Quantcast
Channel: Izhar ul Haq: Columns
Viewing all 1924 articles
Browse latest View live

دو دنیائیں جو کہیں نہیں ملتیں!

$
0
0

تیرہ سال سے انگلستان میں رہ رہا ہوں جہاں بارہ برس سے ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کررہا ہوں  ۔اپنے کنبے کے ساتھ ہر سال پاکستان جاتا ہوں پاکستان میں ہر بار ریاستی اداروں میں پہلے سے زیادہ تنزل صرف دکھائی دیتا ہے ۔ لوئر  اور اپر کلاسوں کے درمیان خلیج پہلے سے زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے اگر  عام پاکستانی کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو حالات ایک خطرناک موڑ بھی مُڑ سکتے ہیں  ۔عدالتی نظام  میں اور پبلک سروس سسٹم  کی جڑوں میں کرپشن کس طرح  رچ بس گئی ہے اس کا اندازہ پہلے نہیں تھا۔ وہ یوں  کہ ایک بھائی فوج میں تھا اور سارے کام وہی نمٹا دیتا تھا۔ اس بار'ایک تو اس کی ریٹائرمنٹ کے باعث دوسرے آبائی جائیداد کے انتقال کے لیے'مجھے اپنے تحصیل ہیڈ کوارٹر خود جانا پڑا 'جو صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔ یہ ایک ہولناک تجربہ تھا۔ کمشنر کی سفارش کے باوجود'ہم تحصیل داروں اور پٹواریوں سے کام نہ کرا سکے۔ رشوت(خدمت)کھلم کھلا مانگی گئی اور ذرا سی شرم و حیا  بھی مانع نہ آسکی ۔ہر مرحلے پر اور ہر قدم پر رشوت مانگی گئی۔یہ تقاضے سب کے سامنے کیے جارہے تھے۔ میں نے رشوت دینے سے انکار کردیا 'چنانچہ انتقال نہ ہوسکا۔ کمشنر صاحب کو 'جو ہمارے خاندانی  دوست تھے ۔ بتایا کہ آپ کے ریفرنس کے ساتھ یہ حال تھا تو  دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا نہیں ہوتا ہوگا!یہ رونا اس لیے رو رہا ہوں کہ مسلم لیگ نون نہ جانے کتنی دہائیوں سے حکمران ہے مگر ان اداروں میں کوئی مثبت تبدیلی نہ لاسکی۔ یہی صورتحال تھانوں میں ہے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔عام شہری تھانے جاتے وقت سو بار سوچتا ہے!
یہ احوال ایک پاکستانی نے بیرون ملک سے بھیجا ہے۔ ہم لوگ'جو اس جوہڑ کے اندر رہ رہے ہیں  'اس بدبو کے اس قدر عادی ہیں کہ یہ بد بو ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔باہر سے آنے والے کو یہ بدبو اس لیے ناقابل برداشت لگتی ہے کہ  ترقی یافتہ ملکوں میں اس ادارہ جاتی کرپشن کا وجود ہی نہیں !

ہمارے سیاستدان بالعموم'اور حکمران بالخصوص اس کرپٹ نظام  کو تبدیل نہیں کرنا  چاہتے۔ ان کی نظر میں عوام  بھیڑ بکریاں  ہیں ۔ یہی سلوک  انگریز حکومت کرتی تھی۔ ریلوے بنی تو عام ہندوستانیوں کے لیے تھرڈ کلاس ڈبے مخصوص کئے گئےجن میں عوام بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے تھے۔ بالکل اسی طرح 'تحصیل میں  پٹوارخانے میں 'تھانے میں 'بجلی اور گیس کے دفتر میں سی ڈی اے یا ایل ڈی اےمیں عوام کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ لوگ دن دن بھر کھڑے رہتے ہیں ۔دوسرے دن پھر جاتے ہیں ۔ہفتوں چکر لگاتے ہیں مگر ان کی شکایت سننے والا کوئی نہیں !رشوت دیے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔گیس کا کنکشن لینے میں سالہاسال  لگتے ہیں ۔درخواست دہندہ کے پاس ایک فائل ہوتی ہے جو سفارشی خطوط سے ہر ہفتے  ہر مہینے ضخیم سے ضخیم ہوتی جاتی ہے۔وہی درخواست  دہندہ گیس کے کارندے کو رشوت دیتا ہے 'وہ اسی رات آکر غیر قانونی 'چوری کا کنکشن دے جاتا ہے۔ ملک میں ہزار وں کنکشن اسی قبیل کے کام کررہے ہیں ۔یہ کالم نگار 2011 میں گھر بنوا رہا تھا ۔ٹرانسفارمر لگوانے کے لیے پچاس ہزارروپے کے نذرانے کا  تقاضا ہوا (ٹرانسفارمراور کنکشن کے اڑھائی لاکھ اس کے علاوہ تھے) واپڈا آڈٹ کو درمیان میں ڈالنے سے یہ "نذرانہ"معاف ہوا۔اس پاکستانی کی  حالت زار کا اندازہ لگائیے جس کی رسائی کہیں نہیں اور شنوائی کہیں  نہیں !!

یہ ہے وہ کھائی جس کے اندر ایک  عام پاکستانی ہر روز'ہر قدم پر'ہر سانس پر'گرتا ہے اس گرے ہوئے پاکستانی کو دیکھتا تک  کوئی نہیں  !شرم آنی چاہیے حکمرانوں کو جوان تلخ حقیقتوں سے'جان بوجھ کر 'آنکھ چراتے ہوئے ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں !سندھ بلوچستان اور کے پی کے نے تو سندھ سپیڈ کا بلوچستان سپیڈ کا اور کے پی کے سپیڈ کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔ پنجاب سپیڈ کا بڑا نام ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں کے لیے چیلنج ہے کہ صوبے کی کسی کچہری میں کسی عام آدمی  کے ذریعے انتقال کا کوئی کیس بغیر رشوت کے کرا کے دکھا دیں !کبھی نہیں دکھا سکتے۔ کم از کم یہ بڑ ہانکنا تو بند کردیں کہ ترقی ہوئی ہے!جہاں سابق وزیراعظم اپنے قلم سے ایسے شخص کو قومی ائیر لائن کا سی ای او لگاتا ہے جس کا ایک دن کا بھی متعلقہ تجربہ نہیں  'وہاں تحصیل دار'پٹواری تھانیدار اور دوسرے سرکاری اہلکار کیوں  نہ دھاندلی  کریں  اور کیوں نہ ظلم روا رکھیں ۔

دہشت گردی سے نمٹنے اور کراچی کے حالات بہتر کرنے کا کریڈٹ نواز شریف کو دینا  ایسے ہی ہے جیسے صبح کی روشنی کا کریڈٹ رات کو دے دیا جائے۔ میاں صاحب نے تو مذاکراتی ٹیم میں بھی انہیں رکھا تھا جو (سوائے میجر عامر کے)جانے پہچانے طالبان نواز تھے۔ بچہ بھی جانتا ہے کہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کا قتل عام ہوا تو ہماری سکیورٹی فورسز کا  سارا زاویہ نظر ہی تبدیل ہوگیا۔ کراچی کے حالات میں جتنی"دلچسپی"وفاق کو تھی'اس کا علم سب کو ہے۔ ہاں ! میاں صاحب کے عہدِ  ہمایونی میں یہ ضرور ہوا کہ پاکستان خارجہ امور کے حوالے سے مکمل تنہائی کا شکار ہوگیا۔ شرق اوسط کے تقریباً ہر ملک میں  بھارتی  وزیراعظم کو نمایاں  اہمیت دی جانے لگی۔ امریکہ میں مودی کی سرگرمیوں اور  اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم کی سرگرمیوں کا موازنہ کرنے سے اندھا بھی صورتحال کا ادراک کرسکتا ہے۔

معاملے کی جڑ کیا ہے؟ معاملے کی جڑ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں دودنیائیں نہیں ایک ہی دنیا ہے جس میں حکمران 'سیاست دان اور عوام سب مل کر رہتے ہیں ! ناروے سے لے کر برطانیہ اور کینیڈا تک جاپان سے لے کر  جرمنی  فرانس اور نیدر لینڈ تک'آسٹریلیا سے لے کر سوئٹزرلینڈ تک صدر'وزیراعظم'وزراء پارلیمنٹ کے ارکان'بازاروں میں  عوام کے شانہ بشانہ سودا سلف  خریدتے ہیں ۔ ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں ۔ریستورانوں میں  قطار میں کھڑے ہوکر کھانا خریدتے ہیں ۔ پالتو جانوروں کو حیوانات کے ڈاکٹروں کے پاس خود لے کرجاتے ہیں ان کے بچے 'جن درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں  عوام کے بچے بھی وہیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ! برطانوی وزیراعظم  بیوی کے لیے ایک عام سیکنڈ ہینڈ کار خریدنے کے لیے خود کار فروش کے پاس  جاتاہے  ۔اس کار پر  ٹیکس جمع کرانے  خود ڈاکخانےکی کھڑکی پر کھڑا ہوتا ہے۔آسٹریلیا کا قائد حزب اختلاف گم ٹری
(gumtree)

(انٹر نیٹ پر پرانی اشیاء خریدنے اور بیچنے والی تنظیم) سے پرانا ریفریجریٹرخریدتا ہے۔یہ حکمران عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو چالیس مہنگی گاڑیوں کے جلوس میں نہیں آتے۔وزراء'دوروں  پر جاتے ہیں تو تن تنہا جاتے ہیں ان کا استقبال تک کوئی نہیں کرتا۔خود ہی اجلاس کے کمرے  میں پہنچتے ہیں ۔اجلاس اٹینڈ کرکے ایک عام شہری کی طرح ایک عام ملازم کی طرح واپس آجاتے ہیں۔ڈنمارک کی ملکہ  سبزی خود خریدتی ہے۔پاکستان میں اس کے برعکس دو الگ الگ دنیائیں ہیں ۔ایک حکمرانوں کی!دوسری عوام کی!حکمرانوں میں صرف  مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف ہی نہیں  'سیاستدانوں اور عوامی"نمائندوں "کی اکثریت شامل ہے۔یہ ایک کلاس ہے۔اعلیٰ ترین کلاس'اپر موسٹ کلاس!اس کلاس میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں  شامل ہیں اور دونوں  اس طبقاتی امتیاز کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں !یہ مقتدر لوگ بازاروں میں  نظر آتے ہیں نہ کچہریوں  میں 'سرکاری ہسپتالوں میں نہ بسوں اور ٹرینوں میں ! کچہری میں ان کا  انتقال کا کیس ہو تو تحصیلدار اور پٹواری'ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں ان کے  محلات میں حاضر ہوتے ہیں ۔ہوائی جہاز پروازوں میں ان کے لیے تاخیر کرتے ہٰیں ۔تاجر اور صنعت کار'ان کی شاپنگ کے لیے اور صراف  ان کی خواتین کی  خریداری کے لیے مال و اسباب لے کر ان کے دروازوں پر کھڑے ہوتے ہیں !ان میں سے اکثر کے خاندان مستقلاً رہتے ہی مغربی ملکوں میں ہیں ۔ان کی تقاریب ان کی سوشل لائف 'ان کے رشتوں ناتوں کاسلسلہ سب کچھ الگ ہے۔یہ ایک متوازی دنیا ہے عوام کی دنیا کے ساتھ'ان کی دنیا کسی مقام پر ٹچ نہیں کرتی!آپ ان دو دنیاؤں  کے درمیان حائل گہری خلیج کا اندازہ اس ایک حقیقت سے کیجیے کہ دارالحکومت کے عوام اکیس دن دھرنے میں پستے رہے مگر دارالحکومت کا انچارج وفاقی وزیر'ان اکیس دنوں میں  مکمل طور پر پیش منظر سے غائب رہا'مگر جیسے ہی شاہی خاندان کی عدالت میں پیشی کا وقت آیا 'وزیر صاحب"ڈیوٹی"پر پہنچ گئے۔اگر دھرنے یا ہڑتال کے نتیجے میں پانچ ہزار عام پاکستانی بھی مرجائیں تو اس دوسری دنیا کے مکیں اس خبر کو یوں سنتے ہیں جیسے  سات سمندر پار کسی دور دراز ملک کی خبر ہو!

اس ملک کے سرکاری اہلکار 'ان خواص کے سامنے رکوع میں جھکے ہوتے ہیں'یوں کہ خدا کی قسم! ان کی سرینوں سے کپڑا تک اٹھ جاتا ہے ۔مگر عوام کے لیے یہ سرکاری اہلکار فرعون اور نمرود سے کم نہیں !تحصیلدار'پٹواری'تھانیدار'واپڈا 'گیس اور دیگر سرکاری محکموں کے کارندے'عوام کی رگوں سے  خون نچوڑتےہیں اور اپر کلاس کے بوٹوں کی ٹھوکریں اپنی پسلیوں پر فخر سے کھاتے ہیں ۔پھر ان کا حشر وہی ہوتا ہےجو فیض آباد دھرنے کے دوران عوام نےپولیس کے اُن اہلکاروں کا کیا جو ان کے ہتھے چڑھے۔   



2025

$
0
0
​​





Muhammad Izhar ul Haq

http://www.izharulhaq.net






2017-12-04 21:31 GMT+11:00 Muhammad Izhar ul Haq <izhar@izharulhaq.net>:





صبح صبح گاؤں سے مہمان آگئے۔ان لوگوں نے پاسپورٹ بنوانا تھا ۔دیہاتی پس منظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آبائی گاؤں سے آنے والے دھڑلے اور ٹھسے سے آتے ہیں ۔ ہفتوں رہتے ہیں ،کھاتے پیتے ہیں اور کام بھی کراتے ہیں ۔خدمت میں ذرا سی کوتاہی ہوجائے تو معاف نہیں کرتے۔

وہ زمانہ لد چکا جب دارالحکومت میں کام آسانی سے ہوجاتے تھے۔اب حالات اور تھے۔حقیقتیں نئی تھیں اور اتنی سخت کہ انہیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہ تھا۔کسی بھی وزارت یا محکمے میں  جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری تھا کہ وہاں قبضہ کس کا ہے؟چنانچہ فون پر پاسپورٹ آفس کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ مولانا قاسم نانوتوی کی سوانح حیات ایک ہاتھ میں پکڑی،دوسرے میں تقویۃالایمان کی نئی نویلی جلد۔کندھے پر زدر رنگ کا ریشمی رومال ڈالا اور پاسپورٹ آفس جا پہنچے۔کافی دیر انتظار کے بعد متعلقہ افسر کے سامنے پیش کیا گیا۔اس نے بڑا سا پگڑ باندھا ہوا تھا۔اور سخت خضاب آلود تھا۔

 "فلاں مسلک سے ہو؟"

"جی ہاں !الحمدللہ!"

ہم نے ساتھ ہی دونوں کتابیں میز پر رکھ دیں ۔

انہوں نے ان کے نام دیکھے۔پھر پوچھا:

"حیاتی ہو یا مماتی؟"

ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ یہ حیاتی اور مماتی کا کیا معاملہ ہے؟ہمیں تو اتنا ہی بتایا گیا تھا کہ پاسپورٹ آفس پر اس مسلک کا قبضہ ہے۔ہم نے اسی اعتبار سے تیاری کی اور آگئے۔

دوبارہ پوچھے جانے پر یونہی کہہ دیا کہ حیاتی ہیں !یہ سنتے ہیں افسر کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوگئیں ۔اس نے درخواست پر ایک بڑا سا کانٹا مارا اور واپس کردی۔

"معاف کیجیے!ہم لوگ مماتی ہیں !آپ کا عقیدہ درست نہیں !"

منہ لٹکائے گھر واپس آئے۔چھ مہمانوں کو پھر کھانا کھلایا۔ شام کو چائے کے ساتھ یہ لوگ جلیبیاں بھی باقاعدگی سے کھاتے تھے۔

خیر!ایک دوست سے مشورہ کیا ۔اس نے بتایا کہ پاسپورٹ والا  دفتر وزارتِ داخلہ کے نیچے کام کرتا ہے۔بہتر ہے وزارت سے کہلوانے کا بندوبست کرو!

صبح ہوئی تو ہم نے نسواری رنگ کی چادر اوڑھی اور ۔ حضرت مولانا احمد رضا خان کا ترجمہ ء قرآن پاک اٹھایا اور وزارت ِ داخلہ کا رخ کیا۔ سیکرٹری صاحب کے حضور پیش ہوئے ۔انہوں نے پہلا سوال ہی یہی پوچھا :

"بریلوی ہیں ؟"

"جی !الحمدللہ! ساتھ ہی اعلیٰ حضرت کا ترجمہ میز پر رکھا!

 "مگر آپ سبز پگڑی باندھ کر کیوں نہیں آئے؟"

 "جی معاف فرمائیے گا تساہل ہوگیا لیکن یقین کیجیے ہم کھیرا کاٹنے کے شرعی طریقے پر پابندی سے عمل کرتے ہیں"!

سیکرٹری صاحب کے چہرے پر جیسے رونق آگئی۔داڑھی پر ہاتھ پھیر کر مسکرائے اور فرمایا کہ اطمینان رکھیں کام ہوجائے گا!

باہر نکلنے لگے تو سیکرٹری صاحب کے معاون خاص نے بٹھا لیا۔

"آپ کو کچھ ہدایات دینی ہیں !دیکھیے،آئندہ جب بھی تشریف لائیں تو آپ کو وضاحت سے بتانا ہوگا  کہ آپ  مولانا الیاس قادری سے تعلق رکھتے ہیں یا مولانا خادم حسین رضوی کے گروپ سے یا مولانا جلالی صاحب کی برانچ سے،یا مولانا ثروت قادری  صاحب کے گروہ سے؟

 ہم نے ہدایات ایک کاغذ پر نوٹ کرلیں اور شکریہ ادا کرتے واپس ہوئے۔

 اگلا مرحلہ بنک میں سرکاری فیس جمع کرانے کا تھا یہ فیس صرف نیشنل بنک  آف پاکستان میں جمع کرائی جاسکتی تھی! بنک پر ایک دوسرے مسلک کا قبضہ تھا۔

وہاں پہنچے تو پوچھا گیا کہ کس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

جس دوست نے معلومات فراہم کی تھیں اس نے یہ تفصیل تو بتائی ہی نہیں تھی!پوچھا لمحہء موجود میں گروپ کون کون سے ہیں ؟

معلوم ہوا کہ تین بڑے  گروپ ہیں ۔ایک مولانا ساجد میر والا ،دوسرا ابتسام الٰہی ظہیر والا، تیسرا حافظ سعید صاحب والا!

ہمیں مولانا ساجد میر والے گروپ میں عافیت نظر آئی مولانا ہمیشہ حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ سینیٹر بنتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون سا جرنیل قادیانی ہے۔ہم نے اللہ کا نام لے کر ان کا نام لے لیا۔افسوس!یہ تُکہ ہمارے کام نہ آیا۔ بنک پر کسی اور کا قبضہ تھا۔ ہمارے کاغذات نامنظور کردئیے گئے۔

اب کسی نے مشورہ دیا کہ نیشنل بنک وزارتِ  خزانہ کا ذیلی ادارہ ہےوہاں سے سفارش کرائیے۔ وزارت خزانہ شیعہ علما کے کنٹرول میں تھی -ہم نے دوسرے دن یاقائم آل ِ محمد کا نعرہ لگایا اوروزارت جاپہنچے۔ افسر کے سامنے پیش ہوئے اور دعویٰ کیا کہ خاندانی مومن ہیں !ان صاحب نے مطمئن ہونے کے بجائےایک سوال داغ دیا کہ کس گروہ سے ہیں ؟ہماری سٹی گم ہوگئی،اس ضمن میں ہماری معلومات صفر تھیں ۔اخبارات کے ذریعے ہمیں صرف دو گروہوں کا علم تھا۔ایک موسوی صاحب والا اور دوسرا مولانا ساجد نقوی صاحب والا۔ مولانا  ساجد نقوی کا تعلق ہمارے ضلع اٹک سے تھا ۔ یہ بھی معلوم تھا کہ قُم سے فارغ التحصیل ہیں اوربڑے عالم ہیں ۔ ہم نے کہا کہ ان کے گروہ سے ہیں ! اس بار قسمت نے یاوری کی،وزارتِ خزانہ نے نیشنل بنک کو حکم دیا کہ ہمارا کام کیا جائے۔ خدا خدا کرکے پاسپورٹ بنا  اور مہمانوں  کے جتھے کو بخیر وخوبی واپس گاؤں والی بس میں بٹھایا ۔

آج 2025ء میں ہر شئے بدل چکی ہے ۔ مقابلے کا مرکزی ملازمتوں والا اعلی امتحان ،جسے کسی زمانے میں سی ایس ایس کہتے تھے اور جو انگریزی میں ہوتا تھا،اب پنجابی ،پشتو،سندھی،بلوچی،براہوی، کشمیری ،بلتی اور  شینا میں ہوتا ہے۔ صرف مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ اس امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں ۔ ہر مسلک کا مرکزی اعلی ملازمتوں میں کوٹا مختص ہےجو مدارس کی تعداد پر منحصر ہے ۔ سول سروس اکیڈمی ایک نہیں ،بلکہ بہت ساری ہیں ۔ ہر مسلک اپنے ہم مشرب افسروں  کو تربیت خود دیتا ہے۔ پھر یہ افسران مختلف وزارتوں  اور محکموں میں تعینات ہوتے ہیں ۔ اب یہ آپ کی ذہانت اور جنرل نالج پر منحصر ہے کہ آپ  افسر کو دیکھ کر اس کے مسلک کا اندازہ لگا لیں۔ اس کے لیے آپ کے پاس بنیادی معلومات کا ہونا ضروری ہے،مثلاً مولانا ساجد میر صاحب سر پر قراقلی ٹوپی پہنتے ہیں۔مولانا حنیف جالندھری پگڑی باندھتے ہیں ۔مولانا خادم حسین رضوی سیاہ رنگ کا عمامہ اوڑھتے ہیں  ۔مولانا جلالی ازہری انداز میں گول دستار پہنتے ہیں ۔حافظ سعید صاحب چترالی ٹوپی پہنتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن پیلا ریشمی رومال وغیرہ وغیرہ۔یوں آپ  سر کو دیکھ کر شناخت کرسکتے ہیں کہ افسر کس مسلک سے ہے۔پھر آپ کے پاس ہر مسلک کی مختلف شاخوں اور ذیلی گروہوں کے بارے میں بھی مکمل معلومات ہونی چاہئیں۔افسر کا تعلق جس مسلک سے ہو،آپ  اپنا تعلق اسی مسلک سے ظاہر کریں اور شدومد سے ظاہر کریں،افسر تبلیغی ہوتو مونچھوں پر استرا پھروا کر اس کے سامنے جائیے۔میز پر پڑی چندے والی صندوقچی میں پانچ ہزار کا نوٹ ڈالیں تو کامیابی کا امکان زیادہ ہوگا۔

وزیراعظم اور صدر کے عہدے اڑا دئیے گئے ہیں ۔علماء کا ایک بورڈ  صدارت کے فرائض سر انجام دیتا ہےدوسرا بورڈ وزارتِ اعظمٰی کے اختیارات استعمال کرتا ہے۔بورڈ میں تمام مسالک کی نمائندگی کا اہتمام کیا گیا ہے۔صوبوں میں بھی انتظامات انہی خطوط پر کیے گئے ہیں ۔ بچے کو پیدا ہونے کے بعد ہوش سنبھالتے ہی بتایا جاتا ہے کہ اس کا مسلک کیا ہے۔ مساجد،محلے، گلیاں ،کوچے،بازار ،ٹریفک،ریل گاڑیاں،بسیں  ،جہاز، ہر شے مسلک کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔شناختی کارڈ کی بدعت ختم ہوچکی ہے۔ہر پاکستانی کے سینے پر ایک کارڈ  آویزاں  ہے جس پر اس کا نام نہیں ،صرف اور صرف مسلک لکھا ہے۔اگر اس نے مسلک بدلنا ہے تو دو این او سی  درکار ہوں گے۔ ایک اس ملک کے علما کرام سے ،جو وہ چھوڑنا چاہتا ہے،دوسرا نئے مسلک کے علما کرام سے،این او سی لے لیجیے،مسلک بدلنے کی رسم عام ہے کیوں کہ کام کرانے کے لیے آپ کو اکثر و بیشتر  مسلک تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ کسی زمانے میں  ہر مسلک  دو دو تین تین گروہوں میں منقسم تھا مگر اب ذیلی گروپوں کی تعداد درجنوں سے بھی بڑھ چکی ہے۔سنا ہے کسی زمانے میں مسلم لیگیوں کی تعداد اتنی ہی ہوا کرتی تھی۔

ملک کا نام بدلنے کے لیے علما کرام کی ایک اعلٰی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔یہ خبر عام ہے کہ پاکستان کا نیا نام مسلکستان ہوگا۔     



  






دکھ اور شرم کی نہ ختم ہونے والی داستان

$
0
0

نوجوان کالم نگار اور دانشور وسی بابا کے بقول اگر لائبریری بھی دسترس میں ہو، ایک خوبصورت ساحل بھی اور کینگرو بھی'تو اور کیا چاہیے!جہاں ان دنوں ہم ہیں وہاں یہ سب کچھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کینگرو مسلکی بنیادوں پر زیادہ اچھلتےنظر آتے ہیں !

گزشتہ آٹھ  نو برس کے دوران جب بھی آنا اور  رہنا ہوا'میلبورن ہی میں رہے۔اب جیلانگ میں بھی کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ جیلانگ آسٹریلیا کی ریاست(صوبے)وکٹوریہ کا میلبورن کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے۔ تاہم وہ جو دنیا کے تمام شہروں میں میلبورن کو رہنے کے لیے بہترین جگہ

The best livable  place

قرار دیا جاتا ہے تو اس اعتبار سے جیلانگ میلبورن کا حصہ ہی سمجھیے۔ایک تو دونوں  شہر تقریباً ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔دوسرے 'انفراسٹرکچر اور معیار ِ زندگی دونوں کا ایک جیسا ہی ہے۔

یہ جو آسٹریلیا کے صوبے کا نام وکٹوریہ ہے تو یہ بھی عجیب قصہ ہے۔جس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ میں  سورج غروب نہیں ہوتا تھا 'اس زمانے میں  انگریز جہاں بھی گئے اپنی ملکہ کانام تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے شہروں 'بندرگاہوں 'ہسپتالوں'چوراہوں'پہاڑوں'میدانوں'عجائب گھروں'باغوں 'صحراؤں'پلوں اور جزیروں کے نام وکٹوریہ پر  رکھتے گئے۔ چنانچہ آسٹریلیا'کینیڈا'نیوزی لینڈ'برِ صغیر'برما'گھانا'ہانگ کانگ'کینیا'ملائشیا'مالٹا'ماریشش'نائجیریا'پاکستان'سنگا پور'جنوبی افریقہ'سری لنکا'یوگینڈا'زمبیا اور زمبابوے میں سینکڑوں  مقامات ملکہ وکٹوریہ کے نام پر آج بھی موجود ہیں ۔یوں بھی انگریز ہماری طرح عقل مند اور "دوراندیش"تو تھے نہٰیں کہ اپنے اور اپنے خاندانوں  کی پرورش کرتے۔ بدبختوں کو فکر تھی تو ملک اور قوم کی۔مغل شہنشاہ نے انگریز سپوت سے خوش  ہو کر پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے'تو اس نے گورنری مانگی نہ اپنے بیٹے یا خاندان کے لیے مراعات!  ورنہ سونے میں تُل سکتا تھا۔ مانگا تو کیا مانگا'اپنے ملک کے تاجروں کے لیے مراعات!

کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش  کولمبیا کے دارالحکومت کا نام بھی وکٹوریہ ہے ۔یہ بحرالکاہل میں واقع ایک دیدہ زیب دلکش جزیرہ ہے۔ورنہ بڑا شہر تو صوبے کا وینکوور ہے۔اس کالم نگار کو یہ  وکٹوریہ بھی  دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ایک پرسکون 'خوابیدہ شہر 'دنیا بھر کے متمول افراد کا ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا انتخاب!

ضمیر جعفری مرحوم نے غالباً مسقط کے بارے میں کہا تھا

  اک طرف پہاڑی ہے اک طرف سمندر ہے

اس کے بعد جو کچھ ہے بس اسی کے اندر ہے

تو جیلانگ بھی ہے تو چھوٹا شہر'مگر صرف پہاڑی اور سمندر پر مشتمل نہیں ہے۔ ایک نرماہٹ 'ایک دلکشی'ایک دھیما پن ہے جو شہر پر چھایا ہوا ہے۔دھلی دھلائی'چمکتی صاف ستھری شاہراہیں ہیں 'ایک جیسے مکان'جن پر سنگ مرمر کی تہیں ہیں  نہ خوبصورت آرائش وتزئین۔مگر پھر بھی لگتا ہے زیبائش ایک کڑھی ہوئی چارد کی طرح  ہر شے کے اوپر تنی ہے!

