Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1914 articles
Browse latest View live

‎وسیلے غیب کے لیکن ہمارے ہاتھ میں ہیں

$
0
0

‎وزیر اعلیٰ اگر برا نہ مانیں اور کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس جائیں تو کیا عجب اس اذیت سے چھٹکارا پا لیں، جس میں وہ مبتلا ہیں،گرسنگی سے تنگ آئے ہوئے قلاش نےچاند ستارو ں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
‎بابا مجھے تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں۔۔ 
‎وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر عمران خان سوار ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کی لیڈری کی چمک دمک قائم ہی اسی لیے ہے کہ شہباز شریف صاحب اسے ہمیشہ خبروں میں رکھتے ہیں۔
‎"جو پشاور میں کچھ نہ کرسکے،ہمارے منصوبوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں "
‎"منافقت چھوڑو،اشتہار بازی سے قوم کو گمراہ نہ کرو"
‎ "مخالفین کو ڈر ہے اورنج ٹرین بن گئی تو انہیں لاہور سے ووٹ نہیں ملیں گے"
‎"نیازی صاحب کو جھوٹے الزامات کا جواب دینا پڑے گا"
‎"اپنے صو بے میں صحت عامہ ٹھیک کر سکے نہ میٹرو ٹرین"
‎یہ سرخیاں تو پرنٹ میڈیا کی ہیں،عارضے کا اصل رنگ دیکھنا ہو تو ٹی وی پر بولتے سنیے،تین چار دن پہلے ایک اینکر پرسن انٹرویو لے رہا تھا ،بیچارہ بار بار کوشش کرتا کہ وزیر اعلیٰ اس کے سوالوں کے جواب دیں مگر سوئی تھی کہ نیازی صاحب پر اٹکی ہوئی تھی، بالآخر اس نے کہا کہ عمران خان کا الگ انٹر ویو لیا ہے یا شاید یہ کہا کہ لیں گے، مگر وہ اپنے پسندیدہ موضوع سے ہٹنے کو تیار ہی نہ تھے۔ 
‎دماغی امراض کے شفا خانے میں ایک مریض کے اعصاب پر غلیل چھائی ہوئی تھی،، اس سے پوچھتے باہر جا کر کیا کرو گے؟ جواب دیتا غلیل بنا کر نشانہ بازی کروں گا۔ڈاکٹر نے ٹارگٹ مقرر کیا کہ جس دن اس کا جواب مختلف ہوگا اس کو نارمل قرار دے کر فارغ کردیں گے، سال گزر گیا ۔سال کے بعد بلایا گیا، پوچھا باہر جاکر کیا کرو گے،جناب نئی سائیکل خریدوں گا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر رونق آگئی،ما شا اللہ،سائیکل پر سوار ہو کر کہاں جاؤ گے؟۔۔۔جی جانا کہیں نہیں،اس کی ٹیوب کاٹ کر غلیل بناؤں گا،
‎ایک سال گزر گیا،پھر انٹر ویو ہوا،باہر جا کر کیا کرو گے؟۔۔کسی اچھے برانڈ کا امپورٹڈ سوٹ خریدوں گا،نکٹائی اورانڈر وئیر کے ساتھ،ڈاکٹر کو یقین تھا کہ آثار صحت کے ہیں،پہن کر کہا ں جاؤ گے؟۔۔۔ جی پہننا کیا ہے،انڈر وئیر سے الاسٹک نکال کر غلیل بناؤں گا۔
‎چلیے آپ نے میٹرو بنا لی،موازنہ صرف کے پی سے کیوں کرتے ہیں،سندھ والوں سے بھی تو کہیے نا کہ ہماری حکومت ہوتی تو چار جگہوں پر میٹرو چلا دیتے۔ مگر کے پی کا ذکر اس لیے بار بار کرتے ہیں کہ خطرہ مراد علی شاہ یا زہری سے نہیں بلکہ عمران خان سے ہے۔کیا پتہ نیند میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہوں کہ عمران خان آرہا ہے۔
‎سیاستدانوں میں حلم ہوتا ہے نہ متانت،شائستگی ہوتی ہے نہ صبر و ضبط،الا ماشااللہ،مولانا مودودی اور فیض صاحب نے عمر بھر مخالفین کے خلاف کچھ نہ کہا، ذکر تک نہ کرتے، لوگ توجہ دلاتے، لقمے دیتے،کوشش کرتے کہ کچھ کہیں، بات بڑھے اور آگ پر ہاتھ سینکے جائیں،مگر اشتعال دلوانے والے کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ کیا لوگ تھے،اس آیت کی عملی تفسیر کہ جب بھی لغو کے پاس سے گزرو تو بس متانت سے گزر جاؤ۔
‎اہل ِ سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے پروگرام،اپنے نصب العین،اپنے منشور کے بارے میں بات کرے۔یوں لگتا ہے سامنے دستر خوان بچھا ہے،اس پر مخالف کی ہڈیاں اور گوشت پڑا ہے ۔گوشت کھا رہے ہیں، اور ہڈیاں چچوڑ رہے ہیں،چچوڑ نے کے وزن پر لفظ تو ایک اور بھی ہے مگر چلیے،جانے دیجئے۔۔۔ اس کا 
‎استعما ل نہیں کرتے۔
‎پرسوں وزیر اعظم نے دارالحکومت سے جنوب مغرب کی طرف 83کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں میں تیل اور گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کا افتتاح کیا،تصویر میں ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ بھی کھڑے ہیں،قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ وہی گاؤں ہے جس کے لیے دس سال پہلے میجر طاہر صادق کی ضلعی حکومت نے ڈسپنسری منظور کی تھی، گاؤں والوں نے زمین ناصرف دی بلکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر جاکر حکومت کے نام بھی کردی، اس کے فوراً بعد لاہور کا شاہی خاندان برسرِ اقتدار آگیا۔ وہ دن اور آج کا دن خادمِ اعلی کی حکومت نے اس ڈسپنسری کے فنڈ جاری نہیں کیے۔ڈی سی او نے کیس بھیجا،گاؤں کے مکینوں نے اخبارات کے ذریعے دہائی دی،مگر بیس لاکھ روپے ریلیز نہ ہوئے۔شاید اس لیے کہ ضلعی حکومت سیاسی مخالف تھی۔یا شاید اس لیے کہ ایک کالم نگار جو راس نہیں آتا ا،اس گاؤں سے تھا۔
‎یہ جو خلق خدا تخت لاہور سے نفرت کرتی ہے توبے سبب نہیں، آپ اندازہ لگائیے وسطی پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں میں کچھ ہوجائے تو بیوروکریٹس کو غلاموں کی طرح ساتھ لیے فوٹو گرافروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ حضرت پہنچتے ہیں مگر راولپنڈی میں کچھ سال پہلے محرم کے موقع پر اتنا بڑا سانحہ ہوا،قیامت گزر گئی، مگر وہاں نہ آئے۔
‎ان کی کچن کابینہ ہو یا نوکر شاہی ان میں عدم تحفظ کا احساس اتنا شدید ہے کہ وسطی پنجاب کی ایک چھوٹی سی تنگ سی پٹی کے باہر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ان کے قریب ترین ساتھی دیکھ لیجئے، جناب عابد شیر علی ،جناب خواجہ سعد رفیق،محمد آصف صاحب، اسحاق ڈار،خرم دستگیر،احسن اقبال،رانا ثنا اللہ،طلال چوہدری،دانیال عزیز،سب اسی پٹی سے ہیں۔باقی سارے پنجاب سے ایک دو،اندرون سندھ سے کوئی نہیں،کراچی سے ایک آدھ،کے پی سے ایک آدھ یا زیادہ سے زیادہ دو۔
‎1999میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اس کے فوراً بعد ایک معروف انگریزی معاصر نے پے در پے خبریں شائع کیں کہ کس قدر کوتاہ نظری اور تنگ دلی کے ساتھ امورِ مملکت چلائے جارہے تھے،چالیس سے زیادہ کلیدی اسامیوں پر بیٹھے ہوئے بڑے بڑے بیوروکریٹ ایک خاص علاقے ایک خاص برادری سے تھے،وزیر اعظم نے تیس افراد ایف سی آئی میں رکھوائے، جن میں سے ستائیس اٹھائیس ایک خاص برادری اور علاقے کے تھے۔
‎صدر ایوب نے دارالحکومت کراچی سے شمال منتقل کیا تو ایک دل جلے نے(شاید ان کا نام حسن اے شیخ تھا)کہا تھا کہ ہاں،سمندر بھی اٹھا کر اسلام آباد لے جاؤ۔خدا کی قسم ان کا بس نہیں چلتا،ورنہ یہ تیل بھی رائے ونڈ کے نواح میں نکالتے۔ان کی بینائی اتنی ضعیف ہے کہ اپنے شہر سے پرے دھند اور خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا،انصاف ہوتا تو سب سے پہلے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان انڈر گراؤنڈ ریلوے کی تعمیر ہوتی۔اورنج ٹرین سے لے کر پلوں،شاہراہوں اور انڈر پاسسز تک ہر تعمیراتی کام صرف ایک شہر میں ہوا۔؎
‎وفاقی دارالحکومت میں ایک مجبور و مقہور شاہراہ ہے جسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں،اس پر ائیر پورٹ چوک سے لے کر روات والے چوک(جی ٹی روڈ)تک سفر کریں تو اذیت کرب اور ذہنی دباؤ کے سبب عوام کا بھیجا جسم سے باہر نکلنے کو ہوتا ہے۔چند کلو میٹر کا یہ فاصلہ گھنٹو ں میں طے ہوتا ہے۔سڑک کا یہ ٹکڑا لاہور میں ہوتا تو برسوں پہلے اس مسئلے کا حل ہوچکا ہوتا۔
‎مگر قدرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان دور افتادہ محروم توجہ علاقوں کے بہت سے پہلو قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھےہیں - انہی میں معدنیات بھی ہے،واہ رے قدرت!جس بستی میں دس سال سے حقیر رقم نہیں دی جارہی وہاں صوبے کے حکمران اعلیٰ کو بنفس نفیس آکر،وزیر اعظم کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔
‎میں کوچہ ء رقیب میں بھی سَر کے بَل گیا!
‎یہ علاقے جو اس شاہی خاندان کو نظر ہی نہیں آتے،جنوبی پنجاب،بہاولپور،اٹک،میانوالی اور کچھ اور ، یہاں کے غریبوں کو قدرت نے ایسا ایسا ٹیلنٹ عطا کیا ہے کہ بقول ایک مشہور و معروف کالم نگار ان کے بدشکلے،بد عقلے بچے اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔یوں بھی سرکاری وسائل سے جمع شدہ پروٹوکول کے سوا ان کے پلے کیا ہے؟ہزاروں پہریداروں،ایلیٹ فورس،پولیس،سرکاری گاڑیاں، خوشامدیوں کے غول،بے پناہ حکومتی وسائل، یہ نہ ہو تو انہیں کوئی فیکٹری میں فورمین اور اپنے ادارے میں کلرک بھی نہ رکھے۔
‎یہ چند نہیں،ہزار بیش بہا اپارٹمنٹ،دنیا کے عظیم الشان شہروں میں خرید لیں،کارخانے لگا لیں،سونے کی بنی ہوئی بی ایم ڈبلیو گاڑیا ں سواری کے لیے لے لیں،انہیں آکسفورڈ،کیمبرج اور ہاورڈ کے دروازوں کے قریب بھی نہ جانا نصیب ہوگا۔اس لیے کہ ذہانت،عقل ٹیلنٹ قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔اس کائنات کا پروردگار ایسے لوگوں کو دولت بے پناہ دیتا ہے اور اقتدار بھی، مگر ذہانت اور ٹیلنٹ نہیں دیتا،تاکہ یہ ایکسپوز ہوں۔ان کی قلعی کھل جائے۔
‎تین بار وزیر اعظم رہنے والے جہاں پناہ سے کہیے کہ تین منٹ،صرف تین منٹ،پاکستان کے تعلیمی نظام پر، یا پاکستان میں مطلوب زرعی اصلاحات پر،یا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرکے دکھا دیں، یا یہ پوچھ لیجئے کہ ان کے ذہن میں پولیس کا یا بیورو کریسی کا نیا نظام کیا ہے۔؟
‎تمھارے جاہ و ثروت سے ہمیں انکار کب ہے
‎وسیلے غیب کے لیکن ہمارے ہاتھ میں ہیں!



ککی اور میں

$
0
0

جنوری 2013 کی ایک ٹھٹھرتی شام تھی،جب ڈین شمالی فرانس سے جنوبی فرانس کے ساحلی شہر گراسے پہنچی،اسکے ساتھ اس کا بہترین دوست دس ماہ کا بلا ککی تھا ۔
ڈین شاعرہ تھی اور آرٹسٹ ،جہاں کام مل جاتا وہاں چلی جاتی ۔مستقل قیام نارمنڈی میں تھا جو فرانس کا شمالی علاقہ ہے۔اگر نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسے جنوب مشرق سے اور نارمنڈی شمال مغرب میں یعنی دونوں مقامات کے درمیان جتنا زیادہ سے زیادہ فاصلہ فرانس کے طول و عرض کے حساب سے ممکن ہے۔اتنا ضرور ہے۔
گر اسے میں ڈین نے تین ماہ کے لیے ہوٹل میں کمرہ لے لیا ، ککی کا زیادہ وقت کمرے ہی میں مالکن کی معیت میں گزرتا تھا۔بہت دنوں بعد ایک دن ڈین کو خیال آیا کہ ہر وقت کمرے میں بند رہ رہ کر ککی بور ہو رہا ہوگا چنانچہ اس نے اسے باہر نکالا اور باہر چھوٹے سے صحن میں چھوڑ دیا ۔ بدقسمتی انتظار کررہی تھی،ککی وہاں سے گم ہوگیا ،یہ مارچ کا ساتواں دن تھا ۔
ڈین پر قیامت گزر گئی،روتی اور ککی کو ڈھونڈتی تھی،مقامیڈ اخبارات میں اشتہارات دیے ، گلی گلی پوسٹر لگائے۔ بینر نصب کرائے ۔ ہوٹل والوں نے بھی پوری ہمدردی کا اظہار کیا ، مگر ککی نے نہ ملنا تھا،نہ ملا ۔اب ڈین کا قیام اختتام پذیر ہورہا تھا۔ اس نے رختِ سفر باندھا او ر شکستہ دل اور بوجھل قدموں سے واپس شمالی فرانس کی طرف روانہ ہوئی۔دکھ بہت تھا۔ جب سوچتی کہ جانے دس ماہ کا ککی کہاں ہوگا ،کھانا ملا ہوگا کہ نہیں ،تو اس کا دل جیسے پگھل جاتا ، پھر اس نے دپ پر پتھر رکھ لیا ۔ نارمنڈی پہنچ کر دنیا کے دھندوں میں مصروف ہوگئی۔کوئی بلا یا بلی نظر آتی تو دل اداس ہوجاتا۔
ڈیڑھ سال گزر گیا ایک دن حیوانات کے ایک ڈاکٹر کی طرف سے اسے فون موصول ہوا ،ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ایک بلا علاج کے لیے لایا گیا ہے،اس پرمائیکرو چپ لگی ہے،جو آپ کے نام کی طرف رہنمائی کرتی ہے،ڈین بھاگم بھاگ پہنچی،اسے یقین نہ آتا ،مگر سامنے ککی تھا ۔ ازحد لاغر حالت میں بال جھڑ چکے تھے ،نحیف اتنا کہ ہڈیاں نظر آرہی تھیں ،کھڑا مشکل سے ہوپاتا ،گر کہا جائے کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا تو غلط نہ ہوگا،حیوانات کے ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک عورت علاج کے لیے اسے لائی،ڈاکٹر نے مائکرو چپ دیکھی تو جیساا س کا اخلاقی اور قانونی فریضہ تھا ،اس نے اصل مالکن کو بلا لیا۔جو عورت ڈاکٹر کے پاس لائی تھی،وہ دینا نہیں چاہتی تھی،ڈین نے پولیس سے مدد مانگی،پولیس نے اس عورت سے بات کی اور سمجھایا کہ اصل مالکن کا ملکیت کا دعویٰ مائکرو چپ سے تصدیق شدہ ہوچکا ہے ۔ڈین کو بلا واپس مل گیا ۔
آپ کا کیا خیال ہے ککی نے گراسے سے نارمنڈی تک کتنا فاصلہ طے کیا ہوگا؟۔۔سو دو سو میل؟۔۔نہیں ۔۔۔۔سات سو میل!پورے سات سو میل،کلو میٹر جس کے ایک ہزار ایک سو چھبیس بنتے ہیں ،ککی نے یہ فاصلہ ڈیڑھ سال میں طے کیا ،وہ چلتا رہا، اس جبلت کی رہنمائی میں ،جو قدرت نے اس کے اندر رکھی تھی،چلتا رہا،اس مخلوق کے ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ راتوں کو سفر کرتا اور دن کو کہیں چھپ کر سو جاتا،اٹھارہ ماہ بعد جب وہ اپنے شہر پہنچا، اور اپنی مالکن کے گھر کی طرف جارہا تھا ،تو اس کی حالت نا گفتہ بہ تھی ،ازحد نحیف،یوں چل رہا تھا جیسے اپنے آپ کو گھسیٹ رہا ہو ، عورت نے دیکھا تو لاوارث سمجھا - پکڑ کر اپنے گھر لے گئی، اور پھر باہر نہ جانے دیا ۔ یہ بھی اسے فکر تھی کہ اس کا علاج ہونا چاہیے۔ڈاکٹر کے پاس گئی تو معاملہ اور نکلا۔
بلے بلیوں کے علاوہ ہنس بھی راتوں کو اڑتے ہیں اور دن میں شکاریوں کے خؤف سے چھپے رہتے ہیں مگر ہنس اور بلے میں فرق ہے ،ہنس عام طور پر ڈار کی صورت میں اڑان بھرتے ہیں ،جبکہ ککی نے گیارہ سو کلو میٹر کا فاصلہ تن تنہا طے کیا ۔
میں نے ککی کا موازنہ اپنے آپ سے کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں وفاداری اور محبت کے حوالے سے ککی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔حالانکہ کی ککی کی مالکن ڈین کے جو احسانات ککی پر تھے ،میرے مالک کے احسانات مجھ پر کئی گنا زیادہ ہیں ۔
پہلے یہی دیکھیے کہ ککی ڈین نے نہیں بنایا ،وہ اسے بنا بنایا ملا،دوسری طرف میرا وجود ہی نہ تھا، میرے مالک نے مجھے مٹی اور پانی سے بنایا۔پہلے میں لوتھڑا تھا ۔پھر اس نے مجھےشکل اور جسم میں تبدیل کیا ،پھر مجھ میں جان ڈالی،پیدا ہونے کے بعد اس نے مجھے ایک مرد اور ایک عورت کے سپر دکیا ، جو ہمہ وقتی میری دیکھ بھال کرتے تھے۔میں اس دیکھ بھال کے بدلے ایک پائی تک اس مرد اور عورت کو ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا ۔ وہ راتوں کو جاگتے ،میں تواپنے جسم پر بیٹھی مکھی تک نہ ہٹا سکتا ۔خاتون نے مجھے دودھ پلایا، میرا بو ل و براز صاف کیا ۔اس مرد نے میری ساری ضروریات کا ،نشو و نما کا تعلیم کا ،علاج کا ، شادی کا ،مالی اور سماجی بوجھ اٹھایا۔
غؤر کیجئے ،کہ ککی کے اندر جو مشینری نصب تھی جس کی مدد سے وہ کھاتا ،کھانا ہضم کرتا ۔،سانس لیتا ،حرکت کرتا ،چلتا ،سوتا ۔اس مشینری کا کوئی ایک پرزہ بھی ڈین کا عطا کردہ نہیں تھا ۔جبکہ میرے اندر جو مشینری ہے اس کا ایک ایک پرزہ ایک ایک کل، ایک ایک رگ، ایک ایک آرٹری ۔خون کا ایک ایک قطرہ،اندر جاتی اور باہر آتی سانس کی ایک ایک رمق، سب کچھ میرے مالک نے مجھ میں فکس کیا ہے۔ سات عشروں سے میں چل رہا ہوں ،کھانا کھا رہا ہو ں ،سانس لے رہا ہوں ،یہ مشینری مسلسل کام کر رہی ہے۔ان سات دہائیوں میں دل کی مشین نے ایک ثانیے کے لیے بھی چلنا بند نہ کیا ،آنکھیں دیکھ رہی ہیں ،پاؤں چل رہے ہیں ،ہاتھ ڈھیر سارے کام کررہے ہیں ،دماغ سوچ رہا ہے ،یہ سب کچھ میرا مالک کررہا ہے اور کیے جارہا ہے،اور میری نافرمانی دیکھیے کہ ککی ایک بے زبان جانور ہوتے ہوئے ،ایک معمولی بے حد چھوٹے سائز کا حیوان ہوتے ہوئے،گیارہ سو کلو میٹر چل کر اپنی مالکن کے پاس پہنچا،دوسری طرف میرا مالک کہیں زیادہ نزدیک ہے،
آپ کا کیا خیال ہے۔۔کتنا نزدیک ہوگا ؟۔۔پانچ سو کلو میٹر؟نہیں !دوسو کلو میٹر؟نہیں ! ،چند گز دور؟،میرے گھر کے باہر گیٹ کے پاس ؟،گھر کے اندر بالائی منزل پر؟نہیں ،گراؤنڈ فلور پر،میرے اپنے کمرے میں ،نہیں ! وہ میرے دل سے بھی زیادہ قریب ہے۔اس کی موجودگی میری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔وہ میرے اور میرے دل کےدرمیان حائل ہے۔پھر بھی میں اس کی طرف نہیں جاتا ،ہر رات صبح کاذب سے پہلے ایک فرشتہ پکارتا ہے،ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا ؟۔۔مگر میری سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ میں سویا رہتا ہوں ،اس نرم بستر پر جو اسی نے مہیا کیا ہے۔حالانکہ ککی کی نسبت میری صحت کہیں زیادہ بہتر ہے،وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔،نحیف و نزار ہوگیا ،پھر بھی اپنی مالکن کی طرف چلتا رہا ،چلتا رہا۔۔۔
دوسری طرف میں تندرست ہوں ،مالک نے ہر آسائش عطا کی ہے مگر میں اس کی طرف چلنے کے بجائے دوسرے دھندوں میں گرفتار ہوں ، کوئی انسان مجھ پر ذرا احسان کردے تو میں اس کے گھر جا پہنچتا ہوں ، ہاتھ میں تحائف لیے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی کام پڑے گا تو جان لڑا دوں کا مگر مالک ، جس کے احسانات کا شمار نہیں ، مجھے یاد نہیں آتا وہ کوئی تحفہ بھی نہیں مانگتا ۔اسے اپنے کسی کام کے لیے میری ضرورت بھی نہیں اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ میں اس کی طرف بڑھوں،اس کی طرف بڑھنے کے لیے مجھے ایک قدم بھی نہیں چلنا ،اپنی شہہ رگ کی طرف کیسے چلوں گا؟۔۔
۔مجھے تو بس یاد کرنا ہے،نام لینا ہے ،اس کا ذکر کرنا ہے،شکر کرنا ہے۔اسکی تعریف ،تسبیح ،تحمید کرنی ہے۔اس کا یہ مطالبہ بھی نہیں کہ سارے کام چھوڑ دوں اور بس تعریف ،تسبیح ،تحمید اور تہلیل کے لیے بیٹھ جاؤں ،اس نے تو یہاں تک اجازت دی ہے کہ دنیا کے سارے کام کرتا رہوں ،بس دل میں اسے یاد کروں ،یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غلط کام نہ کروں ،اپنے بچوں کے لیے روزی کماؤں ،غلط طریقے سے نہیں ،حلال اور جائز طریقے سے،تو یہ بھی اس کے ذکر میں شمار ہوگا ۔وقت پر دفتر جاؤں ،دیانتداری سے کام کروں ،اپنی ڈیوٹی کا وقت کسی اور کو نہ دوں ،تعجب یہ ہے کہ اسکا معاوضہ ملے گا،مگر ساتھ ہی یہ نیکی میں شمار ہوگا ،اس لیے کہ مالک کے احکام کے مطابق دیانتداری سے کام کرتا ہوں ،یہ بھی ذکر میں شمار ہوگا ۔
آپ دیکھیے کہ ککی کی نسبت میرا کام کس قدر آسان ہے، کہاں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور کہاں شہہ رگ سے بھی قریب،او تقاضا کیا ہے؟۔۔۔صرف اتناکہ کوئی غلط کام نہ کروں ،کسی کو دھوکہ نہ دوں ،کسی سے وعدہ خلافی نہ کروں ،دفتر کارخانےمیں وہ کام جس کا معاوضہ لینا ہے پورا پورا کروں ،تاجر ہو ں تو ملاوٹ نہ کروں ،جھوٹ نہ بولوں ،فروخت کرتے وقت شئے کا نقص نہ چھپاؤں ،رشتہ دار ہوں تو صلہ رحمی کروں ،باپ ہوں تو اولاد کو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے تیار کروں ،مزے کی بات یہ ہے کہ مالک سے بے خبر رہوں تب بھی یہ کام تو کرنے ہیں ،کرتے وقت مالک کی ہدایات پر عمل کروں تو مالک خوش، اور انعامات اس قدر دے کہ سنبھالے نہ سنبھلیں ،
افسوس ! میں ککی سے بھی بدتر ہوں ،حالانکہ وہ چوپایہ ہے،اور میں اشرف المخلوقات انسان۔کاش میں ککی سے ہی کچھ سبق سیکھ لوں !


