچے تو گھر والوں سے کہا کہ سامان پیک کرنا شروع کرو،آج کل میں تبادلہ ہونے والا ہے۔ خدا کی قدرت،دوسری صبح اخبار کھول کر دیکھا تو وزیر صاحب کی رخصتی کی خبر تھی۔
یہ تو خبر ایک استثنائی واقعہ تھا، ہر بار معجزہ نہیں برپا ہوتا۔ دیانت اور سچ کی سزا بھگتنا ہوتی ہے۔یہ اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔اس پر پریشانی یا پشیمانی کیسی؟
دو بھائیوں کا قصہ مشہور ہے ۔ایک مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا،دوسرا بادشاہ کے حلقہ ملازمین میں شامل تھا،ایک دن وہ مزدور سے کہنے لگا،تم بھی چاکری کرلو۔مزدوری کی مشقت سے بچ جاؤ گے۔
مزدور نے جواب دیا کہ تم محنت مزدوری کو شعار بناؤتاکہ نوکری کی ذلت سے رہائی پاؤ،اس لیے عقل مندوں نے خوب کہا ہے،روکھی سوکھی کھا نا اور بیٹھنا،سنہری پیٹی کمر کے ساتھ باندھ کر کھڑا ہونے سے بہتر ہے۔ہاتھوں سے لوہا کوٹنا حکمرانوں کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا رہنے سے بہتر ہے۔انتخاب خود کرنا ہوتا ہے۔ایک روٹی بہتر ہے یا جی حضوری میں کمر دہرا کرنا۔دہرا کرنے سے یاد آیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک انگریز کپتان کی خودنوشت پڑھنے کا اتفاق ہوا،اسے کمپنی بہادر نے رجنیت سنگھ کے دربار میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا،رنجیت سنگھ اے شکار یا کسی دوسری مہم پر لے جاتے ہوتے ہوئے ساتھ لے جاتا تھا، وہ آنکھوں دیکھا واقعہ لکھتا ہے کہ۔۔
سفر کے دوران پڑاؤ ہوا،خیمے نصب کیے گئے،رنجیت سنگھ نے کھانا کھانا تھا،ایک نوکر اس کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ،حالت رکوع میں ہوگیا۔اس کی پشت کو مہاراج نے تپائی کے طور پر استعمال کیا اور اس پر کھانا رکھ کر کھایا،اس سارے عرے میں وہ بے حس و حرکت جھکا رہا۔
یہ کہنا یا سمجھنا کہ افسر شاہی کی اکثریت بدعنوان ہے،قرین انصاف نہیں،اکثریت دیانتدار ہے اور خدا ترس،محب وطن ہے اور اپنے بچوں کے منہ میں حرام کی چوگ ڈالنے سے ڈرتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ منہ پر واشگاف الفاظ میں "نہیں "کہنے والے کم ہیں۔ زیادہ وہ ہیں جو حکمت سے ڈپلومیسی سے کام لے کر غلط کام سے جان چھڑا لیتے ہیں، اور قومی خزانے کی بھی حتی المقدور حفاظت کرتے ہیں۔ مگر ہر انسان کی بہادری اور دیانت داری کی ایک حد ہوتی ہے،وہ اس حد تک ہی جا سکتا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں ہوتا،معاشرے کا ہی حصہ ہوتا ہے،اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نعرہ لگا کر سولی چڑھ جائے گا،صحیح نہیں۔۔۔توقع رکھنے والے خود کبھی ایسا نہیں کرتے۔ 
یہاں کرپٹ بیوروکریٹ اسے سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کی نظر میں آجائے اور اقتدار کے برآمدوں میں آنا جانا شرو ع کردے مگر یہ کوتا ہ نظری ہے،کامیاب بیوروکریٹ وہ ہے جو اپنے حکمرانوں کی نظروں سے بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ اپنے فرائض و قوانین کے مطابق،حدود کے اندر رہ کر سرانجام دے،مرکزِ نگاہ نہ بنے،اپنے آپ کو آزمائش میں نہ ڈالے، اتنا اونچا نہ اڑے کہ پرواز جاری رکھنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑے، ورنہ گر ہی جائے۔
اخلاقیات میں ایسے افراد کی تحسین کی گئی ہے جو دربار میں،یا مجلس میں حاضر ہوں تو نمایاں نہ ہوں اور غیر حاضر ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو محسو س نہ کیا جائے،یہ خلقِ خدا کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عزتِ نفس رکھتا ہے، اور اپنی تشہیر سے بچتاہے،شاید ایسے لوگوں ہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 
تری بندہ پروری سے میرے د ن گزر رہے ہیں۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا،نہ شکایتِ زمانہ!



انسانوں کی ایک قسم۔

$
0
0

خراسانی جب بھی عمرے یا زیارت پر جاتا تو عراقی دوست کے ہاں بغداد میں ضرور ٹھہرتا۔عراقی خوب خاطر مدارت کرتا،دعوتیں منعقد کرتا۔بغداد کی سیر کراتا۔شام کو کشتی میں دجلہ کے نظارے کراتا،خراسانی ہفتوں اس کے ہاں قیام کرتا۔وہ اکثر اپنے دوست کو کہتا کہ کبھی خراسان آنا ہو تو مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیجئے۔مگر افسوس!اس علاقے میں نہ آپ کا کاروبار ہے،نہ مقدس مقامات ہیں،تاہم حسرت ہے کہ کبھی آپ غربت کدے پر تشریف لائیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی خوشنودی ء طبع کے لیے کیا کیا کرتا ہوں۔ رَے سے خربوزے منگواؤں گا،نیشا پور کے انگور،سبحان اللہ!بلخ کے بازار وں میں سمرقند کے سیب بکتے ہیں،بہشتی مٹھاس والے۔ہرات سے ایرانی کھجوریں خصوصی طور پر منگواکر پیش کروں گا۔۔برس ہابرس بیت گئے۔عراقی کے لیے خراسان بارہ پتھر باہرتھا۔خراسانی ہر سال آتا رہا،قیام کرتا رہا۔خاطر تواضح ہوتی رہی،اس کے گھوڑے کا بھی خیال رکھا جاتا۔
قسمت نے سمت بدلی،عراقی کو سفر درپیش ہوا،خراسان سے گزر کر اس نے ماوراالنہر کے علاقے میں جانا تھا۔ قافلے سے جدا ہوگیا کہ کچھ روز اپنے دوست خراسانی کے ہاں ٹھہرے گا،آخر کتنی بار حسرت سے خراسانی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کبھی وہ اس کے ہاں ورودکرے۔بالآخر وہ خراسانی کے شہر میں اور پھر ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ صحن کے درمیان میں ایک تخت بچھا تھا۔جیسے خراسان اور وسطی ایشیاکے گھروں میں ہوتے ہیں۔ او پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے خراسانی نیم دراز تھا ۔ارد گرد چارپائیوں پر اس کے دوست احباب اور ملاقاتی بیٹھے تھے۔گپ شپ ہو رہی تھی۔عراقی نے جاکر اسے سلام کیا تو خراسانی اسے دیکھ کر مسکرایا،نہ تپاک دکھایا۔ وہ تو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔سلام کا جواب بھی اس انداز میں دیا کہ صاف محسوس ہو رہاتھا کہ اس نے نہیں پہچانا۔
عراقی کو خیال آیا کہ یہ جو میں نے اونچی دیواروں والی ٹوپی پہنی ہوئی ہے،ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ پہچان پایا ہو، اس نے ٹوپی اتار دی اور پھر اس کے پاس گیا ۔اب بھی اس نے پہچاننے کا کوئی تاثر نہ دیا۔کوئی لفٹ نہیں دی،اور مسلسل اپنے ملاقاتیوں سے مصروفِ گفتگو رہا۔عراقی نے اب اپنے بھاری بھرکم لمبے چوغے کو موردِ الزام ٹھہرایا، اس خیمہ نما چوغے میں آخر وہ کیسے پہچان سکتا ہے۔۔چوغہ اتارا،پھر جاکر خراسانی کو سلام کیا۔ اب کے خراسانی نے شرم وحیا بالائے طاق رکھی اور صاف صاف کہا کہ اے عراقی تو ٹوپی اور چوغہ تو کیا،اپنی کھال بھی اتار ڈالے تو میں نہیں پہچانوں گا۔
یہ انسانوں کی ایک قسم ہے بدترین قسم!ارزل الخلائق!کنجوسی،بخل،سفلہ پن،حرص،زر پرستی،خود غرضی ہوس،طمع،لالچ،اور کم ظرفی۔سب ایک ذات میں جمع ہوجاتے ہیں۔کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔معاشرے میں ان کی تعداد،خدا کا شکر ہے زیادہ نہیں ہوتی مگر اتنی کم بھی نہیں کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ہاں!یہ ہے کہ ان اصلیت دیر سے کھلتی ہے۔ جیسے خراسانی کی اصلیت دیر سے کھلی۔ اگر عراقی کو شمال مشرق کی طرف سفر نہ کرنا پڑتا تو ہوسکتا ہے کہ مرتے دم تک اس پر خراسانی کا کھوکھلا پن ظاہر نہ ہوتا۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔؟ایک بات تو طے ہے کہ علاقوں کے حساب سے یہ تعمیم
 Generalisation
نہیں کی جاسکتی۔ہرگز نہیں!
خراسان ہی کی مثال لیجئے۔کم و بیش اسی علاقے کو اب افغانستان کہتے ہیں۔اگرچہ ایران کے تین صوبوں کے نام خراسان پر ہیں۔شمالی خراسان،خراسان رضوی،اور جنوبی خراسان!مگر چاہے ایرانی خراسان ہو یا افغانستان،مہمان نوازی یہاں کا عام وصف ہے۔عربوں کی مہمان نوازی معروف ہے،مگر دوسری طرف عربی ادب بخیلوں،کنجوسوں،مفت خوروں اور طفیلیوں کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
غور کریں تو اس رویے کے تین اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔سب سے پہلا موروثی اثر ہوگا۔یعنی Genes-سفلہ پن خون میں رواں ہوگا۔دوسراسبب خاص مزاج،خاص کیمسٹری،جو وہ پیدائش سے لے کر آیاہے۔ تیسرا سبب اٹھان،ماحول،گھر کی تربیت، اور گھر کا مخصوص رسم و رواج، مگر یہ اسباب سب آپس میں غلط ملط ہوجاتے ہیں،ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے سگے بہن بھائی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک فضول خرچ،دوسرا پائی پائی سینت کر رکھنے والا۔ایک فیاض،دوسرا کنجوس،ایک دعوتوں پر دعوتیں کرنے والا دوسرا چائے کی پیالی بھی مشکل سے پلانے والا۔ ایک ڈھیروں ملبوسات اکٹھے لینے والا۔ دوسرا ایک پرانی پتلون میں برس ہابرس گزار دینے والا۔انسان ایک عجیب مشینری ہے۔ کوئی سے دو انسان دنیامیں شاید ہی ایک دوسرے کا مثالیہ ہوں۔جون ایلیاء نے کہا تھا۔ 
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ پیش
اب کئی ہجر ہوگئے،اب کئی سال ہوگئے!
اس ضمن میں کوئی فارمولا ہے نہ قائدہ کلیہ، برمکی خاندان کے تمام افراد فیاض تھے،اور حد درجہ سخی۔دادو دہش میں مشہور!خالد برمکی تھا یا جعفر برمکی یا یحییٰ برمکی،کسی کے دروازے سے کوئی خای ہاتھ کبھی نہ لوٹا۔مگر انہی کا ایک بھائی حد درجہ کنجوس تھا۔ نام اس کا اس وقت یاداشت میں نہیں دکھائی دے رہا۔ایک شاعر نے اس کی خِست سے تنگ آکر ہجو لکھی۔ہجو کیا لکھی،قلم توڑ کر رکھ دیا۔ لکھا کہ اگر اس کے پاس بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات کی قطار ہو اور ہر محل کا ہر کمرہ سوئیوں سے بھرا ہو اور اس سے یعقوب علیہ السلام ایک سوئی مانگیں کہ یوسف کی قمیض سینی ہے اور تمام پیغمبر سفارش کریں اور تمام فرشتے گارنٹی دیں کہ سوئی واپس کردی جائے گی،مگر وہ پھر بھی نہیں دے گا اور صاف انکار کردے گا۔ 
ایسے افراد سے ہر کسی کو واسطہ پڑتا ہے۔ایک بار باہر دستک ہوئی،دیکھا تو دو تین لیبر نما اشخاص کھڑے تھے، کہنے لگے پانی پینا ہے،انہیں پانی پلایا، پوچھا کہاں سے آئے ہو۔۔تو سٹریٹ کے ایک محل نما مکان کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ائیر کنڈیشنر نصب کررہے ہیں۔ کئی بار پانی مانگا مگر کسی نے بھی نہیں دیا۔ خدا کی قدرت پر حیر ت ہوئی۔ 
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں،
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے!
چائے کا ایک ایک کپ پلایا، کھانے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک سا تھی کھانا لانے بازار گیا ہے۔
ان دنوں یہ کالم نگار سٹاف کالج لاہور میں تربیتی کورس کر رہا تھا۔ جمعہ کی نماز باغِ جناح میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی مسجد میں ادا کی جاتی۔ایک جمعہ کے دن نماز پڑھ کرواپس آرہا تھاکہ ایک دوست سے ملاقات ہوگئی،کھانے کا وقت تھا،انھیں ساتھ لے آیا،کھانا کھایا،خوب گپ شپ ہوئی،ایک بار ان کے ہاں جانا ہوا۔ساتھ غالباً معروف شاعر اور بنکار ملک فرح یار تھے۔ سرِ شام پہنچے،گھنٹو ں بیٹھے رہے،وہ اٹھنے بھی نہ دیتے، ساڑھے دس بج گئے،کھانا تو کیا چائے کا کپ بھی نظر نہ آیا، بالآخر اجازت لی اور ایک ریستورا ن میں شکم کی آگ بجھائی۔
ایک بہت بڑے محکمے میں یہ کالم نگار ان دنوں سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک دن ادارے کے سربراہ نے بلایا، کہا کہ سول سروس کے جس حصے سے ہمارا تعلق ہے اس کی انگریزی عہد سے کچھ روایات چلی آرہی ہیں،ان میں ایک یہ ہے کہ تعلق صرف دفتروں اور فائلوں تک محدود نہیں رہتا۔ہم ہر ماہ ایک دعوت کیا کریں گے جس میں سب اکٹھے ہوا کریں گے۔پہلی دعوت انہوں نے کہا کہ وہ کریں گے کیوں کہ وہ سب سے زیادہ سینئر ہیں،چنانچہ ا نہوں نے دعوت منعقد کی،پھر اس شخص نے،سنیارٹی کے اعتبار سے جس کا نمبر آتا۔چھ سات ماہ یہ سلسلہ جاری رہا،اس کے بعد رک گیا۔دو تین ماہ بعد انہوں نے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا؟بتایا گیا کہ فلاں صاحب کی باری ہے،وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے، دلچسپ بات یہ تھی کہ جن صاحب کی بار ی پر آکر معاملہ اٹک گیا تھا،وہ ہر دعوت میں جوش و خروش سے شریک ہوتے تھے،تاریخ کا تعین کرانے میں پیش پیش رہتے -کبھی کبھی تو فرمائش بھی کرتے تھے کہ بھائی فلاں پکوان ضرور ہونا چاہیے،تین ماہ کے بعد چھ ماہ بھی گزر گئے،ان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی، ایک بار ایک منچلے نوجوان افسر نے پوچھ ڈالا سر!آپ کے بعد فلاں کی باری ہے،وہ دعوت کرنا چاہتے ہیں،اس پر انہو ں نے بہت دھیمے لہجے میں اطلاع دی کہ نہیں باری ان کی ہے،تو وہی کریں گے۔اس کے دو تین ماہ بعد،ان کے ہا ں مدعو ہوئے ایک سال گزر چکا تھا-
کارپوریٹ سیکٹر کے ایک سینئر ٹیکنوکریٹ جو اتنے غیر معروف بھی نہیں،ایک زمانے میں بہت گرم جوشی سے راہ ورسم رکھے ہوئے تھے،جب کراچی سے آتے ضرور ملنے آتے۔ایک مشترکہ دوست بھی اکثر وبیشتر ساتھ ہوتے۔دارالحکومت کے جن سرکاری اداروں،محکموں اور دفتروں میں ان کے کام پھنسے ہوتے۔ان کا بھرپور تذکرہ کرتے۔کوئی مشترکہ ریفرینس مل جاتا تو اسے خوب بروئے کار لاتے،ایک عرصہ اسی طرح ملتے رہے۔یہ کالم نگار اکثر وبیشتر کراچی جاتا مگروقت کی اتنی تنگی ہوتی کہ ان سے رابطہ کرنے کا خیال ہی نہ آتا،یوں بھی شام اپنی شاعر برادری میں گزرتی جس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایک بار قیام نسبتاً لمبا ہوگیا۔آواری ہوٹل میں قیام تھا۔دفعتاً وہ صاحب یاد آئے فون کیا یوں لگا جیسے کوئی اور ہی شخص ہو،شدید مصروفیت کا ذکر اتنے دلگیر لہجے میں کیا کہ ترس ہی آگیا مگر خیر،پتھر کی آنکھ میں اتنی شرم تھی کہ اس کے بعد کبھی شکل نہ دکھائی۔
معروف ادیب اور ڈرامہ نگارمرحوم احمد داؤدکا یہ حال تھا کہ ایک بار مہمان آئے تو گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔جیب بھی خالی تھی!مہمانوں کو بیٹھک میں بٹھایا کتابیں اکٹھی کیں۔موٹر سائیکل پر رکھ کر اولڈ بک شاپ آیا،فروخت کیں پھر بازار سے بہترین مرغن اور پرتکلف کھانا خریدا، اور مہمانوں کو پیش کیا!افسوس۔۔۔احمد داؤد عین شباب میں دنیاسے رخصت ہوا اور دوستوں کو مستقل رنج و محن میں چھوڑ گیا۔
یہ ایک طویل موضوع ہے اور دلچسپ بھی۔ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو فیاض اور کشاد ہ دل افراد کی قدر کون کرے۔بہت سے واقعات یاد آرہے ہیں۔مگر جلدی ہے اس لیے کہ جانا ہے،آپاکشور ناہید کے گھر دعوت ہے۔مہمانوں کو اکٹھا کرنے اور ضیافت کرنے کی بیماری آپا کو بری طرح لاحق ہے۔اب صحت پہلے جیسی نہیں رہی مگر اب بھی بیس بیس تیس تیس مہمانوں کا کھانا اپنے ہاتھ سے تیار کرتی ہیں۔شب دیگ ضرور ہوتی ہے،پودینے والی روٹی دستر خوان کا لازمی جزو ہے۔کیا لوگ ہیں جو دوسروں کو کھلا کر سرور حاصل کرتے ہیں۔یہ وہ مسرت ہے جس کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔یہ خدائی وصف ہے جو خدا کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک شخص کو کھانا کھلا رہے تھے،اس دوران گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا وہ آتش پرست ہے،دستر خوان کھینچ لیا،وحی آئی کہ واہ!ابراہیم واہ!اس آتش پرست کو ستر سال سے کھانا کھلا رہا ہوں،تم ایک وقت بھی نہ کھلا سکے۔

ایک درد ناک قتل

$
0
0

تبلیغی جماعت کے ایک ستر سالہ رکن کو سوتے میں پھاوڑے سے قتل کردیاگیاہے۔دوسرا شدید زخمی ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے طریقہ کار میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر گھر جاکر تبلیغ کی جائے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے میں مصروفِ عمل اس جماعت کے ارکان کا تعلق کراچی سے تھا۔میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے پروگرام کی رُو سے اس نے سیالکوٹ سے اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا اور چنیوٹ پہنچی تھی،غالباً پروگرام یہ تھا کہ شمال سے روانہ ہو کر،سال بھر میں جنوب تک پہنچا جائے گا۔
گھر گھر دستک دینے کے طریقے کار کے مطابق یہ جماعت اس مکان پر پہنچی جہا ں دو بھائی اکرام اور عمران رہتے تھے۔یہ دونوں بھائی کسی مدرسہ میں پڑھتے تھے۔ یا وہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔بہر طور یہ طے ہے کہ ان کا تعلق دوسرے مسلک سے تھا۔ گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے تبلیغی جماعت کو دیکھ کر ان سے بحث مباحثہ شروع کردیا۔ بات بڑھ گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیو ں نے اپنے کسی عالم سے بات کی، پھر دونوں نے رات کو آکر حملہ کردیا۔ ایک کو قتل کر دیا دوسرے کو زخمی۔
ہم جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا آغاز شمالی ہند کے علاقے میوات سے ہوا تھا۔ میواتی برائے نام مسلمان تھے اور اسلام کے بنیادی ارکان کلمہ نماز تک سے نابلد تھے۔یہ لوگ اکھڑ،درشت اور کھردرے بھی تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس مرحوم نے انہی سے کام کا آغاز کیا۔اس وقت جو طریقہ کار وضع کیا گیا تھا،اس میں یہ بھی تھا کہ گھر گھر جاکر دستک دی جائے گی۔ لوگوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی جائے گی۔اس دعوت میں تبلیغ کے مخصوص طریقہ کار کی جانب مدعو کیا جائے گا۔ 
چنانچہ جماعت کی تاسیس سے لے کر اب تک وہی طریقہ کار چلا آرہا ہے۔پاکستان میں جماعت کا مرکز رائے ونڈ ہے۔اور ڈھاکہ میں ککریل۔۔۔ یہ کالم نگار ڈھاکہ کی ککریل مسجد میں تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرتا رہا۔۔اور رائے ونڈ بھی حاضر ہوتا رہا ہے۔ جو گروپ تبلیغ کے لیے بھیجا جاتا ہے،اسے "تشکیل کرنا "کہا جاتا ہے۔طویل دروں والی جماعتوں کی تشکیل جیسے چھ ماہ،ایک سال،دوسال،بیرون ممالک کے دورے،رائے ونڈ یا ککریل میں کی جاتی ہے۔دس دن کے دورے یا سہ روزہ دورے علاقائی مراکز میں تشکیل پاتے ہیں۔جیسے راولپنڈی میں علاقائی مرکز و ویسٹرج میں واقع زکریا مسجد۔
ہر جماعت کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے، جماعت کے ارکان نظم و ضبط میں اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں جاکر جماعت اترتی ہے وہاں کسی نہ کسی مسجد میں قیام کرتی ہے۔عام طور پر دوسرے مسالک کی مساجد ان کے قیام کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔چنانچہ وہ اپنے ہی مسلک کی مسجد میں قیام کرتے ہیں۔اس کے بعد"گشت "کا مرحلہ آتا ہے۔مقامی افراد مدد کرتے جس"نصرت "کہا جاتا ہے۔ گشت پر روانہ ہونے سے پہلے امیر جماعت مفصل ہدایات دیتے ہیں۔اور تلقین کرتے ہیں کہ نظر کی حفاظت کرنی ہے،اور ذکر کرتے رہنا ہے۔پھر گھر گھر،ڈور ٹو ڈور بیل بجا کر گھر والے کو باہر بلایا جاتا ہے،مختصر تعارف کے بعد دعوت دی جاتی ہے، کہ محلے کی مسجد میں عصر،مغرب یا عشاکی نماز کے بعد بیان ہوگا، اس میں شرکت کیجئے اور دین کے لیے اس محنت میں ہاتھ بٹائیے، بیان ایک تفصیلی تقریر ہوتی ہے۔جماعت کے ہر رکن نے اپنی باری پر یہ بیان یعنی تقریر کرنا ہوتی ہے، ا س کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں،نا خواندہ یا نیم خواندہ شخص کو بھی یہ کام کرنا پڑتا ہے،تفصیلی بیان کے بعد ایک شخص کاپی قلم لے کر کھڑا ہوتا ہے۔اور حاضرین کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ اپنا نام لکھوائیں،یعنی سہ روزہ کے لیے یا چالیس د ن یا چار ماہ کے چلّے کے لیے یادس دن کے دورے کے لیے خود کو پیش کریں۔اس موقع پر اصرار کیا جاتا ہے اور تلقین،ترغیب اور تحریص کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاضرین میں سے کچھ،اپنی نظریں مسلسل نیچی رکھتے ہیں،اور بیان کرنے والے یا کاپی پینسل والے شخص کی نظروں سے نظریں ملانے سے گریز کرتے ہیں۔"تشکیل"،"گشت"اور بیان کے علاوہ ایک اورآئٹم "تعلیم "کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے تبلیغی جماعت کی واحد نصابی کتاب "فضائل ِ اعمال"سے حاضرین کو کچھ پڑھ کر سنانا۔ارکان کو تلقین کی جاتی ہے کہ اہل ِ خانہ کو بھی "تعلیم"دیا کریں۔
تبلیغی جماعت کی بنیاد ایک نیک بزرگ نے خوش نیتی سے رکھی تھی۔یوں بھی گزشتہ صدی کے اوائل میں ہندوؤں کی شدھی اور سنگھٹن جیسی بنیاد پرست تحریکوں لے مقابلے میں ایسی جماعت کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔المیہ یہ ہوا کہ ایک صدی ہونے کو ہے،اس جماعت کے طریقہ کار میں رمق بھر کا بھی تغیر نہیں ہوا۔ جماعت کے کارکنان قضاو قدر جو"بزرگ"کہلاتے ہیں ،مکالمے پر یقین نہیں رکھتے،کسی سوال کا جواب نہیں دیا جاتا،کسی شبے یا اعتراض کی تسلی نہیں کی جاتی ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ اسی مسلک کے کئی بلند پایہ علماء کرام نے "بزرگوں "کو کئی بار ترمیم اور نظر ثانی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔
جس زمانے میں ہانیانِ جماعت نے گھر گھر دستک دے کر تبلیغ کرنے کا اسلوب اختیار کیا اور کرایا تھا،وہ زمانہ اور تھا۔نوے سال گزر چکے ہیں،تب مصروفیت اتنی نہیں تھی۔رہنے کا انداز سادہ تھا۔دفتری،کاروباری،خاندانی،معاشرتی مکروہات اس قدر زیادہ نہ تھیں۔کوئی دستک دیتا تھا تو اجنبی ہونے کے باوجود اندر بٹھایا جاتا تھا۔چائے پانی پوچھتے تھے،اب وقت کا پہیہ بہت آگے جاچکاہے۔اب عالم یہ ہے کہ گاؤں جائیں تو وہاں بھی مصروفیت کا رونا سننے میں آتا ہے،ضروریاتِ زندگی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گئیں ہیں،یا کرلی گئیں ہیں۔گرانی نے اعصاب شل کردیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے دور افتادہ قریوں کے رہنے والے بھی شادیاں قصبوں کے ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں منعقد کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم تقریباً تین چوتھائی نجی شعبے کو منتقل ہوچکی ہے۔جس کے اخراجات مرتا کیا نہ کرتا کے حساب سے سوہانِ روح بن گئے ہیں۔بالائی طبقہ چڑھتے ہوئے زرمبادلہ کی وجہ سے پریشان ہے۔مڈل کلاس زندگی کو موم بتی کے دونوں سِروں کی طرح جلا رہی ہے،زیریں طبقہ ایک وقت میں تین تین نوکریاں کررہا ہے،اس صورتحال میں گھر کے باہر دستک ہوتی ہے یا گھنتی بجتی ہے،صاحب ِ خانہ باہر نکلتا ہے،چار پانچ متشرع اصحاب کو دیکھ کر پوچھتا ہے کیا بات ہے،نجانے وہ اندر کس حال میں تھا،حمام میں تھا یا کو ئی ضروری کام کررہا تھا،ایسے میں اسے کھڑا کرلیا جاتا ہے،اور وقت بے وقت تبلیغ کا ہدف بنایا جاتا ہے،مذہب کے احترام کی وجہ سے وہ صبر اور ضبط سے کام لیتا ہے مگر جھنجھلایاہوا ہوتا ہے۔ یہی وہ ذہنی حالت ہے جس میں وہ اعتراض کرتا ہے بحث شروع کردیتا ہے،اختلاف کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں وہ اس وقت اس حالت میں نہیں تھا کہ مہمانوں کو خوش آمدیدکہتا۔
جس شخص کو قتل کیا گیا وہ بھی اپنے گروپ کے ساتھ ایک شام گھر گھر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکال کر تبلیغ کررہا تھا،اس دورا ن یہ صاحب عمران اور اکرام کے گھر بھی گئے،مسلک کا اختلاف تو تھا ہی،عین ممکن ہے باہر بلائے جانے پر وہ مزید چِڑ گئے ہوں،اور جھنجھلاہٹ میں بحث شروع کردی ہو۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بحث و مناظرہ،مجادلہ کی صورت تب اختیار کرتاہے جب طبعیت میں چڑچڑا پن ہو اور مخاطب کسی اور وجہ سے برا لگ رہا ہو۔ کیا نوے سال گزرنے کے بعد بھی،معاشرے کی مکمل کایا کلپ کی وجہ سے گھر گھر دستک دینے کی پابندی ہٹائی نہیں جاسکتی۔؟
دلیل یہ دی جائے گی کہ ہزاروں لوگوں میں سے ایک کیس ایسا نکل آیا تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ گھر گھر دستک دینا ہی اس حادثے کی وجہ بنا،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک انسانی جان کی قیمت بھی خالق کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اسے پوری انسانیت کا قتل کہاگیا ہے۔انگریزی عہد میں ایک ہندوستانی نے شکایت کی تھی کہ وہ رفع حاجت کررہا تھا کہ ٹرین چل پڑی، اس پر ریل کے ڈبوں میں بیت الخلاء بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ستر سالہ بزرگ کے درد ناک قتل پر بھ اگر"برزگ"سر جوڑ کر نہ بیٹھیں اور زمانہ بدل جانے کی وجہ سے جو تبدیلیاں ناگزیر ہو گئیں ہیں،وہ وجود میں نہ لائیں تو افسوس،ہزار افسوس ہے!اب عہد وہ آچکا ہے کہ جس میں قریبی اعزہ بھی ٹیلی فون پروقت طے کرکے گھر آتے ہیں۔
اس کالم نگار نے کچھ عرصہ قبل ایک تفصیلی تحریر بعنوان "با احترام فراواں "ان حضرات کی خدمت میں پیش کی تھی۔بعد میں یہی مضمون ماہنامہ الشریعہ میں بھی شائع ہوا،مگر جہاں بڑے بڑوں کی تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں گردانا جاتا،وہاں ایک گمنام کھیت کی مولی کیا کر پائے گی۔
مثلاً اسی بات پر غور فرمائیے کہ چار ماہ کے جس عرصہ میں دنیا اور ماحول سے کاٹ کر دین کی "محنت"سکھائی جاتی ہے،اس میں حقوق العباد کی تربیت صفر ہے۔ چار ماہ کی رہبانیت کے بعد جب دنیا اور کارِ دنیا میں واپسی ہوتی ہے تو کاروبار،دفتر،فرائض،اعزہ واقربا،احباب سب کھلنے لگتے ہیں۔اور "محنت "کے خلاف لگتے ہیں۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ ان پر یقین نہیں آتا مگر مبنی بر حقیقت ہیں،اور افسوسناک ہیں،امیرالمومنین عمر فاروقؓ کا حکم تھا کہ مجاہد جہاد میں مصروف ہو تب بھی چار ماہ بعد( یا غالباً چھ ماہ بعد) اپنے اہلِ خانہ میں ضرور واپس آئے۔یہاں مردوں کو دودو سال کے لیے باہر بھیج دیا جاتاہے۔کوئی نہیں جو ان محروم توجہ کنبوں اور خاندانوں کی حالتِ زار پر توجہ دے،بوڑھے اور بے کس والدین کو چھوڑ کر چلے جانے کی مثالیں تو عام ہیں۔
یہ ایک دردناک قتل ہے،اس کے اسباب و علل پر غور ہونا چاہیے،اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہییں کہ تدارک ہو! 

ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا۔

$
0
0

پہلے چند سطروں پر مشتمل انگریزی میں لکھا ہؤا یہ خط پڑھیے 
‏Respected sir,
‏I am arrive by passenger train,Ahmadpur station and my belly is too much swelling with jackfruit.I am therefore went to privy.Just i doing the nuisance that guard making whistle blow and train to go off and i am running with lotaah in one hand and dhoti in the next.When i am fall over and expose all my shocking to man and female women on platform.I am got leaved at Ahmadpur station.This too much bad,if passenger go to make dung that damn guard not wait train five minutes for him.i am there fore pray your honor to make big fine on the guard for public sake.Otherwise i am making big report to paper.
‏Your faithful Servent,
‏Okhil Chandra Sen.
زبردست انگریزی میں لکھا ہوا یہ خط اوکھیل چند کا ہے جو اس نے جولائی 1909میں ریلوے حکام کو لکھا تھا،اس نے یہ رونا رویا ہے کہ وہ احمد پور ریلوے اسٹیشن پر حوائج ضروریہ کے لیے اترا،ابھی اس کا کام ادھورا تھا کہ ریل چل پڑی،اس نے ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا،دوسرے سے دھوتی سنبھالتا دوڑا مگر ریل کو نہ پکڑ سکا۔ سب کے سامنے اس کا ستر بھی کھل گیا۔روایت یہ ہے کہ اس خط پر انگریز بہادر نے پورا ایکشن لیا۔اور یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ہر ڈبے میں بیت الخلاء ہوگا۔یہ نادر ِ روزگار خط بھارت کے ریلوے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
یہ دلچسپ واقعہ جناب فضل الرحمٰن قاضی کی تصنیف "رودادریل کی "میں بیا ن کیا گیا ہے۔ فضل الرحمٰن صاحب نے یہ عجیب کتاب تصنیف کی ہے جوریل کی تاریخ بھی ہے۔ برِ صغیر کی بھی اس عرصہ کی تاریخ ہے اس حساب سے آپ بیتی بھی ہے۔تاریخی تصاویر بھی ہیں۔واقعات بھی ہیں۔دلچسپ اس قدر کہ شروع کریں تو آخر تک اپنے آپ کو پڑھوا کر ہی دم لے۔
ریلورے ہماری تاریخ اور ثقافت کا جزو لاینفک ہے۔اس سے رومان وابستہ ہے۔1854سے لے کر اب تک یعنی ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ ریل کی موجودگی پر محیط ہے۔ہوائی جہاز تو بہت بعد میں آیا۔ کار بھی بیسویں صدی میں آئی،خاندانوں کے خاندان ریل سے مستفید ہوئے۔ ساتھ سامان،لوٹا اور بستر۔
گھر سے کھانے کا سامان ساتھ لیے ہوئے 
ریلوے اسٹیشنوں پر خوانچے والوں کی آوازیں،
ریل روانہ ہونے کی سیٹی
،سفر کرنے والوں اور رخصت کرنے والوں کے غم زدہ چہرے،
آنسوؤں سے لبریز آنکھیں 
اور گیلے ہوتے رخسار۔۔اپنا شعر یاد آگیا۔
وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے،
وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھلنے لگے!
منیر نیازی کا لازوال شعر غضب کا ہے۔۔۔
صبح صادق کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا!
"روداد ریل کی "میرے خیال میں اردو میں ریلوے پر لکھی ہوئی پہلی تفصیلی کتاب تھی مگر کتاب کے پبلشر شاہد اعوان صاحب نے تصحیح کی کہ یہ تیسری کتاب ہے۔شاہد اعوان سے مل کر انسان ایک بار ضرور حیران ہوتا ہے کہ اعوان اور پھر پبلشر۔۔۔۔معاملہ دو آتشہ ہونا چاہیے تھا مگر کیا نرم گفتار شخص ہے۔یعنی لازم نہیں کہ ہر اعوان میری طرح کھردرا ور کرخت ہو۔
دونوں عالم گیر جنگوں کے حوالے سے بے شمار ایسے لوک گیت ہماری ثقافت کا حصہ بنے جن میں ریل کا ذکر ہے۔ ریل جدائی کی علامت بن گئی۔ لوک گیتوں میں مائیں روئیں کہ ان کے پھول سے بچے ٹرین اٹھا کر لے گئی۔پھر یہی ٹرین جب مسافروں کو واپس لاتی ہے تو وصال کا سبب بنتی ہے ۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا گیت۔۔"متاں اِسی گڈی تے آجاویں "۔۔۔۔اس ہجر و وصال ہی کی داستاں ہے۔جسے موسیقی نے اور بھی دردناک کردیا ہے۔
ریل پر اسرار الحق مجاز کی طویل نظم بھی اردو ادب کا حصہ ہے۔قاضی فضل الرحمٰن نے اس نظم کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ 
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی 
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی 
ڈگمگاتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں 
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
رینگتی،مڑتی،مچلتی،تلملاتی،ہانپتی
اپنے دل کی آتش ِ پنہاں کو بھڑکاتی ہوئی 
منہ میں جا گھستی سرنگوں کے یکایک دوڑ کر
دندناتی چیختی،چنگھاڑتی،گاتی ہوئی!
چالیس اشعار پر مشتمل یہ نظم دلکش اور سحر انگیز ہے مگر ریل کا اصل اثر نفوذ انگریزی ادب پر ہے۔ویلز،سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے میدانوں میں دندناتی،پہاڑوں میں گھستی ریل نے انگریز شاعروں کے دلوں پر قبضہ کیا۔کمال کی شاعری ہوئی ریل کے بارے میں۔غالباً ڈبلیو ایچ آڈن کی نظم "نائٹ میل"اس شاعری میں نمایاں ترین مقام رکھتی ہے۔دل گرفتگی سے ان محبت ناموں کا ذکر شاعر کرتاہے،جو "نائٹ میل"لا رہی ہے۔یہ محبت نامے گلابی،بنفشی،نیلے اور سفید،ہر رنگ کے کاغذوں پر لکھے گئے ہیں۔۔۔اور ان کابے تابی سے انتظار ہورہاہے۔
رومان کے ساتھ ریلوے سے کچھ تلخیاں بھی وابستہ ہیں،پہلی تلخی تو انگریز حکومت کا وہ ظلم ہے جو اس نے ہندوستان پر اور اہلِ ہندوستان پر ریلوے شروع کرنے کے حوالے سے کیا۔یہا ں ایک بات اور ہوجائے۔۔ہم میں سے کچھ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ریل،تاربرقی اور دیگر جدید سہولیات فراہم کرکے احسان کیا ہے۔ورنہ ہمارا حال بھی افغانستان جیسا ہوتا۔یہ ایک خوش فہمی ہے۔ریل پوری دنیا میں موجود ہے،کیاہر جگہ برطانوی استعمار نے یہ احسان کیا ہے؟کیا برازیل،جاپان،اور کوریا پر انگریوزوں کی حکومت رہی؟ رہی یہ بات کہ افغانستان اس لیے ترقی نہ کر سکا کہ انگریزی استعمار کی "نعمت"سے محروم رہا- ۔تو معروف صحافی اظہر سہیل مرحوم سے منسوب ایک لطیفہ نما واقعہ مشہور ہے۔کہ وہ کسی افسر کے پاس ایک کام سے گئے،افسر بہت اچھی طرح پیش آیا،اور اظہارِ مسرت کے طور پر کہا کہ "خوشی ہے کہ آپ بھی ہمارے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں "اس پر اظہر سہیل نے جواب دیاکہ نہیں!میرا اس فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔یہ جو نحوست میرے چہرے پر نظر آرہی ہے اس کا سبب کچھ اور ہے۔تو افغانستان کی وحشت،قدامت اور اقتصادی ویرانی کا سبب کچھ اور ہے،یہ نہیں کہ وہاں انگریز ی حکومت قائم نہ ہوسکی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب برصغیر میں ریلوے کے قیام کا ارادہ کیا تو اس کی تہہ میں کوئی فلاحی عزم نہ تھا۔بلکہ یہ منصوبہ صرف اور صرف اس لیے بنا کہ ہندوستان بھر سے خام مال اکٹھا کرکے بندرگاہوں تک لایا جائے۔تاکہ جہازوں میں بھر کر برطانیہ بھیجا جائے۔پھر وہاں سے مصنوعات بندرگاہوں سے اتریں تو ریل کے ذریعے پورے برصغیر کو ان مصنوعات کی منڈی بنا دیا جائے۔1843میں لارڈ ہارڈنگ اور پھر دس سال بعد لارڈ ڈلہوزی نے صاف صاف کہا کہ ہم برطانیہ کی اقتصادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ریل کو متعارف کرائیں گے،مشہور مصنف ٖ وِل ڈیورانٹ کے بقول ہندوستان میں ریل صرف دو مقاصد کے لیے قائم ہوئی،برطانوی فوج اور برطانوی منڈی!
یہ ریل اہلِ ہندستان کو ازحد مہنگی پڑی۔انجنوں سے لے کر ڈبوں تک،دروازوں سے لے کر فرش تک ہر شے برطانیہ سے آئی،برطانوی سرمایہ کاروں کو اس میں لگائے گئے سرمایہ پر پانچ فیصد منافع کی گارنٹی دی گئی جو بہت بلند شرح تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان،میں ریلوے قائم کرنے کی لاگت فی میل اٹھارہ ہزار پونڈ آئی۔جبکہ اسی زمانے میں امریکہ میں لاگت فی میل دو ہزار پونڈ آئی۔یہ ساری لاگت ہندوستان نے بھری۔پھر ریلوے کی ملازمتیں صرف اور صرف سفید چمڑی والوں کے لیے مخصوص تھیں۔گارڈ سے لے کر اسٹیشن ماسٹر تک سب انگریز تھے۔بعد میں مقامی افراد بھی لیے جانے لگے،مگر تنخواہوں کے سکیل الگ الگ!انگریز گارڈ کی تنخواہ ہزاروں روپوں میں تھی اور "کالے"گارڈ کی سو ڈیڑھ سو روپے۔انیسویں صدی کے آخرمیں بارہ سو انجینئروں میں سے صرف چھیاسی مقامی تھے۔
رہا سفر تو محکموں کے لیے "تیسرا ڈبہ"مخصوص کیا گیا تھا۔اس میں لکڑی کے سخت،جانکاہ بنچ تھے۔مسافروں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح اس میں بھر دیا جاتا،جبکہ فرسٹ کلاس صرف گورے صاحب کے لیے مخصوص ہوتی تھی!حادثات کی انکوائری ہوتی تو نچلے ردجے کا مقامی ملازم دھر لیا جاتا۔اور انگریز افسروں کو بچا لیا جاتا۔
تقسیم کے وقت انگریزی حکومت ریلوے کا جو سسٹم اور اثاثے چھوڑ کر گئی ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔ہماری ناکامی اس ضمن میں واضح اور تسلیم شدہ ہے۔اس موضوع پر میرے چند تفصیلی کالم شائع ہو چکے ہیں۔جن میں سے ایک جناب فضل الرحمان قاضی نے ازراہِ لطف اپنی کتاب میں بھی شامل کیا ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ اس میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر نہ سہی،کم از کم ہمیں بھارت کے برابر تو ہونا ہی چاہیے۔


ناقہ سوار کی آنکھوں میں ریت پڑ چکی

$
0
0
سینے میں پھانس ہے۔سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔پانی جوں جوں نزدیک ہوتا دکھائی دے رہا ہے سراب کا خوف دامن گیر ہو رہا ہے۔
ناقہ سوار جو عدالت عظمیٰ سے نکلا تھااس کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ،کچھ دیکھ نہیں پا رہا -ایک تنگ سی پگڈنڈی نخلستان کو جا رہی ہے دوسرا راستہ صحرا کی اس وسعت کی طرف لے جا رہا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں اور ہڈیاں!ناقہ سوار اس دوراہے پر،اونٹنی کو بٹھائے،آنکھیں مل رہا ہے،خلقِ خدا اوپر کا سانس اوپر رکھے نیچے کا نیچے ناقہ سوار کو دیکھ رہی ہے کہ کدھر کا رخ کرتا ہے!
زوال کا زمانہ بھی اتنا بے حیا نہ تھا۔میر نے کہا تھا ؎
نیزہ بازانِ مثرہ میں دل کی حالت کیا کہوں 
ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا 
جنوب کے مرہٹوں کے لیے ،جو ڈاکوؤں کی طرح شمالی ہند میں دندناتے پھر رہے تھے میر صاحب نے دکھنیوں کا لفظ استعمال کیا ہے،ہم مغربی پنجاب والے جنوب کو دکھن کہتے ہیں اسی سے دکن نکلا۔ بدامنی تھی اتنی کہ شرفا،مرہٹوں کو 'جومانگتے 'دے کر جان چھڑاتے۔ اس ابتری اور حد درجہ پراگندگی کے عہدِ سیاہ میں بھی لچے لقندرے،شرفا کے منہ پڑتے تو کوئی نہ کوئی ٹوکنے والا ہوتا۔مگر،آہ! اس دورِ ظلمات میں عدالت عظمٰی پر اور عدالت عظمٰی میں تشریف فرما عزت دار منصفوں پر کیا کیا تبرا نہ کیا گیا۔ کیا کیا تضحیک نہ ہوئی،کوئی نہ تھا جو ان دولت مندوں کو آگے بڑھ کر روکتا اور ٹوکتا۔قاضیوں نے فیصلہ دیا۔اس فیصلے کو رگیدا گیا،پرخچے اڑائے گئے،ہاہاکار مچی،ستم بالائے ستم یہ کہ فیصلہ پرخچے اڑانے والے نے پڑھا تھا نہ ان عامیوں نے جو ہانک کر لائے گئے اور ہجوم بنائے گئے -
تکبر کی انتہا ہوگئی۔ہم چوتھی بار وزیراعظم بنائیں گے۔ تو کیا یہ بیس کروڑ عوام مزارع ہیں اور آپ کی جاگیر ہیں؟کیا آپ نے یہ ملک بٹائی پر دیا ہوا ہے،؟کیا وزارتِ عظمیٰ خاندان کی وراثت میں لکھ دی گئی ہے۔؟کوئی رجل رشید ہے جو انھیں خدا کا خوف دلائے؟َنصرت بھٹو نے نخوت کے پہاڑ پر چڑھ کر کہا تھا۔۔۔
ؓؓBhuttos are born to rule.
کہ ہم تو پیدائشی حکمران ہیں۔استکبار کا یہ عالم تھا کہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں تو ناک بھوں چڑھاتیں کہ ہمیں تو گلاب سے الرجی ہے۔ آج نشان بھی باقی نہیں،ایک بھٹو بھی اقتدار کے لیے میسر نہیں۔پوری کی پوری پارٹی دوسرے خانوادے کو منتقل ہو چکی۔ بچپن میں اپنے قریے میں دیکھتے تھے کہ دوسرے کے گھر سے عید شبرات پر بھاجی آئی،اس پر ایک پلیٹ اوندھے منہ رکھی گئی،پھر نیچے کی پلیٹ اوپر اوراوپر والی نیچے کی گئی تو پوری کی پوری بھاجی دوسری پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ خدا کی قسم!دستِ قدرت نے پیپلز پارٹی کی پلیٹ پر زرداری خاندان کی پلیٹ الٹی رکھی۔ پھر دونوں پلیٹو ں کو پکڑ کر الٹ دیا۔یوں کہ ساری کی ساری بھاجی زرداریوں کی پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ صفائی کے ساتھ،پوری کی پوری،جی ہاں۔۔"بھٹو پیدائشی حکمران ہوتے ہیں "۔کون سے بھٹو؟برس بعد غنویٰ بھٹو کی نحیف تنہا آواز سنائی دیتی ہے۔
ابدی خاموشی کی آندھی میں 
جیسے کوئی پر ِ مگس گزرے!
فاطمہ بھٹو میں ٹیلنٹ ہے،مگر لکھنے کی حد تک۔جن میں کوئی ٹیلنٹ نہیں،لکھنے کانہ پڑھنے کا وہ سنگھاسن پر ہیں۔
دجل ہے اور تلبیس!دھوکہ، کھلا دھوکہ،عیاری اور حیلہ سازی،غلط بیانی کی انتہا،عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی حکمرانی،ساتھ اقامہ برادری،ملازمت،رقم بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی مگر مسلسل استفسار کہ کیوں نکالا گیا۔ 
معزولی کے بعد ا س صوبے میں جہاں بھائی حکمران ہے،صوبائی اجلاس کی صدارتکی۔ کس برتے پر؟کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟یہ شغل جب وفاق میں خود حکمران تھے تو کبھی نہ فرمایا،ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کبھی نہ کی۔ کوئی سنجیدہ اور ثقیل (presentation)شروع سے آخر تک مکمل کبھی نہ برداشت ہوئی۔فائلیں میر منشی سنبھالتا،حکمرانی کے سارے اجلاس سمدھی کے سپرد تھے۔مرزا یار صرف ٹہلا کرتا۔
اب چچا جان نے وسائل اور افرادی قوت سب برادر زادی کو سونپ دیے کہ انھیں استعمال کرو اور مادرِ مہربا ں کو فتح سے ہمکنار کرو۔بیوروکریسی سامنے دست بستہ کھڑی ہے۔کوتوالی دائیں طرف ہے۔ الیکشن کمیشن جمہور ی دنیا کا ضعیف ترین الیکشن کمیشن ہے۔ووٹ شمار کرنیوالی الیکڑانک مشینری راس آرہی ہے نہ بائیو میٹرک کا سائنسی نظام۔اس سے بہتر تھا کہ چوکوں چوراہوں پر عوام کو کھڑا کرکے ہاتھ اٹھواتے۔ماتحت پولیس اٹھے ہوئے ہاتھ گنتی اور فتح کا اعلان کردیتی۔
زرداری صاحب کو بری کرکے نظیر قائم کردی گئی۔سانچہ بن گیا ہے۔آنے والے مقدمے اس سانچے میں فِٹ کردیے جائیں گے۔ نا اہلی؟کون سی نااہلی؟۔۔۔۔نیا وزیراعظم سعادت مند ہے،کابینہ کے ارکان باقاعدگی سے زمین بوسی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔وفاق بھی اور سب سے بڑا صوبہ بھی قدموں میں پڑے ہیں۔نہیں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ناقہ سوار خورجین میں فیصلے کے کاغذ رکھ کر عدالتِ عظمیٰ سے نکلا تھا،مگر رک کر آنکھیں مَل رہا ہے۔ ریت ہے کہ رڑک رہی ہے۔ رخ اس کا اس بے آب و گیاہ لق و دق دشت کی طرف ہے جہا ں سراب ہیں،اور ٹوٹی طنابیں،دم بہ دم جگہ بدلتے ریت کے ٹیلے اور راہ گم کردہ بدبخت مسافروں کی ہڈیاں جنھیں لحد بھی نصیب نہ ہوئی۔۔ وسطی پنجاب سے مقتدر جماعت نے جیتنا ہی جیتنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سڈول جسم کی گولائیاں بتا رہی ہیں،کچھ نہیں کرسکتا۔۔ عمران خان کچھ نہیں کر سکے گا۔ حکومتی مشینری کی تنظیم کا مقابلہ کوئی جماعت نہیں کر سکتی۔
ہوائیں ان کی،فضائیں ان کی،سمندر ان کے،جہاز ان کے،
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر؟بھنور ہے تقدیر کا بہانہ۔۔۔!
ابھی تو حکمران جماعت نے مہم شروع ہی نہیں کی اور طبیبہ یاسمین راشد تھانے میں جاکر ایک بار فریاد بھی کرچکی ہیں۔جب زبردستوں کی مہم زوروں پر ہوگی تو زیرِ دست کیا کریں گے؟۔۔۔روز کوتوالی جاکر انصاف کی بھیک مانگیں گے؟ناقہ سوار کے عدالتِ عظمٰی سے نکلتے ہی سب کچھ بدل گیا۔پچیس ارب ساحلی اتحادی کو مل گئے۔ اربوں اپنی پارٹی کے منتخب نمائندؤں کی زنبیلوں میں رکھے گئے۔عمران خان ان اشرفیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے ۔پاکستان کی مخالفت کرنے والے تمام فیل اور پیادے حکمران جماعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ساحل والوں کو ابھی اور بھی بہت کچھ ملے گا۔ کون جانے لندن میں کون کس کو ملتا ہے۔۔اور پکائی جانے والی کھچڑی میں کیا کیاڈالا جاتا ہے۔باہر جو ہوائیں سائیں سائیں کر رہی ہیں وہ بھی حکومتی طائفے سے موافقت رکھتی ہیں۔بھارت کو معلوم ہے کس کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ ہے،امریکہ بنیے کی مُٹھی میں ہے۔ دھوتی اڑس کر جب بھی بنیے نے اوقیانوس کو پار کیا۔ قصرِ سفیدمیں اس کی پذیرائی ہوئی۔ ہمارے صاحب گئے بھی تو ملاقات کے وقت کاغذ کی چِٹوں کو ہی الٹا سیدھا کرتے رہے۔ باورچی ہمراہ لے کر گئے تھے،خور و نوش پہلے،نظمِ مملکت بعد میں۔۔۔چائے بیچنے والا تن من دھن سے اپنے ملک کے لیے بھاگ دوڑ کرتا پھرتا ہے۔ اس نگوڑے کے باہر کے ممالک میں صنعتی یونٹ،نہ اپارٹمنٹ،نہ اقامے،نہ محلات،نہ شرقِ اوسط کی ملازمتیں۔میکسکو تک جا پہنچا،چین گیا تو وہاں کے صدر اسے اپنے آبائی قصبے لے گئے۔ سینٹ پیٹرز برگ میں منعقدہ انٹر نیشنل اکنامک فورم میں شریک ہوا تو مہمانِ اعزاز ٹھہرا۔ یومِ جمہوریہ آیا تو عرب امارات کے ولی عہد نے تقریب کو زینت بخشی۔چائے بیچنے والے،بنیے کے بیٹے نے وہ سرگرمی دکھا ئی،وہ دوڑ دھوپ کی کہ آج امریکہ اس کی مٹھی میں ہے۔امریکی صدر برملا،علی الاعلان اسے افغانستان میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔عالم ِ اسلام کے عین مرکز میں امریکی صدر بنیے کے ملک کا ذکر کرتا ہے اور ہمارا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ہمارے صاحب وہاں بیٹھے سنتے ہیں،بولتے کچھ نہیں۔ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم۔
کیا ردالفساد اور کیا ضربِ عضب،جو کیا ہماری افواج قاہرہ نے کیا،ہاں اس کو سول مقتدرہ کی پوٹلی میں باندھا جائے تو ماناکہ افواج حکومت کے ماتحت ہیں۔مگر سب جانتے ہیں کہ حکمتِ عملی کس کی تھی۔پہل ان آپریشنز کی کس نے کی،کہاں سے ہوئی اور دہشتگردوں کا مقابلہ کس نے کیا۔آج جب ہمیں دھمکایا جا رہا ہے،کہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان بیٹھے ہیں،تو ہے کوئی جو تاریخ متعین کرکے کابل کو اطلاع دے کہ فلاں وقت تک مہاجرین سرحد کے پار بھیج دیے جائیں گے کہ اگر طالبان ہیں تو انہی میں چھپتے ہیں،لاکھوں مہاجرین کی میزبانی بھی کریں او ر طعنے اور دھمکیاں بھی سنیں۔ پاکستان راہداری بند کردے تو افغانستان میں مورچہ ء زن سفید فام لشکری پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں۔۔اس لیے کہ ان کا بس چلے تو آکسیجن بھی امریکہ سے منگوائیں۔مگر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھمکیوں کا جواب ہم تب دیتے جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے دامن چھڑاتے۔سب کچھ سمدھی پر چھوڑ دینے والے سابق بادشاہ کو معلوم ہی کہاں ہوگا کہ چا ر سالوں میں پینتیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔کشکول توڑ دینے کا وعدہ تھا۔وعدہ پورا کیا۔کشکول توڑا اور ایک نیا کشکول ا س سے بڑا بنایا۔حضرت جب ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں تو صرف دو کلمات اد اکرتے ہیں،"سڑکیں بن رہی ہیں،روشنیاں آرہی ہیں۔،"درآمدات،برآمدات،شرح مبادلہ،قرضوں کا گراف،بیروز گاری کی شرح،پتیلے مانجھتے اور گاڑیوں کے نیچے دراز ہوکر پھولوں جیسے ہاتھ کالے کرتے بچوں کی تعداد۔۔۔یہ سب کچھ تو تب معلوم ہوتاجب فائلیں پڑھتے،اقتصادیات سے متعلق اجلاسوں میں بنفس نفس بیٹھتے اور آسودگی کے عادی ذہن کو مشقت میں ڈالتے
تبدیلی؟۔۔ کون سی تبدیلی؟ پنجے گوشت میں پیوست ہیں۔کیسے جان چھوٹے؟مصطفیٰ زیدی یاد آرہا ہے۔۔
ابھی تاروں سے کھیلو،چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!