مرکزی لائبریری قابلِ دید  ہے۔پانچ منزلہ عمارت میں ایک منزل پوری صرف بچوں کے لیے مخصوص ہے۔جہازی سائز کی سکرینوں والے کمپیوٹر ہر منزل پر موجود ہیں ۔انٹر نیٹ مفت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ہفتے کے سات دن لائبریری کھلی ہے۔الگ کمرے بھی ہیں ۔ریسرچ کرنے والے حضرات یا گروپ ان کمروں کو روزانہ کی  بنیاد پر اپنے بیٹھنے کے لیے بُک کرا سکتے ہیں ۔گراؤنڈ فلور پر کیفے ہے جہاں کھانے  پینے کی اشیا دستیاب ہیں۔

وکٹوریہ کی صوبائی بڑی لائبریری جو میلبورن میں ہے اس کی رکنیت کئی سال پہلے حاصل کرلی تھی ۔جس  محلے میں قیام ہے وہاں کی لائبریری کی ممبر شپ بھی ہے۔ اب جیلانگ آنا جانا شروع ہوا تو  یہاں کی لائبریری کی رکنیت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ممبر شپ حاصل کرنے میں پانچ سات منٹ لگے ہوں گے۔چالیس کتابیں (جن میں سولہ سی ڈی شامل ہیں ) ایشو کرائی جاسکتی ہیں ۔جو چار ہفتے رکھی جاسکتی ہیں ۔کتابیں ایشو کرانے کے لیے اپنی مدد آپ کا اصول ہے۔کمپیوٹر کے سامنے کتابوں کا انبار رکھیے۔کارڈ کمپیوٹر میں لگائیےمطبوعہ رسید باہر نکل آئے گی جس میں کتابو ں کے نام اور واپس کرنے کی تاریخ درج ہوگی واپس کرنے کے لیے بھی کسی سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں۔لیٹر بکس نما بڑا سا سوراخ ہے 'اس میں ڈال دیجیے۔اگر آپ کو کوئی کتاب درکار ہےاور وہ لائبریری میں  موجود نہیں 'تو آپ اس کا نام لکھ دیجیے۔اگر آسٹریلیا کے کسی شہر میں  دستیاب ہےتو خرید لی جائے گی اور پھر آپ کو باقائدہ اطلاع دی جائے گی۔

جیلانگ کی آبادی دو لاکھ سے کم ہے۔دو لاکھ سے کم کی آبادی کے اس شہر میں  مرکزی لائبریری کے علاوہ سولہ لائبریریاں  اور بھی موجود ہیں جو مختلف محلوں  اور سینکڑوں میں مقامی حکومت نے کھولی ہوئی ہیں ۔رکنیت کا ایک ہی کارڈ'ہر لائبریری میں قابل ِ قبول ہے۔ ایشوکرائی ہوئی کتابیں  کسی بھی لائبریری میں واپس کی جاسکتی ہیں ۔

کسی ترقی یافتہ ملک میں آنا اور آکر رہنا باعثِ آزار بھی ہے۔لوگوں کے طور اطوار'معاشرتی قدریں اور اخلاقیات دیکھ کر اندر کرب کی ایک لہر اٹھتی ہے اور انسان بے اختیار اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ سب ہمارے ہاں ممکن نہیں ؟

کم از کم تین ایسے پہلو ہیں جو اچھنبے میں مبتلا کرتے ہیں۔اول عمومی صفائی۔یہ زیادہ عجیب اس لیے ہے کہ نوے پچانوے فیصد گھروں میں  کل وقتی ملازم رکھنے کا رواج ہے نہ ایسا کرنا ممکن ہے اگر کہیں صفائی کرنے والی خادمہ یا باغ سنوارنے والا باغبان آتا بھی ہے تو روزانہ کی بنیاد پر نہیں!ہفتہ وار یا دو ہفتے میں ایک بار'یا ایک ہفتے میں دو بار'تعجب ہوتا ہے کہ ملازموں کی مدد کے بغیر'ہر گھر کا لان'ایک خوبصورت باغ کی طرح ہے۔پودے ترشے ہوئے'کہیں کوڑا کرکٹ نہ کثافت!کوڑا کرکٹ سنبھالنے کا ایک نظام ہے جو کسی سقم کے بغیر کام کرتا ہے۔کفایت شعاری کا ایسا اہتمام ہے کہ گھروں میں گاڑیاں دھونے کی اجازت نہٰیں !بارش کاپانی ذخیرہ کرکے اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔دوم'وقت کی پابندی!دفتر ہے یا دکان یا سکول یا یونیورسٹی 'اگر مقررہ وقت نو بجے ہے تو اس سے مراد نو ہی ہے۔نو بج کرپانچ منٹ نہیں ! تقاریب اور شادیوں  کے فنکشن بھی پابندی وقت پر عمل کرتے ہیں !کہنے کو یہ کوئی خاص بات نہیں لگتی 'مگر سوچنے پر گرہیں اور پرتیں اور تہیں کھلتی چلی جاتی ہیں ! ہمارے جیسے ملکوں میں اگر کوئی شکوہ کرے  بھی کہ  میں وقت پر آ گیا تھا'آپ موجود نہیں تھے یا یہ کہ آپ تاخیر سے آئے ہیں ۔'تو شکوہ کرنے والا بُدھو لگتا ہے۔ تاخیر کی یا وعدہ خلافی کی شکایت کرنا'ہمارے ہاں ایک ایسا فضول عمل ہے جس کے  کرنے والے کو سڑیل'چڑچڑااور

fussy

تک کہا اور سمجھا جاتا ہے!یہ کتنا بڑاالمیہ ہے'قومی سطح پر اس کا ادراک تک نہیں ! اس کا ایک بڑا شاخسانہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی کام 'انفرادی ہو یا خاندانی'یا ملکی سطح کا'وقت پر نہیں ہوپاتا!صبح پہنچنے والا دوپہر کو پہنچ رہا ہوتا ہے۔تقریب پہروں تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ہمارے حکمران'عمائدین اور امرا کمال دیدہ دلیری اور بے شرم ڈھٹائی کے ساتھ  حاضرین مجلس کو گھنٹوں انتظارکراتے ہیں! شادی بیاہ کی تقاریب ہماری بے حسی اور اخلاقی اور معاشرتی پس ماندگی کی بدترین نمونہ ہیں ۔

سوم! ان ملکوں میں روز مرہ کی زندگی 'لین دین اور کاروبار میں باہمی اعتبار اور صدق مقال ایک ایسی قدر ہے جو معاشرے کو ہموار  راستے پر چلا رہی ہے۔اس راستے پر اونچ نیچ ہے 'نہ گڑھے'نہ کیچر بھرے ٹکڑے نہ پتھریلے پیوند'گاہک دکاندارکو آکر کہتا ہے کہ یہ شے جو  خریدی تھی  'ٹھیک نہیں نکلی'دکاندار اس بیان پر شک نہیں کرتا 'جھٹلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا'فوراً رقم واپس کردیتا ہے۔تاجروں  دکانداروں کی اکثریت "ری فنڈ"یعنی خریدی ہوئی شے واپس کرنے کی واضح  پالیسی رکھتی ہےجس کا گاہک کو بتایا جاتا ہے اور اس پر  عمل کیا جاتا ہے۔سرکاری ملازم اگر اپنے محکمے کو اپنی اہلیہ یا بچے  کی بیماری کا بتاتا ہے تو اس کی تحقیق نہیں کی جاتی۔مفروضہ یہ ہےکہ سچ بول رہا ہے۔ یہی وہ سچ ہے اور یہی اس سچ پر یقین ہے  جس نے اس معاشرے  میں زندگی کو آسان بنایا ہواہے۔آ پ کو کسی نے کوئی اطلاع دے دی ہے تو غلطی  کا علم ہونے کے فوراً بعد وہ شخص آپ سے رابطہ کرے گا اور غلطی کی تصحیح کرے گا۔تحریری معاہدہ کسی بھی معاملے میں ہوگیا ہے'یازبانی بھی کچھ طے ہوگیاہےتو اس پر عملدرآمدکے لیے کسی یاد  دہانی کی یا منت سماجت کی ضرورت نہٰیں  ۔اب یہ طے ہے کہ اس پر خود بخود عملدرآمد ہوگا۔

آپ نے مکان کرائے پر لیا ہے جو تاریخ آپ کو دی گئی ہےاس پر آپ  بلا کھٹکے سامان لے جائیں ۔ایسا نہیں کہ آگے سے ایک صاحب منتیں کرکے گھگھیانے لگیں  یا بدتمیزی سے رعب جمائیں کہ ابھی میں خالی نہٰیں کرسکتا۔معاہدہ زبانی ہو یا تحریری 'اس کی حرمت قائم رکھی جاتی ہے۔یہ جو نسخہ ہمارے ہاں  حال ہی میں متعارف کرایا گیا ہے کہ میں نے تو ایک بات کی تھی'وعدہ نہیں کیا تھا۔یہ نفاق ان کافروں کے ہاں نہیں ملتا۔

دکھ اور شرم کی یہ داستان طویل ہےکبھی نہ ختم ہونے والی داستان!!         


میاں صاحب کا طرزِ حکومت۔تازہ ترین مثال

$
0
0


میاں محمد نواز شریف کے  عہدِ حکومت میں اداروں کی تباہی کی بات اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا عبث لگتا ہے۔ دونوں بھائیوں  کو خدا سلامت رکھے 'اس قدر مستقل مزاج ہیں  کہ کسی احتجاج'کسی اعتراض کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔اس کا  ایک بڑا  سبب دو بزرگ ترین اداروں کا بے اثر ہوجانا ہے  یہ دو ادارے جو دوسرے تمام اداروں کی ماں کا درجہ رکھتے ہیں  'پارلیمنٹ اور کابینہ  ہیں 'اگر یہی خاموش ہوجائیں تو عوام کا احتجاج اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ ان دونوں  اداروں کا گلا سب سے پہلے دبادیا گیا۔ کابینہ ربڑ کی مُہر بن کررہ گئی۔کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے کہ میاں  صاحب کے دور میں وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہی نہیں ہوتا تھا ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ  کو وہ اس قابل ہی نہیں گردانتے تھے کہ اس میں آئیں 'اجلاس اٹینڈ کریں اور ارکان کے خیالات سے براہ راست استفادہ کریں ۔پنجاب میں  صورت حال اس سے بھی ابتر  ہے۔ جاتی امرا  کو وزیراعظم کے کیمپ آفس کا درجہ حاصل رہا  ۔ستر کروڑ چار دیواری پر لگ گیا۔ہزاروں  اہلکار وہاں تعینات ہیں تمام جملہ اخراجات بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ وزارت اعظمیٰ  گئی تو ان "خاندانی"ثروت مندوں نے جو دعویٰ  کرتے ہیں کہ ہم تو شروع ہی سے مالدار تھے  ایک اور خفیہ دروازہ کھول لیا ۔حکم صادر  ہوا کہ اب جاتی امرا کو وزیراعلٰی   پنجاب کا  دفتر قرار  دیا جائے احتجاج ہوا تو حکم کو ذرا تعطل میں ڈال دیا گیا۔بچے بچے کو اس حقیقت کا علم ہے کہ "خاندانی"امرا اتنی چھوٹی اور خفیف حرکتیں نہیں کرتے۔ان کے ہاتھ دینے والے ہوتے ہیں لینے والے نہیں ہوتے۔جس طرح لاہور  میں اپنی متعدد رہائش گاہیں یہ حضرات سرکاری خزانے سے پال پوس رہے ہیں اور جس طرح جاتی امرا کے  اخراجات  اپنی جیب سے ادا کرنے کے بجائے عوام کے ٹیکسوں  سے ادا کئے جارہے ہیں اس سے قوم کا بچہ بچہ جان گیاہے کہ یہ لوگ  خاندانی امیر ہرگز نہیں ۔ یہ طرزِ عمل نودولتیوں کا شعار ہوتا ہے۔جنہوں نے سب کچھ دیکھا ہو،ثروت مندی جن کے خاندانوں میں مدتوں اور زمانوں  سے راج کررہی ہو وہ قناعت پسند ہوتے ہیں ۔طارق  نعیم کاشعر یاد آرہا ہے۔

یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں

 خسروی'شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!

خاندانی ثروت مند  بیٹیوں نواسیوں کے نکاح  مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ  کے مقدس مقامات پر پڑھوائیں تو اس کا بار عوام پر نہیں ڈالتے'خود برداشت کرتے ہیں قومی ائیر لائن کے جہازوں کو  ذاتی اور  خاندانی مقاصد کے لیے بے دردی سے جس طرح استعمال کیا گیا'اس سے اصلیت کا بھی پتا چل گیا۔محمود غزنوی نے فردوسی کے ساتھ  کیا گیا وعدہ جب پامال کیا تو فردوسی نے کہا کہ  خاندانی لوگ اس  طرح نہیں کرتے۔ اس موقع پر اس کے کہے گئے اشعار  ایک باقاعدہ کلیہ کی صورت اختیار کرگئے ہیں ۔

جب ہم کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کا طرزِ حکومت شخصی اور قبائلی تھا'جمہوری نہیں تھا 'تو اس کا مطلب یہ  ہے کہ  وہ سارے فیصلے ذاتی پسند اور  ناپسند کے حوالے  سے کرتے تھے تازہ ترین نمونہ اس قبائلی اور شخصی طرزِ حکومت کا پی آئی اے کے سی ای او(چیف ایگزیکٹو آفیسر) کی تعیناتی ہے۔اس منصب کے لیے اسی کو تعینات کیا جاتا ہے جو ہوا بازی کی صنعت میں کم از کم پچیس سال کا تجربہ رکھتا ہو۔ہوا بازی کے مشیر (یا وزیر) نے  اپنے سٹاف  افسر کو اس عہدے کے لیے تجویز کیا ۔سٹاف افسر کا ہوا بازی کے شعبے سے کوئی تعلق نہ تھا۔نہ ہی ایک دن کا تجربہ اس میدان کا تھا۔اگر نواز شریف صاحب کا طرزِ حکومت جمہوری ہوتا تو وہ پوچھتے  یا خود دیکھتے کہ تعیناتی کے قانونی تقاضے کیا ہیں اور کیا تجویز  کیا ہوا  شخص  پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہے۔ مگر چونکہ طرزِ حکومت قبائلی اور شخصی ہے'اس لیے وزیر کے کہنے پر سابق  وزیراعظم نے یہ تعیناتی منظور کرلی ۔گویا قومی ائیر لائن کی تباہی  میں ابھی کچھ کسر باقی تھی۔

اس غلط بخشی کے ضمن میں  ایک ظلم  اور بھی ہوا  ۔وزیر کے چہیتے سٹاف افسر کی تعیناتی کے احکام پی آئی اے کے ایچ آر کے شعبے نے جاری کرنے تھے  خبر یہ ہے کہ  اس شعبے  نے ایک جائز اعتراض  کیا کہ  شناختی کارڈ میںدی گٰئٰ تاریخ پیدائش میٹرک کی سند میں دی گئ تاریخ پیدائش سے مختلف ہے اعتراض کرنے والوں کو ملازمت سے برخواست کر دیا گیا !حالانکہ ان  کا اعتراض کرنا ان کی ڈیوٹی کا تقاضا تھا۔"سٹاف افسری"پاکستان میں ایک ایسی علت ثابت ہوئی ہے جس نے اداروں کی تباہی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔مثلایہی دیکھیے کہ فوج سے آیا ہوا صدر یا وزیر اعظم کا سٹاف افسر جو اے ڈی سی کہلاتا ہے،باقی تمام فوجیوں سے زیادہ "لائق"اور"ممتازو منفرد"ثابت ہوتا رہا ہے۔سول سروسز میں عساکر پاکستان کا باقاعدہ کوٹہ ہے اس کا ایک طریق کار ہے ۔مسلح افواج سے جو افسر سول سروسز میں آتے ہیں،انہیںایک پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ۔مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیےکیا ہوتا رہا!

اسی طرح وزیراعظم کے "پرنسپل سیکرٹری "کے منصب کو ناانصافی اور ظلم کے لیےخوب خوب استعمال کیا گیا۔یوں لگتا ہے جو اہلکار وزیراعظم کا سٹاف افسر بنتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ لمبے ہاتھ مارنے کی کوشش کرتا ہے اور لوٹ مار میں زیادہ سے  زیادہ حصہ مارنے کے لیے کھیل کھیلتا ہے ۔ایک صاحب جو سٹاف افسر (پرنسپل سیکرٹری)تھے ریٹائرمنٹ پر گھر جاتے جاتے پانچ سال کے لیے وفاقی محتسب بن گئے ۔پھر ایک اور صاحب نے ایل ریگولیٹری اتھارٹی  کے عہدے پر شب خون مارا جو پروسیس پہلے سے چل رہا تھا اس میںان کا نام تھا نہ ذکر۔جن امیدواروں کے انٹرویو ہوئے تھے اور فائل میں جن کا مزکور تھا ،وہ سب بیک جنبش قلم منظر سے غئب ہو گئےاور حق "حقدار"کو مل گیا۔

تاریخ کو مزید کریدیے۔راولپنڈی،اسلام آباد،لاہور،کراچی کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران ،حکمرانوںسے متعارف ہو جاتے ہیں۔ائیر پورٹوں پراستقبال کرتے ہیںاور رخصت کرتے ہیں۔اگر سروے کیا جائے تو اس مضحکہ خیز حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ انہی اہلکاروں کی تعیناتیاں زیادہ تر بیرون ملک ہوتی رہیں۔پاکستان کے سفارتخانوں میں استقبال کرنے والے اور رخصت کرنے والے زیادہ ترتجارت اور زراعت کے "ماہرین "کے طورپر براجمان ہوتے رہے ۔"عمدہ ترین"مثال اس ناانصافی اور میرٹ کُشی کی وہ تعیناتی ہے جو ماڈل ٹاؤن 14 قتل کیس کے حوالے سے ایک اہلکار کی بطور "تجارتی سفیر"بیرون ملک کی گئی۔

قومیں انفراسٹرکچر سے ترقی نہیں کرتیں۔قانون پسندی سے ترقی کرتی ہیں۔اگر شاہراہوں کی تعمیر سے ملک ترقی یافتہ سمجھے جاتے تو آج سعودی عرب اور کویت جیسے ملک سوئٹزر لینڈ اور کینیڈا کے ہم سر گردانے جاتے۔ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں ملک کا سربراہ بھی قانون شکنی کا ارتکاب نہیں کرسکتا!

پس نوشت۔حضرت مولانا طارق جمیل نے ازراہ کرم رابطہ کر کے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے میا ں صاحب کو مشکلات کے حوالے سے وظیفہ نہیں بتایا ۔ ہاں ان کی علیل اہلیہ کے لئے انہوں نے دعائے صحت کی اور سالانہ عالمی اجتماع میں شرکت کی دعوت کی !اس کالم نگار نے مولانا کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ کم و بیش سارے پرنٹ میڈیا میں وظیفہ بتانے کی خبر شائع ہوئی اس لئے مناسب ہے کہ ایسے مواقع پر مولانا کا کوئی ترجمان صورت حال کی وضاحت کر دیا کرے تا کہ ان کے معتقدین میں اضطراب نہ پھیلے۔بہر طور اس وضاحت کے لئے کالم نگار مولانا کا شکر گزار ہے۔

   


زندہ درگور بُڑھیا!

$
0
0

بال بکھرے ہوئے تھے۔چہرے پر خراشیں تھیں ۔ٹخنوں سے خون بہہ بہہ کرجوتوں میں جم گیا تھا۔گھٹنے زخمی تھے۔ہاتھوں کی کئی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ۔چلی تو لنگڑا رہی تھی۔سانس فوراً پھول جاتا تھا۔

مجھے دیکھا تو  رُک گئی۔ اس حال میں بھی آنکھوں سے خیرہ کُن چمک شعاؤں  کی طرح باہر آرہی تھی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  بات کرنا ممکن ہی نہ تھا۔طنز بھرے لہجے میں بولی

"تم نے بھی میرا ماتم ہی کرنا ہوگا

کرلو!کہیں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جاؤ۔

میں نے اسے بٹھایا۔اور بتایا  کہ میں  اس لیے نہیں ڈھونڈ رہا تھا کہ تمھیں  موضوع سخن بنا کر کالم کا پیٹ بھروں۔میں تو تمھاری سننے آیا ہوں !سب تمھاری بات کرتے ہیں لیکن تمھاری سنتے نہیں!اپنی بات کرتے ہیں اور تمھارے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں !تم بتاؤ!میں سنوں گا کیا اس حال تک تمھیں عسکری مداخلت نے پہنچایا ہے؟

کاش ایسا ہوتا!ایسا ہوتا تو مجھے اپنے بالوں کے بکھرنے کا'دانتوں کے ٹوٹنے کا،گھٹنوں کے زخمی ہونے کا'چہرے کے مسخ ہونے کا رنج تو نہ ہوتا۔مجھے خوشی ہوتی کہ  میں نے اپنے آپ کو ایک مقصد کے لیے'ایک بڑے مقصد کے لیے خرچ کیا  ہے!مگر افسوس !یہ حال میرا عسکری مداخلت نے نہیں کیا ہے!"

سول بالا دستی سے یہ  ملاقات اس کے گھر میں ہو رہی تھی۔شہر کے ایک گنجان 'پرانے محلے میں ٹوٹی ہوئی گلی کے سرے پر'ایک خستہ حال مکان کا بالائی حصہ تھا۔ صرف ایک کمرے پر مشتمل! یقین نہیں آ رہا  تھا کہ جمہوری دور میں سول بالا دستی اس عُسرت  سے زندگی کاٹ رہی ہوگی۔کمرے  کے کونے میں تیل والا چولہا اور چند برتن پڑے تھے۔بان کی چارپائی تھی۔ ادوائین ٹوٹی ہوئی!تکیے  کا غلاف میل سے کالا ہوچکا تھا۔ میں بیٹھا تو یوں لگا جیسے چارپائی کا پیٹ زمین سے جا لگے گا۔

منع کرنے کے باوجود چائے بنانے بیٹھ گئی۔کسی زمانے میں پیالیوں کے ساتھ کُنڈے لگے ہوں ،مگر اب صرف نشان باقی  تھے۔ چائے پکڑائی تو ساتھ ہی معذرت کرنے لگی کہ گُڑ کی چائے ہے۔کہنے لگی کہ'سفید چینی خریدنے کی استطاعت نہیں !

خود وہ پھیکی چائے پی رہی تھی۔کہنے لگی'پشتوں میں کسی کو ذیابطیس نہیں تھی۔گزشتہ سات آٹھ سال اس قدر ذہنی تناؤ اور دباؤ میں گزرے کہ شوگر ہوگئی!

پھر وہ بولتی گئی اور میں دم بخود سنتا رہا۔کس قدر دردناک کہانی تھی!لب لباب اس کی داستانِ غم کا یہ تھا کہ 2008ء میں جمہوری حکومت آئی تو سول بالادستی بھی سامنے آگئی۔جوان تھی اور خوبصورت!گلے میں پانی اترتا ہوا ،دکھائی دیتا تھا!زلفیں گھنی تھیں 'کالی گھٹا کو شرما دینے والی!چہرہ غازے کے بغیر بھی چاند جیسا!چلتی تو فوجی مداخلت بھاگ جاتی۔دنیا عش عش کرتی!

پہلی خراش اس کے چہرے پر اس وقت پڑی جب اس زمانے کے صدر نے اپنے جیل کے ایک ساتھی کو تیل اور توانائی کا وزیر بنا دیا۔ یہ آغاز تھاپھر تو صدمے پر صدمہ'چوٹ پر چوٹ!یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں ہر طرف ملتان ہی ملتان تھا۔حج کا سکینڈل اٹھا تو بیچاری سول بالا دستی کے گھٹنوں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ پھر راجہ پرویز اشرف کے زمانے میں ریڑھ کی ہڈی تک متاثر ہوگئی!

مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو سول بالا دستی کے پرخچے اڑنے شروع ہوگئے۔زخمی تھی مگر اب بھی جوانی کی دلکشی باقی  تھی۔ چہرے کے نقوش میں جاذبیت اب بھی تھی۔میاں نواز شریف نے غیر منتخب 'ریٹائرڈ بیورو کریٹ وزیراعظم آفس میں ایڈوائزر بنا کر بٹھایا تو بیچاری کی چیخیں نکل گئیں  اس پیر تسمہ پا ایڈوائزر کی واحد خوبی یہ تھی کہ  وہ میاں صاحب کی ذات برادری سے تھا۔
وزیر اعظم کے اختیارات 'ان کی غیر حاضری میں 'ان کی بیٹی نے سنبھالے تو سول بالا دستی نے شہر کے پُر رونق آسودہ حصے کو چھوڑا اور اس تنگ قدیم محلے میں منتقل ہوگئی۔ اب وہاں  رہتے ہوئے اُسے شرم  محسوس ہوتی تھی۔ پھر دختر نیک اختر نے میڈیا سیل کھول لیااور وزارتِ اطلاعات کو اپنی باندی بنا لیا۔اس وقت کے وزیر اعظم نے  ذاتی محلات کی چار دیواری پر قومی خزانے سے ستر کروڑ لگادیے۔ سول بالا دستی کے چہرے پر جھریاں پڑ گئیں ۔۔نواسی کے  نکاح پر قومی ائیر لائن کو یوں استعمال کیا گیا جیسے گاؤں کے  چودھری میراثیوں کو  استعمال کرتے ہیں ۔غسل خانے پر عوام کے ٹیکسوں سے اڑھائی کروڑ لگا دیے۔

پورا ایک سال  وزیراعظم نے سینٹ میں اپنی شکل نہ دکھائی۔سول بالا دستی کا پیٹ کمر سے جا لگا۔ کابینہ کو وہ گھاس ہی نہ ڈالتے تھے۔دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلٰی ہر روز اسمبلی میں جاتے مگر وزیراعظم کے بھائی'مہینے گزر جاتے تب بھی صوبائی اسمبلی کا رُخ نہ کرتے۔

صوبائی وزیر اعلٰی نے بیٹے کو صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک  کیا تو سول بالا دستی نے سر پیٹ لیا۔پھر فرد واحد نے چھپن کمپنیاں  بنائیں ۔ کابینہ کا دخل تھا نہ اسمبلی کا۔ سول بالا دستی کے بال  دیکھتے ہی دیکھتے سفید ہوگئے۔

کون سا ظلم تھا جو اس زمانے میں سول بالا دستی  پر نہ ہوا تھا۔غیر ملکی دوروں میں وزیراعظم صرف ایک وزیر اعلٰی  کو ساتھ لے جاتے اس لیے کہ وہ بھائی بھی تھا۔وزارت خارجہ کے امور بھی وہی چلاتا ۔ توانائی کی وزارت میں بھی اسی کا عمل دخل تھا۔ قطر جاکر وفاق کی طرف سے معاہدے کرتا رہا!

سول بالا دستی انگشت بدنداں  ہو کر وزیر اعظم  کے رنگ چالے دیکھتی رہی'خون کے آنسو پیتی رہی! وزیراعظم فائل پڑھ سکتا تھا نہ فائل پر کچھ لکھتا تھا۔عملاً'پرنسپل سیکرٹری ہی وزیراعظم تھا۔ایک اجلاس  بھی وزیراعظم  نے ای سی سی جیسے اہم ادارے کا خود اٹنڈ نہ کیا۔حکومتی امور سے اتنی بھی دلچسپی  نہ تھی جتنی سوتیلی  ماں کو سوتیلے بچوں سے ہوتی ہے!سینکڑوں  کمیٹیاں سمدھی کے سپرد کردیں۔خود صرف بیرونی دورے کرتے۔ملک میں ہوتے تو مری چلے جاتے!حکومت میاں نواز شریف کے لیے عیاشی کے سواکچھ نہ تھی۔ ہر روز روزِ عید تھا۔ ہر شب شبِ برات تھی!ذوق اتنا پست اور عامیانہ کہ کروڑوں کی گھڑی باندھ کر خوش ہوتے جب کہ لوگ اخ تھو کرتے! خارجہ امور  پر ایک دن بھی گفتگو نہ کی!مُودی نے ماسکو سے لے کر واشنگٹن تک'ابو ظہبی سے  لے کر ریاض تک'تاشقند سے لے کر 'تہران اور کابل تک بھارت کے نام کا غلغلہ برپا کردیا۔ مگر میاں نواز شریف کسی سے بات تک نہ کرپاتے۔بس لندن جاتے تو ریستورانوں میں کھاتے پیتے!سول بالا دستی اب ستر سال کی  ضعیف  بدصورت کالی کلوٹی بڑھیا کا روپ دھار چکی تھی۔

پانامہ کیس کا فیصلہ ہوا تو نااہل وزیراعظم نے عدالت کا فیصلہ ماننے  ہی سے انکار کردیا فوجی آمر'عدالتوں میں مداخلت کرتے تھے مگر اب جمہوری دور میں جو کچھ عدالتوں  ان کے فیصلوں اور ججو ں کے ساتھ ہوا 'سول بالا دستی نے شرم سے سر جھکا لیا'پارٹی کے امور بیٹی نے سنبھال لیے۔آئین اور قانون کی شکل بگاڑ کر'ترامیم کے سہارے'پارٹی کی صدارت پر قبضہ ہے۔سول بالادستی کیا کرتی'صرف اور صرف ایک خاندان کو بچانے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا گیا جس سے آمریت بھی شرما جاتی !

اب وہ ہانپ رہی تھی۔دمہ بھی ہوگیا تھا!کہنے لگی کتنا برداشت کرتی دیکھو !میری کمر پر کتنا بوجھ  لادا گیا۔میری پیٹھ پر اس خاندان نے کجاوا رکھا اور پھر مجھ پر سواری کرنے لگ گئے۔سمدھی بھی۔بیٹی بھی 'داماد بھی 'بھائی بھی بھتیجا بھی!پیپلز پارٹی نے سول بالادستی کی کمر پر بہنیں  لاد دیں ۔کھوتا بھی اتنا وزن اٹھانے سے قاصر تھا۔ان جمہوری حکومتوں  نے سول بالادستی کو کم ظرف نو دولتیوں  کی طرح استعمال کیا!

پیشکش کی کہ ہسپتال داخل کرا دیتا ہوں ۔مگر اس نے انکار کردیا۔ کہنے لگی بس یہ تکلیف ضرور دوں گی کہ کسی دن کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو!جو چار دن باقی ہیں  'دواؤں کی مدد سے آرام سے گزر جائیں! !زیادہ جینے کی خواہش ہی نہیں  ! اس سے پہلے پہلے کہ نا اہل شخص کی قیادت میں پوری حکومت نااہل ہوجائے 'مرجاؤں تو بہتر ہوگا۔           


دامن خالی!ہاتھ بھی خالی!

$
0
0

فیض آباد دھرنا کس کے لیے چیلنج تھا؟

وفاقی حکومت کے لیے

وفاقی حکومت کس کی تھی؟

مسلم لیگ نون کی!

مسلم لیگ نون کا سربراہ کون ہے؟

میاں محمد نواز شریف قائداعظم ثانی!

پارٹی میں ان کا نائب کون ہے؟

عملی اعتبار سے ان کی  دختر نیک اختر مریم صفدر!



جنہوں نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں  وزیراعظم کا الیکشن لڑیں گی اور یہ کہ "جو لوگ میرے ارد گرد ہیں'بتاتے ہیں کہ ایک خاص  رول میرے لیے مخصوص ہے"دھرنا مسلم لیگ نون کی وفاقی  حکومت کے لیے چیلنج بنا تو یہ دونوں باپ بیٹی کہاں تھے؟

یہ دونوں پیش منظر سے غائب ہوگئے!انہوں نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بیان  سامنے آیا نہ ردِ عمل !مذاکرات کی کوشش کی  نہ اپنی پارٹی  کی حکومت کی کوئی مدد کی!