خوراک کا عالمی دن

$
0
0

یہ واشنگٹن کا ایک ریستوران تھا گاہک آجارہے تھے -کچھ کھانے میں مصروف تھے،ایک کونے میں پاکستان سے آئے ہوئے اعلیٰ سطح کے وفد کو عشائیہ دیا جارہا تھا ،عشائیہ کیا تھا؟پہلے سب کو ایک ایک پلیٹ میں سلاد پیش کیا گیا ،اس کے بعد مچھلی،اصل کھانا یہی تھا ، آخر می میٹھا تھا ، ہر مہمان کو اختیار تھا کہ چاکلیٹ لے یا پنیر کا کیک،
آپ کا کیا خیا ل ہے،واشنگٹن سے وفد آئے تو پاکستان میں اس کا عشائیہ اسی طرح کا ہوگا؟
ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے وا)اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، جو عالمی خوراک سے متعلق ہے۔ 1979میں ایف اے او نے فیصلہ کیا کہ سولہ اکتوبر کا دن عالمی یومِ خوراک کے طور پر منایا جائے گا ۔ہر سال اندازہ لگایا جاتا ہے کہ زیادہ ضرورت کس پہلو کی ہے، اس خاص پہلو کو سامنے رکھ کر اس سال کا مرکزی خیال یا موضوع چنا جاتا ہے۔پھر اس کی تشہیر کی جاتی ہے ،اور اس سال کا عالمی یوم خوراک اسی حوالے سے منایا جاتا ہے،
کچھ برسوں کے موضوعات یا مرکزی خیال دیکھیے۔۔۔
2001،غربت کم کرنے کے لیے بھوک کم کیجئے!
2002،پانی،خوراک کا ذریعہ پانی ہے!
2003،بھوک کا مقابلہ عالمی اتحاد سے!
2005،ذراعت کی ترقی کے لیے بین الثقافتی مکالمہ!
2007،خؤراک ہر شخص کا بنیادی حق ہے!
2016،آب و ہوا بدل رہی ہے،ذراعت بھی بدلو!
2017،ہجرت کا مستقبل بدلو،دیہات کو ترقی دو تاکہ لوگ شہر کا رخ نہ کریں ۔
پوری دنیا میں خوراک کا ضیاع عام ہے،مگر جس طرح خوراک مسلم ملکوں میں ضائع کی جاتی ہے،اسکی مثال غیر مسلم ملکوں میں شایدہی ملے۔
مسلمان ملکوں کے بادشاہ بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو جہاز سےاترنے کے لیے سونے کی سیڑھیاں ساتھ ہوتی ہیں،پندرہ پندرہ پھیروں میں جہاز سامان پہنچاتے ہیں ،پورے پورے ساحل ،پورے پورے ہوٹل بک کرائے جاتے ہیں ،خوراک کا انتظام بھی اسی سے قیاس کیجئے!۔
یہ لوگ کتنا کھانا پکواتے ہیں ،تصور سے ہی ماورا ہے،جدہ میں ایک بار مشاعرہ میں شرکت کی،عمرہ کے بعد مدینہ منورہ لے جائے گئے،چائے پینے کے لیے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے،ایک میز کے گرد فرش پر چاول ہی چاول تھے،بتایا گیا کہ ابھی کچھ مقامی حضرات کھانا تناول فرما کر نکلے ہیں ،ایک اور ملک کے بارے میں ایک صاحب نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ وہاں روٹیوں کی ایک قسم اتنی پتلی ہے کہ جیسے کاغذ، اسے وہا ں کے لوگ ہاتھ پونچھنے کے لیے بھی استعمال کرجاتے ہیں ،اور ہاتھ پونچھ کر ٹشو پیپر کی طرح پھینک بھی دیتے ہیں ،
فارسی میں کہا جاتا ہے،خورد ن برائے زیستن است ، نہ زیستن برائے خوردن،
خؤراک کا مقصد زندہ رہنا ہے، نہ یہ کہ زندگی کا مقصد بس کھاتے رہنا ہے ۔
کون بھول سکتا ہےکہ عمران کے دھرنے کے وقت جب نواز شریف گہرے پانیوں میں تھے تو مدد کے لیے آواز لگائی،یا آصف زرداری !
چنانچہ آصف زرداری پہنچے،74 اقسا م کے کھانے ان کئ دعوت میں حاضر کیے گئے۔
جس قوم کے رہنماؤں کی ذہنی سطح یہ ہوگی،اس قوم کی پستی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ،کراچی میں دھماکہ ہوا ،کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔اس دوپہر کو میاں نواز شریف ظہرانے میں مدعو تھے، (جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ظہرانہ کراچی چیمبر آف کامرس کی طرف سے تھا )اس موقع پر میا ں صاحب نے ظہرانہ کمزور ہونے کی شکایت کی!
رمضان کے مہینے میں مسلم دنیا میں اربوں کھربوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے،افطار کا اہتمام اس طرح کیا جاتا ہے،جیسے یہ زندگی کا آخری افطار ہے، کسی کی شرافت اور انسانیت کا اندازہ لگانا ہو تو شادی کی دعوت پر اس کا رویہ دیکھیے،بڑے بڑے شرفا کو نشست ایسی جگہ سنبھالتے دیکھا ہے جہاں سے کھانا قریب پڑے، گویا باقاعدہ مورچہ بندی کی جاتی ہے ، پھر کھانے کے اعلان پر جس طرح میمنہ اور میسرہ آگے بڑھتے ہیں ،جس حرص کے ساتھ پلیٹیں بھری جاتی ہیں ، کہنیاں ماری جاتی ہیں ،کھانا جس وحشت اور جنون کے ساتھ کھایا جاتا ہے،یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے،نہ جانے پسلیوں سے او رآنکھوں سے کیسے نکلے گی،
ہم نے زندگی کا مقصد کھانا پینا قرار دیا ۔
دوسرو ں نے عمل سے ثابت کیا کہ نہیں ،کھانا پینا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زندہ رہے، ریستورانوں میں گوشت جس مقدار میں کھایا جاتا ہے اس سے بیماریاں نہیں بڑھیں گی تو کیا ہوگا ؟۔۔۔پوچھیے سبزی میں کیا ہے؟۔۔۔ہر بار ،ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا"مکس سبزی"۔(اس میں آلو مٹر ہوتے ہیں )۔دال کا پوچھیے تو ماش کی دال ملے گی۔کسی ریستوران میں کریلے ،کدو،ٹینڈے،بھنڈی توری،شلجم،کچالو یا دوسری سبزیاں نہیں ملیں گی۔
اندازہ لگائیے ذوق کی اڑان کا !
تکے بوٹی،چرغہ،کڑاہی،بالٹی،ٹکاٹک،نہاری،پائے،ہریسہ،ستم بالائے ستم یہ کہ پیزا جو اٹلی سے چلا تھا ،اور نہائیت معصوم تھا ۔ یہاں پہنچ کر گوشت کی لپیٹ میں آگیا۔پورے پورے تکے پیزے کے اندر سے نکلتے ہیں ،اور تو اور نوڈلز میں گوشت پڑنا شروع ہوگیا،چینیوں نے نوڈلز ایجاد کیے،صدیوں کھائے،کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان میں گوشت پڑے گا ،۔ ہماری ایک رشتے کی بھابھی نے گاؤں سے آئے ہوئے سونبے جیسے سرسوں کے ساگ میں مرغی کا گوشت ڈال کر نیا ریکارڈ قائم کیا ۔سفاکی اور بربریت کا اندازہ لگائیے کہ اچار تک میں گوشت پڑنے لگا ہے۔
آسمان کو چھوتی اس طلب کو پورا کرنے کے لیے گدھے،کتے اور کوے بروئے کار لائے جارہے ہیں ،دارالحکومت کے ضلعی ہیلتھ آفیسر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ چوٹی کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں مردہ جانوروں کا گوشت پکایا اور کھلایا جارہا ہے ،قصاب کی دکان پر آؤ بھگت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو پورا پورا بکرا خریدتے ہیں ،ایک دو کلو والو ں کے ساتھ قصاب وہی سلوک کرتا ہے ،جو انگریز افسر مقامی نوکروں کے ساتھ کرتے تھے۔
اس بے انتہا گوشت خؤری کا نتیجہ یہ ہے کہ جسم پر چربی کی تہیں چڑھ گئ ہیں ۔مگر دماغ لاغر ہوگئے ہیں ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہورہی ہیں ۔ریستورانوں کی تعداد میں لامتناہی اضافہ ہورہا ہے ،کتابوں کی دکانیں ختم ہورہی ہیں ،لائبریریوں کا وجود عنقا ہورہا ہے۔
اب دوسری انتہا دیکھیے ،پندرہ ہزار ماہانہ کمانے والے ڈرائیور یا باورچی یا گھریلو ملازم کے گھر میں گوشت کتنی بار پک سکتا ہے ؟۔۔۔۔ٹی وی پر ایک عورت کا انٹر ویو سننے کا اتفاق ہوا ،اس کا ایک ہی بیٹا کماؤ تھا ،چند برس پہلے کی بات ہے تنخواہ اس کی دس ہزار روپے تھی،عورت کا کہنا تھا کہ صرف عید تہوار کے دن ہی گھر میں بڑا گوشت پکتا ہے ،عید الاضحیٰ آتی ہے تو ایسے مفلوک الحال گھروں میں کچھ دن دستر خوان پر گوشت نظر آتا ہے،سینکڑوں ہزاروں گاؤں ایسے ہیں ،جہاں قصاب کی دکان نہیں ہے ،بیمار گائے یا بھینس ذبح کرنی پڑے تو گوشت میسر آتا ہے،مرغیاں ،انڈے شہروں سے آنے والے بیوپاری لے جاتے ہیں ،ایک زمانہ تھا کہ کسان کی جیب میں چند سکے ہوتے تھے ،اس کے بعد بجلی آئی پھر موبائل فون آگیا،اب گیس بھی آرہی ہے،یہ سب وہ سہولتیں ہیں جو کسان کی کیش کو کھا جاتی ہیں ،گوشت کیسے لے سکتا ہے،جو کسر رہ جاتی ہے وہ بچوں کی شادیوں پر پوری ہوجاتی ہے۔
کھانوں کا کلچر عہدِ زوال سے شروع ہوا،مغلوں کو زوال آیا تو سلطنت کا کاروبار انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا،دہلی تھا ،یا لکھنو یا حیدرآباد،ہر دربار میں انگریز ریزیڈنٹ تعینات تھا ،جو اصل حکمران تھا ،ظلِ الٰہی کے پاس فراغت ہی فراغت تھی۔چنانچہ توجہ دستر خوان پر مرکوز ہوگئی۔حد یہ ہے کہ ان بادشاہوں اور نوابوں کے درمیان چپقلش کی وجہ باورچی بنتے تھے ۔ماش کی دال پکانے والا باورچی ،نظام سے ہتھیانے کے لیے اودھ کے بادشاہ کو کئی پاپڑ بیلنے پڑے ،نواب واحد علی شاہ کے خاصےمیں جو پلاؤ ہوتا تھا ،بتیس سیر گوشت کی یخنی سے تیار ہوتا تھا ۔ناشتے میں ہر روز دو سیر دیسی گھی،(اس وقت صرف دیسی گھی ہوتا تھا)خرچ ہوتا تھا،دستر خوان پر نئی نئی اختراعات برؤئے کار لائی جاتی تھیں ،ایک نواب صاحب نے اپنے حریف کو کھانے پر بلایا ،مہمان نے کوفتے کھائے تو وہ مٹھائی نکلی،کباب چکھا تو وہ مٹھائی تھی،یہ صناعی اس لیے دکھائی گئی کہ حریف کو زچ کیا جاسکے،عروج کے زمانے میں شیر شاہ سوری اور بابر، تیمور کو کھانا کھانے کا وقت ہی مشکل سے ملتا تھا ،کہتے ہیں بہت سی جنگیں مسلمانوں نے روزہ رکھ کر لڑیں ،
کچھ سر پھرے ہوں جو اس ضمن میں تحریک چلائیں ،مہمان ایک ہو یا بہت سوں کی ضیافت ہو،ایک ڈش ہو،ایک سالن،روٹی ،زیادہ سے زیادہ ساتھ چاول اور سلاد،
شادیوں پر ون ڈش کی کوشش کی گئی مگر مہم کامیاب نہ ہوئی ،احساس کمتری ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں بھرا ہے،عزت اور بڑائ پکوانوں کی تعداد پر منحصر ہے!


‫نیک نیتی سے پیش کی جانے والی ایک تجویز!‬

$
0
0
‫ ‬
‎‫رضا شاہ ماژندران کے ایک ضلع "سوادِ کوہ"میں پیدا ہوا ،ماں جارجیا کی مسلمان مہاجر تھی، باپ کا نام عباس علی خآن تھا جو فوج میں میجر تھا ۔ اس کا انتقال ہوا تو رضا شاہ مشکل سے آٹھ ماہ کا تھا، بیوہ ماں اپنے بھائی کے گھر تہران منتقل ہوگئی جلد ہی اس نے دوسری شادی کرلی اور بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کردیا ۔ماموں نے بچے کو ایک دوست کے ہاں بھیج دیا جو فوج میں افسر تھا ۔ رضا شاہ سولہ سال کا ہوا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔‬
‫ ‬
‎‫ ایران پر اس وقت خاندان قاچار کی بادشاہت تھی، رضا خان نے مشین گن چلانے کی خصوصی مہارت حاصل کرلی۔ پہلے کپتان اور پھر کرنل ہوا۔پھر بریگیڈئر بنا دیا گیا۔قسمت رضا خان کا ساتھ دے رہی تھی ۔1917 کا بالشویک انقلاب آیا تو روسیوں کی نظر تہران پر تھی، ادھر برطانیہ کو فکر تھی کہ روسی جنوب کی طرف آئے تو ہندوستان خطرے میں گِھر جائے گا ۔رضا خا ن نے برطانیہ کی شہہ پر چار ہزار فوجیوں کے ساتھ تہران پر قبضہ کرلیا ، نئی حکومت بنی تو رضا خآن کمانڈر ان چیف بھی بنا اور وزیر جنگ بھی بنا۔برطانوی اسے اسلحہ دے رہے تھے،تہران سے برطانوی سفارت خانہ اس کے بارے میں مثبت رپوٹیں بھیج رہا تھا ۔‬
‎‫1923 میں وہ وزیر اعظم بن گیا ،اور خاندان قاچار کا آخری چشم و چراغ احمد شاہ یورپ بھاگ گیا ۔س جہا ں سے وہ کبھی واپس نہ‬
‎‫آسکا۔"مجلس"(پارلیمنٹ )میں رضا خان کی مٹھی میں تھی۔دسمبر 1925 میں مجلس نے اسے ایران کا بادشاہ قرار دے دیا ۔یوں پہلوی خاندان کی بنیاد پڑی۔اس کے بیٹے محمد رضا نے1941 میں باپ کی جگہ بادشاہت سنبھالی۔اور 1979 تک بادشاہت کرتا رہا ۔باپ بیٹے دونوں کی بادشاہت کا عرصہ تقریباً 54 برس بنتا ہے ۔‬
‫ ‬
‎‫غور کیجئے یہ نصف صدی کا عرصہ ایران کے استحکام کا عرصہ تھا ، دونوں بارشاہوں نے ملک کے امن و امان کو مضبوط کیا ۔اس کے مقابلے میں ہم جو ایران کے پڑوسی ہیں ،ستر سال سے عدم استحکام کا شکار ہیں ۔چار تو ہم نے عسکری آمر بھگتائے،جمہوری حکومت جب بھی بنتی ہے تو مخالف سیاسی جماعتیں اس کے درپے ہوجاتی ہیں، بے نظیر کی ہر حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا ،یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے معزول کیا ۔ تو مسلم لیگ نون نے اطمینان کا اظہار کیا ۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف آج بھی عدالتوں میں حاضریاں دے رہے ہیں ،میاں محمد نواز شریف جب بھی آئے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔پہلے جنرل پرویز مشرف نے انہیں اقتدار سے ہٹایا ۔اب کے عدلیہ سے نااہل قرار پاکر وزارتِ اعظمیٰ سے الگ ہوگئے ہیں ۔‬
‫ ‬
‎‫دوسرا رخ معاملے کا دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق میں ،بالخصوص پنجاب میں ادارے ،بیوروکریسی اور پولیس شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔کسی دوسری جماعت کے لیے پنجاب سے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔چنانچہ تصویر جو بنتی ہے یہ ہے کہ پنجاب کا صوبہ مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہے گا ۔حکومت وہی بنائے گی،اور اس کے بعد پھر وہی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ یعنی حکومت ختم کرنے کے لیے تحریکیں ،دھرنے،الزامات ،مقدمے عدالتیں ،نیب،پیشیاں ، اور ہر پیشی کے بعد فریقین کی دھواں دھار تقریریں، یوں ملک عدم استحکام کا ہی شکار رہے گا۔‬
‫ ‬
‎‫اس صورتحال سے جو جنگل کی طرح بے سمت اور خار دار ہے ،نکلنے کا راستہ کیا ہے،اگر ہم جذبات کو ایک طرف رکھ دیں تو اس مصیبت سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ ہم ایک کڑوا گھونٹ بھر یں ،اور 1925 کی ایرانی مجلس کی طرح میاں نواز شریف کو پاکستان کا شہنشاہ ڈکلیئر کردیں ،جس طرح 1925 کی ایرانی مجلس رضا شاہ کے قبضے میں تھی۔بالکل اسی طرح آج کی پاکستانی قومی اسمبلی بھی مسلم لیگ نون کی مٹھی میں ہے،اس کا ثبوت اس ترمیم کی صورت میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں میاں صاحب نااہل ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے،اتحادی ان کی پشت پر کھڑے ہیں ، رہی سہی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانا چندں مشکل نہیں ، ابھی کل کی ہی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک معروف مذہبی جماعت نے مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا ۔جس دن ترمیم کے لیے ووٹنگ تھی۔اس دن بھی مذہبی رہنما دوسرے کاموں میں مصروف تھے۔یوں ایک ووٹ سے حکومت جیت گئی،اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلم لیگ نون جو چاہے ،اسمبلی سے منظور کروا سکتی ہے۔چنانچہ ملک کو استحکام بخشنے کے لیے میاں صاحب کو شہنشاہ قرار دیا جائے ،تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھا سکیں ،اگر اگلے پانچ برس میں وہ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیں اور سی پیک بھی منزل مقصود کی طرف فاصلہ طے کرلے تو ملک میں واقعی تبدیلی رونما ہوجائے گی ۔میاں صاحب کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ سوشل سیکٹرز یعنی تعلیم و صحت کی طرف بھی توجہ دیں ، اور زراعت کی ترقی کے لیے بھی انقلابی قدم اٹھائیں ۔شہنشاہ بننے کے بعد میں یقیناً ان میں مثبت تندیلیاں رو نما ہوں گی اور وہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کرلیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫مستقبل کے خلفشار سے بچنے کے لیے ان کی دختر نیک اختر مریم صفدر کو ان کا ولی عہد مقرر کیا جائے اس کے لیے آئین میں مناسب ترمیم کی جائے ۔اب رہا صوبوں کا معاملہ تو مزید استحکام کی خاطر انتظامی ڈھانچہ وہاں بھی تبدیل کرنا ہوگا ،ہم سب اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ الیکشن ہونے کی صورت میں بھی میاں شہباز شریف ہی پنجاب کے والی بنیں گے ،چنانچہ صوبے کے گورنر کو "شاہ"کا لقب دے کر موروثی کردیا جائے ۔حمزہ شہباز کو ولی عہد مقرر کردیا جائے۔ رہا وزیر اعلیٰ کا عہدہ تو اس کا تقرر صوبے کے شاہ کی صوابدید ہو کہ جسے مناسب سمجھے ،مقرر کرے ۔ سندھ میں زرداری صاحب کو صوبے کا شاہ مقرر کیا جائے ۔ انہیں معلوم ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں ان کی پارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس لیے وہ یہ منصب قبول کرلیں گے/۔ اب بھی عملی طور پر وہ سندھ کے شاہ ہی ہیں ۔ بلاول زرداری ان کے ولی عہد ہیں ، سیاسی ہم آہینگی پیدا کرنے کے لیے وہ لازماً وزیر اعلیٰ ایم کیو ایم سے لیں گے ،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے کچھ اختیارات شاہ کو منتقل کردیے جائیں ،دوسرے صوبے میں معاملات طے کرنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ وہاں میاں صاحب کے اتحادی برسرِ اقتدار ہوں تاکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان چپقلش کی لعنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔بلوچستان میں شاہ ہمیشہ اچکزئی خاندان کا ہو۔ اس طرح قبائلی نظام بھی جاری و ساری رہے گا ،اور کچھ بدبخت ،کوتاہ نظر ۔جو قبائلی نظام کو فرسودگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔اپنی اوقات میں رہیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫رہا خیبر پختونخوا ،تو وہاں میاں صاحب کے دو اتحادی ہیں،اور دونوں مضبوط ہیں ،اسفند ولی یار اور مولانا فضل الرحمٰن ،مولانا دیکھنے میں ایک بارعب شخصیت لگتے ہیں ،قدرت نے سیاسی جوڑ توڑ کا ایک خاص ملکہ انہیں فیاض سے عطا کیا ہے۔ انہیں "کے پی کے "کا "شاہ"مقرر کیا جائے۔یہ منصب ان کے خاندان میں موروثی ہو ،اسے آئین کی پشتبانی حاصل ہوتاکہ کوئی طالع آزما خلل اندازی نہ کرسکے ۔ صوبے کا استحکام اور ترقی کی خاطر یہ اصول طے کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ ہمیشہ باچا خان کے خاندان سے ہو۔‬
‫ ‬
‎‫انہی خطوط پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے صوبوں میں آئینی اقدامات اٹھائے جائیں ۔اس وقت ان دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔ان صوبوں کی شاہی ،اپنےخاندانوں میں موروثی قرار دی جاسکتی ہے۔ یاجس طرح شہنشاہ مناسب سمجھیں ۔‬
‫ ‬
‎‫ رہ گیا مسئلہ کباب میں ہڈی بن کر مزہ کرکرا کرنے والے عمران خآن کا ،جو شریف خاندان کے دوامی اقتدار کا دشمن ہے۔ تو حالات جس نہج پر جارہے ہیں، اس سے تو قوی امید ہے کہ وہ نااہل قرار دے دیا جائے گا ،اور گرفتار بھی کرلیا جائے گا ۔امید ہے کہ اس کے بعد اس کی پارٹی شدید خلفشار کا نشانہ بنے گی۔اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ۔کے مطابق پارٹی کے عقلمند اور دوراندیش عناصر خؤد ہی شاہی خاندانوں سے وانستہ ہوجائیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫برصغیر کے مسلمان خاندانی بادشاہتوں کے یوں بھی عادی ہیں ،خلجی خاندان تغلق خاندان،لودھی خاندان، خاندانِ غلاماں، مغلیہ سلطنت کا مالک تیموری خاندان ، ماضی میں ان خاندانوں نے ملک و قوم کی بے پایاں خدمت کی،آج اگر نواز شریف خاندان اور باچا خان خآندان ہم ہر حکومت کرتا ہے تو تاریخی تسلسل بھی جاری رہے گا ۔ سیاسی استحکام بھی نصیب ہوگا ،‬
‎‫اور میا ں صاحب کے ذہن میں ترقی کا جو تصور ہے وہ بھی عملی جامہ پہن سکے گا۔‬
‫ ‬
‎‫ آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تجویز کی تہہ میں کالم نگار کا کوئی ذاتی خاندانی یا سیاسی مفاد ہرگز پوشیدہ نہیں ، مقصد صرف اور صرف ملک اور قوم کی ترقی اور استحکام ہے۔ ‬

پنجاب : ناکامی کے اسباب!

$
0
0

پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جس المناک  صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں ،اس کاسنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،نہ کہ ان کی بھد اڑانے کی ۔ یہ صورتحال المناک ہونے کے ساتھ ساتھ عبرتناک بھی ہے،پہلےرائے ونڈ  کے ہسپتال  میں ایک حاملہ  عورت نے بچے کو جنم دیا، اور پہلا بچھونا  جو اس نے  دنیائے آب و رنگ  میں  اس نومولود  کو نصیب ہوا  فرش خاک کا تھا، ابھی "پنجاب سپیڈ"کے  اس نمونے  کی گونج فضآ میں تھی  کہ گنگا رام ہسپتال میں ایک اور نومولود  ماں کے جسم  سے الگ ہوا اور راہداری  میں ہسپتال کے سربراہ کے دفتر کے عین سامنے  زمین پر  لیٹ  گیا۔

اس کے ساتھ ہی ترکی کی طرز پر بنائی گئی  "کمپنیوں "کی کارکردگی  کا سکینڈل  منظر عام پر آگیا، اور وزیر اعلیٰ  نے ان کمپنیوں  کے کئی  سربراہوں کو یکے بعد دیگرے  معطل کردیا ۔

وزیر اعلیٰ کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ہنڈیا چولہے پر چڑھاتی ہے، نیچے آگ  جلاتی ہے اور چمچ ہلانے لگ جاتی ہے، کافی دیر کے بعد  جب وہ ہنڈیا نیچے اتارتی ہے تو  نتیجہ  کچھ نہیں نکلتا ،اس لیے کہ ہنڈیا میں تو صرف اور صرف پانی تھا ، اس میں گوشت اور دال  ،سبزی ،نمک ،مرچ کچھ نہ تھا۔

وزیر اعلیٰ آٹھ سال سے محنت کررہے ہیں ،مسلسل ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں ، کبھی ہیٹ اوڑھ کر،کبھی لمبے بوٹ پہن کر، کہا جاتا ہے کہ  وہ اعلیٰ الصبح "کام"شروع کرتے ہیں ،اور رات گئے تک"مصروف"رہتے ہیں ۔ افسروں کی سرزنش کرتے ہیں ، اداروں کے سربراہوں کو معطل کرتے ہیں ،کبھی قصور جارہے ہیں ، کبھی شیخوپورہ کا دورہ کررہے ہیں ، آٹھ سال کی اس "محنتِ شاقہ"کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے علاقوں کو تو چھوڑ ہی دیجئے،خؤد لاہور اور نواحِ لاہور میں پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں  جو عبرتناک اورافسوسناک ہیں ،اور مضحکہ خیز  ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی۔

اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ  اس جدید دور میں  شہباز شریف صاحب کا طرزِ  حکومت ہے، جو قدیم زمانوں  میں تو کامیاب  ہوسکتا تھا مگر  اب میڈیا کے  زمانے میں یہ شخصی  طرزِ حکومت  ناکامی اور شرمندگی  کے علاوہ کچھ  نہیں پیدا کرسکتا ۔ دو ادارے  اسی لیے  جمہوریت  کا جزو  لاینفک  ہیں ۔ ایک منتخب اسمبلی اور دوسرے کابینہ ۔۔۔یہ دونوں ادارے مل کر  ،بحث کرتے ،سوچ سمجھ کر  ،پالیسیاں بناتے ہیں اور  نافذ کرتے ہیں ۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ان دونوں اداروں کو مکمل طور پر غیر فعال کرکے رکھ دیا ۔صوبائی اسمبلی میں وہ شاید صرف اس دن آتے ہیں  جب بجٹ پیش  ہوتا ہے۔ کابینہ ہے بھی او رنہیں بھی۔وہ کابینہ کو خاطر میں نیہں لاتے۔رانا ثنا اللہ  صاحب کے علاوہ کسی صوبائی وزیر کا نام  شاید ہی سنا ہوگا،وزیر اعلیٰ جب قصور کے ہسپتال میں دو بار گئے،اور شیخؤپورہ میں  بھی، تو ان کے ہمراہ  وزیر صحت تھے نہ سیکرٹری صحت،عملی طور پر وہ ہسپتالوں کے سربراہوں کے ساتھ  براہ راست پیش آرہے تھے۔ اس کے بجائے اگر وہ متعلقہ وزیر کو وارننگ دیتے کہ  اگر کسی ہسپتال میں خرابی نظر آئی تو قلمدان تم سے لے لیا جائے گا ، اور کابینہ  سے آؤٹ ہوجاؤ گے تو  وزیر  چوبیس  گھنٹے کام  کرنے پر مجبور ہوگا ، لیکن کابینہ  کے اجلاسوں  میں تو وزراء  کی کارکردگی  کا جائزہ  وزیراعلیٰ  کی کتاب  میں سرے ہی سے مفقود ہے۔

صوبے کی ترجیحات  وہ خود طے  کرتے ہیں ، اس میں اسمبلی  اور کابینہ  کی اجتماعی  عقل و دانش  سے فائدہ  اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،۔ ان کا سارا زور  ان "ترقیاتی "منصوبوں  پر ہے  جو بنیادی  طور پر انفراسٹرکچر  سے  تعلق رکھتے ہیں ، جیسے پل،انڈر پاس، شاہراہیں ، یا میٹرو  اور اورنج  ٹرین  ،

انہیں اس حقیقت کا قطعاً ادراک نہیں کہ  سوشل سیکٹرز ترقی کے لیے ریڑھ  کی ہڈی  کی حیثیت رکھتے ہیں ۔   ۔اس ضمن  میں کوئی پالیسی  ہی نہ بن سکی۔ 

 وزیراعلیٰ  کی شخصی  اور آمرانہ  طرزِ حکومت  کا ایک منفی  نتیجہ یہ نکلا  کہ بیورو  کریسی میں  جو عناصر  منہ پر سچی بات  کہہ سکتے  تھے،وہ پس منظر  میں چلے  گئے۔ وزیر اعلیٰ  کی پسند ناپسند  شدید ہے۔ انہیں صرف  ان افسروں  کی موجودگی راس  آتی ہے جو گونگے بہرے  ہوکر آمنا صدقنا  کہتے ہوں ،درست  مشورہ  دینے والے کو  برداشت ہی نہیں کرتے ۔ بد انتظامی کی ایک اور مثال دیکھیے۔



صحت کے ایک سےزیادہ سیکرٹری ہیں ،مگر کارکردگی اتنی شرمناک ہے کہ ایک اسامی پر دو دو تعیناتیاں ہو رہی ہیں ، راولپنڈی میں مصر یال روڈ کے ہسپتال میں دو لیڈی ڈاکٹر  تقرری نامہ لے کر پہنچ گئیں ، ایک کی شنوائی ہوئی نہ دوسری کی ۔

یہی نہیں معلوم کہ  کون سے سیکرٹری  کا محکمہ  اس بدانتظامی  اور نااہلی کا ذمہ دار ہے ،اگر کابینہ  کے اجلاس  باقاعدگی  سے ہوں  اور ان اجلاسوں  میں وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کون وزیر ہے جو  رات  دن  محنت کرکے حالات  کو درست  نہیں کرے گا ، مگر جب کوئی  فورم ہی نہیں  جس پر وزیر  صاحب کو ایکسپوز یا شرمندہ  کیا جائے تو  وزیر کو کیا پڑی ہے، کہ محنت کرے۔

یوں بھی وزیر اعلیٰ ہر  محکمے کو براہ راست  ڈیل کرنے کے عادی ہوں تو  پھر ذمہ داری  بھی وزیر  کی نہیں  ،وزیر اعلیٰ  کی اپنی بنتی ہے۔



پنجاب کے وزیر  اعلیٰ کی  مثال محمد  تغلق  کی سی ہے۔ جو اپنی ذاتی پسند کے فیصلے  کرتا تھا ۔اور  ناکامی  سے دوچار ہوتا تھا ۔

ترکی وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر سوار  ہے۔ دودن پہلے کی خبر ہے  کہ ترکی کی کمپنیوں کو  مہنگے ٹھیکے دیے گئے ہیں ۔

پھر پنجاب  حکومت  میں ایک اور بیماری شروع  ہوئی۔ ہر کام کے لیے  کمپنی  بنائی  گئی۔

غالباً یہ بھی ترکی  کی نقالی میں کیا گیا ہے۔

صاف پانی  کمپنی ،پارکنگ  کمپنی، ماڈل بازار۔ ہر شہر میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنی، محکموں کی نسبت  ان کمپنیوں  میں افرادی  قوت زیادہ تھی۔ منظورِ نظر افراد بھرتی ہوئے، تنخواہیں لاکھوں میں ، پے در پے غیر ملکی دورے، لاہور پارکنگ کمپپنی نے ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا ، جو بلیک لسٹ تھی۔

ماہانہ پانچ کروڑ کا نقصان ہوا، صاف پانی کمپنی  مشکل سے  ہدف چوتھائی  حصہ ہی حاصل کرپائی۔



 56 کمپنیوں  میں سے 48 ایسی ہیں  جن کا ریکارڈ غائب ہے، اس  کے بعد اب معطلی کا پرانا کھیل کھیلا گیا ، کچھ  کمپنیوں  کے سربراہوں  کو معطل کردیا گیا ۔ اگر آٹھ سالوں کا حساب  لگایا جائے کہ وزیراعلیٰ  نے کتنے افسروں کو معطل کیا ہے تو  یہ تعداد حیران کن  حد تک کثیر ہوگی۔

 معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ تفتیش انکوائری وغیرہ ہوتی ہے، جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ قصور وار ہے تو سزا ملتی ہے، بے قصور ہے تو بری ہوجاتا ہے، اور معطلی  ختم ہوجاتی ہے، مگر یہاں کسی معطلی کا فائنل نتیجہ شاید ہی کبھی منظرِ عام پر آیا ہو۔

صدر مملکت  نے بھی کہا  ہے کہ "چار  سال میں نہ ڈیم بنے  نہ ہسپتال اور یہ عوام  پوچھیں کہ  14 ہزار  آٹھ سو ارب  کا قرضہ کہاں گیا، "سندھ اور بلوچستان  میں بھی حالات  خراب ہیں مگر فرق  یہ ہے کہ س پنجاب کے  وزیراعلیٰ  کے متعلق یہ تاثر بھرپور دیا گیا کہ حد درجہ فعال ہیں ۔ رات دن کام کرتے ہیں ، عجیب بات یہ ہے کہ تعریف پنجاب حکومت کی بہت کم اور وزیر اعلیٰ کی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ طرزِ حکومت شخصی ہے۔ جمہوری یا اجتماعی نہیں ۔

وزیر اعلیٰ کی نیت پر کسی کو شبہ نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے سب کچھ یقیناً نیک نیتی سے کیا ہوگا ، تاہم انہیں یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے  کہ کابینہ  جیسے مفید  اور لازمی  ادارے کو  ساتھ لے کر چلیں ، صوبائی  اسمبلی کو  جس طرح  عملی طور پر وہ حقیر سمجھے ہوئے ہیں ، وہ ہرگز درست رویہ نہیں ہے۔ اسمبلی کا اپنا استحقاق ہے،جسے وہ مجروح کرتے رہے ہیں ،اور کررہے ہیں ، وہ اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہیں ، ان کی عدم موجودگی  میں ان کے  وزرا اسمبلی کو کس طرح اہمیت  دے سکتے ہیں ،

وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ اسمبلی کے سامنے اعتراف  کریں کہ  ان کی پالیسیاں  ،خاص طور پر صحت اور تعلیم  کے میدانوںمیں  اور بہت سی کمپنیاں بنانے میں  ،ناکام ثابت ہوئی ہیں ، نئی پالیسیاں اسمبلی اور کابینہ کی مشاورت سے بننی چاہییں ۔   


بے نشانوں کا نشاں!