مغلوں کی نشات ثانیہ

$
0
0

‎بکھر گئے،مغل تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔
‎کسے معلوم تھا کہ ان کا احیا 2017میں ہوگا۔وسطِ ایشیا میں نہیں!پاکستان میں 
‎زمانے کی چکی چلتی ہے،صدیوں سے حکومت کرتے خانوادوں کو پیس کر رکھ دیتی ہے۔ 
‎پیستی جاتی ہے اک اک کو ظہور
‎آسیائے گردشِ لیل و نہار!
‎فرغانہ سے نکلے تو پالکیاں تھیں نہ تخت و طاؤس،گھوڑوں کی پیٹھیں تھیں ننگی سخت پیٹھیں،دشمن آگے بھی،دشمن پیچھے بھی۔ مدتوں سے بابر کو چین سے کھانا نصیب ہوا نہ سونا۔
‎حالتِ جنگ میں آدابِ خورو نوش کہاں 
‎اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ!
‎ترکی کی زبان کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر مغل فارس کے چبوترے پر چڑھے،ازبکستا ن والے اس ترکی کو ازبک کہتے ہیں۔واہ رے زمانے واہ!تو نے زبانوں کو بھی چھوڑا،ترکی زبان بھی سامراج نے قومیتوں میں تقسیم کردی۔ 
‎بنے گا کوئی تو تیغ ِ ستم کی یاد گاروں میں 
‎مرے لاشے کے ٹکرے دفن کرنا سومزاروں میں 
‎وہی ترکی ازبکستان میں ازبک بن گئی۔ ترکمانستان میں ترکمانی،قازقستان میں اور نام،چینی ترکستان یغور،آذر بائیجان میں آذری،رداغستان میں بھی یہی زبان ہے۔شمالی افغانستان کے ازبک بھی ترکی بولتے ہیں اور ظاہر ہے ترکی میں بھی۔ 
‎رسم الخط کا معاملہ زیادہ عبرتناک ہے۔سوویت استعمار نے وسطِ ایشیا کے ترکوں کو استنبول سے کاٹنے کے لیے،بندوق کے زور پر رسم الخط بدل کر لاطینی کردیا۔کچھ عرصہ بعد کمال اتاترک نے ترک میں سب کچھ بدل دیا۔اور وہاں بھی ترکی کو لاطینی میں لکھا جانے لگا۔اب سوویت چکرائے۔ بلآخر وسط ایشیا کے ترکوں کو روسی رسم الخط اپنانے کا حکم صادر ہوا۔اب صورتِ حال یہ ہوئی کہ ترکی میں ترکی لاطینی میں لکھی جانے لگی۔شمالی افغانستان میں وہی قدیم عربی فارسی رسم الخط!
‎روسی وسطِ ایشیا میں روسی حروفِ تہجی، اور سنکیانگ میں اور۔۔۔۔۔سب ایک دوسرے کو سمجھ لیتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کا لکھا ہوا پڑھ نہیں پاتے۔ یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو ابتدا میں پاکستان کے ساتھ سرگرم تجارتی روابط تھے۔ایک وفد آیا۔اس کالم نگار کے ازبک کے استاد جناب اسد اللہ محقق ان کے ترجمان بنے،لیکن محقق صاحب ان کے کاغذات وغیرہ پڑھ سکتے تھے۔ نہ وفد ان کی تحریر کردہ ازبک پڑھ سکتا تھا۔
‎جیسے حائل دیوار نہ ہو،پردہ ہو
‎ترکی زبان کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر مغل فارسی کے چبوترے پر چڑھے۔وہا ں سے اردو کے گنگ و جمن میں چھلانگ لگائی،پیراکی کے وہ جوہر دکھائے کہ ایک نئی تہذیب لے کر ابھرے،جیحوں (آمو)کا پانی جمنا کے پانی سے مل گیا۔دہلی کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہوا،پھر لکھنؤ اور حیدر آباد دکن اس تہذیب کے مرکز بنے۔ 
‎تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے اور 
paradox
‎کہ زوال کے عہد میں ثقافت خوب رنگ اچھالتی ہے شاید یہ دیے کی وہ لو ہے جو بجھنے سے پہلے ایک بار بھڑکتی ہے۔ یہ لکھنؤ اور حیدر آباد میں خوب بھڑکی۔ پھر بجھ گئی کہ جو سمندر پار سے آئے تھے عسکری اور معاشی طاقت ان کے پاس تھی اور عسکری اور معاشی طاقت جن کے پاس ہوتی ہے،کلچر اور ثقاف انہی کی غالب آتی ہے۔ عسکری اور معاشی طاقت مسلمانوں کے پاس تھی،تو ان کی زبان چھائی ہوئی تھی۔ پھر برطانویوں اور امریکیوں نے دھوم مچائی، شاید ہی دنیا کا کوئی گوشہ ہو جہاں ان کی لائبریریاں نہیں کھلیں۔
‎آج معاشی طاقت چین کے ہاتھ میں ہے۔ سی پیک ہے یا ون بیلٹ ون روڈ کا عالمی منصوبہ ،چینی ایک افق سے دوسرے افق تک اپنا پرچم لہرا رہے ہیں۔جس سی پیک کا ہار حکومت اپنے گلے میں ڈال کر دھمال ڈالتی رہی، اور ڈال رہی ہے۔ اس میں کرنے کا کام چینی کررہے ہیں۔ سی پیک کر علاوہ وہ نجی شعبے میں بھی بخت آزمائی کے لیے آرہے ہیں،گزشتہ سال ستر ہزار چینی آئے،اخبار ان کا نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ دکانوں اور شاہراہوں پر سائن بورڈ چینی زبان میں نظر آنے لگے ہیں،ثقافتی یلغارکی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ،نرم روی کے ساتھ، غیر محسوس طریقے سے۔ اب حکومتی ادارے سو چ رہے ہیں کہ ان کی بستی الگ بسائی جائے کہ کھانے کے اطوار مقامی اور ہیں،چینیو ں کے مختلف۔بعدالمشرقین ہے۔ لگتا ہے کہ ایک چائنہ ٹاؤن بنے ہی بنے،آئیڈیا برا نہیں، دنیا کے اکثر شہروں میں چائنہ ٹاؤن موجود ہیں۔ اس سے سماجی "غیر مناسبت"کچھ حد تک قابو میں آجائے گی۔
‎مگر تشویشناک خبر یہ ہے کہ یہ زرد اشخاص گاڑیاں لائسنسوں اور کاغذات کے بغیر چلا رہے ہیں، اور ٹریفک کے داروغے یہ کہہ کر کہ۔۔۔"آپ ہمارے دوست ہیں "۔۔چشم پوشی کررہے ہیں۔واہ رے پاکستان کی قسمت!ہر حال میں اس نے تھلے ہی لگنا ہے۔معذرت خواہانہ ہی رہنا ہے۔ شکست خوردگی ہی دکھانی ہے،پہلے یہ خبر یں عام تھیں کہ امریکی گاڑی چلاتے ہوئے کسی سے الجھ پڑا،ٹریفک کی رکاوٹ سے جا ٹکرایا،قانون توڑا،داروغوں نے انہیں بھی ہمیشہ معاف ہی کیا۔اب وہی شکست خوردہ فراغ دلی چینیوں سے دکھائی جا رہی ہے،اس طرزِ عمل کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔اور سخت ضرورت ہے!کہیں بھی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا، پاکستانی چین میں قانون شکنی کرکے دکھائیں،کیا سعودیہ عرب نے کسی پاکستانی کی غلطی یہ کہہ کر معاف کی ہے کہ اپنے دوست ہیں۔۔۔زندانوں میں شکلیں تک بدل جاتی ہیں۔سر قلم ہوجاتے ہیں،یو اے ای سے لے کر سنگا پور تک۔۔۔ہر ملک میں ترقی کا ایک ہی راز ہے،قانون کی نظرمیں سب کی برابری،یہا ں ایم این اے،شاہی خاندن اور وزیر کے لیے مختلف رویہ ہے۔۔اور گامے اور پھجے کو مختلف لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ پولیس کمزور پر چڑھ دوڑتی ہے اور زبردست کے سامنے رکوع میں چلی جاتی ہے۔
‎موضوع سے بھٹک کر ہم دور نکل گئے۔۔بات مغلوں کی ہو رہی تھی،بہادر شاہ ظفر نے ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی،پھر مغل بکھر گئے۔تاش کے پتوں کی طرح۔کسے معلوم تھا کہ ان کی نشاطِ ثانیہ 2017کے موسم ِ گرما میں ہوگی فرغانہ کے تاکستانوں میں نہیں،پاکستان کے میدانوں میں!
‎مردم شماری کے نتائج ظاہر ہوچکے ہیں۔مغل تعداد میں سب سے زیادہ نکلے۔ جاٹ،اعون،راجپوت سب پیچھے رہ گئے۔رنگون میں آسودہ خاک مغل تاجدار نے کروٹ بدلی ہوگی، مگر یہاں مردم شماری ایک اور سیاپا لے کر آئی ہے،کراچی سے لے کرشکار پور تک سندھی،کیا نئے کیا پرانے سیخ پاء ہیں کہ جہاں دوسرے صوبوں کی آبادی بڑھی،ان کو گھٹا کے دکھائی گئی۔ویسے انصاف کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان دونوں کی شکایت بجا ہے،اس شکایت میں وزن ہے۔ کراچی اور حیدر آباد ہی کو لیجئے، دوسرے شہروں کے مقابلے یہاں اضافے کی شرح اس قدر کم ہے کہ ذہن میں سوالات ضرور اٹھتے ہیں،موازنہ کر لیجئے!
‎لاہور اضافہ۔75فیصد
‎گوجرانوالہ اضافہ۔84فیصد
‎اسلام آباد اضافہ۔88فیصد
‎کوئٹہ اضافہ۔77فیصد
‎فیصل آباد۔60فیصد
‎راوالپنڈی اضافہ۔60فیصد
‎مگر حیدر آبادکی آبادی صرف 48فیصد اور کراچی کی 57فیصد بڑھ پائی۔اس سارے عرصے میں کراچی میں بے شمار افغان آئے،کے پی سے نقل مکانی ہوئی۔قبائلی علاقے سے لوگ آئے،پنجاب،شمالی علاقہ جات اوراندرون سندھ سے خاندانوں کے خاندان آکر بسے۔خود کراچی کے رہنے والوں کی آبادی بھی بڑھی۔ذمہ داروں کو اس سوالیہ نشان پر توجہ دینا ہوگی۔
‎مگر مغلوں کے احیا سے ہماری مراد یہ نہیں کہ مردم شماری نے انہیں سرِ فہرست قرار دیا ہے۔اصل اور بڑی خبر اور ہے،مغلِ اعظم کا ظہور ہو چکا ہے، قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا،گوری رنگت،گہری سیاہ آنکھیں،پیشانی فراخ،موتیوں کی طرح چمکتے دانت،توانا چست، مجموعی جسامت حد درجہ صحت مند،لوگ سیلفیاں اور تصویریں بنوانے کے لیے ٹوٹے پڑتے ہیں،دودھ مربے اور پھل حاضر کیے جاتے ہیں۔خشک میوہ جات اس کے علاوہ ہیں۔تین سے پانچ کلو دودھ روز نوشِ جان کرتا ہے، صبح شام مالش کراتا ہے،خوشبو میں بسا رہتا ہے،سردیوں میں حلوہ اس کی غذا کا لازمی جزو ہے، ہر روز حمام کرتا ہے، عمر ساڑھے تین سال ہے۔ مغلِ اعظم کا وزن سترہ من ہے ملتان سے آئے ہوئے "مغلِ اعظم "نے دارالحکومت کی منڈٰی مویشیاں میں دھومیں مچا دی ہیں۔ 


یہ عذر تراشنے والے پرندے!

$
0
0
‎حضرت خواجہ فرید الدین عطار کے والد گرامی حضرت قطب الدین حیدر کے مرید تھے،جو مشہور مجذوب بزرگ تھے،خود خواجہ صاحب کو فقیر ی کا خرقہ حضرت مجددالدین بغدادی سے حاصل ہوا۔
‎آپ نے طویل عرصہ سیاحت میں گزارا،حجاز،شام،مصر،خراسان،"(آج کا افغانستان اور کچھ حصہ ایران کا")وسط ایشیاء،چین اور ہندوستان کی سیر کی۔آخر میں نیشا پور مقیم ہوگئے،اس زمانے کا نیشا پور ایسا ہی تھا جیسا آج کا لندن اور پیرس یا نیویارک،زمانے بھرکے علوم و فنون کا مرکز،
‎انتالیس سال تک خواجہ صاحب صوفیا اور بزرگوں کے اقوال جمع کرتے رہے،مگر کسی حکمران کا قصیدہ لکھنا گوارا نہ کیا۔کم درجے کے گھسیارے اور پھسڈی شاعر درباروں میں قصیدے پیش کرکے جاگیریں اور انعامات وصول کر رہے تھے،مگر آپ اَکلِ حلال کے راہ راست سے ایک انچ نہ ہٹے،کیمسٹ تھے،عطریات اور خوشبوئیں بھی فروخت کرتے تھے، اس زمانے میں عطریات سے منسلک شخص کو عطار کہتے تھے۔ہر عطار دوا فروش بھی ہوتا تھا، میر کا مشہور زمانہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
‎میر کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
‎اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
‎روایت ہے کہ ایک دن خواجہ صاحب دکان پر تشریف فرما تھے ایک فقیر آنکلا،ان کی دکان کی آرائش اور اشیاء کو غور سے دیکھنے لگا،خواجہ صاحب کو اچھا نہ لگا،ذرا سخت لہجے میں اسے اپنا راستہ لینے کا کہا،فقیر نے کہا میرا جانا کیا مشکل ہے،تم اپنی فکر کرو،میں تو چلا،یہ لو!
‎یہ کہا اور وہیں دکان کے سامنے چادر اوڑھ کر جان،جان آفریں کے سپرد کردی۔خواجہ صاحب کی حالت غیر ہوگئی۔اس کے بعد فقیری اختیار کرلی۔
‎ان کی وفات کا واقعہ بہت دردناک ہے،تاتاریوں کی یلغار عروج پر تھی،غارت گری نے عالم ِ اسلام پر ہلاکت کی مہیب چادر تان رکھی تھی۔مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ ہورہا تھا،جو آج یمن سے لے کر شام تک اور بغداد سے لے کر جلال آباد تک ہو رہا ہے۔نفسیاتی طور پر مسلمان اس قدر شکست خوردہ تھے کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا پھر رہا تھا،ایک تاتاری نے اسے ایک ہزار اشرفیوں کی (یادینار یا جو کچھ بھی اس زمانے میں رائج تھا)پیش کش کی کہ اس کے حوالے کردیا جائے،
‎خواجہ صاحب نے تاتاری کو منع کیا کہ یہ دام کم ہیں،میری تو قیمت اس سے زیادہ ہے،تاتاری مان گیا۔اب ایک اور تاتاری نے گھاس کے گٹھر کے عوض خواجہ صاحب کو خریدنا چاہا۔خواجہ صاحب نے کہا فوراً لے لو،میرے دام توا س سے بھی کم ہیں۔
‎خواجہ صاحب اس وقت بھی تصوف کے اسرار و موز میں الجھے ہوئے تھے،یہ وہ عالم ہوتا ہے جب جان کی پرواہ نہیں ہوتی،مطلب ان کا یہ تھا کہ انسان ہی سب سے قیمتی ہے اور انسان ہی سب سے زیادہ ارزاں ہے۔کبھی یہ احسن ِ تقویم ہے اور کبھی اسفل السافلین۔۔
‎تاتاری کو کیا علم کہ یہ کون ہیں،اور ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں،اسے غصہ آگیا،سمجھا قیدی مذاق کر رہا ہے،اور اسے بیوقوف بنا رہا ہے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ انہیں شہید کرڈالا۔۔یہ الگ بات کہ بعد میں حقیقت ِ کا پتا چلا تو تائب ہوا،اور ان کے مزار کا مجاور بن گیا۔
‎خواجہ فریدی الدین عطار کی تصانیف بہت ہیں،تذکرۃ الاولیا نمایاں تصیف ہے،مشہور مستشرق ای جی براؤن نے گزشتہ صدی کے اوائل میں اسے چھپوایا مگر خواجہ صاحب کا تصوف میں اور ادب میں بالخصوص شاعری میں اصل کارنامہ "منطق الطیر "ہے۔قرآن پاک سے اس خوبصورت نام کو اخذ کرنا خواجہ صاحب کی ذہانت پر دال ہے۔سورہ نمل کی سولہویں آیت ہے
‎"اور وارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور کہا اے لوگو!ہمیں منطق الطیر(پرندوں کی بولیاں)سکھائی گئی ہیں "۔
‎المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے آج تصوف سے مزین رنگا رنگ دکانیں کھول رکھی ہیں ان میں سے اکثر نے منطق الطیر کا نام سنا ہے نہ عطار کا۔
‎یہاں ہماری مراد ان صاحبان طریقت سے نہیں جو واقعی فقیر ہیں،سراپا فقر ہیں،تصوف کے اسرار سے آگاہ ہیں،مگر یاد رہے کہ ایسے حضرات اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے،چہ جائیکہ آج کل کے دکانداروں کی طرح اپنی تشہیر کراتے پھریں۔
‎منطق الطیر ساڑھے چار ہزارسے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ہے،یہ پینتالیس مقالات پر محیط ہے،آسمانی سفر ناموں میں منطق الطیر کا اپنا ہی مقام ہے،اس عظیم الشان علامتی کہانی میں پرندے اس خیالی طائر کو تلا ش کرتے ہیں جسے سیمرغ"(سی مرغ" ) کہا جاتا ہے،پرندے ہُد ہُد کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں،مگر جوں ہی ہُد ہُد انہیں کا م کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور رزق تلاش کرنے کا حکم دیتا ہے تو پرندے قسم قسم کے عذر تراشنے لگتے ہیں،بلبل کا بہانہ ہے کہ وہ پھول سے جدا نہیں ہو سکتی،طوطے کو ڈر ہے کہ اسے پکڑ کر پنجرے میں قید کردیا جائے گا،مورخ اپنی مذمت کرنے لگتا ہے کہ اسے خلد سے نکلوانے میں اس کا نام بھی لیا جاتا ہے،بطخ پانی کو نہیں چھوڑ سکتی،چکور کے لیے پہاڑوں کی جدائی برداشت کرنا کارِ دارد ہے،بگلا جھیل کے پانی سے الگ نہیں ہونا چاہتاالو ویرانے سے نہیں نکل سکتا،باز بادشاہوں کے ہاتھ پر بیٹھتا ہے۔ وہ اس بلند مرتبہ عہدے کو خیر باد نہیں کہہ سکتا۔ہُما کہتا ہے کہ وہ تو لوگوں کے سروں پر بیٹھ کر انہیں بادشاہ بناتا ہے،ممولا کہتا ہے کہ وہ تو کمزور ہے اور بے بضاعت۔
‎ہُد ہُد ان سب پرندوں کو بہانوں کا ایک ایک کرکے جواب دیتا ہے،اس سفر میں پرندے سات وادیاں عبور کرتے ہیں،یہ سات وادیاں ہیں،جستجو،عشق،معرفت،بے نیازی،توحید اور فنا۔
‎ہُد ہُد کی رہنمائی میں پرندے یہ سات وادیاں عبور کرتے ہیں،اور آخر کار سیمرغ تک پہنچتے ہیں۔مگر اسے دیکھتے ہیں تو اپنے جیسا لگتا ہے،جیسے ان میں اور سیمرغ میں کوئی فرق نہیں،گویا وہ اپنی ہی تلاش میں نکلے تھے،
‎ارد گرد دیکھیے!یہ بہانہ باز پرندے آپ کو پیش منظر پر چھائے نظر آئیں گے۔ان میں سے کوئی اپنے کارخانوں کی قربانی نہیں دے سکتا،کوئی ڈرامے کرتا ہے،حبیب جالب کے شعر لہک لہک کر گاتا ہے،خونی انقلاب کی باتیں کرتا ہے مگر اپنا پروٹوکول نہیں چھوڑ سکتا،اپنے متعدد محلات کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دیتا ہے،ظلم کی انتہا دیکھیے کہ ایک صوبائی حاکم نے صوبے کے بجٹ سے لندن کے پاکستانی سفارت خانے کو "صوفی میوزیکل عشق"کے لیے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم جاری کی ہے،گویا سفارتخانہ وفاق کا نہیں پنجاب کا ہے،ایسی حرکت ایم کیو ایم،پی ٹی آئی یا پی پی سے سرزد ہوتی تو حکومتی پار ٹی کے ڈھول بجانے والے آسمان سر پر اٹھا لیتے،اور طعن و تشنیع سے جسم چھلنی کردیتے،مگر خود انہیں ہر غلط،ہر غیر قانونی کام کرنے کے لیے کھلی چھٹی ہے، کیوں کہ سیاں جی کوتوال ہیں،پکڑے کون؟
‎کوئی اپنے کھیتوں پر ٹیکس نہیں دینا چاہتا کسی کو پشتینی گدی عزیز ہے،کوئی رشوت سے کنارہ کش نہیں ہوسکتا ،کسی کو اپنے پارٹمنٹ،اپنی کمپنیاں،اور بینک اکاؤنٹ اتنے پیارے ہیں کہ ان کے لیے حکومت کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔
‎یہاں تک کہ اپنے خاندان کی خواتین کوکچہری تک لانے کو بھی تیار ہے مگر افسوس!ہُد ہُد کوئی نہیں! کوئی ایسا رہنما نہیں نظر آرہا جو ان سب جان چھرانے والے سیاستدانوں اور لیڈروں کو قائل کرکے سیدھی راہ پر ڈالے۔
‎سنا ہے کہ بابائے سفر نامہ اور معروف مصنف ناول نگار حضرت مستنصر حسین تارڑ ایک کتاب تصنیف کررہے ہیں جس کا نام وہ منطق الطیر جدید رکھیں گے،نہیں معلوم اس میں پرندوں کی بولیا ں ہیں یا انسانوں کی،اور اس کی کہانی کا پلاٹ کیا ہے،مگر اس سے ایک فائدہ ضرور ہوگا،کہ پڑھنے کاشوق رکھنے والے منطق الطیر قدیم سے بھی واقف ہوجائیں۔مستنصر حسین صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ بابیو!ہم آپ کی کتاب کا انتظار کر رہے ہیں،بقول اقبال
‎بیاد بادہ کہ گردوں بکامِ ماگردید
‎مثالِ غنچہ نواہاز شا خسار دمید!
‎شراب لائیے،کہ آسمان ہماری مرضی کے مطابق گردش کررہا ہے
‎اب تو نغمے ٹہنیوں سے کلیوں کی صورت پھوٹ رہے ہیں!
‎قاآنی سے بھی سفارش کرادیتے ہیں 
‎درقم شراب نسیست،عزیزاں!خدائی را!
‎برتر نہید گامیِ وازری بیاورید
‎عزیزو! اگرقُم میں شراب میسر نہیں تو خدا کا واسطہ ہے،قدم تیز تیز رکھو اور مجھے رے سے سے شراب لادو! 


صبح گیا یا شام گیا۔

$
0
0

غریب الوطنی اور ایسی کہ آسمان آنسو بہاتا تھا،
ایرانی شاہ طہماسپ نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر مہمان جب کسی غرض کے لیے آیا ہو تو ایک پردہ ایک حجاب درمیان میں ضرور ہوتا ہے۔ایسا ہی پردہ ایسا ہی حجاب شاہ طہماسپ اور شہنشاہ ہمایوں کے درمیان تھا،ایک مہمان تھا،دوسرا میزبان۔۔ایک کا ہاتھ لینے والا تھا،دوسرے کا ہاتھ دینے والا،روایات بتاتی ہیں کہ میزبان کی طرف سے کوشش تھی کہ مہمان مسلک بدل لے،جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو یہ کوشش ہوئی کہ کم از کم ایک مخصوص ٹوپی ہی پہن لی جائے۔
ایسا ہی ایک اضطراب بھرا دن تھا،دونوں بادشاہ شکار کے لیے نکلے،ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا فیصلہ ہوا،قالین بچھایا گیا،میزبان پہلے بیٹھا،ہمایوں بیٹھنے لگا تو صورتِ حال یوں تھی کہ اگر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو قالین سے ہٹ کر زمین کے ننگے فرش پر آتا۔ہمایوں کے ایک گارڈ نے بجلی کی سی تیزی دکھائی،خنجر سے ترکش پھاڑا اور اس کا کپڑا اناً فاناً یوں زمین پر بچھایا کہ زانو اس پر آیا۔
طہماسپ یہ سب دیکھ رہا تھا،بہت متاثر ہوا۔۔کہنے لگا،ایسے ایسے جاں نثار اور پھر بھی سلطنت چھن گئی۔۔۔کیوں؟
ہمایوں نے وضاحت کی کہ مغل ابھی تک گملوں میں لگے ہوئے پودے ہیں۔صرف ساتھ آنے والے تورانیوں اور افغانیوں پر انحصار ہے اور وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔میزبان نے نصیحت کی کہ اگر دوبارہ حکومت کا موقع ملے تو مقامی طاقتوں کو حکومت کا حصہ بنائیے!
ہمایوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا،طہماسپ کی اس نصیحت پر اکبر نے عمل کرکے دکھایا۔مقامی طاقتوں میں راجپوت نمایاں ترین تھے،اکبر نے ان سے شادیاں کیں،راجپوتوں کو اعلیٰ مناصب پر فائز کیا،مذہبی آزادی دی،شکست خوردہ راجپوتوں کی عزتِ نف کا خیال رکھا،فوج میں انہیں ایسے عہدوں پر 
رکھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس ے ان پر اعتماد ہے۔راجپوت ریاستوں کو اندرونی خود مختاری دی،جزیہ 
اور گاؤ کشی کے معاملوں میں نرمی برتی،راجپوتوں نے پھر وفا کی،ایسی وفا کہ ساتھ چھوڑ نہ پیٹھ دکھائی۔
میاں نواز شریف کو بھی ایک راجپوت ساتھی ملا۔کھرا،منہ پر دو ٹوک بات کرنے والا،مگر میاں صاحب تاریخی طور پر ان حکمرانوں کے گروہ میں ہیں جو صرف اپنی مرضی کی بات دوسرے سے سننا پسند کرتے ہیں،کانوں کے کچے،ادراک و فہم کی کمی،گہرائی سے محروم،اپنا اور اپنے خاندان کا پیچ کسی وقت درمیان میں سے نکلتا ہی نہیں۔
اس گنہگار کالم نگار نے پانچ سال پہلے لکھا تھا،کہ چوہدری نثار 
Odd man out 
ہیں۔میا ں صاحب کا اِنر سرکل یعنی اندرونی حلقہ ء اعتبار صرف ان لوگوں پر مشتمل ہے جو وسطی پنجاب کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈار صاحب سے لے کر دو نوں خواجگان تک،عابد علی شیر سے لے کر احصن اقبال تک،خرم دستگیر سے لیے کر پرویز رشید تک،بس لاہور ہے اور نوحِ لاہور!
مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے اس گروہ سے صر ف چوہدری نثار علی باہر سے تھے۔
مگر ایک میرِ شکستہ پاء تیرے باغ ِ تازہ میں خا ر تھا
جغرافیائی حوالے سے قطع نظر،یوں بھی راجپوت نثار علی خان سر جھکا کر ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے نہیں تھے،جبکہ باقی مصاحبین کا حال بقول ظفر اقبال یہ تھا،
سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے
عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں!
پانچ سال پہلے یہ بھی لکھا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ حلقہ بگوشوں کا یہ دائرہ توڑ کر باہر آ جائیں گے،چنانچہ یہی ہوا،راجپوت نے کابینہ کی میٹنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کے نااہل سابق وزیر اعظم کی موجودگی میں صاف بات کی۔کھل کر موقف بیان کیا اور انگریزی محاورے کی رُو سے بیلچے کو بیلچا کہا۔بیلچا کسی طرح بھی کلہاڑی بن سکتا ہے نہ ڈھال،ہل نہ جال،جبھی تو چوہدری نثار نے کہا ہے کہ مریم نواز کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ میاں صاحب کی دختر ہیں،گویا۔۔
بنے کا شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے!
کہا ں مریم صفدر اور کہاں بے نظیر بھٹو۔صرف مطالعہ کی وسعت کا فرق دیکھ لیجئے۔اسی لیے نثار نے کہا کہ بچے بچے ہوتے ہیں۔لیڈر نہیں!اور یہ کہ شہزادی کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔
رہا چوہدری نثار علی خان کا یہ اعتراف کہ وہ بات کو دل میں رکھتے ہیں،علاقائی حوالے سے بھی ایک حقیقت ہے،بجا کہ یہ تعمیم سو فیصد افراد پر نہیں کی جاسکتی،مگر اکثریت کی بنیاد پر ایک حقیقت سامنے آتی ہے جسے تجربے نے سالہا سال کی بنیاد پر سچ ثابت کیا ہوتاہے۔
چوہدری نثار علی خان چکری سے ہیں،یہ علاقہ چند عشرے قبل تحصیل فتح جنگ کا حصہ تھا۔ فتح جنگ پنڈی گھیب تلہ گنگ ایک مخصوس پٹی ہے اس کا ایک ڈانڈا میانوالی کی طرف جا نکلتا ہے۔اس علاقے کے باسیوں کی صدیوں سے یہ خصوصیت چلی آرہی ہے کہ دشمنی بھی نبھاتے ہیں اور دوستی بھی،ہات پر کٹ مرتے ہیں،بات دل میں رکھتے ہیں،مثلاً وسطی پنجاب کے برعکس یہاں موت پر نہ آنے والے سے تعلقات زندگی بھر کے لیے ختم ہوجاتے ہیں،کسی بھی وجہ سے دشمنی پیداہوجائے تو مشکل سے ہی ختم ہوتی ہے۔سالوں تک عشروں تک مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے،منافقت کم ہے بہت کم۔ اگر کوئی کسی کو ناپسند کرتا ہے تو اس ناپسندیدگی کو ڈھانک کر نہیں رکھے گا،ظاہر کرے گا،بعض اوقات پا س سے یوں گزرے گا جیسے جان پہچان ہی نہ ہو،ظاہر ہے چوہدری نثار علی خان کے اپنے مزاج اپنے ضمیر اور اپنی کیمسٹری کا بھی اس رویے میں حصہ ہوگا،مگر بحیثیت مجموعی پورے علاقے کا ایک انداز،ایک اسلوب، ایک سٹائل ہے جو چوہدری صاحب میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ باقی مصاحبین اہلِ غرض سے ہیں،خوشامد کرنے والے ہیں، اور اتنی جرات نہیں دکھا سکتے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں۔مریم صفدر اب عملی طور پر مسلم لیگ ن کی سربراہ ہیں،ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ ہے نہ وہ منتخب رکن ہیں،نہ سرکاری ملازم۔پوچھنے والے پوچھے کا حق رکھتے ہیں کہ کس حیثیت سے پارٹی کو نیچے بچھا کر اوپر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہیں؟۔۔۔اس سوال کا جواب چوہدری نثار علی خان نے دیا ہے۔کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی دختر نیک اختر ہیں۔
میاں صاحب کی نا اہلی کو جمہوریت کا خاتمہ کہنے اور سمجھنے والے سوچیں کہ اگر میاں صاحب جمہوریت پر،اداروں پر اور نظم وترتیب پر یقین رکھتے تو بیماری کی وجہ سے قیام لندن کے دوران سینئر ترین وفاقی وزیرکو قائم مقام وزیراعظم بنا کر باقائدہ اعلان کرتے۔مگر ایسی اصول پسندی ان کے خمیر میں ہی نہیں،قائم مقام وزیر اعظم کوئی بھی نہ تھا،اور اصل وزیر اعظم کے اختیارات بیٹی استعمال کررہی تھی،کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی جمہوری ملک میں غیر ملکی سرکاری ملاقاتی،حکمران کی بیٹی یا بیٹے کے حضور آکر کورنش بجا لائیں؟پھر وزیروں،افسروں اور اہلکاروں کو بھی یہی حکم ملے،ہاں ایسا ہوتا ہے مگر صرف قبائلی طرزِ حکومت میں۔
نثار علی خان اس شاہراہ سے ہٹ کر کنارے کھڑے ہیں،جس پر مسلم لیگ ن کا قافلہ رواں ہے،اور چاپلوسی کرنے والوں کی ایک طویل قطار اس قافلے کی گر دمیں لپٹی،پیچھے پیچھے نعرے لگات آرہی ہے۔آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں،یہ راجپوت ضرور الگ ہوجائے گا،ابھی تو اس نے صرف برملا یہ تسلیم کیا ہے کہ 2003کے بعد ان کے تعلقات وزیراعظم سے سرد ہو گئے،بہت جلد وہ مزید اعلانات بھی کریں گے۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے،خواب گیا آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے،صبح گیا یا شام گیا!