دونوں باپ بیٹی کا 'دھرنے سے پہلے 'تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی بیان میڈیا پر جلی حروف اور بلند آواز  میں ضرور  دکھائی اور سنائی دیتا تھا۔ دھرنے کے دوران دونوں  مہر بلب رہے!

اس خاموشی 'اس  تغافل 'اس بے نیازی 'اس عدم دلچسپی کی ممکنہ وجوہات کیا ہیں ؟

اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں  !اول یہ چاہتے ہیں کہ دھرنے کی وجہ سے بدامنی پیدا ہو۔قتل و غارت گری ہو!عوام بدحال ہوں۔ ملک میں انارکی پھیلے۔ حکومت ناکام ہوجائے۔ ریاست انتشار کے دہانے پر پہنچ جائے۔ فوج کو مجبوراً امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے۔ پھر یہ صورتِ حال شریف خاندان کے لیے یوں ہو جیسے اللہ دے اور بندہ لے۔ شوق شہادت تکمیل تک پہنچے۔ میاں صاحب اور ان کی دختر"فوجی آمریت"کے خلاف پرچم لے کر نکلیں اور فاتح بن کر لوٹیں ! دوم:دھرنے کی پشت پر یہی ہوں !اگر ایسا تھا تو یہ کس منہ سے دھرنا ختم کرنے لیے کوئی کردار ادا کرتے۔

 سوم!یہ دھرنے کی پشت پر نہیں تھے نہ ہی اپنی پارٹی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ مگر ان میں اتنی قابلیت 'اتنی لیاقت 'اتنی ذہنی سکت ہی نہ تھی کہ حالات کو نارمل کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرتے!انہوںنے عملی اعتبار سے پارٹی کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا کیوں کہ ان کے پاس  کہنے کو کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم نے سڑکیں بنائیں اور سوائے یہ پوچھنے کے کہ کیوں نکالا!ہم سمجھتے ہیں کہ تیسری وجہ ہی زیادہ امکانی لگتی ہے!کیوں کہ جو شخص وزارتِ اعظمٰی کے چار سالوں کے دوران کوئی سنجیدہ اجلاس  اٹنڈ نہ کرسکا 'کوئی فائل پڑھ سکا ہو نہ کسی فائل پر کچھ لکھ سکا ہو'خارجہ امور پر یا ملک کے اندرونی مسائل پر پانچ منٹ مربوط اور قابلِ فہم  گفتگو کرنے کے قابل نہ ہو'وہ اتنا ادراک اور شعور کہاں سے لاتا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات کرتا یا مذاکرات کی نگرانی کرتا

دھرنے والے کہاں سے آئے تھے؟

لاہور سے!

کہاں سے گزرے تھے؟

جی ٹی روڈ سے

لاہور اور جی ٹی روڈ پر کس کی حکومت ہے؟

شہباز شریف کی!

شہباز شریف کس پارٹی سے ہیں ؟

مسلم لیگ نون سے؟

تو پھر انہوں نے دھرنے والوں کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے پہلے کسی مقام پر روکا کیوں نہیں ؟

اس کی ممکنہ وجوہ بھی وہی ہیں جو اوپر  بیان کی جا چکی ہیں ! ایک اضافی وجہ 'جو چوتھی وجہ ہوسکتی ہے'یہ ہے کہ وہ اپنے یعنی پنجاب حکومت کے سر سے یہ بلا اتارنا چاہتے تھے تاکہ کسی مرحلے پرکوئی ذمہ داری ان پر نہ آن  پڑے!

 صرف باپ بیٹی کی نااہلی کے نکتہ نظر سے مسئلے کو  دیکھنا  تنگ نظری ہوگا!یہ دھرنا ملک کو صدیوں  پیچھے لے گیا ہے!اس نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی شخص بھی دو اڑھائی ہزار افراد لے آئے'کسی شہ رگ جیسی شاہراہ پر قابض ہوجائے تو رہاست کو بے بس اور حکومت کو مفلوج کرسکتا ہے!حکومت'عدالتیں 'کچھ بھی نہیں کرسکتیں!

اس دھرنے نے پارلیمنٹ کی بے وقعتی پر مہر تصدیق  ثبت کردی ہے۔ ان اکیس دنوں میں  پارلیمنٹ کے کسی ایوان نے صورتِ حال پر بحث کی نہ حل تلاش کیا  نہ کوئی ذمہ داری اٹھائی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منتخب نمائندے آگے بڑھتے ،دھرنے والوں  سے بات چیت کرتے اور  عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ! ڈاکٹر  فضل چوہدری دارالحکومت کے عوامی نمائندے ہیں پانامہ کیس کے دوران یہ پیش منظر  پر مسلسل چھائے رہے۔ دوسرے عوامی نمائندے دارالحکومت سے اسد عمر تھے۔ راولپنڈی سے عوامی نمائندے شیخ رشید تھے جو ٹیلی ویژن کے پردہء سیمیں  پر اینکروں سے زیادہ نظر آتے ہیں  !حنیف عباسی اس وقت اسمبلی میں نہیں مگر راولپنڈی کی مسلم لیگ نون کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے۔آپ اندازہ لگائیے'جڑواں شہروں کے لاکھوں باشندے دھرنے  کے اکیس دنوں  کے دوران  سُولی پر  لٹکے رہے۔ اذیت کی آخری انتہا سے دوچار رہے۔ ایمبولینسیں  رکتی رہٰیں ،مریض  راستوں  میں دم توڑتے رہے۔ طلبہ درس گاہوں اور امتحان گاہوں میں پہنچنے سے قاصر رہے ۔تاجروں  کو کروڑوں اربوں کا نقصان ہوا۔ دونوں شہروں  کے درمیان آمدورفت  کا سلسلہ منقطع رہا۔ مسافر بسوں کے اڈوں  'ریلوے اسٹیشنوں  اور ائیرپورٹوں  تک نہ پہنچ پائے ۔ مگر ان عوامی نمائندوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھا۔ کیا اسد عمر اور کیا  ڈاکٹر فضل چوہدری 'کیا شیخ رشید اور کیا حنیف عباسی !کسی نے دھرنے والوں کی آکر منت نہ کی کہ آپ کے مطالبات جائز ہوں گے مگر عوام کو سزا نہ دیجیے! ہزار طریقے ہوسکتے تھے ۔ جگہ تبدیل کرنے کے لیے بدلے میں 'اسد عمر اور شیخ  رشید'دھرنے کا  حصہ بننے پر آمادہ ہوجاتے'حنیفف عباسی اپنی حکومت پر دباؤ ڈالتے مگر افسوس! صد افسوس! ان میں سے کسی نے بھی عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا نہ عوام کو اذیت سے رہائی دینے کے لیے ایک انچ اپنی جگہ سے ہلے ۔

اور عمران خان؟عمران خان اپنےآپ کو متبادل قیادت کے لیے پیش کرتے ہیں!مسلم لیگ نون  کی دشمنی بالائے طاق رکھتے ہوئے'عمران خان ذرا بلند سطح پر سوچتے اور عوام کو اس یرغمالی کیفیت  سے نکالنے  کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ۔ وہ دھرنے والوں کےسامنے کھڑے ہوکر تائید کرتے'تالیف ِ قلب کرتے'مگر ساتھ ہی منت سماجت کرتے کہ عوام کی آمد ورفت مسدود نہ کیجئے۔اگر عمران  خان کوئی مثبت کردار ادا کرتے اور کامیابی سے ہمکنار  ہوجاتے تو ان کا قد اور بلند ہوجاتا ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا  مگر وہ بظاہر الگ تھلگ رہے گویا غیر جانبدار تھے۔ مگر ایسی غیر جانبداری کا کیا فائدہ جو عوام کےدکھ درد سے بے نیاز ہو!

بلاتبصرہ۔ اتوار کے دن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال راولپنڈی سے جو دو پولیس اہلکار غائب ہوگئے تھے 'وہ پیر کے دن فیض آباد  کے قریب  'سڑک کے کنارے پڑے ملے۔جسموں پر تشدد کے نشانات تھے۔ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور بدن پر خراشیں تھیں !انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں  وہ داخل کرلیے گئے۔ ڈاکٹروں  کے بیان کی رُو سے 'انہیں اندرونی زخم  بھی آئے ہیں ۔ایک کی بائیں  کہنی ٹوٹ  چکی تھی۔ دونوں  کو لاٹھیوں اور پلاسٹک چڑھی تاروں  سے پیٹا گیا  تھا۔ ڈی ایس پی سٹی سرکل نے بتایا کہ دونوں سرکاری اہلکاروں کو اغوا کے بعد فیصل آباد کے قریب خیمے میں رکھا گیا اور بے رحمی سے مارا پیٹا گیا۔

ان دونوں  کو ہسپتال سے اٹھایا گیا تھا۔ہسپتال  یہ دونوں اہلکار کیوں آئے تھے؟یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ ہنگاموں کے درمیان جوافراد ہلاک ہوگئے تھے 'یہ اہلکار ان کی لاشیں  پوسٹ مارٹم کے لیے لائے تھے ۔ساتھ ہی احتجاجی بھی پہنچ گئے ۔کوئی رپورٹ تھی یا  فارم'احتجاجی کہتے تھے اس پر یوں لکھو 'پولیس والے ان کی بات مان نہیں رہے تھے۔ ہجوم نے پہلے ایک کو مارنا  شروع کیا'گھسیٹ کر اسے باہر لائے 'گاڑی میں ڈالا اور لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر دوسرے کو بھی مارتے ہوئے لے گئے۔تیسرا پولیس اہلکار کسی طرح بچ نکلا۔

پس نوشت نمبر(1) میڈیا نے خبر دی ہے کہ عالم بالا میں صدر جنرل ضیاء الحق شاداں و فرحاں  ہیں اور  سراپا تبسم ہیں ! بار بار اپنے آپ سے کہتے پائے گئے کہ یہ ہے وہ پاکستان جو میں چاہتا  تھا۔ اگرچہ یہ دن میری زندگی میں  نہ آسکےتاہم اطمینان یہ ہے کہ بنیاد اس کی میں نے ہی رکھی تھی۔

پس نوشت نمبر(2)پاکستانی پاسپورٹ  پر ایک کالم مذہب کا بھی ہے کہ پاسپورٹ کا حامل کس مذہب کا پیروکار ہے۔کیا ایسا کالم دنیا کے کسی اور ملک یا ممالک کے پاسپورٹوں  پر بھی پایا جاتا ہے؟قارئین سے التماس ہے کہ رہنمائی کریں ۔            

این او سی

$
0
0

نکاح شروع ہونے تک سب ٹھیک تھا۔دلہا کا   اور برات کا  گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ۔پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں  ۔ نغمے گائے گئے 'شادیانے بجائے گئے۔ساس نے ہونے والے داماد کی بلائیں لیں ۔ برات میں آنے والوں کو بہترین صوفوں پر بٹھایا گیا۔بلور کے گلاسوں میں   مشروبات پیش کیے گئے۔ تین ٹرک تیار تھے جنہوں نے دلہن کی رخصتی کے ساتھ جہیز کا سامان لے کر جانا تھا ۔تازہ ترین ماڈل کی کار اس  کے علاوہ تھی۔ ایک محل نما  مکان دلہن کے نام دیا گیا تھا۔ اس شادی کا سب سے خوش کُن پہلو یہ تھا کہ لڑکی اور لڑکے کی پسند کی شادی تھی جسے دونوں طرف کے ماں باپ اور دیگر بزرگوں نے دلی مسرت کے ساتھ منظور کیا تھا۔
 سب کچھ ٹھیک جارہا تھا۔ عین نکاح سے پہلے دلہن  کے باپ نے این او سی مانگا ۔دلہا نے اپنے  باپ کی طرف دیکھا 'باپ نے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھا ۔ این او سی نہیں تھا 'دلہا کے باپ نے ملتجیانہ لہجے میں گزارش کی کہ شادی کی تقریب کے بعد اولین فرصت میں این او سی فراہم کردیا جائے گا۔ دلہن کے باپ نے امید افزا نظروں سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا'مگر ،مولوی صاحب نے نکاح کا رجسٹر اٹھایا  دامن جھاڑا اور یہ کہہ کر چل دیے کہ جب این او سی  آجائے  تو بلا لیجیے گا  برات  واپس چلی گئی۔

انٹر ویو بہت اچھا ہوا ۔امیدوار نے بورڈ کے ارکان کے سب سوالوں کے جواب اطمینان بخش دیے۔ تحسین ہوئی 'نتیجہ اسی وقت بتا دیا گیا۔اسے ملازمت کے لیے سلیکٹ کرلیا گیاتھا۔ دوسرے دن اوریجنل دستاویزات کے ساتھ ہیڈ آفس حاضر ہونا تھا اور ملازمت جوائن کرنا تھی۔اس نے ان ہدایات پر پورا پورا عمل کیا ۔تمام دستاویزات لینے کے بعد ہیڈ کلرک نے این او سی مانگا۔

 اس کا تو نہیں بتایا گیا تھا!

"بھائی بتانے نہ بتانے کا سوال نہیں  'این او سی لازم ہے۔وگرنہ جوائن نہیں کرسکیں گے"۔

"مجھے فیکٹری کے مالک سے بات کرنے دیجیے۔وہ خود انٹر ویو میں موجود تھے"۔

ہیڈ کلرک نے  ایک ادائے بے نیازی سے اسے دیکھا 'پھر زیرِ لب مسکرا کر کہنے لگا۔

 فیکٹری کے مالک کچھ نہیں کرسکتےبھائی!وہ تو خود ہر ہفتے اپنے بارے میں وضاحتیں  جاری کرتے پھر رہے ہیں "۔

منہ لٹکائے کامیاب امیدوار ناکام واپس ہوگیا۔

یہ حلف برداری کی تقریب تھی۔ نئی کابینہ نے حلف اٹھانا تھا۔ نامزد  وزراء  نئی شیروانیاں پہنے آئے ہوئے تھے۔تقریب ایوان صدر میں  تھی سول اور ملٹری کے ٹاپ کے افسران بمعہ بیگمات مدعو تھے۔ قومی اور بین الاقوامی پریس کے نمائندے موجود تھے۔وزیراعظم آچکے تھے بس اب صدر مملکت کا انتظار تھا۔ ان کے آتے ہی تقریب کا آغاز ہوجانا تھا وہ دیکھیے'صدر صاحب تشریف لارہے ہیں ان کے پیچھے پیچھے ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی 'سمارٹ وردیوں میں ملبوس فوجی وقار کے ساتھ چل رہے تھے۔صدر مملکت ڈائس  کے سامنے کھڑے ہوکر فائل کھولتے ہیں 'حلف اٹھانے  والے وزراء بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی اپنی فائل کھول کر حلف نامہ سامنے  رکھتے ہیں ۔ صدر صاحب نے پڑھنا شروع کردیا۔ ابھی"میں "ہی کہا تھا کہ ایک طرف سے سپاہیوں کا شور سنائی دیا 'پھر ایک مولانا آتے  دکھائی دیے سر پر دستار تھی اور کاندھے پر چار خانے والا زرد رومال! انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے صدر صاحب کو روکا اور گرج کر پوچھا "ان حلف برداروں کے این او سی کہاں ہیں ؟پیش کیے جائیں"

صدر صاحب رُک گئے وزیراعظم اٹھ کر کھڑے ہوگئے 'حلف اٹھانے والے نامزد وزراء ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔وزیر اعظم کو پوچھا کون سا این او سی؟

مولانا نے ایک نگاہِ غلط انداز سے وزیراعظم کو دیکھا اور صرف اتنا کہا۔

آپ درمیان میں نہ بولیے۔

وزیراعظم خاموش ہوگئے این او سی نہیں تھے۔تقریب منسوخ ہوگئی 'صدر صاحب نے جھک کر مولانا کو سلام کیا اور ایک طرف ہوگئے۔مولانا نے ابروؤں کے اشاروں  سے صدر صاحب کے سلام کا جواب دیا اور باہر نکل گئے۔ پورے ہال میں ان  کے ٹھک ٹھک کرتے قدموں کے علاوہ کوئی آواز نہیں تھی ہر طرف مکمل سناٹا تھا!

یہ تینوں واقعات اس ملک کی  صورت احوال کو واضح کررہے ہیں  جس کا ذکر کیا جارہا ہے۔یہاں یہ وضاحت ازحد لازم ہے کہ اس ملک کا پاکستان سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں !

یہ ملک کسی معلوم برِ اعظم میں نہیں تھا۔ یہ عجیب و غریب ملک فضا میں اٹکا تھا۔ نیچے گرتا تھا نہ اوپر خلا کی طرف ہی جاتا تھا 'بظاہر  تو اس ملک کو چلانے کے لیے ایک عدد  حکومت موجود تھی صدر تھا جو ریاست کا سربراہ تھا ۔وزیراعظم تھا جو حکومت کا سرخیل تھا وزراء تھے'صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ  تھے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ  تھیں  بیورو کریسی تھی منتخب پارلیمنٹ  تھی۔ پوری ریاست اور حکومتی مشینری موجود تھی مگر اصل اقتدار اہل مذہب کے ہاتھ میں تھا۔

دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ اس ملک میں عملی زندگی کے حوالے سے مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری نہ تھا ۔چوری چکاری چور بازاری ڈاکے عام تھے ننانوے فیصد آبادی صبح شام جھوٹ بولتی وعدہ پورا کرنے کا مقررہ وقت پر پہنچنے کا 'اپائنٹمنٹ  ایفا کرنے کا کوئی تصور نہیں  تھا۔  رشوت عام تھی سفارش کے بغیر کام نہیں ہوتا تھا۔میرٹ کی صبح شام رات دن دھجیاں اڑتی تھیں ۔حقدار مارے مارے پھرتے تھے۔نااہل مزے کرتے تھےشرفا کونوں کھدروں میں  چھپ کر زندگی کے دن پورے  کرتے تھے۔ غنڈے بدماش اٹھائی  گیرے لچے لقندرے دندناتے پھرتے تھے۔ بچوں کا اغوا عام تھا۔ اغوا برائے تاوان باقائدہ انڈسٹری بن چکا تھا۔ گاڑیوں کی چوری اس قدر عام تھی کہ لوگ چوروں کو گاڑیوں  کا آرڈر دیتے تھے کہ فلاں ماڈل کی فلاں گاڑی درکار ہے !پورے ملک میں کوئی ایک کچہری'ایک تحصیل کوئی ایک پٹوار  خانہ نہ  تھا  جہاں  رشوت کے بغیر کام ہوتا ہو۔

 سب سے زیادہ خیانت اور بے ایمانی  وہاں کا تاجر طبقہ کرتا تھا ۔یہ چھ بڑے گناہوں میں مبتلا تھا اور یہ چھ کے چھ گناہ  ڈنکے کی چوٹ پر کرتا تھا ۔اول 'شے بیچتے وقت خوب خوب جھوٹ بولتا  اور نقص چھپاتا تھا'دوم۔ تاجر طبقہ کھانے پینے کی اشیامیں  ہولناک ملاوٹ کرتاتھا ۔گوشت کتوں اور گدھوں کا بیچتا تھا۔ مرچوں 'آٹے 'دودھ'گھی'مکھن'شہد کوئی شے خالص نہیں تھی۔ یہاں تک کہ جعلی دوائیں عام تھیں اور بچوں کا دودھ بھی خالص عنقا تھا۔ سوم'تاجر  طبقہ  ٹیکس چوری میں ٹاپ پر تھا اور ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کو کرپٹ کرنے میں بے مثال مہارت رکھتا تھا۔ چہارم'نوے پچانوے فیصد تجاوزات کے ذمہ دار یہ تاجر دکاندار  اور کارخانہ دار تھے! پورے ملک کو انہوں نے تجاوزات کے ذریعے یرغمال بنا کر بدصورت کیا ہوا تھا۔ پنجم'یہ لوگ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کرتے اور یوں صارفین کا بنیادی حق سلب کئے ہوئے تھے۔ششم 'یہ لوگ مال کمانے کے لیے مذہب کا استعمال بے دردی سے کرتے تھے 'اور لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرکے خو ب خوب مال بناتے تھے۔

مگر المیہ یہ تھا کہ تاجر اور مذہبی دونوں طبقے اس عجیب و غریب ملک میں  یک جان دو قالب تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی حفاظت اور سرپرستی کرتے تھے تاجر اناج کی بوریاں  مدارس میں بھیجتے تھے اور لاکھوں علما ء کو چندے اور مشائخ کو نذرانے میں  دیتے تھے اور اپنے تئیں  سمجھتے تھے کہ کارِ خیر کررہے ہیں اس کے بدلے میں اہلِ مذہب 'تاجر طبقے کو ان چھ برے اعمال سے منع نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ممکن طریقے سے تاویلات اور توجیہات کرکے  مزید حوصلہ افزائی کرتے تھے مثلاً  کبھی یہ مذہبی طبقہ سمگلنگ کو تجارت قرار دیتا تھا اور کبھی ٹیکس نہ دینے کا جواز گھڑتا تھا۔

 معاشرے میں موجود ان جرائم 'گناہوں اور مکروہات او لعنتوں سے مذہبی طبقہ مکمل بے اعتنائی برتتا 'مگر جس کو چاہتا کافر قرار دے دیتا۔یوں  مسلمان کہلانے کی خاطر'کیا عوام اور کیا خواص 'سب ان مذہبی لیڈروں علماء اور مشائخ  کے دست نگر تھے'ان کے سامنے بے بس تھے اور  عملاً ان کے  ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے۔

مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ یا این وا سی جاری کرنا کاروبار  بن گیا تھا۔ دکانیں کھل گئی تھیں۔این او سی لینے والے منہ مانگے دام ادا کرتے تھے ۔،ہرعقل مند شخص  دوسرے کو  نصیحت کرتا تھا کہ این او سی لو اور جو چاہے کرو! 


آخر آرمی چیف ہی کو کہنا پڑا

$
0
0

آرمی چیف کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

پہلے مگر یہ ماتم ہوجائے کہ جو کچھ آرمی چیف نے کہا'افسوس اس کا ادراک حکومت کے سربراہ کو ہے نہ ریاست کے صدر کو۔ جو سیاستدان گزشتہ چار سال حکومت کا سرخیل رہا'اس کی فہم و فراست کا کیا ہی کہنا ۔ جس کے نزدیک ترقی کا مطلب صرف اور صرف شاہراہوں کی تعمیر ہے'جس کے بارے میں عقلمندوں کو یقین ہے کہ عدالتوں کے وہ فیصلے بھی خود نہیں پڑھتا جو اس کی قسمت کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ جو کوئی سنجیدہ اجلاس اٹینڈ نہیں کرسکتا۔ اور جس کے متعلق ایک معروف کالم نگار نے چند دن پہلے کمنٹ کیا ہے کہ وہ نیم خواندہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ کالج میں 'دوران تعلیم 'اس کی جگہ امتحان کوئی اور ہی دیا کرتا تھا۔ کیا اہل ِ پاکستان نے کبھی سوچا ہے کہ تاریخ کا استعجاب کتنا گہرا ہوگا ؟ فرض کیجئے 'نظام سقہ'ایک دن کے بجائے'تین بار بادشاہ بنتا اور سالہا سال حکمرانی کرتا تو آج ہم تاریخ میں کیا پڑھ رہے ہوتے ؟

مگر افسوس! صد افسوس! موجودہ وزیراعظم بھی گہرائی سے دور ہیں ۔ کوسوں دور۔ گمان غالب یہ ہے کہ فزیکل انفراسٹرکچر کے علاوہ وہ بھی کچھ نہیں سوچتے ورنہ جو نکتہ آرمی چیف نے اٹھایا ہے 'وہ نکتہ حکومتی سربراہ کے فرائض منصبی میں سرِ فہرست ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے حکمرانوں کو احساس ہے نہ ادراک کہ تعلیمی نظام 'زرعی اصلاحات اور سرداری نظام کا بتدریج خاتمہ 'ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔  یہی لیل و نہار رہے'سیاستدانوں کی سوچ اسی طرح غیر متوازن رہی اور مسائل پر ان کی اپروچ اسی طرح لولی لنگڑی اپاہج رہی توکل کسی آرمی چیف کو زرعی اصلاحات  'فیوڈل سسٹم کے خاتمے اور اقتصادی ترجیحات پر بھی بات کرنا پڑے گی۔ ارباب حکومت سوچیں نہ لائحہ عمل دیں 'کوئی اور بولے تو فریاد کریں کہ دخل  در معقولات ہے۔ عجب دھاندلی ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ وہ دینی مدارس  کے خلاف بالکل نہیں  ۔ تاہم صرف مذہبی تعلیم کی وجہ سے وہ ترقی کی دوڑ میں  پیچھے رہتے جارہے ہیں ۔ رائٹر کے مطابق آرمی چیف نے یہ بھی کہا ہے کہ پچیس لاکھ طلبہ  مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔ تو وہ کیا بنیں گے ؟ مولوی یا دہشت گرد؟ کیونکہ اس قدر بھاری تعداد کو کھپانے کے لیے نئی مسجدیں بنانا تو ممکن ہی نہیں ۔ انہیں صرف دینیات پڑھائی جارہی ہے۔ ان کے لیے کیا امکانات ہیں ؟ ان کا مستقبل کیا ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن سے مفر نہیں ۔ آج اگر ان سوالات کے جواب نہ ڈھونڈے  گئے اور آنکھیں بند کرلی گئیں تو کل یہ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ ان کے مضمرات کہیں  زیادہ دور رس ہوں گے۔

سب سے  بڑی اور پہلی ذمہ داری تو خود مدارس کے ارباب قضاد قدر کی ہے کہ ان سوالوں کے جواب تلاش کریں  ۔ ہر مسلک کے مدارس کا اپنابورڈ ہے۔ پھر ان کے اوپر بھی ایک  باڈی ہے ۔ کیا ان بورڈز یا اس باڈی  کے  پاس اعداد و شمار موجود ہیں جو بتا سکیں کہ ہر سال مدارس سے کتنے طلبہ فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں اور کن کن شعبوں میں ان کی کھپت ہوتی ہے ؟ کیا گزشتہ دس یا پندرہ یا پانچ سال کا ڈیٹا اس حوالے سے موجود ہے ؟ مدارس کے بڑے صاحبان نے کیا اس موضوع  پر کوئی اجلاس 'کوئی سیمینار 'کوئی ورکشاپس کبھی کی ہیں ؟

 مدارس کے بعد تعلیم کی  وفاقی اور صوبائی وزارتوں کا فرض تھا کہ اس معاملے کو سلجھائیں اور اس پر ایک واضح  پالیسی بنائیں ۔ اٹھارویں  ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے۔ کیا ہر صوبے کو معلوم  ہے کہ اس کی حدود میں کتنے مدارس  نئے بن رہے ہیں ؟ پرانے کتنے ہیں اور طلبہ کی کھپت کہاں کہاں ہورہی ہے؟

یہ جو آرمی چیف  نے کہا ہے کہ وہ دینی مدارس کیخلاف نہیں ۔ تو حقیقت یہ ہے کہ کوئی معقول متوازن پاکستانی دینی مدارس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ صرف وہی طبقہ مدارس کے خلاف ہے جو سوچنے سمجھنے سے عاری ہے اور مضمرات سمجھے بغیر لاٹھی چلا دیتا ہے۔ خلاف تو لوگ یہاں پاکستان کے بھی ہیں جس کا کھا رہے ہیں ۔

شورش! تیرے خلاف زمانہ ہوا تو کیا

کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں ۔

مدارس میں زیر تعلیم بچے ہمارے ہی  بچے ہیں ۔ ہم مدارس کے خلاف کیسے ہوسکتے ہیں؟ہاں ! اگر کوئی مدارس کے ضمن میں بنیادی سوالات اٹھاتا ہے ،جیسےآرمی چیف نے اٹھائے ہیں'تو ایسے سوالات اٹھانے والے کو مخالف نہیں سمجھنا چاہیے'نصاب کے پہلو کو چھوڑئیے'کچھ دیگر معاملات ہیں جن پر اہل مدارس کو اپنی پالیسی 'اپنی سوچ اور اپنی منصوبہ بندی واضح کرنی چاہیے۔نازک ترین پہلو اساتذہ کا ہے۔ مدارس میں تین طبقے مصروف کار ہیں ۔مالکان یا انتظامیہ !دوم طلبہ'سوم اساتذہ۔غالباً  سب سے زیادہ محروم  توجہ اساتذہ کا طبقہ ہے۔ ان کی تنخواہیں  قوت لایموت سے بھی نیچے ہیں ۔ مدارس کی اکثریت اساتذہ کے لیے کسی رہائشی  پالیسی سے نابلد ہے۔ ان کی پنشن کا کوئی بندوبست نہیں ۔ جی پی فنڈ یا کنٹری بیوٹری فنڈ کا سسٹم ناپید ہے۔ علاج معالجہ الاؤنس ہے نہ انتظام ۔ کم سے کم تنخواہ کا  تصو رہی نہیں ۔ کیا مدارس کے مالکان اور منتظمین نے کبھی اساتذہ کی تنخواہوں کے سکیل بنائے ہیں ؟ کیا سالانہ ترقی کا سلسلہ اطمینان  بخش ہے؟ کیا ان اساتذہ کے مالی تحفظ کے لیے انہیں  مختلف کیڈرز میں تقسیم کیا گیا ہے؟

رہے طلبہ'تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مدارس عطیات پر چلتے ہیں ۔ کیا عطیات کا معتدبہ حصہ طلبہ ہی پر خرچ ہوتا ہے؟ کیا کوئی ادارہ ایسا ہے جو طلبہ کو فراہم کی جانے والی خوراک کا معیار چیک کرے؟ آخر ان طلبہ کو سونے کے لیے پلنگ اور کلاس روموں میں میز کرسی مہیا کرنے میں کیا مانع ہے؟ اس ضمن میں "بزرگوں"کا مائنڈ سیٹ بھی انتہائی اذیت ناک ہے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ امریکہ میں قائم ایک دینی مدرسہ کے طلبہ کلاس روموں میں میز کرسی پر بیٹھتے ہیں ۔ایک پاکستانی "بزرگ"وہاں گئے تو یہ ریمارک دیا کہ اس میں برکت نہیں ۔ کیا سعودی عرب کی اسلامی یونیورسٹیوں میں طلبہ فرش پر بیٹھتے ہیں ؟ کیا ام القریٰ یونیورسٹی برکت سے محروم ہے؟ آخر مدارس کے مالکان  نے اپنے دفتروں اور  دیوان خانوں میں صوفے بھی تو رکھے ہوئے ہیں ۔