$
0
0

لاہور جب بھی جانا ہو،مین بلیوارڈ پر واقع کتابوں کی ایک دکان میں کچھ وقت ضرور بسر ہوتا ہے ۔، اس کی ایک بڑی وجہ،نواسی زینب خان اور اس کے دونوں چھوٹے  بھائیوں ہاشم خان اور  قاسم خان کی طرف سے شدید انتظار بھی ہوتا ہے کہ نانا ابو آئیں گے تو بک شاپ پر لے کر جائیں گے۔ یہ بچے وہاں گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ، ہر بار  انہیں ایک ایک یا دو دو کتابیں نانا ابو کی طرف سے خرید کر دی جاتی ہیں ، یہ آٹھ آٹھ دس دس  کتابیں منتخب کرتے ہیں ، جن میں سے نانا ابو  تین کتابیں چنتے ہیں ، ایک اضافی  کشش بک شاپ میں واقع اس چھوٹے سے کافی ہاؤس کی وجہ سے بھی ہے، جہاں سے کتابوں کے ان ننھے شائقین کو  چپس کے پیکٹ  اور جوس کے ڈبے  لے کر دیے جاتے ہیں، انہیں وہاں سے نکال کر واپس لے آنا بڑآ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ان کا بس چلے تو رات وہیں کتابوں کے بیچ گزار دیں ۔

گزشتہ مئی جانا ہوا تو وہاں ایک کتاب پر نظرپڑی"بے نشانوں کا نشاں "۔۔۔ مصنف کا نام  دیکھا تو  مظہر محمود شیرانی، تھا۔ کتاب کو الٹا پلٹا تو معلوم ہوا کہ مشہور محقق  حافظ  محمود شیرانی  کے پوتے ہیں ، بیاسی سالہ یہ بزرگ  شیخؤپورہ  میں رہتے ہیں ، غالباً وہیں  سےے بطور  پروفیسر ریٹائر ہوئے   - پروفیسر ڈاکٹر معین  نظامی سے بات ہوئی تو کچھ معلومات  انہوں نے  بھی بہم پہنچائیں ، معروف  شاعر شاہین  عباس سے  ،جو شیخؤپورہ  کے ہیں اور وہیں  رہتے ہیں ، بات  ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ  مظہر شیرانی  زیادہ  وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں ، شاہین عباس  کو بتایا  ہے کہ کالم نگار وہاں  آکر مظہر  صاحب کی زیارت  کرنا چاہتا ہے۔

حافظ محمود شیرانی  کے نام سے اردو  زبان و ادب  کا ہر طالب  علم بخؤبی  آگاہ ہے۔ ان کی معرکہ آرا کتاب"پنجاب میں اردو"ایک تاریخ  ساز تصنیف  ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ  اردو کی جنم بھومی  پنجاب تھا ۔ اس تھیوری  کے بعد اردو کے علما  اور محققین  میں بحث کا ایک  طویل سلسلہ  چلا۔موافقت  اور مخآلفت  میں بہت کچھ  لکھا گیا۔
 پٹھانوں  کا یہ قبیلہ  محمود غزنوی  کے ساتھ  برصغیر میں آیا اور پھر یہیں  کا ہو رہا۔ حآفظ محمود خآن  شیرانی  کے فرزند اختر  شیرانی  اردو  کے مشہور  رومانی  شاعر  ہیں ۔"اے عشق کہیں لے چل"اور "اودیس سے آنے والے بتا"ان کی بہت  ہی مقبول نظموں  میں  سے چند ایک ہیں ۔ مظہر محمود شیرانی  اختر شیرانی  کے فرزند ہیں ، اپنے دادا  پر انہو ںنے  وسیع  اور وقیع  کام کیا ہے۔ مقالات حافظ  محمود شیرای  دس جلدوں مین مرتب کیے ہیں ۔

 دو جلدوں میں  "حافظ محمود شیرانی  کی علمی اور ادبی خدمات "محفوظ کی ہیں ، مکاتیب بھی  جمع  کرکے چھاپے ہیں 
اس تحریر کا اصل مقصد مظہر  صاحب کی کتاب"بے نشانوں کے نشاں"ہے جو خاکوں کا مجموعہ ہے یہ خاکے  مشاہیر کے نہیں بلکہ زندگی  کے  ان عام کرداروں کے ہیں ،جن کے ساتھ روزمرہ زندگی میں سابقہ  پڑتا ہے۔ یوں تو  تمام خاکے  انتہائی موثر اور عمدہ قوت  تحریر کے دلکش نمونے  ہیں ،اور  مصنف  کی باکمال قوت مشاہدہ کا ثبوت ہے۔ مگر وہ خاکے ایسے ہیں  جو دل لہو  سے بھر  دیتے ہیں ، ایک کا عنوان  "چک نمبر 17 کا شریفا"اس کے آخری دو پیرا گراف  یوں ہیں ۔۔۔ 
 "میں نے  دیکھا کہ حویلی کے آگے  چھوٹے  بڑے کتوں  کی ایک غیر معمولی  تعداد موجود تھی، میں نے ہنستے ہوئے کہا  کہ  یہ تم نے کتوں کا فارم کب سے بنا لیا ، ؟وہ چلم  میں آگ رکھتے ہوئے بولا ، ارد گرد کی بستیوں  سے دھتکارے ہوئے  خود ہی چلے آتے ہیں ، پھر جانے کا نا م نہیں لیتے ،اب انہیں مارنے سے تو رہا۔ اللہ کی مخلوق  ہے،صبح  روٹی کا  ٹکڑا ڈآل دیتا ہوں ، ابھی پرسوں یہ چتکبری کتیا  آٹھ پلے  لے کر اس ٹھسے  سے آئی جیسے میکے آرہی ہو ۔

میں نے کہا  بھی کہ تو سارا خانوادہ  لے کر کیوں  چلی آئی تو  وہ میرے پاؤں پر  لوٹنے لگی/۔ پڑے رہو، میرا کیا لیتے ہیں “


،مجھے شریفا اس دور کا دیو جانس قلبی نظر آیا،

 بس یہ ہماری اس سے  آخری ملاقات تھی، پھر ہم ایک دوسرے کو کبھی نہ دیکھ پائے۔، اور اس کی سناؤنی  آ گئی۔

شریفے کا  جنازہ جب قبرستان کی طرف چلا تو  اس کے پیچھے پیچھے ایک چتکبری کتیا بھی چل رہی تھی، تدفین کے بعد  سب واپس ہوگئے۔ لیکن کتیا قبر پر سر رکھ کر بیٹھ گئی، اگلے دن گھر والے  قبر پر آئے تو   وہ اسی طرح  بیٹھی  ہوئی تھی ، اسےپکڑ کر  واپس لایا گیا، روٹی ڈالی  اس نے سونگھی  تک نہیں اور پھر بھاگ کر  قبرستان پہنچ گئی، آخر تیسرے روز جب  اس کا بھوک سے برا حال ہوا  اور مرنے کا ندیشہ ہوا تو  اسے لاکر زنجیر  سے  باندھ دیا گیا۔ میں یہ فیصلہ شاید کبھی نہ کرسکوں  کہ وہ کتیا  شریفے کی زیادہ قدردان تھی یا  میں ؟۔”۔۔۔

 دوسرے خآکے  کا عنوان "بے نام "ہے۔مظہر  صاحب گھر میں بیٹھے  کھانا کھا رہے تھے، کہ گلی میں  کسی فقیر کی آواز  ابھری وہ گا رہا تھا ۔،

ذات بے پروا ہے  مولا تجھ کو  پرواہی نہیں ۔۔۔

 آواز اس قدر گمبھیر  تھی اور دردناک  اور لہجہ  اس قدر پراسرار اور غیر معمولی  کہ مظہر صاحب کا  لقمہ جو ہاتھ میں تھا منہ تک نہ جاسکا۔

جو صاحب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، ان سے مظہر  صاحب نے کہا  "یہ شخص  ہندوستان  کی کسی مسلمان  رہاست  سے تعلق رکھتا ہے” وہ صاحب  بجلی کی سی تیزی سے اٹھے او رباہر جاکر  فقیر سے پوچھا  ،اس  نے بتایا کہ وہ رام پور سے تھا ۔اگلی جمعرات  کو پھر  آیا،مظہر صاحب  نے جاکر  کچھ رقم اسے دی پھر  اس کا جائزہ لیا ۔، لکھتے ہیں ۔۔۔

 "کپڑے سادہ   مگر صاف  ستھرے، قمیض پر کالے  رنگ کی  پرانی صدری، نیچے چوخانے  دار تہہ بند۔ پاؤں میں خستہ  گرگابی  ،سر پر دوپٹے کا پھینٹا  ،ہاتھ  میں چھڑی  ،سانولی رنگت ،چہرے پر بچپن  میں نکلی ہوئی  چیچک  کے مدھم نشانات، نظر خاصی کمزور۔” 

 وہ ہرجمعرات کو آتا،مظہر صاحب ہر بار سوچتے کہ "اس سے  اس کے ماضی  کی سرگزشت سنیں ،لیکن خواہش  زبان تک نہ آنے پاتی،” اس کی آواز پر وہ غور  کرتے رہے اور اس نتیجے  پر پہنچے کہ وہ  "ہر نظم  کو کسی نہ کسی راگ کی آروہی امروہی  میں چست  کرکے  استھائی  انترے کی صحت کے ساتھ پڑھتا  تھا اور ساتھ ساتھ  وقت کی مناسبت  بھی ملحوظ رکھتا  تھا"

 جھونپڑی  فقیر کی   قبرستان  کے ایک کونے میں تھی،مظہر  صاحب سوچتے رہے کہ  "یہاں آکر باتیں کرنا زیادہ مناسب  ہوگا"۔

پھر اس  نے جمعرات کا پھیرا  لگانا چھوڑ دیا، مظہر صاحب  مکان کی تعمیر  میں پھنس گئے اور  خواہش  کے باوجود  اس کا پتہ نہ کرسکے  ۔جب  گئے تو  وہ جھونپڑی کے باہر بیٹھا تھا ،  اس کی بینائی ختم ہوچکی تھی،   مظہر صاحب اسے ماہرامراض چشم کے پاس لے گئے۔ اس نے معائنہ کرکے بتایا کہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔

مظہر صاحب ہر دوسرے چوتھے دن  مغرب کے بعد  کھانے کی  کوئی چیز لے جانے لگے۔ ،مگر  دے کر چپ چاپ چلے آتے،  ان کےایک اور ہمکار  بھی کچھ  نہ کچھ  پہنچانے لگے۔، ایک دن  انہوں نے کہا کہ یار  تمہارا وہ فقیر  عجیب آدمی ہے۔

زردہ لے کر گیا  ،کہا چاول ہیں ۔۔ فقیر نے پوچھا  چاول تو ہیں مگر ہے کیا ؟۔۔۔ کیا سفیدہ ہے  ؟قبولی ہے  ؟َطاہری  ہے ؟َچلاؤ ہے؟پلاؤہے؟زردہ ہے؟مزعفر ہے؟بریانی ہے؟  متنجن ہے؟۔۔۔آخر ہے کیا؟۔۔۔

بتایا گیا زردہ ہے۔


یہ سن کر مظہر صاحب کو یقین ہو گیا  کہ اس فقیر نے ضرور  اچھے دن دیکھے ہیں ،  اس کے حالات جاننے کی خؤاہش شدید تر ہوگئی۔

ایک دن  گئے تو  وہ موڈ میں تھا ۔ نعت سنائی  

کھنچا کچھ اس نرالی شان  سے نقشہ محمد کا

 کہ نقاش ِ ازل  خود  ہوگیا  شیدا محمد کا ۔

 مظہر صاحب لکھتے ہیں  

"نجانے  اس نے کتنے شعر  پڑھے اور  کتنی دیر  پڑھے۔ میں مبہوت تھا۔ وقت کی نبض  رک سی گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں ، جب اس نے نعت  ختم کی تو میں اس سحر زدہ  کیفیت سے نکلا۔”

 اب کچھ کہنے سننے کی گنجائش  نہ تھی۔، میں گھر کی طرف چل دیا۔  راستے میں میں نے مصمم ارادہ کیا کہ اب جس دن  اس کے پاس آؤں گا  اس کے ماضی کا قصہ ضرور چھیڑوں گا ۔ اطمینان سے بیٹھ کر،کرید کرید کر سوال پوچھو ں گا ،نامعلوم کسیے کیسے انکشافات ہوں گے ،اس سے کچھ  میرے اشتیاق ہی کی تسکین نہیں  ہوگی ،اپنا دکھڑا سنا کر  اس کے دل کا  بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا۔

 پھر موسم  گرما کی تعطیلات  آگئیں ۔ مظہر صاحب  اپنے اہل خآنہ  کے ہمراہ  تفریحی  ٹرپ  پر  سوات چلے گئے، واپس آئے تو یکم کو تنخواہ ملی،کچھ رقم  لے کر اس کے پاس گئے، آخری احوال مظہر صاحب ہی کے الفاظ میں بتایا جاسکتا ہے۔۔۔

“ تیسرے پہر طارق روڈ  پہنچا تو  میرے تعجب کی انتہا نہ رہی  ،جھونپڑی کا نام نشان تک نہ تھا ، یاالہی یہ کیا ماجرا ہے؟۔۔۔۔

آخر ہمت کرکے  سامنے  کی دکانوں  پر گیا۔ ایک بھلا سا آدمی  دیکھ کر دریافت کیا ۔۔یہ بابا کہاں گیا؟۔

 آپ کو پتا نہیں ؟۔۔۔اسے تو مرے ہوئے ایک مہینہ ہونے کو آیا۔۔

مگر کیا ہوا تھا۔۔۔؟
 ہونا کیا تھا ؟۔۔۔فقیر تھا !آگے پیچھے کوئی تھا نہیں ،ایک دن صبح  سے شام تک  دروازہ بند رہا،شام کو کسی نے روٹی دینے کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا، تو جواب ندارد۔۔۔

ہمیں شک پڑا  ،دروازے کی بساط ہی کیا تھی، توڑا تو بستر پر مرا پڑا تھا ۔ رات ہی کو دفنا دیا۔ اور کیا جی؟۔۔۔رات بھر اس کے پاس کون بیٹھتا۔۔۔۔۔

"محلے کے لوگ جھونپڑی اور اس کے آگے کی جگہ پر قبضہ جمانے کی فکرمیں تھے۔ دنگے فساد  تک نوبت  پہنچی  آخر کچھ بھلے مانسوں  نے بیچ میں پڑ کر  فیصلہ کروایا، کہ یہ رقبہ قبرستان کا ہے، چنانچہ  جھونپڑی صاف کرکے قبرستان  میں شامل کردی گئی۔

اس کی بات ختم ہوتے ہوتے  ادھر ادھر سے  کچھ لوگ  ہمارے گرد جمع  ہوگئے تھے ،ان کی  نگاہوں سے شک  جھانک رہا تھا ۔، شاید وہ  مجھے بھی اس جگہ کے طلبگاروں میں سے  ایک سمجھ رہے تھے۔  میں ان کی نظروں  کی تاب نہ لاسکا۔ اور کھسک جانا ہی مناسب سمجھا۔

 اس کی قبر کا نشان بھی نہ پوچھ سکا کہ دعا کے لیے ہاتھ ہی اٹھا لیتا۔ گھر آتے ہوئے  غالب کی غزل کا آخری  شعر  ذہن میں گردش  کررہا تھا

داغ ِ فراق  صحبتِ  شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی  خموش ہے۔!


میری کسی سے دشمنی ہے نہ رشتے داری۔

$
0
0


میری شرجیل میمن  صاحب سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے، میں نے تو انہیں  دیکھا تک نہیںِ،میرا اور زرداری صاحب کا کیا مقابلہ، مگر میں جب کائرہ صاحب اور فرحت اللہ بابر جیسے   نسبتاً صاف ستھرے حضرات کو آنکھیں  بند کرکے مدافعت کرتے دیکھتا ہوں تو  افسوس ہوتا ہے کہ  ،کیا ایک پارٹی کی رکنیت  کا یہ مطلب  ہے کہ سفید کو سفید اور سیاہ کوسیاہ نہ کہا جائے؟۔

میرا مریم صفدر صاحبہ سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ہماری رشتہ داری ہے نہ مشترکہ  جائیداد  کا تنازع۔ہمارے کھیت بھی ایک جگہ نہیں ، کہ درمیان میں پڑنے والی  پگڈنڈی  کا مسئلہ عدالت میں جائے۔ہماری حویلیاں ایک دوسرے سے متصل نہیں  کہ میرے پرنالے  کا پانی ان کے صحن میں یا ان کے پرنالے کا پانے   میرے آنگن میں گر رہا ہو۔ میرا ایسا کوئی  ارادہ  نہیں کہ  میاں نواز شریف  صاحب کے بعد پارٹی  کی زمام  سنبھال لوں یا وزیر اعظم  بننے کی کوشش کروں ۔

میں تو صرف یہ چاہتا ہوں  کہ وہ پاکستان  کا  بڑا بننے کی کوشش نہ کریں ، وہ جب نصیحت  کرتی ہیں کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے تو  میں صرف یہ  پوچھنا چاہتا ہوں کہ  وہ یہ نصیحت اداروں کو کس حیثیت سے کررہی ہیں ؟ وہ پارٹی میں کس عہدے پر ہیں ؟۔ وہ تاحال  منتخب نمائندہ بھی نہیں ، پھر کیا وہ خود حدود کی خلاف ورزی نہیں کر رہیں ،؟  وزیراعظم  کا عہدہ  اور وزیراعظم  کا دفتر بھی  ایک ادارہ ہے۔ جب وہ وزیراعظم کی عدم موجودگی میں    کئی  ماہ حکومت  چلاتی رہیں ،غیرملکی سفیروں کو  ملتی رہیں ،وزراء کو احکام دیتی رہیں ،  تو کیا وہ خؤد  حدود کراس نہیں کررہی تھیں ۔ ؟

کیا سرکاری پروٹوکول  لینا حدود کی خلاف ورزی  نہیں ؟ آخر انہیں کیا حق  پہنچتا ہے  کہ جو وزرا  میرے ٹیکس سے تنخواہ  لیتے ہیں ، اور جو  پولیس و سرکاری  عہدیدار عوام کے دیے ہوئے  ٹیکسوں سے مشاہرے پارہے ہیں ۔، اور جو گاڑیاں  ان کی اپنی نہیں ، ریاست کی ملکیت  ہیں ، ان سب کو وہ  اپنے لیے استعمال  کریں ؟

کیا یہ سینہ زوری  ،یہ دھاندلی  ،دیکھ کر میرا دل نہیں کڑھتا ، ؟َکیا میں اس ملک کا شہری نہیں ؟۔ کیا میرےجذبات نہیں کھول سکتے؟تو کیا میں  ان سب معاملات سے لاتعلق ہوجاؤں ؟

 میں نے تو آج تک مریم صفدر صاحبہ اور ان کے  والد محترم  میاں محمد نواز شریف  صاحب کے منہ  سے  اس ملک کے مسائل  پر  کوئی  گفتگو نہیں سنیَ۔۔۔ انہوں نے  زرعی اصلاحات  پر اور تعلیمی  نظام کی فرسودگی پر کوئی بات نہیں کی کبھی،   آج تک معزول  وزیراعظم  نے اس بات پر تشویش  کا اظہار  نہیں کیا کہ  ٹیکس چوری  ہورہا یے اور  قرضے  بے تحاشا  بڑھ رہے ہیں ،

مریم صفدر صاحبہ کا موضؤع صرف اور صرف اپنے والدِ گرامی کی ذات ہے۔ وہ سوائے  اس کے کوئی بات ہی نہیں کرتیں ، کہ میاں صاحب  اب بھی دلوں پر حکمرانی  کرتے ہیں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی  ،ان کے ساتھ یہ ہوا، وہ ہوا۔۔۔ کیاکسی نے  اس کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی بات سنی ہے؟۔۔۔

آپ اس ملک کی بدبختی دیکھیے  کہ وزیر اعظم  خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ  نواز شریف کےخلاف فیصلہ  عوام نے قبول نہیں کیا ،گویا  خود حکومت  کا سربراہ  عدلیہ کے خلاف ہے۔،تو پھر کیاعدالتیں بند کردی جائیں ؟۔۔۔۔

وزیر اعظم بتائیں  کہ آخر  عدالت کو کیا کرنا چاہیے تھا ؟۔۔ تو پھر کیا  ہر وہ شخص  یا فریق  جس کے خلاف  عدالت  فیصلہ  کرے۔یہی  موقف اپنائے  کہ فیصلہ  عوام قبول کریں گے تو مانا جائے گا۔؟تو پھر آئین  میں یہ لکھ دیجئے کہ  عدالتیں  فیصلے کرنے سے پہلے اس کے بارے  میں عوام سے رائے لیا کریں ۔

سیاست دانوں  کا مائنڈ سیٹ  ملاحظہ فرمائیے  کہ سینٹ  چیئرمین وزیر تعلیم  کو حکم دے رہے ہیں ، کہ قائداعظم  یونیورسٹی کے  گرفتار  طلبہ  کو فوراً رہا  کیا جائے۔ چیئرمین یہ پوچھنے کا تکلف نہیں  فرماتے کہ  گرفتاری کا سبب کیا  ہے؟۔۔۔

یونیورسٹی میں  "سابق  طلبہ  "کا کیا کام ؟اور سینٹ  کے ایک رکن طلبا کے احتجاجی جلوس میں کیا کررہے تھے۔

یونیورسٹی کے چانسلر صدر مملکت ہیں ، ان کےمحل سے  یونیورسٹی  کا فاصلہ  تین چار کلو میٹر  سے زیادہ  نہ ہوگا، مگر غالباً  کام کی "زیادتی
"کے باعث  انہیں یہ جاننے  کا موقع نہ ملا کہ  جس یونیورسٹی  کے وہ چانسلر  ہیں اس میں کیا ہورہا ہے؟۔۔۔

ایک تعلیمی ادارے میں نسلی اور لسانی  بنیادوں  پر گروہوں  کو منظم  کرنے کی کیا منطق  ہے،؟کیا پہلے کراچی  یونیورسٹی  میں یہ سب کھیل تماشے  ہم بھگت  نہیں  چکے؟

کیا پنجاب یونیورسٹی طلبہ کی سیاست کی وجہ سے  اصطبل نہیں بن چکی؟۔ ٹی وی پروگرام میں  ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) کے سربراہ  سے پوچھا  گیا  کہ یہ ہڑبونگ ،یہ ہڑتالیں ،یہ لسانی گروہ  بندی، یہ کلاسوں کا تعطل یہ سب کچھ پرائیویٹ  یونیورسٹیوں  میں کیوں  نہیں ہورہا  ؟تو جواب ملاحظہ فرمائیے

 فرمایا کہ  پرائیویٹ یونیورسٹیاں  تو اتنی بھاری  فیسیں لیتی ہیں ،یعنی ماروں گھٹنا ،پھوٹے آنکھ۔۔

 ارے بھائی فیسوں کی مقدار کا اس سے کیا تعلق،  اور پھر  پرائیویٹ  یونیورسٹیاں  ،سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح قومی خزانے پر بوجھ  تو نہیں،جس سیاسی جماعت  نے مذہب  کے نام پر  پنجاب کی سب سے بڑی  سرکاری  یونیورسٹی  کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس جماعت  کے اپنے  نجی تعلیمی  اداروں میں ایسی سرگرمیوں  کی اجازت ہی نہیں ۔  پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کسی  کسی استاد کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ  طلبہ کوشہ دے رہا ہے، تو شام سے پہلے اسے نکال دیاجاتاہے۔

 مگر قائداعظم یونیورسٹی ،کراچی یونیورسٹی، اور پنجاب یونیورسٹی میں براجمان اساتذہ یا نام نہاد  اساتذہ کو معلوم  ہے کہ انہیں کوئی  نہیں نکالے گا۔ اس لیے وہ اپنے اپنے سیاسی ،مذہبی،اور مسلکی  نکتہ نظر  سے ہمیشہ طلبا کی حوصلی افزائی کرتے ہیں ، اور ڈٹ کر کرتے ہیں ، اور یہ خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

 بات یونیورسٹیوں کی طرف چلی گئی، سیاست دانوں  کاتذکرہ  ہورہاتھا، اس ضمن  میں  ایک اور وضاحت یہ کرنی ہے ،کہ عمران خان سے بھی کوئی  رشتہ داری نہیں ،ہم ایک علاقے  سے ہیں ، نہ قبیلہ  ذات برادری کا تعلق ہے۔مجھ سے تو وہ  متعارف  تک نہیں ۔

 مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ  کے پی کے  کی پولیس  میں سیاسی  مداخلت  نہ ہونے کے برابر ہے، روایت ہے کہ اے ڈی خواجہ صاحب  نے کہا کہ  انہیں اہنے  صوبے میں  کے پی کے کا پولیس سسٹم چاہیے ،اگر  یہ روایت صحیح ہے تو  کیا یہ امر  قابل  تعریف  نہیں ؟

کرپشن کیخلاف ابھی تک اس کے علاوہ کس نے محاذ بنایا،اور پھر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا؟۔۔۔ وہ فرشتہ نہیں ،غلطیوں کا پتلا ہے۔ انسان ہے۔ ولی نہیں ،نہ صوفی۔

جب اس نے ایک مخصوص  مدرسہ کو تیس کروڑ روپے دیے تو میں نے تنقید کی،شدید تنقید۔

کئی اور معاملات میں اختلاف  کیا،مگر اور کس سےامید رکھی جائے  ؟مولانا فضل الرحمن سے؟ اسفند یار ولی سے؟نواز شریف  صاحب سے؟۔زرداری صاحب سے،اچکزئی صاحب سے؟

میں تو اس ملک کا عام باشندہ ہوں ،میری وفاداری اس ملک کی مٹی سے ہے، میرے لیے وطن کی سرحدیں مقدس ہیں ،مجھے اس سے کیا غرض کہ سرحد پار کون آلو گوشت کھاتا ہے ،یا نہیں ؟۔۔۔۔۔میری وفاداریاں افغانستان سے ہیں نہ ایران سے، نہ سعودی

عرب سے،نہ کسی اور ملک سے۔ مجھے تو کسی خاندان سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ، میں اس غم میں اپنے آپ کو کیوں دبلا کروں کہ  کہیں بادشاہت نواز یا زرداری خاندان سے نکل نہ جائے۔،

میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ  تمام صوبوں کو  اور تمام نسلوں کو اور ساری قومیتوں کو  برابری کی سطح پر  رکھاجائے۔

ایسا نہ ہو کہ  کچھ تو چھینک آنے پر لندن کا رخ  کریں او ر کچھ بچے  جنم دیں تو بچے کا بچھونا  زمین کا  فرش ہو۔

کچھ ملزم جرم ثابت ہوئے بغیر ،ساری زندگی جیل میں  گزار دیں  اور کچھ عدالت  میں پیش  ہوتے وقت  چالیس چالیس  گاڑیوں  کے جلوس میں بادشاہوں  کی طرح آئیں ۔مجھے انڈر پاسوں ،پلو ں، شاہراہوں ،میٹرو بسوں،اور ٹرینوں سے کیا  لینا دینا ۔جب میری  بستیوں اور قریوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ میرے بچے سکوکوں میں بیٹھنے کے بجائے مویشی  چرا رہے ہیں ، ریستورانوں میں برتن مانجھ  رہے ہیں ، دوسروں کے گھروں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ،اور ورکشاپوں میں کپڑے اور ہاتھ کالے کرکے چند سکے شام کو گھر لاتے ہیں ،

میرا مسئلہ تو وہ ہزاروں  سکول ہیں جن کی چھتیں نہیں اور نہ ہی چار دیواری۔جن میں سے بہت سے گودام اور بھینسوں کے باڑوں میں  تبدیل ہوچکے ہیں ،

بھائی میری کسی سے کوئی  کشمنی نہیں ، خاندانی  نہ مذہبی،نہ مسلکی نہ سیاسی، لیکن مجھے کوئی ان لوگوں سےتو نجات دلوا دے  جو اپنے  بچوں کو  شہزادے اور دوسروں کو رعایا سمجھتے ہیں س اور جن کے ہوم کنٹری برطانیہ اور یو اے ای ہیں ۔


ہم کس عہد میں جی رہے ہیں !

$
0
0

دکھ کی بات تھی  اور دل میں خؤشی بھی انگڑائی لے رہی تھی، خؤشی اس لیے کہ  دوست گرامی رؤف کلاسرہ کا پرسوں والا کالم پڑھ کر  بے اختیار  اقبال کا شعر یاد  آگیا۔۔۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں !

پنجاب حکومت جس طرح  ٹامک ٹوئیاں  مار رہی  ہے،اس کی  وارننگ پہلی بار  اس کالم نگار نے اس وقت دی تھی  جب صوبے  کے حکمران اعلیٰ نے قصور ہسپتال  کا "معائنہ"کیا تھا۔ کچھ کو معطل  کیا،کچھ کو  جھڑکیاں دیں ، پھر کچھ عرصہ  بعد ایک  بار پھر "معائنہ "کیا ۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔ 13 اگست  2016 کو  ایک معروف  و مشہور انگریزی  معاصر  نے شہ سرخی جمائی۔

"قصور  ڈسٹرکٹ  ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ،چیف منسٹر کے  معائنوں  کے باوجود  کوئی تبدیلی نہ آئی"

 ملازموں نے بتایا کہ سٹاف مریضوں کو  پرائیویٹ ہسپتال جانے کا  مشورہ دیتا ہے،ٹریفک پولیس تک کے  مریض  کو اٹنڈ نہ کیا گیا، ڈاکٹر غائب رہتے ہیں ،محکمہ صحت  کے ای ڈی  او نے  خود  کہا کہ بھارت کی طرح  یہاں بھی نجی پریکٹس  ڈاکٹروں  کی ممنوع ہونی چاہیے،لیکن بھارت میں ایسا کرنے سے پہلے ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں ، "معائنوں  "کے باوجود  ناکامی کی یہ ایک انتہائی مختصر داستان ہے، ورنہ  صفحوں  کے صفحے  بھر جائیں ۔

یہ سب اس لیے کہ وزیر اعلیٰ  کا طرزِحکومت شخصی  اور قبائلی ہے، وزیر سیکرٹری ساتھ ہوتے  اور معائنہ کے دوران  ذمہ داری  ان پر ڈالی جاتی ،سرزنش کی جاتی تو نتیجہ مختلف نکلتا ، سارے مسئلے کا لبِ لباب  کیا ہے؟

اصل معاملہ کیا ہے؟ وہ جسے انگریزی میں  
crux of the  matter


کہتے ہیں ۔

کیا ہے؟

 صرف اور صرف  یہ کہ وزیر اعلیٰ  صوبائی اسمبلی  کو کسی قابل نہیں سمجھتے  کابینہ عضوِ معطل ہے، پہاڑ سے لے کر رائی تک ہر فیصلہ خؤد کرتے ہیں اور ہاتھی سے لے کر چونٹی تک ہر ذی روح  صرف ان کے اشاروں کا محتاج ہے۔

مگر رؤف کلاسرہ نے کمال خؤبصورتی او جامعیت سے پنجاب  حکومت کی طرزِ بادشاہی کو بیان کیا ہے، اور بتایا ہے کہ بیوروکریسی کا ہر کل پرزہ  منتظر رہتا ہے، کہ وزیر اعلیٰ  "نوٹس"لیں تو  وہ حرکت کرے۔انگریزی  سے اردو صحافت میں آنے والے  رؤف کلاسرہ نے دکھا دیاہے کہ بغل میں ٹھوس مواد  ۔حقائق  اور دلائل ہوں تو لچھے  دار الفاظ اور مرصع  مرقع زبان  کے بغیر  سلیس اردو  میں بھی دلوں  کے اندر اترا جاسکتا ہے۔

92ٹی وی چینل پر اس شخص کو سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح  جرات و بے خؤفی سے  اور کس طرح قومی خزانے  کی تاخت و تاراج  کو کلاسرہ پبلک کی آنکھوں  کے سامنے یوں رکھ دیتا ہے، کہ اشتباہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

اس پر آشوب  دور میں  جب بڑے بڑے ستون دیمک  زدہ ہوگئے، اور کرنسی  اور مراعات  کا ٹڈی  دل بڑے بڑے  دماغ چاٹ  گیا۔ رؤف کلاسرہ جیسے صحافیوں کا  وجود نعمت سے کم نہیں ، یہ انگلیوں  پر گنے جا سکنے والے افراد  ساری کمیونٹی کی طرف  سے فرض  کفایہ ادا کرہے ہیں ۔

 خؤشی کا ذکر تو ہوگیا۔ دکھ کیوں ہوا؟۔۔۔ اس لیے کہ اصل معاملہ دکھ کا ہی ہے۔ یہ طرزِ حکومت یہ جمہوریت کی عملی نفی ۔،یہ قبائلی سٹائل، یہ دکھ کی ہی بات ہے،

چھپن نام نہاد  کمپنیوں کی ناکامی  کا سکینڈل سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکم صادر ہوا  کہ "تھرڈ پارٹی جائزہ"لیا جائے۔ اور ناکام کمپنیوں کو بند کردیا جائے، مگر اسی ارب روپے سے زائد  کی بے ظابطگیاں  جو  ہوچکی ہیں ،ان کی ذمہ داری کون قبول کرے گا، صاف پانی کمپنی نے کتنے لوگوں کو  صاف پانی مہیا کیا؟۔۔۔ اصل کمپنیوں کو سونپے گئے کام  بلدیاتی اداروں نے کرنے تھے،  ایک طرف بلدیاتی ادروں کو فدنڈز نہ دے کر عدم  فعا ل رکھا گیا دوسری طرف  پسندیدہ افراد کو  لاکھوں کروڑوں روپے سے نوازا گیا۔ بورڈ آف  گورنرز  میں سیاست  دان تک شامل کرلیے گئے ،
صرف ایک مثال سے ان کمپنیوں  کی شفافیت کا اندازہ لگائیے ۔کہ ؛لاہور پارکنگ  کمپنی کا ٹھیکہ ایک ایسی فرم کو دیا گیا۔ جو بلیک لسٹ  تھی۔ حکومت کو ماہانہ پانچ کروڑ  کا نقصآن ہوتا رہا۔
 چودھویں صدی کے حکمران محمد تغلق  اور  پنجاب  حکومت میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔محمد  تغلق نے بڑے بڑے منصوبے شروع  کیے اور  کرائے۔ مگر مشورہ  کسی سے نہ کرتا  تھا۔ مثلاً ایک منصوبہ بنایا کہ بنجر زمینوں   کو قابلِ کاشت بنایا جائے اور کسانوں  کو مجبور کیا جائے کہ عام فصلوں کے بجائے "قیمتی"فصلیں بوئی جائیں ۔ حکم ہوا کہ  باجرے  کے بجائے گندم بوئی جائے، گندم جہاں بوئی  جاتی ہے وہاں گنا بویا جائے۔اور جہاں گنا بویا جارہا تھا ،وہاں انگور اور  کھجور کاشت کی جائے ۔

یہ منصوبہ جن افراد کو  سونپا گیا  وہ اسی قبیل کے تھے جنہیں ان چھپن کمپنیوں  کی بارشاہی  عطا کی گئی ہے۔ کچھ نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ ایک لاکھ بیگھہ  زمین کو آباد کرکے دکھائیں گے، کچھ نے کہا کہ ہزاروں گھڑسوار ان زمینوں کی آمدنی سے تیارکریں گے۔ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا  امدادی رقوم  جن افسروں نے کسانوں میں تقسیم کرنا تھیں وہ بددیانت نکلے۔ دو سال کے عرصہ میں  ستر لاکھ ٹکا خزانے سے جاری ہوا مگر  اس کا ہزارواں حصہ بھی کسانوں تک نہ پہنچا۔

پھر محمد تغلق کے دماغ نے ایک  اور جھر جھری لی، لگان کو نیلام کردیا۔ یعنی جو زیادہ بولی  دے گا کہ میں فلاں علاقے سے اتنا لگان اکٹھا کرکے خزانے میں جمع  کراؤں گا   اسے وہ علاقہ  سونپ دیا گیا۔ یہ بولیاں  دینے والے ناتجربہ کار تھے، انہوں نے کسانوں کو لوٹنا شروع کردیا ، پھر بھی مطلوبہ رقوم اکٹھی نہ ہوئیں ۔ بادشاہ نے ان کے بازو مروڑے تو بغاوت ہوگئی، سکیم بری طرح ناکام ہوگئی۔

 پھر ایک اور سکیم آئی  چاندی کے سکوں  کی جگہ تانبے اور  پیتل کے سکے جاری کئے گئے ،سکیم  ناکام ہوگئی ،معیشت تباہ ہوگئی۔، پھر بادشاہ  نے اعلان کیاکہ لوگ پیتل کے سکے خزانے میں جمع  کرا کر سونے اور چاندی  کے سکے واپس لیں ۔

دارالحکومت میں پیتل کے سکون کے پہاڑ جمع ہو گئے ،رہا سہا خزانہ خالی ہوگیا۔ پھر بادشاہ  نے دارالحکومت دہلی سے دیواگری (موجودہ  مہاراشٹر صوبے میں ) منتقل کرنے کا حکم دیا۔ دیواگری کا  نام دولت آباد رکھا گیا۔ یہ دہلی سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر  دور تھا۔ فوائد ضرور تھے مگر  یہ منصوبہ  اس بری طرح ناکام ہوا کہ  محمد تغلق  کو تاریخ نے پڑھا  لکھا بے وقوف  کا خطاب دیا۔

وجہ یہ تھی کہ  یہ فیصلہ  اچانک کیا اور صرف بادشاہ  کا اپنا  فیصلہ تھا، کسی سے  مشورہ لیا نہ  منصوبے کے مختلف  پہلوؤں پر غؤر کیا گیا۔ ممکنہ نقصانات کا سوچا ہی نہ گیا۔ پھر حکم دہا کہ دہلی کی ساری کی ساری آبادی دولت نگر منتقل ہو۔ لوگ راضی نہ ہورہے تھے۔ صدیوں سے یہ خاندان  دہلی میں مقیم تھے۔ کیسے جاتے۔۔۔بادشاہ نے  سفر کے دوران  بھاری مراعات  کا اعلان کیا پھر بھی  لوگ راضی نہ ہوئے۔
پھر محمد تغلق نے شہر میں منادی  کرادی کہ تین  راتوں کے بعد شہر  میں کوئی نہ دکھائی دے۔ بہت سے لوگ چل پڑے ،کچھ چھپ گئے۔ شہر کی تلاشی لینے  کا حکم ہوا، ایک گلی میں ایک اندھا  اور ایک اپاہج ملا، اپاہج کے بارے حکم ہواکہ اسے  منجنیق میں ڈال کر اس طرح پھینکا جائے جیسے  پتھر پھینکتے ہیں ، اندھے کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اسے دہلی سے دولت آباد تک گھسیٹ کر لیجایا جائے۔، یہ فاصلہ چالیس دن کا تھا۔ اندھا بیچارہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ دولت آباد اس کی صرف ایک ٹانگ ہی پہنچ پائی، ظفر اقبال نے شاید اسی کے بارے میں لکھا تھا۔۔۔

میں نے کب دعویٰ کیا ہے،سربسر باقی ہوں میں

پیش خڈمت ہوں تمھارے،جس قدر باقی ہوں میں !

اس سے دہشت اس قدر پھیلی کہ چھپے ہوئے لوگ بھی دولت آباد روانہ ہوگئے، بہت سے بیمار ہوکر راستے میں مرکھپ گئے، بہت سے نئی زمین،نئی آب و  ہوا ،نئی زبان  اور نئے ماحؤل سے سمجھوتہ نہ کرسکے ،ذہنی بیماریاں لاحق ہوگئیں ۔ آٹھ سال گزرے تھے کہ بادشاہ کو یہ ساری سکیم ناکام اور حماقت آمیز نظر آئی۔ اب حکم ہوا کہ سب واپس چلو۔ دہلی کو دوبارہ دارالحکومت قرار دے دیا گیا،اور رہی سہی کسر واپسی کے سفر نے پوری کردی۔

حکومت پنجاب  کی کچھ سکیموں  کے تو اب نام ہی سننے میں نہیں آتے۔ سستی روٹی، دانش سکول، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ۔صرف دانش سکولوں کا معاملہ چھان کر دیکھ لیجئے، اربوں روپے ان پر لگ گئے، دوسری طرف سرکاری سکولوں میں  63 ہزار  اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں ، تیرہ سو سکولوں میں بیت الخلا کوئی نہیں ، پونے پانچ ہزار سکولوں کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں ، ساڑھے پانچ ہزار سکولوں میں پینے کاپانی مفقود ہے۔ پونے تین ہزار سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں  اور ڈیسک موجود نہیں ۔

اور اب چھپن کمپنیوں  کی سکیم  کی ناکامی، ہر طرف احتجاج کا شور اور مقدمہ بازی  ،ان کمپنیوں کے نام پڑھ کر انسان  فرطِ حیرت سے انگشت بدنداں  رہ جاتا ہے۔

اے ارض سیہ روز  !کوئی اور ہی سورج

 شاید کہ بد ل جائیں یہ ایام ہمارے!



واہ !سردار مہتاب عباسی صاحب ،واہ!

$
0
0

یہ صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا،ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی ائیر لائن کا  جہاز پشاور  جانے کے لیے پر تول رہا تھا،غالب تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جو محنت مزدوری کرنے آئے تھے،ان کا تعلق خیبر پختونخوا کی بستیوں اور قریوں سے تھا۔۔

ساڑھے سات بجے جہاز پشاور کی سرزمین پر اترا ،مسافر باہر نکلے  ،جنگلے  کے اس طرف ان کے  ماں باپ بیوی بچے دوست  احباب  بے تابی سے انتظار کررہے تھے، گھومتی ہوئی پٹی پر سامان آجارہا تھا۔،لوگ اپنا اپنا آئٹم پہچانتے اور ،بیگ اس  صندوق  اٹیچی کیس  یا کسی  بھی اور شکل میں ، اٹھاتے ،ٹرالی پر رکھتے اور باہر کا رخ کرتے۔
پھر پٹی چلنی بند ہوگئی، سامان ختم ہوگیا، تاہم تقریباً  اٹھارہ بیس  مسافر اب بھی  اپنے سامان کا انتظار کررہے تھے، وہ کھڑے رہے، ایک دوسرے  سے پوچھتے رہے، سول ایوی ایشن کے کچھ  ورکر نظر آرہے تھے ،ان سے پوچھا مگر وہ کیا بتاتے، پھر ان میں سےایک  دو نے ہمت کی،پی آئی اے  کے ایک اہلکار سے پوچھا ،اس نے نہایت اطمینان  سے جواب دیا، بھائی یہ جہاز چھوٹا ہے،ہم اٹھارہ بیس مسافروں کا سامان  ابو ظہبی میں چھوڑ آئے ہیں ، وہ بعد میں آئے گا، پوچھا گیا کب آئے گا۔  پی آئی اے کے اہلکار نے ایک ادائے بے نیازی سے ،جس میں  تغافل بھی تھا اور  حقارت بھی، جواب دیا کہ یہ کچھ  نہیں کہا جاسکتا،آج یا کل یا کچھ دنوں بعد۔

 آپ کا کیا خیال ہے ان مسافروں کی حالت اس وقت کیا ہوگی؟۔۔۔۔ یہ مزدور تھے، اپنے وطن سے دور رہ کر کفیل سسٹم کے ظلم و ستم سہہ کر انہوں نے  جسمانی مشقت برداشت کی،سامان اٹھایا ،چوکیداریاں کرتے رہے، مشینیں چلائیں ،ریستورانوں میں برتن مانجھے، خود بھوکے رہے،بچت کرکے گھر والوں کے لیے کچھ نہ کچھ خریداری کی، کسی کی جوان بہن انتظار کررہی تھی کہ بھائی کچھ لائے گا، اس کے جہیز کے لیے، کسی کی بیوی جدائیاں  برداشت کرکے منتظر تھی کہ  میاں  آئے گا تو گھر  کےاستعمال کی فلاں فلاں  شئے لیتا آئے گا،بوڑھے ماں باپ انتظار کرہے تھے،بیٹے نے ان کے لیے کچھ تحفے خریدے تھے، بچے اپنے کھلونوں اور چاکلیٹوں کے منتظر تھے،یہ سب سامان پی آئی اے والے ابوظہبی میں چھوڑ آئے تھے،انہیں کسی کی کچھ پروانہ تھی۔

سردار مہتاب عباسی سول ایوی ایشن کے مشیر ہیں ، ان کا رتبہ  عہدہ اور مراعات  وفاقی وزیر کے برابر ہیں ، کیا انہیں معلوم ہے کہ یہ پشاور میں پہلی بار نہیں ہوا، ان بیس مسافروں میں دو تین  پاکستانی ایسے بھی تھے جو یورپ امیریکہ سے آئے تھے، اور ابوظہبی سے فلائیٹ بدلی تھی، عام طور پر اتحاد ائیر لائن والے ابو ظہبی پہنچ کر اپنے مسافر پی آئی اے والوں کے حؤالے کردیتے ہیں ، جہاں تک پشاور کا تعلق ہے، پی آئی اے کا معمول ہے کہ  سامان چھوڑ آتے ہیں ، مزدور قسم کے سادہ لوح  پاکستانی احتجاج  کرتے ہیں نہ شکایت،

پشاو رپی آئی اے کے ایک  سینٹر عہدیدار  نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر  تفصیل سے آگاہ کیا  کہ یہ ظلم  ایک عرصہ سے پشاور  اور ارد گرد  کے علاقوں میں ہورہا ہے، جہاز چھوٹے ہیں ، کرایہ کی لالچ میں مسافر بٹھا لیے جاتے ہیں ، ان کا سامان  جان بوجھ کر  ایک پالیسی کے تحت چھوڑ دیا جاتا ہے، چونکہ مسافر  زیادہ تر  مزدور ، ان پڑھ  نیم خؤاندہ ہوتے ہیں ، وہ تحریری احتجاج تو کر ہی نہیں سکتے۔ زبانی احتجاج  کرتے ہیں مگر  اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، پی آئی اے والے ہنس کر  ،کبھی خاموشی  رہ کر ،کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرکے  ان لوگوں کو چپ کروا دیتے ہیں ۔

پشاور کے اسٹیشن منیجر  ایاز خان  سے جو پورے  ہوائی اڈے  کے سب سے بڑے افسر ہیں ، ان کے فون نمبر  0333-9462411پر بات ہوئی، تعجب کی  انتہا یہ تھی کہ  سٹیشن منیجر کو بقول ان کے  اس پورے واقعے کا بلکہ المیے کا علم ہی نہیں تھا۔ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ پریکٹس ایک عرصہ سے چل رہی ہے، اور صرف پشاور میں ایسا ہو رہا ہے، انہوں نے ایسے لہجے میں ،جس کا  مطلب تھا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے،جواب دیا کہ  ہاں ہوجاتا ہے، ان سے پوچھا  کہ کیا  آپ کو معلوم ہے کہ  یہ لوگ  جو مزدوری کرکے واپس آتے ہیں  تین تین چار چار سال  بعد وطن واپس آتے ہیں ، ان کی بہنیں  ،بیوی بچے، ماں باپ، اپنے تحائف  کے منتظر ہوتے ہیں ، ایاز خان کے بقول  وہ اس قسم کے کسی  المیے سے  بے خبر تھے۔

اگر سٹیشن منیجر کی بات سچ تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ  ائیر پورٹ کے  نچلے درجے کے ملازمیں  او ر اہلکار  سٹیشن منیجر کو اصل صورتحال سے بے خبر رکھے ہوئے ہیں ،  مگر سٹیشن منیجر کی کارکردگی اور استعداد کار کا اندازہ لگائیے کہ جو کچھ اس کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے ،اسے اس کا  پتہ ہی نہیں ، تو پھر کیا عجب کہ پی آتی اے دنیا کی ناکام ترین  ائیر لائنوں میں سے ہے۔

چیئر مین  پی آئ اے عرفان الہی صاحب سے  کمنٹ لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے معاون  مسٹر اویس  نے کہا کہ انہیں  فون نمبر دینے کی اجازت نہیں ۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ چیئرمین جو سول ایوی ایشن ڈویژن کے  سیکرٹری ہیں  ،پبلک سرونٹ بھی ہیں ، عوام کا حق ہے کہ ان تک رسائی ہو۔ تاکہ وہ انہیں صورتحال سے آگاہ کرسکیں ، مگر ان کا ہر بار ایک ہی جواب تھا  کہ عرفان صاحب کا حکم ہے کہ  ان کا فون نمبر کسی کو نہ دیا جائے،  سوال یہ ہے کہ کیا ان کا موبائل فون سرکاری نہیں ہے؟ کیا  اس کا بل حکومت کے خزانے سے ادا نہیں ہورہا ؟  پھر وہ اسے پردہ اخفاء میں کیسے اور کیوں رکھے ہوئے ہیں ۔

مگر اصل  ذمہ داری سردار مہتاب عباسی صاحب کی ہے جو مشیر  بمرتبہ وزیر ہیں ۔، وہ سیاستدان ہیں  ،بیوروکریٹ نہیں ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ اہلِ پشاور کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ؟ اب وہ بدعائیں سنیے جو اپنی حق حلال کی کمائی سے ،اپنے خؤن پسینے سے ۔خریدے ہوئے سامان سے محروم  ہونے والے دے رہے تھے 

اس کالم نگار کو بدقسمتی سے پشتو نہیں آتی،(یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے صوبوں میں دوسرے صوبے کی زبان پڑھائی اور نہ ہی سکھائی جارہی ہے۔) کچھ لوگ جو وہاں موجود تھے،ان کی محبت کہ ترجمہ کرکے بتاتے رہے۔۔۔

 خدا اس ائیر لائن کا بیڑہ غرق کرے،

 ان اہلکاروں کا ستیا ناس ہو،

 ان کے بیوی بچے بھی اسی طرح سامان کو ترسیں جیسے ہمارے ترسائے جارہے ہیں ،۔

یہ حرام خؤر کرایہ پورا لیتے ہیں ، مگر اپنا فرض  نہیں سر انجام دیتے۔

ایک نسبتاً پڑھے لکھے شخص  سے بات ہوئی جو دو سال  بعد  مشرقِ وسطیٰ سے واپس آرہا تھا۔ وہ اپنے بیمار ماں باپ کے لیے کچھ دوائیں  بھی لایا تھا، اس کا کہنا تھا کہ  اگر اس کے پاس آپشن ہوتا تو وہ کبھی اس نام نہاد ائیر لائن سے سفر نہ کرتا ۔
ان لوگوں میں ایک صاحب مشرق بعید سے آئے ہوئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ تین چار سال پہلے بھی پشاور ائیر پورٹ   پر ان کے ساتھ یہی ڈرامہ کھیلا گیا تھا، اور سامان  انہیں کئی  دن بعد ملا تھا۔

سوال یہ ہے  کہ  سردار مہتاب عباسی صاحب اس  بدترین مذاق کو ختم کرسکتے  ہیں ؟اور کیا وہ چیئر مین صاحب  اور سیکٹری کو باور کراسکتے ہیں کہ وہ سات پردوں میں  چھپنے کی بجائے ان لوگوں کا سامنا کریں  جنہیں ان کی ائیر لائن زہر کے ساتھ ڈس رہی ہے۔ جن کی جیبوں  سے لاکھوں روپے نکال کر انہیں سامان کے بغیر بے یار و مدد گار  چھوڑدیا جاتا ہے۔ ؟

اگر سردار  صاحب اتنا  بھی نہیں کرسکتے تو  پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ  واہ ! سردار مہتاب عباسی صاحب۔  واہ!    


کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی ہیں

$
0
0

میں تو ایک جھیل ہوں ۔جاڑا آتا ہے تو کونجیں اترتی ہیں ،دور دور سے آئی ہوئی،سائبیریاسے،صحرائے گوبھی کے اس پار سے برف سے، مستقل ڈھکے پہاڑوں سے،آکر میرے کناروں پر بیٹھتی ہیں ، باتیں کرتی ہیں ۔میرے ترسے ہوئے نیلے پانیوں کو اپنی  ٹھنڈی چونچوں  سے بوسے دیتی ہیں ، پیاس بجھاتی ہیں۔پھر  رُت بدلتی ہے۔ وہ ڈاروں کی صورت اڑتی ہوئی واپسی کا راستہ لیتی ہیں ۔ میرے پانی، میرے کنارے انہیں جاتے ہوئے حسرت سے دیکھتے ہیں ،مگر روک نہیں پاتے۔بس پوچھتے ہیں ۔کیا تم سائبیریا واپس جا کر ہمیں یاد کرو گی؟"تم اگلےسرما ضرور آنا ہم یہیں تمھارا انتظار کریں گے"

میں تو ایک باغ ہوں اپنے فرش کو اس سبزے سے آراستہ کرتا ہوں جو مخمل  کی طرح ہے۔ روش روش  پھول کھلاتا ہوں  کنج کنج آراستہ کرتا ہوں ۔فوارے چلاتا ہوں ۔نہر کا پانی باغ کے راستوں سے گزارتا ہوں ۔پانی میں رنگین مچھلیاں  پالتا ہوں پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں  کہ نرم خنک ہوا چلے۔ٹہنیاں جھومیں  ۔پھول رقص کریں یہ سب کس لیے؟ان بچوں کے لیے جو دن چڑھے باغ میں آتے ہیں  ۔ان پرندو ں کے لیے جو مختلف  رنگوں کے ہیں اور  خوبصورت ہیں  اور میں سمجھتا ہوں  میں زمین کا نہیں آسمان کا ٹکڑا ہوں ۔ میں باغ ہوں مگرباغ  بہشت ہوں ۔ بچے میرے سبز مخمل پر دوڑتے ہیں تو میرے سینے میں توانائی بھر جاتی ہے۔

رنگین خوبصورت پرندے میرے درختوں کی ٹہنیوں  پر بیٹھ کر گیت گاتے ہیں  تو ابر پاروں کے اس پار  سے فرشتے اترتے ہیں  اور ان پرندوں اور ان بچوں کی حفاظت کرتے ہیں ،دن بھر چہکار اور مہکار رہتی ہے۔پرندے اور بچے،بچے اور پرندے،آنکھ مچولیاں کھیلتے ہیں پھول پودے درخت سبزہ اور پانی تالیاں بجاتے ہیں  !مگر آہ !جب شام ہونے لگتی ہے سب کوچ کرنے لگتے ہیں !پرندے اڑ جاتے ہیں بچے روشوں کو اداس ،پانی کو خاموش،پھولوں کو منہ بسورتا،پودوں کو دم بخود اور درختوں کو مغموم چھوڑ کر چلتے بنتے ہیں ۔باغ پر ویرانی چھاجاتی ہے۔اجاڑپن ہر شئےکو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔پھر رات پڑتی ہےاندھیری،سرد،بے مہررات! لمبی رات!باغ رات تنہا گزارتا ہےان بچوں اور پھولوں کی یادیں جو دن بھر اس کے سینے پر کھیلتے بھاگتے گاتے اور پھدکتے رہے۔

میں تو ایک پارک ہوں ۔دن بھر لوگوں سے بھرا رہتا ہوں ۔بیٹھتے ہیں دھوپ کھاتے ہیں جب یخ زرد شام چھانے لگتی ہے توسب گھروں کو چل دیتے ہیں پھر رات بھر برف باری سے میں تنہا نمٹتا ہوں ۔

میرا حال تو میری دادی کا سا ہے۔گرمیوں کی چھٹیاں ہم سب ہمیشہ گاؤں میں ان کے ساتھ گزارتے تھے۔کوئی کہاں سے آتا تھا،کوئی کہاں سے،اپنے اپنے ٹھکانوں ،قصبوں اور شہروں سے!سب ایک گھر میں جمع ہوتے تھے دو اڑھائی ماہ مل کر رہتے تھے ۔دن ڈھلتے ہی صحن میں جھاڑو دیا جاتا تھا۔پھر پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔گرد بیٹھتی تھی سوندھی سوندھی خوشبو سارےمیں پھیل جاتی تھی۔پھر چارپائیاں بچھتی تھیں۔ان پر سفید چھپے والی چادریں بچھائی جاتی تھی - تکیے  رکھے جاتے تھے۔رات کو چہل قدمی کے لیے سب باہر جاتے تھے۔صبح نو بجے صحنوں میں تنور سلگا دیے جاتے تھے۔گرم گرم روٹیوں  پر،انگلیوں کےساتھ،دادی گڑھے ڈالتی تھیں پھر مکھن کے بڑے بڑے پیڑے ان روٹیوں کے سینوں پر پگھل کر،ان گڑھوں  میں رچ بس جاتے تھے۔ ساتھ شکر ہوتی تھی اور دودھ جیسی میٹھی لسی!

ہم سب بچے باہر، اپنے کھیتوں میں جاکر بیلوں سے خود خربوزے توڑتے تھے۔موٹھ اور مونگ کی ادھ پکی پھلیاں کھانے کا اپنا مزہ تھا! خاندان کی خواتین سفر سے پہلے گھوڑیوں پر بیٹھتی تھیں تو گلی میں سے مردوں کا گزرنا روک دیا جاتا تھا۔

مگر یہ ستر اسی  دن اس قدر تیز رفتاری سے گزرتے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔پھر وہ دن آتا تھا جب سب نے واپس جانا ہوتا تھا۔ اس د ن دادی صبح سے بولنا بند کردیتی  تھیں  بس خاموشی سے  بچوں کے  جانے کی تیاری کرتی رہتی تھیں سامان بندھ جاتا اٹیچی کیس ،صندوق تیار کئے جاتے بیگوں کی زپیں چلنے اور بند ہونے کی آوازیں آتیں ، پھر سب رخصت ہوتے تو دادی دروازے کے سامنے کھڑی ہوجاتیں  ۔جب تک جانے والے نظر آتے کھڑی رہتیں ۔پھر وہ سب سامنے مکانوں کی اوٹ سے ادھر  ہوتے تو دادی  پلٹ کر گھر کے اندر آتیں۔ اس قطرے کو جو رخساروں پر بہہ رہا ہوتا انگلی سے صاف کرتیں پھر خالی صحن اور بھائیں بھائیں  کرتے کمروں کو دیکھ کر ،صحن کے ایک طرف بیٹھ جاتیں۔

میرا حال بھی وہی ہے ہاں ، زمانے کی گردش نے ہجر اور وصال کے تلازمے تبدیل کردئیے ہیں ۔ پہلے مختلف شہروں اور قصبوں سے آتے تھے اب بچے مختلف ملکوں سے آتے ہیں ۔ اب کھیتوں  کھلیانوں  میں نہیں ،تعطیلات کے دوران پارکوں  کلبوں بازاروں اورمارکیٹوں  میں جاتے ہیں اب گھوڑیاں اور اونٹ نہیں ،جہازوں کے پیٹ انہیں اپنے اندر چھپا کر لے جاتے ہیں اور دور دیسوں میں جاکر اگل دیتے ہیں۔

ہجر اور وصال کے تلازمے بدلے مگر کرب اور درد کے اشاریے وہی ہیں  ۔صحن اسی طرح ویران ہوتے ہیں۔کمرے اسی طرح بھائیں بھائیں کرتے ہیں  ۔جو کھلونے ،چھوٹے چھوٹے جوتے اور ننھی منی قمیضیں  یا پتلونیں رہ جاتی ہیں  ۔وہ اُسی طرح رلاتی ہیں  ۔آنسو اب بھی رخساروں پر ڈھلکتے ہیں مگر ہوائی اڈوں پر! گھر میں  مُڑتی ہوئی سیڑھی اب بھی آہیں بھرتی ہے ۔دروازے اب بھی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو یاد کرکے خاموش سسکیاں بھرتے ہیں  ۔گھوڑے ہوں یا ڈاچیاں  ،جہاز ہوں  یا کشتیاں  یا ہوائی اڈے ،درد کے سامان میں کمی نہیں آئی۔ انسان کے اندر کو کسی زمانے کسی ایجاد، کسی ترقی نے تبدیل نہیں کیا ۔آنسو روکنے کے لیے سائنس کچھ نہیں کرسکی ۔اب چند گھنٹوں  میں ویرانے سبزہ زار بنا دیے جاتے ہیں  ۔مگر سلگتے خالی  ویران سینوں کو آباد کرنے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوا ۔پہلے رخصت کرنے والے بندرگاہوں  پر روتے تھے پھر ریلوے اسٹیشنوں  پر۔ اب ہوائی اڈوں پر روتے،سسکتےاور بلکتے ہیں !جدائی ایک مستقل  قدر ہے ۔کوئی الجبرا،کوئی ریاضی ،کوئی فزکس اس قدر کو گھٹا نہیں سکی ۔راکٹ مریخ پر پہنچ جائیں  مگر ناصر کاظمی کا فرا ق کا گیت سدا ہرا بھرا رہے گا۔

؎پھر وہی گھر وہی شام کا تارا

 پھر وہی رات وہی سپنا تھا

 یوں گزرا وہ ایک مہینہ

جیسے ایک ہی پل گزرا تھا

 صبح کی چائے سے پہلے اس دن

 تو نے رختِ سفر باندھا تھا

 اب نہ وہ گھر نہ وہ رات کا تارا

اب نہ وہ  رات نہ وہ سپنا تھا

 آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی

 کل جہاں خوشبو کاپھیرا تھا

پچھلی شب کی تیز ہوا میں

کورا کاغذ بول رہا تھا!

پہلے حویلیاں  فراق کے نوحے پڑھتی تھیں  ۔اصطبلوں میں گھوڑے آنسو بہاتے تھے ۔اب پورچوں میں گاڑیاں ماتم کرتی ہیں ۔بیڈ روم  خالی ہوکر صدائیں  دیتے ہیں!انسان کے باہر سب کچھ بدل گیا۔اندر کچھ نہیں بدلے گا۔جب تک دل خون کا ٹکرا ہے۔ اس میں سے درد کے سوتے بہتے رہیں گے۔ جب تک آنسو بنتے رہیں گے ،آنکھوں  سے نکلتے اور رخساروں  پر لڑھکتے رہیں گے ۔بشیر بدر نے کہا تھا

؎گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک  


خون میں آگ بن کر اتر جائے گی یہ مکان صبح تک راکھ ہوجائے گا

اب تو جو گئے ہیں  انہیں پیچھے چھوڑے ہوئے گرم کپڑوں کے صندوقوں  کی فکر ہے نہ ضرورت!وہاں تو ان لباسوں کی ہی ضرورت نہیں !ہوائی جہاز  ایسا عفریت ہے جس نے ہجرتوں کے در کھول تو دیے ،بند کرنا اس کے بس کی بات نہیں!ہجرت ایسا عمل ہے جس کا ایک سرا نظر آتا ہے دوسرا کسی کو نہیں دکھائی دیتا۔ہجرت کرنے والی نسلوں کا اَن دیکھا نامعلوم مستقبل کسے نظر آسکتا ہے!ایک نسل ان رابطوں کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے جدوجہد کرتے کرتے ٹھکانے لگ جاتی ہے۔دوسری نسل میں یہ تعلق کمزور ہونے لگتا ہےاس کے بعد کوئی گارنٹی ہے نہ پیش گوئی! پھر زمانہ جو چاہے کرے!پھر وقت اپنی رو میں جسے جدھر چاہے لے جائے!