-‎شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟

$
0
0

‎بات چار روپے کی نہیں،بات یہ ہے کہ کوئی زبردستی ایک روپیہ یا ایک پیسہ بھی کیوں رکھے،کسی نے لینا ہے تو مانگ کر لے،سو روپیہ دیں گے،استطاعت ہوئی تو ہزار بھی دیں گے۔دس ہزار بھی!
‎مگر سینے پر پاؤں اور گلے پر ہاتھ رکھ کر ایک روپیہ بھی چھینے گا تو نہیں دیں گے۔
‎پانی کا بِل تھا،رقم زیادہ نہ تھی،ملازم کو دیا کہ محلے کے بینک میں جاکر جمع کروا آئے،محلہ تو نہیں کہنا چاہیے،رہائشی کالونی ہے،نظم و ضبط اور قائدے قانون والی،ملازم جمع کرا آیا،کہنے لگا کہ بنک کلرک نے پیسے واپس کیے،نہ کچھ بولا،بقیہ چار روپے مانگے تو ادائے بے نیازی بلکہ کچھ کچھ رعونت سے کہنے لگا کہ ٹوٹے نہیں ہیں میاں۔۔
‎اس نے آکر بتایا تو کالم نگار کا شہری شعور پوری طرح بیدار ہو گیا، یوں کہیے کہ بھڑک کر بیدار ہوا،گھر والی کہتی ہے کہ بیرون ملک جتنا عرصہ رہتے ہو آرام سکون سے رہتے ہو،یہاں آئے دن کسی نہ کسی سے جھک جھک کررہے ہوتے ہو،فلاں نے وعدہ پورا نہیں کیا،فلاں وقت پر نہیں پہنچا،فلاں نے کہا تھا صوفہ پرسوں مرمت ہو جائے گا،پرسوں تو کیا،تین بعد جواب ملا کہ،جی بیمار ہو گیا تھا،بھائی بیمار ہوگئے تھے تو فون کردیتے۔وہ جی میں نے کہا کہ فون کیا کرنا،اگلے ہفتے ٹھیک ہوجاؤں گا تو خود ہی آجاؤں گا ۔
‎چنانچہ بنک سے جھک جھک شروع ہوئی،منیجر کو فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،ایکسچینج نمبر پر کال کی،ٹیپ کی آواز آئی،کسٹمر سروس آفیسر سے بات کرنے کے لیے پانچ دبائیں، پانچ دبایا- کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،منیجر آپریشن سے بات کرنے کے لیے چھ دبائیں،کوئی جواب نہیں۔آپریٹر بھی وجود نہیں رکھتا تھا۔اتفاق ہی کہیے کہ انٹر نیٹ پر زونل چیف کا نمبر مل گیا۔وہ درست بھی تھا اور زونل چیف صاحب نے اٹھا بھی لیا۔ان سے سیدھا سادہ سا سوال پوچھا۔۔زونل چیف صاحب ہماری رہائشی کالونی میں تقریباً دس ہزار گھر ہیں، ہر گھر نے پانی کا بل جمع کرانا ہے بجلی کا بھی،گیس کا بھی، فون کا بھی -اگر آپ کا بینک ہر بل پر چار روپے جگا ٹیکس لگاتا ہے تو چار بلوں پر سولہ روپے بنے،اور اسے دس ہزار سے ضرب دیجئے تو ماہانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں،یہ بتائیے ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار میں آپ کا حصہ کتنا ہے۔؟
‎زونل چیف ہنس پڑا۔۔۔"سر ایسی کوئی بات نہیں "۔۔اس پر اسے مشورہ دیا کہ ایسے موقعوں پر ہنستے نہیں رونے کی اداکاری کرتے ہیں،پھر اس سے پوچھا،زونل چیف صاحب آپ کی جو فلاں برانچ ہے، کبھی فون کرکے اندازہ لگانے کی کوشش کہ وہاں فون کرنے والوں پر کیا بیتتی ہے؟ظاہر ہے اس کے پاس جواب نہ تھا۔
‎اگلا سوال پوچھا تو سن کر گنگ رہ گیا۔زونل چیف صاحب آپ کو بنک نے اتنی بڑی ذمہ داری دی ہے،اتنی ڈھیر سار ی برانچیں آپ کے چارج میں ہیں،کیا کبھی بھیس بدل کر عام کلائنٹ کے طور پر کسی برانچ میں بل جمع کرانے یا کسی اور کام کے لیے گئے ہیں؟۔۔۔
‎وہی گھسے پٹے جواب،تھوڑی دیر کے بعد بنک منیجر کا فون آیا،سر مجھے ابھی ابھی زونل چیف صاحب نے حکم دیا ہے کہ آپ سے رابطہ کروں،سر ہم آپ کی شکایت پر ایکشن لے رہے ہیں۔
‎ایکشن کیا لیں گے؟خاک ایکشن ہوگا،قصور بنک کے منیجر اور کلرک کا پچیس فیصد ہے اور پچھتر فیصد قصور پبلک کا ہے،کلائنٹس کا ہے،شہری شعور کی اس قدر کمی ہے کہ ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے، چلیں،چھوڑیں جی،مٹی پاؤ۔پٹرول پمپوں والے اکثر و بیشتر باقی رقم نہیں دیتے،کوئی مانگتا نہیں،نہ تنبیہ کرتا ہے،نہ تقاضا۔تمام بڑے بڑے سپر سٹوروں کا یہی عالم ہے، کاؤنٹر لگے ہیں،کاؤنٹر پر مشینیں نصب ہیں،مگر بقیہ رقم پوری نہیں ملتی،اس کے برعکس عام انفرادی دکاندار ایسا نہیں کرتا،وہ ایک ایک پیسہ واپس کرتا ہے،کم ہی اتفاق ہوا ہے کہ وہ بہانہ بنائے۔یہاں ایک اور تبدیلی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے،کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا ہے کہ عام چھوٹا دکاندار منظر سے غائب ہو رہا ہے،؟
‎پہلے لوگ کہتے تھے مہینے کا سودا فلاں دکان سے لیتے ہیں،اب لوگ کہتے ہیں گروسری فلاں سوپر مارکیٹ سے،کیش اینڈ کیری سے لیتے ہیں،وہ جو محلے میں کریانے والا تھا وہ منظر سے ہٹ گیا،جہاں ہے، وہاں سے بھی ہٹتا جا رہا ہے،ایک ہی چھت کے نیچے،انڈر ون روف کا تصور چھا گیاہے۔کیش اینڈ کیری میں یا مارٹ یا سپر سٹور میں ساری اشیاء میسر ہیں،ٹوتھ پیسٹ سے لے کر کر اکری تک۔آٹے سے لے کر دودھ تک،انڈوں سے لے کر گوشت تک،نئے ٹی وی بھی پرے ہیں،کھلونے بھی وہیں ہیں،جوتے اور پتلون بھی حاضر ہیں،بھوک لگی ہے تو فوراً کھانے کے لیے پزا یا چکن پیس بھی خریدے جا سکتے ہیں،کارپوریٹ سٹائل نے سب کچھ بدل دیا ہے،بیچارہ کریانے والا اپنی جیب سے شاپنگ بیگ خرید کر گاہک کو دیتا تھا،مانگنے پر دوسرا بھی دے دیتا تھا،اب سپر سٹور والا پوچھتا ہے،شاپنگ بیگ چاہیے؟۔۔۔جواب ہاں میں ہو تو فوراً اس کی انگلیاں مشین پر ٹھک ٹھک کرتی ہیں،اور شاپنگ بیگ کی قیمت آپ کے بل میں جمع ہوجاتی یں ہ
‎رقی یافتہ ملکوں نے "بقیہ رقم"کے بکھیڑے کو ہی ختم کردیا ہے،کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کیجئے۔کاؤنٹر والا آپ کے پیسے رکھ سکتا ہے،نہ آپ کم دے سکتے ہیں۔ان ملکوں میں کوئی گاہک ،کاؤنٹر والے کو سو ڈالر کا نوٹ دے تو کاؤنٹر والا اس نوٹ کے علاوہ گاہک کو بھی غور سے دیکھتا ہے،
‎ہر کام حکومت کرسکتی ہے نہ ہر شہری کے اوپر ایک پولیس والا متعین کیا جاسکتا ہے،شہری شعور پختگی کے مراحل طے کرے تو بے شمار مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ٹریفک کا مسئلہ لیجئے۔۔شاہراہوں پر کروڑوں کی حساب سے موٹر سائیکل رواں ہیں۔سب سنپولیے لگتے ہیں،سانپ کی طرح موٹروں کے بیچ سے زِگ زیگ کرکے دائیں بائیں ہوتے،ہر ایک کو ڈاج کرتے یہ جا وہ جا۔۔۔
‎ہمارے ایک دوست ہاشمی صاحب نے جو مزاح لکھتے ہیں،ایک دلچسپ کتاب تصنیف کی ہے"آنکھوں دیکھا جھوٹ "فرانس کے حوالے سے کیا عبرت انگیز جملہ لکھا،کبھی سڑک پر ہارن کی آواز نہیں سنی،ہارن بجا تو کسی پاکستانی پر ہی بجا۔۔۔کار سے جب بھی ٹکرایا تو موٹر سائیکل والا ہی ٹکرایا،اگر موٹر سائیکل،بس،ویگن،پک اپ،سوزوکی چلانے والا،شہری شعور اپنے زیادہ نہیں،کلو ڈیڑھ کلو ہی رکھ لے تو ٹریفک کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
‎سب سے زیادہ آفت ٹرکوں کی ہے،اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری شاہراہیں ٹرکوں کے ہاتھوں کیوں اور کیسے یرغمال بنیں۔۔؟یہ "احسان "بھی اس قوم پر "اسلامی"آمر (اگر اس ملک میں اسلامی شہد کی اصطلاح چل سکتی ہے تو اسلامی آمر کی کیوں نہیں)جنرل ضیا الحق نے کہا۔۔این ایل سی اس کے عہد نا مسعودمیں تشکیل پذیر ہوئی۔ بندر گاہ سے سامان اندرون ملک لانے لیجانے کے لیے فوج کے مقدس ادارے کو استعمال کیا گیا۔این ایل سی بنائی گئی۔ظلم کے اوپر دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ضیا الحق نے اس جرنیل کو جو این ایل سی کا بِگ باس تھا،ریلوے کا بھی وزیر بنا دیا۔چنانچہ ریلوے کی کارگو سروس کمزور کی گئی۔شاہراہیں ایل این سی کے قوی ہیکل ٹرکوں سے اٹ گئیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کی سڑکوں پر ٹرک دادا گیری کرتے پھر رہے ہیں۔قانون کی دھجیاں کیسے اڑائی جاتی ہیں،اس کا اندازہ آئل ٹینکر کے حالیہ واقعات سے لگائیے۔قانونی تقاضے پورے کیے بغیر سڑکوں پر رواں ہیں۔حکومت نے کوشش کی کہ ضابطے کے دائرے میں لائے تو ملک گیر ہڑتال کرکے بلیک میلنگ کی گئی۔اور کامیاب بلیک میلنگ کی گئی۔
‎شہری شعور کا ماتم کرنا ہو تو ریلوے اسٹیشن جاکر دیکھیے،ٹرین سے اترنے والے مسافر دروازے سے باہر جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے صومالیہ کے مہاجر روٹی کے ٹکڑے لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں،وہ غریب مظلوم جو ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہے سامنے والے سے ٹکٹ لیتا ہے تو دو مسافر سامنے سے اور تین بغل سے گزر جاتے ہیں،ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں،جو پوری جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
‎ہمارے شہری شعور کا تابناک نظارہ وہ ہوتا ہے جب شادی کا کھانا کھلتا ہے اللہ اکبر!قیامت کا سماں ہوتا ہے۔تھری پیس سوٹ اور شیروانیوں والے سب ننگے ہوجاتے ہیں،آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں،یہ وہ محشر ہے جس میں کوئی کسی کو نہیں پہچان رہا،زندگی کا مقصد اس نازک لمحے میں یہ ہے کہ پلیٹ بھری جائے اور اس میں گوشت ہی گوشت ہو۔
‎ا ن بھکاریوں کا سچ پوچھیے تو حق بھی بنتا ہے یہ کئی گھنٹوں سے اس کھانے کے لیے بیٹھے تھے،دعوتی کارڈز پر ساڑھے سات بجے کا وقت تھا،کھانا گیارہ بجے کھلا ہے،شہری شعور ہوتا تو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ انتظار کرتے،اور میزبان سے مل کر چلے جاتے،میزبان کو بھی احساس ہوتا،یوں آہستہ آہستہ یہ ذلت آمیز رواج ختم ہوسکتا تھا،مگر وقت ہمار ے ہاں بہتات میں ہے،کھانے کے لیے پوری رات بھی بیٹھ کر انتظار کرسکتے تھے،کھانا شروع ہونے کا وقت ہوگا تو جانوروں کو موقع ملے گاکہ کانوں کو ہاتھ لگا کر جنگل کی جانب بھاگنا شروع کریں۔
‎شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟

نفیریاں بجانے والیاں

$
0
0

کیا بخت ہے اس علاقے کا!
پیدائش ان کی غزنی میں ہوئی،غزنوی سلطنت خود بھی ان دنوں وسیع و عریض تھی،پھر وہ اس سے باہر بھی نکلے،بغداد گئے،کچھ وقت نیشا پور بسر کیا۔جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا،دمشق گئے،یہ اس وقت کی معلوم دنیا کے بڑے بڑے مراکز تھے،مگر اس علاقے کا بخت کہ آخر کار لاہور آئے،اور ان کا مزار لاہور کے اس خوش بخت علاقے میں بنا،یہ مزار جو مرجع خلائق ہے،شہر کی سب سے بڑی،سب سے محترم شناخت ہے،شناخت کیا ہے،شہر پر اس سائبان کا،اس چھتنار کا سایہ ہے-
جی ڈبلیو لائٹنر ہنگری میں پیدا ہوا،آٹھ سال کی عمر میں قسطنطنیہ آیا۔دس سال کا ہوا تو ترکی اور عربی زبانوں کا ماہر ہوچکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جنگ کریمیا میں انگریزوں کی طرف سے مترجم اور ترجمان مقرر ہوا۔23برس کی عمر میں کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کا فل پروفیسر تعینات ہو چکا تھا۔کُل پچاس کے قریب زبانوں پر اسے مہارت حاصل تھی۔
اس علاقے کی قسمت کہ لائٹنر یہاں آگیا۔شہرہ آفاق گورنمنٹ کالج کے لیے اسی علاقے کو منتخب کیا گیا۔یہی پروفیسر لائٹنر اس کالج کا پرنسپل مقرر ہوا۔ابتدا میں اس کالج کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔اس علاقے کے لیے لائٹنر نے ایک اور کارنامہ بھی سرانجام دیا۔وہ پنجاب یونیورسٹی کا بھی بانی تھا۔اس سے پہلے پورے برصغیر میں صرف تین یونیورسٹیاں تھیں،مگر وہ صرف الحاقی کالجوں کا امتحان لیتی تھیں۔پنجاب یونیورسٹی پہلی ہونیورسٹی تھی جہا ں پڑھایا بھی جاتا تھا اور امتحان بھی لیا جاتا تھا۔یہ یونیورسٹی بھی اسی علاقے میں بنی۔
یہ سار ی خوش بختیاں اس علاقے کی ہیں جسے اب الیکشن کی زبان میں این اے 120کہا جاتا ہے۔داتا دربار ہو یا گورنمنٹ کالج کا ایک صد ی سے زیادہ قدیم علمی اور ثقافتی ادار ہ،یا جی ڈبلیو لائٹنر کی قائم کردہ پنجاب یونیورسٹی،اس علاقے کے مائنڈ سیٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔یہاں کے مکین پہلے میاں محمد نواز شریف کو منتخب کرتے رہے،اب ان کی بیگم صاحبہ کو منتخب کیا ہے۔یہ سیاسی رہنما نہ صرف اس علاقے میں رہتے نہیں بلکہ ان کا اس سے بظاہر کوئی تعلق بھی نہیں۔پہلے یہ رہنما ماڈل ٹاؤن کی پوش آبادیوں میں متمکن تھے،پھر شہر سے کوسوں دور محلات بنائے، اور رائے ونڈ ان کا مسکن ٹھہرا۔
رائے ونڈ کے مسکن کا نام انہوں نے ایسی کسی آبادی کے نام پر نہیں رکھا جہاں سے انہیں ووٹ پڑتے ہیں۔انہوں نے اس کا نام اسلام پورہ رکھا نہ انار کلی،مزنگ نہ ساندہ،موج دریا نہ چوبرجی،شام نگر نہ پریم نگر۔کیا خوبصورت نام ہیں۔کیا کوئی نام "موج دریا "سے بھی زیادہ دلکش ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔شام نگر اور پریم نگر میں تقسیم سے پہلے کا سارا حسن سمٹ آیا ہے۔اور چو برجی۔۔یہ توا س دیدہ زیب جنت نشاں باغ کا صدر دروازہ تھا جو اورنگزیب کی بیٹی کا تھا،اور جہاں وہ سیر کے لیے جایا کرتی تھی۔کوئی صاحب ِ ذوق ہوتا،کسی نے تاریخ کی ایک آدھ جھلک دیکھی ہوتی رائے ونڈ کے مسکن کا نام چو برجی رکھتا یا شام نگر یا موج دریا،مگر نام رکھا بھی تو اس بستی کا جو بھارت میں رہ گئی۔۔دل وہیں اٹکا ہے،اگرچہ پیدائش یہاں کی ہے۔شاید یہی وہ تعلق خاطر ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے کارخانوں میں پاکستانیوں کے بجائے بھارتیوں کو رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
سید علی ہجویری کی آمد پر غور کیجئے۔کہاں کہاں نہیں تشریف لے گئے۔بغداد،نیشا پور،دمشق،پور ی غزنوی سلطنت قدموں میں تھی،مگر آئے تو لاہور آئے۔
پروفیسر جی ڈبلیو لائٹنر کو دیکھیے،دنیا کی جس یونیورسٹی کا رخ کرتا،ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا،مگر لاہو ر آیا۔اب ستم ظریفی دیکھیے کہ اس علاقے کے مکیں جن رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں،وہ منتخب ہوتے ہی لندن کا رخ کرتے ہیں۔میاں صاحب کی ایک عید بھی یہاں کے لوگوں کے ساتھ نہیں گزری،چلیے بیگم صاحبہ تو اب علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں،لیکن دختر نیک اختر نے بھی یہی کام کیا کہ ووٹ لینے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ لندن روانہ ہو گئیں۔پہلے حکمران لندن سے یہاں آتے تھے،اس لیے کہ حکومت یہاں کرتے تھے۔ اب حکومت یہاں کرتے ہیں،مگر لندن میں بیٹھ کر۔
کیا آپ کو معلوم ہے stoicکسے کہتے ہیں؟۔اردو،فارسی اور عربی میں اسے رواق کہتے ہیں۔رواقی فلسفہ یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم سے لاتعلق ہوجاتا ہے،یہ قناعت سے بھی آگے کی چیز ہے۔اس میں ضبط و استقلال اوجِ کمال پر ہوتا ہے۔این اے 120کے مکیں بھی یوں لگتا ہے stoicہیں۔رواقی فلسفے پر یقین رکھنے والے،خوشی اور غم سے لاتعلق،نلوں میں پانی نہیں آتا،بازار اور کوچے ٹوٹے ہوئے،مکان بوسیدہ اور پرانے،خاک اڑاتی گلیاں،مگر رواقی فلسفے میں ڈوبے ہوئے یہ مکیں ووٹ کھرب پتیوں کو دیتے ہیں۔ضمنی الیکشن سے پہلے مبینہ طور پر ایک کھرب کے ترقیاتی کام ہوئے۔سوشل میڈیا پر تصویریں لاکھوں آنکھوں نے دیکھیں۔ترقیاتی کام اتنی سرعت،اتنی برق رفتاری،ا س قدر بد حواسی سے ہوئے کہ اگر گاڑی کھڑی تھی تو اس کا نیچے والا حصہ چھوڑ دیا گیا،اور بقیہ پر نئی سڑک بنا دی گئی۔
ان رواقیوں کو،اس علاقے کے بے پرواہ مکینوں کو اس سے کچھ غرض نہیں،کہ جنھیں یہ ووٹ دیتے ہیں،وہ ایک لحاظ سے بدیسی ہیں۔شہزادی جو ان سے ووٹ مانگنے آئی تھی۔ان کی گلیوں میں لگے نلکوں سے پانی پینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان کیساتھ چارپائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے،اور ان کے ہمراہ دال اچار اور چٹنی کھائے۔،مگر ان صابروں نے،ان مست حالوں نے،ان رواقیوں نے،ان ملامتیوں نے ووٹ ان کھرب پتیوں کو ہی دینے ہیں۔
رہا یہ دعوی ٰ کے ان ووٹروں نے عدالتِ اعظیٰ کے فیصلے کو رد کردیا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا یہ ووٹر اپیل بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے؟کیا دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایک نظیر بھی ایسی ہے،کہ عدالت کافیصلہ ووٹو ں سے منسوخ یا تبدیل ہوا ہو۔۔عدالت کی اپنی دنیا ہے،وہاں تقریروں،نعروں اور طعنوں سے کام نہیں نکلتا۔دلیل اور برہان کی بنیاد پر بات ہوتی ہے۔جو جیتا دلیل سے جیتا،جو ہارا دلیل سے ہارا۔
جمہوری عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رہا تو وہ دن بھی آئے گا جب لوگ ووٹ دیتے وقت اچھے اور برے کا سوچیں گے۔تب تعلیم کا گراف بھی اوپر جاچکا ہوگا،لوگ کرپشن سے نفرت کریں گے۔برادری کو،سماجی تعلق کو،روابط کو حق اور باطل پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہم تو تین پشتوں سے فلاں پارٹی کو ووٹ د ے رہے ہیں۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارا خاندان کسی اور پارٹی کو پیسے نہیں دیتا۔تب میرٹ اور کردار کی پاکیزگی ووٹ کا واحد معیار ہوگا۔وہ دن کب آئے گا،؟نہیں معلوم کب۔۔۔مگر آئے گا ضرور۔
وقت کو پیچھے نہیں کیا جا سکتا۔پتھر کا زمانہ ختم ہوگیا۔غلامی کا عہد انجام کو پہنچا۔سماج کی یہ خاندان پرستی بھی ایک دن نہیں دکھائی دے گی۔حافظ نے کہا تھا۔۔۔
رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند
چنان نماند چنین نیز ہم نخوہد ماند!
خوشی کے دن ہمیشہ نہیں رہتے تو غم کے ایام کیسے باقی رہیں گے؟یہ بھی تو عارضی ہیں 
انتظار کے ان طویل لمحوں کے دوران ہم اپنے اپنے گاؤں سے ہو آتے ہیں۔علی اکبر ناطق کی تازہ نظم پڑھیے،زخم ہرے کیجئے اور سر دھنیے۔۔
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے دائیں بائیں رقص میں بشارتیں،
تریل کی شراب پی کے،
سانجرے کی سرخیوں کے ملک سے،
سوار ہوکے سورجوں کی روشنی پہ آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
ہمارے گاؤں کے خراس والے چوک میں،
دو بیریوں کی لاگروں کے سبز سائے،
سوندھی سوندھی گاچنی سے لیپی آسنوں پہ آج پھر،
چڑھی ہیں صندلیں کنواریاں،
نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے کان کی لویں گلابکی
گلاب کے کنارے گھومتی ہیں گول گول سی بھبھریاں،
نفیریاں بجانے والیوں کی کرتیاں ہلال کی،
غرارے نور کے،
غراروں کے حصار میں کھنکتی چار چار جھانجریں،
سفید جھانجروں کے بیچ کانچ اور پارے کی شریر پنڈلیاں،
ہمارے گاؤں کے ہیں سادہ سادہ کاسنی سے گھر،
گھروں کے زندہ آنگنوں میں آگیا نفیریوں کا میٹھا میٹھا شور،
بجا رہی ہیں گاؤں کی جوان ہالیاں نفیریوں کے سنگ تالیاں،
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں!

بلبلے جہاں پناہ بلبلے

$
0
0

‎پنجاب حکومت اپیل دائر کررہی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اخفا ہی میں رکھی جائے۔یہ دنیا کی عجیب و غریب درخواست ہوگی،لوگ درخواستیں اس لیے دیتے ہیں کہ فلاں خفیہ اطلاع بہم پہنچائی جائے،یہ کوشش کر رہے ہیں کہ رپورٹ پوشیدہ ہی رہے۔کیوں؟ وجہ ظاہر ہے،رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے یہ خائف ہیں،کس چیز کا خوف ہے؟کیا جان کا خوف ہے؟۔۔۔جان کا ہی ہو سکتا ہے،عزت تباہ ہونے کا خوف تو بے معنی ہے،ہر خاص و عام کو پتا ہے کہ عزت کس شمار میں ہے۔
‎اصل بات یہ ہے کہ کیا رپورٹ خفیہ رکھنے سے خون معاف ہو جائے گا؟۔۔خون اس دنیا کی بے زبان چیزوں میں سے واحد چیز ہے جو ایک مقررہ وقت پر بول اٹھتی ہے،اور اتنا اونچا بولتی ہے کہ کانوں کےء پردے پھٹ جاتے ہیں،وہ جو قرآن میں "صیحہ "کا لفظ استعمال ہوا ہے،خون کی چیخ اس سے کیا کم ہوگی،شہباز شریف صاحب برسرِ اقتدار ہیں،برسرِ اقتدار رہتے ہوئے انسان ایک خواب آگیں کیفیت میں رہتا ہے،وہ صحیح دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے،ارد گرد سے بے خبر ہوتا ہے،باخبر ہوتابھی بے تو بےنیازی آڑے آجاتی ہے، اقتدار کا تخت ہوا میں اڑتا ہے،نیچے دیکھیں تو مکان ماچس کی ڈبیہ جتنے نظر آتے ہیں،شاہراہیں لکیروں کی طرح،اور انسان مدھم،بے جان نقطوں کی طرح۔ان بے جان نقطوں کی ہوا میں بیٹھا ہوا بادشاہ کیوں فکر کرے؟۔۔مٹی کے ذرے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں،مگر بادشاہ کو یہ نہیں معلوم کہ بلبلے اس کے در پے ہیں،پانی کے بے جان بلبلے،جن کی زندگی چند ثانیے ہوتی ہے،قاتل کو پکڑوا دیتے ہیں۔
‎یہ دو دوست تھے جو قصبے سے باہر سیر کے لیے یا کسی کام سے جارہے تھے،شاید اپنے دور افتادہ کھیتوں کی طرف -گیت گاتے جا رہے تھے،قصے کہانیاں سناتے جا رہے تھے، باتیں کرتے جا رہے تھے،ایک آگے تھا،دوسرا پیچھے،باتیں کرتے،پگڈنڈیوں پر چلتے قصبے سے بہت دور نکل آئے تھے،اب مٹی کے اونچے بھر بھر ے ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوا،سرخ رنگ کی مٹی کے ٹیلے جن کی چوٹیوں پر کنکر آدھے ٹیلے میں دبے تھے،اور آدھے نظر آرہے تھے،پھر بڑی بڑی چٹانیں آنا شروع ہو گئیں،جو جلدی پہاڑیوں میں تبدیل ہو گئیں،دونوں دوست چلتے رہے،آگے بڑھتے رہے،ایک طرف پہاڑیاں تھیں،دوسری طرف جنگل۔کوئی دیکھنے والادور دور تک نہ تھا،پیچھے آنے والے نے آگے جانے والے کو پکارا،پکارا نہیں بلکہ للکارا،تیار ہو جاؤ،!آگے چلنے والے نے پیچھے مڑ کر دیکھا،پیچھے آنے والے دوست کے ہاتھ میں ریوالور تھا،آج تم نہیں بچ سکتے،فلاں دن کا بدلہ لیناتھا،کب سے موقع کی تلاش میں تھا۔
‎کچھ عرصہ ہوا دونوں میں کوئی معاملہ بگڑا تھا،کھیل کے دوران انا مجروح ہوئی تھی،یا کسی دوشیزہ کے حوالے سے رقابت تھی،آگے چلنے والے دوست نے بات بھلا دی تھی،مگر پیچھے آنے والے نے دل میں گرہ باندھ لی تھی،اور سنبھال کر رکھی ہوئی تھی،پہلے تو آگے چلنے والے دوست نے بات کو مذاق سمجھا،مگر غور سے دیکھا تو دوست کی آنکھوں میں خون اترا ہو ا تھا،اور چہرہ لکڑی کی طرح سخت،بے جان اور تاثرات سے خالی تھا۔
‎اتنی دیر میں سرخ ٹیلوں اور پتھریلی اونچائیوں کی اوٹ سے بادل ابھرے اور آن کی آن میں برسنے لگے،جل تھل ہو گیا،جنگل کی طرف سے ٹھنڈی دل آویز ہوا آنے لگی،اس لطیف ماحول نے ریوالور والے دوست پر چھائے ہوئے قتل کے نشے کو دوبالا کر دیا۔
‎کوئی لمبے چوڑے مذاکرات نہ ہوئے،آگے چلنے والے نے منت سماجت کی،دوستی کا واسطہ دیا،بزرگوں کے حوالے دیے،پھانسی سے ڈرایا، ریوالور والا ہنسا۔۔
‎پھانسی؟کیسی پھانسی؟۔۔یہاں کون ہے دیکھنے والا؟۔۔کوئی گواہ نہیں،یونہی تو اس میدان میں نہیں لایا؟،جہاں ایک طرف گھنا کھردرا جنگل ہے،دوسری طرف بلند ٹیلے اور پہاڑیاں۔
‎بارش برس رہی تھی،قتل ہونے والے نے دیکھا کہ بارش کا جو قطرہ بھی برستا ہے،بلبلے میں تبدیل ہوجاتا ہے،تھوڑی دیر یہ بلبلہ پانی میں تیرتا ہے اور بہاؤ کے ساتھ چلتا ہے اور پھر ٹوٹ جاتا ہے،اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتا ہے،
‎قتل کرنے والے نے کہا کہ کون ہے یہاں دیکھنے والا؟۔قتل ہونے والے نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا،
‎اس کے منہ سے عجیب و غریب آسمانی تاثیر رکھنے والا ایک جملہ نکلا۔۔۔یہ برستی بارش میں بننے اور ٹوٹنے والے پانی کے بلبلے تمھیں پکڑوا دیں گے۔قاتل ہنسا۔۔۔انگلی دبائی،ویرانے میں ایک ملفوف آواز گولی کی ابھری،پھر ایک چیخ -پھر ایک جسم گرا،تڑپا اورٹھنڈا ہوگیا۔
‎کسی کو معلوم نہ ہوا،مقتول کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا،دن ہفتے بنے،ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوئے،پھر سال گزر گیا،پھر دوسال،پھر کئی سال گزر گئے،قاتل نے جوانی کی دہلیز پار کی،اور ادھیڑ عمر کی ڈیوڑھی میں پاؤں رکھا،کامیاب انتقام ہمیشہ اسے طمانیت بخشتا تھا،ایک دن ادھیڑ عمر میں داخل ہونے والا قاتل اپنے چوبارے میں بیٹھا تھا،اس نے چوبارے کے سامنے کچے فرش والی ٹیرس کو دیکھا،بارش برس رہی تھی،بارش کے قطرے زمین پر گرتے،بلبلے بنتے، تھوڑی دور چلتے،پھر ٹوٹتے اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتے،اتنے میں پیچھے سے نئے بلبلے تیرتے آجاتے،اسے مقتول کی دھمکی یاد آئی،کتنا بے خوف تھا،اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری،اس کے ہونٹ ہلے زیر لب آواز آئ۔ بلبلے پکڑائیں گے۔۔۔بے وقوف کہیں کا!
‎یہ جو ثانیہ تھا،یا ثانیے سے بھی کم وقت کا ننھا سا ذرہ،جس میں وہ زیرِ لب مسکرایا،اور کچھ کہا،یہ ثانیہ "۔اتفاق سے اس کی بیوی نے،جو اس کے پاس بیٹھی تھی،شیئر کرلیا۔مسکراہٹ دیکھ لی،یہ عام مسکراہٹ نہ تھی،عورت کی فطرت میں قدرت نے مافوق الفطرت قوت رکھی ہے،اسے شوہر کی آنکھ سے شوہر کی عفت یا کج روی کا پتا چل جاتا ہے،اسے شوہر کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کی ایکس رے جیسی فلم نظر آجاتی ہے۔شاعر نے یونہی تو نہیں کہا تھا۔۔
‎غیر عورت گھر میں لاؤ گے تو پکڑے جاؤ گے،
‎بیویاں پہچانتی ہیں بستروں کی خوشبوئیں!
‎بیوی نے پوچھا،مسکرائے کیوں ہو؟اور یہ تم نے زیرِ لب کیا کہا ہے؟ اور یہ تمہارے چہرے پر خوف ناک سا سایہ کیوں تھا؟
‎اس نے بہت ادھر ادھر کی باتیں کیں،آئیں بائیں شائیں کی،مگر عورت پہاڑ جیسی استقامت رکھتی ہے،وہ درپے رہی،پوچھتی رہی،اور پیچھے پڑی رہی،اصرار تلخی میں بدلنے لگا،تنگ آکر شوہر نے وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گی نہیں،اور پھر اسے اپنے راز میں شریک کر لیا،بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا،وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دوست کا قاتل وہ خود ہے،اس کے اندر طلاطم خیز سمندر موجیں مارنے لگا،ہیجان برپا ہوگیا،رات کو سکون ملتا نہ چین،اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ یہ خبر کسی قریبی سہیلی سے شیئر کرے،چنانچہ اس نے شیئر کی،پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،بات شرگوشیوں سے چلی اور منڈیروں سے ہوتی ہوئی انگور کی بیل کی طرح کوٹھوں پر چڑھ گئی،مقتول کے خاندان نے بھی سن لی پولیس نے پکڑ لیا،تھرڈ ڈگری طریقہ تھا یا فورتھ،خون بولا اور چیخ کر بولا،قاتل پھانسی کے پھندے پر جھول گیا،بے جان،ٹوٹ جانے وا؛ے بلبلوں نے قاتل پکڑوا دیا۔۔
‎ان لطیف سچائیوں کا علم حکمرانوں کو نہیں ہوتا،آج شہباز شریف سب سے بڑے صوبے کے مطلق العنان حکمران ہیں،صوبائی اسمبلی کو وہ جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے،وہ تو وہاں جاتے ہی نہیں،کابینہ جیسے بے جان پتلیوں کا مجموعہ ہے،کوئی فرد،کوئی ادارہ انہیں چیلنج کرنے والا نہیں،عدالت نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ عام کریں،وہ نہیں کر رہے،کہتے ہیں اپیل کریں گے،
‎اپیل کرنے سے کیا ہوگا؟۔۔۔کیا بارش نہیں برسے گی؟کیا بلبلے نہیں بنیں گے؟کیا بلبلے پانی میں تھوڑی دور تک نہیں چلیں گے؟پھر نئے بلبلے کیا ان کی جگہ نہیں لیں گے کیا؟۔۔رپورٹ نہ افشا کریں،بے شک نہ کریں،آپ مطلق العنان حکمران ہیں مگر عالی جاہ،جہاں پناہ،بارش آپ کے قبضہ قدرت سے باہر ہے،بلبلوں نے بننا ہی بننا ہے،ایک نہیں،ہزار رانا ثنا اللہ ان بلبلوں کے بننے،تیرنے اور ٹوٹنے کو نہیں روک سکتے۔
‎تاریخ نے یہ بات پتھر پر لکیر کردی ہے کہ حکمرانوں کی بھاری اکثریت گہرائی میں جا کر سوچنے سے قاصر ہے۔تزک و احتشام،جاہ و جلال،نقیبوں اور حاجیوں کی صدائیں،ہٹو بچو کی آوازیں انہیں سوچنے نہیں دیتیں،آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دیتی ہیں،باہر نکلتے ہیں تو شہر کو سیل کردیا جاتا ہے،دیکھیں گے کیسے؟۔۔۔
‎افسوس وہ بلبلوں کو بھی نہیں دیکھ رہے،یہ اور بات کہ یہ بلبلے 14انسانی لاشوں کے امانت دار ہیں۔