مدارس کے طلبہ کا ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ یہ ہے کہ وہ آٹھ سال تک ایک بند ماحول میں رہتے ہیں اس عرصہ میں ان کا میل جول کسی  دوسرے مکتب فکر کے اساتذہ یا طلبہ سے نہیں ہوتا۔ ہر مدرسہ  کے ساتھ ملحق مسجد بھی 'ظاہر ہے اسی مکتبِ فکر کی ہوتی ہے۔ اس کا ایک فوری حل یہ ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے مدارس کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوں اور اکثر و بیشتر ہوں ۔ یوں ان طلبہ میں برداشت کا مادہ بھی پیدا ہوگا اور انہیں یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ دنیا میں ان کے مکتب فکر  کے علاوہ دوسرے سلسلے موجود ہیں اور سب کو مل جل کر اسی ملک میں زندہ رہنا ہے۔

 یہی مدارس تھے جن میں ستر اسی سال پہلے ہر مکتب فکر 'دوسرے مکتب فکر کو محبت سے برداشت کرتا تھا ۔ جب درس کا سلسلہ انفرادی اساتذہ سے عبارت تھا تو مکاتب فکر اور فرقوں کی باہمی تقسیم اس قدر شدید نہ تھی 'اگر ایک شیعہ عالم دین 'صرف  نحو کا ماہر تھا تو غیر شیعہ طلبہ بھی اس کے پاس آکر علم کی پیاس  بجھاتے تھے۔ اگر فلسفہ پڑھانے کے لیے کوئی دیو بندی یا بریلوی عالم معروف تھا تو اس کے پاس دوسرے مسالک کے طلبہ بلا کھٹکے آکر پڑھتے تھے'رہتے تھے'معاشرتی چادر میں کوئی سوراخ نہ تھا ۔جون ایلیا جو خاندانی اعتبار سے شیعہ تھے'اپنے مجموعہ کلام "شاید"کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ انہو ں نے فلسفہ دیوبندی اساتذہ سے پڑھا۔ یہ جو آج ریل کے ڈبوں میں اس قدر شدید درجہ بندی ہے کہ ایک ڈبے کا مسافر دوسرے ڈبے کے پائیدان پر پاؤں تک نہیں رکھ سکتا تو ڈبوں کے منتظمین کو سوچنا چاہیے کہ انجن تمام ڈبوں کے آگے ایک ہی لگا  ہوا ہے۔ اور منزل بھی ایک ہی ہے۔

نازک ترین مسئلہ مدارس کی فنڈنگ کا ہے۔ حساس!حد درجہ حساس! کیونکہ اس میں مدارس کی پرورش و کفالت کے علاوہ بھی "بہت کچھ "شامل ہے ۔ یہاں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے 'جس پر غور کرنے کے لیے مدارس کے مالکان کبھی تیار نہیں  ہوتے۔ وہ یہ کہ جب مدارس  کے لیے عطیات مانگے جاتے ہیں تو عطیات دینے  والوں  پر یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ مالکان کے ذاتی اور خانگی مصارف بھی انہی عطیات سے پورے ہوں گے۔ یقیناً ایسے مدارس موجود ہیں جن کے مالکان ذاتی اور خانگی مصارف عطیات سے نہیں پورے کرتے۔ ان کے اپنے کاروبار ہیں اور مختلف ذرائع آمدنی ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے مالکان جن کی ذات عطیات سے  بے نیاز ہے'کم ہیں ۔ بہت کم۔

یہاں ایک گزارش اور کرنی لازم ہے۔ جب مدارس کے ہم جیسے خیرخواہ 'کچھ سوالات اٹھاتے ہیں تو آگے سے الزامی جواب آتا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خبر لو۔ کیا وہاں سب ٹھیک ہے؟ایسا الزامی جواب مدارس اور اہلِ مدارس  کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ بھی تو دیکھیےکہ کالجوں 'یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے نوجوان مسجدوں کے چکر میں نہیں پڑتے۔

یہ آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ دارالحکومت کے ایک ایسے سیکٹر میں کرائے کا مکان ملا جو خوشحالی کے لیے معروف تھا اور وی وی آئی پی سیکٹر کہلاتا تھا۔نماز کے لیے سیکٹر کے مرکز میں واقع خوبصورت عالی شان مسجد میں جانا ہوتا تھا۔ ایک دن  ایک صاحب نے بتایا کہ آپ چھ سات منٹ کی مسافت پر کیوں جاتے ہیں ۔ آپ کی سٹریٹ کے آخر میں ایک مسجد ہے جو ایک ڈیڑھ منٹ کی مسافت پر ہے۔ اس مسجد میں گئے۔ یہ مسجد ایک گندے نالے کے اوپر ایسی جگہ پر بنائی گئی تھی جہاں تعمیر کی اجازت نہ تھی۔ کچا ڈھانچہ تھا۔ ساتھ ہی دو کمروں کے کچے ڈھانچے تھےجن میں "مدرسہ"قائم کیا گیا تھا۔مسجد کے صحن میں نماز پڑھی۔نماز پڑھنے کے دوران گندے نالے سے جو بدبو  آ رہی تھی'اسے یاد کرنے سے اب بھی دماغ میں ناخوشگوار لہر اٹھتی ہے۔ رہا ترقیاتی  ادارہ تو مرتا کیا نہ کرتا 'کچھ عرصہ بعد اسے "منظوری"دینا پڑی'اس لیے کہ مسجد بن گئی  تو بن گئی۔

مگر جن مولوی صاحب نے اس زمین پر مسجد بنائی یا بنوائی

'انہیں  مطعون کرنا ناانصافی ہوگی۔اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے نوجوان مولوی کو سالہا سال تک اپنی تحویل میں رکھا اور اس قابل چھوڑا ہی نہیں  کہ وہ مسجد کو ذریعہ معاش بنانے کے علاوہ بھی کچھ کرسکے۔




ہوائی اڈے سے کھیل کے میدان تک

$
0
0

1960ء کی دہائی کا وسط تھا۔ایوب خان کی بادشاہی عروج پر تھی ۔ دارالحکومت زیرِ تعمیر تھا۔ابھی وفاقی وزارتیں اور محکمے زیادہ تر راولپنڈی کی آغوش میں تھے ۔ حکومت نے  ایک رواج سا بنا لیا تھا کہ جب بھی کوئی غیر ملکی آتا سکولوں کے طلبہ و طالبات کو چک لالہ ائیر پورٹ پر لائن حاضر کیا جاتا ہے۔ ننھے ننھے ہاتھوں میں مہمان اور میزبان ملک کی جھنڈیاں  پکڑائی جاتیں ۔بچے نغمے گاتے مہمان شخصیت یہ "ویرائٹی"پروگرام چند اڑتے لمحوں کے لیے دیکھتی اور پھر لیموزین میں بیٹھ کریہ جا وہ جا ۔ واپسی پر ان بچوں اور بچیوں کو ذلت اور خواری اٹھانا پڑتی ۔ کبھی کھلے ٹرکوں میں ڈالے جاتے ، کبھی بسوں کی چھتوں پر بٹھائے جاتے'کچھ رُلتے کچھ ٹھوکریں کھاتے۔ اس وقت عدالتیں تھیں ۔ مگر شاید"از خود"نوٹس کا کلچر نہ تھا۔پریس زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔

پھر ایک حادثہ پیش آیا،بچوں کو ہوائی اڈے لے جایا جارہا تھا یا ان کی واپسی تھی۔ کھلے ٹرک میں بیٹھےتھے۔ نہ جانے کیا ہوا۔  شاخ کسی درخت کی جھکی ہوئی تھی یا درخت سے ٹوٹ کر ایک طالب علم کے سر پر گری ۔ تفصیل یاد نہیں کالم نگار گیارہویں یا بارہویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ لڑکا ہلاک ہوگیا۔ اگر یادداشت غلطی نہیں کررہی تو  اس کے والد پروفیسر عاشق گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن میں  انگریزی کے استاد تھے ،ہماری کلاس کو نہیں پڑھاتے تھے مگر وہ ہمیشہ سفید براق قمیض اور  سفید براق پتلون زیب تن کرنے کے لیے کالج میں معروف تھے۔ کسی عدالت نے اس  ظلم، دھاندلی اور قتل کا نوٹس نہ لیاہوگا نہ پریس ہی واویلا مچا سکی ہوگی! آمریت تھی ایوب شاہی آمریت!!

اس سانحے کو نصف صدی گزر چکی ہے ۔وہ 1965ء یا 66ء تھا ۔ یا اس کے لگ بھگ ،اب نئی صدی کے سترہ سال بیت چکے۔ عدالتیں خواب استراحت کی طویل رات گزار کر بیداری کی نئی لہر پر بیٹھ چکیں ۔الیکٹرانک میڈیا کی آزادی دور افتادہ بستیوں میں ہونے والے معمولی واقعات کو بھی بریکنگ کی شکل میں ہائی لائٹ کررہی ہےاسمبلیاں  ہیں جمہوریت  ہے۔ مگر افسوس! صد افسوس! سکولوں کے بچے بچیاں اب بھی غلام زادوں  اور کنیززادیوں کی طرح ہانک کر ہوائی اڈوں پر حاضرکی جارہی ہیں ۔ یعنی؎

انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں

سارے ضمانتوں پہ رہا کردئیے گئے!

تمام پرنٹ میڈیامیں تصویر چھپی ہے الیکٹرانک میڈیا  پر بھی دکھائی گئی ہوگی ،دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر پرنس کریم آغا خان کا استقبال ہورہا ہے۔وفاقی وزیر برائے کیڈ  تصویر میں سرجھکائے پرنس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ساتھ سکولوں کی بچیاں  نظر آرہی ہیں۔چھ سات سال سے آٹھ نو سال تک کی عمر کی بچیاں  !ان کے ہاتھوں میں جھنڈیاں ہیں جو وہ لہرا رہی ہیں  ۔یونیفارم غالباً سرکاری سکولوں کی ہے۔ سفید  شلوار،سفید قمیض اور نیلے رنگ کا ڈوپٹہ جو وی شکل میں سینوں میں  پڑا ہے ۔  یہ بچیاں کن سکولوں سے لائی گئ ہیں؟ کیا ان کے والدین سے اجازت لی گئی ہے؟ کیا انہیں معلوم بھی ہے کہ وہ کس کے استقبال کے لیے حاضر کی گئی ہیں ؟ پرنس کریم کو اگر ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول دیا جاتا ہے تو یہ حکومت کا اور پرنس کا معاملہ ہے۔ اس میں ان معصوم بچیوں کا کیا لینا دینا؟ پھر'آخر سرکاری سکولوں سے غریب عوام کی بچیاں ہی اس خدمت کے لیے کیوں اٹھائی اور لائی جاتی ہیں ان تعلیمی اداروں  کی بچیاں استقبال کے لیے کیوں کھڑی نہیں کی جاتیں جہاں امرا اور عمائدین کی شہزادیاں  زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں ؟ کیا دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے؟

مدرسہ حفصہ کی بچیوں کے ہاتھوں میں جب لاٹھیاں پکڑا کر انہیں شاہراہ پر لایا گیا تھا تو سوال  اٹھایا گیا تھا  کہ کیا ان کے والدین  نے اس مقصد کے لیے مدرسہ والوں کے سپرد کیا تھا؟ اسی سوال کا  اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے ۔والدین جب بچے یا بچی کو تعلیمی اداروں میں ڈالتے ہیں تو ایک خاموش معاہدہ طے پاتا ہے یہ معاہدہ ادارے کی انتظامیہ اور والدین کے درمیان ہوتا ہے اس کی رُو سے بچے یا بچی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ  کیا جائے گا۔ والدین اس کے اخراجات برداشت کریں گے ۔اس معاہدے سے ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ بچی کو ائیر پورٹوں پر استقبال کے لیے کھڑا کیا جائے گا۔ کسی مہذب 'قانون پسند ملک میں  ایسا ہوتا بھی تو والدین سے ایک سرٹیفکیٹ پر دستخط کرائے جاتے کہ ہمیں اس استقبال پر کوئی اعتراض نہیں  اور یہ کہ ہم اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ایسے سرٹیفکیٹ میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں  کون ذمہ دار ہوگا ؟والدین ؟یا تعلیمی  ادارہ ؟  

یہ تصویر اعلیٰ عدلیہ کے منصفوں  نے بھی دیکھی ہوگی۔ یہ سوالات  یقیناً ان کے بلند  فکر اذہان میں بھی  پیدا ہوئے ہوں گے۔ کیا عدالت ِ عظمیٰ  اس غلامانہ جبری رواج کو ختم کرنے کے لیے از خود نوٹس  لے گی؟

ریاست کی رِٹ یوں تو پورے ملک میں کہیں نہیں دکھائی دے رہی مگر  دارالحکومت تو بالکل ہی لاوارث بیوہ ہوچکا ہے۔ ایک نازوں پلا شہزادہ تیر اندازی کی مشق کررہا تھا۔ کوئی تیر ہدف پر تو کیا 'اس کے نزدیک بھی نہیں جارہا تھا۔ درباری مسخرہ ساتھ تھا۔ ہدف کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا کہ محفوظ ترین جگہ یہی ہے! دارالحکومت بھی لاقانونیت کا مرکز  بن چکا ہے۔ گاڑیاں چوری ہورہی ہیں ۔ ڈاکوؤں  کے گروہ سیکٹر سیکٹر ترتیب سے مصروف کار ہیں! پلازوں ہوٹلوں مارکیٹوں کی تعمیرات ترقیاتی ادارے کے قوانین کی دھجیاں  اڑا رہی ہیں۔ کوئی غیر قانونی  منزلیں آسمان کی طرف مسلسل لے جارہاہےاور کوئی زمین پر 'اپنی حدود کو وسیع سے وسیع تر کیے جارہا ہے۔ مگر ستم ظریفی اور بربادی کی آخری حد یہ آگئی ہے کہ قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کے سینے میں خنجر گھونپ رہے ہیں اور  مسلسل گھونپے جارہے ہیں ۔ دارالحکومت کے سیکٹر ایف ایٹ میں ترقیاتی ادارے نےایک گراؤںڈ فٹ بال کے لیےمخصوص کررکھا ہے۔ مبینہ طور پر وکیل برادری اس گراؤنڈ کو قسطوں میں ہڑپ کئے جارہی ہے۔ پہلے 2013ء میں  اس پر غیر  قانونی تعمیر کرائی گئی۔ اب گراؤنڈ کے ایک حصے پر وکیل حضرات اپنے چیمبر تعمیر کرانے پر تلے ہیں ۔ وکیل دلیل یہ لاتے ہیں کہ حکومت  وکیلوں کو چیمبر  بنانے کے لیے جگہ کیوں مہیا نہیں کررہی؟ہر سال بڑی تعداد میں نئے وکیل آتے ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے جگہ درکار ہوتی ہے۔مگر یہ دلیل بودی ہے۔اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ زد عوام کی سہولتوں پر پڑے اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرلیا جائے؟ترقیاتی ادارہ کتنے سالوں سے کہہ رہا ہے کہ کچہری ایف سے جی ٹین منتقل کی جائے گی! سوال یہ ہے کہ چیف کمشنر کا دفتر منتقل کرنا زیادہ ضروری تھا یا کچہری اور وکلاء کے ٹھکانے؟

کوئی ترتیب ہے نہ منصوبہ بندی ! پارکنگ کے لیے مخصوص کیے گئے مقامات پر ناجائز  دکانیں  سٹال اور کھوکھے بن چکےہیں۔

ترقیاتی ادارے  میں ایک مثبت تبدیلی ضروری ہے کہ سکہ بند نوکر شاہی کی جگہ منتخب میئر نے انتظامات کی عنان سنبھال لی ہے۔ میئر کی سیاسی وابستگی اپنی جگہ'مگر یہ ایک خوش آئند آغاز ہے۔ میئرفرشتہ نہیں ہوتا جسے عوام کے سامنے جواب دہی کا کوئی خیال ہوتا ہے نہ خوف! اسے تو اپنی اگلی تعیناتی کی فکر ہوتی ہے۔اصولی طور پر شہر کی ذمہ داری منتخب میئر کی ہی ہوتی ہےاسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کارکردگی جانچی  پرکھی ٓجائے  گی اور آئندہ انتخابات میں اسے پھر ووٹرز کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس وقت دارالحکومت کے میئر کے پاس ٹیم بھی لائق 'مستعد اور چُست ہے،جس کی قیادت یاسر پیرزادہ جیسا دانشور بیوروکریٹ کررہا ہے۔اس ٹیم نے لائبریریوں کی تزئین نو کر کے شہریوں کی ایک جائز شکایت بحسن و خوبی دور کردی ہے۔

مگر وکیل برادری سے نمٹنا آسان نہیں !معاملے کی نوعیت جو بھی ہو 'حکم امتناعی لے آنا وکیل برادری کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پولیس ہو یا کسی ادارے کی قوت نافذہ وکیلوں سے سب ہی ڈرتے ہیں!

میری وفات

$
0
0

سرما کی ایک یخ زدہ  ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات  ہوئی۔

اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح  ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی ۔ڈاکٹر نے دوائیں  تبدیل کیں  مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔

دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔جو بیٹا پاکستان میں تھا'وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں  دونوں یونیسف کے سروےکے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف  ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔رہے  دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں 'انہیں  پریشان کرنے کی کوئی تُک  نہ تھی !یوں  صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم!جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا  جاتا تھا۔

عصر ڈھلنے لگی تو مجھے  محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی 'بیوی کو پاس  بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور دوسروں کو ادا کرنا تھیں ۔بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا ۔"یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔ذرا  بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں "مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔پھر سورج غروب ہوگیا ۔تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔بیوی میرے لیے سُوپ بنانے  کچن میں  گئی۔اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔

مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں  آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں ۔پھر جیسےمیں ہوا میں تیرنے لگا  اور چھت کے قریب جاپہنچا۔بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔میں نے بولنے کی کوشش کی یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھامگر بول نہیں سکتا تھا۔

لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی ۔کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔شاعر'ادیب'صحافی'سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے ۔ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔

لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا 'مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی ۔شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔اسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔یہ کیفیت ختم ہوئی۔محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچکے ہیں ۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔"ہم تمھیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں ۔تم وہاں'دنیا میں 'کسی کو نظر نہیں آؤ گے'گھوم  پھر کر'اپنے پیاروں کو دیکھ لو'پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں  دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ۔ورنہ واپس آجانا۔"

میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا ۔راستے میں  کرنل صاحب کودیکھا ۔گھر سے باہر کھڑے تھے ۔اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔اپنے مکان کے گیٹ  پر پہنچ کر میں  ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں  دھچکا سا لگا۔گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں  موجود تھیں ۔تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی'کیا گاڑی کے بغیر تھی؟

دروازہ کھلا تھا۔میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔یہ کیا ؟کتابیں تھیں نہ الماریاں !رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی'صوفہ'اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں  اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں ۔بے شمار فوٹو البم'کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔ مجھے فارسی کی قیمتی'ایران سے چھپی  ہوئی کتابیں یاد آئیں 'دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے 'گلستان سعدی کا نادر نسخہ  جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ  الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا'داداجان اور والد صاحب  کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں ۔کمرہ یوں   لگتا تھا  'گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی 'جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔فاؤنٹین پینوں کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس 'پارکر'شیفر'کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔

میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟اچانک مجھے یاد آیا'میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے'سُوت سے بُنے ہوئے 'چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے۔ وہ غائب تھے۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا 'بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔میں نے اسے دیکھا۔پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی! میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔دوائیں باقائدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں ؟میں اس کے لیے باقائدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کررہے ہیں ۔مگر میں تو بول نہ سکتا تھا۔نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔جو کچھ اس طویل گفتگو سے میں سمجھا'یہ تھا کہ بچے اس مکان کو  فروخت کرنا چاہتے تھے۔ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔بچے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی! بیوی کو میری نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا  کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔

اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا ۔یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری  قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے لیا تھا!اچھا 'تو میرے  بیش بہا  ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچکے تھے!

میں ایک سال'لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر'سب کو دیکھتا رہا۔ایک ایک بیٹے'بیٹی کے گھر جاکر ان کی باتیں سنیں ۔کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کایعنی میرا ذکر آتا۔وہ بھی سرسری سا۔ہاں !زینب'میری نواسی'اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔"اماں یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھے جب میں  چھوٹی سی تھی۔اسے پھینکنا نہیں "ماں نے جواب میں کہا'"جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ 'پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو"۔

میں شاعروں ادیبوں  کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا ۔کہیں اپنا ذکر نہ سنا ۔وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے'جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں ۔ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔میری قبر کا برا حال تھا گھاس اگی تھی۔کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹا تھا۔ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔

ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔رمق بھر بھی نہیں ! بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچے'پوتے نواسےپوتیاں سب بھول چکی تھیں ۔ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔جن بڑے بڑے محکموں اور  اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چکے تھےاور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔دنیا رواں دواں تھی۔کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔گھر میں نہ باہر!

پھر تہذیبی'معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں 'ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچکا تھا۔میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔

فرض کیجئے 'میں فرشتوں سے التماس کرکے  دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں  خؤش آمدید نہ  کہا جاتا!بچے پریشان ہوجاتے'ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی! ہوسکتا ہے بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں  اضافہ کردیا ہے۔مکان بک چکا'میں ایک تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی'دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے یہ اب باقی بچے تھے ۔وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا  کررہے تھے!میں واپس  آتا تو دنیا میں  مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا ۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔جدید  بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!

میں نے فرشتے سے رابطہ کیا  اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں !فرشتہ مسکرایا۔اس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔

"ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا'کبھی بھرا نہیں جاسکے گا'مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!


اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار

$
0
0

کیا یہ ممکن ہے کہ  ہم مذہب کو سیاست سے نکال کر اپنی زندگیوں میں لے آئیں ؟

اس وقت مذہب 'جسے ہم دین بھی کہتے ہیں  'ہماری زندگیوں سے کوسوں دور ہے'یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہماری زندگیاں ہمارے مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں ۔ہاں 'سیاست اور تجارت میں مذہب کا استعمال زوروں پر ہے!تجارت میں مذہب کو کیسے استعمال بلکہ غلط استعمال
(misuse)
کیا جارہا ہے اس پر کئی بار بات ہوچکی ہے ۔یہ اور بات کہ اس کا تذکرہ بار بار کرنا چاہیے یہاں تک کہ مسئلہ ذہنوں  میں اجاگر ہوجائے۔

تاہم سیاست میں مذہب کا استعمال 'تجارت میں مذہب کے  استعمال سے زیادہ  خطرناک ہے۔کئی گنا خطرناک!سب سے بڑا  سبب اس کا یہ ہے کہ عوام  مذہب پر جان چھڑکتے ہیں !بدعمل سے بدعمل مسلمان بھی مذہب کا احترام کرتا ہے اور مذہب کے حوالے سے'یا واسطے سے کوئی بات اس سے کی جائے تو اسے رد نہیں کرتا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے رد کرے۔اسی لیے شاطر سیاستدان 'مذہب کا  لبادہ اوڑھتے ہیں ! وہ اپنے لیے نہیں 'مذہب کے لیے ووٹ مانگتے ہیں حالانکہ ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں ظاہری وضع قطع  کے سوا کوئی اور فرق نہیں !زندگیاں سب کی مذہب سے لاتعلق ہیں !

اب یہاں  ایک سیدھا سادہ سوال پیدا ہوتا ہے یہاں منطق 'کسی فلسفے 'کسی پی ایچ ڈی 'کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں !ایک شخص جو ظاہری وضع قطع  سے پکا کٹر مسلمان لگے ۔فرائض  کی انجام دہی میں قابل رشک حد تک پورا اترے۔پانچ نمازیں باجماعت پڑھتا ہو'رمضان کے روزے رکھتا ہو۔حج کا فرض ادا کرچکا ہو'زکوۃ ادا کرتا ہو۔بلکہ فرائض سے آگے بڑھ کر نوافل اور مستحبات میں بھی سرگرم ہو۔اشراق ادا کیے بغیر مسجد سے نہ اٹھے'اکثر و بیشتر عمرہ کی نفلی عبادت ادا کرنے کے لیے عازم حرم ہوتا ہو ۔تو کیا اس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ وہ مذہب پر'ہمارے مذہب یعنی اسلام پر 'چل رہا ہے؟

نہیں ! اسلام صرف ظاہری وضع قطع عبادات کا نام نہیں ! یہی وہ گرہ ہے جو ہماری سیاست میں پڑی ہوئی ہے۔مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کرنے والوں کے نزدیک مذہب صرف ظاہری شکل و صورت اور عبادات کا نام ہے۔ اسی نکتے پر وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں !
فرض کیجیے !کوئی شخص مسلم لیگ میں ہے یا تحریک انصاف میں 'یا پیپلز پارٹی میں ہے وہ فرائض کی انجام دہی کے علاوہ عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بھی اسلامی تعلیمات کو اپناتا ہے۔جھوٹ نہیں  بولتا'وعدہ خلافی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ تجارت میں 'صنعت میں 'دفتری زندگی میں 'خاندانی دائرے  میں 'آخرت کی جواب دہی کا خیال رکھتا ہے 'تو کیا وہ اس شخص کے مقابلے میں ووٹ کا زیادہ حقدارنہیں جو عبادات کا پابند ہے'مذہب کے نام پر ووٹ مانگتا ہے مگر ا س کا نام سن کر 'اس کے رشتہ دار 'اس کے ماتحت 'اس کے متعلقین اس سے معاملات طے کرنے والے'کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں!

مذہب اگر ہماری زندگیوں میں دخیل ہوجائے تو سیاست خود بخود  دُھل کر پاک صاف ہوجائے گی! سچ بولنے والے'معاملات میں شفافیت اختیار کرنے والے اور اس امر سے ڈرنے والے کہ ہر عمل کا کل جواب اور حساب دینا ہوگا اگر منتخب اداروں میں آجائیں تو حکومت کا سارا نظام درست ہوجائے'سفارش'اقربا پروری'قومی خزانے کا غلط استعمال'یہ سب وہ کام ہیں جو اسلام کی رُو سے حرام ہیں  ! یہ برائیاں  خودبخود ختم ہوجائیں !

پاکستانی سیاست کا عجیب و غریب پہلو جو شاید  ہی  دنیا  کے کسی اور ملک  میں پایا جاتا ہو 'یہ ہے کہ مذہبی پارٹیاں 'جو سیاست کررہی ہیں  اپنی الگ شناخت کسی فلاحی پروگرام کی بنیاد پر نہیں رکھتیں 'بلکہ ان کی شناخت ان کے مسالک ہیں ! جے یو آئی کے جتنے بھی گروہ ہیں 'ایک مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔شاہ احمد نورانی کے جانشیں  ایک دوسرے مسلک کا علم اٹھائے ہوئے ہیں !مولانا ساجد میر کی جماعت'جوسیاسی بھی ہے اپنے مسلک کی بنیاد پر قائم ہے۔اسی طرح مولانا ساجد نقوی ایک اور مسلک کی نمائندگی فرماتے ہیں  ۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ سیاست کا اور اسمبلیوں کااور وزارتوں کا 'اور امورِ حکومت کا اور امورِ مملکت کا ان مسلکوں سے کیا تعلق ہے؟اور کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ پارلیمنٹ نے جو مسائل حل کرنے ہیں ان کا تعلق بجٹ سے ہے 'بین الاقوامی قرضوں سے ہے'توازن ِ تجارت سے ہے'کارخانے لگانے سے ہے 'زراعت کو ماڈرن کرنے اور ترقی دینے سے'بستیوں اور قریوں کو'قصبوں اور شہروں کو جدید سہولتیں فراہم کرنے سے ہے'سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہے'آئی ٹی سے ہے 'ٹیکس لگانے اور وصول کرنے سے ہے'امور خارجہ نمٹانے سے ہے!خدا کے بندو!ان کاموں  کے لیے مسلکی بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانے اور مسلکی لبادے اوڑھ کر ووٹ مانگنے کا کیا جواز ہے؟

یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ جے یو آئی میں 'یا جمعیت اہل حدیث میں  یا جماعت اسلامی میں شامل ہیں کیا وہ ان افراد سے بہتر مسلمان ہیں  جو مسلم لیگ 'تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں شامل ہیں ؟آخر اس بات کا فیصلہ کون کرے گا ؟اور کیسےکرے گا؟کیا بہتر مسلمان ہونے کے لیے اتنا کافی ہےکہ مذہبی جماعت میں شامل ہوا جائے؟ مذہبی جماعتوں پر الگ الگ نام لے کر بات کی جائے تو درِ عمل شدید ہوتا ہے  تاہم حقیقت یہی ہے کہ مذہب کے حوالے سے سیاست کرنے والی جماعتوں کی شہرت قابلِ رشک ہر گز نہیں !ان کے مالی معاملات اور ان کی سماجی قدریں پڑھی لکھی مڈل کلاس کے نزدیک مستحسن نہیں ۔

ان میں سے کچھ کے رہنما  ہر حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشہور یا بدنام ہیں ۔کچھ تعلیمی اداروں میں  تشدد  اور فساد کے ذمہ دار ہیں! لوگوں نے اور میڈیا نے کچھ کے تو ایسے نام رکھے ہوئے ہیں جو خیانت سے عبارت ہیں! حالی نے شاید ایسے حضرات ہی کے حوالے سے کہا تھا

؎اپنے جوتوں  سے رہیں  سارے نمازی ہشیار

اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت!