؎ نے باگ ہاتھ ہر ہے نہ پا ہے رکاب میں

ہجرتیں جو بستیوں قریوں ڈھوکوں گوٹھوں سے شروع ہوئی تھیں ،نزدیک کے قصبوں اور شہروں تک لائیں  ۔پھر سمندر پار دوسرے ملکوں میں لے گئیں۔

پہلے زندگیاں  اس امید میں ختم ہوتی تھیں کہ گاؤں واپس جائیں گے۔اپنے کیکر اور اپنے شیشم کے نیچے بیٹھ بیٹھ کر،اپنے رہٹ کا پانی پئیں گے،کوئی گاؤں واپس نہ گیا۔شیشم،کیکر اور رہٹ انتظار کرتے رہے جو شہر میں آیا،وہیں کا ہوگیااب عمریں اس سراب میں کٹتی ہیں کہ سمندروں کو عبور کرکے واپس وطن جائیں گے۔مگر کوئی واپس نہیں آتا۔آتے بھی ہیں تو جانے کے لیے۔

سمندروں  کے کنارے خواب گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔ان کی کھڑکیاں صرف اور صرف پانیوں کی طرف کھلتی ہیں ۔پانیوں کی طرف!سفینوں اور جہازوں کی طرف!کوئی کھڑکی واپسی کی طرف نہیں کھلتی!       


وہی لندن وہی انڈیا آفس!

$
0
0

دوسری صدی عیسوی میں یہ رومنوں کا صدر مقام تھا ،آبادی اس وقت ساٹھ ہزار تھی،صرف ساٹھ ہزار!
یہ لندن کے عہدِ اقتدار کا آغاز تھا،اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ لندن ہمیشہ حکومتوں کا مرکز رہا۔، پھر وہ وقت بھی آیا کہ ملکہ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ نیوزی لینڈ میں غروب ہوتا تھا تو کینیڈا میں طلوع ہورہاہوتا تھا، انتہائے جنوب میں ساؤتھ افریقہ سے لے کر ملائشیا تک اور مصر و سوڈان تک لندن ہی کا اختیار اور اقتدار تھا۔
1857 میں ہندوستانی لڑے مگر آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے زمام اقتدار ملکہ کو پیش کردی۔ "انڈیا آفس"وجود میں آیا تو اس کا کام ہندوستان کی انگریز حکومت کو کنڑول کرنا تھا۔ "انڈیا آفس "کا انچارج "وزیر ہند"تھا۔ وقتاً فوقتاً لندن کا "انڈیا آفس"دنیا کے دوسرے علاقوں کا بھی انچارج رہا۔
انیسویں صدی میں زنجبار،صومالیہ اور ایتھوپیا اس کے ماتحت تھے۔ عراق، ایران، خلیج، کی ریاستوں اور بحیرہ احمر پر بھی فرمانروائی کی۔نائجیریا اور سنگا پور پر لندن کی عملداری رہی۔یہ امریکہ جو آج کرہ ارض کا بادشاہ ہے،یہ بھی ایک زمانے میں لندن کا ہی غلام تھا۔
1919 اور 1935 کے ایکٹ آئے تو وائسرائے ہند کو کچھ اختیارات ملے، اب بھی وہ انڈیا آفس اور وزیر ہند کا محتاج تھا ،مگر کم !، سچ یہ ہے کہ وائسرائے لند ن کا اتنا دست ِ نگر نہ تھا جتنے پاکستان کے آج کے وزیر شاہد خاقان عباسی لندن کے محتاج ہیں ،
ذرا بھی اختیار ہوتا تو کم از کم ایسے وزیر خزانہ کو ضرور فارغ کردیتے جس کا بال بال کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں جکڑا ہوا ہے۔ اگر وزیر اعظم صحیح معنوں میں وزیر اعظم ہوتے تو معزول وزیراعظم کی بیٹی کو یہ ضرور کہتے کہ بی بی ! ہماری پارٹی کی حکومت ہے تو تم کس کے خلاف رات دن بیانات دے رہی ہواور کس کو للکارتی پھرتی ہو
لندن کی خؤش بختی دیکھیے کہ سترسال پہلے جس لندن سے قائداعظم نے رہائی دلوائی تھی، آج ایک شخص جو اپنے آپ کو قائداعظم ثانی سمجھتا اور کہلاتا ہےپھر پاکستان کو لندن کا غلام بنا رہا ہے۔، قائداعظم لندن میں رہے کوئی جائیداد نہ بنائی۔
واپس آگئے قائداعظم ثانی نے لندن میں جائیداد بنائی ،بیٹوں کو "مقیم"کیا وہاں کاروبار کیا،کرایا اور اب لندن بیٹھ کر پاکستانی حکومت کی باگیں کھینچ رہے ہیں ، !کبھی وزیراعظم کو طلب کرتے ہیں ،کبھی وفاقی وزراء کو !سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ،جو بھائی بھی ہے۔ وہیں جاکر کورنش بجا لاتاہے۔
معزول نہ کردیے جاتے تو اب تک روغن قاز ملنے والوں کا گروہ دختر نیک اختر "کو مادرِ ملت ثانی"کا خطاب دے بیٹھا ہوتا،کوشش اب بھی جاری ہے۔
امریکہ کے پڑھے ہوئے اور ایک عسکری خاندان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم لندن کی ماتحتی کیوں کر رہے ہیں ؟ ذہن میں وسوسے اٹھتے ہیں ۔پی آئی اے اپنے روٹ وزیراعظم کی ذاتی ائیرلائن کے سپرد کرتی جارہی ہے۔ تو پھر کیا حرج ہے،اگر لندن کی ماتحتی کی جاتی رہے؟ اپنا بزنس تو پھل پھول رہا ہے نا!
ابو بکر صدیق نے حکمرانی کا چارج سنبھالا ۔دوسرے دن حسبِ معمول کپڑے کا گٹھا اٹھایا اور تجارت کرنے لگے، عمر فاروق رض نے پوچھا "امیر المومنین !کہاں جارہے ہیں ،
جواب دیا تجارت کرنے،جو کرتا تھا، عمر فاروق رض نے اتنا ہی کہا کہ "حاکمِ وقت کپڑا فروخت کررہا ہوگا تو کوئی کسی اور سے کیوں خریدے گا"۔۔
صدیق اکبر رض نے گٹھر رکھ دیا، تب سے یہ اصول دنیا میں رائج اور راسخ ہےکہ حکمراں ،ریاست یا حکومت یا عوام کے مقابلے میں کاروبار نہیں کرے گا، ساری مہذب دنیا میں اس اصول پر عمل ہورہا ہے، سوائے اس مملکت خدادادمیں جو بہت سوں کے بقول اسلام کے نا م پر وجود میں آئی تھی۔
یہاں اس اسلامی اصول کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے گئے۔، ایک کمرے میں وزیراعظم میزبان ملک کے سرمایہ کاروں کی منت کررہی ہوتی تھی کہ پاکستان آکر انوسٹمنٹ کرو، دوسرے کمرے میں شوہر پوچھ رہاہوتا تھا کہ وہ سرمایہ کاری میزبان ملک میں کرنا
چاہتا ہے۔یہ بھی اسی اسلامی جمہوریہ میں ہوا کہ ریاستی سٹیل مل ایڑیاں رگڑتی رہی اور حکمرانوں کا لوہے کا کاروبار زمین سے آسمان تک جاپہنچا ۔اور اب قومی ائیرلائن جاں بلب ہے۔سانس اکھڑ چکی ہے۔تیرہ ارب روپے کی آکسیجن دی جارہی ہے۔ تاکہ مردہ آنکھیں کھولے۔
دوسری طرف حکمران اعلیٰ کی ائیرلائن دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ جہا ں جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں موت سے ہم کنار ہورہی ہیں ، وہیں اپنی ائیرلائن کو نئی پروازیں مل رہی ہیں ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے، مگر احتیاج اس قدر ہے کہ ہندو دیوتاؤں کی طرح دو نہیں ، درجنوں بازو اور ہاتھ ہیں اور ہر ہاتھ، ہاتھ نہیں ، دستِ سوال ہے۔ ایک ہاتھ سعودی عرب کے سامنے پھیلا ہوا ہے۔ تو دوسرا قطر کے سامنے، تیسرا یواے ای کے سامنے جو وفاقی وزیروں کو اور وزراء کو ملازمتیں مہیا کر رہا ہے۔ چوتھا ہاتھ امریکہ کےسامنے پھیلا ہے، پانچواں ہاتھ چین کے سامنے پھیلا ہے۔ چھٹا ترکی سے مانگنے میں مصروف ہے،سندھ حکومت دبئی سے چلائی جاتی ہے۔
وفاقی حکومت کا بازو لندن سے مروڑا جاتا ہے، آئی ایم ایف والوں نے کشکول میں کچھ ڈالنا ہوتو پاکستان آکر اجلاس تک نہیں منعقد کرتے۔ کسی دوسرے ملک میں منعقد کرتے ہیں ، اور گداگر کشاں کشاں جاتے ہیں ۔
وزیر خزانہ کھرب پتی ہے،معزول وزیراعظم کی دولت کا ذکرکرنے کے لیے"کھرب"کا لفظ ناکافی ہی نہیں مذاق ہے۔سابق صدر کی دولت کا اندازہ لگانے والا کمپیوٹر ابھی تک شاید ایجاد ہی نہیں ہوسکا۔
وزیراعظم اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بزنس کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں ،
وفاقی وزیر اقامے جیبوں میں لیے، دوسرے ملکوں میں ملازمتیں کررہے ہیں ، اگر کسی اور ملک میں یہ سب کچھ ہوتا ہو تو کوئی اس کانام بتائے،کہیں نہیں ہوتا،حمیت نام ہے جس کا وہ صرف تیمور کے گھر سے گئی ہے۔
ہمیں آقا بنانے اور غلام بننے کا اتنا شوق ہے کہ پہلے بادشاہوں کو تلور کا (غیر قانونی) شکار کراتے ہیں ،اب چینی بغیر کاغذات کے گاڑیاں ، چلاتے پھر رہے ہیں ۔پہلے امریکی ویزوں کے بغیر آکر دندناتے رہے۔ اب غلامی کی بھوک چینیوں کی دریوزہ گری اور چاکری کرکے مٹا رہے ہیں ۔
کچھ لکھاریوں کے لیے ممدوح کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔، تاکہ مداح کرنے کی رگ کو غذا ملتی رہے۔ بالکل اسی طرح ہم پاکستانی غلامی میں اتنے پختہ ہیں کہ ایک نہیں ،بیک
وقت کئی آقا درکار ہوتے ہیں ،ہم نے تو 
polyandry
کی مردہ رسم زندہ کرکے رکھ دی،یعنی ایک عورت اور کئی شوہر، یہ قبیح رسم پہلے صرف نیپال میں تھی ،اور اکا دکا بھارتی اور افریقی قبیلوں میں ۔مگر اب ہمارے دارالحکومت کے پتی اوقیانوس کے اس 
پار سے لے کر خلیج اور بحیرہء جاپان اور بحرِ مشرقی چین تک پھیلے ہوئے ہیں ۔
ہماری مثا ل تو اس ڈیرہ داران کی ہے جو چند عشرے قبل ایک مغرور مغلانی تھی مگر اب اس کی شان و شوکت ہوا ہوگئی، زمینیں بک گئیں تخت و تاج چھن گیا اب پپیٹ بھرنے کے لیے وہی کچھ کرتی ہے جو کرنا پڑتا ہے۔ جس ملک میں ہر بچہ اپنی ناف کٹوانے اور ماں کا دودھ پہلی مرتبہ پینے سے بھی پہلے ڈیڑھ دو لاکھ کا مقروض ہوچکا ہوتا ہے، وہ ملک غلام نہیں ہوگا تو کیا مالک ہوگا ۔ ہمارے تو جسم تک گروی رکھ دیے گئے ہیں ، انترڑیاں ،جگر، پھیپھڑے تک اپنی قیمت وصول کر چکے ہیں ، ہمیں شہبازوں اور اسحاق ڈاروں نے قطر سے لے کر بیجنگ تک رہن رکھ دیا ہے۔

ہماری مثال ان خاندانوں کی ہے جو اینٹوں کے بھٹے پر نسل در نسل کام کرتے ہیں اور مالک کی منشی گیری سے رہائی پاسکتے۔ ہمارے مالک سفید فام ہیں مگر ان کے منشی خلیج اور بحرِ قلزم کے ارد گرد بیٹھے ہیں ۔
ہمارے اخلاس کا کیا کہنا ! وفاقی وزیر ہیں مگر کسی کو صرف نارووال کی فکر ہے تو کوئی مری سے باہر نکلنے کو تیارنہیں ، مسلم لیگ ن کے ثقہ لیڈر خود کہہ رہے ہیں کہ ان کے قائد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہے۔ اگر لیڈر اپنی ذات کے سوا کچھ نہیں سوچ سکتا تو اس کے پیروکار کیسے مختلف ہوسکتے ہیں ؟
ان میں سے ہر ایک کو صرف اور صرف یہ فکر ہے کہ اس کا بل اناج کے دانوں سے بھرا ہوا اور بھرا رہے۔ 
پہلے جہاز بھرے ہوئے دبئی جاتے تھے، کرایہ سندھ حکومت ادا کرتی تھی اب یہ مہنگے اڑن کھٹولے لندن جایا کریں گے، پانی کے قطرے سے لے کر روٹی کے نوالے تک ۔ہم ہر شئے پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ، تاکہ لندن کے غلام لندن آتے جاتے رہیں

شوق کی تکمیل

$
0
0

ہاں تو داستان یہا ں تک پہنچی تھی کہ دہلی برباد ہوگئی،دہلی اجڑ گئی، کوچے ویران ہوگئے،گلیاں سنسان ہوگئیں ، مکان خرابے بن گئے، مسجدوں میں اذان دینے والا کوئی نہ رہا، مندروں کی گھنٹیاں خاموش ہوگئیں، قافلوں کے قافلے چالیس دن کی مسافت پر دولت آباد روانہ ہوگئے،کچھ راستے میں لقمئہ اجل بن گئے، کچھ نئے شہر پہنچ کر تبدیلی برداشت نہ کرسکے۔
آٹھ سال گزرے تھےکہ حکم ہوا واپس دلی چلو، کم ہی تھے جو پہنچ سکے دہلی اس طرح آباد نہ ہو سکا جیسا پہلے کبھی تھا۔
مگر محمد تغلق کے خونخوار اورخونریز تجربے کم نہ ہوئے۔ جلد اس نے ایک اور فیصلہ کیا کہ ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا سیٹ اپ لگایا جائے دوسری طرف دنیا کوئلے سے پیچھے ہٹ رہی تھی۔چین نے ایک سو تین ایسے منصوبوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیا تھا۔ جن میں کوئلہ استعمال ہورہا تھا۔بھارت بھی کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبے ترک کررہا تھا، اس کی ساری توجہ شمسی توانائی پر تھی۔ 
شہنشاہ کو بتایا گیا کہ آدھا پنجاب ٹی بی اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گا، مگر اس نے کسی اعتراض پر کان نہ دھرے ،درخت لاہور شہر میں پہلے ہی کاٹ دئیے گئے تھے، کچھ پلوں ،انڈر پاسوں اور شاہراہوں کی توسیع کی نذر ہوگئے۔ جو بچ گئے وہ اورنج ٹرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے کلہاڑوں کی نذر ہوگئے، شہر پھر اسموگ میں چھپ گیا۔ خلقِ خدا کی آنکھیں جلنے لگیں ، سانس لینا دوبھر ہوگیا، پھیپھڑوں میں ورم آنے لگے۔ سینکڑوں افراد مریض بن گئے۔ ہسپتالوں میں جاپہنچے۔
پہلے ہی ایک ایک بستر پر دو دو مریض تھے۔ اب مریض برآمدوں میں فرش پر پڑ گئے۔ مرغیوں پر برڈ فلو نے حملہ کیا۔ ہزارووں مر گئیں ، ریستورانوں میں پہلے ہی مردہ جانوروں کا گوشت استعمال ہورہا تھا ،اب جو مرغیاں ہزاروں کی تعداد میں مریں تو ہوٹلوں کی ،کیا فائیو سٹار اور عام منجی بسترہ ہوٹل سب کی چاندی ہوگئی۔
درخت کٹنے سے بارش پہلے ہی بے حد کم ہوچکی تھی، آکسیجن مہیا کرنے والے ٹہنیوں کے پتے محمد تغلق کے لوہے کی نذر ہوگئے۔ یوں شہنشاہ کے نزدیک حکومت صرف سڑکیں بنانے کا نام تھا۔ طویل دور حکومت میں اس نے ٹریفک پر کوئی توجہ نہ دی ،خود باہر نکلتا ،یا حرم سرا سے کسی ملکہ نے سفر کرنا ہوتا تو عام ٹریفک بندی کردی جاتی سڑکیں پہلے ویران کی جاتیں ، پھر بادشاہ کو وہاں سے گزارا جاتا،اسے کوئی ادراک ہی نہ تھا، کہ جو گاڑیاں سڑک پر لانے کے قابل نہیں وہ لاکھوں کی تعداد میں چل رہی ہیں ، اس لیے کہ اسے تو شاہراہیں خالی ملتیں ، عام ٹریفک کی حالت دگر گوں تھی۔ رکشے ٹرک ،بسیں ، ویگنیں ، دھوئیں کے مہیب گہرے بادل فضا میں بکھیرتی گزرتیں ۔گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے کا کوئی نظارہ ہی نہ تھا۔ پھر لوگ ٹائر جلاتے تھے، اس سے بھی آلودگی بڑھی۔
محمد تغلق نے اس اسموگ زدہ شہر کی مسموم فضا سے بچنے کے لیے اپنے محلات پہلے ہی شہر سے کوسوں دور رائے ونڈ کے قریب تعمیر کرلیے، یہاں ماحول کا خؤب خیال رکھا گیا، شاہی خاندان کے اپنے کھیت تھےاور باغات بھی۔ درخت بھی تھے اور سبزہ و گل بھی۔
پھر دقتاً فوقتاً بادشاہ صاف ستھری فضا سے استفادہ کرنے اکثر و بیشتر برطانیہ چلاجاتا تھا ۔شاہی خاندان کے ہر فرد کا علاج انگلستان میں ہوتا تھا۔ کسی مقامی ہسپتال میں انہیں کبھی کسی نے نہیں دیکھا ۔ چشمِ فلک نے یہ مذاق بھی دیکھا کہ بادشاہ علاج کروانےلندن گیا، اور وہاں بیٹھ کر پنجاب کی صحت کی سہولیات کے بارے میں ویڈیو تقریریں کیں ،کسی کو پوچھنے کی ہمت یا توفیق نہ ہوئی کہ جہاں پناہ! اگر پنجاب کو صحت کے حوالے سے آپ نے اتنا ہی جنت نظیر بنا دیا ہے تو خود بار بار علاج کے لیے لندن کیوں آتے ہیں ؟
دہلی کے عوام کی طرح شہنشاہ کو لاہور کے عوام پر بھی غصہ تھا ،سردار ایاز صادق کے مخالف کو اہل لاہور نے 74 ہزار ووٹ دئیے تھے۔ سردار صاحب دو اڑھائی ہزار کے فرق سے جیت سکے۔ شاہی خاندان اہل لاہور کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ بڑی ملکہ کو بھی کم ووٹ پڑے تھے، چنانچہ طے ہوا کہ پرپل اور بلیو لائن میٹرو ٹرینوں کا اجرا کیا جائے، بلیو لائن کی لاگت کا تخمینہ ایک کھرب 25 ارب روپے لگایا گیا،پرپل لائن ٹرین کی متوقع لاگت ایک کھرب پچاس ارب روپے تھے
سارے شہر سے پودے ،درخت، جھاڑیاں ہر سبز شے ختم کردی گئی، شہر کو اوپر سے نیچے تک لوہے میں غرق کردیا گیا۔ راستے میں آئے ہوئے مکان منہدم کردئیے گئے۫، قبریں ہموار ہوگئیں
،سکول کالج ہسپتال جو رکاوٹ راستے میں پڑی،ہٹا دی گئی، بازار کدالوں کی نذر ہوگئے، کرینوں نے دکانوں کی دکانیں اٹھائیں اور پٹخ دیں ، زمین کے سینے پر لوہے کی پٹریاں بچھ گئیں ۔
دوسری طرف لوگ بیمار ہوتے گئے، سانس ناک کان گلے کی بیماریوں نے کسی کو تندرست نہ چھوڑا ۔، ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نرسیں کمپاؤنڈ ر خؤد بیمار پڑ گئے۔ سرخت سبزہ روئیدگی نہ ہونے سے شہر رہنے کے قابل نہ رہا، ماحولیات کے ماہرین نے وارننگ جاری کی کہ شہر خالی کردیا جائے اب لوگوں نے اپنے مریضؤں کی چارپائیاں اپنے کاندھوں پر رکھیں سامان چھکڑوں ریڑھوں ۔سوزوکیوں ،ویگنوں ،ٹرکوں ،پر لادا ،کوئی اپنے آبائی گاؤں کو جارہا تھا، کوئی کسی قبصے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس، جن کاکوئی نہ تھا۔انہوں نے دوسرے شہروں قصبوں بستیوں اور قریوں میں جاکر خیمے تان لیے ،صوبہ مہاجرستان بن گیا۔
جس دن پرپل اور بلیو لائن ٹرینوں کے منصوبے مکمل ہوئے ۔اس دن شہر میں ہُو کا عالم تھا۔ ہر طرف چمگادڑوں ،ابابیلوں ،الوؤں ،کوؤں اور چیلوں کا ڈیرہ تھا۔ گلیوں میں آوارہ کتے تھے،یا بھاگتے ہوئے خؤفزدہ چوہے۔
شہنشاہ حسبِ معمول اس دن بھی لندن میں تھا۔ منصوبے کی تکمیل سے دو دن پہلے جہاں پناہ کو دو تین چھینکیں مسلسل آئیں اسی وقت چیک اپ کے لیے لندن چلے گئے،
فیصلہ کیا کہ افتتاح وہیں سے کریں گے، چنانچہ یہ “ویڈیو افتتاح “ تھا - ٹرین کے انجن کے پاس صرف چند انجینئر تھے جنہوں نے ناک پر ماسک باندھے ہوئے تھے،آنکھوں پر بھاری موٹی عینکیں ، کانوں میں روئی کے گولے دھنسے تھے، ویڈیو پر شہنشاہ نے پوچھا عوام کہاں ہیں ؟
بتایا گیا کہ شہر خالی ہے،بہت سے بیماریوں کی نذر ہوگئے۔، جو بچے وہ ہجرت کرگئے۔ شہنشاہ نے قہقہہ لگایا ،اسے دلی یاد آئی۔
دلی کے لوگوں سے انتقام لینے کے لیے اس نے بزور شمشیر خالی کرایا تھا، مگر اب کے گزشتہ تجربوں کی روشنی میں ایسا کچھ نہ کرنا پڑا۔ شہر کو جو باغوں کا شہر تھا، درختوں سے محروم کرکے لوہے اور سیمنٹ کا جنگل بنا دیا گیا۔تو عوام خؤد ہی شہر چھوڑ گئے۔
یہ لندن کی روشن، پر رونق دوپہر تھی۔ گرمیوں کا مزا شاہی خاندان کو ہمیشہ یہیں آتاتھا مگر اب کے مزا دوبالا ہو گیا تھا۔ شاہی خاندان کے افراد نے مل کر نعرہ لگایا، “ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں ۔
مگر اذیت رسانی کی رگ پوری طرح کہاں مطمئن ہوئی تھی۔ شہنشاہ واپس آیا شہر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ،پورا شہر خالی تھا۔، اچانک ااس کی آنکھوں میں چمک آئی۔ تکمیل شوق کا ساماں کیا ہی انوکھا اور زبردست تھا او رسامنے قدموں میں پڑا تھا/
شہنشاہ نے حکم دیا کہ باقی ماندہ مکانات بھی گرا دئیے جائیں ، بازار ڈھا دئیے جائیں ، سکول ہسپتال مسمار اور ان کی زمینیں ہموار کردی جائیں ۔ پورے شہر پر ہل چلا دیاجائے، اس کے بعد ہرطرف سڑکوں انڈر پاسوں اور پلوں کا جال بچھا دیاجائے۔
یہ تاریخ کا پہلا شہر تھا، جس میں ذی نفس کوئی نہ تھا۔ پورا شہر صرف شاہراہوں پر مشتمل تھا۔

وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح تھا

$
0
0
​​





Muhammad Izhar ul Haq

http://www.izharulhaq.net










ایک بہشت نظیر شہر تھا جسے ہم نے اجاڑدیا،اپنے تعصبات کے ذریعے،اپنی باہمی لڑائیوں سے اور افسوس یہ ہے کہ اس اجڑنے کا افسوس بھی نہیں،
کچھ عرصہ بعد اب کے کراچی جانا ہوا تو ہوائی اڈے سے لے کر پسندیدہ سروسز میس تک، چالیس پچاس منٹ کے سفر میں کیا کچھ یاد نہ آیا،ستر کے عشرے کا آغاز تھا،جب وہاں تعیناتی ہوئی، تاج ہوٹل تھا،
Excelsior 
ہوٹل تھا۔ زندگی اپنی ساری دلچسپیوں اور خؤبصورتیوں کے ساتھ کراچی کے ہر کوچہ و بازار میں جلوہ فگن تھی۔ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گلیوں میں ،بوہری بازار کے پیچھے پارسی او مسیحی برادریوں کی اکثریت تھی، عورتیں سائیکلیں چلاتی تھیں ، ان برادریوں کی تقریباً ساری خواتین ملازمت پیشہ تھیں ، چڑیا گھر ،گاندھی گارڈن کے سامنے سرکاری ہوسٹل میں قیام تھا۔ وہاں سے پیدل صدر تک جانا معمول کی سیر تھی۔،سکیورٹی کوئی ایشو نہ تھا، رات کے ایک بجے بہت آرام سے جیکب آباد لائنز بندو خان کی دکان میں جاکر کباب اور پراٹھے کھاتے تھے۔ ناظم آباد میں آغا کا جوس پیتے تھے۔ (اب آغا جوس کے نام سے ایک سیٹ اپ میلبورن آسٹریلیا میں بھی کام کررہا ہے) اریگل کی ایک دکان میں ٹھنڈے دودھ کی بوتلیں ہوا کرتی تھیں ، جو اکثر و بیشتر چڑھانا ہم دوستوں کا معمول تھا۔ ایمپریس مارکیٹ سے ریگل کی طرف آتے ہوئے بائیں طرف فرزند قلفی والا پڑتا تھا، برنس روڈ پر جاکر دھاگے والے کباب ،بھنا ہوا قیمہ اور تل والے نان کھائے بغیر چین نہ آتا تھا۔ شباب تھا ،جسم میں سکت تھی، گاؤں کی زندگی کے اثرات صحت پر ابھی بھی موجود تھے۔ معدے مضبوط تھے، سب کچھ کھا جاتے تھے،اور ڈکار تک نہ لیتے تھے۔
اس وقت دبئی اور بنکاک کو کوئی نہیں جانتا تھا، دنیا بھر کی ائیر لائنوں کے جہاز کراچی اترتے تھے مشرق بعید سے آئے ہوئے جہا ز،کراچی رک کر مغرب کی طرف جاتے تھے۔ اور یورپ کی طرف سے آئے ہوئے جہاز کراچی سے ہی مشرق بعید کی سواریاں ؛لیتے تھے۔ کراچی کیا تھا؟ امن و امان کا گہوارہ ،محبت کا صدر مقام، ایک ایسا شہر تھا جہاں رہنے کو بسنے کو دل کرتا تھا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں کا کراچی کے زوال میں کتنا حصہ ہے، مگر ایک بات یقینی ہے کہ موصوف ہی کے عہد میں اس شہر کے تیور بدلنا شروع ہوئے تھے،اس کے بعدپھر زوال ہمہ گیر تھا اور مسلسل بھی،بدامنی نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ گلیوں میں رکاوٹیں تن گئیں، گیٹ بن گئے ،ہر کوچہ ایک قلعہ تھا۔
الطاف بھائی نے اہلِ کراچی کو لکھنے پڑھنے سے روک دیا۔ کہا کہ ٹیلی ویژن بیچو اور اسلحہ خریدو،نوجوانوں کے ہاتھوں میں ریوالور دے دیے گئے۔ تعلیمی ،معاشی اور تہذیبی اعتبار سے الطاف بھائی کراچی کو سالہا سال پیچھے لے گئے۔
اب کراچی شہر نہیں ،لسانی ،نسلی اور مسلکی گروہوں کا ٹھکانہ ہے۔ شہر وہ ہوتا ہے جس کے مکینوں میں ہم آہنگی ہو، جس کا نظم و نسق سب مل کرچلائیں ، جس سے جذباتی وابستگی ہو،اب اگر یہاں رہ کر، یہاں پیدا ہو کر، یہاں پل بڑھ کر بھی آپ نے امروہہ سے باہر نکلنا ہے نہ مردان سے،تو شہر میں کیسے ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔
سنگاپور یاد آرہا ہے، پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے کالم میں لکھا اور بجا لکھا کہ سنگا پور کا موازنہ پاکستان سے کیسے کرسکتے ہیں ، ایک سٹی سٹیٹ کا مقابلہ کئی گنا بڑے ملک سے نہیں ہوسکتا، مگر ہم ایک شہر کو تو سنگا پور کے خطوط پر چلاسکتے ہیں ،سنگاپور میں کئی نسلی اورلسانی گروہ ہیں ،چینی ،جن کی اکثریت ہے۔ملے،جو ملائشیا کے قدیم اصل باشندے ہیں ،اور مسلمان ہیں اور تامل،انڈین، سنگاپور نےیہ کیا کہ شہر کے کسی ایک کونےمیں بھی کسی ایک گروہ کی اکثریت نہیں بسنے دی۔ ایک اپارٹمنٹ میں چینی خاندان رہ رہا ہے ،دوسرے میں ملے ہیں ۔ ان سے آگے انڈین فیملی ہے۔،
کاش ہم بھی اتنا وژن رکھتے۔،کراچی کے سب علاقوں میں سب لوگ مل کررہتے۔ اب حالات یہ ہیں کہ فلاں علاقہ پٹھانوں کا ہے فلاں بلوچوں کا،فلاں پنجابیوں کاہے -یہ تو پیوند ہیں جو اس شہر کو لگے ہوئے ہیں ، یہی حماقت ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ ہجرت کرکے جو آئے تھے، انہو ں نے محمد پور اور میر پور کے نام سے الگ آبادیاں بنا لی تھیں ، کوئی اور رہنا چاہتا تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی۔ پھر جب فساد شروع ہوئے تو فسادیوں کا کام آسان تھا۔ حملے ہوئے،لوٹ مار ہوئی، آبادیاں جلا دی گئیں ،
اس کا بہر طور یہ مطلب نہیں کہ اگر مختلف گروہوں کی مختلف حصوں میں اکثریت نہ ہو تو سب اچھا ہوگا، نہیں ایسا نہیں ۔۔یہ تو صرف ایک صفت ہے۔، جو ایک کثیر النسل شہر میں لازمی ہونی چاہیے، سب سے مقدم یہ کہ جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس سیاسی مداخلت سے پاک ہو،اگر پولیس ایک فورس کی بجائے مختلف گروہوں کی داشتہ بن کر رہے گی تو امن خاک ہوگا؟
کراچی پولیس سیاسی مداخلت کی لعنت سے بچی ہوتی تو رینجرز کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔، کسی نے کوشش کی بھی تو حشر وہی ہوا جو اےڈی خواجہ کا ہوا۔کراچی پولیس کی حالت اس شہر کی ہی ہے جس کا ذکر مولانا رومی نے مثنوی میں کیا ۔ ایک آدمی کندھے پر شیر کی تصویر گودوانے گیا۔ گودنے والے نے کام شروع کیا تو سوئیاں چبھیں ، درد ہوا ۔پوچھا کیا بنا رہے ہو،جواب دیا دم ۔کہنے لگا یار درد بہت ہورہا ہے، یوں کرو دم نہ بناؤ، آخر شیر کی دم ضروری بھی تو نہیں ، اب پھر کام شروع ہوا، سوئیاں چبھیں ، پھر درد ہوا، پوچھا کیا بنا رہے ہو، اس نے کہا کان ۔کہنے لگا کان رہنے دو، قصہ مختصر ہی رکھو، گودنے والے نے کان بنانا بھی چھوڑدیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر سوئیاں چبھیں ۔اب کے پیٹ بن رہا تھا۔ کہنے لگا پیٹ رہنے دو، اب گودنے والے کو غصہ آگیا۔ اس نے سوئی زمین پر پھینک دی اور کہا کہ ایسا شیر جس کا کان ہو نہ پیٹ نہ دم ،ایسا شیر تو خود خدا نے نہیں بنایا۔ کراچی پولیس کا حال یہی ہے،یہ مجرم چھوڑ دو کیوں کہ لیاری سے ہے، وہ بھی چھوڑ دو ،اردو بولتا ہے، فلاں بندہ پنجابی ہے،،فلاں سے چشم پوشی کرنا ،پٹھان ہے اور اپنا بندہ ہے ،فلاں پنجابی ہے،فلاں سندھی ہے۔انہیں کچھ نہیں کہنا، یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دن رات کی سیاسی مداخلت ،دباؤ اور سفارش سے تنگ آکر پولیس بھی اپنی سوئی پٹخ کر زمین پر دے مارتی ہوگی۔
ستر کی دہائی کا کراچی اس لیے قابل رشک تھا کہ بہت سی آبادیاں جو بعد میں ابھریں ، تب نہیں تھیں ، شہرمیں پانی،بجلی، اور گیس کے وسائل آبادی کے لیے کافی تھے۔ ہم ہر کتاب میں لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ مسولینی کو اقبال نے حدیث نبویﷺ کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہر ایک مخصوص حد سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے، پھر اس کے بعد نئےشہر بسا لینے چاہییں ، مگر ہم خؤد اس پر عمل نہیں کرتے، کراچی کی آبادی اور تعمیراتی پھیلاؤ روکنے کے لیے نئے شہر بسانے چاہییں تھے۔، موجودہ کراچی میں سے جو شہر کم اور عفریت زیادہ ہے،کم از کم چار پانچ شہر بن سکتے تھے۔
کراچی اب اپنے رہنے والوں کے لیے اذیت کا ساماں ہے،بے پناہ ٹریفک اور ،ہر طرف گندگی کے ڈھیر، دکان نما ورکشاپیں ، پورے شہر میں پھیلی ہیں ، ہر طرف لوہا جس سے تیل نچڑ رہا ہے، میٹرو پول ہوٹل اور فریر ہال کا علاقہ سیر کے لیے مثالی ہواکرتا تھا۔ وہاں سے زینب مارکیٹ جاتے ہوئے اس قیامت سے گرز نہ ہوتا تھا۔ جس سے اب گذرنا پڑتا ہے الحفیظ الامان ۔زیب النسا سٹریٹ کراچی کا پر رونق اور باعزت حصہ تھا، اس میں ریستوران تھے،ااور کافی شاپس ،کتابوں کی دکانیں ، تھیں ،ہم شہروں ،عمارتوں، اور شاہراہوں کے نام تبدیل کردیتے ہیں اور پھر انہیں اس قدر خراب کردیتے ہیں کہ اصل نام کے ساتھ ہر اصل چیز چلی جاتی ہے۔ زیب النسا کا الفنٹسن سٹریٹ سے کیا تعلق تھا؟وہی جو شاہ فیصل کا لائل پور سے تھا۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ
ہر بنائی کہنہ کاباد آن کنند
اول آن بنیاد را ویران کنند
پرانی یادگاروں کو اس وقت منہدم کرتے ہیں جب ان کی جگہ نئی یادگاریں اسی معیار اور اسی شان و شوکت کی بنانے کا ارادہ ہو، اور سکت بھی۔سجاد باقر رضوی یاد آرہے ہیں
جس کے لیے ایک عمر کنویں جھانکتے گزری
وہ ماہِ کراچی مہ کنعاں کی طرح تھا
کراچی کا چاند کنعان کے کنویں میں ڈوب چلا ہے، اسے پھر سے ابھارنا ہے،روشن کرنا ہے، کراچی کی روشنی پورے ملک کی روشنی ہے۔ کراچئی میں اندھیرا ہو تو پورے ملک میں ظلمت کا دود دورہ ہوگا۔


کتاب فروش اور میں !