خدا کے لیے ان فیکٹریوں کو بند کیجیے

$
0
0
‎جاپان کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو یہ جنوب مغرب سے شمال کی طرف بڑھتی ہوئی لمبوتری سی شکل ہے،شما ل مشرق کے آخری کنارے پر واقع جزیرے کا نام ہکیڈو ہے۔اس دور افتادہ جزیرے پر،مزید دور افتادہ ایک جگہ ہے جس کا نام کامی شراتا ہے۔یہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہے،ریل یہاں رکتی تھی،،2012میں ریل کمپنی نے نوٹ کیا کہ مسافروں کی تعداد یہاں تقریبا"صفر ہے، یہاں تک ریل کا آنا اور پھر واپس جانا نِرا گھاٹے کا سودا ہے،کیوں نہ یہ ریلوے اسٹیشن بند کردیا جائے،ریلوے کمپنیوں کے لیے اس طرح کے فیصلے معمول کی کارروائی ہیں۔چنانچہ انتظامیہ نے متعلقہ عملے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی،رپورٹ میں بتایا گیا کہ کامی شراتا کے اسٹیشن پر صرف اور صرف ایک لڑکی آتی ہے،صبح ٹرین پر سوار ہوتی ہے،سہ پہر کو واپس اترتی ہے۔ مزید تفتیش کی تو پتا چلا کہ یہ لڑکی کانا کسی دوسرے قصبے میں ٹرین کے ذریعے سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے، ٹرین بند ہو گئی تو اس کا جانا ناممکن ہو جائے گا۔ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ جب تک لڑکی اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر لیتی،ریل سروس بند نہیں کی جائے گی -تین سال - ۔
‎جی ہاں۔۔پورے تین سال ریل اس اسٹیشن پر صرف کانا کے لیے آتی رہی، صبح سات بجے کانا ٹرین پر سوار ہوتی تھی،شام کو پانچ بجے ٹرین اسے واپس چھوڑنے آتی تھی۔برف سے اٹے اسٹیشن پر لڑکی اترتی تھی۔۔اکیلی!اور گھر کو روانہ ہو جاتی تھی۔
‎گھاٹے کا یہ کارو بار تین سال جاری رہا۔
‎مارچ 2016میں کانا نے ہائی سکول مکمل کر لیا،اور ریل نے بھی یہاں سے رختِ سفر باندھ لیا۔جن دنوں کانا کو سکول سے چھٹیا ں ہوتی تھیں ٹرین یہاں نہیں رکتی تھی۔اتوار کے دن بھی رکے بغیر گزر جاتی تھی۔
‎آپ کا کیا خیال ہے اس ریلوے کمپنی نے گھاٹے کا یہ کاروبار تین سال کیوں جاری رکھا؟۔۔۔لاکھوں روپوں کا نقصان کیوں برداشت کیا؟اس کی واحد وجہ جاپان کی خاص طور پر اس ریلوے کمپنی کی جہالت تھی،جہالت میں ڈوبی ہوئی جاپانی قوم اگر مسلمانوں سے تازہ ترین علوم حاصل کرتی تو کانا کو اتنی اہمیت بھی نہ دیتی جتنی گھاس کے سوکھے تنکے کو دی جاتی ہے اول اس لیے کہ کانا عورت ذات تھی۔دوم اس کے دماغ میں اتنی اہلیت ہی نہیں تھی کہ وہ پڑھ سکے اور علم حاصل کر سکے۔ 
‎جاپان کے جہلا کو معلوم ہونا چاہیے کہ کانا کے سر میں دماغ مرد کے دماغ کا نصف تھا، جب وہ بازار شاپنگ کے لیے جاتی تھی تو اس نصف کا نصف رہ جاتا تھا،باقی کتنا بچا؟
‎ایک چوتھائی!ایک چوتھائی دماغ کے ساتھ کانا نے کیا علم حاصل کرنا تھا،گنجی نہائے گی اور نچوڑے گی کیا؟افسوس!ریل کمپنی نے جو تین سال گھاٹے کا کاروبار کیا،اس کا کوئی علمی فائد ہ حاصل نہ ہوا۔ 
‎تفصیل اس حیران کن اجمال کی یہ ہے کہ اس مقدس مملکت میں جو ہم مسلمانوں کا روحانی دینی و شرعی مرکز ہے، ایک ممتاز عالم دین جناب مولانا سعد الجبری نے جو عیسر کے صوبے میں علما کونسل کے رکن ہیں،فتویٰ دیا ہے کہ عورتوں کا دماغ مردوں کی نسبت آدھاہے،بازار میں خریداری کے لیے نکلتی ہیں تو اس میں بھی آدھا رہ جاتا ہے،باقی ایک چوتھائی سے وہ ڈرائیونگ کیسے کریں گی؟یہ ہے وہ ٹیکنیکل وجہ جس کی بنا پر عورتوں کی ڈرائیونگ منع ہے۔
‎اس جدید ترین سائنسی ایجاد سے فائدہ اٹھانے کے بجائے صوبے کے گورنر نے حضرت کو امامت خطابت اور تبلیغ سے روک دیا ہے، غالباً اس اقدام کی وجہ یہ ہوئی کہ سوشل میڈیا میں اس سائنسی دریافت سے طوفان آگیا،فیس بک اور ٹویٹر پر لاکھوں کے حساب سے لوگوں نے یہ خبر پڑھی۔خود مقدس مملکت میں حضرت کا مذاق اڑایا گیا اور خوب اڑایا گیا۔ 
‎مسلمان شروع ہی سے سائنس کے دشمن ہیں،چنانچہ ا س روایت کے تسلسل میں حضرت سعد الحجری پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔خدا کے بندو،پابندی لگانے کے بجائے پوری دنیا کے ماہرین ِ دماغ کو چیلنج کرتے کہ عورت کے دماغ کی اس نئی دریافت کا جواب دے کر دکھاؤ۔
‎حضرت مولانا سعد الحجری نے میڈیکل سائنس کا علم کہاں حاصل کیا؟یہ تو معلوم نہیں مگر ان کے لائق فخر اساتزہ کو تمغہ دینا چاہیے کہ کیا جوہر قابل پیدا کیا ہے انہوں نے،سبحان اللہ!پوری دنیا کے ڈاکٹروں کا بوتھا حضرت نے ایک ہی ضرب سے توڑ کر رکھ دیا، بدبخت!نیورو سرجن!آج تک یہ حقیقت دنیا سے چھپائے بیٹھے تھے کہ موئی عورتوں کا دماغ آدھا ہے۔،
‎ان نابغہ روزگار اساتذہ نے صرف ایک سعد الحجری تو نہیں پیدا کیا ہوگا۔۔۔ آخر ان کے اور بھی شاگر د ہوں گے، پیدا وار صرف ایک سکالر تک تو محدود نہیں ہو سکتی،باقی موتی او رہیرے جانے کہاں کہاں سائنس کی کرامات پھیلا رہے ہوں گے۔ ان سب کو یکجا کرکے ایک "مرکزِ علوم دماغ "بنانا چاہیے، جس کے باہر پتھر نصب ہو اور اس پر یہ عبارت کندہ ہو،
‎"یہ سعد الحجری تھا جس نے 2017میں دنیا کو پہلی بار آگاہ کیا کہ عورت کا دماغ آدھا ہے اور خریداری کے بعد ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔"ساتھ حضرت کی تصویر لگانا ہوگی اور ان کے اساتذہ کی بھی۔ مفتیان کرام اجازت دیں تو ان کے مجسمے بھی نصب کرنے چاہئیں۔
‎ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہی حضرت نے ایک تقریر کرتے ہوئے عورتوں کی ڈرائیونگ کے بیس نقصانات گنوائے،اس سے پہلے ایک صاحب جن کا تعلق اسی مقدس اقلیم سے ہے عورتوں کی ڈرائیونگ کا ایسا میڈیکل نقصان بتایا جسے لکھنے کی قلم اجازت نہیں دیتا،کیوں کہ یہ اخبار بچے اور لڑکیاں بھی پڑھتی ہوں گی۔
‎آقائے نامداررﷺ پر یہ وحی تو آگئی تھی کہ آج کے دن ہم نے تم پر تمھارا دین مکمل کردیا ہے،مگر علما کرام کو عملاً اس سے شدید اختلاف ہے۔ ملا ایشیا میں یہ فتویٰ دیا گیا کہ غیر مسلم "اللہ "کا نام استعمال نہیں کرسکتے۔14سو سال میں کسی صحابی،کسی تابعی،کسی محدث،کسی مفسر،کسی فقیہہ نے ایسا حکم نہ دیا۔بلکہ کلام پاک میں یہ حقیقت موجود ہے کہ مشرکین "اللہ"کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے استعمال کرتے تھے۔"اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس ے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے"،(سورہ زخرف)یہی حقیقت سورہ زمر،سورۃیونس،سورۃ مومنون میں بیان کی گئی ہے۔
‎بنگلہ دیش کے علما نے بیماروں،اپاہجوں اور بوڑھوں کو کرسی پر نماز پڑھنے سے منع کردیا ہے، کہ کھڑے ہوئے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ آج تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ نماز مجبوری میں بستر پر لیٹ کر اشارے سے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
‎ایران میں صرف اس لیے ہنگامہ ہوا کہ وہاں کے وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے یا شاید امریکی صدر سے مصافحہ کرلیا تھا۔
‎مسجدوں میں کثیر تعداد میں سُترہ رکھا جانے لگا ہے، 14 سو سال میں تو اس کا رواج نہ تھا،بچہ بچہ جانتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے،ہر شخص اس ضمن میں مکمل اختیار برتتا ہے،مگر ایک اضافی شے کا التزام ہونے لگاہے۔
‎ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے،جس میں "کھیرا "کاٹنے کا شرعی طریقہ بتایا جارہا ہے،کیا کسی مسلک کی کسی کتاب میں ایسا مسئلہ ہے؟ہوتا تو بہت سوں کو معلوم ہوتا۔
‎اس طرح کے بہت سے مسائل کھڑے کرکے ان پڑھ سادہ لوح عوام کو،جنھیں دین کے مآخز کا کچھ پتا نہیں،بے وقوف بنایا جا رہاہے،ان کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے بجائے پیچیدگیاں بڑھائی جا رہی ہیں۔ساتھ ہی مذہب کو تجارت کے لیے خوب خوب استعمال کیا جارہاہے۔کلونجی،شہد اور عجوہ کے حوالے سے کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں،"اسلامی شہد"کے بورڈ جگہ جگہ نظر آرہے ہیں۔ کیا کوئ شہد غیر اسلامی بھی ہے؟مگر پوچھیں گے تو پتھر پڑیں گے۔کیا عجب کافر کہہ کر مار ہی دیے جائیں۔
‎اب یہ جو فرمان ہے حضرت سعد الحجری کا روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل سے لے کر گارڈین اور رائٹر تک سب نے مزے لے لے کر سنایا ہے،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے،مگر اس کا کیا کیجئے کہ یہ خبر عرب نیوز اور دیگر عربی اخبارات نے شائع کی ہے۔کیا اس نام نہاد عالم کے لیے یہ سزا کافی ہے َ؟۔۔۔۔۔کہ اسے تبلیغ،امامت،اور خطابت سے روک دیاا جائے؟خبرمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کی مراعات اور تنخواہ بھی روک دی گئی ہے یا وہ جاری رہے گی۔۔
‎ہونا تو یہ چاہیے کہ اس سے کہا جائے کہ اپنا بیان دلیل سے ثابت کرو،اس علم کا ریفرنس کہاں ہے؟کس سائنسدان یا ڈاکٹر نے اس کی تصدیق کی ہے،؟
‎اگر سعد الحجری کے پاس ثبوت ہے نہ گواہی نہ سائنسی شہادت تو اسے قید کی سزا دینے کے علاوہ کوڑے بھی مارے جانے چاہئیں جب کہ وہاں بات بات پر کوڑے مارنے کی سزا دی جاتی ہے۔شورش کاشمیری نے کہا تھا
‎جن کا دل خوف سے خالی ہے بہ ایں ریش دراز
‎ایسے الزام تراشوں پہ خدا کی پھٹکار!
‎ضرورت ان فیکٹریوں کو بند کرنے کی ہے،جہاں سے سعد الحجری جیسے پرزے اور آلات بن بن کر نکل رہے ہیں اور معاشرے میں پھیل رہے ہیں،یہ فیکٹریاں بند کیجئے،خدا کے لیے یہ فیکٹریاں بند کیجئے!

سیاسی پارٹیوں کے کھرب پتی مالک

$
0
0

‎سیاستدانوں کے دوغلے پن پر غور کیجئے تو گرہ کھل جاتی ہے کہ عام شہری کیو ں کہتا ہے کہ "اس سے تو مارشل لاء ہی بہتر ہے"،دوغلا پن!منافقت!اس قدر واضح اور برہنہ کہ ہنسی آتی ہے، اور رونا بھی، کیا اخلاقی پستی کا اس سے بدتر مظاہرہ ممکن ہے؟۔۔۔
‎ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پارٹی گائیڈ لائن نہیں ملی، دوسری طرف کہتے ہی کہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ کی کمانڈ سے بات ہوگئی ہے، ووٹ ہمیں دینا ہے، گویا آپ بچے ہیں کہ فوراً بات مان لی، پارٹی نے گائیڈ لائن نہیں دی تو فاروق ستار،میاں عتیق کیخلاف ایکشن کیسے لے سکتے ہیں؟۔۔میاں عتیق یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے میں مرحوم کے ان پر احسانات تھے، ساتھ ہی وہ عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور دلیل وہی ہے،جو مسلم لیگ نون کی ہے،ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ ووٹ ذاتی حیثیت میں دیا،پارٹی کیساتھ مخلص ہوں، پنجابی میں کہتے ہیں کہ صدقے جاواں تے کم نہ آواں، یعنی زبانی طور پرقربان ہو سکتا ہوں لیکن یہ توقع مت کیجئے گا کہ کام بھی آؤں گا۔
‎اب حضرتِ واعظ کی طرف آئیے، مولانا سراج الحق اپنی پارٹی کی مرکزی مجلس ِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں، آئینی شق باسٹھ،تریسٹھ پر پورا نہ اترنے والے کو سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بنایا جاسکتا، فرمایا یہ بل نہ صرف قانون سے متصادم ہے بلکہ انتخابی قوانین کی بھی نفی کرتا ہے،حکومت فوری طور پر ا آئینی ترمیم کو واپس لے۔ مجلس عاملہ میں سامنے بیٹھے ہوئے گھگھو گھوڑوں میں سے کوئی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ حضور!پارٹی نے آپ کو سینٹ میں بھیجا تھا جہاں سے آپ مراعات لے رہے ہیں، بطور سینیٹر یہ آپ کا اخلاقی،قانونی اور شرعی فریضہ تھا کہ آپ ووٹنگ کے موقع پر وہاں حاضر رہتے، اور ترمیم کیخلاف ووٹ دیتے۔اپنا رول تو آپ نے ادا کیا نہیں، یہاں آپ ترمیم کیخلا ف تقریر کر رہے ہیں،کیوں؟۔۔۔جہاں مولانا عبدالغفور حیدری،صلاح الدین ترمذی، عطا الرحمٰن،الیاس بلور، جان کینتھ ولیم،فروغ نسیم،اور فاٹا کے طالع آزما غائب ہوئے، وہاں حضرت سراج الحق بھی غائب ہو گئے۔ یعنی وقت آنے پر صالحین اور غیر صالحین میں کوئی فرق نہیں رہتا۔غالب نے کہا تھا کہ۔۔۔
‎ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ
‎دیتے ہیں دھوکہ،یہ بازی گر کُھلا! 
‎ناصر کاظمی نے کہا تھا۔۔۔
‎ سادگی سے تم نہ سمجھے،ترکِ دنیا کا سبب
‎ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!
‎ہمارے دوست جناب امجد شعیب نے کہا خوب کہا ہے کہ یہ ملک چلانے کے لیے لندن میں صرف ایک نجی دفتر کی ضرورت ہے۔اس سے پہلے سندھ کا صوبائی دارالحکومت کراچی سے دبئی منتقل کرنے کا اور وہاں سے صوبے کا نظم و نسق چلانے کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے، سندھ اسمبلی میں جان ہوتی تو پوچھتی کہ آنے جانے اور وہاں رہنے پر حکومتی کارندوں کا اور پارٹی کے "وفاداروں "کا صوبائی خزانے سے کتنا خرچہ ہوا ہے۔؟مگر ہماری پارلیمانی سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے،جوڑ توڑ،لیڈر پرستی، سیاسی کاروبار بھی، نہیں ہوتا تو احتساب نہیں ہوتا بس!کوئی رکن بھی ایسا سوال نہیں پوچھتا جس سے کسی دوسرے رکن یا کسی حکومتی منصب دار کو مالی "گزند"پہنچے۔
‎یہاں پارٹی پالیٹکس کا مرکزی نکتہ قوم یا ملک کی فلاح و بہبود نہیں،مرکزی نکتہ جس کے گرد پارٹی گھومتی ہے اور جس کے گرد پارٹی کے ارکان گھومتے ہیں،پارٹی کے مالک کے ساتھ وفاداری ہے۔  
‎عدالت نے اسے سنائی ہے توعدا لت غلط ہوسکتی ہے۔ "مالک "غلط نہیں ہوسکتا۔قانون توڑا ہے تو قانون بدل دیجئے اور ،یہ ہوا۔
‎عدالت نے "مالک "کو نااہل قرار دیا تو قانون میں ترمیم ہو گئی۔مگر نااہلی کی بنا پر پارٹی قیادت کسی اور کو نہیں سونپی جاسکتی، شاہ ایران کی ذرا سی غلطی کو ناجائز ٹھہرانے کے لیے پورے ملک میں وقت بدل دیا گیا تھا۔ یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ارکان دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا یہ جمہوریت ہے یا خاندانی بادشاہت؟رضا ربانی،کائرہ صاحب،شہلہ رضا،خواجہ آصف،اعتزازاحسن،احسن اقبال،مشاہد اللہ خان،پرویز رشید،ان سب سیاستدانوں کے بال سفید ہوگئے،بھنویں برف کی بن گئیں،عمریں ڈھل گئیں،جیلوں میں گئے،ماریں کھائیں مگر حالت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی کی صدارت کے لائق نہیں۔ پارٹی کے مالک کی بیٹی یا بیٹا اجلاس میں پہنچے تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں،کیا یہ جمہوریت ہے؟۔۔
‎ برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اس عرصہ میں 1990سے لے کر اب تک نو سربراہ دیکھے۔ کنزرویٹو پارٹی کو اس عرصہ میں سات سربراہون نے چلایا،امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے 1990سے اب تک تیرہ چیئرمین گزرے۔ سنگا پور میں ایک چوکیدار کی بیٹی ملک کی صدر بن چکی ہے۔حلیمہ یعقوب آٹھ سال کی تھی جب اس کا ہندوستانی نژاد باپ اس دنیا سے رخصت ہوا۔بھارت میں چائے بیچنے والا وزیر اعظم بن گیا،اس کے کارخانے ہیں نہ بیرون ملک جائیدادیں،نہ آگے پیچھے بی ایم ڈبلیو۔انجم رومانی نے کہاتھا۔۔
‎انجم غریبِ شہر تھے،اب تک اسیر ہیں 
‎سارے ضمانتوں پر رہا کردیے گئے!
‎ صرف ہم ہیں جو پانچ سو سال پہلے کے دورِ اقتدار میں سانس لے رہے ہیں۔ تغلق خاندان،خلجی خاندان،لودھی خاندان،مغل خاندان،بھٹو خاندان،زرداری خاندان،شریف خاندان،بڑے بڑے دانشور کمال سنجیدگی اور مہارت سے جب ثابت کرتے ہیں کہ مریم صفدر کو ہی جانشیں ہونا چاہیے تو اس ملک کی قسمت پر رونا آتا ہے۔ زرداری صاحب کئی بار اپنی صاحبزادی اور صاحبزادے کا ذکر پارٹی قیادت کے حوالے سے یوں کرچکے ہیں پارٹی میں باقی سب اس خاندان کے زر خرید غلام ہیں۔
‎عمران خان نے جو دیا جلایا تھا اس میں سے خود ہی تیل نکال رہا ہے، دیا بھڑکتا ہے،لو کبھی تیز ہوتی ہے کبھی مدھم۔۔ پارلیمانی سیاست میں موصوف کی سنجیدگی اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سینٹ میں ترمیم پیش ہوئی تو تحریک انصاف کے ارکان غائب تھے،سب ہوتے تو ایک ووٹ سے مقتدر پارٹی کبھی نہ جیت پاتی۔ 
‎اب خلقِ خدا جو الزام لگا رہی ہے، اور جن وجوہ کے اندازے لگا رہی ہے، وہ اتنے غلط بھی نہیں، پیپلز پارٹی نے اپنے سینئر رکن اعتزاز احن کی پیش کردہ ترمیم اپنے ہاتھو ں سے قتل کی صرف اس لیے کہ پارٹی پر کسی وقت زرداری صاحب کی"ملکیت"متاثر ہی نہ ہو جائے۔یہ عجیب جمہوریت ہے جس کی بنیاد پارٹی پر مستقل قبضہ ہے، بہت سے دوست دلیل دیتے ہیں کہ فلاں ووٹ لے کر آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی پر کب سے قابض ہے۔ پارٹی کی صدارت کسی اور کو کیوں نہیں سونپی جاسکتی، سنگا پور کالی کوآن اور جنوبی افریقہ کا منڈیلا ناگزیر نہ ہوئے، جیتے جی پارتی دوسروں کو سونپ دی۔ اس کالم نگار کو یقین ہے کہ قائداعظم کو خدائے بزرگ و برتر لمبی زندگی دیتا تو ایک مرحلے پر آکر پارٹی اور اقتدار دونوں سے الگ ہوجاتے، ان کی قانون پسندی سے اور قوائد و ضوابط پر سختی سے کاربند رہنے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ 
‎اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوئے، رپورٹ ہے کہ گم صم رہے، مقدمہ کی کارروائی اختتام کو پہنچی تو وہیں بیٹھے رہے، جج صاحب کو کہنا پڑا کہ جائیے،یہاں اور مقدمے بھی سنے جانے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ان کی ویڈیو چلی تو گھبرائے ہوئے،نظر آئے۔ سائیکل کی دکان سے دبئی کے ٹاور تک پہنچے،کیا فائدہ ہوا؟۔۔۔ دولت ہے یا مرض؟۔۔جو مسلسل دباؤ،اضطراب اور پریشانی میں رکھ رہا ہے۔ کیایہ عقل مندی ہے؟۔۔اگر آپ نے ہزار برس جینا ہے تو ہزار برس کا انتظام کرنا عقلمندی ہے مگر وارثوں کے لیے اس قدر ذلت،بے حرمتی،اتنی بدنامی؟۔۔۔
‎ایک صاحب علی رضا دس سال تک نیشنل بینک کے مالک و مختار رہے، اٹھارہ ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔انکے وکیل کی دلیل میرا موکل دس سال نیشنل بینک کا صدر رہا۔ بینک کے آڈیٹر نے کبھی صدر کو بتایا ہی نہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے۔ "تو آڈیٹر نے ہی بتانا تھا تو پھر صدر بھی وہی بن جاتا "۔۔۔ وکیل کی دلیل سن کر جج نے کہا،یہ ہے نیشنل بینک کا ایوارڈ یافتہ صدر؟ ادارے میں کرپشن ہو رہی تھی اور صدر کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ان صاحب کی ضمانت منسوخ ہوئی تو پانچ گھنٹے تک عدالت ہی میں چھپے رہے۔ نیب کے حکام باہر کڑکی لگا کر بیٹھے رہے، باہر نکلے تو دبوچ لیے گئے۔
‎ہماری آنکھوں کے سامنے مال و دولت پلازے، فیکٹریاں،جائیدادیں،ڈالروں کے انبار چھوڑ کر، آئے دن لوگ خالی ہاتھ رخصت ہو رہے ہیں، مگر سمیٹنے والے اور جمع کرنے والے اور مزید سمیٹنے والے اور مزید جمع کرنے والے، سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔ انکی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب یہ فیصلہ کریں کہ بس!اتنی دولت بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
‎ عبرت کا مقام ہے کہ اتنی دولت کے باوجود نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا قوم کے لیے کچھ کرنے کا ریکارڈصفر ہے، ان حضرات نے کتنی یونیورسٹیاں بنائیں؟کتنے مستحق طلبہ کو خرچ دے کر باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا؟کتنے خیراتی ہسپتا ل بنائے؟ یہ تو اپنے بچوں کی شادیوں پر ایک جہاز تک چارٹر نہیں کراسکتے اس کے لیے بھی قومی ائیر لائن استعمال ہوتی ہے۔ کیا کریں گے دولت کا پہاڑ؟کس لیے پوری دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں؟۔۔۔۔جتنے پاپڑ اس دولت کو اپنے پاس رکھنے کے لیے بیل رہے ہیں،اس سے آدھے بھی ملک کے لیے بیلے ہوتے تو یہ ملک سنگا پور بن چکا ہوتا۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا۔۔
‎جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تیری رہ جاوے گی،
‎اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی،
‎یہ کھیپ جوتو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی،
‎دھی،پوت،جنوائی،بیٹا کیا،بنجارن پاس نہ آوے گی،
‎سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ!