اب اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے۔ جن ملکوں کو ہم مغربی یا ترقی یافتہ یا جمہوری کہتے ہیں'ان کے سیاست دان عملی زندگی میں ان اصولوں پر سختی سے عمل  کرتے ہیں'جن پر اسلام نے معاملات کے حوالے سے زور دیا ہے۔ ان کا طرز زندگی عوام جیسا ہے ۔سفارش اور اقربا پروری کی وہاں اجازت ہی نہیں! آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کا ایک وزیر 'یا اسمبلی کا ممبر'اس لیے زیرِ عتاب آیا کہ اس نے سرکاری لیٹر ہیڈ کو ذاتی سفارش کے لیے استعمال کیا تھا۔ وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بغیر ٹکٹ بیٹھے تو اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان جب اپنے حکمرانوں کے متعیشانہ  طرزِ   زندگی  کے خلاف   عدالت جاتا ہے تو اسلامی طرز رہائش کی مثال دینے کےلیے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کا نام لیتا ہے!کیا یہ سیات دان ان افراد کے مقابلے میں زیادہ صاف شفاف نہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قومی خزانے سے بے تحاشا مراعات لیتے ہیں ؟ اور جن کی زندگی ہر گز قابلِ رشک نہیں نہ قابلِ تقلیدہیں ؟

زندگی کو معاملات کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا کام ہر مسلمان پر فرض ہے اسلام جبہ و دستار کی جاگیر نہیں! جبہ و دستار کی اکثریت اسلام سے صرف فائدہ اٹھاتی ہے۔معاشی فائدہ 'سیاسی فائدہ اور سماجی فائدہ! یقیناً  جبہ و دستار کے گروہ میں ایسے نیکوکار بھی موجود ہیں جو مفادات کے اسیر نہیں اور اخلاص  اور بے غرضی کے ساتھ خلقِ خدا کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ایسے افراد اس زوال پذیر معاشرے میں غنیمت ہیں ان میں سے اکثر سیاست اور پی آر کی آلائشوں سےدور ہیں ! مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے بزرگوں کی تعداد کم ہے!آٹے میں نمک کے برابر!

ہمارے سیاسی منطر نامے کو بہت سے عوارض گھن کی طرح کھا رہے ہیں اور دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ان میں ایک بڑا عارضہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہے ۔اگر ہم اس عارضے کو جڑ سے اکھیڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو ایک بہت بڑا مرحلہ سر ہوجائےگا!اسلام کا  تعلق  سیاست یا تجارت سے نہیں'ہماری زندگی کے ہر پہلو سے ہے ! اور یہی کام مشکل ہے!اسی لیے تو اقبال نے متنبہ کیا تھا۔۔

چومی گویم مسلمانم'بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لاالہ را

مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں مجھے اس راستے کی صعوبتوں کا اندازہ ہے!


باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور

$
0
0

الیگزینڈر برنس سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا  ۔سولہ سال کی عمر میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں  بھرتی ہوگیا۔ ذہانت خداداد تھی۔جلد ہی اردو اور فارسی میں مہارت حاصل  کرلی۔

1822 میں کمپنی نے اسے سُورت میں  ترجمان مقرر کردیا۔ زبانوں میں مہارت کے باعث افغانستان اور وسط ایشیاء میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔یہ زمانہ گریٹ گیم کے عروج کا تھا۔روس جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا بارڈر ستلج تک لے آئی تھی۔دونوں استعماری طاقتیں  ایک دوسرے سے خائف تھیں اور گمان کر رہی  تھیں کہ گھمسان کا رن درمیان میں یعنی افغانستان میں پڑے گا۔برطانیہ نے برنس کو جاسوس بنا کر بخارا بھیجا جہا ں سے اس نے انتہائی کارآمد معلومات ارسال کیں ۔

1831
 میں برنس برطانیہ کے بادشاہ کی طرف  سے رنجیت سنگھ کے لیے گھوڑوں کا تحفہ لے کر لاہور آیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہانہ بنایا کہ گھوڑے خشکی کے راستے سفر نہیں کر پائیں گے 'چنانچہ سندھ پہنچ کر یہ گھوڑے دریائے سندھ کے ذریعے لائے گئے۔ اصل مقصد سندھ کا مشاہدہ کرنا اور دریائی راستے کا نقشہ بنانا تھا۔

برنس کو 1841 میں افغانوں  نے کابل میں قتل  کردیا ۔اس کا تذکرہ یہاں اس  رائے کے حوالے سے کیا جارہا ہے جو قیام لاہور کے درمیان اس نے رنجیت سنگھ کے بارے میں لکھی۔ اس نے لکھا:

"ایک آنکھ والے اس شخص کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ قامت پانچ فٹ تین انچ سے زیادہ نہیں!نمود و نمائش سے دور ہے مگر دربار پر اس کی ہیبت چھائی رہتی ہے۔ میں کسی ایشیائی سے اتنا متاثر  نہیں ہوا جتنا رنجیت سنگھ سے ہوا ہوں ۔ تعلیم ہے نہ کسی کی رہنمائی مگر سلطنت کے امور کمال مہارت اور چابکدستی سے نمٹاتا ہے"۔

اب جیک مانٹ کے تاثرات سنیے۔ جیک مانٹ فرانسیسی تھا۔ علمِ  نباتات کا ماہر اور جڑی بوٹیوں کا شائق۔ اسی زمانے میں وہ کلکتہ اور دہلی سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا۔ ہمالیہ کے دامن میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں  اور پودوں پر تحقیق کی۔رنجیت سنگھ کے بارے میں اس نے لکھا:

"یہ پہلا ہندوستانی ہے جسے میں نے متجسس پایا۔اس کی ساری قوم میں جو بے حسی پائی جاتی ہے،اس کی کمی اس کے تجسس نے پوری کردی ہے۔اس نے مجھ سے کئی سو ہزار سوال پوچھے۔برطانیہ ،یورپ ،نپولین،دنیا ،آخرت،جہنم،بہشت،روح،خدا،شیطان اور دیگر ہزار ہا موضوعات پر اس نے بے شمار سوالات کیے۔

ان پڑھ رنجیت سنگھ نے جیتے جی انگریز کو ستلج پار نہ کرنے دیا۔پنجاب کے سکھ سرداروں اور مسلمان نوابوں کو اس نے باجگزار بنا کررکھا۔معلومات  ،حاضر  جوابی اور اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارہا انگریزوں ،فرانسیسیوں اور  افغانیوں سے کامیاب مذاکرات کیے۔پنجاب کی قسمت دیکھیے کہ پونے دو سال بعد اسی مٹی سے ایک اور حکمران ابھرا جو  بظاہر پڑھا لکھا ہے مگر آئے دن اس کی معلومات اور علم کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہورہے ہیں ۔ایک معروف کالم نگار نے'جو انگریزی سے اردو کالموں کی طرف آئے ہیں ۔بتایا ہے کہ موصوف نے ایک بار سعودی عرب کی مثال دے کر فرمایا کہ وہاں تو  ٹیکس لگتا ہی نہیں۔اس سے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انہیں پاکستان کی قومی آمدنی  کے ذرائع بارے میں کچھ نہیں معلوم  ورنہ سعودی عرب کی مثال نہ دیتے۔

رنجیت سنگھ کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کا وجود نہ تھا لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہوتا تو رنجیت سنگھ  امتحان خود دیتا۔ اس کی جگہ  کمرہ امتحان میں کوئی   نقلی رنجیت سنگھ نہ حاضر ہوتا۔اس کا بخت اچھا تھا کہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ ہوتا تو انگریزوں  فرانسیسیوں اور افغانوں ،کشمیریوں  اور سندھیوں سے سرکاری بات چیت کرتے وقت جیب سے چٹیں نہ نکالتا۔فائلیں خود پڑھتا۔تعجب ہے کہ  ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی اسے بین الاقوامی امور پر  عبور حاصل تھا۔یہاں یہ حال ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں  کبھی بھول کر بھی گفتگو نہ کی۔ تعلیم ،زرعی اصلاحات ،بیرونی قرضے ،ان کی لغت میں موجود  ہی نہ تھے۔کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کوئی اہم دستاویز۔

تاریخ میں حیرت کے کتنے باب باندھے جائیں گے صرف اس موضوع پر کہ کیسے کیسے افراد کو قسمت نے تخت پر لابٹھایا اور  تاج پہنایا، قسمت سے زیادہ ایسے حادثوں کی ذمہ داری حالات اور نظام پر ہے۔ صدر ایوب خان نے عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا۔اس کا علم بھی اسی طرح حد سے زیادہ"متاثر"کرتا تھا۔ مشہور ہے کہ  ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کا وفد ملا۔درخواست کی کہ ڈھاکہ ریڈیو سے ٹیگور کے گیتوں پر پابندی ہے ۔ازراہِ کرم اٹھا دیجیے۔فرمایا کہ تم لوگ خود کیوں  نہیں ٹیگور کے گیت لکھتے؟

اس کی شخصیت اور  مجموعی تاثر  کو دیکھتے ہوئے

؎بڑھا بھی دیتے تھے کچھ زیبِ داستاں کے لیے

خان صاحب(یعنی عبدالمنعم خان)ماوزے تنگ سے ملے۔ ان سے پوچھنے لگے کہ ہمارے ملک میں اشتراکیوں کے دو گروہ  ہیں ایک ماسکو نواز اور دوسرا پیکنگ نواز(اس زمانے میں  بیجنگ کو پیکنگ کہتے تھے) آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے؟ ایک لطیفہ یہ  مشہور تھا کہ ڈھاکہ ائیر پورٹ پر خان صاحب نے بطور گورنر صدر ایوب خان کا استقبال کیا ۔گلے ملتے وقت،ایوب خان کو کوئی شئے چُبھی۔تلاشی لینے پر  دیکھا گیا کہ ایوب خان کی تصنیف فرینڈز ناٹ ماسٹرز  عبدالمنعم خان نے سینے کے ساتھ لپٹائی ہوئی تھی!

بڑے بھائی کا علم و فضل کیا کم تھا کہ اب  برادرِ خورد کو مستقبل کا بادشاہ بتایا جارہا ہے او رعمران کے مقابل لایا جارہاہے۔آخر عمران کا کرپشن کے ان  غیر متنازعہ ،مصدقہ اور رسوائے زمانہ کھلاڑیوں سے کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔دنیا تسلیم کررہی ہے کہ کےپی  میں پولیس سیاسی آلودگی سے پاک ہوچکی ہے۔روایت ہے کہ سندھ کے آئی جی ،اے ڈی خواجہ نے، جو اپنی دیانت داری کی وجہ سے سندھ حکومت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں،کہا کہ انہیں سندھ میں کے پی پولیس جیسا سسٹم چاہیے۔ایک ارب درخت لگانے کے علاوہ عمران  خان کی ٹوپی میں کامیابی کے کئی پَر ہیں۔لاکھوں طلبہ پرائیویٹ سکولوں سے اٹھ  کر سرکاری سکولوں میں آگئے ہیں ۔ہسپتالوں میں نظام بدل گیا ہے۔ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔ اس کے کسی رشتہ دار نے صوبائی حکومت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔پنجاب میں اس کے برعکس پولیس  وزیراعلیٰ کی کنیز  سے زیادہ نہیں۔لاہور شہر میں  ایک  رات  میں درجنوں ڈاکے پڑتے ہیں۔ حاکم کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹاؤن پر ختم ہوجاتا ہے۔

ابھی تین دن پہلے معروف کالم نگار رؤف کلاسرہ نے ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایا ہے کہ وزیراعلٰی کی خواہر نسبتی کے ساتھ شادی کرنے والے شخص کو بورڈ آف  انویسٹمنٹ کا سربراہ لگا دیا گیا ہے۔وزیراعلی کو چاہیے تھا کہ صحافی کو عدالت لے جاتے ،یا کم از کم الزام کی تردید ہی کردیتے مگر یہاں کوئی ایک الزام ہو تو  تردید کی جائے ۔راولپنڈی میں حکمران جماعت کے لیڈر نے تھانے پر باقائدہ حملہ کیا اور ملزموں کو چھڑا کر لے گیا مگر لہک لہک کر حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والے وزیراعلی کی رگِ انصاف نہ پھڑکی۔کتنے ہی سرکاری اہلکاروں کے تبادلے سیاست دانوں کی فرمائش پر  کیے گئے۔مضحکہ خیز دعوے کیے گئے اور عشروں کے اقتدار کے باوجود تھانہ کچہری میں رمق بھر تبدیلی نہیں نظر آتی! کیا یہ کرپشن نہیں کہ شہزادہ صوبے کے سیاہ سفید کا مالک ہے اور حکمرانوں جیسا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ صوبے کی اسمبلی  میں ضمیر  کی مردہ لاشوں کے بجائے ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے نمائندے بیٹھے ہوتے  تو ضرور حساب لیتے کہ وزیراعلی کتنی بار چیک اپ کرانے کے لیے لند ن گئے ؟تاریخ نے یہ لطیفہ بھی دیکھا کہ صوبے کا حکمران اپنی صحت کے لیے لند ن گیا  اور وہاں سے ویڈیو کے ذریعے صوبے میں صحت کی"ترقی"کا راگ الاپا۔ظفر اقبال نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہے

؎ مجھے کبڑا نہ سمجھو، زندگی پر

میں ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں!

تاریخ  بھی ہنستے ہنستے دہری ہوگئی ہوگی ۔یہ الگ بات کہ ذہنی کُبڑوں کو ہر طرف  ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ ساون مسلسل برس رہا ہے۔

عمران خان کے ساتھ موازنہ قابلِ دست اندازیء پولیس ہے ۔اگر کوئی صاحب استاد امام دین گجراتی کی شاعری غالب یا اقبال کی شاعری سے موازنہ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لیں تو کون سا آسمان ٹوٹ گرے گا۔شاعر نے تو پہلے ہی مایوسی کا اظہار کردیا تھا۔

؎کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں

اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت!

زرداری صاحب قائداعظم کے ملک کے پانچ سال صدر رہے تو کون سے پتھر برس پڑے۔ یوں بھی مکافاتِ عمل کو  جلدی نہیں اس لیے کہ کچھ لوگوں کی رسی قدرت خود دراز کرتی ہے۔

ایک شاعر سے بادشاہ ناخوش ہوا  اور قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔ وزیر نے سمجھایا کہ قیدِ تنہائی تو شاعر کے لیے نعمت سے کم نہیں۔کتابیں پڑھے گا اور فکرِ سخن کرے گا۔ وزیر نے کہا صبحتِ ناجنس میں ڈال دیجیے،چنانچہ ایک جاہل مطلق سر پھرے کو اس کوٹھری میں بند کردیا گیا۔شاعر نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو۔اس نے پوچھا پہلے تم بتاؤ تم کون ہو؟  شاعر نے جواب دیا  میں شاعر ہوں ۔اس نے کہا میں ماعر ہوں ۔شاعر نے پوچھا ماعر کون ہوتا ہے۔اس نے پلٹ کر پوچھا شاعر کیا کرتا ہےشاعر نے بتایا کہ شعر کہتا ہے۔اس نے جواب دیا ماعر وہ ہوتا ہے جو مِعر کہتا ہے۔اس نے کہا تم بتاؤ شعر کیا ہوتا ہے۔شاعر نے مثال دی۔جیسے ع

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور

ماعر نے کہا مِعر یہ ہوتا ہے ع

ماغ میں مِرتے ہیں کیا مُش مُش مکور

خدا کرے کہ اس قوم کی جان سیاسی ماعروں سے چھوٹ جائے ۔ملک کو حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والوں کی نہیں ،اس انقلابی شاعری کو عملی جامہ پہنانے والوں کی ضرورت ہے۔


ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا

$
0
0

ہسپتال والے جواب دے دیں  حکیم 'ہومیو پیتھک سب آزما لیے جائیں 'جھاڑ پھونک کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا کِیا جاسکتا ہے؟اسی لیے تو صدیوں پہلے بتا دیا گیا تھا۔

"ہر گز نہیں ! جب پہنچ جائے گلے تک اور کہاجائے ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا اور سمجھ لے گاوہ کہ اب جدائی کا وقت ہے اور لپٹ جائے پنڈلی پنڈلی سے"۔

حکومت پر اس سے زیادہ بر ا وقت کیا ہوگا کہ جو وزیر بد عنوانی کے الزامات  لگا کر استعفٰی دے دیتا ہے'بجائے اس کے کہ اس کے الزامات کی تردید کی جائے،وزیراعظم اس سے کہہ رہے ہیں 'درخواست کررہے ہیں کہ آپ استعفٰی واپس لے  لیجیے!اس سے زیادہ مضحکہ خیز 'عبرت ناک 'شرم  ناک اور ندامت سے سر جھکا دینے والی بات کیا کوئی اور بھی ہوسکتی ہے؟ہے نا جھاڑ پھونک والے کو بلانے کی بات!

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے دوستین خان ڈومکی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی منسٹری کا وزیر مملکت حال ہی میں بنایا گیا ۔حالات خراب تھے۔بدعنوانی کی بُو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی !شکایات کا انبار لگا تھا۔ وزیر  مملکت نے تفتیش شروع  کردی۔وزارت کے ذیلی اداروں میں این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس)اور کامسیٹ جیسے دیو ہیکل ادارے شامل ہیں ۔مگر ایک رات 'اچانک 'ایک اور وزیر صاحب کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی منسٹری کا اضافی  چارج دے دیا گیا۔ دوستین  ڈومکی نے جب اپنی تطہیری مہم کا یہ حشر دیکھا تو استعفٰی دے دیا!

چار دن پہلے دوستین ڈومکی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی! ملاقات کے بعد ڈومکی صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر لگی لپٹی رکھے بغیر'میڈیا کو بتایا کہ "وزیر اعظم صاحب نے مجھے استعفٰی واپس لینے کے لیے کہا مگر میں نے انکار کردیا  کیوں کہ فلاں وزیر کے ساتھ'جسے فُل منسٹر کا چار ج دے کر میرے اوپر بٹھادیا  گیا'کام نہیں کرنا چاہتا!"انہوں نے الزام  بھی لگایا کہ اس کے مستعفٰی ہونے کے بعد وزارت کے ذیلی اداروں میں تقریباً  تین درجن تعیناتیاں کی گئیں ۔ان کے بقول ان تعیناتیوں کے لیے(امیدواروں کی)فہرست میں "تبدیلیاں "کی گئیں !

اس ضمن  میں  ہنسانے والی باتیں اور بھی ہیں  ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخلاقی حوالے سے وزیر اعظم کے پاؤں کے نیچے زمین کتنی"مضبوط"ہے!وزیراعظم صاحب نے ڈومکی صاحب کو مطمئن کرنے کے لیے بتایا کہ دوسرے وزیر کو اس لیے اضافی چارج دیا گیا کہ  دفاعی پیداوار کی وزارت'وزارتِ  دفاع میں ضم کی جارہی ہے!وہ دوستین صاحب وزیراعظم کو کارنرنہیں کرنا چاہتے ہوں گے ورنہ عرض کرتے کہ جناب عالی! ابھی ضم ہوئی تو نہیں!اگر ایسی بات  تھی تو وہاں کا یعنی دفاعی پیداوار کا چارج وہ وزیر  صاحب چھوڑ دیتے!اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں بھی وزیر ہیں اور یہاں بھی !اور پھر رات گئے اس تبادلے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا صبح کا انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا؟

وزیراعظم الزامات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔استعفے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس طرف آتے ہی نہیں دو ہی تو امکانات ہیں ایک  ڈومکی صاحب درست کہہ رہے ہیں یا غلط! اگر درست کہہ رہے ہیں  تو ان کے اوپر رات کی تاریکی میں ایک اور صاحب کو کیوں مقرر کردیا گیا؟اگر ڈومکی صاحب کے الزامات غلط ہیں تو وزیراعظم انہیں سزا دینے کے بجائے استعفٰی واپس لینے کے لیے منت سماجت کیوں کررہے ہیں ؟

اور اتنا"صائب"فیصلہ وزیراعظم نے خود کیا ہے یا اس کا حکم کہیں اور سے آیاہے؟بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ گائے کوئی اور دوہ رہا ہے اور وزیراعظم صاحب گائے کو صرف چارہ ڈالنے پر مامور ہیں !

ساٹھ کی دہائی میں راولپنڈی صدر میں  ایک ریستوران تھا سلور گرل !یوں سمجھیے اس زمانے میں یہ سٹیٹس سمبل تھا! کھاتے پیتے لوگ یہاں  شام کو بیٹھتے تھے۔ہم ان دنوں کالج کے طالب علم تھے ہمارے پروفیسروں کا ایک گروپ روزانہ شام کو وہاں بیٹھ کر چائے پیتا  تھا اور شام گزارتا تھا۔روپے کی ان دنوں قدرو قیمت تھی!ہم جب سنتے کہ سلور گرل میں چائے کا کپ آٹھ روپے کا ملتا ہے تو حیران ہوتے تھے اور مرعوب بھی!ایک لطیفہ ان دنوں گردش کرنے لگا کہ ریستوران سے اٹھتے وقت جب بل ادا کرنا ہوتا تو ایک صاحب ہرروز جیب سے سو روپے کانوٹ نکال کرپیش کرتے اتنا بڑا نوٹ (اس زمانے میں !)دیکھ کر  کاونٹر والا  کیش کلرک پوچھتا۔"کھلے نہیں ہیں 'یہ سن کر کوئی نہ کوئی اور دوست بل کی ادائیگی کردیتا! یہ "نسخہ"کئی دن چلتا رہا۔ آخر ایک دن دوستوں نے فیصلہ کیا کہ آج اس نوٹ کو ریزگاری میں تبدیل کرہی لیا جائے!

ایک سو روپے کا نوٹ قومی ائیر لائن کے پاس بھی ہے اس نوٹ کا نام ہوٹل روز ویلٹ ہے۔یہ نیو یارک میں ہےاور قومی ائیر لائن کی ملکیت ہے۔حکومت سے جس طرح قومی ائیر لائن نہیں چل رہی اور ایک عرصہ سے آکسیجن کی نلکی کے سہارے زندہ ہے'بالکل اسی طرح  ائیر لائن سے یہ ہوٹل نہیں چل رہا! آپ نااہلی 'نالائقی'بددیانتی'بدنیتی اوربدبختی کااندازہ لگائیے کہ نیویارک جیسے شہر میں 'قابل رشک محلِ وقوع میں 'یہ عظیم الشان عمارت قومی ائیر لائن کی مملکت میں ہے اور یہ ہوٹل 'ائیر لائن کے خسارے پر چل رہا ہے!کوئی اور ملک ہوتا  یو اے ای  یا ملائشیا جیسا 'تو اس ہوٹل کے ذریعے ائیرلائن کے اور ملک کے بھی 'وارے نیارے ہوجاتے!

آکسیجن کی نلکی پر چلنے والی ائیر لائن کروڑوں اربوں کی مقروض ہے!لمحہء  موجود میں اس کے واجبات 
liabilities 
چارسو ارب روپے کے ہیں ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے ائیر لائن چلانے والے"لائق "اہلکاروں نے یہ تماشا  بنا رکھا ہے کہ جب بھی واجبات کی بات ہوتو جیب سے روز  ویلٹ  ہوٹل  کا  بڑا نوٹ نکال کر پیش کردیتے ہیں !کون سی حکومت چاہے گی کہ ملک اس عالی شان اثاثے سے محروم کردیاجائے چنا نچہ ہوٹل فروخت کرنے کی تجویز رد کرکے ائیرلائن کو قومی خزانے سے ہر بار خطیر رقم دے دی جاتی ہے۔

اس بار بھی یہی ہوا۔ یہ فلم ایک بار پھر چلی۔ ایک بار پھر بڑا نوٹ نکال کر حکومت کو پیش کیا گیا۔ہوا بازی کی وزارت نے وزیراعظم کو تجویز پیش کی کہ ہوٹل فروخت کرکے 406 ارب روپے میں سے کم از کم 352 ارب روپے کے واجبات ادا کردیے جائیں ۔وہ تو بھلا ہو وزیراعظم کا کہ انہوں نے انکار کردیا۔ان کی دلیل یہ تھی کہ گراں بہا اثاثہ ہونے کے علاوہ اس ہوٹل کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا بھی حامل ہے!وزارت کو حکم ہوا ہے کہ ہوٹل منافع بخش  بنانے کے لیے کیس تیار کیا جائے!

قومی ائیر لائن کیا ہے؟ ایک چھوٹا ساپاکستان ہے! مِنی پاکستان !نااہلی 'دوست نوازی'اقربا پروری اور خود غرضی کا جیتا جاگتا مرقع! یہ وہ بھینس ہے جس کا دودھ حکومت نے پیا ۔جیالوں نے متوالوں نے اور ماشااللہ صالحین بھی پیچھے نہیں رہے۔ہر ایک نے حصہ بقدر  جثہ وصول کیا ہے اور اس  لذیذ کیک کو چھری کانٹے کے ساتھ اطمینان سے کھایا ہے ۔ائیرلائن میں کا م کرنے والے نچلے درجے کے اہلکار بھی کروڑ پتی ہوگئے۔سمگلنگ کے لیے اس ادارے کو بے تحاشا استعمال کیا گیا۔کئی بار تو منشیات پکڑی گئی ۔پائلٹ اس  کے دوسرے ملکوں نے جیلوں میں ڈالے  عشروں تک افرادی قوت اس میں کھلے مقابلے کے ذریعے نہیں 'بلکہ چور دروازوں سے لگائی گئی جس کسی کو عافیت کا اور آسودگی کا گوشہ درکار تھا'اس نے سفارش پکڑی اور یہاں آکر بیٹھ گیا،پھر بے شمار یونینیں  اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ۔ پائلٹوں کی یونین گراؤنڈ ڈیوٹی والوں کی یونین'کلرکوں کی یونین'ان یونینوں نے انتظامیہ کو ایک طرف گلےسے پکڑا ہوا ہے او دوسری طرف ٹانگیں زنجیروں  سے باندھی ہوئی ہیں  !بلیک میلنگ روزمرہ کا معمول ہے!

2016 میں حاصل کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں  کہ فی جہازافرادی قوت کے اعتبار سے شام کی ائیر لائن دنیا کی بدترین ائیرلائن ہے کیوں کہ اس کے پاس  جہاز دس ہیں اور سٹاف تعداد چار ہزار ہے۔یعنی چار سو افراد فی جہاز!ہماری قومی ائیر لائن میں یہ تعداد 390 افراد فی جہاز یعنی دنیا  بھر میں اس اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے بہت سے ملازم روزانہ (دھیاڑی)کی بنیاد پر بھی ائیر لائن کو چمٹے ہوئے ہیں !ان کی صحیح تعداد معلوم ہی نہیں ان سب کو شامل کیا جائے تو فی جہاز تعداد چار سو اور پانچ سو کے درمیان جا پہنچتی ہے۔

اب دوسرے ملکوں سے موازنہ کیجیے ۔بھارت میں 2014ء میں فی جہاز اہلکاروں کی تعداد 135 تھی۔ ایک سال بعد یہ تعداد  114 تک کم کردی گئی۔

یہ موازنہ کرتے وقت یاد رکھیے کہ پاکستان  کی قومی ائیر لائن کے پاس کل جہاز چالیس سے کم ہیں اور سارے درست حالت میں بھی نہیں ! آئر لینڈ کی قومی ائیرلائن کے پاس 320 جہاز ہیں اور فی جہاز ملازمین کی تعداد صرف 30 یعنی تیس ہے۔انڈونیشیا کی ائیرلائن میں یہ تعداد 56 ہے ۔ہمارےدوست ملک ترکی کے پاس 298 جہاز ہیں اور فی جہاز سٹاف کی تعداد  63 ہے!ائیرچائنا میں  یہ تعداد 70 ہے اور مصر کی ائیرلائن میں یہ تعداد 142 ہے ۔متحدہ عرب امارات کی مشہور زمانہ ائیرلائن اتحاد کے پاس 119 طیارے ہیں اور فی طیارہ سٹاف 149 سے زیادہ نہیں۔سعودی عرب ائیرلائن میں بھی  یہ تعداد صرف 152 ہے۔قطر ائیرلائن میں بھی 180 ،ملائشیا ائیر لائن میں 181،ہے۔اور تو اور سری لنکا بھی ہم سے کوسوں آگے ہے۔ ان کے ہاں فی جہاز تعداد 283 ہے۔امریکہ کی  تو بات ہی نہ کیجیے ۔حوصلہ ہے تو سن لیجیے۔ امریکہ کی معروف ڈیلٹا ائیرلائن میں فی جہاز صرف 110 ملازم کام کررہے ہیں۔اس ائیر لائن کے پاس 722 طیارے ہیں ۔یہ چالیس ارب ڈالر کے منافع پر چل رہی ہے۔امریکہ ہی کی ایک اور ائیرلائن ہے ۔یونائیٹڈ ائیرلائن ۔اس کے پاس 939 طیارے ہیں او  ایک طیارے کے لیے صرف 120 ملاز م کافی ہیں ۔

ایک طیارے  کو پانچ سو جونکیں چمٹی ہوئی ہوں 'انتظامیہ یونین کے سامنے پا بہ زنجیر ہو'پائلٹ ہٹ دھرم ہوں'قوائد و ضوابط کی رات دن دھجیاں اڑا رہی ہوں اور تجویز روز ویلٹ ہوٹل کو بیچنے کی دیں !کیا بات ہے!

گنوا دیں  گے اب اک دن آخری بارہ دری بھی

مگر ظلِ الہ کا طنطنہ باقی رہے گا

تاکہ یہ جونکیں ہوٹل  کی فروخت سے ملنے والی رقم چوس جائیں اورایک سال بعد خسارہ پھر اتنا ہی ہو جائے!
خدا کے بندو !آکسیجن کی نلکی کے سہارے سانس لینے والی اس ائیرلائن کو نجی شعبے کے حوالے کرو! ورنہ جھاڑ پھونک کرنے والے کو بلاؤ!


معاف کیجیے!میں جلدی میں ہوں

$
0
0

سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے!