$
0
0


کتاب فروش سے اردو کی بی اے کی کتابیں طلب کیں اور وضاحت کی کہ اردو کے مضمون کے لیے بی اے کی وہ کتابیں درکار ہیں جو خواتین کے لیے ہیں ،اس نے  کتابوں  کا  ایک  سیٹ دیا، اب اردو کی وہ کتابیں مانگیں جو بی اے میں مردوں کے لیے مخصوص ہیں ، اس نے کتابوں کا ایک اور سیٹ دیا۔دونوں کھول کردیکھے تو  ایک سے ہی تھے۔ وہی کتابیں اور اتنی ہی کتابیں ۔
اب ایم اے اردو خواتین کے لیے   کتابیں مانگیں  ،تو ایک سیٹ کاؤنٹر پر رکھ دیا گیا۔ پھر ایم اے اردو مردوں کے لیے کتابوں کا مطالبہ کیا۔ کتاب فروش  نے ایک اور سیٹ دے دیا۔ ان دونوں سیٹوں کو کھول کردیکھا تو  یہ بھی ایک جیسے ہی تھے۔

پوچھا ،خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ کتابیں کیوں نہیں ؟ ۔دنکاندار پڑھا لکھا تھا۔ عجیب دلیل دی۔

کہنے لگا  اردو شاعروں  ادیبوں  نے ادب  تخلیق کرتے وقت یہ تخصیص کب کی تھی کہ یہ تخلیق عورتوں کے لیے ہے اور  فلاں مردوں کے لیے؟۔ اب آپ بتائیے فسانہ ء  آزاد یا دیوان غالب یا باغ و بہار کیا  صرف مردوں کے لیے لکھے  گئے  ہیں ؟

یا صرف عورتوں کے لیے؟۔

اور آپ نے ابھی دو دو سیٹ  کتابوں کے مجھ سے نکلوائے ،پہلے یہ بتائیے کہ ادب میں یہ صنفی یا جنسی  تقسیم کب سے آئی؟بظاہر  آدمی آپ معقول لگتے ہیں ؟

حالات خراب ہوتے نظر آئے، کتاب فروش اب تقریباً غصے میں تھا،میں نے اس کی خوشامد کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔

ایک چرواہا ٹی وی چینلوں سے بہت بیزار  تھا، بات کا بتنگر  اور رائی کا پہاڑ  بنا کر، کھینچ تان کر ،معمولی سے واقعہ کو  "بریکنگ نیوز"بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور پھر سارا دن یہ بریکنگ نیوز ناظرین کی آنکھیں  پھوڑتی رہتی ہے ،ایک دن وہ اپنے مویشی  چرا رہا تھا اور آرام سے درخت کے نیچے بیٹھا  بانسری بجا رہا تھا، کہ ایک اینکر اس کا انٹرویو کرنے کے لیے آدھمکا۔

اینکر چرواہے سے ،آپ بکروں کو کیا کھلاتے ہیں ؟

چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

اینکر۔     سفید کو۔

 چرواہا۔    ۔گھاس

اینکر      اور کالے کو؟

 چرواہا۔   ۔اسے بھی گھاس

اینکر     ۔انہیں باندھتے کہاں ہو؟

 چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

 اینکر۔    ۔سفید کو

چرواہا۔   ۔ کمرے میں

اینکر۔   اور کالے کو۔؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی کمرے میں

 اینکر۔    ۔انہیں نہلاتے کیسے ہو؟

چرواہا۔   ؟کسے ؟ کالے کو یا سفیدکو ؟

اینکر ۔     سفید کو؟

چرواہا۔    ۔پانی سے

اینکر۔    اور کالے کو؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی پانی سے

 اینکر۔    (غصے سے،) بد بخت، جاہل جب دونوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہو تو  پھر بار بار کیوں پوچھتے ہو کہ  کالے کو یا سفید کو؟

چرواہا۔   ۔کیوں کہ سفید بکرا میرا ہے۔

اینکر۔     ،اور کالا؟

چرواہا۔   ۔وہ بھی میرا ہے!

حماقت کی یہ داستاں سن کر کتاب فروش کے چہرے پر مسکراہٹ  آئی،اب اسے وہ دعوت نامہ دکھایا جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی نے بھیجا تھا۔ اس میں دنیا کی عجیب و غریب بات یہ تھی کہ اردو کے دو شعبے تھے،ایک کے آگے (F)۔دوسرے کے آگے ا(M) لکھا تھا۔

پہلے تو میں اور دکاندار سوچتے رہے کہ اس "ایف اور ایم "کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، چونکہ "ایف"کے سامنے خاتون پروفیسر کا نام لکھا تھا۔اور "ایم"کے ساتھ مرد پروفیسر کا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس سے مراد  مرد اور عورت ہی ہے۔

اب یہ نہیں معلوم کہ  جو شعبہ اردو عورتوں  کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں  پڑھائی جاتی ہیں  اور جو شعبہ مردوں کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں پڑھائی جاتی ہوں گی، کافی دیر سوچنے کے بعد ہم اس  نتیجے پر پہنچے کہ عورتوں کے شعبہ اردو  میں بہشتی زیور او رحقوق الزوجین ضرور نصاب کا حصہ  ہوں گے ، مردوں کے لیے اردو ادب کے کورس میں موت کا منظر  اور حسن پرستوں کا انجام معہ ضمیمہ پڑھائی جاتی ہوں  گی۔

لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ  کیا انگریزی ادب ،سائنس،معاشیات ،بین القوامی تعلقات، اور دیگر تمام مضامین کے شعبے بھی صنفی اور جنسی بنیادوں پر الگ الگ قائم کیے گئے ہیں ؟اور کیا  نصاب بھی الگ الگ ہیں ؟

 کچھ مشکلات  جو ہمارے ناپختہ ذہنوں  میں در آئیں  یہ تھیں کہ اکاؤنٹسی،کیمسٹری ،فزکس، اور اس قبیل کے دوسرے علوم کو مردوں اور عورتوں میں کس طرح تقسیم کیا گیا ہوگا؟مثلاً کون سے اجزاعلمِ فزکس کے یا اکاؤنٹنسی یا قتصادیات کے خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ؟

اکنامکس میں ،توازن تجارت"یا تامین  

protection

جیسے موضوعات  غالباً خواتین کو نہ پڑھائے جارہے ہوں  ا۔اس لیے کہ خواتین کو پروٹیکٹ کرنے کلے لیے کچھ یونیورسٹیوں میں باقاعدہ مسلح جتھے موجود ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اکنامکس میں تامین (پروٹیکشن) کا لڑائی جھگڑے  سے یا مرد عورت کی صنفی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ۔

کتاب فروش  کو اور مجھے اس سے بھی زیادہ پیچیدہ امر یہ درپیش  ہوا کہ سر سید  پر یونیورسٹی جو سیمینار کرا رہی تھی،اس میں  مردوں اور عورتوں  کی یہ تقسیم  ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئی تھی۔ مقالات پڑھنے والوں میں  مرد بھی تھے، اور عورتیں بھی۔،یہ تو  "اختلاطِ  مرد و زن "کا ارتکاب ہوا ،جس کا سدِ باب  کرنے لے لیے یونیورسٹی ایک عرصہ سے کام کرہی ہے،بلکہ  یہی کام کرہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سیمینار منعقد کیے جاتے ،ایک "مطالعہ،سرسید برانے خواتین"اور دوسرا  "مطالعہ ۔سرسید برائے مرد حضرات"۔اگر اردو ادب  اس بنیاد پر دو  مختلف حصوں میں بٹ سکتا ہے تو سرسید کے مطالعے کی کیا جسارت  ہوسکتی ہے کہ بٹ جانے سے انکار کرے۔

دوسرا تکنیکی سوال یہ  پیدا ہوا کہ اگر سیمینار میں  عورتوں  اور مردوں کو اکٹھا کردیا گیا تو مقالہ پیش  کرنے والوں میں دونوں اصناف  نے شرکت کی اور گمان غالب ہے کہ سامعین میں سامعات بھی ہوں گی، اور اگر اس  دوران مملکت پاکستان پر کوئی  پہاڑ آن گرا نہ آسمان۔ اور سنان اور سننے والی خواتین ون پیس میں  شام کو اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئیں تو اردو شعبے  کو مردوں اور عورتوں کے لیے ایک کردینے میں ،سوائے چند  مذہبی دکانداروں کے،کسے نقصان ہوگا؟

مگر یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ اصل مشکل آگے پیش  آرہی تھی،کتاب فروش اور میں نے جب دعوت نامے کا بغور مطالعہ کیا تو خواتین کے بارے میں احساس کمتری کے علاوہ ایک اور  شدید نفسیاتی عارضہ بھی کارڈ سے قطرہ قطرہ نچڑ کر نیچے زمین میں جذب ہورہا تھا۔ وہ یہ تھا کہ  صاحب علم ہونے  کے لیے خاص طور پر سر سید احمد  کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دو شرائط پر پورا اترنا  لازم نظر آیا۔

ایک یہ کہ مقرر پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹر ہو،دوسرے یہ کہ کسی نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہو۔ پچانوے فیصد مقررین کو اسی حوالے سے بلایا گیا تھا۔ کل ہی عطا الحق قاسمی صاحب نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ مشاعرہ ہال میں ایک سامع  دندناتا  ہوا داخل ہوا۔اسے منیر نیازی نظر آئے۔

ان سے پوچھا کیا آپ بھی شاعر ہیں ؟منیر نیازی نے کہا نہیں، میں قتیل شفائی ہوں  ۔

اب اگر اسی طرح کا کوئی حاطب اللیل کسی سیمینار میں گھس جائے اور کسی معززشخص سے جو معنک بھی ہو، کوٹ پتلون اور نکٹائی  میں بھی ملبوس ہو اور سیاہ جوتے جس کے پالش  سے چمک بھی رہے ہوں ، پوچھ  بیٹھے کہ کیا آپ بھی صاحب علم ہیں ؟ تو منیر نیازی کی طرح  جواب میں وہ یہ نہ کہہ دے کہ نہیں"میں تو "اردو میں پی ایچ ڈی ہوں "۔

ویسے ایک کھیپ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی ایسی بھی نکلی جو فی الواقع  صاحبان علم پر مشتمل تھی ،داکٹر معین نظامی کو دیکھیے، ان کے شاگرد بھی کہاں  کہاں  پہنچ چکے ،ڈاکٹر  شعیب  احمد ہیں، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ہیں ، داکٹر ارشد ناشاد ہیں ،جو صیحٰح معنوں میں محقق کہلانے کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں ، ساری زندگی  پوری سنجیدگی سے کام کیا  اور تحقیق کا حق ادا کیا۔

ڈاکٹر عزیز  ابن الحسن ہیں ،جنہیں  پڑھ کر عسکری اور سلیم احمد یاد  آجاتے ہیں ، برخوردار  ارشد معراج ہیں  کہ تحقیق کے لیے طویل چھٹی لی۔ مالی مشکلات برداشت کیں ۔  مگر ڈاکٹریٹ  اس طرح کیا جیسے کرنا چاہیے  تھا۔ یہی صورتحال ڈاکٹر روش ندیم کی ہے۔ رہے ڈاکٹر شاہد صدیقی تو اردو ان کی تحقیق کا موضوع ہی نہ تھا۔، مگر جس  طرح اوپن یونیورسٹی کو آکر جگایا۔ منہ ہاتھ دھلا کر پوشاک بدلوا کر میدان میں اتارا  اور مردہ رگوں میں جان پیدا کی،انہی کا حصہ ہے ۔

اور بھی نام ہیں !  معتبر نام! مگر اوپر سے بالائی کی  یہ تہہ اتار دیں تو نیچے حالت پتلی ہے اور  بہت پتلی ہے۔ ہم جیسے عامی جو ڈاکٹریٹ نہیں رکھتے اور  کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے ،سُو ء اتفاق  سے اسی ملک میں  رہتے ہیں ، اور ان لاتعداد طلبہ اور طالبات سے ملتے رہتے ہیں ،جو یونیورسٹیوں  ،میں  زیر تعلیم ہیں، پڑھانے والے بھی ہمارے حلقہ احباب میں ہیں ، اس سے کون کافر انکار کرے گا۔ کہ یونیورسٹی میں کرنٹ اور انڈر کرنٹ عجیب و غریب چلتے ہیں ، یعنی پانی کی سطح کے نیچے چلنے والی بحری رویں  -استاد کی نگاہِ حسن شناس  اگر کسی طالبہء علم پر ٹھہر گئی ہے اور اس طالبہ کو اکثر و بیشتر  اپنے کسی  کلاس فیلو لڑکے کے ساتھ دیکھا گیا ہے، تو پھر  اس لڑکے کی خیر نہیں ، اس کی ڈویژن ،اس کا تھیسس اور اس کا بہت کچھ خطرے کی زد میں آجائے گا اور ایسا "انتقام"عام  ہے۔

پی ایچ ڈی کرانا اب ان  یونیورسٹیوں میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  اس انڈسٹری  کے لیے سرمایہ مطوب ہے۔ تعلقات درکارہیں ،کوئی ضامن یا گارنٹر ہو۔ پھر دیکھئے ڈگری ہاتھ آتی ہے یا نہیں۔

ہمارے ایک جاننے والے صاحب نے حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ کہتے ہیں ، سپر وائزر یعنی نگران پروفیسر  صاحب کو مقالے کا مسودہ بھیجا تو ایک عرصہ تک جواب ندارد آخر تنگ آکر فون  کیا تو فرمانے لگے ،بھائی! میں نے کیا دیکھنا اور بتانا ہے،بس آپ اپنے شعبے کے ماہر ہیں ،سب ٹھیک ہے۔

لیکن اس یونیورسٹی کے سیمینار میں جو سرسید خان پر تھا۔ خود سر سید پر کیا بیتی ؟یہ ایک الگ داستان ہے، طویل اور الم ناک !اور افسوس بے تصویر بھی۔

اگر  آپ کے اعصاب فولادی ہیں ،اگر آپ کا دل مضبوط ہے اگر آپ کی ساعد، محض ساعد سیمیں نہیں ،اور اگر آپ اس چند روزہ زندگی سے عاجز نہیں آچکے تو حواس  مجتمع رکھیے اور دل مضبوط  اس حادثہ ء فاجعہ کی کچھ تفصیل  اگلی نشست  میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی جائے گی، ابھی، اس وقت تو میں  اور کتاب فروش دونوں سر سید احمد خان کی تربت کی طرف دوڑے  جارہے ہیں ،کیوں کہ یونیورسٹی سیمینار ختم ہوتے ہی  وہا ں سے کچھ لوگ ایک پیر صاحب کی قیادت میں کدالیں اور پھاوڑے لے کر سر سید  کی قبر کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں۔خدا خیر کرے!          

       


دو قومی نظریے پر کلیدی خطبہ گاندھی جی دیں گے

$
0
0

ہمارے دوست معروف دانشور  ،جناب خورشید ندیم تحریر میں کم خواب و پرنیاں جیسے الفاظ  استعمال کرتے ہیں ،گفتگو میں بھی نرم ہیں اور بعض اوقات امیدیں قائم کرنے میں بھی ضرورت سے زیادہ فیاض۔

دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ۔۔

"تدریجاً"یہ ادارہ ایک جدید  مدرسہ بنتا چلا گیا۔ زیادہ سے زیادہ مخصوص مذہبی  تعبیرات کا تبلیغی مرکزیا ایک مذہبی  سیاسی جماعت کے وابستگان کے لیے روزگار کا وسیلہ۔ علمی کم  مائیگی کی ایک وجہ  یہ رہی کہ یہاں علمی تحقیق کے لیے حوصلہ افزا فضا میسر نہ ہوسکی، ادارہ تحقیق  اسلامی کو  یونیورسٹی سے وابستہ کردیا گیا۔مگر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذکر پر پابندی  رہی،جن کی علمی وجاہت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں  اب یونیورسٹی نے سر سید احمد خان کو دو روزہ کانفرنس کا موضوع بنایا  تو میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا"

جس یونیورسٹی کو خورشید  ندیم صاحب جدید مدرسہ کہہ رہے ہیں ،وہ مدرسہ تو ہوسکتا ہے، جدید ہرگز نہیں ۔کئی دارالعلوم اکٹھے کئے جائیں تو  تنگ نظری  اور مخصوص مذہبی تعبیرات میں اس "یونیورسٹی"کی گرد کو نہ پہنچ سکیں ،سرسید کانفرنس کے انعقاد پر خوشگوار حیرت  خورشید ندیم صاحب کو نہ جانے کیسے ہوئی؟

اگر قائداعظم پر سیمینار ہو اور کلیدی خبطہ  مولانا حسین احمد مدنی  یا سردار ولبھ بھائی پٹیل سے دلوایا جائے تو حیرت کیسی؟

"یونیورسٹی"کی نیت صاف ہوتی تو سرسید کے خلاف روایتی ملائیت کو یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ ان دانشوروں کو بھی مدعو کرتی جو سرسید کو گردن زنی نہیں ،محسن سمجھتے ہیں۔

چلیں جاوید  غامدی یا خورشید ندیم کو نہ بلاتے کہ یہ عامی ہیں ۔ بیچارے اردو میں پی ایچ ڈی ہیں ،نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ، مگر ڈاکٹر مہدی حسن کو بلا لیتے ۔اگر ڈاکٹر مہدی حسن کو تنظیم اسلامی والے اپنی تقریب میں بلا سکتے ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب نے ثابت کیا تھا کہ ہر پیغمبرپر"روشن خیالی"کا الزام لگا تو "یونیورسٹی"کیوں نہیں بلاسکتی۔

ڈاکٹر ہود بھائی کو بلا لیتے پروفیسر  فتح محمد ملک تو اسلام آباد میں موجود تھے۔

خدا کے بندو! سرسید کے ناقدین ہی کو جمع کرنا تھا تو سجاد میر کو بلا لیتے۔ ڈھنگ سے بات کرتے ہیں ،گفتگو کا فن جانتے ہیں ۔ دلائل دیتے ہیں ،اور سنتے ہیں ۔ مگر ان میں سقم یقیناً یہ نظر آیا ہوگا کہ نہ ملا ہیں نہ  پیر۔

یہاں آنکھوں دیکھا،بلکہ بیتا واقعہ بیان کرنا اس نکتے کی وضاحت کرے گا کہ اس یونیورسٹی نما  دارالعلوم میں کس مائنڈ  سیٹ کے پروفیسرز اکٹھے کئےگئے ہیں ۔

غالباً دو سال پہلے کی بات ہے، پاکستان اکادمی ادبیات میں الطاف حسین حالی کے  حوالے سے ایک تقریب ہوئی۔ ایک خاتون نے اوراق خوانی کی،تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ بکسر کی شکست سے لے کر ،ٹیپو سلطان کی شہادت تک اور  1857 کی پسپائی سے لے کر جلیانوالہ باغ کی ہلاکتوں تک،ہر ناکامی کا ذمہ دار  یہی شخص تھا۔ جس کا نام حالی تھا۔۔ انگریزوں کا خادم ۔

اسلام آباد کے سب بڑے بڑے دماغ ،بڑے بڑے جسموں کےساتھ وہاں براجمان تھے۔ منہ میں سب کے گھگھنیاں تھیں ۔ اس طالب علم نے اپنی باری پر تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی مقدور بھر سعی کی، یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جو "یونیورسٹی"میں طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں اپنا مخصوص نکتہ نظر ٹھونس رہا ہے۔ نظم و نسق ملائیت کے سپرد ہے ۔علاقہ مذہبی سیاسی جماعت کا مفتوحہ ہے۔

نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ اقبال نے تینوں قاتل عناصر کا ذکر  الگ الگ کیا تھا۔

؎اے کشتہ ء سلطانی و ملائی و پیری

مگر سر سید کا دماغ ٹھکانے لگانے  کے لیے یونیورسٹی نے مُلائی اور پیری کا ایسا مہلک  امتزاج  


Lethal combination

کھڑا کیا کہ اس انتخاب پر داد نہ  دینا بدذوقی ہوگی۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال سے سر سید پر مُلائیت حملہ آور ہے، اور زیادہ مشتعل اس لیے ہے کہ ایک مخصوص حلقے سے باہر اس کی کسی نے سنی نہیں۔
یہ حلقہ بھی مُلائیت کا اپنا ہے۔ یہ وہی مُلائیت ہے جس نے جہانگیر کو اور عثمانی خلیفہ کو پریس قبول کرنے سے روکا ۔جس نے مذہب کو زندگیوں سے نکال  کر ظاہری وضع قطع  اور لباس تک محدود کردیا۔ جس نے کہا کہ لاؤڈ اسپیکر اور ٹیلی ویژن حرام ہے اور پھر کہا حلال ہے۔ بلکہ اپنے اپنے چینل کھول لیے۔ یہ وہی مُلائیت ہے جو اب بھی مسلمان  نوجوانوں کو سائنس ،انجینئرنگ  اور  میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھڑوا کر مدرسوں کی طرف بھیج رہی ہے۔

پیری مریدی کے راستے سیادت اور امارت کا حصول  تو عام تھا۔اب پیری مریدی کے راستے ادب فتح کیا جانے لگا ہے۔ایک صاحب کا دعویٰ  ہے کہ وہ علمی تصوف سے متعلق ہیں ۔فضا انہوں نے اپنے ارد گرد تقدس اور روحانیت کی باندھی ہے، اس فضا کا لامحالہ نتیجہ آمنا و صدقنا اور صم بکم عمی ہوتا ہے۔چنانچہ حلقہ بگوشوں میں  اختلاف کا رواج ہے  نہ ہمت!

کوئی استاذ العلماء  کہتا ہے تو کوئی مرشد۔

واقعہ یہ ہے کہ یہی راستہ حُب  جاہ اور عُجب کی طررف جاتا ہے بظاہر سادگی اور عجز مگر ایک حلقہ  تعظیم و اطاعت کرتا ہے۔ تو  مزا ہی آ جاتا ہے۔ دوسروں کی نظر میں استاذ العلماء اور مرشد ہونا ہی تو جاہ ہے۔ اسی سے ایک پگڈنڈی عُجب کی طرف جاتی ہے۔ حدیث میں ہے۔۔۔"رہے ملہلکات سو وہ  خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے ،اور  بخل ہے جس کے موافق عمل کیا جائے، اور آدمی کا اپنے آپ کو  اچھا سمجھنا  (اعجاب المرءبنفسہ) اور  یہ سب سے بڑھ کر ہے"

جبھی تو ناصر کاظمی نے کہا تھا۔۔۔

سادگی سے تم نہ  سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!

اس مصیبت سے بچنے کے لیے ہی تو ملامتیہ نے اپنے آپ کو عاصی بنا کر پیش کیا کہ حب و جاہ  اور عُجب سے جان چھڑائی جائے۔اب جب پیری  مریدی کا نظام قائم ہوچکا  ،ہر بات  مرشد کی مستند سمجھی جانے لگی۔ تو ادب اور تاریخ  کی طرف  رُخ ہوا فضا وہی آمنا صدقنا کی ! پھر خاص قسم کے الفاظ اور  طویل فقرے۔ پھر لفظوں کو چبا چبا کر ایک مخصوص ادائیگی جس میں  نسائیت بھی جھلکتی ہے۔ بقول خؤرشید ندیم صاحب "غور و فکر کی صلاحیت کچھ دیر کے لیے سلب ہوجاتی ہے"مگر سب جھاگ!
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انگریزی یا  کسی زبان میں ترجمہ کریں تو ہاتھ  کچھ نہ آئے، اسی لیے اوزار جو پکڑا گیا ہے، گفتگو  ہے تحریر نہیں ! تحریر میں آپ کو
 substance
دینا پڑتا ہے

ایک چڑیا گھر میں شیر لایا گیا، زبیرے نے اسے پہلی بار دیکھا تھا، اس کے پاس آیا پوچھا تم کون ہو ،کیا کرتے ہو؟

شیر نے  توجہ نہ دی ۔۔دوسرے  دن پھر آیا۔،پھر تیسرے دن،چوتھے دن آخر شیر تنگ آ  گیا، اس نے زبیرے سے کہا پہلے یہ دھاری دار چادر اتارو، پھر میرے ساتھ کشتی لڑو،تمھیں معلوم  ہوجائے گا، میں کون ہوں ،

بھائی! آپ پیری مریدی کی، تقدس کی ،مرشدیت کی دھاری دار چادر اتاریں ۔ عقیدت مندوں اور مریدوں  سے باہر نکلیں  اور ادب اور تاریخ  کے طالب علم(چلیے بہت بڑے سکالر) کے طور پر باہر  نکلیں تو آٹے دال کا بھاؤ  معلوم ہو!