عرب کے صحرا سے تھر کے صحرا تک۔

$
0
0

تھر کا صحرا ریت کے مہیب ٹیلوں سے اٹا پڑا ہے،ان دم بدم جگہ بدلتے ٹیلوں کے نیچے پونے دو ارب ٹن کوئلہ پڑاہے۔ ٹرک ہر طرف چل رہے ہیں،انہی میں سے ایک ساٹھ ٹن وزنی ٹرک کو پچیس سالہ گلابن چلا رہی ہے، بھلا ہو اس کمپنی (سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی)کا جس نے تیس عورتوں کو ٹرک ڈرائیور بننے کے لیے چنا، اور اب انہیں ٹریننگ دے رہی ہے۔ گلابن ان میں سے پہلی عورت ہے جس نے  ٹرک ڈٖرائیوری جلد اس لیے سیکھ لی کہ کار چلانا جانتی تھی۔ 12ستمبر کو سندھ کے  وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ خود بنفس نفیس  تھوڑی دیر کے لیے اس ٹرک پر بیٹھے جسے خاتون ڈرائیور چلا رہی تھی۔یقیناً وزیر اعلیٰ کی طرف سے یہ ایک حوصلہ افزا قدم تھا۔ 

  اب دوسری انتہا دیکھیے، یہ 2017ہے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جدید کار سب سے پہلے ایک جرمن، کارل  بینز نے بنائی تھی، بہر طور بڑی تعداد میں کاریں 1901کے بعد ہی بننا شروع ہوئیں، 1901 سے لے کر اب تک ایک سو سولہ سال ہوچکے ہیں، سعودیہ میں عورتوں کو اب یعنی کہ ایک سو سولہ سال بعد کار چلانے کی اجازت دی گئی ہے،وہ بھی اگلے سال یعنی 2018سے!

  اس کی سب سے بڑی وجہ علماء دین کی مخالفت تھی، سعودی علما  نے طرح طرح کے نقصانات گنوائے جو ڈرائیونگ سے خواتین کو لاحق  ہوسکتے تھے۔ یا بچے بیمار پیدا ہوں گے۔2005 میں سو سے زیادہ سعودی علما اور اماموں نے  وارننگ دی کہ عورتوں کو ڈرائیونگ  کی اجازت  دینے سے خطرات لاحق ہوں گے۔نہیں معلوم کہ اب علما کو ردِ عمل کیا ہوگا۔ ایک خبر آئی ہے کہ انہوں نے نئی پالیسی پر رضا مندی  کاا ظہار کیا ہے۔

سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عمل 2017 سے پہلے حرام تھا اب حلال کیسے ہوگیا؟کیا ایک عالمِ دین کسی کام کی حرمت یا حلت کا اختیار رکھتا ہے؟۔۔۔ درجنوں دوسرے مسلمان ملکوں میں عورتیں گاڑی چلا رہی تھیں،کیا وہاں کے علما اپنی آنکھوں کے سامنے حرام کام ہوتا دیکھ کر خاموش تھے۔

اس سوال کا جواب  یہ ہے کہ جو حضرات  مذہب کے اجارہ دار  بنے ہوئے ہیں ،وہ اپنے وژن کی کمی  اور ناقص علم کی وجہ سے عام مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، اور مسلسل کررہے ہیں۔ پریس آیا تو قسطنطنیہ  کے شیخ الاسلام نے مخالفت کی۔ لاؤڈ سپیکر آیا تو وہ ہاہا کار مچی کہ الحفیظ الامان۔ مگر صورتحال اب بھی مضحکہ خیز  ہے،ایک دینی گروہ کے ہاں بڑے سے بڑے اجتماع میں نماز با جماعت کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے لی اجازت نہیں۔ہاں نماز باجماعت کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتا ہے۔ایک شئے اذان کے جائز ہے،نماز کے لیے،لاکھوں کے اجتماع میں،ناجائز ہے، وہی شئے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں جائزہے،پاکستان۔بنگلہ دیش،اور بھارت میں ناجائز ہے۔ اس پر کوئی مکالمہ نہیں ہوسکتا۔کوئی سوال جواب  ممکن نہیں۔

یہی حال ٹیلی ویژن کاہے،لوگوں نے علما کے حکم پر گھروں سے ٹی وی ہٹا دیے، توڑ دیے،جلا دیے،طلاقیں ہوئیں،کنبے اجڑ گئے، بچے رُل گئے، اب جس چینل کو کھولیں،ماشااللہ وہی مفتیان ِ کرام جلوہ افروز ہوں گے۔ روایت ہے کہ ٹیلی فون کا آغاز ہوا تو نجد اور حجاز کے مفتیانِ کرام کا فرمان تھا کہ  یہ تو شیطان کی آواز ہے۔سعودی بادشاہ شاہ عبدالعزیز  نے دوسری طرف سے کسی کو تلاوت کرنے کو کہا،یہ آواز فون پر مولانا صاحب کو سنائی گئی، تو معاملہ جائز ہوگیا۔یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ وہ جو فرمایا گیا تھاکہ  مومن اپنے عصر کے تقاضوں  اور احوال سے آشنا ہوتا ہے، تو،ما شا اللہ اس کااطلاق ان حضرات پر نہیں ہوتا،(نہ ہوسکتا ہے)۔جو ہماری زندگیوں کو ناجائزکی سرخ اور جائزکی سبز بتی دکھانے پر مامورہیں۔

معروف مذہبی سکالر  اور دانشور جناب محمود احمد غازی مرحوم ایک عالم دین کا واقعہ سنایا کرتے تھے،کہ ان کا صاحبزادہ ان سے سائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے لیتا رہا،وہ دیتے رہے، ایک دن کسی کی موجودگی میں مانگے تو ان صاحب نے حضرات کو اطلاع دی کہ یا شیخ! سائیکل پٹرول کے بغیر چلتی ہے۔

ہمارے روزناموں میں جمعہ ایڈیشن میں مذہبی سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں، ان گنہگار آنکھوں نے سوال پڑھا کہ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانا جائز ہے؟َ۔۔۔جواب تھا کہ بدعت ہے، رسالت مآب ْﷺ کے عہد میں جزیرہ عرب میں کھانے کی میز کا رواج نہ تھا۔ اسے بدعت قرار دینے والے حضرت کو کوئی بتائے کہ یا شیخ!یہ گرگابی جو آپ نے پائے مبارک پر پہنی ہوئی ہے اس کا بھی رواج نہ تھا۔ اس واسکٹ اور شلوار قمیض کا بھی رواج نہ تھا، کیا یہ سب بدعات ہیں؟۔۔صوفہ نہ تھا،مولٹی فوم نہ تھا،پینا ڈول کی گولی نہ  تھی،جھوٹ سے،غیبت سے،وعدہ خلافی سے منع کرنے کے بجائے کھانے کی میز سے منع کیا جا رہا ہے۔ ایک اجتماع میں دیکھا کہ آئسکریم بیچنے والوں کو نکل جانے کا حکم دیا جا رہا تھا۔

کار ٖڈرائیونگ سے خواتین کے اندر واقع ہونے والی تبدیلیوں سے وہ لوگ ڈراتے ہیں جنہیں میڈیکل سائنس کی الف ب کا علم نہیں  گھوڑ سواری میں کئی خطرات ہیں،درست نہ بیٹھا جائے تو ریڑھ کی ہڈی کو دائمی نقصان پہنچ سکتاہے۔مگر عہدِ رسالت مآبﷺ سے لے کر  بعد کے زمانوں تک کسی نے خواتین کو گھوڑ سواری سے منع نہیں کیا، نہ ہی اونٹ سواری سے،مسلمان خواتین شہسواری کے لیے معروف  تھیں،موئی بدبخت چڑیل کار کا واحد قصور یہ ہے کہ اس وقت اس کا وجود نہ تھا۔ 

2015میں اشرف غنی نے افغانستان کے صوبے دائکنیڈی میں ایک تعلیم یافتہ خاتون معصومہ مرادی کو گورنر لگایا۔مذہبی طبقات نے اسقدر احتجاج کیا کہ مجبوراً اسے ہٹانا پڑا،غور کے صوبے میں ایک خاتون سیما جوئندہ کو گورنر لگایا گیا، اس پر بھی احتجاج ہوا،اسے ہٹا کر کانل کا ڈپٹی گورنر تعینات کیا گیا،مگر سیما نے احتجاجاً نئی تعیناتی قبول کرنے سے انکار کردیا۔اسلام کے "گڑھ"افغانستان میں خواتین چار دیواری  سے باہر کی عملی  زندگی میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔

پاکستان کی صورتحال افغانستان سے بہتر ہے مگر نجی عدالتوں "پنچائتوں،جرگوں  "کی روایت عورت ذات پر مسلمل ظلم ڈھا رہی ہے، عورت کو مالِ تجارت کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، قصور مرد کا ہوتا ہے،مگر اس کی بہن کی آبرو ریزی  پنچائیت کے حکم سے کی جاتی ہے، دس سالہ بچی ساٹھ سالہ بڈھے کے ساتھ باندھ جاتی ہے۔ ونی،اسوارہ اور کاروکاری کی لعنت عام ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جس مذہب نے عورت کو سب سے زیادہ حقوق دیے اس کے علم  بردار ان پنچایتوں اور جرگوں کے غیر اسلامی ظالمانہ فیصلوں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے،پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے تحفظ کابل پیش کیا گیا تو مذہبی طبقوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ایک مصیبت یہ آن پڑی کہ ان معاشروں میں مقامی ثقافت کو مذہب کا حصہ بنا دیا گیا۔سندھ،بلوچستان،اور جنوبی پنجاب میں خواتین کے ساتھ جو بدسلوکی ہو رہی ہے  وہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ اور مقامی ثقافت کا تال میل ہے، مگر اس کے دفاع میں مذہبی طبقات سر گرم ہیں گویا یہ مائنڈ سیٹ اور ثقافت اسلام کا حصہ ہے۔

حالانکہ ایسا ہر گز نہیں!عورت جائیداد میں سے اپنا شرعی اور قانونی حصہ اگر بھائی کو نہ دے تو اسے  ڈائن کہا جاتا ہے، بڑے بڑے عماموں اور عباؤں والے شیوخ اور ہیٹ کوٹ  والے  لبرل،بیٹیوں کو جائیداد میں سے  حصہ دیتے وقت یوں بے حال ہوجاتے ہیں جیسے نزع کا عالم ہو۔ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ یہ کام نہ ہو۔بھاری اکثریت عورتوں کی آج بھی وراثت سے محروم ہے۔

بیٹی پیدا ہو تونرس اطلاع دیتے وقت ماتمی انداز اختیار کرتی ہے، اور تھپڑ کھانے کے لیے تیار ہوتی ہے، کم ہی لوگ ہیں جو ایسی خبر کا خوشی سے استقبال کریں، پنجاب کو زیادہ ماڈرن اور تعلیم یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے مگر آئے دن خبر ملتی ہے کہ بیٹی کو جنم دینے والی عورت کو ہسپتال میں ہی طلاق دے دی گئی۔ بیٹا نہ پیدا ہوا تو ماں نے بیٹے کی دوسری شادی کرا دی۔ حکومت کو فکر ہے نہ اہلِ مذہب کو،کہ اس مائنڈ سیٹ کو کیسے تبدیل کیا جائے،کوئی فلاحی ادارہ اس طرف توجہ دے تو  اسے این جی اور کہہ کر مشکوک قرار دیدیا جاتا ہے۔

بس یہ دعا کیجئے کہ  جو غریب عورتیں تھر میں ٹرک ڈرائیور ی شروع کررہی ہیں وہ اس قسم کے کسی فتوے کا شکار نہ ہو جائیں  کہ ٹرک چلانے سے عورت کی "ساخت"خراب ہوجائیگی!


تکبر کا انجام عبرت ناک ہے

$
0
0

پُتلی بنانے اور نچانے کا فن قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے، پانچویں قبل مسیح میں بھی پُتلیاں موجود تھیں۔ پُتلی کو پپٹ بھی کہتے ہیں،اس لفظ کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو کہیں گے"ڈوری سے نچایا جانا"۔

عام طور پر پُتلی نچانے والا نظر نہیں آتا،ڈوری بھی مہین اور باریک ہوتی ہے۔ صرف غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ چھت سے ڈوریاں آرہی ہیں۔ڈوریاں ہلتی ہیں تو پتلیاں حرکت کرتی ہیں، ڈوری ہلانے والا چھپا ہوا ہوتا ہے،پتلی بذاتِ خود بے جان ہوتی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن پر فاروق قیصر نے پتلی تماشا شروع کیا۔ان کے دو کردار جو بہت مشہور ہوئے انکل سرگم اور ماسی مصیبتے، مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں کردار گھروں کا حصہ بن گئے۔لیکن سیاسی پتلیوں نے فاروق قیصر کو بھی لاجواب کردیا،صدر ایوب خان نے کونسل مسلم لیگ بنائی،بنا کر ڈوریاں ہلائیں تو سیاستدان دوڑے دوڑے آئے،صدر ضیاالحق نے پتلیوں کو بٹھایا اور مجلس شوریٰ کا نام دیا۔صدر ڈوریاں ہلاتا تھا،پتلیاں مجلس شوریٰ میں ناچتی گاتی اور بولتی تھیں۔جنرل مشرف بھی بہت بڑا پتلی باز تھا،اس نے ق لیگ بنائی،ڈوریاں ہلاتا رہا،پتلیاں  نچاتا رہا۔

یہ ساری پتلیاں آج برسرِ اقتدار پارٹی کے ساتھ کھڑ ی ہیں۔نام لینے کی بھی ضروت نہیں،یہ سب جانتے ہیں کہ کینیڈا میں تعینات پاکستانی سفیر  سے لے کر وزیر قانون تک،سب لوگ دفاع کرنے والے آمریت  کو برا کہنے والے وہی ہیں جو جنرل مشرف کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے تھے۔

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کے رات

سحر  سے  پہلے  پہلے  سب  تماشا  ختم  ہوگا!

غور کیجئے کہ عمران خان الیکشن کے لیے باہر نکلا تو آخر کیا وجہ تھی کہ مڈل کلاس کے جو عوام  دہائیوں تک ووٹ دینے کبھی نکلے تھے،پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بیرون ملک سے ڈگری لیے ہوئے،بیوروکریٹ،ریٹائرڈ،سرکاری ملازم،ڈاکٹر،وکیل سب ووٹ دینے قطار وں میں کھڑے ہوگئے۔

یہ لوگ پہلے تیس سال ہر الیکشن کے وقت گھروں میں کیوں سوئے رہے؟

اس لیے کہ جس قماش،جس ذہنیت،جس ڈیل ڈول،جس ثقافت،اور جس مائنڈ سیٹ کے چوہدری ،وڈیرے اور اب صنعت کار  منتخب اداروں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور چن لیے جاتے ہیں۔ان سے تعلیم یافتہ مڈل کلاس نفرت کرتی ہے۔ شدید نفرت،! منتخب نمائندوں کی اکثریت ڈیروں پر جرائم پیشہ مفروروں کی پرورش کرتی ہے۔قانون توڑتی ہے۔تھانوں پر حملہ کرکے ملزم چھڑاتی ہے۔  ان نمائندوں کی اکثریت اس حقیقت سے بے نیاز ہے کہ اس کاکام قانون سازی ہے، سفارشی کلچر پروموٹ کرنا نہیں۔

اہل سیاست کی جو قبیل آج ن لیگ میں جمع ہے اور جس کی  ڈوریاں  نوازشریف خاندان  کا جوڑ توڑ ہلا رہا ہے،اس کا مائنڈ سیٹ دیکھیے کہ کسی ایک شخص میں بھی اس کا احساس ہے نہ ادراک ،نہ جرات کہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں یا قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوجائے اور کہے کہ حضور!یہ وہی عدالت ہے جس نے آپ کو معزولی کے بعد بحال کیا تھا۔یہی وہ عدالت ہے جس نے یوسف رضا گیلانی کو نکالا تھا، تو آپ نے خیر مقدم کیا تھا،اور اسی عدالت نے جب بھٹو کو پھانسی دی تو آپ کے مربی اور  دریافت کنندہ ضیا الحق نے اسے قانونی عمل قرا ر دیا تھا۔

یہ سب پتلیاں  ہیں۔کٹھ پتلیاں!شریف خاندان  ان کو ڈور سے نچا رہا ہے، یہ وہ "آزاد "مخلوق ہے جو حمزہ شہباز اور مریم صفدر کے حضور بھی دست بستہ کھڑی رہتی ہے،

وزیر داخلہ برہم ہوئے اور یہ اعلان کیا کہ ایک قانون چلے گا اور ایک ریاست کے اندر دوسری ریاست نہیں ہوگی۔ بجا ارشاد فرمایا۔ مہینوں وزیر اعظم علاج کے سلسلے میں لندن مقیم رہے،ان کی عدم موجودگی میں کاروبارِ سلطنت ان کی بیٹی چلا رہی تھی، یہاں تک کہ غیر ملکی سفیر اسی کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے،یہ کون سا قانون تھا؟۔۔کیا یہ ریاست کے اندر شہزادی کی ریاست نہ تھی؟

وزیر اعظم مری کے اندر بھارتی تاجر سے ملے،وزارتِ خارجہ کو علم ہی نہ ہوا،کیا یہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست نہ تھی؟آخر وہ کیا گفتگو تھی،جو ایک وزیر اعظم دشمن ملک کے بااثر تاجر سے تنہائی میں کررہا تھا؟پھر جب صرف ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ آپ کے ہمراہ  بیرونی دوروں پر جاتا رہا،یہ کون سا قانون تھا؟ کس قانون کے تحت  صوبائی وزیر اعلیٰ فیڈریشن کی طرف سے قطر جاکر گیس کے معاملات  طے کرتا رہا؟کیا یہ ریاست کے اندر ریاست نہ تھی؟بھتیجا ایم این اے ہو کر پنجاب پر حکومت کرے۔داماد کروڑوں اربوں کی رقوم  پر اختیار حاصل کرے،بیٹی  وزیر اعظم ہاؤس میں سرکاری وسائل سے متوازی وزارت اطلاعات قائم کرلے تو یہ سب قانون کے مطابق!سب جمہوریت سے ہم آہنگ،واہ کیا منطق اور کیا انصاف ہے۔اور موازنہ مولوی تمیز الدین کے ساتھ!حیرت ہے،زمین سے پتھر کیوں نہیں گرتے اور زمین دھنس کیوں نہیں جاتی،

مولوی تمیز الدین عدالت رکشے میں بیٹھ کر گئے تھے،چالیس گاڑیوں کے جلو میں نہیں،اکثریت جنکی بی ایم ڈبلیو ہے،مولوی تمیز الدین ہر عید پر لندن نہیں جاتے،تھے انہوں نے اربوں روپے  بیرون ملک جمع کرکے اس پر سانپ نہیں بٹھا دیے تھے!انسان کو بات کرتے وقت خلقِ خدا کا نہیں تو خدا کا ہی خوف کرلینا چاہیے، ایکطرف مولوی تمیز الدین سپیکر،دوسری طرف ایاز صادق سپیکر،ایک طرف قائداعظم اور ان کی مسلم لیگ،اوردوسری طرف نواز شریف اور ان کی ن لیگ!

بسی   دیدنی  ر ا  دیدہ   ام

مرا  ای  کاشکی مادر نہ  زادی!

کیا کچھ دیکھنا پڑ گیا،اس سے تو بہتر تھا کہ دنیا میں ہی نہ وارد ہوتے،

عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کی تضحیک کرکے جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے،اس کی لپیٹ میں کھیل کھیلنے والے بھی ایک دن آئیں گے،اور ضرور آئیں گے۔فرد واحد کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے قانون میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ہر ضابطے کو توڑا جارہا ہے۔عدلیہ کو منہ چڑایا جارہا ہے،اداروں کو نشانہ بنا کر مسلسل تیر اندازی  ہو رہی ہے،محض ایک شخص کے لیے،صرف ایک خاندان کی خاطر!

جس جمہوریت کا جھنڈا بلند کرکے رقص کیا جارہا  کیا یہ وہی درخت نہیں جسے جرنیل پانی دیتے رہے؟ابھی تو اصغر خان فیصلے کی روشنائی بھی ختم نہیں ہوئی،کیا میاں صاحب کو کامیاب کرنے کے لیے صدارتی محل میں جنگی محاذ نہیں کھولا گیا تھا؟

میاں نواز شریف عدالت کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں وہ تکبر پر دلالت کرتا ہے۔وہ اپنے آپ کو اتنا بلند سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خیال میں عدالت،نیب،قانون،آئین سب ہیچ ہیں۔عدلیہ نطامِ حکومت اور نظامِ معاشرت کی بھی بنیاد ہوتی ہے۔اور میاں صاحب اس بنیاد کو ہٹا کر ساری عمارت کو گرانے  کے درپے ہیں۔یہ راستہ انارکی کی طرف جاتا ہے۔کل کو کوئی بھی اپنے حمایتیوں کو جمع کرکے کہہ سکتاہے کہ عدالت مجھے نکال دیتی لیکن میرے ساتھی مجھے داخل کردیتے ہیں۔کل کو کوئی فیصلہ شریف خاندان کے حق میں آگیا تو مخالف اس فیصلے کو کیسے قبول کریں گے؟

 ہماری تاریخ اس ضمن میں کیا مثالیں پیش کرتی ہے؟

حضرت عمر امیر المومنین ہیں،ایک شخص سے گھوڑے کا سودا کررہے ہیں،گھوڑے کی اہلیت دیکھنے کے لیے سواری کرتے ہیں،گھوڑے کو چوٹ لگتی ہے اور وہ لنگڑا ہوجاتا ہے،گھوڑے کا مالک اسے واپس لینے سے انکار کردیتا ہے، دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرتے ہیں،شریخ حضرت عمر ؓ کو کہتے ہیں،امیر المومنین،گھوڑا اسی حالت میں واپس کیجئے،ورنہ خریدنا پڑے گا،امیر المومنین اپنے حامیوں کو اکٹھا کرکے  سرکاری وسائل استعمال کرکے ثالث کیخلاف اعلان ِ جنگ نہیں کرتے،ثالث کو آفرین کہتے ہیں اور کوفہ کا قاضی مقرر کردیتے ہیں۔

اسی قاضی کی عدالت میں امیر المومنین علی المرتضیٰ بطور مدعی پیش ہوتے ہیں،ان کی زرہ ایک یہودی کے قبضے میں ہے،امیر المومنین واپس لینا چاہتے ہیں،قاضی گواہ طلب کرتا ہے،آپ دو گواہ پیش کرتے ہیں،جن میں سے ایک ان کے صاحبزادے حسنؓ ہیں،قاضی صاحب بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں کرتے،اور فیصلہ یہودی کے حق میں دیتے ہیں۔

حضرت علی ؓ کا کیا ردِعمل تھا؟

انہوں نے  عدالت کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔یہ الگ بات کہ  یہودی نے کہا کہ جس دین میں قاضی خلیفہ وقت کیخلاف فیصلہ سناتا ہے اور خلیفہ وقت بے چون و چرا اسے قبول کرتا ہے میں اسی دین میں داخل ہوتا ہوں۔



آج معزول وزیر اعظم عدلیہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں،کسی قانون کسی ضابطے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں،یہ تکبر ہے،تکبر!اور تکبر کا انجام عبرتناک ہے!