اس لیے کہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے۔ اس نے فیصلہ سنا دیا  ہے کہ امریکہ نے اعلان واپس  نہ کیا تو کھلی جنگ ہوگی!اور جو کام امریکہ کے افغانستان آنے پر نہیں  ہوا وہ  بیت المقدس میں ہو گا اور یہ کہ وزیراعظم اسلام آباد میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا اعلان کریں اور مسلمان ممالک  امریکی سفارت خانے بند کرٰیں اور یہ کہ یمن اور عراق جنگ کے پیچھے یہودی سازشیں ہیں اور  یہ کہ ہمیں  امت کو جگانا ہے اور یہ کہ ٹرمپ کا اعلان کھلی جنگ ہے مسلم ملکوں کے سربراہ اس چیلنج کو قبول کریں ۔ مسلم حکمران بروقت اقدام اٹھائیں ورنہ علماء جہاد کا  فتویٰ دیں گے اور یہ کہ بیت المقدس کے دفاع کے لیے   سب سے پہلے ہمارا خون بہے گا!

بیت المقدس کے اسرائیلی دارالحکومت بننے کا دور دور تک امکان نہیں ۔ کیونکہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے ۔ تاہم دفاع پاکستان کونسل سے مندرجہ ذیل سوالات نہ پوچھے جائیں۔

 کھلی جنگ کیسی ہوگی؟کیا اب خفیہ جنگ ہورہی ہے؟یہ خفیہ جنگ کہاں ہورہی ہے؟کون لڑرہا ہے؟

"جوکام امریکہ کے افغانستان آنے پر نہیں ہوا'وہ بیت المقدس میں ہوگا"یہ کون ساکام ہے؟ہم تو دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے۔کیا نہیں ہوئی؟

وزیراعظم اسلام آباد میں سربراہی کانفرنس بلائیں تو کیا دفاع پاکستان کونسل اس کانفرنس سے مطمئن  نہیں جو ابھی اردوان نے ترکی میں بلائی تھی؟

لاہور میں دفاع پاکستان کونسل نے مسلم ممالک کو امریکی سفارت خانے بند کرنے کا جو حکم دیا ہے کیا وہ انڈونیشیا 'ملائشیا'مراکش'تیونس'سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے سربراہوں  کو موصول ہوگیا ہے؟

ہمیں امت کو جگانا ہے۔ تو کیا  اب امت سوئی ہوئی ہے؟اگر سوئی ہوئی ہے تو کب سے سوئی ہوئی ہے؟

مسلم ممالک کے سربراہ ٹرمپ کے چیلنج کو قبول کریں ۔ کیسے قبول کریں ؟کیا کریں؟دفاع پاکستان کونسل مسلم  سربراہوں سے خود رابطہ کیوں نہیں کرتی؟

مسلم حکمران بروقت قدم نہیں اٹھائیں  گے تو علما جہاد فتویٰ دیں گے'جہاد کا فتویٰ دیا گیا تو جہاد کرنے والے پاکستانی بیت المقدس کیسے پہنچیں گے؟سمندری راستے سے یا  یا خشکی کے راستے سے؟کیا وہ ایران اور راستے میں پڑنے والے دوسرے ملکوں سے ویزے لیں گے؟اگر سمندری راستے سے جائیں گے تو بحری جہازوں کا اہتمام کون کرے گا؟روٹ کیا ہوگا۔ کیا یہ جہاز بحرِ ہند سے براہ راست بحیرہ احمر میں داخل ہوں گے؟کیا ہمارے علماء کرام کو علم ہے کہ بیت المقدس اور پاکستان کے درمیان کون کون سے ممالک یا کون کون سے سمندری روٹ واقع ہیں ؟

یمن اور عراق جنگ کے پیچھے یہودی سازش ہے تو کیا سعودی عرب اور ایران اور دوسرے اسلامی ممالک اس یہودی سازش کا مہرہ ہیں ؟کیا آپ نے یہ سازش خود پکڑی ہے؟سب سے پہلے آپ کا خون بہے گا۔بجا۔ مگر کب بہے گا؟ آپ کا اس ضمن میں ذریعہ اطلاعات کیا ہے؟

ٹرمپ کی شکست دیوار پر صاف صاف لکھی ہے کیونکہ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق بھی میدان میں اتر چکے ہیں ۔آپ نے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ "اسلامی فوجی اتحاد"بیت المقدس اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے واضح طور پر اپنے ایجنڈے کا اعلان کرے۔آپ نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کسی طور تسلیم نہیں کیا جائے گا ملین مارچ اس بات کی علامت ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں   اور یہ کہ جب تک ایک بھی مسلمان دنیا میں موجود ہے القدس اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا۔ یہ کہ 2018 ء بیت المقدس اور کشمیر کی آزادی کا سال ثابت ہوگا اور ملک میں  اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی۔ ایک اور مقرر نے مولانا سراج الحق کی موجودگی میں کہا کہ مسجد اقصٰٰی ایک دن ضرور آزاد ہوگی۔

 محترم سراج الحق صاحب کے ان جرات مندانہ احکام اور فیصلوں  کے بعد کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ ٹرمپ  منہ کی  کھائے گا۔ تاہم اس ضمن میں 'لازم ہے 'کہ مندرجہ ذیل سوالات جو ذہن میں در آتے ہیں 'ہرگز نہ پوچھے جائیں ۔

"اسلامی فوجی اتحاد"جس "ملک"نے بنایا ہے 'اس "ملک"سے براہ راست یہ مطالبہ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ آپ نے یہ حکم "اسلامی فوجی اتحاد"کو براہ راست دیا  ہے؟اس کا سربراہ کون ہے؟ آپ نے یہ حکم کس شخصیت کو دیا ہے؟

بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کسی طور تسلیم  نہیں کیا جائے گا !بجا فرمایا ۔مگر تسلیم کرنے نہ کرنے کا کام حکومتوں کا ہے۔کیا آپ نے یہ اعلان حکومت پاکستان کی طرف  سے یا اس  کے ایماء  پر کیا ہے؟ یا کیا ساری مسلم حکومتوں  کی طرف سے کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ  یقین دہانی آپ کو  پچپن مسلمان ملکوں کی حکومتوں نے زبانی کرائی ہےیا تحریری ؟کیا اس ضمن میں عوام کو اعتماد میں  لیں گے؟

 ملین مارچ اس بات کی علامت  ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں !جس دن سراج الحق صاحب نے مسلم عوام کے جاگنے کی خبر دی ہے'اسی دن لاہور میں  "دفاع پاکستان کونسل"نے اعلان کیا ہے کہ امت کو جگانا ہے۔ اس کونسل میں سراج صاحب اور ان کی پارٹی کی نمائندگی ان کی پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر کر رہے تھے۔ اگر  امت سو رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں ؟ کیا مسلم عوام وار امت دو مختلف وجود ہیں ؟

 جب تک ایک بھی مسلمان دنیا میں موجود ہے القدس اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا ۔ جب اسرائیل بنا تھا تو کیا دنیا میں  ایک مسلمان بھی موجود نہیں تھا ؟ یا آپ  امریکہ کو یہ کہہ کر جب تک ایک مسلمان بھی موجود ہے'تم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتے'کوئی اور پیغام دے رہے ہیں ؟

 "2018ء بیت المقدس اور کشمیر کی آزادی کا سال ثابت ہوگا اور ملک میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی"اس پیش گوئی کی بنیاد کیا ہے؟آپ کا سورس کیا ہے؟ اگر 2018 میں یہ تینوں کام نہ ہوئے تو کیا آپ اعتراف کریں گے کہ آپ نے غلط دعویٰ کیا تھا؟ اگر 2018ء میں ملک میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی تو کیا اس  وقت ملک میں  کافرانہ حکومت ہے؟

یہ جو ایک  مقرر نے سراج الحق صاحب کی موجودگی میں کہا ہے کہ مسجد اقصٰی ایک دن ضرور آزاد ہوگی ۔ تو کیا اسے اس اعلان پر یقین نہیں ہے  کہ یہ کام 2018ء میں ہوجائے گا؟کیا وہ اعلان کی تردید کررہا تھا؟ اس کی اسی وقت تصحیح کیوں نہ کی گئی؟ملین مارچ میں شریک ملین یعنی دس لاکھ عوام کون سی بات پر یقین کریں ؟ 2018ء والی پر یا اس بات پر کہ ایک دن مسجدِ اقصٰی ضرور آزاد ہوگی؟اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ 2018ء میں صرف بیت المقدس آزاد ہوگا یا پورا فلسطین؟اور 2018ء میں پاکستان میں جس اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی اس کا سربراہ کون ہوگا؟

 یہ تمام سوالات ناروا ہیں !دفاع پاکستان کونسل اور ملین مارچ کے جلسوں میں جو احکام صادر کئے گئے ہیں اور جو فیصلے سنائے گئے ہیں ان کی حقانیت پر شبہ کرنے والے کو اپنے دین ایمان کی خیر منانا چاہیے۔

 ان احکام اور فیصلوں پر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے عمل کرنا  بھی شروع کردیاہے یوں امکان ہے کہ 2018ء کا سال شروع ہونے سے پہلے ہی القدس اور مقبوضہ کشمیر آزاد ہوجائیں 'ہمیں  اس حقیقت پر فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے ان رہنماؤں کے رابطے مسلم دنیا کے حکمرانوں سے براہ راست قائم ہوچکے ہیں اور حکومت پاکستان اس سارے معاملے سے باہر ہے۔ایسا نہ ہوتا تو یہ اعلانات'یہ احکام'یہ فیصلے'   حکومت پاکستان کے ترجمان کے ذریعے منظر عام پر آتے۔

بیت المقدس کی آزادی اور ٹرمپ کی شکست فاش کی طرف اولین قدم مشرق وسطٰٰی کے ایک اہم اسلامی ملک کے ولی عہد نے بڑھایا ہے یہ  اہم اسلامی ملک پوری دنیا  کے مسلمانوں  کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور الحمدللہ پہلا پتھر اسرائیل اور  اس کے بے شرم مربی ٹرمپ کی طرف اسی ملک کے ولی عہد بہادر نے پھینکا ہے۔ تفصیل اس ایمان افروز اقدام کی یوں ہے کہ ولی عہد نے دنیا کی گراں ترین رہائش گاہ خریدی ہے۔یہ فرانس میں واقع ہے ۔یہ عظیم الشان محل ولی عہد نے 30 کروڑ میں خریدا ہے۔جو حضرات یہ قیمت پاکستانی کرنسی میں جاننا چاہتے ہیں وہ اسے ایک سودس سے ضرب دے کر دیکھ لیں یہ اور بات کہ ڈالر ایک سودس  روپے کو کراس کرچکا ہے!
 گزشتہ برس اس مقدس ملک کے بجٹ کا خسارہ 79 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تو اس خسارے کے مداوے کے لیےمملکت میں ٹیکس بڑھا دیےگئے۔ شاہی خاندان کے دو سو افراد قید کرکے ان سے بھاری رقوم وصول کی گئیں۔

یہ رہائش  گاہ جو اسرائیل اور امریکہ کا سر کچلنے کے لیے خریدی گئی ہے 'چھ سو بیس ایکڑ پر محیط ہے اس میں ایک فلم  تھیٹر بھی ہے"مشروبات "کو خیرہ کرنے کے لیے گودام  cellar

بھی ہے

 اس میں گہرے پانی سے بھری ایک  خندق بھی ہے جس میں زیر زمین کمرے نظر آتے ہیں ۔دس خواب گاہیں  ہیں چھت والے اور بغیر چھت کے حوض ہیں ۔

کھیل کے میدا ن ہیں  اور نائٹ کلب بھی ہے  اس گھر میں جو فوارے ہیں اور روشنیاں ہیں اور ائیر کنڈیشننگ ہے،وہ سب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام کرتے ہیں اور اس ریموٹ کنٹرول کا مرکز موبائل فون میں ہے۔

 یہ رہائش گاہ جواسرائیل اور ٹرمپ پر ایٹم بم بن کر گری ہے اور جس نے ان کے پرخچے اڑا دیے ہیں'واحد ہتھیار نہیں جو امت کی طرف سے اٹھایا گیا ہےاس کےساتھ یہ جہاں پناہ نے ایک یاچ (تفریحی بجرا، بھری جہاز) بھی خریدا ہے۔ اس کی قیمت پچاس کروڑ ڈالر ادا کی گئی ہے۔ ایک تصویر (پینٹنگ) جس کی مالیت 45 کروڑ ڈالر ہے'اس کے علاوہ ہے!
 معاف کیجیے'میں جلدی میں ہوں ۔2018ء میں بیت المقدس  اورکشمیر آزاد ہورہے ہیں۔آزادی کے بعد یہاں جو حکومتیں اور انتظامی ڈھانچہ بنے گا'اس کی ساری منصوبہ بندی میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔دعا کیجیے کہ میں اس مبارک ذمہ داری سے کامیابی سے عہدہ برآ ہوسکوں ۔  


نواز شریف کا نظریاتی تعلق کس کے ساتھ ہے۔

$
0
0

دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں ۔

دل کہتا ہے میاں نواز شریف اقتدار  کی دُھن میں ملک  دشمنی  کی  حد تک نہیں جاسکتے!دماغ کے پاس ثبوت ہیں ۔ حوالے ہیں  ۔شہادتیں ہیں ۔ گواہیاں ہیں !

دل کہتا ہے اس دھرتی نے میاں صاحب کے ان بچوں کو بھی کھرب پتی بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔اور عالمِ ارواح میں ہیں ۔تین بار وہ وزیراعظم بنے،تینوں بار  پنجاب نے یہ تاج ان کے سر پر رکھا۔کیا اب وہ ان عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں  گے جو  پاکستان بالخصوص پنجاب  کے دشمن ہیں ۔کُھلے دشمن 'ایسے کھلے دشمن کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ایسےدشمن جو خود  دشمنی کا دن دھیاڑےڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہیں !نہیں! ایسا نہیں  ہوسکتا!میاں صاحب ایسا نہیں کرسکتے!

دماغ ہنستا ہے ۔طنزیہ ہنسی !قہقہہ لگاتا ہے!اخبارات سامنے رکھ دیتا ہے۔یوٹیوب لگا کر پوچھتا ہے  ۔اب بتاؤ!

دل خاموش ہوجا تا ہے!یہ دنیا  جذبات کے سہارے نہیں چلتی !یہ ٹھوس شہادتوں 'حقیقی واقعات اور ناقابلِ تردید سچائیوں کے بل پر قائم ہے!

بائیس دسمبر 2017 کے اخبارات کیا بتاتے ہیں ۔

"نواز شریف نے وزیراعظم عباسی کو ہدایت کی  کہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے تحفظات دور کیے بغیر فاٹا  اصلاحات بِل قومی اسمبلی میں نہ لایا جائے ۔نون لیگ فاٹا اصلاحات بل کی قیمت پر فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی حکومت سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔دونوں شخصیات راضی نہ ہوئیں تو حکومت فاٹا اصلاحات بل سے دستبردار ہوجائے گی!

یعنی مولانا  اور اچکزئی کے سوا اور کوئی بھی بل کی مخالفت نہیں کررہا۔یہ دو ہی مخالفت کررہے ہیں۔ان کا موقف ہےکہ فاٹا کا کے پی میں انضمام انہیں منظور نہیں! وزیراعظم ان دوکو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

اس سے پہلےدودسمبر کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ "محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے"!

آئیے دیکھتے ہیں،محمود اچکزئی کا نظریہ کیا ہے؟

جون 2016 ء میں  محمود اچکزئی نے "افغانستان ٹائمز"کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے اور وہ اس میں کسی خؤف کے بغیر رہ سکتے ہیں 'اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان مہاجرین کو پاکستان  کے دوسرے  حصوں میں ہراساں  کیا جائے تو انہیں خیبر پختونخوا  آجانا چاہیےجہاں کوئی ان سے مہاجر کارڈ نہیں  چیک کرسکتا کیوں کہ یہ صوبہ افغانوں کا ہے ۔

2014ء میں معروف اینکر جناب مبشر لقمان نے ایک نجی ٹی وی  چینل پر بتایا کہ محمود اچکزئی کو 2013ء کا الیکشن جتوانے کے لیےافغان خفیہ اداروں نے  کئی ملین ڈالر دیے۔مبشر لقمان صاحب نے ایسے فوٹو اور ویڈیو دکھائیں  جن میں  محمود اچکزئی میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ کھڑے ہیں  ۔یہ وہی جنرل عبدالرزاق ہے جو پاکستان دشمن اور بھارت نواز خفیہ سرگرمیوں کے لیے مشہور  ہے۔ٹی وی چینل پر ان دو بلٹ پروف لینڈ کروزرز کی تصویریں  بھی دکھائی گئیں جو افغان خفیہ ادارے نے محمود اچکزئی کو دیں ۔بتایا گیا کہ افغانستان سے اس  سیاست دان کو تیس لاکھ امیریکی ڈالر دیے گئے ہیں۔ایک اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی کم و بیش یہی باتیں  ایک اور چینل پر  کہیں ۔

انٹر نیٹ پر ایسی کئی ویڈیو آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں جن میں محمود اچکزئی جلسوں میں  پشتونستان زندہ باد  اور افغانستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں  مگر ان کے منہ سے پاکستان  کا نام نہیں نکلتا ۔

معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش نے ٹوئٹر پر وزارتِ داخلہ کا ایک مراسلہ نشر کیا۔ مراسلہ فرید احمد خان سیکشن آفیسر وزارتِ  داخلہ اسلام آباد نے  دس مارچ 2001 کو لکھا  اس مراسلے کے مخاطب دو افراد ہیں ۔ سیکرٹری وزارتِ خارجہ اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ حکومت بلوچستان کوئٹہ۔ مراسلے کا عنوان ہے"یعنی ایران کی طرف  سے ملی عوامی پارٹی کی قیادت کے لیے مالی امداد  "۔

مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ رمضان نورزئی نامی ایک افغانی شہری نے"جو  ہلمند  کا رہنے والا ہےاور  ایرانی  ایجنسی"اطلاعات"کے لیے کام کرتا ہے'کوئٹہ میں ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے ہیں ۔محمود اچکزئی نے نواب محمد ایاز جوگیزئی کو ایک کروڑ روپے دیے جس  نے ایک گاڑی 29 لاکھ میں کراچی سے اپنے لیے خریدی۔رمضان نورزئی زاہدان میں ایرانی ایجنسی کے کرنل سردار دہقان کے ساتھ کام کرتا رہا۔رپورٹ کے مطابق کرنل دہقان کا بعد میں تبادلہ کردیا گیا  تیسرے او رآخری پیرا گراف میں  یہ مراسلہ بیان کرتا ہے کہ ایرانی ایجسنسی"اطلاعات"چاہتی ہے کہ شمالی اتحاد کی سرگرمیوں کو بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ذریعےکوآرڈی نیٹ  کرے اور اس مقصد کے لیے اس کی قیادت کو استعمال کرے۔عمومی رائے یہی ہے کہ تخریب کاروں  کو ٹھکانے فراہم کرنے کے لیے اور ایران  آنے جانے کے لیے اور دیگر  افراد کو تربیت دینے کے لیےایرانی حکومت کو بلوچستان کے مقامی افراد کی مدددرکار ہے۔ پختونخوا   ملی عوامی پارٹی کی قیادت ایران اور شمالی اتحاد کے ساتھ اس  مقصد کے لیے تعاون کررہی ہے۔،ڈاکٹر دانش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ  میں  یہ مراسلہ باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔انگریزی روزنامہ نیشن نے چھ جولائی 2016 کی اشاعت میں اس مراسلے کے مندرجات 'کچھ دیگر تفصیلات کے  ساتھ رپورٹ کیے ہیں  ،رپورٹر کا نام جواد عوان ہے۔یہ جواد اعوان اس وقت روزنامہ 92 میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔

محمود اچکزئی کے نظریات  کی مزید تشریح کے لیے ٹیلی ویژن کے معروف صحافی جناب افتخار احمد کا  وہ انٹر ویو ضرور سننا چاہیے جو انہوں نے اچکزئی صاحب کا کیا تھا۔افتخار احمد نے ان سے پوچھا  کہ آپ نے ایک ہی بات تین مختلف اوقات میں تواتر سے کہی۔

نوائے وقت 28 جنوری 1993 ء میں 'پھر رونامہ جنگ 23 جنوری 1999ءمیں اور پھر میٹ دی پریس  پروگرام حیدرآباد میں دس نومبر 2001ء کے دن!

یہ کہ"پنجابی کالے انگریز ہیں  ۔ان کے دل اور رنگ دونوں  کالے ہیں  ۔ پختونوں  کے وسائل پر یہ کالے انگریز قابض ہیں  ۔اور یہ پاکستان نہیں پنجابستان ہے"۔

اچکزئی کےپاس اس   کا کچھ جواب نہ تھا۔آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔اس انٹر ویو اور بحث میں انہوں نے برملا کہا کہ وہ 1973ء کے آئین  کو نہیں مانتے اس آئین کو ختم کرکے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ جب اس"نئے عمرانی  معاہدے"کے خدوخال پوچھے گئے تو ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ خیبر پختون خوا  اور بلوچستان کے پشتونوں کو ملا کر ایک الگ یونٹ بنایا جائے اور اس میں  اٹک اور میانوالی بھی شامل ہوں ۔

محمود اچکزئی یہ بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں تسلیم کرتے۔یہ ہیں محمود خان اچکزئی کے نظریات کی چند جھلکیاں ۔ جب میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے 'تو اس  کا سوائے اس کے اور  کیا  مطلب ہے کہ نواز شریف محمود اچکزئی کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں ؟

قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی موقع پر نواز شریف نے  یا ان کے کسی ترجمان نے  یا وزیر نے یا مسلم لیگ ن کے کسی عہدیدار نے محمود خان اچکزئی کے ان پاکستان دشمن بیانات کی تردید یا  مخالفت  نہیں  کی!کوئی پرویز رشید  سیخ پا نہیں  ہوا، کسی دانیال  عزیز نے زبان کے  جوہر نہ دکھائے۔ کسی طلال چوہدری نے مائک پر آ کر تبصرہ نہ کیا۔ مریم نواز کے کسی ٹویت نے محمود خان اچکزئی کے  بیانات کی مذمت نہ کی!

دماغ  جذبات کے دباؤ میں آتا ہے نہ من مانی تشریحات اور توجیہات کرتا ہے۔دماغ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف کا محمود اچکزئی کے ساتھ نظریاتی تعلق ہے اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ :میاں نواز شریف مانتے ہیں کہ

پنجابی کالے انگریز ہیں

پنجابیوں کے دلاور رنگ دونوں کالے ہیں

پختونوں  کے وسائل پر کالے انگریز قابض ہیں

یہ پاکستان نہیں 'پنجابستان ہے

ڈیورنڈ لائن کی کوئی حقیقت نہیں ۔

محمود خان اچکزئی نے افغان اور ایران سے بھاری رقوم وصول کیں ( جن کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے)

محمود خان اچکزئی'شمالی اتحاد اور ایرانی ایجنسی"اطلاعات"کے آلہٰء کار رہے۔

محمود خان اچکزئی کے مشہور پاکستان دشمن اور بھارت نواز میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ تعلقات ہیں ۔

بلوچستان کے پختون علاقوں 'اٹک میانوالی اور کے پی پر مشتمل الگ پشتون اکائی وجود میں لائی جائے۔

1973ء کے آئین کو ختم کردینا چاہیے۔

یہ آئین پشتون علاقوں کے اتحاد میں حائل ہے۔

ا س میں کیا شک ہے کہ نواز شریف صاحب کی پاکستان میں اور  پاکستان کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایک طرف پوری دنیا کے حکمرانوں میں سے صرف مودی کو وہ اپنی نواسی کی شادی پر بلاتے ہیں۔بیماری کے دورن لندن سے صرف مودی کو  فون پر اعتماد میں لیتے ہیں ۔'مری میں  بھارتی ایجنٹ سے'وزارتِ خارجہ سے بالا بالا خفیہ   ملاقات کرتے ہیں ۔ مذمت کا لفظ نہیں بولتے'دوسری طرف ان کا اتحاد محمود اچکزئی اور مولانا  فضل الرحمٰن سے ہے! اس سیاسی اتحاد کے علاوہ اچکزئی سے ان کا  نظریاتی تعلق بھی ہے جس کا علان واعتراف وہ جلسہ عام میں کرتے ہیں !

سارے پاکستان  میں 'انہیں  دو اتحادی قبول ہیں۔اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن !مولانا کے بارے میں  معروف صحافیوں نے کئی بار لکھا ہے کہ  بھارت جاکر انہوں نے پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے انضمام کی  حمایت کی  تھی یا تجویز پیش کی تھی۔یہ بات پاکستان پہنچی تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اسے ڈس انفارمیشن قرار دیا۔ مذہب کے علمبردار 'یعنی مذہب کے بزعمِ خویش علم بردار 'ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔غلط دفاع کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ بھی دوسرے طبقات کی مانند ایک طبقہ ہے۔اور یہ اپنے ساتھیوں کی حمایت کرنے کے لیے سچ کے سینے میں بھالا اتارنےسے دریغ نہیں کرتے۔یہی قاضی صاحب  مرحوم نے یہی کیا۔ مگر  سید منور حسن نے'کہ بہت سی  خامیوں  کے باوجود شمشیر برآں ہیں 'برملا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی مذمت کی!مولانا   کو  معلوم ہے کہ فاٹاکے پی میں ضم ہوا تو وہاں کے باشندے پتھر کے زمانے سے نکل آئیں گے اور پروہتوں کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔مولانا کو راضی رکھنے کے لیے نواز شریف فاٹا کی پیٹھ میں  چھرا گھونپ رہے ہیں ۔

نواز شریف کے نزدیک فاٹایا پاکستان کے مسائل پر کاہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ان کی بلا سے  ۔انہیں  صرف اس سے غرض ہے کہ وہ حکمران بنیں ۔وہ نہ بن سکیں تو ان کی بیٹی اس ملک پر حکومت کرےوہ بھی نہ کرسکے تو ان کا بھائی۔ان کا وژن اس سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔آنکھ میں پیچھے روشنی نہ رہےتو  چشمہ کام آتا ہے نہ سرجری!

اب ایک ہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ وہ ان اتحادیوں کو خوش  رکھنے کے لیے قائداعظم کے مزار  پر کبھی حاضر  نہ ہونے کا اعلان کردیں ۔



وائرس جس نے ہر پاکستانی کو بے چین کررکھا ہے۔

$
0
0

ٹریفک رینگ رہی تھی ۔آگے جاکر بالکل رُک گئی۔اس نے باس  کی معیت میں ایک میٹنگ کے لیے جانا تھا۔باس کو فون کیا اور صورتحال بتانے  کے بعد معذرت کی۔باس نے تسلی دی کہ ایسا ہوجاتا ہے۔کوئی بات نہیں !