پیر صاحب کے مفروضؤں  کو چیلنج کوئی مرید نہیں کرتا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب من جانب اللہ ہے۔ یہ محض  مفروضہ ہے کہ اینٹی تھیسس تھیسس ہی سے نکلتا ہے ۔یہ بھی مفروضہ ہے کہ سرسید کی جدو جہد کو صرف تعلیمی میدان تک محدود کرنا  فکری افلاس کی دلیل ہے ۔اس طائفے کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ  موجودہ نطام ِ تعلیم فکرِ  سرسید کی پیداوار ہے ۔چلیے یہ متنازعہ بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ  ڈیڑھ سو برس ہوچکے ہیں ۔ جسے آپ درست سمجھتے ہیں  ؟

آپ سرسید کے عیوب کے بجائے ہمیں اپنے محاسن سے بھی تو مطلع فرمائیے ،

ضیا الحق کے اقتدار کے  پورے عشرے میں اس  مکتب فکر کی مکمل حکمرانی تھی۔ جسے سرسید سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
حکومت کی طاقت بھی تھی،مذہبی جماعتوں اور "اصحاب رشد و ہدایت "کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔ خزانوں کے منہ مشائخ کانفرنسوں کے لیے کھلے تھے، ملائیت کا رقص زور و شور سے جاری رہا،تو پھر آپ  سرسید کو پیش منظر سے ہٹا کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا لیتے۔

مگر اصل مسئلہ دلائل کا نہیں ،نہ کلیدی خطبے کے مندرجات کا۔ اصل مسئلہ اس "حسنِ نیت"کا ہے جس نے سرسید پر سیمینار اس لیے کرایا کہ جانے پہچانے مخالفین کو مسند پر بٹھایا جائے۔، اور وہی اعتراضات دہرائے جائیں  جو سرسید پر ملائیت ڈیڑھ صدی سے کر رہی ہے۔

جیسا کہ اوپر مثال دی گئی ہے کہ قائداعظم پر سیمینار ہو اور کلیدی خطبہ مولانا حسین احمد مدنی یا کانگرسی زعما میں سے کوئی دے تو کیا  آپ اس خطبے کا جواب دینے بیٹھ جائیں گے ؟یا اس بدنیتی کا ماتم کریں گے جس نے قائداعظم کے دشمنوں کو کھلی چھٹی دی۔

ظلم یہ ہے کہ سر سید کے افکار  کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری سے ان دشنام طرازوں  کو مکمل آگاہی نہیں ۔سرسید اندھوں کے اس طائفہ کے لیے وہ ہاتھی ہے جس کا یہ  محض کان یا پاؤں ٹٹولتے پھر رہے ہیں ۔،

مکمل فکر اور عمل جو سر سید کا کارنامہ ہے،توجہ سے محروم ہے اور ذہنی بساط سے بھی۔مثلاً  اگر اس  درد سے واقف ہونا  ہو جو سر سید کے دل میں برصغیر کے ایک عام باشندے کے لیے تھا تو ان کی تصنیف "مسافر ان لندن "کا مطالعہ لازمی ہے ۔وہ اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے کتنے بڑےعَلم بردار تھے دیکھیے۔۔۔

"اس تمام ترقی کا باعث  انگلستان میں صرف یہ ہے کہ تمام چیزیں  تمام علوم تمام فن جو کچھ اس قوم  کی زبان میں ہے ،پس  جو لوگ حقیقت میں ہندوستان کی بھلائی  اور ترقی چاہنے والے ہیں وہ یہ جان لیں کہ  ہندوستان کی بھلائی صرف  اسی پر منحصر  ہے کہ تمام علوم  اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک انہی کی زبان میں ان کو دیے جائیں ۔ ہمالیہ کی چوٹی پر یہ الفاظ  کھود دئیے جائیں کہ ہندوستان اسی  وقت ترقی کرسکتا ہے جب وہاں تعلیم اس کی اپنی زبان میں دی جائے"

موضؤع بہت طویل ہے    باتیں بہت سی ہیں  مگر مجھے جانا ہے، اسی یونیورسٹی نے دو قومی نظریے پر سیمینار منعقد کیا ہے ۔سنا ہے گاندھی جی کلیدی خطبہ دیں گے۔ میں اس سنہری موقع کو کھونا نہیں چاہتا،سو،خدا حافظ!


بیواؤں کی آہ!

$
0
0

عمر پچھتر اور اسی کے درمیان ہوگی۔چہرے کے نقوش اب بھی لطافت کا پتہ دے رہے تھے۔لباس صاف پرانا لگ رہا تھا مگر اجلا۔پاؤں میں ربڑ کے سیاہ جوتے۔ہاتھ میں لاٹھی۔گاڑی سے نکل کر دکان کی طرف جارہا تھا کہ اس نے روکا۔


"یہاں کہیں"مرکزی قومی بچت"کا دفتر نیا نیا شفٹ ہوا ہے۔مجھے مل نہیں رہا۔"

میں نے احترام سے جواب دیا ۔"جی مجھے نہیں معلوم 'پوچھ کر بتاتا ہوں۔"

دکاندار سن رہا تھا۔اس نے آگے کی طرف  اشارہ کرکے بتایا کہ  چھ سات دکانیں چھوڑ کر دائیں طرف ہے۔عمر رسیدہ خاتون مڑی۔پتہ نہیں کیا ہوا'لاٹھی پھسلی یا پاؤں ٹیڑھا پڑا 'گر پڑی۔وہ تو حسنِ اتفاق تھا کہ  نیچے کچی زمین  تھی ورنہ اس عمر میں فریکچر ہونے کے لیے بہانہ چاہیے۔دکاندار اور میں دونوں آگے بڑھے اور اٹھایا۔خاتون کا سانس بھی یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ کچھ اکھڑ گیا ہو۔دکاندار اندر سے کرسی لے آیا۔بٹھایا پھر پانی کا گلاس  پیش کیا۔اٹھنے لگی تو میں نے کہا آئیے'میں آپ کو مرکزی قومی بچت تک چھوڑ آتا ہوں ۔

 اس نے اپنے بڑھاپے اور اکلاپے کی باتیں شروع کردیں ۔یوں کہ  قومی بچت کے دفتر میں داخل ہوئے تو وہ مسلسل بول رہی تھی۔میں نے مناسب سمجھا کہ کاؤنٹر پر کھڑا رکھنے کے بجائے معمر خاتون کو بٹھا دینا چاہیے۔میں اسے منیجر کے دفتر میں لے گیا۔خوش اخلاق منیجر اٹھ کر ملا۔میں نے بتایا کہ خاتون گر پڑیں اور میں  فقط چھوڑنے آیا ہوں۔ ان کا کام جلد ہوجائے تو بہتر۔منیجر سراپا مسکراہٹ تھا۔کہنے لگا آپ بھی تشریف رکھیے۔میں ان کا کام ابھی کراتا ہوں ۔

اس نے چیک بک خاتون سے لی ۔خود ہی بھری ۔پھر دستخط کرا کر خود کاؤنٹر  پر گیا اور پانچ منٹ بعد آکر  رقم خاتون کے ہاتھ  میں پکڑائی۔خاتون نے رقم گنی۔اب وہ خود کلامی کررہی تھی۔"تیئس ہزار چار سو۔"اس نے رقم دوبارہ گنی ایک بار  پھر آہستہ سے"تیئس ہزار چار سو۔"کہا پھر بیگ کی زپ کھول کر رقم اس میں رکھی۔اس کی خود کلامی جاری تھی۔

"خدا اس کا بیڑہ غرق کرے'ذلیل و رسوا ہو'اللہ کرے کبھی نہ پھلے پھولے۔"

پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔میں کچھ کہنے لگا تھا کہ منیجر نے بیک وقت آنکھوں اور ہاتھ کے اشارے سے منع کیا

میں نے خاتون سے پوچھا۔"آپ کو چھوڑ آؤں "؟

کہنے لگی'نہیں بھائی !میں نزدیک ہی رہتی ہوں  'چلی جاؤں گی۔"

وہ لاٹھی ٹیکتی نکل گئی'میں نے منیجر سے پوچھا'یہ بدعائیں کسے دے رہی تھی؟اس نے ایک آہ بھری۔

"اسحاق ڈار صاحب کو"

پھر وہ خود ہی خاتون کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے لگا۔خاتون بیوہ تھی۔بچے اپنے اپنے گھروں کے ہوگئے۔ مزاج ایسا ہے کہ کسی بچے سے کچھ لینے کو تیار نہیں ۔گھر کا بالائی حصہ کرائے پر اٹھارکھا ہے۔کچھ وہاں سے مل جاتا ہے۔میاں  نے انتقال سے پہلے اس کے نام  تیس لاکھ روپے مرکز قومی بچت میں "بہبود فنڈ"کے حوالے سے جمع کرا دئیے تھے۔"بہبود فنڈ"صرف ان مردوں اور عورتوں کے نام کھل سکتاہے جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو۔2013ء میں جب میاں نواز شریف  کی حکومت آئی تو  بہبود فنڈ میں جمع کرائے گئے ایک لاکھ پر ایک ہزار ساٹھ روپے منافع ملتا تھا اس خاتون کو تیس لاکھ پر اکتیس ہزار آٹھ سو روپے ماہانہ مل جاتے تھے۔یوں اس کی گزر بسر ہو رہی تھی۔ اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے یہ منافع گھٹانا شروع کردیا ۔ان بوڑھے لوگوں کی جمع شدہ  رقم  اربوں میں تھی۔حکومت اس خطیر  رقم سے خوب فائدے اٹھا رہی تھی۔وزیراعظم 'صدر اور کابینہ کے ارکان  کے اللے تللے اس کے علاوہ تھے۔ مگر بچت کرنے والوں کو  اسحاق ڈار  صاحب نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ایک ہزار ساٹھ سے کم کرکے نو سو اور کچھ کردیا۔ پھر ہوتے ہوئے یہ رقم  اب صرف سات سو اسی روپے رہ گئی ہے۔یعنی ایک لاکھ پر دوسو اسی روپے کم ہوئی۔اب اس ضعیفہ  کو اکتیس ہزار آٹھ سو کے بجائے  تیئس ہزار چار سو روپے ملتے ہیں ۔ یہ ہر ماہ آتی ہے۔رقم گنتی ہے۔2013ء سے پہلے ملنے والی رقم سے اس کا تقابل کرتی ہےاور پابندی کے ساتھ اسحاق ڈار صاحب کو بدعائیں دیتی ہے۔اب تو اس کی بدعائیں مجھے بھی یاد ہوگئی ہیں ۔

"خدا اس کا بیڑہ غرق کرے'ذلیل و رسوا ہو'اللہ کرے کبھی نہ پھلے پھولے۔"

میرادل لرزنے لگا۔اسحاق ڈار صاحب کی وہ تصویر  آنکھوں کے سامنے  پھرنے لگی جو حال ہی میں  وائرل ہوئی ہے۔ لندن کے کسی ہسپتال  میں پڑے ہیں ۔تو یہ کہیں بیواؤں کی آہ تو نہیں جو انہیں لگی ہے؟صرف ایک ہی بیوہ تو بددعا  نہیں دے رہی ہوگی!ستر ستر اسی اسی سال کے مرد اور عورتیں  'جو ملازمت کر سکتے ہیں نہ کاروبار ،اپنی زندگی بھر کی کمائی "قومی بچت "والوں  کے سپرد کردیتے ہیں ۔اس امید پر کہ اس عمر میں  ہر ماہ کچھ نہ کچھ ملتا رہے گا۔"قومی بچت"کے ملازمین  ،اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتاتے ہیں  کہ ان بیواؤں  اور بوڑھوں  کے جمع شدہ بتیس ارب روپے بجٹ میں "آمدنی "کے طور  پر دکھائے گئے ہیں ۔حالانکہ یہ تو ایک لحاظ سے قرض ہے اسے اثاثوں  میں نہیں شمار کیا جاسکتا۔

اسحاق ڈار صاحب کے اپنے اثاثے اس عرصہ میں مبینہ طور پر نوے لاکھ سے نوے کروڑ ہوگئے۔ دبئی میں فلک بوس ٹاور کھڑے ہیں ۔فرزند ارجمند بیرون ملک ہیں ۔کروڑوں  کے تحائف اور "قرضے"باپ بیٹے کے درمیان"محبت"کے رشتوں  کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں ۔اسحاق ڈار صاحب عملاً وزیراعظم تھے۔ اصل وزیراعظم جناب نواز شریف کو کسی اجلاس  سے،کسی فائل سے ،کسی دماغی کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ان کی طبع ِ نازک کسی قسم کا بوجھ برداشت کرنے سے عاری تھی۔ ای سی سی کے کسی اجلاس  کی صدارت وزیراعظم نے نہ کی۔سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کے سپرد تھا۔ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرسکتے تھے ۔ظفر حجازی ہوں یا انٹر نیشنل بنک کے سعید احمد،سب ان کے اشارہ ابرو پر رقص کرتے تھے۔ بیسیوں  چھوڑ سینکڑوں کمیٹیوں کے ڈار صاحب چیئرمین تھے۔ بولتے تو "ہمچو ما دیگری نیست"کا نمونہ ہوتے۔باڈی لینگوئج ایسی تھی جیسے روئے زمین پر ان کا ہمسر کوئی نہ ہو۔وزراء کو بھی ماتحت ہی گردانتے ۔ان کے پاس اتنا وقت ہی نہ تھا کہ بوڑھوں ،بیواؤں ،ضعیفوں،فقیروں کے بارے  میں سوچتے۔اٹھتے بیٹھتے ایک ہی فکر تھی کہ ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگائیں۔خزانے میں ایک طرف سے پیسہ آتا رہے،دوسری طرف سے نکلتارہے اور نکل کر ان حوضوں ،تالابوں میں جاتا رہے جو ان جیسے امراء  کے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے بیواؤں اور بوڑھوں کو نچوڑا۔خوب،پوری قوت سے نچوڑا،زندگی بھر کی بچت ان سے لے لی اور بدلے میں،ہر کچھ ماہ بعد،ان کے منافع کو قینچی سے کاٹتے رہےیہاں تک کہ وہ چیخ اٹھے۔

پھر بیواؤں  کی آہیں آسمان تک پہنچیں ۔اسحاق ڈار صاحب بلند و  بالا تخت سے نیچے گرےاور تاحال مسلسل نیچے لڑھکتے جارہے ہیں ۔کاغذ پر بدستور وزیر خزانہ ہیں مگر ملک کے اندر پاؤں دھرنے سے ڈر رہے ہیں ۔ کمیٹیوں کی صدارت خواب و خیال ہوئی۔ای سی سی کی چودھراہٹ چھن گئی۔کل مشترکہ مفادات کونسل رکنیت سے بھی فارغ کردئیے گئے۔

مگر اصل سزا یہ نہیں ،اصل سزا جو ڈار صاحب کو بیواؤں کی آہ لگنے سے ملی ہے وہ بدنامی ،وہ تضحیک،وہ جگ ہنسائی اور وہ بےحرمتی ہے جو ان کے ارد گرد دیوانہ وار رقص کررہی ہے۔مالی کرپشن کا ٹیکہ ان کے ماتھے پر لگا ہے۔ان کی حیثیت ایک مجرم کی ہے۔عدالت سے بچتے پھر رہے ہیں ۔بیواؤں اور بے کس بوڑھوں  کی آہ کا اثر دیکھیے کہ وزیراعظم کے بعد ملک کا  طاقت ور ترین فرد آج ایک تہمتِ بے جا کے  سوا کچھ بھی نہیں !دیار ِ غیر کے ایک ہسپتال میں پڑا ہے۔اگر بیماری واقعی  وجود رکھتی ہے اور علاج ہی کے لیے  بستر پر پڑے ہیں تو حالت قابلِ رحم ہے اور اگر  بیماری  عدالتوں سےبچنے کا محض بہانہ ہے تو حالت قابلِ رحم ہونے کے علاوہ عبرتناک بھی ہے۔ سو ہے کوئی جو  ڈار صاحب سے عبرت پکڑے؟عبرت پکڑو!اے آنکھوں والو!ڈار صاحب سے عبرت پکڑو۔

نوے کروڑ ہیں یا نوے ارب،یا دبئی کے سر بفلک ٹاور، ڈار صاحب کو اس بدنامی ،اس جگ ہنسائی ،اس تضحیک سے کوئی نہیں بچا سکتا جو ان کے ماتھے پر کُھدچکی ہے،جو سائے کی صورت ان کے ساتھ لگی ہے۔چلیے، عزت کا خیال نہ سہی،کہ ان "بڑے "لوگوں  کی عزت بھی وہ عزت نہیں ہوتی جس کا معنی لغت میں لکھا ہے،عزت پر لعنت بھیجئے،مگر بے سکونی، ذہنی دباؤ،مسلسل پریشانی،ٹینشن تو وہ حقیقت ہے جس سے آنکھ نہیں چرائی جاسکتی۔ کاش ڈار صاحب بیواؤں کی آہوں کو دعوت نہ دیتے۔     


ہم علما کے پیروں کی خاک ہیں

$
0
0

رائے ونڈ میں  عالمی تبلیغی اجتماع کی آمد آمد تھی۔نو نومبر کو مولانا طارق جمیل  جاتی امرا  میں سابق  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تشریف لے گئے ۔میڈیا  کی خبروں کے مطابق  انہوں نے وہاں ڈیڑھ گھنٹہ قیام کیا۔اسی  اثناء میں انہوں نے  تین کام کیے۔ اول میاں صاحب کو اجتماع میں  حاضر ہونے کی دعوت دی ۔دوم'ان کی بیمار اہلیہ کی صحت کے لیے دعا کی۔سوم'میاں صاحب کو  جو مشکلات درپیش ہیں ۔ان کے حل کے لیے وظیفہ تجویز  کیا۔

 تبلیغی جماعت کے اکابر کا  خواص کے پاس خود چل کرجانا اور اجتماع  میں شرکت کی دعوت دینا ایک معمول کی کارروائی ہےمولانا طارق جمیل  مولانا فضل الرحمٰن  کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور  انہیں بھی شرکت کی دعوت دی۔

تاہم سوشل میڈیا میں جو ردِ عمل ظاہرہوا وہ ایک اعتبار سے منفی تھا۔عوام کی کثیر تعداد نے جو سوال اٹھایا وہ منطقی لحاظ سے ناروا نہ تھا ۔کیا کرپشن کے داغ اوراد وظائف سے دُھل جاتے ہیںَ

عوام کو معلوم ہے کہ مولانا طارق جمیل ایک باخبر انسان ہیں ۔اندرون ملک اور  بیرون ملک ہر جگہ تشریف لے جاتے ہیں ۔کرہء ارض ان کی جولا نگاہ ہے۔ہر ملک ،ہر زبان ،ہر نسل ہر شعبے ،ہر  پیشے کے لوگ ان سے ملاقات کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ میاں  صاحب کی بے پناہ دولت اور غضب کرپشن کی عجب کہانیوں سے ناآشنا ہوں ۔ انہیں یقیناً معلوم ہوگا  کہ جس نرم وگداز ریشمی شاہراہ پر ان کی پجارو سبک خرامی کے ساتھ جاتی امرا پہنچی وہ شاہراہ بیت المال کی رقم سے بنی۔ انہوں نے یقیناً  یہ خبر بھی پڑھی ہوگی جو تواتر سے چھپتی رہی کہ ساٹھ  کروڑ کے لگ بھگ حفاظتی حصار  ان کے محلات کے ارد گرد سرکاری خزانے کی"مد"سے کھینچا گیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مولانا اس طوفان سے بے خبر ہوں جو پانامہ کیس کے عنوان سے کئی ماہ میڈیا سے لے کر عوام کے ذہنوں تک چھایا رہا۔مولانا یقیناً یہ لطیفہ سن کر محظوظ ہوئے ہوں گے  کہ محترم میاں صاحب  نے جے آئی  ٹی کے سامنے اپنے خالو کو پہچاننے میں دو اڑھائی گھنٹے لگا دیے۔اس قسم کی طلسمی اطلاعات بھی  یقیناً ان تک پہنچی ہوں گی کہ فلیٹ فروخت پہلے کردیے گئے اور خریدے بعد میں  گئے۔ قطری شہزادے کی سحر انگیز ہوشربا  داستان ِ امیر حمزہ بھی  ان کی مبارک سماعتوں  تک یقیناً پہنچی ہوگی۔ جس طرح میاں صاحب کے عہدِ اقتدار میں  ان کی دختر نیک اختر 'حکومتی اختیارات بروئے کار لاتی رہیں 'اس کی اخلاقی شرعی اور قانونی حیثیت مولانا جیسے ذہین و فطین نابغہء  عصر  سے کیسے  پوشیدہ رہ سکتی ہے۔علالت کے دوران لندن آنے جانے کے لیے جس طرح قومی ائیر لائن کے جہازوں کو استعمال کیا گیا اور نواسی کے نکاح  کے لیے جس طرح قومی ائیر لائن کے جہازوں کی سمتیں  بدلی گئیں اور جس طرح نیویارک میں مسافر پریشان ہوئے وہ سب مولانا کی نگاہِ دور بیں  سے اوجھل نہ ہوگا ۔

مولانا ان اکابرین سے ہیں جو  ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ ہدایت کا چراغ ہیں  ۔خطاب فرماتے ہیں تو لگتا ہے الفاظ ان کے دہن مبارک سے نہیں 'جلسہ گاہ کے ارد گرد لگے ہوئے قمقموں میں سے باہر چَھن رہے ہیں ۔ سرورِ کائناتﷺ کا شجرہ ء نسب سناتے ہیں تو وجد طاری ہوجاتا ہے۔دعا کراتے ہیں تو دل کی گہرائیوں میں  تاثیر کے سوتے ابل پڑتے ہیں  ۔ایسے عالی قدر عالم بے بدل فاضل اجل سے یہ حقیقت کس طرح پوشیدہ  رہ سکتی ہے کہ قبولیت دعا کے لیے اکلِ حلال لازم ہے۔ اورادووظائف تسبیح و سجادہ  اکلِ حلال کی عدم موجودگی میں ایسے ہی ہیں جیسے ریت  پر پانی کی دھارا!ہماری تبلیغی جماعت کی مقدس کتاب"فضائل ِ اعمال"میں جو صبح شام رات دن  حلقہ ہائے تبلیغ میں  پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے اور گھروں  میں  خواتین اور  بچوں کو اہتمام اور التزام کے ساتھ  سنائی جاتی ہے ایک واقعہ  لکھا ہے کہ  بصرہ میں درویشوں  کا ایک طائفہ تھا جو مستجاب الدعوات تھا ۔عراق کا جو گورنر آتا'وہ اس کے حق میں بددعا کرتے 'وہ مرجاتا یا معزول کردیا جاتا۔حجاج گورنر بنا تو اس نے درویشوں  کے اس  گروہ کو گورنر ہاؤس مدعو  کیا اور طعام سے ان کی خاطر تواضع کی !کسی نے اس اقدام کی  وجہ پوچھی تو شاطر گورنر نے راز کی بات بتائی کہ گورنر ہاؤس کا مالِ حرام ان کے شکم میں  داخل کردیا ہے۔اب کہاں قبولیتِ دعا ؟چنانچہ میں ان کی بددعاؤں سے محفوظ ہوگیا ہوں ۔

اب اشکال یہ آن پڑا ہے کہ مولانا نے میاں صاحب کو تلقین کیوں نہ کی کہ حرام(یا مشکوک) مال کی وجہ سے دعائیں قبول  نہیں ہوتیں ۔انہوں نے  اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نصیحت کیوں نہ کی کہ قوم کا مال قوم کے خزانے میں  واپس ڈالو اور ایک ایک پائی کا حساب دو۔

اس اشکال  کی کوئی اور توضیح اور توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی  سوائے اس کے کہ مولانا کسی کا بھی دل نہیں  دکھاتے اور پھر سابق وزیراعظم کا دل تو کسی صورت دکھانا پسند نہیں کیا ہوگا کہ آخر کار وہ ہمارے حکمرانِ اعلیٰ رہے۔

 تو پھر کیا وہ تابعین اور علماء کرام جو حجاج جیسے سفاک حکمرانو ں کے سامنے غلط کو غلط  کہتے تھے اور حکمرانوں  کو صاف صاف ٹوکتے تھے ۔غلط تھے؟وہ حکمرانوں  کو دو ٹوک الفاظ میں متنبہ کرتے تھے کہ تم نے فلاں کام  غلط کیا ہے 'اس سے توبہ کرو۔بیت المال  میں خیانت نہ کرو۔اللہ کےسامنے جواب دہی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو۔

یقیناً ان علما کرام نے  بادشاہوں  کا دل دکھایا۔مولانا طارق جمیل ان کی نسبت زیادہ بلند پایہ ہیں ۔وہ میاں صاحب کو مال حرام سے بچنے کا کہہ کر ان کے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ رہی یہ مشہور بات کہ  جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔تو واضح ہو کہ مولانا کا مشن تبلیغ ہے جہاد نہیں۔اگر کلمہ حق کہہ کر  حکمرانوں ،عمائدین ،امرا اور طبقہ ء بالا کے ارکان کا دل دکھایا جائے تو تبلیغ کے ثمرات کیسے حاصل ہوسکیں گے؟یہی تو غالب نے سمجھایا تھا۔

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر

 کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی!

رہا"فضائل ِ اعمال "میں لکھا ہوا وہ واقعہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے جس میں گورنر ہاؤس کے مال حرام کا درویشوں کے پاک شکم میں داخل ہونے کاذکر ہے'تو  اس کا انطباق  کوئی ناہنجار  اس بات پر ہرگز ہرگز نہ کرے کہ  مولانا جاتی امرا کے محلات میں تشریف لے گئے اور وہاں ڈیڑھ گھنٹہ گزارا تو یقیناً وہاں کے دستر خوان سے اپنے شکم مبارک میں بھی کچھ ڈالا ہوگا ۔مولانا پہلی بار کسی حکمران یا سابق حکمران کے محل میں تھوڑی ہی گئے ہیں۔شاہان قطر کے محلات میں بھی قیام فرماتے رہے ہیں اور مبینہ طور پر پنجاب کے صحت افزا مقامات پر واقع سرکاری رہائش گاہوں میں بھی(ہوسکتا ہے موخر الذکر روایت درست نہ ہو)اصل بات یہ ہے کہ ہماری تبلیغی جماعت میں دو طبقات ہیں ۔عوام اور خواص۔تبلیغی اجتماعات میں بھی خواص کی نشست  گاہ الگ اور ممتاز ہوتی ہے۔تو یہ واقعات جو ہماری تبلیغی کتابوں میں لکھے جاتے ہیں 'یہ عوام کے لیے ہوتے ہیں  خواص ان سے مبرا اور مستثنیٰ ہوتے ہیں۔عوام کو چاہیے کہ حجاج کا گورنر ہاؤس ہو یاجاتی امرا کے محلات یا شاہانِ قطر کے کاخ و قصر ایسے تمام مقامات پر کچھ کھانے پینے سے اجتناب کریں ۔خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ کوئی مشکوک مال شِکم میں اتر جائے اور سب کیے کرائے پر پانی پِھر جائے،دعائیں قبولیت سے محروم ہوجائیں ۔

یہ گنہگار کالم نگار حضرت مولانا کا ایک ادنیٰ  عقیدت مند ہے ۔امید ہے کہ اس کی توجیہہ کے بعد سوشل میڈیا پر اٹھنے والا طوفان تھم جائے گا۔بجائے یہ کہ مولانا نے مالِ حرام سے منع کیوں نہ فرمایا 'اس امر کی تعریف کی جانی چاہیے کہ انہوں نے دُکھی نواز شریف کا دل مزید نہیں دُکھایا۔

علماہمارا دینی سرمایہ ہیں  ۔ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں ۔خطائی بزرگان گرفتن خطاست کے مصداق  ان پر کسی  قسم کی تنقید یا گرفت ناجائز ہے۔وہ جو کچھ بھی کریں یا کہیں 'اُسے دین کی کسوٹی پر پرکھنا ہم  عامیوں کے لیے مناسب ہرگز نہیں !لازم  ہے کہ ہم علماء کے ہر فرمان پر بلا چون و چرا سرَ تسلیم خم کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان کا موازنہ اُن علماء کرام سے کربیٹھیں جو حکمرانوں  کو ان کی غلطیوں  پر ٹوک ٹوک کر ان کا جینا حرام کردیتے  تھے'جو قید و  بند کی صعوبتیں  برداشت کرتے تھے اور جو اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر جان بھی قربان کردیتے تھے۔ایسا موازنہ ہرگز جائز نہیں ۔بس اس زمانے کے جید  اور مقدس علماء کرام جو کچھ فرماتے ہیں ،اس پر آمنا و صدقنا کہتے جائیے۔                   


کوئی ہے جو وسطی پنجاب کو جگائے!

$
0
0

ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس ملک کے شہروں کو محاصروں  میں قید کردیا ہے، عوام  کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ  کے بدترین دور سے گزر  رہا ہے۔ ملک کا  وزیراعظم ،وزیراعظم ہونے کا اقرار ہی نہیں کررہا۔اس کے خیال میں اس کا اپنا وزیرعظم کوئی اور ہے۔اس  کی کابینہ کے ارکان کا قبلہ کہیں اور ہے۔دارالحکومت یرغمال بنا ہوا ہے۔حکومت نظر  ہی نہیں آرہی۔ جڑواں شہروں  کے شہری سسک رہے ہیں ،بلک رہے ہیں ،ان کے اعصاب شل  ہوچکے ہیں ، ان کا کاربار تباہ و برباد ہوگیا ہے۔طلبہ  امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ  پارہے۔ تاجروں کی دکانیں بند ہیں ۔مسافر ریلوےسٹیشنوں ،بسوں کے اڈوں اور ائیر پورٹوں تک جانے سے قاصر ہیں ۔ کوئی والی وارث نہیں۔ وزراء اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں ۔ کم ہی ہیں ان میں سے جو ہر روز  اپنے دفاتر  میں حاضر ہوتے ہوں ، دوسرے لفظوں میں  یوں کہیے  کہ وہ اس عذاب سے بے خبر ہیں جس سے جڑواں شہروں  کے باشندے گزر رہے ہیں ۔

یہ اذیت ناک صورت حال شریف خاندان کو خوب راس آرہی ہے۔شریف خاندان ،مسلم لیگ نون کے نکتہ  نظر سے نہیں سوچتا ۔ پارٹی کا نکتہ نظر تو دور کی بات ہے۔ شریف خاندان ملک اور قوم کے نکتہ نظر سے بھی نہیں سوچتا۔ جتنی بدامنی ہو،شورش ہو،فساد ہو،عوام جس قدر پریشان حال ہوں، شریف خاندان کے چہرے  پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کی جھلک ابھرتی ہے۔ایک
sadistic

(اذیت رساں)تبسم ہونٹوں پر کھیلتا ہے ۔گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں  ۔۔۔۔دیکھا  !ہمیں نکالا تو اس کا بدلہ مل رہا ہے،یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم حکومت میں نہیں رہے۔اب بھگتو ،مزے لو
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا

میری بلاسے بوم رہے یا ہما رہے

 میاں صاحب نے تخت سے اترنے کے بعد  ایک دن کے لیے بھی نہیں تسلیم کیا کہ حکومت اب بھی ان کی پارٹی کے پاس ہےاور وہ پارٹی کے سربراہ ہیں ۔حکومت کسی اور پارٹی کے پاس ہوتی تب بھی ان کا رویہ یہی ہوتا۔ معاندانہ ،حریفانہ رویہ'یہ ہے شریف خاندان کا وہ رویہ جس کی بنا پر عوام یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ کہیں اس  بدامنی کی پشت پر انہی لوگوں کا ہاتھ تو نہیں ؟دھرنے والے لاہور سے روانہ ہوکر  'بغیر کسی رکاوٹ کے'دارالحکومت میں اترتے ہیں اور دونوں شہروں کی شہہ رگ پر بیٹھ  جاتے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کرتی؟آخر کیوں؟عوام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دھرنا دینے والے  چاند تو نہیں مانگ رہے ۔ان کا کون سا مطالبہ ہے جس کا پورا کرنا  حکومت کے لیے ناممکن ہے؟راجہ ظفر  الحق  کمیٹی کی  رپورٹ  کیوں نہیں منظر عام پر لائی جارہی؟وزیر قانون کو ہٹانے سے کیا حکومت کا تختہ الٹ جائے گا؟اگر وزیر قانون اس مسئلے کے ذمہ دار نہیں تو اور  کون ہے؟جو کوئی بھی ہے 'اسے سامنے لایاجائے۔آخر یہ کھیل کیوں کھیلا گیا؟ حلف نامے کے بجائے محض اقرار نامہ کس کے دماغ میں ابھرا تھا؟اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دھرنا تو فیض آباد کے مقام پر دیا جارہا ہے'انتظامیہ نے باقی  راستوں  کو کیوں مسدود کررکھا ہے؟سارے راستے کیوں  بند ہیں ؟ہر طرف رُکی ہوئی،پھنسی  ہوئی ٹریفک کے اژدہام  میں پولیس کیوں نظر نہیں آرہی؟ یہی وہ  سوالات ہیں جن پر غور کیا جائے تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حکومت خود اس ٹہنی کو کاٹ رہی ہے جس پر  بیٹھی ہے۔

 ایک طرف دھرنے کی وجہ سے پورا ملک ذہنی تناؤ میں ہے'دوسری طرف میاں صاحب نے ایبٹ آباد کے جلسہ عام میں قوم کے ساتھ ایک اور مذاق کیا ہے ۔تازہ مذاق 'زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے پوپ کہے کہ ویٹی کن مسلمانوں کا مسکن ہے ۔جیسے مورخ یہ  کہہ دے کہ ماؤزے تنگ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حامی تھا ۔جیسے کوئی در فنطنی چھوڑے کہ قائداعظم 'تقسیم کے وقت کانگریس کے صدر تھے۔

جہاں تک اس کالم نگار  کو یاد پڑتا ہے 'تین عشروں  میں میاں صاحب نے پہلی بار نظریے کی بات کی ہے۔انہوں نے راز کی یہ بات کبھی کسی کو نہیں بتائی کہ ان کا نظریہ کیا ہے؟اس کے خدو خال کیا ہیں ؟کیا ملکی ترقی کے ضمن میں ان کا نظریہ کوئی نیا زاویہ پیش کرتا ہے؟میاں محمد نواز شریف نے آج تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس میں گہرائی ہو،ترقی کے بارے میں وہ ہمیشہ یہی گھسا پٹا فقرہ دہراتے ہیں کہ"سڑکیں بن رہی ہیں'مک میں روشنیاں پھیل رہی ہیں "۔انہوں نے آج تک ملک کے تعلیمی نظام  کے بارے میں  بات نہیں کی ۔زرعی اصلاحات کا کوئی تصور  ان کے ذہن میں نہیں ۔کیا کسی وقت انہوں نےسوچا ہے کہ  بلوچستان کا  سرداری نظام کتنا فرسودہ  اور اذکار رفتہ ہے؟کیا کبھی کسی وقت انہوں نے بھولے سےبھی ذکر کیا کہ جنوبی پنجاب  میں کس قدر غربت ہے'بھوک ننگ  ہے'جاگیردارانہ نظام نے تمام لوگوں کو جکڑ رکھا ہے 'مدارس چھائے ہوئے ہیں 'تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے'کیا انہوں نے کبھی اس  کا کوئی حل سوچا ہے؟اگر سوچا ہے تو قوم کے سامنے پیش کیا ہے؟

جو شخص بطور وزیراعظم کوئی سنجیدہ اور طویل اجلاس نہیں  برداشت کرسکتا  'جو ای سی سی کی ایک میٹنگ کی صدارت کرنے کی قابلیت نہیں  رکھتا'جو خارجہ امور پر دس منٹ بات کرنے کی  اہلیت سے  عاری ہے؛جو ایک ایک لفظ کے لیے اپنے مشیروں  اور حواریوں  کا محتاج ہے 'جس نے کبھی کسی فائل پر  کچھ نہیں لکھا 'اس لیے کہ  اسے معلوم ہی نہیں کیا لکھنا ہے'وہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا نام نظریے کے مترادف ہے۔ کیا اس  سے زیادہ بھیانک مذاق ہوسکتا ہے؟

 اس ملک نے بہت سے حادثے دیکھے ہیں۔اس ملک کے عوام نے بہت انہونیوں کا سامنا کیا ہے مگر تاریخ جن بڑے حادثوں پر حیرت کا اظہار کرے گی وہ تین ہیں ۔قائداعظم کے ملک پر آصف زرداری نے صدارت کی۔ میاں نواز  شریف تین بار وزارت عظمٰی کی گدی پر  بیٹھے اور سلمان فاروقی محتسب اعلیٰ رہے۔ فارسی کے شاعر  نے اسی لیے کہا تھا کہ

بسی نا دیدنی را دیدہ ام من

 مرا ای  کاشکی مادر نہ زادی!