سُوت سے بُنے ہوئے رنگین پایوں کے پلنگ

$
0
0

‎یہ حادثہ کب برپا ہوا اور کیسے؟پوچھتا پھر رہا ہوں کوئی بتاتا نہیں۔۔۔نہ کسی کو معلوم ہے۔
‎ہماری عمر کے لوگوں کو بلکہ کم عمروں کو بھی یا د ہوگا کہ اب جس کمرے کو بیڈ روم کہتے ہیں،وہ پہلے 
18*16 
‎کا ہوتا تھا
‎(بعد میں 18*12بھی ہونے لگا)
‎۔اس میں کم از کم نو چارپائیاں ہوتی تھیں
‎۔
‎کمرے میں داخل ہوں تو سامنے،دیوار کے ساتھ تین چار چارپائیاں بچھائی جاتی تھیں،دائیں طرف والی دیوار کے ساتھ دو اور بائیں بھی دو ہوتیں تھیں۔دروازہ درمیان میں تھا ایک چارپائی دروازے کے دائیں طرف اور دوسری بائیں طرف،بعد میں یہ رواج پڑ گیا کہ دروازہ بائیں کونے کی طرف سرک گیا،دونوں چارپائیاں دائیں جانب بچھائی جانے لگیں،کمرے کے سامنے صحن ہوتا تھا،جس کا مطلب تھا دھوپ براہ راست کمروں پر حملہ نہیں کرسکتی تھی ۔
‎ان آٹھ نو چارپائیوں پر پھولوں بھری چھیبی ہوئی چادریں بچھی ہوتی تھیں،کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے دھرے ہوتے تھے۔ خاندان بھر کے افراد یہاں بیٹھتے تھے،جاڑا ہوتا تو دروازہ دن کو بھی بند رکھا جاتا، گرمیوں میں دروازہ اور کھڑکیاں کھول دی جاتیں۔کھڑکیاں اس حساب سے بنی ہوتی تھیں کہ ہوا چلتی تو جھونکے کمرے کے اندر بھی آتے،سردیوں میں سب بیٹھ کر مونگ پھلی،گُڑ،ریوڑیاں اور اخروٹ کھاتے۔
‎غور کیجئے،ایک ہی کمرے میں ان چارپائیوں کا خوبصورت پہلو یہ تھا کہ خاندان کے افراد میں قربت تھی۔باہم مل بیٹھنے کے مواقع زیادہ سے زیادہ میسر تھے۔ حقہ نوشی سے لے کر کھانا کھانے تک سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے۔جہاں تک رشتہ داروں کا تعلق تھا،مجلسیں مخلوط تھیں، خواتین بھی یہیں بیٹھتیں۔ان میں حقہ پینے والی خواتین بھی شامل تھیں۔خواتین کا حقہ پینا معمول کا منظر تھا۔،عام بات تھی!اس میں کسی کو بے حیائی نظر آتی نہ مذہب خطرے میں پڑتا ،ہمارے علاقے اٹک میں اسے چلم کہتے ہیں۔ ثقافتی لحاظ سے یہ وہی ہے جو سندھ کے پار کے علاقوں میں پی جاتی ہے، رشتے کی ایک نانی جان باقاعدگی سے چلم پیتیں، یہ کالم نگار کم سن تھا۔ 
‎ایک بار خطرناک شرارت سوجھی،چلم سے پانی نکال کر اس میں مٹی کا تیل بھر دیا۔ نانی نے تمباکو ہتھیلی پر رگڑا،جمایا،دیا سلائی دکھائی تو آگ بھڑک اٹھی،یاد نہیں کیا سزا ملی تھی۔ غالباً زبانی ہی جھڑکا گیا تھا،مار کٹائی کی نوبت آتی تو یاد ہوتا، مار کٹائی والی سزائیں ساری کی ساری تفصیل سے یاد ہیں۔
‎جملہ معترضہ تھا دور نکل گیا۔پلٹتے ہیں۔پھر نجانے کیا ہوگیا،خواب گاہ بیڈ روم کہلانے لگی،رنگین پایوں والی،ریشم نما سوت سے یا نوار سے بنی ہوئی چارپائیوں کو نام نہاد بیڈ روم سے نکال دیا گیا۔کمرے کا سائز تھوڑا سا سکڑ گیا،بیڈ درمیان میں بچھا دیا گیا۔اب پورا کمرہ سمٹ کر صرف دو افراد کے لیے رہ گیا۔ یہ دو افراد عمومی طور پر میاں بیوی ہوتے،،ڈبل بیڈ کی ساخت،پھر اس کا درمیان میں بچھایا جانا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جو خاندان کے سارے یا زیادہ تعداد میں افراد بیٹھتے تھے، باتیں کرتے تھے،یا کھاتے پیتے تھے، وہ سلسلہ ختم ہوگیا۔کمروں کی تعداد زیادہ ہونے لگی،یہ کیا ہے؟یہ ماسٹر بیڈ روم ہے، یعنی بڑا کمرہ، وہ کس کا ہے؟ وہ بڑے لڑکے اور اس کی بیوی کا ہے، فلاں بیڈ روم منجھلے کا ہے۔
‎کیا زمانہ تھا کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے
‎اور اب کوئی کہیں،کوئی کہیں رہتا ہے!
‎نیچے دستر خوان بچھتا تھا تو سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے، تہذیب سکھائی جاتی تھی،کہ پہلے بڑے کھانا ڈالیں گے، اب ہر گھر میں ایک ڈائننگ روم بنا دیا گیا ہے۔ کھانے کی میز بچھی،ساتھ چھ یا ساتھ کرسیاں،عملی طور پر یہ شیش محل غیر آباد رہتا ہے۔ خاندن بھر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت قتل کردی گئی، ماں باپ پہلے اٹھ کر ناشتہ کرلیتے ہیں،جوان بچے بعد میں اٹھتے ہیں، ہر ایک کا منہ،الگ ناشتہ،الگ کچھ ناشتہ ہاتھ میں پکڑے بھاگ رہے ہیں۔کہ کالج سکول دفتر ،کارخانہ جانے میں دیر ہوگئی، چلتے چلتے کھا رہے ہیں۔ ان للہ و انا علیہ راجعون،وقت پر اٹھتے تو آرام سے،تہذیب سے، طریقے سے،بیٹھ کر ناشتہ کرتے،سمجھانے کی کوئی کوشش کرے تو سنی ان سنی کردیں گے۔
‎اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
‎کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ڈبل بیڈ کتنا تکلیف دہ،کتنا ناگوار،کتنا پریشان کن،اور کتنا خلش انگیز ہے۔۔۔سارا دن محنت اور دوڑ دھوپ کرنے کے بعد ایک چارپائی ہی تو اپنی ہوتی تھی۔ جس پر اپنی مرضی سے پہلو بدل سکتے تھے۔اٹھ بیٹھ سکتے تھے،ادھر ادھر گھسٹ سکتے تھے، اب وہ آزادی ڈبل بیڈ کی نذر ہوگئی- ایک پہلو بدلتا ہے تو دوسرے کی نیند میں خلل پڑتا ہے - ،ٹیبل لیمپ جلا کر پڑھیں گے تو روشنی ادھر بھی جائے گی،گویا یہ حماقت کم نہ تھی کہ "ڈبل رضائی اور ڈبل کمبل"بھی ظہور پذیر ہوگئے۔نہلے پر دہلا،ایک رضائی یا کمبل کھینچتا ہے تو دوسرا جاگ اٹھتا ہے،نیند نصف موت ہوتی ہے،خدا کے بندو اس میں بھی دوسرے کو شریک کرلیا۔ کل کو خدانخواستہ"ڈبل قبر "کا فیشن شرو ع ہوگیا تو ستی کی رسم زندہ کرنا پڑے گی۔
‎میں بقائمی ہوش و حواس اس بیہودہ نظام سے بغاوت کررہا ہوں۔اوپر کے لاؤنج سے صوفے ہٹا کر اسے بیٹھک میں تبدیل کررہا ہوں۔چار چار پائیاں،رنگین پائیوں والی،ریشم نما سوت سے بُنی ہوئی،خریدنے کاا رادہ کرلیا ہے۔ریسرچ کی تو معلوم ہواکہ ایسے پلنگ دو جگہوں کے مشہور ہیں ایک پنڈی گھیپ کے قریب ایک بستی جس کا نام اخلاص ہے۔ یہ بندوقوں کے علاوہ فرنیچر کے لیے بھی مشہور ہے،دوسرے چکوال شہر،جہاں سنا ہے پائیدار اور دیدہ زیب چارپائیاں بنتی ہیں،چھوٹی بیٹی نے یہ پروگرام سن کر بھیڑا سا منہ بنایا،کہنے لگی آپ کا کیا خیال ہے،آپ کی نواسی اور پوتے ان پر سوئیں گے؟۔۔۔
‎جواب دیا،ہاں،میں سوؤں گا تو وہ بھی سوئیں گے،اس لیے کہ ان کی دلچسپی مجھ میں ہے،میں فٹ پاتھ پر لیٹ جاؤں تو انہوں نے بھی وہیں لیٹنا ہے،روز کہانی کا تقاضا کرنا ہے۔
‎پلٹنے کا عمل صرف رنگین چارپایوں والی منقش چارپائیوں تک محدود نہیں،ایک زمانے میں کوئٹہ سے بلوچی گدیاں توشک اور ہاتھ سے بنا ہوا برے سائز کا قالین لایا تھا،اب ٹائلوں اور سنگ مرمر کے فرش کا فیشن ہے،قالین اٹھا دیے گئے ہین،بیگم سے کہا ہے کہ اوپر ایک بیڈ روم کو خواب گاہ میں بدلنا ہے،فرش پر قالین بچھائیے اور دیواروں کے ساتھ توشکیں بچھا کر گدیاں رکھیے۔ 
‎کچھ سوچ کر کہنے لگیں،صفائی زیادہ کرانی پڑے گی،میں نے کہا تو کرائیے،ویکیوم کلینر سے ایک دن چھوڑ کر کروا دیجئے،سن کر خاموش ہوگئیں،جان گئیں کہ اس کے لہجے میں آج سارا رنگ پیار محبت والا نہیں،وہ راجپوت ہیں تو میں بھی اعوان ہوں،ایک اکھڑ گنوار شخص اب بھی اندر کہیں موجود ہے،کیا ہوا جو شہر میں رہ رہ کر بزدل ہوگیا ہوں۔اب بھی سال میں ایک آدھ بار خم ٹھونک کر بیگم کے سامنے کھڑے ہوجانے کا حوصلہ باقی ہے۔
‎تجارتی ڈھکوسلوں کا یہ عالم ہے کہ اب ڈبل بیڈ پر بچھائے جانیوالے فوم اور سپرنگ کی نئی نئی اقسام فروخت ہورہی ہیں،پہلے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ یہ فلاں فوم چھ سال چلے گا،فلاں کی دس سال گارنٹی ہے،،فلاں کی پندرہ سال،،تاجروں کو معلوم ہے کہ گاہک نے سال شمار کرنے ہیں،گارنٹی والا کارڈ سنبھال کررکھنا ہے،چارپائی کی ادوائن تو ہر روز کس لی جاتی تھی،کمر درد کے مسائل نہ تھے،اب یہ فوم شروع ہوا تو ساتھ ہی کمر درد اور کندھوں کے درد کے سلسلے بھی شروع ہوگئے،"زمانے کی قسم کہ انسان خسارے میں ہے"کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ محنت کی کمائی دے کر درد والے فوم او ر گدے اپنے ہاتھوں سے خریدیئے، اب تاجر کہتا ہے فلاں گدا خریدئیے،وہ 
Medicated 
‎ہے،یعنی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اس سے کمر،کندھے اور پیٹھ متاثر نہیں ہوں گے،واہ سرمایہ داری،واہ مارکٹنگ کے ہتھکنڈے!
‎یعنی پہلے خشک ستو بیچے،خریدنے والا کھائے تو پیاس لگے گی،،اب پانی اپنی مرضی کے نرخ پر فروخت کیجئے،خریدے گا نہیں تو کہاں جائے گا۔
‎قرب ِ قیامت کی علامت دیکھیے کہ دو دو تین تین چار چار لاکھ روپے کے بیڈ خریدے جا رہے ہیں،اسی کو تبذیر کہا گیا ہے،اور انہی حضرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "تبذیر کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں "۔
‎بادشاہ کے محل کے سامنے تنور تھابجھے ہوئے تنور کے ارد گرد حرارت باقی تھی۔،ایک فقیر گدڑی لپیٹ کر سو رہا،سامنے بادشاہ کے پاس سمور والا لحاف تھا،وہ اس میں سویا،صبح فقیر نے گدڑی جھاڑی اور نعرہ لگایا،شب ِ سمور گزشت و شبِ تنور گزشت"سمور والی رات بھی کٹ گئی اور تنور والی بھی گزر گئی"۔
‎سوچ رہا ہوں گاؤں پلٹ جاؤں اور گلہ بانی کروں!

مافیا: مناؤ یا متبادل تیار کرو

$
0
0

دارالحکومت میں شاہراہ دستور پر ایک عظیم الشان عمارت ہے، جس
کے  اوپر پستہ  قد گنبد  مغل دور کی یاد دلاتے ہیں ،چند قدم  کے فاصلے پر وزیر اعظم  کی رہائش گاہ  ہے،ایسی رہائشگاہ  ! برطانیہ امریکہ  اور کینیڈا جیسے ملکوں کے حکمران جس کا محض خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔

اگر آپ وزیراعظم کے دفتر سے نکل کر شاہراہ پر ،مغرب  کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں تو  بائیں  طرف دس منٹ پیدل مسافت پر ایک معروف فائیو سٹار ہوٹل  ہے،گاڑی پر یہ فاصلہ دو  منٹ میں طے ہوگا  ۔،مگر ابھی آپ حرکت نہ کیجئے۔

شاہراہ پر  مغرب کی طرف منہ کرکے  بدستور کھڑے رہیے،آپ کے دائیں ہاتھ بھی  دس منٹ کی پیدل مسافت پر ایک فائیو سٹار ہوٹل ہے۔گویا یہ دونوں  ہوٹل وزیراعظم کے دفتر اور رہائشگاہ سے  دو دو منٹ کی ڈرائیو پر اور بارہ  بارہ  منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہیں ۔

 دارالحکومت  کے ضلعی ہیلتھ افسر ، سینٹ کمیٹی  کی قائمہ  کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ یہ قائمہ کمیٹی  صحت کے معاملات  کو دیکھ رہی ہے۔،ہیلتھ افسر نے قائمہ کمیٹی  کو بتایا کہ دارالحکومت کے تمام"معروف و مشہور  ہوٹلوں ، ریستورانوں ،اور بیکریوں میں انتہائی  غیر  معیاری  اور مضر صحت کھانا  تیار کیا جاتا ہے۔ ان کیفے  ہوٹلز، ریسٹؤرانٹس  اور بیکریوں  کے کچن اس قدر گندے ہیں کہ  اگر انسان  ایک بار  ان کے کچن میں گھس جائے تو  زندگی بھر کے لیے  ان کے تیار شدہ  اشیا کھانے سے  توبہ کرلے۔

 ضلعی  ہیلتھ  افسر نے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ  جہاں ان کے کچن  میں گندگی اور غلاظت  ہے وہیں  ان میں استعمال ہونے والا گوشت  چھ ماہ پرانا ہوتا ہے۔،معروف ہوٹلوں میں  مردہ مرغیوں اور مضر صحت  گوشت سپلائی  ہوتا ہے۔یہ معروف ہوٹل اور ریستوران  انسانی جانوں  سے کھیل رہے ہیں  ، ان  کے خلاف  متعدد بار  چھاپہ  مار کا رروائیاں  ہوچکیں مگر  یہ  لوگ اس قدر  بااثر ہیں کہ  اگلے لمحے  ہر طرف  سے  سفارشیں آ آتی ہیں ،"

ضلعی ہیلتھ  افسر  نے اعلیٰ ترین منتخب  ادارے  ،سینٹ  کی منتخب قائمہ کمیٹی  کو جو بیان دیا  ان میں یہ سارے نام شامل ہیں ۔

باقی ریستورانوں  اور بیکریوں  کو ایک لمحہ کے لیے چھوڑ دیجیے،ان فائیو سٹار ہوٹلوں  کی بات کرتے ہیں  جووزیراعظم  کے عظیم الشان  ،طمطراق  اور تزک  و احتشام  سے بھرپور  دفتر کے دائیں بائیں  بغل میں واقع ہیں ، وزیراعظم  پورے ملک کے عوام کی جان و مال  کا محافظ ہے، مگر حالت یہ ہے کہ  وہ ان ہوٹلوں میں بھی مضر صحت  کھانے اور مردہ جانوروں کے گوشت  کا کچھ نہیں کرسکتا ۔یہی دو بڑے ہوٹل ہیں  ،جہاں غیر ملکی  بھی آکر ٹھہرتے ہیں ۔پورے دارالحکومت میں  یہی حال  ہے خاص  کر  جن معروف ریستورانوں کاہیلتھ  افسر نے  نام لیا ہے، ان میں دو بہت مشہور ہیں  ان کی روزانہ کی سیل  کروڑوں میں ہے۔ جڑواں  شہروں میں  ان کی متعدد  شاخیں  ہیں ،جو  ہر وقت گاہکوں کے ہجوم  سے  چھلکتی رہتی ہیں ۔

 جو وزیراعظم اور جس کی حکومت  صرف ایک شہر، یعنی اپنے دارالحکومت  میں ،باقی  اداروں اور بازارو نکو تو چھوڑ ہی دیجئے ،صرف  ریستورانوں  کو کنٹرول  نہیں کرسکتی ،اس سے آپ  دیگر توقعات  کیا رکھیں گے۔

معزول  وزیراعظم  کے بارے  میں  یہ عام روایت ہے کہ  اپنے خاص  باورچی سفر کے دوران  ساتھ رکھتے ہیں ، یعنی اپنی صحت  اور خوراک  کے بارے  میں اتنا اہتمام   والتزام  اور رعیت کے بارے   میں اس قدرلا پرواہی  ،غفلت  اور بے نیازی ،لندن رہائش پذیر  ہونا ہرگز  باعثِ تعجب  نہین ،انہیں اس  ملک میں رہنے  کی کیا ضرورت ہے، جہاں فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی  بیمار گوشت  اور غلیظ  باورچی خانے  قتلِ عام کررہےہوں ۔یہ رونا کئی بار رویا جا چکا ہے کہ  موصوف  کا ترقی کا تصور  صرف ان منصوبوں  میں ہے جہاں لوہا استعمال ہوتا ہے۔ رہے انسان یا افرادی قوت ، یاصحت  اور تعلیم جیسے  سوشل سیکٹر  ،تو ان  کی ترجیحات   میں شامل ہیں نہ انہیں  ان کاادراک و فہم  ہے۔

 ہیلتھ افسر نے یہ بھی بتایا کہ پولٹری  کی غذا میں ایسی اشیا شامل کی جارہی ہیں جو دل گردوں  جگر کی  اور دیگر بیماریوں  کا سبب بن رہی ہیں ، شیور اور  برائلر  مرغی  کے استعمال  سے خؤاتین  کے پوشیدہ امراض  میں  اضافہ  ہورہا ہے،بچیاں وقت سے پہلے بلوغت  کی حدود میں داخل ہورہی ہیں ، دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ پولٹری فارموں میں جو خؤراک استعما ل  ہوتی ہے اسے سختی سے چیک کیا جاتا ہے،ان تمام مسائل  کا حل سابق  وزیراعظم  نے یہ نکالا کہ  خود اور ان کا کنبہ  لندن منتقل ہوگیا ، اب یہ بائیس پچیس کروڑ  عوام  کہاں جائیں ۔؟

 مگر ان کا دردِ سر تھوڑی ہے۔

وہ تودساور سے حکومت کرنے آتے ہیں ،لارڈ کرزن، میکالے اور  ویلزلے کی طرح ۔یہاں رہتے  بھی انہی کی طرح ہیں ۔الگ محلات میں ۔، پہرے داروں کے  حصار میں -کھانا پینا  ،سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، انگریز وائسرائے  کی طرح عوام الناس  سے جدا ۔
 وائسرائے  عام طور پر  اپنے کنبے  برطانیہ  ہی میں رکھتے  تھے۔حکومت  کرنے کے لیےآتے تھے،  یہی معزول وزیراعظم  نے طریقہ اپنایا۔ کنبہ لندن میں ، حکومت کے لیے آِئے، حکومت گئی تو  سامان اٹھایا  ،باورچی ساتھ  لیا اور  ہوم کنٹری  واپس۔امداد آکاش کا شعر یاد آگیا۔

 مجھ میں  مقیم شخص مسافر تھا دائمی

 سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا۔

اب معاملے  کا دوسرا پہلو دیکھیے۔۔۔


 عدالت اعظمیٰ  نے مافیا  کا لفظ  استعمال کیا تو  حواریوں نے  اعتراض  کیا ،اعتراض کیا کِیا ،بس سر آسمان پر اٹھا لیا ،

سوال یہ ہے کہ  مافیا کا طریق کار کیا ہے۔ ؟مافیا اس لیے مافیا کہلاتا ہے کہ  مخالف کو  سمجھاتے ہیں ، نہ مانے تو طاقت استعمال  کرکے راستے سے ہٹا دیتے  ہیں ،روزنامہ  92نیوز کی رپورٹ  بتاتی ہے کہ  معزول وزیراعظم   اس طریقہ کار  کے عین مطابق  "باغیوں "کو  سمجھانا چاہتے ہیں ، اور نہ سمجھیں تو  راستے سے ہٹانے کا بندوبست  فرما  رہے ہیں ، حکم  ہے کہ باغیوں  کو مناؤ یا  ان کے متبادل  تیار  کرو، اس سلسلے میں  یہ مہم  پارٹی اہم  رہنماؤں  کو سونپی جاچکی  ہے، یہ مہم تین مراحل  پر مشتمل ہوگی۔ پہلے  مرحلے  میں پارٹی  رہنما جنہیں مہم سونپی  گئی  ہے، باغیوں سے رابطے کرکے انہیں "منانے"کی۔کوشش کریں گے۔ باغی ان کے قابو میں نہ آئے تو  معزول وزیراعظم اور پارٹی کے  'نومنتخب"صدر خؤد ان  سے بات کریں گے۔

 یہ تدبیر  بھی کارگر نہ ہوئی تو  تیسرا مرحلہ بروئے کار  لایا جائے گا ۔، پولیس اور بیوروکریسی کو ان کے پیچھے  لگایا  بلکہ"چھوڑا"جائے گا ۔  ان کی پوزیشن  اتنی خراب  اور عبرتناک  کردی جائے  گی کہ  الیکشن  لڑنے  کے قابل  نہ رہیں ۔ ان کے متبادل  افراد کو  ترقیاتی  فنڈ فیاضی سے  دیے جائیں  گے تاکہ  ان کی  پوزیشن خراب  سے خراب تر  ہو۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ  جو باغی مان جائیں گے،ان کے ناموں  پر بھی  نشان  باقی  رہے گا۔

بغاوت کی ابتدا  وفاقی  وزیر ریاض  پیرزادہ  نے کی۔ انہوں نے  ایوان سے  واک آؤٹ  کیا ان کے ہمراہ چند  وزرا  اور دیگر  ارکان بھی ساتھ تھے ،پھر ظفر اللہ  جمالی صاحب نے تقریر کی  اور معزول وزیر اعظم  کو عقل کی چند باتیں  بتائیں  مگر اگر  مشیر  ،دختر  نیک ہیں ، جو کسی قسم  کی مصالحت  یا مفاہمت  کے سخت خلاف ہیں ، تو جمالی  صاحب  کی بات کون سنے گا ۔

جنوبی  پنجاب  سے تعلق رکھنے والے  ایک اور ایم این اے  شیخ فیاض  نے بھی دھواں دھار  تقریر  کرکے حکومت  کو خؤب جھنجھوڑا  ۔ایک ایم این اے  کو برین ہیمرج  ہوا۔ انہیں  دارالحکومت  کے سب سے بڑے ہسپتال پمز  میں لے جایا گیا ۔ وہاں وینٹی لیٹر  ہی میسر نہ آسکا  ،اس پر ایم این اے  حضرات  پھٹ پڑے  ،اور کہا کہ  عام آدمی  پر کیا گزر رہی ہوگی۔

ان  ایم این اے حضرات  کو،جو  مراعات  یافتہ  طبقے  سے تعلق رکھتے  ہیں ، کون بتائے  کہ عوام  کو تو  ہسپتالوں  میں وینٹی لیٹڑ  تو دور کی بات ہے، قینچی اور  کاٹن تک نہیں ملتے۔ پہروں  برآمدوں میں بیٹھ بیٹھ کر  عام مریض  ،پہلے سے بھی  زیادہ بیمار  ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر حضرات   دس گیارہ بجے  آتے ہیں ۔ فوراً ہی چائے کا وقفہ  آجاتا ہے۔ پھر راؤنڈ اور میٹنگز  شروع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ منتخب  نمائندے  گزشتہ چار سالوں کے دوران ہسپتالوں  کی حالت زار  کے متعلق  کچھ جاننے  کی کوشش  کرتے اور  پھر حکومت  کو بیدار  کرتے تو  آج ان  کے طبقے  کے ایک فرد  کے ساتھ یہ سلوک  نہ ہوتا  ۔،وینٹی لیٹر  نہیں  ملا تو  عوام یاد  آگئے۔ عوام تو  زبان حال  سے کہہ رہے ہیں ۔

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری  ہے جس طرح

  ہم نے تمام عمر گزاری ہے  اس طرح !



شاہی خاندان کی  دیکھا دیکھی  اب دوسرے  سیاستدان  اور حکمران  بھی کوشش کرتے  ہیں کہ  علاج کے لیے  بیرون ملک  ہی جائیں ۔خؤاہ  زکام یا چھینک کی شکایت  ہی کیوں نہ ہو۔

 پس نوشت  ۔۔ان دنوں مولانا  ظفر علی  خان کا ایک شع تختہ مشق  بنا ہوا ہے۔ ساور مسلسل  بن رہا ہے۔ معزول  وزیراعظم  نے ایک تقریر میں اسے  اقبال کے نام  سے منسوب  کیا ۔پھر سوشل  میڈیا پر خؤب  بحث ہوئی، ہمارے محترم  دوست نے بھی اسے اقبال  ہی کے حوالے  سے نقل کیا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم  کی حالت نہیں  بدلی  

نہ ہو جس کو خیال  آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 مولانا ظفر اللہ خان  کا ہے۔یہ ان کی  ایک نظم کا  آخری شعر ہے۔ نظم کا  عنوان  وہی قرآنی الفاظ  ہیں ، جن کا ترجمہ  اس شعر  میں مولانا نے کیا  ہے۔

 آٹھ  شعروں  کی یہ نظم  یہاں نقل  کی جارہی ہے،



کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی

 وہ ساعت  جو نہ بھولے سے بھی  لے گی نام ٹلنے کا،

 بھڑک اٹھی  وہ آگ  اسلام نے جس کی خبر دی  تھی ،

 کیا ہے  کفر نے ساماں  ترے خرمن کے چلنے کا،

جمی ہیں پپڑیاں  تیرے غبار  آلود  ہونٹؤ ں پر ،

 تماشا دیکھ لے حسرت  سے زمزم کے ابلنے کا،

 تجھے تہذیب  مغرب  سبز باغ اپنا دکھاتی  ہے،

 یہ ساماں  ہورہا ہے۔ تیری نیت  کے پھسلنے کا،

 اگر قرآں  کے وعدے  سچ ہیں  اور کچھ شک نہیں سچ ہیں ۔

 تو وقت آہی گیا ہے کفر  کے سورج کے ڈھلنے کا،

 رسول اللہ خؤد گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں

 تجھے اے خبر  ہر وقت  موقع ہے سنبھلنے کا

 خدا نے  آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔



یہ نظم ظفر اللہ خان کے  شعری مجموعے  "بہار ستان"میں شامل ہے۔


حشر کی جھلکیاں دنیا میں !

$
0
0

2005کے زلزلے میں کچھ واقعات ایسے بھی ریکارڈ ہوئے جو آنکھیں کھولنے اور دل دہلا دینے کے لیے کافی تھے۔مظفر آباد،بالا کوٹ،اور نواحی علاقوں میں تباہی سب سے زیادہ ہوئی۔انہی علاقوں میں ایک بس مسافرو ں سے بھری جارہی تھی،بس میں سانپ نمودار ہو گیا۔جس مسافر کی جھولی میں گرا،اس نے غیر ارادی طور پر اسے پکڑا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔باہر ایک شخص موٹر سائیکل چلاتا جا رہا تھا،سانپ اس پر گرا،اسے کاٹ لیا،معلوم نہیں وہ شخص فوراً مر گیا،یا تھوڑی دیر بعد۔بہر حال اس کا اتہ پتہ معلوم کرنے کے لیے اس کے سامان کی،جو موٹر سائیکل پر لدا تھا،تلاشی لی گئی۔اس میں سے ایک نسوانی بازو ملا جس نے طلائی چوڑیاں پہن رکھی تھیں۔ یہ بازو عورت کے جسم سے چوڑیوں کی خاطر کاٹا گیا تھا۔
تینوں آسمانی مذاہب،اسلام،عیسائیت اور یہودیت کا روز،آخرت پر ایمان ہے۔اس دن برے کاموں کی سزا اور نیک کاموں کی جزا ملے گی۔مگر قدرت سزا اور جزا کا عمل دنیا میں بھی اہل دل کو دکھ دیتی ہے ۔ہا ں اس کے لیے دیکھنے والی آنکھ،سمجھنے والا ذہن اور لرزنے والا دل چاہیے۔
1958میں ماؤزے تنگ نے چڑیو ں کو ختم کرنے کا حکم دیا اس کی حکومت کا خیال تھا کہ چڑیاں اناج کھا جاتی ہیں،اندازہ لگایا گیا کہ ایک سال میں ایک چڑیا چار پاؤنڈ اناج ہڑپ کر جاتی ہے۔ چنانچہ پورے ملک میں چڑی مار مہم شروع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ چڑیو ں نے غیر ملکی سفارت خانوں میں پناہ لے لی۔پولینڈ کے سفارتخانے سے مطالبہ کیا گیا کہ چڑیو ں کو مارنے دیا جائے۔مگر سفارتخانے نے انکار کردیا۔اس پر چینی عوام سفارتخانے کے باہر جمع ہو کر احتجاجاً ڈھول بجانے لگے،بہر طور چڑیوں کو مارنے کا نتیجہ الٹ نکلا۔۔۔دو سال بعد چین کو احساس ہوا کہ کیڑے مکوڑوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے،جو چاول کی فصل کو تباہ کررہے ہیں۔قدرت کا حساب سائنٹفک تھا۔۔چڑیا ں کیڑے مکوڑوں کو کھاتی تھیں اور اس کے معاوضے میں جو اناج کھاتی تھیں وہ اس مقداد سے بہت کم تھا جو کیڑے مکوڑو ں نے کھا جانا تھا۔اب حکم ہوا کہ چڑیوں کو نہ مارا جائے مگر نقصان ہو چکا تھا۔چڑیاں ناپید تھیں اور اربوں کھربو ں کیڑے چاول پر پل پڑے تھے۔ایسا ہولناک قحط پڑا کہ تقریباً تین کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
چودھویں صدی میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی ریاستیں الگ الگ تھیں۔1348  کے لگ بھگ انگلینڈ پر طاعون نے حملہ کیا۔اسے "بلیک ڈیٹھ "کہا جاتا ہے،برسٹل لندن کے بعد دوسر ابڑا شہر تھا،ان دنوں صفائی کا رواج بھی نہ ہونے کے برابر تھا برسٹل میں ہزارو ں لوگ مرے،یہاں سے یہ دوسرے شہروں میں پھیلا،دو سو میتیں روز ٹھکانے لگائی جانے لگیں،خاکروب سارے مر گئے،گلیاں لاشوں سے اٹ گئیں۔پھر ایک ایک گڑھے میں پچا س پچاس میتین دفن ہونے لگیں۔1350تک آدھا لندن صاف ہو چکا تھا۔سکاٹ لینڈ نےموقع کو غنیمت جانا،ان کا ایمان تھا کہ انگلینڈ کو گناہوں کی سزا مل رہی ہے،سکاٹ لینڈ کی فوج نے حملہ کردیا،مگر طاعون نے بہت جلد حملہ آور فوج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پانچ ہزار فوراً مر گئے۔گھبرا کر فوج واپس مڑی ساتھ ہی طاعون کے جراثیم بھی تھے۔ ایک تہائی آبادی طاعون کی نذر ہوگئی۔سکاٹ لینڈ میں سردی زیادہ تھی۔نمونیہ بھی طاعون کے ساتھ شامل ہو گیا اور یوں سکاٹ لینڈ کو بد نیتی کی پوری پوری سزا ملی۔
اکاسی سالہ لوشیا نو امریکی ریاست نیو میکسکو میں رہتا تھا،اس نے گھر کے صحن میں خشک پتو ں کو آگ لگائی،اتنے میں وہ گھر کے اندر گیا،اسے گھر کے اندر چوہا نظر آیا،اس نے چوہے کو پکڑا اور باہر لاکر سلگتے جلتے پتو ں پر ڈال دیا کہ جان چھوٹے،چوہے کو آگ لگی تو وہ دوڑ کر واپس گھر کے اندر بھاگا،وہ شعلوں میں جل رہا تھا اور مسلسل ایک سے دوسرے کمرے میں بھاگ رہا تھا،جہاں جہاں سے گزرا آگ لگاتا گیا۔تھوڑی دیر میں لوشیا نو کا پورا گھر جل رہا تھا،شعلے آسمان تک پہنچ رہے تھے،آگ بجھانے والے محکمے کے سربراہ کا بیان تھا کہ ایسی آتش زنی اس نے اپنے پورے کیرئیر میں نہیں دیکھی تھی۔
فوری انصاف کا ایک واقعہ چین میں پیش آیا،جہاں وہ گاڑی پارک کرنا چاہتا تھاوہاں ایک لاوارث کتا بیٹھا تھا۔ چینی نے کتے کو پاؤں سے ٹھوکر ماری -کتا بھاگ گیا،اور چینی گھر کے اند ر چلا گیا،تھوڑٰ ی دیر گزری تھی کہ کتا واپس آیا،اب وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے ساتھ اسکے ساتھی،دوسرے کتے بھی تھے۔ان سب نے گاڑی پر حملہ کردیا، ونڈسکرین پر چڑھ کر دونوں وائپر چبا ڈالے،جہا ں جہاں نقصان پہنچا سکتے تھے پہنچایا،سامنے والے پڑوسی نے پورے واقعے کی فلم بنائی،اور دوسرے دن مالک کو دکھائی،گاڑی لکیروں اور خراشوں سے بھری تھی،گاڑی پر جگہ جگہ ڈینٹ پڑے تھے،کتے نے ٹھوکر کا بدلہ لے لیا تھا۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز واقعہ کیلی فورنیا کے ایک ڈاکٹر کا ہے،یہ بچوں کے امراض کا ماہر تھا،اس کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا،اور یہ گاڑی کے اندر انتہائی زخمی حالت میں پھنس گیا۔ایمرجنسی ٹیم آئی،اس ٹیم کے ایک نوجوان رکن ٹروکی نے ڈاکٹر کو گاڑی سے نکالا۔اور ہسپتال پہنچایا،جہاں وہ ڈیڑھ ماہ داخل رہا،اور اس کا علاج ہوتا رہا۔
یہ ٹروکی کون تھا؟۔۔۔یہ وہ بچہ تھا جو موت کے منہ میں تھا،اور تیس سال پہلے اسی ڈاکٹر نے اسے بچانے کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ٹروکی پیدا ہوا تو اس کا وزن صرف تین پاؤنڈ تھا،یہ قبل از وقت پیدائش کا کیس تھا،بچنے کا امکان صرف پچاس فیصد تھا۔ڈاکٹر نے دن رات محنت کی اور اسے بچا لیا۔ 
ابنِ بطوطہ اپنے سفر نامے میں ایک عجیب واقعہ لکھتا ہے۔جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس وقت وہ سری لنکا میں تھا،اس نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے ہاتھی کے بچے کو مارا،پکایا اور کھا گئے،ایک شخص نے یہ گوشت کھانے سے اجتناب کیا، رات کو سب سو رہے تھے،ہتھنی آئی،وہ ایک ایک کے پاس جاتی تھی،اسے سونگھتی تھی،اس نے سب کو مار دیا،مگر جس نے گوشت نہیں کھایا تھا،اسے چھوڑ دیا۔
ایک کہانی بچپن میں پڑھی تھی کہ ہاتھی کی درزی سے دوستی ہوگئی،ہاتھی دریا پر جاتے ہوئے درزی کے پاس رکتا،درزی اس کی سونڈ پر پیار سے ہاتھ پھیرتا۔اس ملاقات کے بعد ہاتھی اپنی راہ چلا جاتا۔ ایک دن درزی نجانے کس منفی اور غضب ناک موڈ میں تھا کہ ہاتھی آیا تو درز نے اسے سوئی چبھو دی۔ہاتھی چلا گیا۔دریا سے اس نے سونڈ میں پانی بھرا اور واپس گزرتے وقت ساراپانی دکان میں انڈیل دیا اور ۔سارا مال خراب کردیا۔
اگر ہم آنکھیں اور دماغ کھلا رکھیں تو ہر روز ایسے واقعات ہمارے سامنے پیش آتے ہیں،جو سزا اور جزا کے فلسفے کو آسان ترین شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں،لنگڑے آدمی کی نقل اتارنے والا اکثر و بیشتر حالات میں لنگڑا ہوجاتا ہے۔یہ کالم نگار ایک شخص کو جانتا ہے،جس کی عمر رسیدہ والدہ کا سر رعشہ سے ہلتا تھا،ایک بار اس نے ماں کو غصے میں طعنہ دیا کہ سر ہلاتی رہتی ہو۔اب وہ خود معمر ہے،اس کا سر رعشہ سے ہلتا ہے،اور ہاتھ بھی مستحکم نہیں۔اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بیورو کریٹ (مسٹر میم) نے اپنے ایک ساتھی،(مسٹر نون) کے خلاف سازش کی،اسے معلوم تھا کہ مسٹر نون۔لاہور سے اسلام آباد کبھی نہیں آئے گا۔اس نے اس کا تبادلہ کرا دیا،مقصد یہ تھا کہ ایک آسامی خالی ہوجائے،مسٹر ن کا تبادلہ ہوگیا۔یہ ضروری تھا،نہ اس کا کوئی فائدہ تھا۔وہی ہوا جو متوقع تھا،مسٹر نون نے ترقی کے مواقع کو لات ماری اور استعفیٰ دے دیا۔
سازش کامیاب ہوئی، مگر چند سال ہی گزرے تھے کہ ایک اور صاحب نے مسٹر میم کیساتھ وہی عمل دہرایا،جو مسٹر میم نے مسٹر نون کیساتھ کیا تھا۔میم صاحب اللہ کے حضور حاضر ہوچکے ہیں،نون صاحب حیات ہیں۔
یہ سارے واقعات لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ دلچسپی کا سامان مہیا کیا جائے، اصل نکتہ یہ ہے کہ کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہاہو،ہر کام حسنِ نیت کیساتھ کرنا چاہیے، کسی کو نقصان پہنچانے کا،کسی کیخلاف سازش کرنے کا، کسی کی کمزوری کا مذاق اڑانے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، اس کائنات کا کام جس جس تدبیر سے چلایا جارہا ہے،اس میں بال برابر ظلم کی بھی گنجائش نہیں، اور رمق بھر نیکی بھی ضائع نہیں ہوتی۔
خالقِ کائنات کا لقب مدبر الامر،یوں ہی نہیں،امور کی تدبیر وہ یوں کرتا ہے کہ حساب برابر ہوتا جاتا ہے۔یہ اس دنیا کی بات ہے،دوسری دنیا میں جو حساب کتاب ہوگا اس کا تو تصور ہی محال ہے۔
تلیں گے کس ترازو پر یہ آنسو اور یہ آہیں 
اسی خاطر تو میں روزِ جزا کو مانتا ہوں 
ایک ایک خراش،ایک ایک زخم کے وزن کرنےکا ساماں ہوگا،مگر ادھر ادھر غور سے دیکھیے۔اس دنیا میں بھی سزااور جزا کا عمل جاری ہے۔