چند دن کے بعد'چھٹی کے بعد وہ گھر واپس جارہا تھا۔پھر ٹریفک کی وہی حالت ہوگئی۔ہائی وے پر گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔اس نے بیوی کو فون کیا۔بیوی طنزیہ ہنسی ہنسی!زہر میں بجھی ہوئی ہنسی!"مجھے معلوم ہے آپ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں "
یہ واقعہ ایک صاحب نے سنایا جو جرمنی میں رہتے ہیں ۔

اس تفاوت کا سبب کیا ہے؟باس یقین کرلیتا ہے۔مگر بیوی جو رفیقہء حیات ہے'جھٹلا دیتی ہے؟ کیوں ؟
یہ محض سوال نہیں 'یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگرا س سوال کا جواب دریافت کر لیا جائے'پھر اس پر غور کرلیا جائے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا رویہ اس سوال اور اس کے جواب کی روشنی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہی پاکستان جسے ہم رات دن کوستے ہیں 'جنت بن جائے۔

وجہ  جاننے کے لیے ستاروں کے علم کی ضرورت ہے نہ چلے کاٹنے کی۔باس جس ماحول میں پلا بڑھا 'اس میں جھوٹ بولنے کا رواج نہ تھا۔اسے بچپن میں جو کچھ بتایا جاتا تھا 'وہ اصل میں بھی وہی ہوتا تھا۔کبھی اس کے ما ں باپ نے اسے ڈاج کرنے کی کوشش کی نہ کسی ہم جماعت نے نہ کسی استاد نے۔وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔

بیوی کی پرورش جس فضا میں ہوئی 'وہ فضا دروغ گوئی کے جراثیم سے اٹی ہوئی تھی۔اس نے ہوش سنبھالا تو ہر طرف جھوٹ تھا۔نوکر نے بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے 'چھٹی چاہیےبعد میں معلوم ہوا ماں زندہ ہی نہیں تھی!باپ اچھا بھلا بستر پر لیٹا 'رضائی اوڑھے  اخبار پڑھ رہا تھا۔وہ پاس بیٹھی تھی۔ وہ اپنے باس کو فون کررہا تھا کہ سر مجھے بخار ہے'میں آج نہیں آسکوں گا۔اماں نے تین سوٹ نئے خریدے۔شوہر کو صرف ایک کا بتایا۔ایک شادی کا دعوت نامہ آیا ۔دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ یہاں نہیں جانا۔دعوت دینے والوں کو دونوں نے معذرت کرتے ہوئے وجہ یہ گھڑی کہ اسی دن قریبی رشتہ داروں کے ہاں شادی کی تقریب ہے۔کسی کو برا لگے یا درست لگے'ابکائی آئے یا کٹھا ڈکار'نام نہاد مسلمانی مجروح ہو یا جعلی حمیت کو ٹھیس پہنچے'سچائی صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی زندگی جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور جھوٹ پر ختم ہوجاتی ہے'ایک قریبی عزیر کے بچے کی ولادت تھی۔

دارالحکومت کے ایک جانے پہچانے نجی ہسپتال میں بیوی کو داخل کرایا۔محض بل بڑھانے  کے لیے  ڈاکٹروں نے جھوٹ پر جھوٹ اور مزید جھوٹ بولا۔بغیر کسی وجہ کے بچے کو وینٹی لیٹر پر رکھا۔جو ضروری نہیں تھا وہ سب کروایا اور خریدوایا۔ آپریشن کیا گیا ۔ ایک ہفتے بعد زچہ ٹانکے کھلوانے گئی تو اسے دو گھنٹے انتظار یہ کہہ کر کرایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر ہیں ۔حالانکہ ڈاکٹر صاحبہ دوسری ڈاکٹروں کے ساتھ چائے پی رہی تھیں اور کیک اڑا رہی تھیں۔

یہ ہمارے مسیحا ہیں !ایک معروف اینکر نے دو ماہ پہلے پریشانی میں بتایا کہ ان کے دل کا معاملہ تشویشناک ہو چلا ہے۔ تین دن بعد دو سٹنٹ پڑیں گے۔ڈاکٹر نے بتا دیا ہے۔تسلی کے لیے انہوں نے ایک جاننے والے ماہر امراض قلب سے رابطہ کیا ۔انہوں نے پورا معاملہ دیکھا اور فیصلہ دیا کہ پریشانی کی کوئی ضرورت نہیٰں۔ سٹنٹ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مزید اطمینان کے لیے ایک عزیز دوست سے بیرون ملک مشورہ کیا۔وہ بھی ماہر امراض قلب تھے۔انہوں نے بھی یہی بتایا کہ سٹنٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔انہوں نے سٹنٹ نہیں ڈلوائے ان ہدایات پر عمل کیا جو ان واقف کار  ڈاکٹروں نے بتائیں۔ ماشااللہ خوش و خرم ہیں ۔
مسیحاؤں کے مکروہ رویے کی بات درمیان میں آن پڑی۔بات اس جھوٹ کے جالے کے بارے میں ہو رہی تھی جو پیدائش ہی سے زندگی کے ارد گرد بن دیاجاتا ہے۔شوہر بیوی سے کہتا ہے فلاں رشتہ دار سے نہیں ملنا۔بیوی چھپ کر ملتی ہے پھر جھوٹ بولتی ہے۔شوہر بیوی کو تنخواہ غلط بتاتا ہے۔جاتاکہیں اور  ہے'بیوی کو کچھ اور بتاتا ہے۔ماں باپ بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور دن رات بولتے ہیں ۔ "میں یہیں ہوں کہیں نہیں جارہا"باپ بتاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد باپ نظر نہیں آتا۔بچہ اسے ڈھونڈتا ہے مگر پاتا نہیں ۔بچے کی نفسیات میں یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح جاگزیں ہوجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا کوئی ایسی بات نہیں یہ تو پوری زندگی کا حصہ ہے۔روزمرہ کی طرح محاورہ ہے! فون کی گھنٹی بجتی ہے۔بچہ سنتا ہے۔باپ سامنے بیٹھا ہے۔اشارے سے اسے بتاتا ہے کہ کوئی میرا پوچھے تو میں گھر پر نہیں ہوں۔ معمار یا الیکڑیشن مزدوری مانگ رہا ہے۔"صاحب !آپ نے آج کا وعدہ کیا تھا"بچہ پاس کھڑا سن رہا ہے۔دیکھ رہا ہے باپ ڈھٹائی سے کہتا ہے 'یار وعدہ  تو کیا تھا مگر آج نہیں 'دو دن بعد لے لینا'دعوت میں جارہے ہیں ۔گھر سے نکلے ہی تاخیر سے۔پہنچ کر سبب یہ بتاتے ہیں کہ راستے میں ٹریفک بلا ک تھی۔بچہ ساتھ تھا۔وہ سن رہا تھا۔ ٹریفک ہر  گز بلاک نہیں تھی۔

یہ ہے وہ ماحول 'وہ فضا جس میں بچہ بڑا ہوا ہے۔ جھوٹ کا یہ مکروہ جال 'ہر طبقے نےاپنے گھرمیں بُنا ہوا ہے۔مستری ہے یا مزدور'افسر ہے یا کلرک'استاد ہے یا تاجر'اسمبلی کا ممبر ہے یا وزیر'کروڑ پتی صنعت کار ہے یا عام دکاندار 'مرد ہے یا عورت'بوڑھا ہے یا جوان۔کراچی میں ہے یا اسلام آباد میں 'لاہور میں یا ملتان میں یا کوئٹہ میں یا پشاور میں یا کسی چھوٹے موٹے قصبے میں ہے یا کسی دور افتادہ گاؤں میں ۔مذہبی ہے یا غیر مذہبی'ہر شخص ہر مرد ہر عورت رات دن جھوٹ بولتی ہے۔اہل مذہب کا رویہ ایک رمق بھر بھی مختلف نہیں ۔ایک قریبی عزیز کی بیٹی کا نکاح تھا۔یہ کالم نگار دلہن کی طرف سے وکیل بنایا گیا۔ مولانا صاحب رخصت ہوئے تو وعدہ کیا کہ کل فارم مکمل کرکے گھر پر پہنچا دیں گےتین دن انتظار کیا۔چوتھے دن پوچھا تو آدھا گھنٹہ مولانا نے کسی گھنٹی پر فون نہ اٹھایا۔پھر ایک "سنجیدہ"سا پیغام ایس ایم ایس کیا ۔فون اٹھایا ۔فرمانے لگے فارم تو مکمل ہے آپ آئے ہی نہیں "دوست نے منع کیا مگر کالم نگار نے ان سے تسلیم کرا لیا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا اور یہ کہ وعدہ خلافی کی ہے۔ غور کیجیے'یہ جھوٹ اس حد تک سرائیت کرچکا ہے کہ مولانا کو اس کا احساس ہی نہیں ! بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مذہبی لوگوں کا ذکر بطور خاص کیا جارہا ہے۔وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔پھر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے اجتناب صرف اہل مذہب پر ہی تو لازم نہیں !

ہمارے ہاں ان گھرو ں سے 'یہ بچے 'اس تربیت کے ساتھ نکلتے ہیں اور معاشرے میں پھیل جاتے ہیں ۔ بچہ تاجر بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔استاد  بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔یہاں تک کہ صدر بنتا ہے تو صاف کہتا ہے کہ وعدہ ہی کیا تھا 'وعدہ کوئی قرآن حدیث تھوڑی ہے۔وزیراعظم بنتا ہے تو قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولتا ہے۔عدالت میں اس جھوٹ کے بارے میں جرح ہوتی ہے تو وکیل پوری "شرافت "کے ساتھ کہتا ہے کہ اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر تو سیاسی تھی ۔وزیراعظم خالو کو پہچاننے میں اڑھائی گھنٹے لگاتے ہیں !

یہ تو معاملے کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ وہ ہے جو اس بیوی نے دکھایا ہے۔اسےشک ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ نہیں میاں دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانک رہا ہے۔یہ اعتماد کا فقدان ہے۔ہر شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات پر یقین نہیں کرتا! یہ ہے وہ وائرس جس نے معاشرے کو بے چین کررکھا ہے۔ہر پاکستانی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔کل چھت پڑنی ہے 'رات کو نیند نہیں آرہی اس لیے کہ یقین نہیں کل معمار مستری اور مزدور آئیں گے یا نہیں ! کل گاہک کو مال دینا ہے۔بے چینی یہ ہے کہ کل تک سپلائر یا ڈسٹری بیوٹر مال پہنچاتا ہےیا نہٰیں!بیگم میکے گئی ہے  کل  آنا ہے۔جانے وعدہ پورا کرتی ہے یا نہیں !

وعدہ  ایک  معاہدہ  ہے۔تحریری ہے یا زبانی ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اب اس جھوٹ اور وعدہ  خلافی کی دوسری صورتیں دیکھیے۔ہوائی جہاز وقت پر پہنچانے کا قومی ائیرلائن نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ جھوٹا  ثابت ہوتا ہے۔ غور کیجیے 'تھائی ائیر لائن سنگا پور ائیر لائن کیوں نہیں جھوٹ بولتی۔ وہی گھر کی تربیت کا معاملہ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ شاہراہ سال کے آخر میں بن جائے گی۔نہیں بنی۔سب جھوٹ پر بڑے ہوئے ہیں ۔نیا اسلام آباد ائیر پورٹ 2007 میں بننا شروع ہوا ۔گیارہ میں مکمل ہونا تھا۔سترہ گزر گیا ہے'ابھی تک آثار نہیں ۔وہی جھوٹ گھروں سے نکلا اور قوم کے اوپر افق سے افق تک چھا گیا۔سیاست دان وعدے کرکے ووٹ لیتا ہے۔وعدے جھوٹ نکلتے ہیں ۔بیوروکریٹ کہتا ہے کل آپ کی فائل پر فیصلہ ہوجائے گا۔نہیں ہوتا ۔ جھوٹ اس کی گھٹی میں ہے۔ پروفیسر کلاس میں نہیں آتا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ہفتے میں اتنی کلاسیں پڑھائے گا'جھوٹا


ثابت ہوا۔ وقت پر دفتر کوئی نہیں آتا ۔وعدہ کیا تھا کہ آٹھ بجے آئیں گےاور چار بجے تک حاضر رہیں گے۔جھوٹ ۔سب جھوٹ!
اس وائرس کا جس دن علاج ہوگیا 'یہی ملک سوئٹزرلینڈ 'کینیڈا 'جاپان بن جائے گا۔ورنہ لاکھ میٹرو 'کروڑ اورنج ٹرین 'ہزاروں بجلی  کے کارخانے'کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔


راجہ بھوج اور گنگو تیلی

$
0
0

کیا قدیم زمانے کا انسان بہت لمبے قد کا تھا؟

اس کا جواب سائنس دان یا محققین یا اینتھروپالوجی کے ماہرین ہی دےسکتے ہیں۔ہاں سب کی طرح ہم نے بھی سنا ہے کہ ہمارے مقابلے میں اس زمانے کے قد زیادہ لمبے ہوتے تھے۔اس کالم نگار کو اردن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قبر مبارک دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کی لمبائی دیکھ کر حیرت ہوئی ۔کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تھی۔

آج کے زمانے میں حالات دیکھیں تو یہ بات'قد کی لمبائی والی'درست ہی لگتی ہے۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قد کس قدر چھوٹے ہوگئے ہیں !جہاں شمشاد قد بیٹھتے تھے۔ وہاں بونے نظر آتے ہیں !جہاں دیو ہیکل تھے وہاں بالشتیے براجمان ہیں !تخت یا کرسی کے پایوں کے نیچے دو دو فٹ اونچی لکڑیاں رکھ کر بھی یہ بونے'یہ بالشتیے'یہ پستہ قد کردار'بلند قامت نہ ہوسکے۔

اس لیے کہ بلند قامتی مصنوعی اونچائی سے نہیں ملتی!
ذوالفقار علی بھٹوسے شروع کیجیے۔منفی پہلو بہت تھے،آمرانہ رجحانات شخصیت کا حصہ تھے،دلائی کیمپ تاریخ میں ان کے ساتھ چپکا ہوا ہے مگر بطور لیڈر بھٹو بلند قامت تھے۔لباس کا کیا اچھا ذوق تھا!فرنگی ملبوس بہت رکھ رکھاؤ سے پہنتے۔عوامی جلسوں میں شلوار قمیض کا فیشن شروع کیا تو پورے ملک پر فیشن چھا گیا۔کثرت سے اور باقاعدگی سے مطالعہ کرتے،انگریزی کمال کی لکھتے ۔اور بولتے تو دھاک بٹھا دیتے۔سیاسی جلسوں میں فن تقریر کی نئی سمت نکالی۔کم از کم اس کالم نگار کے ناقص علم میں ان کی مالی کرپشن کی کوئی کہانی نہیں ہے!صدر سو کارنو سے لے کر یاسر عرفات اور شاہ فیصل تک دوستی تھی۔پارٹی بنائی اور پھر اسے ایک بڑی سیاسی قوت میں تبدیل کیا۔

اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت دیکھیے اور اس بات پر ایمان لائیے کہ قد چھوٹے ہوگئے۔پارٹی سربراہ جناب آصف زرداری کی قابلیت فنِ خطابت پر ان کی گرفت.کتابیں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کی مہارت او ر سب سے بڑھ کر دیانت اور امانت کے حوالے سے شہرت! عبرت کی جا ہے کہ قیادت کہاں سے کہاں آپہنچی۔جو عمارت بھٹو نے تعمیر کی تھی اب اس کے فقط کھنڈر باقی ہیں۔ان کھنڈرات پر مجاور بیٹھے ہیں!چادر چڑھا کر نذرانے وصول کرنے والے مجاور! پارٹی جاں بلب ہے کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔اسی لیے ان مجاوروں کو اب گورکن اور غسال درکار ہیں۔بقول ظفر اقبال
مجھے غسال ہی نہلائیں گے اب
بہت میلا کچیلا ہوگیا ہوں !

مسلم لیگ کا بخت دیکھیے! عبرت کی جیتی جاگتی مثال!آغاز قائداعظم سے ہوا۔اس قدو قامت کا لیڈر صدیوں بعدپیدا ہوا اور شاید کئی صدیوں تک نہ ملے۔جان کے دشمن بھی ایک پائی کی بد دیانتی نہ ڈھونڈ سکے۔ اصو ل پرستی اور آئین پسندی کی آخری حد سے بھی کوسوں آگے!زندگی بھر اپنی تعریف میں ایک لفظ نہ کہا!مقدمہ پہلے ختم ہوگیا تو رقم واپس کردی!پھر ذہانت و فطانت اور لیاقت اس درجے کی کہ مشرق و مغرب عش عش کر اٹھا!پیسہ کمایا بھی تو زورِ بازو سے!طعنہ ملا کہ گاندھی جی کانگریس کے خرچ پر سفر کرتے ہیں۔ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ فرسٹ کلاس میں! جواب دیا کہ گاندھی جی کا نگریس کے خرچ پر سفر کرتے ہیں،میں اپنی جیب سے ٹکٹ لیتا ہوں!وقت کی پابندی قابلِ رشک!لباس کے معاملے میں ذوق داستانوی حد تک طلسمی! متانت اس قدر کہ زندگی بھر کچی بات نہ کی!رعب اتنا کہ بڑے بڑے سردار،نواب زادے،یہاں تک کہ انگریز بھی سوچ کر'ناپ تول کر'ان سے بات کرتے۔سرکاری خزانے کی اس قدر حفاظت اور اتنی احتیاط کہ گزرے زمانے یاد دلا گئے۔سرکاری گاڑی اورگورنر جنرل کے استعمال کے لیے جہاز خریدنا پڑا تو اس قدر فکر کہ کم سے کم خرچ ہو! پھر قوتِ بیان ایسی اور اندازِ تقریر ایسا کہ ایک ایک لفظ سے کوہسار جیسا عزم چھلک چھلک پڑتا ہو۔حسنِ نیت اور اخلاص کی برکت تھی کہ انگریزی معلٰی میں تقریر کرتے اور کچھ نہ سمجھنے والے عوام یوں بیٹھے رہتے اور یوں زبانِ حال سے تصدیق کرتے جیسے الفاظ قائد کے منہ سے نہیں 'بادلوں کے اس پار سے اتر رہے ہوں !بمبئی اور دہلی میں محلات چھوڑ آئے'گورنر جنرل ہو کر ایک خشت تک اپنے لیے حاصل نہ کی!

اُسی قائد اعظم کی جماعت مسلم لیگ اب میاں نواز شریف کی باندی بنی ہوئی ہے۔اب نہیں 'تین عشرے ہونے کو ہیں! قوتِ تقریر متانت اور رعب سب کےسامنے ہے۔کچھ بیان کرنے کی حاجت ہے نہ گنجائش! جس مسلم لیگ کے قائد نے بسترِ مرگ پر 'لاہور سے آیا ہوا باورچی واپس کردیا تھا اور جورابیں نہیں لی تھیں کہ مہنگی ہیں 'اُسی مسلم لیگ کا قائد اب تین کروڑ (یا اس سے زیادہ کی) گھڑی کلائی پر باندھتا ہے۔ پورا سالم ہوائی جہاز 'اپنے لیے خالی'لندن منگواتا ہےاور کھڑا رہتا ہے۔غسل خانے پر بیت المال سے کروڑوں روپے صرف کردیتا ہے۔ وزارتِ اعظمٰی سے نا اہل ہوکر بھی سرکاری پروٹوکول 'مراعات'سرکاری اہلکار اور افسر اپنی اردل میں یوں بٹھاتا ہے جیسے بیت المال نہ ہو'شیرِ مادر ہو! آپ کا کیا خیا ل ہے کہ قائداعظم بیمار ہوتے تو کیا ان کے فرائض ان کی جگہ ان کی وہ بیٹی سرانجام دیتی جو حکومت میں ہوتی نہ پارلیمنٹ میں 'نہ پارٹی کا ہی عہدہ اس کے پاس ہوتا!اور آپ کا کیا خیال ہے کہ قائداعظم امریکی صدر سے ملتے تو جیب سے چٹیں نکال کرایک ایک لفظ منہ سے یوں نکالتے جیسے بچہ سبق ازبر کررہا ہو'اور آپ کا کیا خٰیال ہے قائداعظم بھارت جاتے تو وہاں تاجروں کے گھر جاتے اور کیا مری میں بھارتی سیٹھوں سے'وزارت خارجہ کو بے خبر رکھ کر'ملتے؟ اور آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم درجنوں فیکٹریوں اور لندن کے فلیٹوں اور جدہ دبئی اور قطر کی جائیدادوں کے مالک ہوتے ؟اور کیا کرپشن کے مقدمات میں سر سے لے کر پاؤں تک لتھڑے ہوتے؟اور آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم پارٹی کے صدر ہوتے تو او آئی سی کے اجلاس میں ترکی اپنے بھائی کو جانے کی اجازت دیتے؟اور خدانخواستہ عدالت آتے تو کیا تیس تیس گاڑیاں اور سرکاری اہلکاروں کے جتھوں کے جتھےان کے ساتھ پروٹوکول کا تزک و احتشام دکھاتے؟اور کیا قائداعظم کا دفاع عابد شیر علی 'دانیال عزیز'طلال چوہدری'اور ضنیف عباسی کرتے؟

کس آسمان پر تھی مسلم لیگ او رکس اسفل السافلین میں آن گری ہے!جی چاہتا ہے بال کھول لیےجائیں اور کمر کے ساتھ پٹکا باندھ کر ایسا ماتم'ایسی آہ و زاری 'ایسی سینہ کوبی کی جائے کہ فرشتے ماتم میں شریک ہوجائیں ،آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے۔پھر 'پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا سوچیے،دنیا سے گئے تو بنک میں چند ہزار روپے تھے اور بیوہ کے لیے چھت تک نہ تھی۔اس کے مقابلے میں آج کی قیادت کے اثاثے دیکھیے، صرف تصور ہی سے روح کانپنے لگتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں !آنکھیں بند کرکے سوچیےکیا قائداعظم احتساب کا اور دیانت کا لباس یہ کہہ کر تار تار کرتے کہ "میرے اخراجات میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمھیں کیا؟"

جماعت اسلامی کا زوال دیکھیے 'اس کے بانی سید ابو اعلٰی مودودی تھے! پچیس برس کے بھی نہ ہوئے تھےکہ الجہاد فی الاسلام جیسا شاہکار تصنیف کیا۔

تصانیف کی تعداد حیران کن !مضامین کا تنوع قابلِ رشک!"سلاجقہ "سے لے کر تفہیم القرآن تک'تنقیحات سے لے کر "سود "اور "پردہ"جس موضؤع پر قلم اٹھایا حق ادا کردیا۔ اردو ادب کو نثر کا نیااسلوب دیا ۔پھر تحریر میں مولویت نہ جذباتیت!خالص استدلالی اور سائنسی اندزِ بیان! یہی حال تقریر کا تھا!گھن گرج نہ نعرے'چیخ نہ لَے'صرف'اور صرف دلائل'پھر ایک حلقہ ارباب قلم اپنے گرد باندھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک !ملک غلام علی 'خلیل حامدی'عبدالحمید صدیقی'مصباح الاسلام فاروقی'نعیم صدیقی اور کئی ستاروں جیسے چمکتے دمکتےسکالر اور! ہر ایک اپنے میدان کا شہسوار !پھر گفتگومیں متانت !فیض صاحب اور مولانا ابو الاعلٰی مودودی دو ابطال ہیں جنہوں نے زندگی بھر مخالفین کے متعلق خاموشی اختیار کی۔صبر کیا اور جوابی حملہ نہ کیا۔لباس میں ابوالاعلٰی مودودی حد درجہ نفاست پسند اور منظم! کبھی ڈھیلی 'کچی 'لاابالی'بڑبولی بات نہ کی!اب جماعت کی قیادت سراج الحق صاحب کے پاس ہے پرسو ں کراچی خطاب میں دعویٰ کیا کہ 2018 میں بیت المقدس آزاد ہوجائے گااور پاکستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی!آپ کا کیا خیال ہے ابوالاعلٰی مودودی ایسا دعویٰ کسی جلسے میں کرتے؟اور کیا وہ جس جماعت کی قیادت پر رات دن کرپشن کا الزام لگاتے'آزاد کشمیر میں اسی سے اتحاد کرلیتے؟ او رکیا ابوالاعلٰی ہوتے تو لسانی بنیاد پر مولانا فضل ا لرحمٰن اور اچکزئی جیسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے؟

وہی جماعت اسلامی جس پر سکالر'محقق'ماہرین لغت'مفسر 'شاعر چھتری کی طرح سایہ کیے ہوئے تھے'وہی جماعت اسلامی اب جن افراد کے حضور سر جھکائے شرمندہ کھڑی ہے'وہ ایک صفحہ لکھنے سے قاصر ہیں 'ایک سماعت کو متاثر نہیں کرسکتے'ہا ں پراپرٹی کے معاملات اور کاروبار کے اسرار و رموز کوئی سیکھنا چاہے تو ان سے بڑا ماہر کوئی نہیں ملے گا!ابوالاعلٰی کا لباس دیکھ کر شخصیت کا کیا تاثر ملتا تھا اور اب کیا تاثر ملتا ہے!!

تو اس میں تعجب کی بات ہی کیا ہے اگر اگلے وقتوں میں قامتیں بلند تھیں ! اور اب بونے اور بالشتیےپیش منظر پر چھا گئے ہیں ۔



قوم کے لیے مژدہ جانفزا

$
0
0

ایک بہت بڑا کارنامہ جو میاں شہباز شریف نے سرانجام دیا ہے یہ ہے کہ “خونی انقلاب “ کی خونی اصطلاح کا آنجناب نے بندوبستِ دوامی کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا بندوبست ِدوامی کہ جس کی تاریخ ِ انقلاب میں نظیر ملنی مشکل ہے۔کارل مارکس کو جو اذیت چھوٹے میاں صاحب نے پہنچائی ہے ‘کسی گرز سے بھی کیا پہنچی ہوگی!

سچ یہ ہے کہ یہ اصطلاح دشنام بن کر رہ گئی ہے۔محض یہ کہنا کہ مذاق بن کر رہ گئی ہے ،اس اصطلاح کے ساتھ بھی ظلم ہے’مذاق کے لفظ کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خود دشنام کے ساتھ بد سلوکی ہے۔

اس وقت اگر پاکستان میں چوٹی کے پانچ مراعات یافتہ ترین افراد کی فہرست بنے تو شہباز شریف کا نام ان پانچ میں ضرور ہوگا ۔تعجب نہیں اگر ان پانچ میں بھی وہ اولیں نمبر پر ہوں ۔ان کی کئی رہائش گاہیں ہیں ۔ہر رہائش گاہ ایک عالی شان محل ہے،ہر محل کو سرکاری سٹیٹس حاصل ہے۔ ہر محل کے ارد گرد اوپر نیچے آگے پیچھے سینکڑوں سرکاری پہریدار ہیں۔

ان پہریداروں کی تنخواہ اس کھرب پتی شخص کی جیب سے نہیں بلکہ اس بھوکی ننگی مفلس قلاش، مظلوم،معتوب،مقہور،بدبخت قوم کی انتڑیوں سے نکالے گئے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ بیڑوں کے بیڑے قیمتی لیموزینوں کے خادم اعلیٰ کے لیے ہر وقت تیار کھڑے ہیں، باہر نکلتے ہیں تو غلام قوم کے لیے ان شاہراہوں کا استعمال حرام قرار دے دیا جاتا ہے جنہیں اسی غلام قوم کے گاڑھے خون پسینے سے بنایا گیا ہے۔ ہر چند ہفتے بعد خادمِ اعلیٰ صحت کے چیک اپ کے لیے ولایت تشریف لے جاتے ہیں۔اتنا ٹھاٹھ باٹھ ہے اور اتنا تزک و احتشام اور جاہ و جلال ہے کہ صوبائی حکمران ہوتے ہوئے اسلامی کانفرنس میں ترکی گئے۔ باقی وزرائے اعلیٰ اتنے گھگھو اور مٹی کے مادھو ہیں کہ احتجاج تک کا حوصلہ ہے نہ عقل۔ ترکی جاکر شہباز شریف جو وزیراعلیٰ خاقان عباسی کے ماتحت ہیں'ایک تصویر کی رُو سے'صدر اردوان کو اپنے وزیراعظم سے بھی پہلے مل رہے ہیں  اور پاکستان کے وزیراعظم ایک چکن کی طرح اپنے ماتحت کے پیچھے کھڑے ہیں کہ باری ٓئے تو اردوان سے ملیں!وزیراعظم کا بھائی ہونے کا ان صاحب نے اس قدر فائدہ اٹھایا اور اس حد تک اپنی حد سے بڑھے کہ ان کی اپنی پارٹی کے رکن اور ان کی اپنی حکومت کے وزیر بھرے اجلاس میں ان کی مداخلت کے خلاف پھٹ پڑے۔ہر وفاقی معاملے میں یہ صوبائی حکمران آگے آگے ہے  یہاں تک کہ قطر کے ساتھ گیس کے قبضے میں بھی!
اس سب پر کچھ مستزاد یہ ظلم کہ ان کے صاحبزادے جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں عملاً صوبے کے بادشاہ ہیں! تعیناتیاں ہوں یا فنڈز کی تقسیم، ہر معاملے میں اختیار ان کا ہے۔ جو پروٹوکول شہزادے کو مل رہا ہے'وہ گورنر یا وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں!
آمریت کا یہ حال ہے کہ صوبائی اسمبلی میں آپ سال میں اتنی ہی بار جاتے ہیں جسے انگلیوں پر گنا جاسکے۔ رہی صوبائی کابینہ تو اُسے جوتوں کے تسموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ صوبائی کابینہ رانا ثنا اللہ صاحب سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہوتی ہے۔
مری داستان ِ غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
اب آپ انصاف کیجیے'  یہ حد سے زیادہ مراعات یافتہ صاحب'جن کی طاقت'جن کا اختیار'جن کا جاہ و جلال، طمطراق اور شان و شوکت شاہ جہان اور جہانگیر سے کم نہیں'اگر خونی انقلاب کا بار بار نعرہ لگائیں اور نعرے سے بھی بڑھ کر خونی انقلاب کی دھمکی(بروزنِ گیدڑ بھبھکی) دیں تو کیا خونی انقلاب کی اصطلاح دشنام نہیں بن جاتی؟
کبھی  فرماتے  ہیں غریبوں کو انصاف نہ ملا تو خونی انقلاب آئے گا! کبھی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔
خلقِ خدا کو ہنسانا نیکی کا مشغلہ ہے۔ مگر اتنا بھی دوسروں کو کیا ہنسانا کہ انسان خود ہی نکُو بن جائے۔ارے جہاں پناہ! آپ اور آپ کے برادرِ کلاں لگ بھگ تین عشروں سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔غریبوں کو  انصاف آپ ہی نے تو دینا تھااور تھانے کیا بھارتی حکومت کے نیچے تھے؟اگر آپ آئی جی کو ذاتی ملازم کے طور پر استعمال کریں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسے وفاداری کا صلہ بھی دیں گے اور خلقِ خدا کی حیرت کو جوتی کی نوک پر رکھیں گے تو تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک کیسے ہوگا؟ اور پھر رونا رونا کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا'کیا اس کا مقصد اپنی مذمت کرنا ہے؟ وہی پامال شدہ قصہ دہرانا پڑتا ہے ایک شہزادہ پیدائش سے جوانی تک زنان خانے رہا۔ خواجہ سراؤں'کنیزوں اور بیگمات کے سوا کچھ دیکھا ہی نہ تھا ۔حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔جب بیگمات اور کنیزیں چیخ رہی تھیں کہ کسی مرد کو بلاؤ تو نسوانیت زدہ شہزادہ بھی پکار رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ۔خلقِ خدا چیخ رہی ہے کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا تو وزیراعلیٰ بھی خلقِ خدا کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر فریاد کررہے ہیں کہ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ د ل اس معصومیت پر فدا ہونا چاہتا ہے مگر دماغ کہتا ہے کہ یہ فریاد جعلی ہے! پرسوں کڈنی ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ا میر غریب کا فرق مٹانے کے لیے آپ نے تیس برسوں میں کیا کیا ہے؟ پورے صوبے میں کسی ایک کچہری کا نام بتا دیجیے جس کا کلچر بدل گیا ہو!
اور اب ماشااللہ!یہ خبر عام ہے کہ اگلے وزیر اعظم بھی آپ ہی ہوں گے۔ کیا مژدہ جانفزا ہے قوم کے لیے۔استاد ذوق اور مرزا غالب حیات ہوتے تو قصیدے لکھتے۔ قاآنی شیرازی ہوتا تو ایسے ایسے یاقوت و مرجان لٹاتا کہ بادشاہی کا مزا آجاتا
اقبال و بخت و نصرت و فیروزی و ظفر
تصور کیجیے'  دارالحکومت میں داخل ہوتے ہی آپ کو سب سے بڑے چوراہے پر زرِ خالص کی بنی ہوئی بہت بڑی انگشتِ شہادت نظر آئے گی جو ہر آنے والے کو کچھ سمجھا رہی ہوگی۔ ایک اور چوک پر فرنگی ہیٹ آویزاں ہوگا۔ اس کے بعد سب سے بڑی شاہراہ پر لمبے والے بوٹ!ایک بوٹ  کے نیچے اسمبلی اور دوسرے  کے نیچے کابینہ   - شہر میں ایک بھی درخت نہ ملے گا کیوں کہ دن رات شاہراہیں اکھاڑی بنائی'پھر اکھاڑی بنائی اور پھر اکھاڑی بنائی جارہی ہوں گی۔پُل اس قدر ہوں گے کہ شہر کا شہر ہی انڈر پاس لگے گا۔
چونکہ سرکاری سکولوں سے آپ کو شدید نفرت ہے اس لیے وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکول ایک بھی نظر نہیں آئے گا۔سب دانش سکول ہوں گے۔ ساری روٹیاں سستی روٹیاں ہوں گی۔ساری ٹیکسیاں پیلی ٹیکسیاں ہوں گی اور سارے گھر آشیانہ گھر ہوں گے۔
اخبارات شائع ضرور ہوں گے مگر تمام کے تمام صفحے پر خادمِ اعظم کی (وزیر اعظم بنتے ہی لقب خادم اعظم  ہوجائے گا) تصویر اور کارناموں کی تفصیل ہوگی۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی یہی پروگرام نشر ہو رہے ہوں گے۔
ماڈل ٹاؤن کے 14قتل'جس میں بیوروکریٹ کا نام آرہا تھا اسے بیرون ملک سفیر لگا دیا گیا تھا۔ بس اسی کو واپس لاکر خادمِ اعظم کا معاون ِ خاص تعینات کیا جائے گا۔نوکر شاہی کا لاہور گروپ لاہور میں بھی ہوگا اور وفاقی دارالحکومت میں بھی!پنجاب کے جن ریٹائرڈ آئی جی صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق میں اعلیٰ منصب عطا کیا گیا ہے'انہیں خادم ِ اعظم کے چارج لیتے ہی مزید اعلیٰ منصب پر بٹھایا جائے گا۔ دارالحکومت کے  ہر کھمبے پر خونی انقلاب کی تصویر لٹک رہی ہوگی! کئی محلات حرم سرا کا درجہ حاصل کریں گے۔ نئی ایلیٹ فورس او رنئی ڈولفنس پولیس وجود میں آئے گی اور سب کو شاہی محلات اور حرم سراؤں کے ارد گرد آگے پیچھے اور نیچے پھیلا دیاجائے گا۔خادمِ اعظم ایک کیمپ آفس انقرہ میں اور دوسرا کیمپ آفس لندن میں بنائیں گے تاکہ کاروبار مملکت کو وہا ں بیٹھ کر چلاتے رہیں۔ اگر حاضرین سامنے موجود ہوں تب بھی ترجیح ویڈیو تقریر کو دی جائے گی کہ ویڈیو خطاب زیادہ موثر اور زیادہ متاثر کن لگتا ہے۔رہا صوبہ تو اس کا چارج بھی آپ ہی کے پاس رہے گا اس لیے کہ والی ء پنجاب کے طور پر صرف آپ ہی سجتے ہیں۔شہزادہ عملاً اسی طرح نائب وزیراعظم ہوگا جیسے اب نائب وزیراعلیٰ ہے! اور ہاں! خادمِ اعلیٰ لندن، بیجنگ،انقرہ اور لاہور کے سوا کہیں بھی نہیں جائیں گے اس لیے کہ وفاق میں آکر'  ملک کے باقی حصوں کا مرتبہ و مقام آنجناب کی نظر میں وہی ہوگا جو بطور وزیراعلیٰ لاہور کو چھوڑ کر باقی پنجاب کا تھا۔ اب تو صوبے کا بجٹ لاہور کی نذر ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کا بجٹ نذر کیا جائے گا۔
اگر خاندان چھوٹے میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرچکا ہے تو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آخر اس قوم کو اعمال کی سزا بھی تو ملنی ہے