جن انہونیوں کو دیکھنا پڑا، اس سے تو بہتر تھا کہ شاعر دنیا ہی میں وارد نہ ہوا ہوتا۔

 مستقبل کی وزیر اعظم ،دختر نیک اختر نے آج تک  سوائے اپنے والد کی بے گناہی کے اور  شریف خاندان  کے اقتدار کے جواز کے کوئی بات نہیں کی۔

 شریف خاندان کا زوال ،برامکہ کے اس  زوال سے زیادہ اہم ہے جس نے عباسیوں  کو سکون کا سانس مہیا کیا تھا۔ برامکہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔خلیفہ کو وہ خاطر میں نہ لاتے تھے۔ باپ اور بھائیوں  نے محلات ایسے تعمیر کرائے تھے آسمان دنگ تھا اور زمین انگشت بدنداں !ان کی شہرت چار دانگ ِ عالم میں پھیل گئی ۔یہاں تک  کہ دوسرے ملکوں کے سفیر ان سے ملاقات کے لیے منتظر رہتے۔ پھر ایک رات ایک گمنام شخص گلی میں گاتا گزرا

؎تدبر  بالنجرم و لست تدری

 ورب النجم یفعل ما یشاء 

ہر کام "مبارک ساعت"دیکھ کر کرنے والے برامکہ کو اس گمنام شخص نے دھمکی دی یا پیش گوئی کی کہ ۔۔۔۔"ستاروں  سے تدبیر کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمھیں کچھ نہیں  معلوم !ستاروں کا پروردگار جو چاہے کرتا ہے"۔

پھر برامکہ سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ گیا تھا۔سابق وزیراعظم علالت کے دوران لندن تھے تو دختر نیک اختر تکبر کی آخری سیڑھی پر چڑھ گئیں ۔وہ غیر ملکی سفیروں  کو بادشاہ  کی طرح ملتی تھیں ۔ وہ سرخ قالین پر چلتی  تھیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر،قالین سے ہٹ کر پاؤں رکھتے تھے۔قومی وسائل ان کی مٹھی میں تھے۔ ملک ان کے قدموں میں  پڑا تھا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا فرزند بے تاج حکمران تھا۔ وہ تمام امور  میں دخیل تھا ۔بیوروکریسی دست بستہ کھڑی تھی ۔صوبائی وزراء کی حیثیت صفر تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ خاندان رُو بہ زوال ہوگا؟ان سے پوچھ گچھ ہوگی؟ عدالتوں  میں حاضر ہوں گے؟انگلی نچا کر مضحکہ خیز تقریریں  کرنے والے وزیراعلٰی کی 56 کمپنیاں  کرپشن کی علامت بن کر رہ گئی ہیں !ابھی تو اقربا پروری اور دوست نوازی کے ایسے ایسے مناظر سامنے آئیں گے کہ خلقِ خدا حیران رہ جائے گی۔ لاہور ڈاکوؤں کے نرغے میں ہے اور شور  پنجاب  سپیڈ کا مچایا جارہا ہے۔ 2018 ء کے  انتخابات میں وسطی پنجاب نے اگر اسی بے حسی کا ثبوت دیا  جس کا گزشتہ انتخابات میں دیا تھا تو اس ملک  پر ایک اور لمبی کالی رات چھا جائے گی۔ کوئی ہے  جو وسطی پنجاب کو جھنجھوڑے 'جگائےاور سیاسی شعور دے؟           


چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا

$
0
0

چوہدری صاحب کے بچوں نے پڑھنا لکھنا تو تھا نہیں ،ضرورت بھی نہیں تھی۔کھیت،زمینیں ،لمبی چوڑی جاگیر،جس کی پیمائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔گاڑیوں کے بیڑے،اسمبلی کی جدی پشتی ممبریاں ،وزارتیں سب کچھ تو میسر تھاایسے میں کالج، یونیورسٹی کی پڑھائیاں اور پابندیاں کون برداشت کرتا ۔

مگر یہ جو ان کے ہاری ،مولو کا بچہ پڑھائی میں ذرا تیز نکل آیا تو یہ ذرا ٹیڑھا معاملہ تھا۔بدبخت قصبے کے کالج تک پہنچ چکا تھا۔اگر وہاں سے بھی فارغ التحصیل ہو کر  مزید ترقی کرگیا تو چوہدری کے نیم خواندہ بیٹوں کی کیا عزت رہے گی۔

چوہدری صاحب کے زرخیز دماغ نے اس کا حل نکال لیا۔ پیار سے انہوں نے مولو کے بچے کو باور کرایا کہ وہ اس کے ہمدرد، مربی اور سرپرست ہیں اس کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ اس کا باپ ہاری سہی مگر ہے تو کسان!کسانوں کی ذات اونچی ہوتی ہے۔اس  لیے کالج میں رعب داب اور ٹھسے سے رہا کرے۔دوسرے طلبا کی اکثریت اس کے مقابلے میں نیچ ذاتوں سے ہے۔مولو کے بچے کی گردن اکڑ گئی۔اس نے کالج میں کھڑ پینچی شروع کردی۔ آہستہ آہستہ کچھ اور  لڑاکے قسم کے طلبہ اس کے دائرہ اثر میں  شامل ہو گئے۔ مار کٹائی کے نتیجے میں  پہلی بار مولو کے بچے کو  کالج سے نکالا گیا تو چوہدری صاحب کو فاتحانہ اطمینان ہوا۔مسکراہٹ ان کی گھنی مونچھوں میں چھپائے چھپتی نہیں تھی۔فوراً کالج پہنچے اور "بچے"کو معافی دلوا دی ۔اس کے بعد وہی ہوا جو تعلیمی اداروں میں  مسلکی،مذہبی،نسلی اور لسانی تنظیموں سے منسلک طلبہ  کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔اساتذہ تک مولو کے بیٹے سے خائف رہنے لگے۔مگر فارغ التحصیل ہوا نہ یونیورسٹی تک پہنچ پایا۔چوہدری صاحب کی اولاد کا مستقبل محفوظ کا محفوظ رہا۔

یہ کوئی خیالی تصویر نہیں ہے جو پیش کی گئی ہے۔یہی کچھ تو چند روز پہلے قائداعظم یونیورسٹی میں ہوا! بلوچی اور  سندھی طلبہ کے دو گروہ ایک دوسرے پر پل پڑے۔

اسلحہ کی ماشااللہ ملک کے کسی گوشے میں کوئی کمی نہیں ہے۔باخبر حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں اسلحہ کی اتنی مقدار موجود ہے کہ  کئی ملکوں کے لشکر مسلح ہوسکتے ہیں ۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دنگا فساد  کرنے والے طلبہ کو نکال دیا ۔اس کے بعد  ہنگامے شروع  ہوگئے۔یونیورسٹی بسیں نہ چلنے دی گئیں ۔کلاسوں کو زبردستی بند کرا دیا گیا۔ سب سے بڑا مطالبہ کس صورت میں سامنے آیا؟یہ کہ جن طلبا کو نکالا گیا ،ان کی سزائیں موقوف کی جائیں ۔یونیورسٹی یرغمال بن گئی۔انتظامیہ اور اساتذہ بے بس ہوگئے۔ایچ ای سی(ہائر ایجوکیشن کمیشن) خاموش تماشائی بنا رہا۔

آپ اعتراض کرسکتے ہیں کہ چوہدری کا اس میں کیا عمل دخل اور لینا دینا؟جگر تھام کر سنیے۔

یونیورسٹی میں اکثر و بیشتر ایسی گاڑیاں نظر آنے لگیں جن پر  ایک خاص صوبے کی نمبر پلیٹیں تھیں ۔پھر سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اس قصے میں پڑے۔جو اطلاعات اس  کالم نگار کے پاس ہیں  ،اس کے مطابق ان طلبہ کو معاف کردیا گیا۔دوسری قومیتوں کے طلبہ اس عرصہ میں اپنی پڑھائی میں مصروف رہےاس لیے کہ وہ کسی لسانی صوبائی ثقافتی مسئلے میں الجھے ہوئے نہیں تھے۔معروف سکالر پروفیسر ہود بھائی نے،اس ضمن میں ،ایک دلچسپ  فقرہ لکھا۔

Punjabi students gleefully egged them to fight harder.

یعنی پنجابی طلبہ نے انہیں  زیادہ سخت لڑائی پر اکسایا۔

غور کیجیے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس وقت، مجموعی طور پر ،پنجابی اور پٹھان طلبہ تعلیمی حوالے سے سب سے آگے ہیں ۔اس کے بعد ،اس کالم نگار کی رائے میں شمالی علاقہ جات کا نمبر آتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ  کوئی بلوچی ،کوئی سندھی ،یا جنوبی پنجاب کا  کوئی طالبعلم ممتاز صفوں میں  نہیں دکھائی دیتا۔مستثنیات ہر جگہ موجود ہیں ۔ ان علاقوں سے بھی طلبہ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔مگر ہم ایک عمومی بات کررہے ہیں ۔ اور تعمیم
generalization
ہمیشہ اکثریت کی  بنیاد پر بنتی ہے۔ جن گروہوں کو علاقائی ثقافت اور لسانی امتیاز کے خار دار دشوار گزار جنگل میں دھکیلا جاتا ہے وہ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں  اکثر و بیشتر  پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ سندھ میں کچھ عرصہ پہلے"سندھی ٹوپی"کا دن منایا گیا۔ ایسے محدود حوالوں سے پنجاب اور کے پی میں  تقریبات کیو ں نہیں منائی جاتیں ؟کراچی کی مثال  لے لیجیے۔اردو بولنے والے طلبہ تعلیمی میدان میں بہت آگے تھے۔پھر الطاف حسین نے لسانی بنیاد  پر کھڑاک شروع کیا تو بساط الٹ گئی۔ممتاز حسین اور ڈاکٹر  عطا ء الرحمٰن جیسے نابغوں کے بجائے سیکٹر کمانڈ ،فلاں لنگڑا اور فلاں ٹُنڈا پیدا ہونے لگے۔

اس سے پہلے یہ کالم نگار اپنے قارئین کو یہ افسوس ناک واقعہ بتا چکاہے کہ ایک بلوچ سردار نے لاہور میں پریس کانفرنس کی،کسی نے پوچھا کہ اس  زمانے  میں بھی بلوچ سردار ،چوری کے مقدمات کا فیصلہ ،ملزموں  کو جلتے انگاروں پر چلا کر کیوں کرتے ہیں ؟سردار کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ واقعہ یہاں ختم نہیں  ہوتا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ،اس کالم نگار  کو،دارالحکومت کی ایک بڑی یونیورسٹی میں کچھ طلبہ سے گفتگو کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔یہ طلبہ کون تھے؟یہ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں  سے آئے ہوئے لیکچرر تھے۔یعنی  اعلیٰ تعلیم  یافتہ۔لیکچر کے دوران  اس کالم نگار نے جب بلوچی سردار  کی پریس کانفرنس  کا ذکر کیا تو حاضرین میں اضطراب  کی لہر دوڑ گئی۔کچھ نے برملا اعتراض  کیا کہ ہمارے سردار  کے بارے میں کوئی بات کی جائے۔

اب آپ جان گئے  ہوں گے کہ چوہدری  اور مولو کے بیٹے کی مثال کس  عمدہ اور مکمل طریقے سے منطبق  ہورہی  ہے۔صورتِ حال اس مثال کے سانچے میں ٹھیک ٹھیک ،ترتیب سے فٹ ہورہی ہے۔

بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں

کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں !

بلوچستان کے سرداری  نظام کی بقا اس میں ہے کہ  قبائل کے عام لوگ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں ترقی نہ کرسکیں ۔سکولوں اور کالجوں کی عمارات سرداروں  کے غلے کے لیے  گودام کاکام کرتی رہیں ۔ قبیلے کے افراد  اپنے خاندانی معاملات تک سردار کی مرضی سے نمٹاتے رہیں ۔سردار نئی بندوق چیک کرنے کے لیے گلی  میں سے گزرنے والے کسی بھی رہگیر کے سر  کا نشانہ لیتا رہے۔اسمبلیوں  اور سینٹ  میں ہمیشہ سردار ہی آئیں  ۔گورنری اور وزارت اعظمٰی انہی کی جاگیر  بنی رہے۔کچھ طلبہ اگر کسی یونیورسٹی تک پہنچ بھی جائیں تو "بلوچی"بن کر رہیں ۔نسلی اور لسانی  تفاخر میں پھنسے رہیں ۔مار دھاڑ کریں ۔  اگر انہیں سزا ملے تو سینٹ اور اسمبلی  میں بیٹھے ہوئے سردار  جاکر معاملہ"رفع دفع"کرادیں ۔جرمانے معاف ہوجائیں ۔سزائیں  موقوف ہوجائیں۔ یوں لڑنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی  ہو۔پھر مستقبل کے لیے ان کے حوصلےاور بلند  ہوں ۔یوں وہ ایسے بلوچ  تو بن جائیں جن سے یونیورسٹیاں خوف زدہ رہیں مگر پی ایچ ڈی ،سائنسدان، انجینئراور ماہر اقتصادیات نہ بن سکیں ۔سرداری نظام کو چیلنج کرنے کے قابل کبھی  نہ ہوں ۔

ایک قریبی عزیز  نے دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں سات سال پڑھایا ۔ان کامشاہدہ یہ تھا کہ کے پی کے دور افتادہ ،پس ماندہ گوشوں سے آئے ہوئے پٹھان طلبہ،اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت  کچھ عرصہ ہی میں ،تعلیمی حوالے سے بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔یہ وہ تھے جو کسی نسلی مسلکی یا مذہبی گروہ سے وابستگی اختیار نہیں کرتےاور صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ مرکوز  کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کرتے تھے۔

پس ماندگی اور ناکامی  ان طلبہ کے لیے بھی اپنی بانہیں کھولے کھڑی رہتی ہے جو مسلکی بینادوں پر، تعلیمی اداروں میں گروہ بندی کرتے ہیں یا گروہ بندی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس حقیقت کا ادراک  جن والدین کو ہوگیا ہےوہ اپنے بچوں  کو پنجاب یونیورسٹی یا دارالحکومت کی"بین الاقوامی"اسلامی یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیتے۔کئی والدین نے بتایا کہ ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کی اجارہ داری کی وجہ سے انہوں نے  اپنے ہونہار  بیٹوں بیٹیوں  کو ان درس گاہوں  میں نہیں جانے دیا۔سروے کرکے دیکھ لیجیے ،جو طلبہ دوران تعلیم مذہبی مسلکی،نسلی،لسانی اور سیاسی  تنظیموں سے وابستہ رہتے ہیں ،وہ ان درس گاہوں  سے کچھ بن کر کبھی نہ نکل سکے۔سیاسی جماعتوں  میں گئے بھی تو ان کی شہرت پراپرٹی ڈیلروں  ہی کی رہی!ایک کتا بچہ تک تصنیف نہ کرسکے۔دس منٹ کی اثر انگیز تقریر کسی علمی موضوع پر  کرنے سے قاصر ہیں۔ مستقبل انہی  طلبہ کا تابناک ہے جو دوران تعلیم ،بلوچی ہیں نہ پنجابی،پختون ہیں نہ سندھی،دیوبندی ہیں نہ بریلوی،سبز ہیں نہ سرخ،مذہبی ہیں نہ غیر مذہبی،صرف اور صرف طالب علم ہیں ۔




ہم بے کسوں کی ہڈیاں ،لیکن یہ جان لو

$
0
0

کہنے کو یہ ایک تصویر ہے مگر محض تصویر نہیں'جام جمشید ہے جس میں بہت کچھ نظر آرہا ہے۔پیش گوئی ہے جس میں  مستقبل جھلک رہا ہے۔آنے والے ماہ و سال کا آئینہ ہے جس میں ہمارا معاشرتی "ارتقاء"صاف نظر آرہا ہے۔

اس تصویر میں  ایک پولیس کاجوان دکھائی دے رہا ہے۔وہ بیٹھا ہوا ہے مگر یوں کہ سر اس کا زمین کے ساتھ لگنے والا ہے۔ اس کو بیک وقت سات آٹھ  اشخاص ڈنڈو ں سے پیٹ رہے ہیں ۔یہ سات آٹھ اشخاص لباس وضع قطع اور مجموعی تاثر سے ان پڑھ یا زیادہ سے زیادہ نیم خواندہ لگتے ہیں ۔

ان کی اس پولیس  والے سےکیا دشمنی ہے؟ کوئی دشمنی نہیں ! وہ تو اس کا نام  بھی نہیں جانتے وہ زندگی میں اسے پہلے کبھی ملے بھی نہیں! اس نے ان کا کوئی نقصان نہیں کیا۔

تو پھر یہ سات آٹھ اشخاص اسے اس  قدر بے رحمی سے کیوں  پیٹ رہے ہیں ؟کیا یہ لوگ پاگل ہیں  ؟کیا یہ غنڈے ہیں ؟

نہیں !یہ پاگل ہیں نہ غنڈے ہیں  !یہ عوام ہیں پولیس والا ان کے لیے علامت ہے ۔ریاست کی! حکومت کی! حکومتی پالیسیوں  کی! سرکاری طاقت کی! یہ لوگ جو پولیس کے سپاہی کو مار رہے ہیں  اس تکبر کا بدلہ لے رہے ہیں  جو حکومت عوام کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ان عوام کے ہاتھ وزیراعظم یا کوئی اور وزیر نہیں لگا ورنہ ان کا اصل ہدف  وزیراعظم اور ان کے وزراء ہیں ! مارنے والے یہ لوگ لوئر  کلاس سے تعلق رکھتے ہیں  ۔یہ کوٹھیوں  میں نہیں رہے۔یہ گلیوں محلوں میں رہتے ہیں ۔ان کے پاس  وزیر اور عوامی نمائندے اس وقت آتے ہیں جب ووٹ لینا ہوتا ہے۔ان کے بچے بدترین سکولوں میں جاتے ہیں ۔یہ جن ہسپتالوں میں جاتے ہیں ان ہسپتالوں کی نسبت قتل گاہیں  زیادہ آرام دہ ہیں ۔ان ہسپتالوں میں دوائی  ہو تو ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ڈاکٹر ہو تو کاٹن اور قینچی نہیں ملتے ۔قینچی اور کاٹن ملے تو بجلی نہیں ہوتی!

پولیس کے جوان کو بے رحمی سے مارنے والے یہ بے بس عوام وہی ہیں جنہیں حکمرانوں کے گزرتے وقت غلاموں کی طرح راستے میں  کھڑا کردیا جاتا ہے۔ جن کی موٹر سائیکلوں اور آٹھ سی سی گاڑیوں پر یہ پولیس والے ڈنڈے مار کر انہیں وارننگ دیتے ہیں 'جنہیں  بھیڑ بکریوں کی طرح سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے۔

خادم حسین رضوی نہ ہوتے 'کوئی اور شخص رہنمائی کرتا،'تب بھی ان عوام نے دھرنا دینا تھا 'تب بھی انہوں نے پولیس والو ں کو مارنا تھا۔ تکبر 'رعونت 'فرعونیت 'تحقیر اور پھر اس  کے بعد جیسے یہ سب کچھ کافی نہ ہو'عوام کے مذہبی جذبات کی توہین کرنا اور پھر تکبر سے یہ کہنا کہ  کچھ بھی نہیں ہوا ''حد درجہ بے حسی ہی نہیں'کھوتا پن بھی ہے!

میاں جاوید لطیف کو عوام نے کیوں مارا ؟چودھری نثار علی خان کے گھر پر حملہ کیوں ہوا'اس  لیے کہ عوام حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں ۔یہ وہ حکمران ہیں 'وہ وزیر ہیں 'وہ سابق وزیر ہیں 'وہ عوامی نمائندے ہیں جن کی کوئی شئے  عوام کے ساتھ مشترک نہیں !ان کے  کنبے امریکہ اور برطانیہ میں رہتے ہیں ۔ان کے شاپنگ سنٹر الگ ہیں ۔ان کے بچوں کی درسگاہیں  مختلف ہیں ۔یہ اپنا اور اپنے خاندانوں کا علاج بیرون ملک کراتے ہیں ۔یہ لاہور سے راولپنڈی تک بھی ٹرین یا بس میں عوام کے ساتھ سفر نہیں کرتے۔یہ کبھی عوام کے ساتھ بازاروں میں سودا سلف نہیں خریدتے۔ان کے محلات پر پہریدار کھڑے ہوتے ہیں اور بھنبھوڑ دینے والے کتے!کیا کوئی عام شہری وزیر داخلہ سے یا سیکرٹری داخلہ سے'یا پولیس کے کسی بڑے افسر سے مل سکتا ہے؟کبھی نہیں ! صحافیوں کو معلوم ہے کہ  اس کلاس سے رابطہ کرنا کس قدر مشکل اور جانکاہ کام ہے!یہ وزیر تو  اپنے ان دفتروں میں نہیں حاضر ہوتے جہاں ہر روز جاکر عوام کے کام کرنا ان کا فرض ہےاور جس  کے بدلے میں یہ بھاری تنخواہیں اور گراں  بہا مراعات وصول کرتے ہیں ۔اس کالم نگار  کا ذاتی تجربہ ہے ۔ایک بار ایک عزیز کے کام کے لیے وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے چکر لگانے پڑے۔ پہلے تو لسانی بنیاد پر سفارش ڈھونڈنا پڑی۔ایک صحافی بھائی نے وزیر کے پاس جاکر سفارش کی! یہ کالم نگار  پانچ دن جاتا رہا۔وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن تشریف لاتے تھے۔ اس ہفتے ایک بار بھی نہ آئے۔ پوری کوشش اور بھرپور روابط کے باوجود کاغذات وزیر تک نہ پہنچ سکے ۔تھک ہار کر کوشش چھوڑ دی اور عزیز کو بتا دیا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ذرا اس عام شخص کا تصور کیجیے جس کے پاس سفارش کرنے والا صحافی نہ ہو'روابط بھی نہ ہوں 'اس کااس مملکت خداداد میں  کیا حشر ہوتا ہوگا؟

ان عوام کو حکمرانوں  نے ان پڑھ رکھا۔نیم خواندہ رکھا۔سرکاری سکولوں  میں دیواریں ہیں نہ دروازے۔ پینے کاپانی ہے نہ چھتیں  'اساتذہ ہیں نہ بیٹھنے کو ٹاٹ۔کیا خادم پنجاب نے یا قائداعظم ثانی نے کسی ایک سرکاری سکول  کا بھی  اس سارے عرصہ میں دورہ کیا ہے؟کیا اپنی کامیابیوں  کی فہرستوں میں  شریف برادران گنوا سکتے ہیں کہ کتنی سرکاری درس گاہوں کی عمارتیں  اس عرصہ میں مرمت ہوئی یا نہیں  'کتنے اساتذہ مہیا کئے گئے؟کتنے سکولوں میں فرنیچر دیا گیا'ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں سے کتنے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ پائے؟

ان اَن پڑھ نیم خواندہ 'محروم توجہ بے بس'بے کس عوام کا جب بھی بس چلے گا'یہ سرکاری اہلکاروں کو ماریں گے'وزیروں کے محلات پر حملے کریں گے'منتخب نمائندوں کو زخمی کریں گے یہ سب کچھ جان گئے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا نے خبروں کے آگے تعمیر کئے گئے بند توڑ  کر رکھ دئیے ہیں ۔ان اَن پڑھ عوام کواب معلوم  ہے کہ کس کے بھائی  کے دبئی میں  تین سو فلیٹ ہیں  ۔کون گورنر 'کرسی سے ہٹتے ہی متحدہ عرب امارات منتقل ہوگیا یہاں تک کہ اس نے بیٹی کی شادی بھی وہیں کی !ان عوام کو یہ تک معلوم ہے کہ کس ہوٹل میں شادی کی تقریب پر کتنے کروڑ اور کتنےارب خرچ کئے گئے ۔اور خرچ کرنے والے کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟انہیں یہ تک معلوم  ہے کہ مڈل کلاس کا دعویٰ کرنے والے کس لیڈر  کے اہل خانہ لاس  اینجلز کے مہنگے حصے میں رہ رہے ہیں !

دھرنے کی خبر سن کر 'جاتی امرا کی سکیورٹی سخت کردی گئی۔ماڈل ٹاؤن کی گلیوں کی گلیاں  'سڑکوں کی سڑکیں بند ہیں ۔مگر جب عوام کا سیلاب اٹھے تو کوئی سکیورٹی  'کوئی ایلیٹ فورس کام نہیں آتی۔کیا رومانیہ کے چی سسکو،مصر کے حسنی مبارک اور ایران کے بادشاہ کے اردگرد سکیورٹی کم تھی؟ڈوبتے  ہوئے عوام کو تنکے کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ وہ کسی خادم حسین  رضوی'کسی آصف اشرف جلالی کا سہارا لے کر  اٹھتے ہیں اور جب زور  پکڑتے ہیں تو انہیں تشدد سے خود رضوی اور   جلالی  روکنے میں ناکام  ہوجاتے ہیں ۔سیلاب آئے تو یہ نہیں ہوتا کہ فلاں کھیت 'فلاں بستی'فلاں شہر  کو چھوڑ کر 'دوسرے  راستے سے کسی اور طرف نکل جائے ۔پھر سب کچھ بہا لے جاتا ہے!راستے میں جو آئے غرقاب ہوجاتا!کیا کوئی سوچ سکتا تھا ک یہ تکبر مآب وزراء بابے سیالوی کے دروازے پر کھڑے ہوں گے؟جہاں پندرہ پارلیمنٹیرین اپنے استعفے جمع کرا چکے ہوں گے!

تاریخ کروٹ  لیتی ہے تو جاتی امرا سے بلاول ہاؤس تک سب لرزنے لگتا ہے!پھر حساب برسوں یا مہینوں میں نہیں 'دنوں میں  ہوتا ہے'پھر عشروں کی مںصوبہ بندی پر پانی پھر جاتا ہے پھر اپنی باری کا انتظار  کرتی شہزادیاں پوری پوری زندگی  تخت پر بیٹھنے کی حسرت میں گزار دیتی ہیں ۔مجید امجد نے اسی لیے تو متنبہ کیا تھا ۔

سیل ِزماں  کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی

تخت و کلاہ و  وقصر کے سب سلسلے گئے

وہ دست و پاء میں گڑتی سلاخوں کے روبرو

صدہا تبسموں  سے لدے طاقچے گئے

آنکھوں  کو چھیدتے ہوئے نیزوں کے سامنے

محراب زر سے اٹھتے ہوئے قہقہے گئے

ہر سانس لیتی'کھال کھنچی لاش کے لیے

شہنائیوں  سے جھڑتے ہوئے'زمزے گئے

دامن تھے جن کے خون کے چھینٹوں سے گلستاں

وہ اطلس و  حریر کے پیکر گئے'گئے

ہر کنجِ باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈیھر تھی

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی

یہ ہاتھ'جھریوں بھرے'مرجھائے ہاتھ 'جو

سینوں میں اٹکے تیروں سے رِستے لہو کے جام

بھر بھر کے دے رہے ہیں تمھارے غرور کو

یہ ہاتھ'گلبنِ ہستی کی ٹہنیاں

اے کاش انہیں بہار کا جھونکا نصیب ہو

ممکن نہیں کہ ان کی گرفتِ تپاں سے تم

تادیر اپنی ساعدِ نازک بچا سکو

تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں

ہم بے کسوں کی ہڈیاں  ،لیکن یہ جان لو

اے وارثانِ طرہ  طرفِ کلاہِ کے

سیل ِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے!


Viewing all 1914 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>