اگر ابراہم ایرالی زندہ ہوتے۔

$
0
0

عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

تیونس کے وزیر ِ صحت نے دوڑ میں شرکت کی  ادھر دوڑ ختم ہوئی،اور ان کی حالت بگڑ گئی، اور وفات پا گئے موت کا وقت،مقرر ہے یہ ہمارا ایمان  ہے، مگر لگتا ہے کہ  وہ دوڑ کے عادی نہیں تھے۔ 
ادھر چالیس سالہ خاتون  جے پور سے چلیں اور دہلی جا کر  دھرنا دے دیا ،کروڑ پتی  خاتون کا مطالبہ  معصوم ہے اور دلکش بھی۔۔۔ یہ کہ  وزیر اعظم مودی  ان سے شادی کر یں۔لگتا ہے پورے خاندان میں بزرگ کوئی نہ تھا جو مودی سے رابطہ کرتا  یہ کام بیچاری کو خود ہی کرنا پڑا۔
اس سے بھی زیادہ عجیب وہ  کمیٹٰی ہے جو حکومت نے حلف نامے میں ترمیم  کی تحقیقات کے لیے بنائی ہے،آپ کا کیا خیال ہے،اس کمیٹی میں حزبِ اختلاف کو نمائندگی دی گئی ہوگی؟۔۔۔جی نہیں!وہ کمیٹی ہی کیا جو حکومت بنائے اور اپوزیشن کو شامل کرے،کمیٹی کے  ارکان احسن اقبال،اور مشاہد  اللہ خان ہیں،سربراہ  راجہ ظفر الحق (صدر ضیا الحق  کے پسندیدہ اوپننگ بیٹس مین)ہیں۔یہاں یہ واضح  ہو کہ  بیٹس مین کو بیٹ مین سے خلط ملط نہ کیا جائے۔

کمیٹی جو کچھ  کر رہی ہے وہ کمیٹی کی تشکیل سے بھی زیادہ عجیب ہے،وزیر قانون  نے کمیٹی کو  بتایا کہ  "'حلف نامے میں تبدیلی جان بوجھ کر نہیں کی گئی،"غالباً ان کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے ایک پری اتری،جس کے ہاتھ میں قلم تھا،وہ آکر ترمیم کرگئی،ورنہ اور تو کوئی اس کا ذمہ دار ہی نہیں۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات  کالم نگار نے لکھی،اور مزاحیہ پیرائے میں بتایا کہ  پہلے ان کی داڑھی تھی پھر صاف کرا دی  بات یہ ہے کہ  داڑھی رکھنا  نہ رکھنا  اور بات ہے، رکھ کر منڈوا دینا بالکل الگ بات ہے۔ پھر اس کا مزاحیہ رنگ میں ذکر کرنا کہ اسلام تمھارے چہرے سے کہاں چلا گیا۔ایک ایسی حرکت ہے جو نہ کی جاتی تو بہتر تھا۔رسولﷺ کی بہر حال سنت ہے، آپ عدم پختگی یا  عدم استقامت  کی بنا پر جاری نہ رکھ سکے تو خاموش رہیے۔رہا اقبال کا واقعہ جو بیان کیا گیا، اور جس میں "خوچہ"کا لفظ لکھ کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،اگر کسی معتبر حوالے کیساتھ ہوتا تو اور بات تھی،رکھ کر منڈوا دینے والے حضرات اقبال کا سہارانہ لیں۔ہم یہ قطعاً  نہیں کہہ رہے کہ اسلام داڑھی میں ہے،یا اسلام کا سارا انحصار داڑھی  پر ہے، ہم یہاں اپنا موقف دہرائے دیتے ہیں کہ رکھ کر صاف کرانااور پھر اس کا ذکر ازراہِ تفنن کرنا قطعاً غیر ضروری ہے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید  جنید و بایزید ایں جا!

اس سے بھی زیادہ عجیب قصہ یہ ہوا کہ ایک صبح مسلم لیگ ن کے ارکان کو ہوش آگیا۔ حیران ہوئے اور تاسف  میں سر پر بار بار  ہاتھ مارنے  لگے  کہ یہ کیا ستم  ہے  یہ ہم ایک خاندان  کے حلقہ بگوش  کیوں ہو گئے۔۔۔ (ان ،پڑھے لکھے ارکان کو  حلقہ بگوش کا مطلب معلوم تھا  پرانے زمانے میں جس کے کان میں بالی ہوتی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ  وہ کسی کا غلام ہے)۔وہ ارکان  محوِ حیرت  ہو کر ایک دوسرے سے  پوچھتے کہ یہ ہماری عقل کو کیا ہوگیا۔تیس سال سے ہم ایک خانوادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں،وزیر اعلیٰ کا  فرزند ممبر  وفاقی  اسمبلی کا ہے مگر  حکومت صوبے پر کرتا ہے،صاحبزادی  پارٹی کی عہدیدار  ہے نہ حکومتی  منصب رکھتی ہے  مگر تمام اختیارات  کی باگ دوڑ  ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان ارکان نے فیصلہ کیا کہ  مہذب  اور ترقی یافتہ  ملکوں کی طرح پارٹی  میں انتخابات کرائے جائیں  اور جھلو  انتخابات نہیں بلکہ اصلی اور باقائدہ  انتخابات ہوں گے، چنانچہ میاں محمد نواز شریف کے مقابلے  میں چوہدری نثار  علی خان  اور پروفیسر  احسن اقبال  نے پارٹی  کی صدارت  کے لیے  پارٹی کے الیکشن کمشنر  کے ہاں  کاغذات نامزدگی  داخل کرا دیے،جیسا کہ  خاندان کا دستور ہے۔۔پہلے کوشش کی گئی کہ منت سماجت کرکے باز رکھا جائے  یہ حیلہ کارگر نہ ہوا ۔پھر دھونس دھاندلی کی باری آئی۔، یہاں ریاض پیرزادہ  نے دونو ں کو  تسلی دی کہ  کچھ نہیں ہوگا، اپنا تجربہ  انہوں نے  بیان کیا کہ  دہشتگردوں کے ساتھ نتھی  کرنے کی کوشش کی گئی
مگر  کامیاب نہ ہوسکی۔اب انتخابات کی گہما گہمی کا  آغاز ہوا  عجیب بات یہ ہوئی کہ میاں صاحب کو  ارکان کی اکثریت  نے سنجیدگی سے نہ لیا،چوہدری  نثار  علی خان اور پروفیسر  احسن اقبال  کے مقابلے  میں تعلیم تھی نہ ذہانت ۔قوت تقریر  نہ طاقتِ تحریر!

چوہدری نثار علی کا پلہ بھاری نظر آرہا تھا۔ایک تو طویل سیاسی کیرئیر میں  کسی مالی  سکینڈل نے ان کا پیچھا نہ کیا۔ دوسرے وہ اعتدال  پسند ٹھہرے جب کہ  پروفیسر احسن اقبال  اداروں  کو للکارتے  پھرتے تھے۔
پھر وہ  دن بھی آیا کہ چوہدری نثار  علی خان  پارٹی کے صدر چن لیے گئے،ارکان نے خانوادے کا جوا گردن سے اتار پھینکا۔ان دنوں غور اس بات پر ہو رہا ہے کہ نون کے لاحقے سے جان کیسے چھڑا ئی جائے۔

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے،پیپلز پارٹی کے ارکان نے مسلم لیگ کو رنگ بدلتے دیکھا تو  سوچنے پر مجبور ہو گئے ،چلیے،بھٹو صاحب کے بعد  بی بی نے زمام اقتدار سنبھال لی،آخر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں،مگر شہادت کے بعد ان کے میاں اور میاں کی بہن کا مالک و مختار ہونا کس منطق سے جائز ٹھہرا؟۔۔اور پھر اب صاحبزادے کو تیار کیا جارہا ہے، یہ سرگوشیاں تحریک میں تبدیل ہونے لگیں۔ایک دن پیپلز پارٹی کے ارکان نے خانوادے  کے خلاف بغاوت کردی ،ان کا موقف تھا کہ  پارٹی  کے اندر آزادانہ   انتخابات  کرائے جائیں ۔آخر رضا ربانی۔اعتزاز  احن اور قمر زمان کائرہ  جیسے رہنما ؤں میں کس شئے کی کمی  ہے!  چنانچہ  انتخابات ہوئے،اور قمر زمان کائرہ  پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے،شہر شہر تعمیر ہوتے بلاول ہاؤسوں سے جان چھوٹی۔زرداری صاحب مستقل دبئی منتقل ہوگئے۔بلاول کو کائرہ صاحب نے ہدایت کی کہ اپنے آبائی حلقے سے  مقامی قیادت کے لیے انتخاب لڑے، چنانچہ وہ ضلعی صدر منتخب ہوئے۔بلاول کو یہ نکتہ سمجھ آگیا کہ مرحلہ وار اوپر آئے  وراثت  کے طور  پر پارٹی کو جاگیر  نہ سمجھے۔  اس لیے کہ قطرہ  ایک دن میں موتی نہیں بنتا۔سنائی نے کہا تھا۔۔۔
سالہا باید کہ تایک  سنگِ اصلی زافتاب
لعل گردو  دربدخشاں یا عتیق اندر یمن!
عمر ہا باید کہ تایک  کود کی از روئی  طبع
عالمی گردو نکو  یا  شاعری  شیریں  سخن!
پتھر کو لعلِ بدخشاں یا عتیقِ یمنی بننے کے لیے سالہاسال  درکار ہین۔ایک بچے کو عالم یا شاعر بننے کے لیے پوری عمر چاہیے!

پھر ایک دن مولانا حیدری نے اپنے ایک دوست سے سرگوشی کی ،یہ سرگوشی پھیلتی گئی،مولانا کے مقابلے میں کوئی پارٹی کا صدر بننے کا سوچتا ہی نہ تھا،اب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اندر جمہوریت کا ارتقا دیکھ کر ان حضرت کو بھی ہوش آیا،آزادانہ  انتخابات ہوئے،خاندان  سے جان چھوٹی ،حافظ حسین احمد پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے۔
یہ خواب ہے یا حقیقت،کچھ پتا نہیں 
راز کھلتا ہی نہیں ہے انتہائے ہجر کا
کوئی ایسے میں لگا لیتا ہے باتوں میں ہمیں 
اگر یہ خواب ہے تو کیا ہی مبارک خواب ہے!

خواب دیکھنے پر کوئی پابند ی نہیں،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی خواب دیکھتا پکڑا جائے،ہاں اگر پارٹیوں میں وراثت اسی طرح چلتی رہی تو کیا عجب کہ کوئی رکن کسی دن سوچتا ہوا پکڑا جائے۔

ابراہام  ایرالی جنوبی  ہندوستان  کی ریاست کیرالہ  میں پیدا ہوئے  مدراس (موجودہ چنائی) کے مدراس  کرسچیئن  کالم میں تعلیم پائی،وہیں پروفیسر ہو گئے۔ مغربی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا،ایک دن انہیں احساس ہواکہ اپنے طلبا کو جو کتابیں وہ پڑھنے کے لیے بتاتے ہیں خود ان سے مطمئن نہیں،چنانچہ   تاریخ کی کتابیں لکھنا شروع کیں، اور ہر کتاب  مشہور ہوئی۔ دو کتابیں معرکہ آرا ء لکھیں  دہلی سلطانیٹ،یعنی سلاطین ِ دہلی کے بارے میں  اور دوسری مغل تھرون۔جو بابر  سے اورنگزیب  تک کے عہد  پر مشتمل ہے۔سلاطین  ددہلی کا ذکر  ابراہام  ایرالی  قطب الدین  ایبک سے شروع کرتے ہیں جو 1208میں دہلی کا بادشاہ  بنا۔یہ خاندان غلاماں کا آغازا تھا، پھر خلجی خاندان برسرِ اقتدار آیا۔پھر تغلق آئے تغلقوں کو زوال آیا تو  سید خاندان تخت نشیں ہوا،سید کو لودھیوں  نے گرایا، ابراہیم کو پانی پت کے میدان میں  بابر کے توپ خانے نے شکست دی،غالباً ابراہیم لودھی واحد بادشاہ تھا  جو میدان ِ جنگ میں لڑتا ہوا مارا گیا۔یہاں ابراہیم ایرالی کی کتاب  دہلی سلطنت ختم ہوتی ہے۔مغل تاریخ پر انہوں نے الگ کتاب لکھی۔

 پروفیسر ابراہیم ایرالی آخری عمر میں بھارت  کے مشہور ساحلی  شہر پانڈی چری میں منتقل ہوگئے،اس کالم نگار کو حسرت ہی رہی انہیں دیکھنے اور ان سے ملنے کی۔کیا موتی پروتے تھے اور کیا سحر انگیز انگریزی لکھتے تھے،اصل فارسی منابع سے استفادہ کیا،کوئی پست فہم ہی ان پر  تعصب اور جانبداری کاالزام لگا سکتا ہے،2015میں انتقال ہوگیا!

اگر ابراہیم ایرالی زندہ ہوتے تو  ان سے یہ طالبعلم درخواست کرتا کہ ایک کتاب  "سلاطین پاکستان "پر لکھتے،اس کتاب کا نام "پاکستان کے شاہی خاندان "بھی مناسب ہوتا۔زرداری اور شریف خاندان،ان خانوادوں کے تذکرے میں  فریال تالپور ،حمزہ شہباز،مریم صفدر پر بھی الگ الگ باب باندھے جاتے،مستقبل کے طلبایہ تاریخ پڑھ کر حیران ہوتے،کہ دونوں خاندانوں کے ہیڈ کوارٹر ملک سے باہر سے تھے۔

ابراہیم ایرالی اس نکتے پر ضرور بحث کرتے کہ قائداعظم  اور خان لیاقت علی خان نے یہ ملک اپنے وارثوں کے لیے جاگیر کیوں نہ بنایا! 


جناب جسٹس جاوید اقبال !

$
0
0

‎سرسبز و شاداب رہیے،
‎ہریالی آپ کے گرد بادِ نسیم کے جھونکو ں سی رقص کرے، 
‎جہاں جائیں جھومتی شاخیں، خوشبو چھڑکتے پھول استقبال کریں، 
‎دعا کا یہی برگِ سبز تحفہ درویش ہے،اور ذرا سی عرضگزاری بھی جو مسندِ انصاف کے سامنے جہاں آپ تشریف رکھتے فرما ہیں،دست بستہ کھڑے ہو کر،کرنی ہے۔۔
‎اس تنگدلی پر تاسف کا اظہار بھی کرنا ہے جو اہلِ دانش نے اور اربابِ نشر و اشاعت نے دکھائی ہے، ان کا کہنا کہ آپ نے ماضی میں کوئی طوفان انگیز یا حشر برپا کردینے والا فیصلہ نہیں کیا، قرین انصاف نہیں، معاملے کا اصل پہلو یہ ہے کہ آپ نے کوئی ایسا فیصلہ بھی صادر نہیں کیا جس سے آج ندامت ہو اور جس کا دفاع کرنا پڑے،تیس عشرو ں سے زیادہ مدت پر محیط ایک باعزت عرصہ کارکردگی آپ نے بسر کیا ہے، اس میں کیا شک ہے کہ نشیب و فراز زندگی کا جزو لاینفک ہیں،ہمیشہ ایک معیار پر تو اقطاب اور بطال بھی قائم نہ رہ سکے، جیسا کہ سعدی نے فرمایا۔۔۔
‎یکی پرسید آن گم کردہ فرزند
‎کہ ای روشن گہر پیرِ خرد
‎زمصرش بوئی پیراہن شنیدی
‎چرا در چاہ کنعانش ندیدی
‎بگفت احوال ِ ما برق ِ جہان است
‎دمی پیدا و دیگر رم نہان است
‎گہی برطارم اعلیٰ نشینم
‎گہی برپشت ِ پائی خود نبینیم
‎اس شخص سے جس کا فرزند گم ہوگیا تھا، کسی نے پوچھا کہ عالی جاہ ! مصر سے بیٹے کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی،کنعان کے کنویں میں بھی جھانک لیتے، فرمایا ہمارا حال برق جیسا ہے،ابھی چمکی اور ابھی غائب، ہم لوگ کبھی تو بلندی پر ہوتے ہیں جہاں سے سب کچھ نظر آتا ہے، اور کبھی اپنے پاؤں کی پشت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
‎یہ تو تھی تمہید۔۔۔۔۔
‎حفیظ جالندھری نے کہا تھا
‎تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدطولانی
‎آمدم برسرِ مطلب!جسٹس صاحب!ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے دشت ِ خیال پر اندر کی نظر دوڑائیے،جو منصب آپ کو ملا ہے،سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں اس کی ہمسری ناممکن ہے۔ تخت پر تو صدر اور وزیر اعظم متمکن ہیں مگر زنجیرِ عدل کا سرا آپ کے محل میں ہے،آپ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں،اس طرف نظر دوڑائیے،روغنِ قاز مَلنے کے ماہر ،خوشامدی ہاتھوں میں پھول لیے دورویہ کھڑے ہیں،ترغیب ہے اور تحریص،حکمرانوں کی قربت ہے اور لاتعداد منافع اور مواقع،مگر جسٹس صاحب اس راہ پر پھول ہوں یا درہم و دینار کے انبار، یا حکومت کا جاہ وجلال جو کچھ بھی ہے اس راہ کے آخر میں ایک لق و دق صحرا پڑے گا، جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں،اور بکھری ہوئی ہڈیاں ہیں، آپ وہاں اکیلے ہوں گے، تن تنہا!آپ کے ارد گرد آپ کے پاؤں پکڑ کر رکاب میں ڈالنے والے خوشامدی پیادے سب غائب ہوں گے۔
‎دوسری طرف ایک کٹھن راستہ ہے، اس راستے پر آپ کا ضمیر آ پ کی رہنمائی کررہا ہے، اس راستے پر دھونس بھی ہے اور دھاندلی بھی ،کوئی بھی آپ کو پسند نہیں کرے گا، بعض تو دماغی حالت پر شکر کریں گے۔ کہ بڑا آیا عمر بن عبدالعزیزبننے کا شائق! مگر اس راہ کے آخر میں ایک باغ ہے جہا ں آپ کا استقبال کیا جائے۔باغ میں چشمے ہین جن میں آب ِ شیریں بہہ رہا ہے ٹھنڈی چھاؤں ہے اور ابدی کا میابی!
‎وہ دیکھیے،قائداعظم کھڑے ہیں۔اور آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، قائداعظم جنہو ں نے خوشامد ،دولت،دھونس،دھاندلی سازش سب کو شکست دی۔گاندھی کی منافقت پارہ پارہ کردی ۔وہی قائداعظم آپ سے کہہ رہے ہیں جاوید !! اس موقع کی ضائع نہ کرنا،اس ملک کی قسمت تمھارے ہاتھ میں آئی ہے،اسے ایسا بناؤجیسا میں چاہتا تھا زبردست کو نہ چھوڑو او ر زیرِ دست کو نہ جھڑکو!گردن بلندوں کو قانون کے شکنجے میں کسو، جو فرعون بنے پھرتے ہیں انہیں قانون کے کڑ کڑاتے کوڑوں سے درست کرو،اس مملکت میں کوئی شہزادی ہو نہ شہزادہ، نیب بلائے اور کوئی نہ آئے،تو اسے زنجیروں میں باندھ کر بلواؤ،کوئی استثنا مانگے تواسے کہوپہلے سانس لینے میں استثنا مانگے۔مسند اور بوریا کا فرق مٹا ڈالو!۔
‎جسٹس صاحب!کچھ لوگ تاریخ کے پیچھے بھاگتے ہیں اور تاریخ انہیں پکڑائی نہیں دیتی،آپ خو ش بخت ہیں،کواڑ کھول کر باہر دیکھیے،تاریک آپ کی دہلیز پر کھڑی ہے،اس کے ہاتھ میں قلم ہے اور قرطاس،کہہ رہی ہے،جاوید اقبال،جو چاہو گے لکھوں گی،انصاف کرو گے تو منصف قرار دوں گی، جانبداری کرو گے تو ظالم کا خطاب دوں گی، ملک کا خزانہ بھرو گے تو عادل کہلاؤ گے،خزانہ لوٹنے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھو گے تو سارا صفحہ ہی سیاہ کردوں گی۔،ایسی سیاہی جو کھرچی نہ جا سکے گی،ہمیشہ رہنے والی سیاہی۔
‎جسٹس صاحب آپ اس شہر میں یقیناً گئے ہوں گے جس کی مٹی اڑاتی گلیوں میں امام مالک برہنہ پا پھر اکرتے تھے،اور درس دیتے وقت نام نہیں لیتے تھے،فقط اس طر ح فرماتے تھے کہ اس قبر میں استراحت فرمانے واے نے یہ فرمایا،اس شہر پر سبز گنبد ہے،گنبد پر آسمانی پرندے ہیں زمین پر بہشت سے اترے ہوئے کنکر ہیں،اب کے جائیں تو سنبھل کر،اب کے معاملہ پہلے والا نہ ہوگا۔ اب کے پوچھا جائے گا جاوید اقبال!میں نے تو یہ کہا تھا کہ میری لخت جگر فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹ دوں گا،تم نے کہیں کسی حکمران کی اولاد کو تو نہیں چھوڑ دیا،جسٹس صاحب یہ سوال قیامت ڈھائے گااس سوال کا جوا ب دینے کے لیے اپنے آپ کو ضرور تیار کیجئے،اس سوال سے مفر نہیں!آپ اس زندگی میں ،یہ منصب سنبھالنے کے بعد وہاں نہ بھی گئے تو یہ سوال حوضِ کوثر کے کنارے پوچھا جائے گا،
‎اب اس سوال سے بچنے کی کوئی صورت نہیں!آپ یہ سوال اپنے گلے میں ڈال چکے ہیں،آپ انصاف کی میزان ہاتھ میں پکڑ چکے ہیں آپ نے اس وادیء پُر خار کا سفر اپنی مرضی سے اختیار کیا ہے، اب سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
‎جسٹس صاحب! آپ کے بچے پوتے،پوتیاں،نواسیاں سلامت رہیں، آپ ان سے پھولوں تتلیوں ،خوش رنگ طائروں سے جی بھر کر کھیلیں،ذرا ذہن میں رکھیے گا کہ ان پوتوں،نواسوں اور ان کی اولادوں کا سر فخر سے بلند کرنے یا ندامت سے جھکانے کا انتخاب آپ کی مٹھی میں ہے،آپ کی مٹھی میں !!!
‎ستر سال سے ہم بھٹک رہے ہیں، دشت و بیاباں کی خاک چھان رہے ہیں،کبھی ایک پہاڑپر چڑھتے ہیں کبھی دوسرے سے چھلانگ لگاتے ہیں،منزل کاسراغ ہے نہ راہ میں کوئی سنگ میل،ہم عزیزبلوچوں ،عیان علیوں،کو پکڑتے ہیں مگر انہیں نہیں پکڑتے جن کے یہ کارندے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ٹیکسوں سے دولت کے انبار کھڑے کرنے والے بددیانت حکمران سمندر پار اپنے ٹھکانے بنا چکے،محلات جائیدادیں گراں بہا اپارٹمنٹ خرید چکے،ان کی عیدیں،ان کے تہوار،ان کے علاج معالجے،ان کی قومیتیں،سب دساور کی ہیں،ہم بے بس ہیں،ہم پر ان کے بچے،ان کی بیٹیاں،یہاں تک کہ ان کے داماد حکومت کررہے ہیں،پورا ملک مزارع بن چکا ہے، پوری قوم ہاریوں کی صورت اختیار کرچکی ہے، مگر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا،ایک عامی حکم سے سرتابی کرے تو نیب اسے مدتوں پسِ زنداں رکھتی ہے،مگر یہ حکمراں،یہ امرا،یہ عمائدین، یہ طبقہ بالا کے خود سر ،خود نگر، اور خود پسند نمائندے،
‎افسوس! ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،یہ ملزم بن کر پیش ہوں تب بھی سینکڑوں پہریداروں اور بیسیوں لیموزینوں کے ساتھ شاہانہ کروفر میں سر سے پا تک ڈوبے ہوئے پیش ہوتے ہیں، گردیں ان کی اکڑی ہوئی ہیں، جبینیں ان کی شکنو ں سے بھری ہوئی ہیں پاؤں ان کے زمین پر یوں پڑتے ہیں جیسے زمین کو پھاڑ ہی تو دیں گے، ریاست کے ملازموں کو یہ ذاتی غلام سمجھتے ہیں اور اپنے کروفر کو دوبالا کرتے ہیں،عدالتوں کی تضحیک کرتے ہیں،قانون ان کے لیے وہ قالین ہے جس پر بوٹوں سمیت چلتے ہیں،آئین ان کے لیے وہ گیند ہے جسے ہوا میں اچھا ل کر یہ لطف اندوز ہوتے ہیں،
‎جسٹس صاحب! قوم آپ کی خدمت میں ہاتھ باندھ کر،ادب سے التماس کرتی ہے ،کہ ان سے رہائی دلوائیں، مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک شہری کو مارا،مارتے وقت کہتا رہا "میں بڑوں کی اولاد ہوں "اس مظلوم کے ہاتھ میں حضرت عمرؓ نے درہ دیا اور کہا کہ اسے مار ،وہ مارتا جاتا اورآپ کہتے جاتے، اسے مار،یہ بڑوں کی اولاد ہے۔
‎جسٹس صاحب ،بڑوں کی اولاد کو جوا اس قوم کے نحیف کندھوں سے اتار پھینکئے آپ کے پاس اختیار ہے،موقع بھی اور وقت بھی۔
‎خیری کن ان فلاں و غنیمت شمار عمر
‎زاں پیشتر کہ بانگ برآں فلاں نماند
‎یہ وقت جو ملا ہے اسے غنیمت جانیے اس سے پہلے کہ لہور گوں میں سرد ہوجائے اور آواز دینے والا آواز دے کہ معاملہ ختم ہوچکا!


Viewing all 1914 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>