.ٹیپ ریکارڈ سے یوٹیوب تک

$
0
0

ٹیپ ریکارڈرپر سائنسدان کام تو ایک عرصہ سے کررہےتھے مگر ا س کا عام استعمال 1940 کے عشرے میں شروع ہوا۔ آپ نے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر قائداعظم کی تقریر کے کچھ الفاظ ان کی اپنی زبانی سنے ہوں گے ان کی وفات 1948 میں ہوئی ۔اسکا مطلب یہ تھاکہ اس وقت برصغیر میں ٹیپ ریکارڈ 'جیسا بھی تھا آچکا تھا۔موسیقی میں اس کا استعمال خوب ہوا ۔اسی زمانے میں معروف و مشہور شعرا کاکلام بھی ریکارڈ کیاجانے لگا۔

جن لوگوں کو شوق تھا ‘انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعروں کا کلام ان کی اپنی آواز میں ریکارڈ کیا یا کرایا۔ کراچی کے لطف اللہ خان صاحب نے تو آوازوں کا خزانہ جمع کیا ۔اسی کی دہائی میں وہ اس کالم نگار کے غریب خانے پر تشریف لائے اور غزل ریکارڈ کی۔تاہم یہ ریکارڈ شدہ آوازیں ‘غزلیں ‘نظمیں ‘تقریریں ‘انٹرویو ‘جن لوگوں کے پا س تھے ‘انہی کی دسترس میں رہے۔بہت ہوا تو ریڈیو یا ٹیلی ویژن نے ان میں سے مشہور اور تاریخی چیزیں مناسب مواقع پر نشر کردیں ۔جس نے سن لیا ‘سن لیا ،جومحروم رہا ‘اس کی ان ریکارڈ شدہ آوازوں تک رسائی نہ تھی۔

بہت سے مشہور شعرا اور نامور ہستیوں کو سننے کا موقع ملا یہ مواقع ہماری پوری نسل کو دستیاب ہوئے۔ منیر نیازی ‘جون ایلیا’ سلیم احمد’ قمر جمیل ‘احمد ندیم قاسمی’ ضمیر جعفری اور کئی اور شعرا ء کو جی بھر کر براہ راست سنا۔ ان سے تعارف کا اعزا ز حاصل رہا۔شورش کاشمیری کو بھی سنا ۔تاہم بہت سے ایسے شعرا بھی تھے جو بہت زیادہ پسند تھے مگر انہیں دیکھا نہ سنا،مجید امجد کی “شب رفتہ” الف سے ی تک حفظ ہو گئی،ناصر کاظمی کی برگِ نےکا ایک ایک شعر ازبر ہوگیا۔مگر ان مشاہیر کو دیکھا نہ ان کی زبانی ان کا کلام سنا۔

پھر کچھ ایسے شعرا کے حالات پڑھے اور ان کا ذکر سنا جن کی شاعری اقبال ،فیض اور جوش کے مقابلے کی نہ تھی مگر اپنے زمانے میں ان کے ترنم اوراندازِ بیان نے غلغلہ برپا کیے رکھا۔ ہم نے سنا کہ جگر مرادآبادی کلام سناتے تھے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا ۔ کلیم عاجز اور خمار بارہ بنکوی بہت مقبول ہوئے۔ استاد قمر جلالوی نے کلاسیکی رنگ کی شاعری کی اور اپنے زمانے میں مشاعروں پر چھا گئے۔ جن خوش قسمت لوگوں کے پاس ریکارڈ شدہ ٹکڑے تھے وہ محظوظ ہوتے ہرے اور دوسرے محروم رہے۔

پھر ایک انہونی ہوئی۔2005 میں امریکہ میں تین نوجوانوں نے جو ایک مالیتی کمپنی میں ملازم تھے ایک انوکھی قسم کی ویب سائٹ بنائی ۔یہ نوجوان چاڈ ہرلے’سیٹوچن اور جاوید کریم تھے۔اس ویب سائٹ کی خاصیت یہ تھی کہ اس پر ریکارڈ شدہ تصویر مع آواز یعنی ویڈیو یا صرف ریکارڈ شدہ آواز پوسٹ کی جاسکتی تھی۔2006 میں گوگل نے یہ ویب سائٹ تقریباً پونے دو ارب ڈالر میں خرید لی جیسے ہی یہ ویب سائٹ پبلک کے لیے عام ہوئی ‘انقلاب آگیا۔جس شخص کے پاس جو ریکارڈنگ محفوظ تھی ‘اس نے اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی۔”یوٹیوب”اسی ویب سائٹ کا نام ہے۔اب آوازوں اور متحرک تصویروں کے یہ خزانے ہر انسان کی دسترس میں آگئے آپ کے پاس کسی کی ویڈیو ہے تو آپ اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیجیے۔گیت ہیں  یا شاعری’تقریریں ہیں یا انٹرویو ‘ڈرامے یا کوئی اور پروگرام سب یوٹیوب پر چڑھائے جاسکتے ہیں اور دیکھے جاسکتے ہیں ۔جگر مراد آبادی 1960ء میں وفات پا گئے اس وقت یہ کالم نگار ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ یوٹیوب ایجاد ہوکر منظرِ عام پر آئی تو جن خوش بخت لوگوں کے پاس جگر مراد صاحب کی آواز تھی انہو ں نے افادہ ء عام کی خاطر یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی۔یوں جگر مراد کی آواز گویا موت کے بعد زندہ ہوگئی۔قمر جلالوی سے لے کر ماہر القادری تک آپ بہت سوں کو سن سکتے ہیں ۔آج ہی مجید امجد کی زبانی ان کی نظم سنی۔

ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب

میں کاش دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا

پلٹ پڑا ہوں شعاؤں کے چیتھڑے اوڑھے

نشیب زینہء ایام پر عصا رکھتا

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ناصر کاظمی کی شاعری ان کی زبانی سنیں گے۔دلچسپ ترین بات تو یہ ہے کہ یہ یوٹیوب ہر جگہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ آپ کراچی میں ہیں یا سکھر میں ‘نیویارک میں ہیں یا ٹوکیو میں ‘ایک کلک کیجیے اور جو سننا چاہیں سنیے۔یہ آوازیں ‘یہ تصویریں کسی سے چُھپ نہیں سکتیں ۔

ہم جو کچھ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک ٹیپ ریکارڈر  پر محفوظ ہورہا ہے۔ایک بہت بڑی ویڈیو بن رہی ہے۔ہر حرکت،ہر آمد و رفت’ہر منصوبہ’ہر پروگرام ‘ہر سازش کی تصویر لی جارہی ہے۔ ہر فقرہ’فقرے کا ہر لفظ ‘یہاں تک کہ لہجہ’ انداز اور آواز کا زیرو بم بھی محفوظ ہورہا ہے۔سات پردوں میں چھپ کر جو سکیم بنائی جارہی ہے’وہ بھی ریکارڈ ہورہی ہے۔کسی دستاویز میں خفیہ رد و بدل کیا جارہا ہے تو اس کا فوٹو بھی لیا جارہا ہے ۔کسی کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ ۔گالیاں دی جارہی ہیں۔ کسی کی حق تلفی ہورہی ہے’قدم کسی غلط جگہ کی طرف اٹھ رہے ہیں غرض جو کچھ بھی ہورہا ہے’ٹیپ ریکارڈر میں نوٹ ہورہا ہے۔

ریکارڈ کرنے والے یہ سب ٹیپ ریکارڈر ز رکھتے جارہے ہیں ۔یہ ذخیرہ ہے جس میں خلقِ خدا کی زندگیوں کی زندگیاں جوں کی توں اتارلی گئی ہیں ۔گوشہء گمنامی میں پڑے ہوئے یہ ٹیپ ریکارڈ ز کسی یو ٹیوب کا انتظار کررہے ہیں۔

ایک دن یہ عظیم الشان یوٹیوب سامنے آجائے گی۔اس یوٹیوب پر یہ ٹیپ ریکارڈز اپ لوڈ کردیے جائیں گے۔ بس پھر کیا ہے ‘سب کچھ سب کے سامنے آجائے گا۔وہ جو پروردگارنے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ “جب اعمال نامے نشر کیے جائیں گے” تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایجاد ہونے کے بعد یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ نشر کرنے سے کیا مراد ہے جو کچھ نشر ہوتا ہے’ وہ ساری دنیا سنتی ہے اور دیکھتی ہے۔ہم آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی پٹی چند لفظوں پر مشتمل چلتی ہے کہ فلاں گرفتار ہوگیا ہے۔ چند سیکنڈ میں یہ خبر کراچی سے لے کر گلگت تک ہی نہیں ‘نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک سب کے علم میں آجاتی ہے۔

یہ بڑی بے رحم یوٹیوب ہوگی۔اس کا کوئی توڑ نہ ہو گا۔ فلم کے بعد فلم’ویڈیو کے بعد ویڈیو چلے گی۔شوہر کا کچا چٹھا بیوی دیکھے گی۔اولاد دیکھے گی کہ ان کا شریف باپ چھپ چھپ کر کیا گل کھلاتا رہا۔حاجی صاحب سات پردوں کے اندر خوراک اور ادویات میں جو ملاوٹ کرتے رہے۔ ‘انہیں نیکو کار سمجھنے والے عقیدت مند اس سارے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔اس دن کوئی این آر او ،کوئی دستاویز،کچھ بھی نہیں خفیہ رہ سکے گا ۔پردے ہٹ جائیں گے۔ لوگ ننگے ہو جائیں گے ۔حساب کتاب  میں جعل سازی سے لے کر انفرادی، خاندانی ، ملکی ،قومی،علاقائی ،بین الاقوامی سطح تک کی ساری سازشیں طشت از بام ہو جائیں گی۔

ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اس ذلت ،اس رسوائی اور اس بر ہنگی سے بچنے کا ۔آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کیا جائے ، کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس کے ظاہر ہونے سے رسوائی ہو ۔بڑی سے بڑی لالچ ایسے فعل پہ آمادہ نہ کرےجس کے طشت ازبام ہونے سے ڈر لگے۔

مگر یہ احتیاط کافی نہیں۔اس معاملے کا براہ راست تعلق اللہ کی اس صفت کے ساتھ قائم ہے جو ستار العیوب قرار دیتی ہے ۔عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا۔ یوں تویار لوگوں نے روپے پیسے اور سونے چاندی کو بھی ستار العیوب سمجھ لیاہے۔یہ شعر بہت مشہور ہے

ای زر تو خدا نہ ای ولیکن بخدا

ستار عیوب و قاضی الحا جاتی!

کہ اے زر !تو خدا تو نہیں مگر خدا کی قسم تو عیوب ڈھانک لیتا ہے اور حاجات پوری کرتا ہے ۔

مگر یہ دولت اور اقتدار کی پردہ پوشی اسی جہان تک محدود ہے ۔اس پردہ پوشی کو تو خود ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔جس دن وہ حشر انگیز  یوٹیوب کائنات پر نصب ہو گی ،اس پر اس پردہ پوشی کی فلم بھی چل رہی ہو گی ۔

پرور دگار کو اس کی عظیم الشان صفت کا واسطہ دے کر،دل کی گہرائیوں میں اسے اصل ستار العیو ب مان کر ،عرض گزاری کی جائے اور گڑگڑایا جائے کہ اس دن پردہ پوشی کر دینا ، ہمیں اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں بیوی بچوں او ر دوست احباب کےسامنے رسوا ہونے سے بچا لینا ۔ ہمارے ٹیپ ریکارڈرز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ نہ کیا جائے۔رحمتِ خاص سے اس کڑے مرحلے سے باعزت گزرنے دے دیا جائےتو کیا عجب دعا قبول ہوجائے ۔بشرطیکہ ٹیپ ریکارڈ پر نیا مٹیریل ‘نیا مصالحہ نئے کرتوت نہ چڑھتے جائیں ۔،

ماں باپ دوست احباب بیوی بچوں سے بھی زیادہ کٹھن بلا خیز اور رُسوا کن مرحلہ وہ ہوگا جب ہمارے اعمال رسول کریم ﷺ کے سامنے لائے  جائیں گے جو امت کے لیے راتوں کو خدا کے حضور کھڑے رہتے،یہاں تک کہ مقدس پیروں میں ورم آجاتا۔اسی لیے تو اقبال نے گڑ کڑا کر زاری کی تھی۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائی من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر

کہ مجھ فقیر کے عذر جزا کے دن قبول کرلینا ۔اور اگر میرا حساب کتاب کرنا ہی ہوا تو آقا ﷺ سے چھپا کر کرنا۔






ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے

$
0
0

اس کا رنگ کالا ہے۔سفید فام دنیا میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ پھر مالک نے اپنی شناخت کے لیے اس کے ماتھے  پر،رخساروں پر،اور ناک پر ،لوہے کی گرم سلاخوں سے خصوصی نشان بھی بنا رکھے ہیں ۔

بھاگنے کی کوشش کی تو کچھ ہفتوں بعد پکڑا گیا۔سزا کے طور پر ایک پاؤں  کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک دن ایک سوداگر آیا غلاموں کو خریدنے اور بیچنے والا سوداگر ۔۔اسے اس کی بیوی پسند آگئی ۔اس نے مالک کو رقم دےی ۔اس کی بیوی کو باندھا اور گھوڑا گاڑی کے عقبی حصے میں  ڈال کر لے گیا۔ دونوں میاں بیوی چیختے ،چلاتے ،بلبلاتے ،ہچکیاں لیتے رہ گئے۔

یہ جسمانی غلامی تھی۔ اس غلامی میں  ایک خصوصیت بہر حال تھی اور وہ یہ کہ یہ جسمانی غلام بھاگنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آزادی کی ایک چنگاری ان کے نہاں خانہ دل میں کہیں نہ کہیں روشن ضرور رہتی تھی۔سیاہ فام امریکی غلاموں کی تاریخ ان چنگاریوں ،ان شعلوں اور ان روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔

کبھی  آپ نے سوچا ہے کہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذہنی غلامی ہزار ردجہ بدتر ہے؟ اس لیے کہ ذہنی غلامی سراسر رضاکارانہ ہوتی ہے، اس میں زنجیر ہے نہ رخساروں پر گرم سلاخوں سے بنے ہوئےشناختی نشان،نہ پاؤں کاٹنے کی سزا ،خریدو فروخت نہ کوڑے۔

اس ذہنی غلامی کی  ایک بدترین مثال چار دن پہلے میڈیا میں نظر آئی۔ ایک صوبے کے والی سے پوچھا گیا کہ آپ کے ہاں وزیراعظم کی تصویر کے بجائے یہ جو سابق”نااہل”وزیراعظم کی تصویر اب بھی لگی ہوئی ہےتو اس کا کیا سبب ہے۔اس پر حکمران  نے جواب دیا کہ میرے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں ۔

اب یہ کون پوچھے کہ کیا آپ کی فائلیں اب بھی انہی صاحب کے پاس جاتی ہیں ۔جو ملک کے نہیں ‘صرف آپ کے وزیراعظم ہیں ؟اور اگر آپ کے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں اور سرکاری دستاویزات پر دستخط خاقان عباسی صاحب کے ہیں تو   پھر تو یہ سلسلہ ہی غیر قانونی ہے۔احکام کسی اور سے’منظوری یا انکار کسی ور کا اور وزیرعظم کوئی اور ۔

اس ذہنی غلامی کو آپ مفادات کا شاخسانہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔وزیراعلی ہونے کے بعد اور کیا درکار ہے۔وزیراعظم بننے کا خواب تو خود بھی نہ دیکھا ہوگا۔نہیں ‘ مفادات کا کھیل نہیں۔یہ سراسر اور محض ذہنی غلامی ہے۔جس  کا بت  ذہن میں اور دل میں  براجمان کردیا گیا ،اب اس کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ آجائے یا آسمان سے کوئی دلیل اتر آئے۔اس ذہنی غلامی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا  - یہ بنیادی طور پر قبائلی طرز فکر ہے- قبیلہ ہر حال میں سردار کا وفادار رہتا ہے -اس ذہنی غلامی کا پھر بھی جواز ہے۔وہ جدید دنیا سے دور ہے۔ تعلیم نہیں،جمہوریت پارلیمنٹ،عدلیہ ،یہ سب وہاں مفقود ہیں مگر ایک صوبے کا پڑھا لکھا حکمران ذہنی غلامی میں مبتلا ہو، تو کوئی دلیل اس کے حق میں نہیں دی جاسکتی۔ہاں !ہمدردی کی جاسکتی ہےیا افسوس۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ذہنی غلام ‘اپنے آقا کی ہر غلطی کا دفاع یوں کرتے ہیں جیسے کفر و ایماں کا مسئلہ ہو۔ حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جو شور مچایا ہے کہ وفاقی وزارتِ خزانہ نے 9 ارب روپے کی خطیر رقم داماد اول جناب کیپٹن صفدر کے حوالے کیوں کی’تو ذہنی غلام اس کے حق میں عجیب و غریب دلائل دیں گے۔مثلاً یہ کہ وہ آخر اسمبلی کے رکن ہیں ۔یا یہ کہ ساتھ ہی کمیٹی بھی تو بنا دی گئی ۔ کمیٹی کی کیا حیثیت تھی۔ فنڈز زیادہ تر ایک خاص علاقے میں گئے اور قانونی اور انتظامی تقاضے پورے کئے بغیر خرچ کئے گئے۔اب جو بیوروکریسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سامنا کررہی ہے۔وہ فائلوں کا پیٹ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔یہ ہے عدل کا ایک نمونہ جس کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان ہوا ہے۔ذہنی غلامی صرف پیری مریدی میں  نہیں ‘صرف آنکھیں بند کرکے کسی ایک مسلک پر عمل پیرا ہونے میں نہیں ‘ذہن کو بند کرکے ایک خاندانی پارٹی کے  ساتھ وابستہ ہونا بھی ذہنی غلامی ہے۔

ہاں ! مفادات اس ذہنی غلامی کوکنٹرول ضرور کرتے ہیں ۔مثلا! ذہنی غلاموں کا جو گروہ جنرل پرویز مشرف کو میسر تھا اور عینی شاہدوں کے مطابق جس گروہ کے افراد جنرل صاحب کی خاکی قمیض سے خیالی دھبہ اپنی انگشت شہادت اورانگوٹھے سے دائرہ بنا کر جھاڑتے تھے’وہی گروہ اب موجودہ حکمران پارٹی کے خاندانی سربراہ کے ساتھ وابستہ ہے۔زمانہ جب بھی کروٹ لے گا اور اقتدار کے سنگھاسن پر کوئی آ کر بیٹھے گا تو یہ گروہ اسے اپنا نیا آقا بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔

اس  ذہنی غلامی کی ایک مثال دیکھئے’ ایک وفاقی وزارت میں تعینات ایک منظور نظر افسر کو بیرون ملک آنکھوں کے علاج کے لیے دو کروڑ 37 لاکھ 95 ہزار روپے قومی خزانے سے عطا کئے گئے۔آڈٹ سے بچنے کے لیے اس بخشش کی توثیق وفاقی کابینہ سے کرانا ضروری تھی۔ پوری کابینہ میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ یہ کس قبیل کا علاج ہے جس کے لیے اتنی بھاری رقم دی جارہی ہے۔

یوں بھی غلاموں کا کام ہی کیا ہوتا ہے ؟ہاتھ کھڑا کردینا’ بغیر پوچھے انگوٹھا لگا دینا ‘کسی کے خلاف بیان جاری کردینا’کسی کی حمایت میں حد  سے گزر جانا’بابے ظفر اقبال نے کیا خوب کہا ہے

سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے

عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں

یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ چودھری صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔نوکر ٹانگیں دبا رہا تھا ۔سامنے سے میراثی آتا دکھائی دیا ۔نوکر کو حکم ہوا کہ میراثی قریب آئے تو اس پر بھونکو۔ نوکر حسبِ حکم اور حسبِ منشا بھونکا۔ میراثی کہاں چوکنے والا تھا ۔ کہنے لگا” پہلے اس لاش کو تو بھنبھوڑ لو جو تمھارے سامنے پڑی ہے”۔

ویسے جناب شاہد خاقان عباسی کے بجائے کوئی دھڑلے والا وزیراعظم ہوتا تو فائلیں واپس کردیتا ۔فنڈز روک لیتا۔صرف یہ کہتا کہ مجھے تو آپ وزیراعظم تسلیم ہی نہیں کرتے’منظوری کیسے دے سکتا ہوں ؟مگر جو خود پابہ زنجیر ہو’ دوسرے کو آزادی کا سبق کیسے پڑھا سکتا ہے۔

ذہنی غلامی کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے۔اسے بدترین مثال کہہ سکتے ہیں ۔ پوری حکومتی پارٹی میں ‘فاٹا کے حوالے سے’کسی مرد “آزاد” کو یہ پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صرف دو افراد کی خاطر فاٹا کے انضمام میں کیوں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے جبکہ ان دونوں کا تعلق فاٹا سے نہیں ہے۔ مگر اسمبلی میں جو ذہنی غلام بیٹھے ہیں ‘ان کا کام صرف آنکھیں  بند کرکے احکام کی تکمیل ہے۔جو اقبال نے کہا تھا کہ

شریک حکم غلاموں کو کرنہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک

تو ہمارے عہد کے غلاموں پر تو اس شعر کا اطلاق ہی نہیں ہوتا اس لیے کہ اس میں ادراک لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور انگوٹھا ثبت کرنے میں اور ہاتھ اٹھادینے میں کسی ادراک کی ضرورت نہیں رہتی۔غلامی کی انتہا یہ ہے کہ ایک شخص نے کھلم کھلا فاٹا  کو افغانستان کا حصہ قرار دیا مگر حکومتی پارٹی کے کسی رکن کی پاکستانیت نے چوں نہیں  کی۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے سابق پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی ایم این اے نے جو  بیان دیا ہےاس پر حکومتی پارٹی اراکین کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔شاہ جی نے کہا ہے

“محمود اچکزئی کا فاٹا میں سٹیک ہی نہیں پھر کس کے اشارں پر مخالفت کررہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کو قبائلیوں کا درد نہیں بلکہ مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔فاٹا اصلاحات پر عمل درآرمد میں سابق وزیراعظم خود رکاوٹ ہیں اگر نواز شریف  کو ریاست اور بیس کروڑ عوام کی فکر ہوتی تو وہ اپنے اتحادیوں کو نہ دیکھتے ۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو اپنے علاقے کو علاقہ غیر کہے”

شاہ گل آفریدی نے درست کہا مگر ان کا یہ کہنا کہ اچکزئی کا فاٹا میں  سٹیک ہی نہیں ‘محل نظر ہے۔ اچکزئی کا سٹیک فاٹا میں نہیں ‘سرحد پار ضرور ہے۔ان کے جو قابل مذمت روابط دوسرے ملک سے ہیں ان کی تفصیل ہم   اس کالم میں بیان کرچکے ہیں جو بیس دسمبر کو شائع ہوا ہے۔ اور اب تو سابق وزیراعظم نے اچکزئی صاحب کو اپنا  نظریاتی ساتھی بھی قرار دے دیا ہے۔ یہی تو نظریاتی سیاست ہے جس کے شروع کرنے کا اعلان انہوں نے نااہلی کے بعد کیا ہے ۔پورے ملک میں اچکزئی صاحب واحد خؤش قسمت ہیں جن کے ساتھ سابق وزیرعظم نے اپنے”نظریاتی تعلق” کا اعلان کیا ہے،سابق وزیراعظم کی نظریاتی سیاست یا تو اتنی گہری ہے کہ کوئی شناور اس تک پہنچ نہیں سکتا یا اس قدر اُتھلی ہے کہ اس پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔

ہم برصغیر کے مسلمان شاہی خاندان کے ساتھ وفاداری یا غداری کے لیے یوں بھی معروف ہیں ۔1208 ء میں قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ تب سے لے کر 1857 ء تک کی تاریخ کھنگال لیجئے ‘بادشاہ مرتا یا قتل ہوتا تو دربار کے عمائدین اپنی اپنی پسند کے شہزادوں کو جانشین بنانے کےلیے متحارب گروہوں میں بٹ جاتے۔خاندان سے باہر کسی فرد کو بادشاہ بنانے کا وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ہاں ! خود آگے بڑھ کر کوئی قبضہ کرلیتا   تو اور بات تھی ۔وہی روایت مسلم لیگ نون نبھا رہی ہے۔ ذہنی طور پر پارٹی کے ارکان تیار ہیں کہ بھائی وزیراعظم بنے ‘اس کا بیٹا عملاً نائب وزیراعظم ہو’دختر نیک اختر پنجاب کی فرماں روا ہو۔ بس چلے تو باقی صوبوں پر بھی اپنے ہی خاندان کے افراد تعینات کئے جائیں ۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسے برداشت کرلے گی۔ آخر پیپلز پارٹی کو بھی تو برداشت کیا ہی جارہا ہے۔

محمود خان اچکزئی ‘مولانا فضل الرحمن ‘اسفندیار ولی سبھی نے پارٹی کی سربراہی وراثت ہی میں تو پائی ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے فرزند گرامی بھی جلوہ افروز ہو چکے ہیں ۔اگر احسن اقبال ‘صدیق الفاروق ‘رضا ربانی’اعتزازاحسن اور حافظ حسین احمد جیسے پڑھے لکھے دانشور سیاستدانوں کو خانوادہ پرستی پر اعتراض نہیں تو ہماشا کس کھیت کی مولی ہیں اس لیے کہ

رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا

رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے

چونکہ غلامی میں رہنا ہے اور غلاموں کے ساتھ رہنا ہے اس لیے “غلام” پر لغت کے حوالے سے بھی نظر ڈال لیں ۔غلام کی جمع غلمان ہے۔ بادشاہوں کے غلام کبھی کبھی خود  بادشاہ بن جاتے تھے مگر اس کا تصور ہماری سیاسی جماعتوں میں نہیں ۔ جو افراد پوری پوری زندگی سیاسی جلسوں میں دریاں بچھاتے رہتے ہیں  وہ کارکن کے کارکن ہی رہتے ہیں ۔

غلاموں کو مختلف ڈیوٹیاں سونپی جاتی تھیں مثلاً ساقی گری’ آبداری’ شربت داری’ جامہ داری’رکاب داری اور اسلحہ داری۔ دربار کا رواج یہ تھا کہ پہلے سال غلاموں کو سواری کی اجازت نہ تھی۔صرف پیدل چل سکتا تھا ‘ایک سال کے بعد حاجب(پروٹوکول وغیرہ کا انچارج)کی اجازت سے گھوڑا مل جاتا۔ تیسرے برس خنجر اپنی پوشاک کے ساتھ باندھ سکتا تھا۔چوتھے سال قبا اور گرز عطا کردئیے جاتے ۔غلام ترقی کرتے کرتے “حاجب” بھی بن جاتا۔ حاجب میں اگر ٹیلنت ہوتا تو پینتیس چالیس سال بعد” امیر”(بلند مرتبہ عہدیدار)بنا دیا  جاتا ۔آخر کار ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے کہ ادبیات میں غلام کا معنی معشوق بھی لیا جاتا ہے۔


Viewing all 1924 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>